غیر مسلم ملک کی شہریت لینا کیسا ہے؟ وہاں اولاد کی تربیت کیسے ہو؟ از مفتی محمد تقی عثمانی
تعارف: اسلامی مرکز واشنگٹن کی طرف سے کئی سوالات پر مشتمل ایک تفصیلی سوال نامہ ’’اسلامی فقہ اکیڈمی‘‘ جدہ کو موصول ہوا تھا ، جو ایسے مسائل پر مشتمل تھا جن کے بارے میں یورپ اورامریکہ میں رہائش پذیر مسلمان تسلی بخش جواب کے طالب رہتے ہیں ، اکیڈمی نے وہ سوال نامہ تحقیقی جواب کے لیے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہ کی خدمت میں ارسال کردیا ، مفتی صاحب موصوف نے ان کا تفصیلی اورتحقیقی جواب عربی میں تحریر فرمایا ،جس کا اردو ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے ۔
سوال نمبر ۱
کسی غیر مسلم ملک مثلا امریکہ یا یورپ کی شہریت اور نیشنلٹی اختیار کرنا کیسا ہے ؟اس لیے کہ جو مسلمان ان ممالک کی شہریت اختیار کرچکے ہیں ، یا حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، ان میں سے بعض حضرات کا تو یہ کہنا ہے کہ انہیں ان کے مسلم ممالک میں بغیر کسی جرم کے سزائیں دی گئیں ، انہیں ظلما جیل میں قید کردیا گیا ، یا ان کی جائیدادوں کا ضبط کرلیا گیا وغیرہ جس کی بنا پر وہ اپنا مسلم ملک چھوڑ کر ایک غیر مسلم ملک کی شہریت اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ۔
اور دوسرے بعض مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ جب ہمارے اپنے اسلامی ملک میں اسلامی قانون اور اسلامی حدود نافذ نہیں ہیں تو پھر اس میں اور ایک غیر مسلم ریاست میں کیا فرق ہے ؟اسلامی احکام کے عدم نفاذ میں تو دونوں برابر ہیں ، جبکہ جس غیر اسلامی ملک کی شہریت ہم نے اختیار کی ہے اس میں ہمارے شخصی حقوق یعنی جان ومال ، عزت وآبرو ، اسلامی ملک کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہیں ،اوران غیر مسلم ممالک میں ہمیں بلا جرم کے جیل کی قید وبند اورسزا کا کوئی ڈر اورخوف نہیں ہے ، جبکہ ایک اسلامی ملک میں قانون کی خلاف ورزی کیے بغیر بھی قید وبند کی سزا کا خوف سوار رہتا ہے ۔
جواب
کسی غیر مسلم ملک میں مستقل رہائش اختیار کرنا اوراس کی قومیت اختیار کرنا اور اس کے ملک کے ایک باشندے اورایک شہری ہونے کی حیثیت سے اس کو اپنا مستقبل مسکن بنالینا ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حکم زمانہ اورحالات کے اختلاف اور رہائش اختیار کرنے والوں کی اغراض ومقاصد کے اختلاف سے مختلف ہوجاتا ہے ،مثلا:
۱-اگر ایک مسلمان کو اس کے وطن میں کسی جرم کے بغیر تکلیف پہنچائی جارہی ہو ، یا اس کو جیل میں ظلما قید کرلیا جائے ، یا اس کی جائیداد ضبط کرلی جائے ،اورکسی غیر مسلم ملک میں رہائش اختیار کرنے کے علاوہ ان مظالم سے بچنے کی اس کے پاس کوئی صورت نہ ہو ، ایسی صورت میں اس شخص کے لیے کسی غیر مسلم ملک میں رہائش اختیار کرنا اوراس ملک کا ایک باشندہ بن کر وہاں رہنا بلا کراہت جائز ہے ، بشرطیکہ:
الف:وہ اس بات کا اطمینان کرلے کہ وہ وہاں جاکر عملی زندگی میں دین کے احکام پر کاربند رہے گا۔
ب:اوروہاں رائج شدہ منکرات وفواحشات سے اپنے کو محفوظ رکھ سکے گا۔
۲-اسی طرح اگر کوئی شخص معاشی مسئلہ سے دوچار ہوجائے اور تلاش بسیار کے باوجود اسے اپنے اسلامی ملک میں معاشی وسائل حاصل نہ ہوں حتی کہ وہ نان جویں کا بھی محتاج ہوجائے ،ان حالات میں اگر اس کو کسی غیر مسلم ملک میں کوئی جائز ملازمت مل جائے ، جس کی بنا پر وہ وہاں رہائش اختیار کرلے تو مذکورہ بالا دوشرائط (جن کا بیان اوپر نمبر ۱ میں گزرا) اس کو وہاں رہائش اختیار کرنا جائز ہے ، اس لیے کہ حلال کمانا بھی دوسرے فرائض کے بعد ایک فرض ہے جس کے لیے شریعت نے کسی مکان اور جگہ کی قید نہیں لگائی ، بلکہ عام اجازت دی ہے کہ جہاں چاہو رزق حلال تلاش کرو ،چنانچہ قرآن کریم کی آیت ہے :
ھو الذی جعل لکم الأرض ذلولا فامشوا فی مناکبھا وکلوا من رزقہ وإلیہ النشور(الملک :۱۵)۔
ترجمہ : وہ ایسی ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو مسخر کردیا ،اب تم اس کے راستوں میں چلو اورخدا کی روزی میں سے کھاؤ اوراسی کے پاس دوبارہ زندہ ہوکر جانا ہے ۔
۳-اسی طرح اگر کوئی شخص کسی غیر مسلم ملک اس نیت سے رہائش اختیار کرے کہ وہ وہاں کے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دے گا اوران کو مسلمان بنائے گا،یا جو مسلمان وہاں مقیم ہیں ان کو شریعت کے صحیح احکام بتائے گا،اوران کو دین اسلام پر جمے رہنے اوراحکام شرعیہ پر عمل کرنے کی ترغیب دے گا،اس نیت سے وہاں رہائش اختیار کرنا ،صرف یہ نہیں کہ جائز ہے بلکہ موجب اجر وثواب ہے ،چنانچہ بہت سے صحابہ اور تابعین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے اسی نیک ارادے اورنیک مقصد کے تحت غیر مسلم ممالک میں رہائش اختیار کی ،اورجو بعد میں ان کے فضائل ومناقب اور محاسن میں شمار ہونے لگی۔
۴-اگر کسی شخص کو اپنے ملک اور شہر میں اس قدر معاشی وسائل حاصل ہیں جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر کے لوگوں کے معیار کے مطابق زندگی گزار سکتا ہے ،لیکن صرف معیار زندگی بلند کرنے کی غرض سے اور خوش حالی اورعیش وعشرت کی زندگی گزارنے کی غرض سے کسی غیر مسلم ملک کی طرف ہجرت کرتا ہے توایسی ہجرت کراہت سے خالی نہیں ، اس لیے کہ اس صورت میں دینی یا دنیاوی ضرورت کے بغیر اپنے آپ کو وہاں پر رائج شدہ فواحشات ومنکرات کے طوفان میں ڈالنے کی مترادف ہے ،اوربلا ضرورت اپنی دینی اوراخلاقی حالت کو خطرہ میں ڈالنا کسی طرح بھی درست نہیں ،اس لیے کہ تجربہ اس پر شاہد ہے کہ جو لوگ صرف عیش وعشرت اورخوش حالی کی زندگی بسر کرنے کے لیے وہاں رہائش اختیار کرتے ہیں ،ان میں دینی حمیت کمزور ہوجاتی ہے ، چنانچہ ایسے لوگ کافرانہ محرکات کے سامنے تیز رفتاری سے پگھل جاتے ہیں ، اسی وجہ سے حدیث شریف میں شدید ضرورت اور تقاضے کے بغیر مشرکین کے ساتھ رہائش کرنے کی ممانعت آئی ہے :
من جامع المشرک وسکن معہ ،فإنہ مثلہ
ترجمہ: جو شخص مشرک کے ساتھ موافقت کرے اوراس کے ساتھ رہائش اختیار کرے وہ اسی کے مثل ہے (ابو داود ، کتاب الضحایا)۔
حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أنا بریئ من کل مسلم یقیم بین أظہر المشرکین ، قالوا یا رسول اللہ ! لم ؟ قال : لا تر اءی نارا ھما
ترجمہ : میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان رہائش اختیار کرے ،صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا : یا رسول اللہ ! اس کی وجہ کیا ہے ؟آپ نے فرمایا:اسلام کی آگ اور کفر کی آگ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتی ، تم یہ امتیاز نہیں کرسکوگے کہ یہ مسلمان کی آگ ہے یا مشرکین کی آگ ہے ۔
امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ :
مختلف اہل علم نے اس قول کی شرح مختلف طریقوں سے کی ہے ، چنانچہ بعض اہل علم کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ :مسلمان اورمشرک حکم کے اعتبار سے برابر نہیں ہوسکتے ،دونوں کے مختلف احکام ہیں ،اور دوسرے اہل علم فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے دار الاسلام اوردارالکفر دونوں کو علیحدہ علیحدہ کردیا ہے ،لہذا کسی مسلمان کے لیے کافروں کے ملک میں ان کے ساتھ رہائش اختیار کرنا جائز نہیں ، اس لیے کہ جب مشرکین اپنی آگ روشن کریں گے ،اوریہ مسلمان ان کے ساتھ سکونت اختیار کیے ہوئے ہوگا تو دیکھنے سے یہی خیال کریں گے یہ بھی انہیں میں سے ہے ،اورعلماء کی اس تشریح سے یہ بھی ظاہر ہورہا ہے کہ اگر کوئی مسلمان تجارت کی غرض سے بھی دارالکفر جائے تو اس کے لیے وہاں پر ضرورت سے زیادہ قیام کرنا مکروہ ہے (معالم السنن،للخطابی ،ص: ۴۳۰،ج:۳)۔
اور مراسیل ابو داود عن المکحول میں روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اپنی اولاد کو مشرکین کے درمیان مت چھوڑوا (تہذیب السنن ،لابن قیم ، ص:۴۳۷،ج:۳)۔
اسی وجہ سے فقہاء فرماتے ہیں کہ صرف ملازمت کی غرض سے کسی مسلمان کا دار الحرب میں رہائش اختیار کرنا ،اوران کی تعداد میں اضافہ کا سبب بننا ایسا فعل ہے جس سے اس کی عدالت مجروح ہوتی ہے (دیکھیے ! تکملہ رد المحتار، ص:۱۰۱، ج:۱)۔
۵-پانچویں صورت یہ ہے کہ کوئی شخص سوسائٹی میں معزز بننے کے لیے اوردوسرے مسلمانوں پر اپنی بڑائی کے اظہار کے لیے غیر مسلم ممالک میں رہائش اختیار کرتا ہے ،یا دار الکفرکی شہریت اور قومیت کو دارالاسلام کی قومیت پر فوقیت دیتے ہوئے اوراس کو افضل اور برتر سمجھتے ہوئے ان کی قومیت اختیار کرتا ہے ،یا اپنی پوری عملی زندگی میں بود وباش میں ان کا طرز اختیار کرکے ظاہری زندگی میں ان کی مشابہت اختیار کرنے کے لیے اوران جیسا بننے کے لیے وہاں رہائش اختیار کرتا ہے ، ان تمام مقاصد کے لیے وہاں رہائش اختیار کرنا مطلقا حرام ہے ، جس کی حرمت محتاج دلیل نہیں ۔
سوال نمبر ۲
جو مسلمان امریکہ اوریورپ وغیرہ جیسے غیر اسلامی ممالک میں رہائش پذیر ہیں ان کی اولاد کا اس ماحول میں پرورش پانے میں اگرچہ کچھ فوائد بھی ہیں ،لیکن اس کے مقابلے میں بہت سی خرابیاں اورخطرات بھی ہیں ، خاص کر وہاں کے غیر مسلم یہود ونصاری کی اولاد کے ساتھ میل جول کے نتیجے میں ان کی عادات واخلاق اختیار کرنے کا قوی احتمال موجود ہے ، اوریہ احتمال اس وقت اور زیادہ قوی ہوجاتا ہے جب ان بچوں کے والدین ان کی اخلاقی نگرانی بے اعتنائی اور لاپرواہی برتیں ،یا ان بچوں کے والدین میں سے کسی ایک کا یا دونوں کا انتقال ہوچکا ہو۔
اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا خرابی کی وجہ سے ان غیر مسلم ممالک کی طرف ہجرت اوران کی قومیت اختیار کرنے کے مسئلہ پر کچھ فرق واقع ہوگا؟ جبکہ دوسری طرف وہاں رہائش پذیر مسلمانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری اولاد کو ان مسلم ممالک میں رہائش باقی رکھنے میں وہاں پر موجود کمیونسٹ اور لادینی جماعتوں کے ساتھ میل جول سے ان کے کافر ہوجانے کا خطرہ بھی لاحق ہے ،خاص کر اگر ان لادینی جماعتوں اوران کے ملحدانہ افکار اورخیالات کی سرپرستی خود اسلامی حکومت کررہی ہو ،اوران خیالات وافکار کو نصاب تعلیم میں داخل کرکے عوام کے ذہنوں کو خراب کررہی ہو،اورجو شخص ان خیالات کو قبول کرنے سے انکار کرے اس کو قید وبند کی سزا دے رہی ہو ، ایسی صورت میں ایک اسلامی ملک میں رہائش اختیار کرنے سے ہماری اولاد کے عقائد کے خراب ہونے اوردین اسلام سے گمراہ ہونے کا احتمال اور قوی ہوجاتا ہے ، ان حالات کی وجہ سے مذکورہ بالا مسئلہ میں کوئی فرق آئے گا؟
جواب
ایک غیر مسلم ملک میں مسلمان اولاد کی اصلاح وتربیت کا مسئلہ بہرحال ایک سنگین اورنازک مسئلہ ہے ، جن صورتوں میں وہائش اختیار کرنا مکروہ یا حرام ہے (جس کی تفصیل ہم نے سوال نمبر ایک کے جواب میں تفصیل سے بیان کی ) ان صورتوں میں تو وہاں رہائش اختیار کرنے سے بالکل پرہیز کرنا چاہیے ۔
البتہ جن صورتوں میں وہاں رہائش اختیار کرنا بلا کراہت جائز ہے ، ان میں چونکہ وہاں رہائش اختیار کرنے پر ایک واقعی ضرورت داعی ہے ،اس لیے اس صورت میں اس شخص کو چاہیے کہ اپنی اولاد کی تربیت کی طرف خصوصی توجہ دے اورجو مسلمان وہاں پر مقیم ہیں ان کو چاہیے کہ وہ وہاں ایسی تربیتی فضا اور ایک پاکیزہ ماحول قائم کریں ، جس میں آنے والے نئے مسلمان اپنے اوراپنی اولاد کے عقائد اوراعمال واخلاق کی بہتر طور پر نگہداشت اورحفاظت کرسکیں، واللہ اعلم بالصواب۔
ماخوذاز:ماہنامہ البلاغ ، جامعہ دارالعلوم کراچی، شمارہ :رجب ۱۴۱۰ھ – فروری ۱۹۹۰ء
یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں: