فلسفہ شاہ ولی اللہؒ کے شارح: مولانا عبید اللہ سندھیؒ و پروفیسر محمد سرورؒ کے افکار، از مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ
انتخاب وترتیب: مفتی عمر انور بدخشانی
تعارف: حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی علیہ الرحمۃ کی کتاب ’’تاویل الاحادیث‘‘ عربی اور اردو دونوں پر ماہنامہ بینات (جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی) میں علیحدہ علیحدہ تبصرہ فرمایا ، شاہ صاحبؒ کی کتاب انبیاء کرام کے قصص و واقعات کے اسباب وعلل اور اسرار ورموز کے موضوع پر ہے، حضرت لدھیانوی شہیدؒ کے تحریر کردہ تبصرہ سے منتخب حصہ یہاں قارئین کے لیے پیش کیا جارہا ہے ۔
قرآنی احکام وواقعات کی حکمت اوراسرار ورموز – بنیادی شرائط
’’تاویل الاحادیث ‘‘کا موضوع انبیائے کرام علیہم السلام کے ان قصص وواقعات کے اسباب وعلل اوراسرار ورموز سے بحث کرتا ہے جو قرآن مجید میں ذکر کیے ہیں ، اہل حق کے ہاں اسرار ورموز کا جو صحیح مقام ہے اس کے لیے ذیل کے نکات پیش نظر رہنے چاہئیں:
الف: اسرار ورموز اورمعارف وحکم کا مدار یا تو محض ظن وتخمین پر ہے ، یا کشف پر، اوریہ دونوں حجت شرعیہ نہیں ،بلکہ خود ان کا قواعد شرعیہ کے مطابق ہونا شرط ہے ۔
ب: اسرار ورموز کی زبان اکثر گنگ واقع ہوئی ہے ، اوراسے اشارات واستعارات سے کام لینا پڑا ہے ،اور استعاراتی بیان کبھی الجھن سے خالی نہیں ہوتا۔
ج: ان اسرار کو صحیح سمجھنے کی استعداد بھی ہر شخص میں نہیں ہوتی ، بلکہ یہ ان خواص کا کام ہے جو نہ صرف متعلقہ علوم پر حاوی ہوں ،بلکہ طہارت قلب اورصفائے باطن کے بلند مقام پر فائز ہوں ،اوراصول شرعیہ پر ان کی گہری نظرہو۔
د: حق تعالی کی رضامندی وناراضی اورآخرت کی جزا وسزا کا مدار ان چیزوں پر نہیں ، بلکہ رسول اللہ ﷺ والے اعمال پر ہے ، رہے رموز واسرار ! تو یہ شریعت کے مقاصد میں سے نہیں ، ہاں ! کسی کو راہ چلتے مل جائیں تو نعمت غیر مترقبہ ہے ، مگر رضائے الہی میں انہیں ذرا بھی دخل نہیں ۔
ان امور کو ذہن میں رکھ کر ’’تاویل الاحادیث‘‘ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں بعض مقامات خود تاویل کے محتاج ہیں ، مثلا:
۱-شاہ صاحبؒ نے کئی جگہ ستاروں کی تاثیر پر اپنے اسرار ورموز کو مبنی کیا ہے ، جب تک ہم اس کی تاویل نہ کریں یہ قواعد شرعیہ پر منطبق نہیں ۔
۲-سجود ملائکہ کی بحث میں یہ ذکر فرمایا ہے کہ :’’عنصری ملائکہ کو بنفسہ اور ملأ اعلی کے ملائکہ کو اپنے اشباہ اورقالبوں سے سجدہ کرنے کا حکم ہوا‘‘، جب تک اس کا صحیح مطلب بیان نہ کیا جائے تب تک یہ قواعد شرعیہ کے خلاف ایک ’’مجازفہ‘‘ معلوم ہوگا۔
۳-انبیائے کرام علیہم السلام اوران کی امتوں کو جتنے حالات وواقعات پیش آئے ، شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں :’’یہ سب خوابیں ہیں اوران کے اصول اشباہ ہیں ‘‘ ، صحیح توجیہ کے بغیر یہ محض ’’سفسطہ‘‘ نظر آئے گا۔
شاہ ولی اللہ ؒ کی ترجمانی کے مدعی
اس نوعیت کے بیسوں مقام قابل تاویل ہیں ،اوران کی صحیح تاویل ہوسکتی ہے ، مگر یہ عجیب حادثہ ہے کہ شاہ صاحبؒ کے ان دقیق علوم کی ترجمانی کے مدعی بیشتر وہ حضرات ہیں جنہیں نہ تو قواعد شرعیہ پر عبور ہے ،نہ حضرات صوفیہ کی اصطلاحات سے مس ہے ، نہ علم الاعتبار تک ان کی رسائی ہے ، نہ ان کی دینی فہم کجی سے محفوظ ہے :’’اذا وسد الامر الی غیر اہلہ فانتظر الساعۃ‘‘۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ زیغ آلود نظریات کو ’’فلسفہ ولی اللہی‘‘ کے نام سے پیش کیا جاتا ہے ، اوراس کے لیے شاہ صاحبؒ کے حوالے بڑی خوب صورتی سےدیے جاتے ہیں ، اس زیغ کی دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں :
پروفیسر محمد سرور صاحب کی رنگ آمیزی
۱-شاہ صاحبؒ نے معجزہ شق القمر کی ایک مادی توجیہ علم الاثر اور حکمت طبیعی کے کسی عالم کے حوالہ سے نقل کی ہے ، جناب محمد سرور صاحب نے بڑی رنگ آمیزی سے اسے نمایاں کرنے کے لیے حاشیہ میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ :’’اس (علم الاثر اورحکمت طبیعی کے عالم ) سے مراد غالبا شاہ ولی اللہ صاحبؒ خود ہیں ‘‘، مگر خود شاہ صاحبؒ نے اس پر جو تبصرہ کیا ہے اس سے سکوت مصلحت آمیز اختیار کیا ، شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں :
’’میں کہتا ہوں :میں نے تویہ قول محض احتمال وامکان کے طور پر ذکر کیا ہے ، ورنہ اللہ کی قدرت بڑی وسیع ہے ، والعلم عند اللہ تعالی ، تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ اس مسئلہ میں اوراس کے ہم مثل متشابہات میں جیسے خدا کے لیے ہاتھ پیر کا ہونا ، یا جیسے قیامت کے دوسرے حالات ، ان میں راہ راست یہ ہے کہ ان کے ظاہر کو دیکھاجائے ،اور وجود کی کیفیت میں مشغول نہ ہوا جائے ، بہرحال یہ اعتقاد رکھے کہ جو کچھ اللہ ورسول نے فرمایا وہ حق ہے ،اوریہ نہ کہے کہ اللہ نے یہ ارادہ فرمایا ،اوریہ ارادہ نہیں فرمایا ، چنانچہ تم دیکھو گے کہ نبی کریم ﷺ ،آپ کے صحابہ کرام اوران کے تابعین ،یہ سب اس بحث میں نہیں پڑتے تھے ‘‘۔
بعد ازاں معتزلہ کی تاویلات اوران کے جواب میں اہل سنت کی تاویلات پر شاہ صاحبؒ نے شدید نکیر کی ہے ، اوراسے ’’فلاسفہ سے چوری‘‘ قرار دیا ہے ، اس پوری بحث کو پڑھنے کے بعد ہر سلیم الفطرت یہی سمجھے گا کہ شق القمر کی مادی توجیہ اوراس قسم کی دیگر نکتہ آفرینیوں کو شاہ صاحبؒ راہ راست سے تجاوز قرار دیتے ہیں ۔
۲-ایک جگہ حضرت ایوب علیہ السلام کے اپنی اہلیہ محترمہ کو سو درے مارنے اور حق تعالی کی جانب سے اس میں آسانی پیدا کردینے کی توجیہ شاہ صاحبؒ نے جو کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ :بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ملأ اعلی میں جو فیصلہ تجویز ہوا ،اس میں حرج اورتکلیف ہوتی ہے ، حق تعالی کی مخصوص عنایت اورارادہ -جو اس وقت کے مقبول بندوں کے شامل حال ہوتی ہے-اس کے بجائے کوئی آسان صورت نکال دیتی ہے اورایک پہلو کو چھوڑ کر دوسرے پہلو پر اکتفا کرلیا جاتا ہے ۔
شاہ صاحبؒ کا صحیح مطلب سمجھے بغیر جناب سرور صاحب اس پر گرہ لگاتے ہیں :’’یہ عبارت بڑی مبہم ہے ، ہمارے نزدیک اس میں شاہ صاحبؒ نے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب شرائع سے حرج اورتکلیف واقع ہو تو ملأ اعلی کی جانب سے ان میں تغیر وتبدل کیا جاناتقاضائے عدل ہے ‘‘۔
(ملأاعلی سے مراد غالبا اعلی سطح کا بااختیار ادارہ ہے )جناب سرور صاحب کو نہ تو یہ معلوم ہے کہ شریعت مطہرہ میں عزائم ورخص کے دو باب پہلے سے موجود ہیں ، اس لیے یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ جن شرائع کا بندوں کو مکلف کیا ہے ، ان میں ایسے حرج وتکلیف کی صورت بھی کبھی پیش آسکتی ہے ، جس کی وجہ سے بقول ان کے ملأ اعلی کی جانب سے تغیر وتبدل کی ضرورت پیش آئے ، نہ انہوں نے اس ’’مبہم عبارت‘‘ کی تشریح کے لیے شاہ صاحبؒ کی دوسری تصریحات کو سامنے رکھنے کی ضرورت محسوس کی ہے ، شاہ صاحب ؒ شریعت نبویہ پر بحث کرتے ہوئے اسی کتاب میں لکھتے ہیں :
’’مبہم احکام منضبط ہوئے ، مقادیر کی تعیین ہوئی ، تاکہ لوگوں کو ایک ایسے باضابطہ امر کا مکلف بنایاجائے جسے تحریف (تغیر وتبدل) لا حق نہ ہوسکے اوراس میں تسلسل خلل انداز نہ ہو‘‘۔
بہرحال شاہ صاحب ؒ کی یہ کتاب ان علوم مشکلہ پر حاوی ہے جو عام لوگوں کی گرفت سے خارج ہیں ، فضلا عن الزائغین!
ماخوذ از :نقد ونظر،ازحضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہیدؒ ،جلد اول ، صفحہ ۲۴۳-۲۴۵،بحوالہ ماہنامہ بینات ،کراچی ، صفر۱۳۹۰ھ ۔
مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے نظریات اور ان کے غیر معروف اورغیر مطبو ع حوالے
کتاب کے مقدمہ اور حاشیہ میں متعدد جگہ حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ ’’شارح فلسفہ ولی اللّٰہی‘‘قرار دے کر بعض غیر مانوس نظریات شاہ (ولی اللہ دہلوی) صاحبؒ کی طرف منسوب کیے گئے ہیں۔
مولانا سندھیؒ ہمارے اکابر کی جگہ میں ہیں ، ہم ان کی ملی اورسیاسی خدمات کے معترف ہیں ، لیکن ’’شارح فلسفہ ولی اللہی‘‘کا لقب تنہا مولانا سندھیؒ پر چسپاں کرنا بڑا ہی عجیب نظر آتا ہے ، شاہ صاحبؒ کے علوم کی تشریح ان کے صاحب زادگان سے آج تک سلسلہ بسلسلہ منتقل ہوتی چلی آتی ہے ، اورحجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ سے شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیراحمدعثمانیؒ تک سبھی شاہ صاحبؒ کے علوم کو پڑھتے پڑھاتے چلے آئے ہیں ، اور آ ج کے اکابردیوبند ولی اللہی مسلک ومشرب ہی کے حامل ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ یہ تمام حضرات فلسفہ ولی اللہی کی وہ شرح کیوں نہیں کرتے جو مولانا سندھیؒ کی غیر معروف اور غیر مطبوع کتابوں کے حوالے سے پیش کی جاتی ہے ؟
نیز یہ کہ فلسفہ ولی اللہی کی یہ غیر مانوس قسم شرح مولانا سندھیؒ نے کہاں سے حاصل کی تھیں ؟ اوراس شرح کا راوی مولانا سندھیؒ کے علاوہ دوسرا کون ہے ؟
مولاناسندھی مرحوم مسلسل سیاسی ناکامیوں کی وجہ سے ذہنی اختلاط میں مبتلا ہوگئے تھے ، اوران کی جانب سے بعض ایسے نظریات کا اظہار ہوا تھا ، جن کی تردید مولانا حسین احمد مدنیؒ اورمولانا مناظر احسن گیلانیؒ جیسے اکابر کو کرنی پڑی تھی ، اس لیے ہم یہ وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ شاہ صاحب کے علوم کی وہ شرح وتفسیر قطعا ناقابل قبول ہے جو تنہا مولانا سندھیؒ کے واسطے سے کی جائے ۔
جو لوگ غلط قسم کے نظریات مولانا سندھیؒ یا خود شاہ صاحبؒ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، وہ ان دونوں بزرگوں کے علوم کی خدمت نہیں کررہے ، بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ وہ ان دونوں بزرگوں کی جو وقعت عالم اسلام میں پائی جاتی ہے ،شایداسے بھی صدمہ پہنچائیں گے ، ہم مولانا غلام مصطفی قاسمی کی خدمت میں التماس کریں گے کہ وہ معروضہ بالا امور کی اصطلاح کی طرف خاص توجہ فرمائیں۔
ان أرید إلا الإصلاح مااستطعت وماتوفیقی إلا باللہ۔
ماخوذ از: نقد ونظر ،ازحضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہیدؒ ،جلد اول ، صفحہ ۲۴۰-۲۴۱،بحوالہ ماہنامہ بینات ،کراچی ، ذوالعقدہ ۱۳۸۶ھ ۔