وحدۃ الوجود: منصور حلاج اور دیگر صوفیاء کا عقیدہ توحید ، از مولانا ظفر احمد عثمانیؒ
تعارف: پیش نظر مضمون حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ نے اپنی مشہور کتاب ’’القول المنصور فی ابن المنصور‘‘ (سیرت حسین بن منصور حلاج) کے ابتدائیہ کے طور پر قلم بند فرمایا، موضوع کی اہمیت کے پیش نظر قارئین کی خدمت میں یہاں پیش کیا جارہا ہے، مولانا ظفراحمد عثمانی رحمہ اللہ اس مضمون کے متعلق تحریر فرماتے ہیں: جس کو اس سے زیادہ تحقیق کا شوق ہو وہ حضرت حکیم الامت دامت برکاتہم کا رسالہ ’’ظہور العدم بنور القدم ‘‘ کامطالعہ کرے ، جو رسالہ ’’النور‘‘ جلد نمبر ۹ ،نمبر۲ بابت جمادی الثانیہ ۱۳۴۷ھ میں شائع ہوا ہے ، اس میں ہر پہلو سے مسئلہ وحدۃ الوجود کی پوری تحقیق کی گئی اورتمام اشکالات کو حل کردیا گیا ہے ، جس کا خلاصہ سہل عبارت میں یہ آپ کے سامنے ہے ، حضرت تھانویؒ نے اس خلاصہ کو ملاحظہ فرماکر اس کا نام بھی تجویز فرمایا اور کچھ اضافہ بھی فرمایا ،اوراخیر میں تحریر فرمایا :’’ماشاء اللہ !گویا رسالہ کی سہل تلخیص کردی ہے ،جزاکم اللہ ‘‘۔
تنبیہ: تحقیق مسئلہ وحدۃ الوجود، ملقب بہ طریق السداد فی اثبات الوحدۃ ونفی الاتحاد
مسئلہ وحدۃ الوجود
بعض احباب کا مشورہ ہے کہ اس رسالہ میں مسئلہ وحدۃ الوجود کی حقیقت بھی واضح کردی جائے جس کے غلط عنوان سے مخالفین اسلام نے ایک شور برپا کیا ،اور عوام کو بہت بہکایا ہے ، خصوصیت کےس اتھ ابن منصور حلاج کو اس باب میں زیادہ بدنام کیا جاتا ہے ،کبھی کہا جاتا ہے کہ وہ خالق ومخلوق میں اتحاد مانتے ہیں ،کبھی کہا جاتا ہے کہ وہ مخلوق میں خدا کے حلول کے قائل ہیں ، اوراس مغالطہ کا اصل منشا مسئلہ وحدۃ الوجود کی حقیقت سے بے خبری ہے ،اس لیے مختصرا عرض ہے کہ یہ مسئلہ نہ تو تصوف کے مقاصد میں سے ہے ، نہ مقامات سلوک میں اس کا شمار ہے ، چنانچہ سلف میں اس کا مفصل تذکرہ تحریرا یا تقریرا نہ تھا ، صرف ابہام کے درجہ میں کہیں کہیں اس کے آثار کا ظہور ہوجاتا تھا ، جس کا حاصل یہ ہے کہ معنون (تشریح وتفصیل کا بیان تو ) تھا ، عنوان نہ تھا ، پھر خلف (بعد)میں اس کا عنوان ظاہر ہوا،اورمختلف تعبیرات سے ظاہر ہوا، اسی لیے بعض لوگ غلطی میں پڑگئے اوردوسروں کو مغالطہ دینے لگے ۔
صوفیاء کا عقیدہ توحید
اس مسئلہ کی حقیقت معلوم کرنے سے پہلے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اسلام کے تمام فرقے اللہ تعالی کی وحدانیت پر کامل اتفاق رکھتے ہیں ، اسلام میں توحید کی جیسی سادہ ، بے تکلف اورصاف تعلیم ہے اس کی نظیر کوئی مذہب اس وقت پیش نہیں کرسکتا ، محققین کے نزدیک اسلام کی سرعت اشاعت کا بڑا سبب یہی ہے کہ توحید کی تعلیم جیسی اسلام میں ہے کسی مذہب میں نہیں ، خصوصیت کے ساتھ صوفیاء کرام سب سے زیادہ عقیدہ توحید کے علم بردار ہیں ، کیونکہ دوسروں کے نزدیک تو یہ مسئلہ محض عقلی ونقلی دلیل ہے ، مگرصوفیا کے نزدیک کشفی اور بدیہی بھی ہے ، یہی وجہ ہے کہ صوفیہ کے کلام میں توحید کا ذکر دوسروں سے زیادہ ہے ، کیونکہ اعتقاد سے گذر کر ذوقیات اورکشفیات میں داخل ہوکر توحید ان کا حال بن گئی ہے ، اس لیے صوفیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت زیادہ ہوئی ،اورلوگ ان کی برکت سے جوق در جوق حلقہ بگوش توحید ہوگئے ۔
پس ان کی طرف کسی ایسی بات کی نسبت کرنا جو توحید اسلام کے خلاف یا کسی درجے میں بھی اس کے منافی ہو بہت بڑا ظلم ہے ، جس کا منشا اس کے سوا کچھ نہیں کہ حضرات صوفیہ نے غلبہ حال میں جن مختلف عنوانات سے اپنے ذوق کو تعبیر کرنا چاہا بعض لوگوں نے اس کے سمجھنے میں غلطی کی ،اور غلطی کے ازالہ کا جو طریقہ تھا -ان کے اس کلام کی طرف رجوع کیا جاتا جو صحیح حالت میں انہوںنے فرمایا ہے- اس سے کام نہیں لیا گیا۔
ابن منصورحلاج کا عقیدہ توحید
چنانچہ ابن منصور حلاج کے بھی ایسے ہی عنوانات سے دھوکا کھایاگیا ہے جو عاشقانہ اورغلبہ حال میں ان سے صادر ہوئے ،اس کلام کو نہیں دیکھا گیا جس میں انہوں نے اپنے عقیدہ توحید کو محققانہ طرز سے بیان فرمایا ہے ، ملفوظات ابن منصور کے باب میں ہم نے سب سے پہلے ان کا عقیدہ توحید ہی بیان کیا ہے ،جس سے اچھی طرح یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ ابن منصور حلاج کامل موحد اور مسئلہ توحید کے بڑے محقق تھے ، وہ صاف فرماتے ہیں :
’’باینھم بقدمہ کما باینوہ بحدوثھم‘‘۔
ترجمہ:اللہ تعالی اپنی صفت قدم کے سبب تمام ممکنات سے جدا ہے جیسا ممکنات اپنے حدوث کے سبب اس سے الگ ہیں ۔
کیسی صاف تصریح ہے کہ خالق جل وعلا کو مخلوق سے نہ اتحاد کا تعلق ہے نہ حلول کا ، اس کے بعد فرماتے ہیں:
’’معرفتہ توحیدہ وتوحیدہ تمیزہ من خلقہ‘‘۔
ترجمہ :اللہ تعالی کی معرفت اس کو واحد سمجھنا ،اورتوحید یہ ہے کہ مخلوق سے اس کو ممتاز اورالگ جانے۔
پس جو لوگ صوفیا کو یا ان میں سے ابن منصورحلاج کو یہ کہہ کر بدنام کرتے ہیں کہ وہ خالق ومخلوق میں اتحاد یا حلول کے قائل ہیں یقینا وہ ان پر افترا کرتے ہیں ۔
وحدۃ الوجود – وحدۃ الشہود
اب سمجھیے کہ حکمائے اسلام اور صوفیائے کرام نے جہاں ا للہ تعالی کی دوسری صفات علم وقدرت وکلام وحیات وتکوین وغیرہ میں اجمالی گفتگو کی ہے تاکہ لوگوں کو فی الجملہ ان صفات کی معرفت حاصل ہوجائے ،اسی طرح صفت وجود میں بھی اجمالی گفتگو کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
اللہ تعالی کا صفت وجود سے متصف ہونا تو جملہ اہل ادیان کے نزدیک مسلم ہے ،اوراس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ ممکنات کو اللہ تعالی نے پیدا فرمایاہے ، جس سے بظاہر وہ بھی صفت وجود کے ساتھ موصوف نظر آتے ہیں ،اوراس میں بھی شک نہیں کہ اللہ تعالی کا وجود واجب (ناقابل زوال) ابدی وازلی ہے ، اورممکنات کا وجود حادث اور موجد کا محتاج ہے ۔
اب تحقیق طلب یہ بات ہے کہ ممکنات کا وجود مستقل وجود ہے یا غیر مستقل ؟ مستقل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ حدوث وبقا میں موجد کا محتاج نہ ہو ، کہ یہ تو تنہا وجود حق کی شان ہے ،بلکہ استقلال سے مراد یہ ہے کہ یہ ’’وجودِ حادث ‘‘نہ کسی وجود کا عین ہو نہ اس کا ظل، پس علمائے ظاہر تو فرماتے ہیں کہ ممکنات کا وجود بھی بایں معنی مستقل وجود ہے ،اگرچہ ضعیف ہے کہ حدوث وبقا میں موجد کا محتاج ہے ،اورصوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ ممکنات کے لیے مستقل وجود نہیں ،’’وجود مستقل ‘‘بس ایک ہی ہے ، یعنی وجود حق ،اورممکنات کا وجود یا ’’خیالی اور وہمی ‘‘ہے ،جیسا شیخ اکبر ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ،اور’’وحدۃ الوجود‘‘ اسی کا عنوان ہے ، یا ’’وجود حق کا ظل اور پرتو ‘‘ہے ، جیسا کہ مجدد الف ثانی قدس سرہ کا قول ہے جس کو’’ وحدۃ الشہود ‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
مگر شیخ اکبر کے کلام میں وجود عالم کے خیالی ہونے سے خیالی غیر واقعی مراد نہیں ، بلکہ خیالی واقعی مراد ہے ، کیونکہ خیالی اشیاء میں بعض تو من گھڑت ہوتی ہیں جن کا کوئی منشا خارج میں نہیں ہوتا ، بلکہ ان کا مدار محض ہمارے خیال پر ہوتا ہے ، خیال کے قطع ہوتے ہی وہ بھی معدوم ہوجاتی ہیں ، اس قسم کو ’’موجود فرضی‘‘کہا جاتا ہے ، اوربعض واقعی ہیں ، جن کا منشا خارج میں ہوتا ہے ،کہ خیال قطع کرنے سے وہ معدوم نہیں ہوجاتیں ، اس قسم کو اصطلاح میں ’’موجود انتزاعی‘‘ کہتے ہیں ، مثلا انسان کو گدھا فرض کرنا ’’خیالی غیر واقعی‘‘ ہے ،اور اس کو اوپر نیچے مقدم مؤخر کہنا ’’خیالی واقعی‘‘ہے ،کیونکہ اگرچہ فوقیت تحتیت ، تقدم وتاخر کا خارج میں مستقل وجود نہیں ، مگراس کا منشا انسان میں موجود ہے ،اسی طرح تمام موجودات انتزاعیہ کو سمجھ لیا جاے کہ ان کے لیے خود کوئی مستقل وجود نہیں ،مگر ان کو’’ خیالی غیر واقعی‘‘ نہیں کہاجاسکتا ،بلکہ ’’خیالی واقعی‘‘ کہا جائے گا ، حتی کہ اگر کوئی کسی مقدم کو مقدم نہ کہے فوق کو فوق نہ کہے تب بھی مقدم مقدم ہوگا اور فوق فوق ہوگا۔
پس شیخ اکبر کا وجود عالم کو ’’خیالی ‘‘ کہنا اس کے غیر واقعی ہونے کو مستلزم نہیں ،اور’’واقعی ‘‘کہنا وجود مستقل کو مستلزم نہیں ،اس کی کنہ اورحقیقت تو محض ذوق اورکشفی ہے ،لیکن سمجھنے کے لیے ’’موجود انتزاعی ‘‘ کو اس کی نظیر کہا جاسکتا ہے ، اورخیالی واقعی کا موجود انتزاعی میں منحصر ہونا کسی دلیل سے ثابت نہیں ، بہت ممکن ہے کہ جن چیزوں کو ہم نے وجودِ مستقل سے موصوف سمجھا ہے دوسرے کو اس کا وجود اسی درجہ میں منکشف ہوا ہو جس درجہ میں موجودِ انتزاعی کو ہم نے سمجھا ہے ،یااس سے کسی قدر زیادہ ہو مگر ’’وجود مستقل ‘‘کہلانے کا مستحق نہ ہو ، اورخیالی امور کے درجات میں تفاوت ہوسکتا ہے جو فاعل مختار کے اختیار میں ہے ، پس شیخ کے قول :
’’ماشمت الممکنات رائحۃ الوجود‘‘۔
ترجمہ:ممکنات نے وجود کی بو بھی نہیں پائی ۔
سے تکالیف شرعیہ وثواب وعقاب کی نفی لازم نہیں آتی ، نہ اس سے عالم کا معدوم محض ہونا لازم آتا ہے ، کیونکہ ان کی مراد وجود مستقل کی نفی ، نہ مطلق وجود کی ، اب اہل انصاف غور فرمائیں کہ صوفیائے کرام کی توحید کس قدر کامل ہے کہ وہ ممکنات کے وجود کو مستقل وجود نہیں کہتے ،بلکہ برائے نام وجود کہتے ہیں :
ہمہ ہرچہ ہستند ازاں کمتراند
کہ با ہستیش نام ہستی برند
جس کاذوق یہ ہوگا کہ وہ ممکنات پر تاثیر ونفع وضررکے اعتبار سے اصلا نظر نہ کرے گا، بلکہ اس کی تمام تر توجہ حضرت حق تعالی کی طرف ہوگی ۔
وجود باری کی تعبیر میں علماء وصوفیاء کا نظریہ
اس میں شک نہیں کہ علمائے ظاہر کا قول بظاہر نصوص شرعیہ کے موافق ہے ، مگر صوفیائے کرام کا قول بھی کسی نص کے خلاف صراحۃً نہیں ،کیونکہ شریعت نے ممکنات کے وجود کا کوئی درجہ متعین نہیں کیا ، اگر کسی کی سمجھ میں صوفیاء کا قول نہ آئے تو اس کو علمائے ظاہر کے قول پر اعتقاد رکھنا چاہیے مگر صوفیاء سے مزاحمت بھی نہ کرنا چاہیے ، کیونکہ یہ ان کا کشف اور ذوق ہے جواگرچہ حجت نہیں ، مگر جب تک نصوص شرعیہ کے خلاف نہ ہو اس کو غلط بھی نہیں کہا جاسکتا ، بالخصوص جبکہ اس کا منشا توحید کی تکمیل ہے ، نہ تنقیص ، اوراگر کسی کی عقل میں اس کا کشفی اورذوقی ہونا بھی نہ آئے تو وہ یہ سمجھ لے کہ وحدۃ الوجود ان حضرات کی خاص حالت اورکیفیت کا نام ہے جو غلبہ عشق ومحبت الہیہ سے ان پر وارد ہوتی ہے ،جیسا عشاق مجازی پر بھی اس قسم کی کیفیت بعض دفعہ طاری ہوجاتی ہےکہ محبوب کے سوا کسی چیز پر التفات نہیں ہوتا، سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے ہر وقت اسی کا دھیان لگا رہتا ہے ، اسی طرح حضرات صوفیاء کو غلبہ محبت وعشق اورغلبہ استحضار محبوب کی وجہ سے حضرت حق کے سوا کوئی بھی موجود معلوم نہیں ہوتا ، قلب پر سلطان حق کا ایسا غلبہ ہوتا ہے کہ اس کے سوا ہر چیز حتی کہ خود اپنی ذات بھی معدوم نظر آتی ہے :
چوسلطاں عزت علم برکشد
جہاں سربہ جیب عدم درکشد
باوجودت زمین آواز نیاید کہ منم
صوفیاء کے کلام کو سمجھنے کا طریقہ
اب اگر کسی مغلوب الحال کے شاعرانہ کلام یا والہانہ عنوان سے کسی ایسے مضمون کا ایہام ہوتا ہو جو بظاہر توحید اسلامی کے خلاف ہے تو اس کے سمجھنے کے لیے کسی محقق عارف سے رجوع کرنا چاہیے ، جواصطلاحات صوفیہ سے واقف ہو ، خود اپنی رائے سے کوئی مطلب متعین نہ کرنا چاہیے ، مولانا رومیؒ فرماتے ہیں:
’’اصطلاحاتیست مرا بدال را‘‘
واللہ الحمد علی ما علم وفہم وھو الأعز والأکرم