میری علمی ومطالعاتی زندگی: مولانا محمد انور بدخشانی

تعارف: برقی تیزرفتاری کے اس دور میں کتاب دوستی اور مطالعہ کا ذوق وشوق پروان چڑھانے کے لیے مولانا ابن الحسن عباسی رحمہ اللہ نے اپنی زیرنگرانی شائع ہونے والے مجلہ’’ النخیل‘‘کا مطالعہ نمبر شائع کرنے کا اہتمام کیا،چنانچہ اس سلسلہ میں برصغیر بلکہ عالم اسلام کی اسی (۸۰)سے زائد ممتازاور نمایاں علمی ،تحقیقی ومطالعاتی ذوق کی حامل شخصیات کی خدمت میں سوالنامہ بھیجا گیا،برصغیر کی معروف دینی درسگاہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں تقریبا پچاس سال سے مسند تدریس پر جلوہ افروز حضرت مولانا محمد انور بدخشانی صاحب زید مجدہم کو بھی یہ موصول ہوا ،مولانا بدخشانی صاحب نے اس سوالنامہ کا تفصیلی جواب ریکارڈ کرایا جسے تحریری شکل دے دی گئی تو ایک مختصر آپ بیتی کی سی صورت اختیار کرگیا، ابھی حال ہی میں یہ مجموعہ ’’یادگارزمانہ شخصیات کے احوال مطالعہ ‘‘کے عنوان سے شائع بھی ہوگیاہے، افادیت کے پیش نظر قارئین کی خدمت میں یہاں مولانا انور بدخشانی صاحب کا جواب پیش کیا جارہا ہے ۔

یادگار زمانہ شخصیات کا حوال مطالعہ

جواب سوال نامہ برائے اشاعت خاص مجلہ النخیل مطالعہ نمبر

از:حضرت مولانا محمد انور بدخشانی
(استاذ حدیث جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی)

سوال اول: ذوقِ مطالعہ کا آغاز ، نشوونما اور خاندانی نظامِ تربیت کا اثر

اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے میری زندگی کے تقریباً پینسٹھ سال قرآن وسنت کے علوم کی تحصیل اور پھر اس کی درس وتدریس میں گزرے ، دعا ہے کہ اللہ تعالی آخری دم تک مجھے قرآن وسنت کی تدریس سے ہی وابستہ رکھے،(آمین)ابتدا ہی سے میرے مطالعہ کا دائرہ الحمد للہ قرآن وسنت اور اس سے متعلقہ دیگر علوم ہی رہے ،ابتدائی طالب علمی کے زمانہ میں میرا درسی ذوق مطالعہ سب سے پہلےعلامہ ابن حاجبؒ کی مشہور کتاب ’’کافیہ‘‘ کی شرح ’’شرح ملا جامی ‘‘کے حصہ دوم پڑھنے سے شروع ہوا ،مطالعہ کے ذریعہ مجھے یہ اندازہ ہواکہ سبق سے قبل کتاب کا مطالعہ کرنے سے دورانِ درس استاذ کا سبق سمجھنا انتہائی سہل ہوجاتاہےاور مطالعہ نہ کرنے سے استاذ کے سبق کو سمجھنا دشوار ہوتا ہے،خصوصاً جب کہ تعلیمی دورانیہ میں وہ کتب ہوں جو خالصتاً فنی کتب کہلاتی ہیں، گویادرس نظامی کی تعلیم کے حصول کا یہ وہ زمانہ تھا کہ میرےاندر پڑھنے ،مطالعہ کرنے کا شوق پیدا ہوا اور درس کے سمجھنےکا جذبہ بھی مزید بیدار ہوا،تعلیم وتعلم کے سلسلہ میں جو اصول وآداب لکھے گئے ہیں ان میں بھی اس بات کوبڑی اہمیت دی گئی ہے کہ استاذ سے سبق سننے سے قبل اس سبق کا مطالعہ کرلینا چاہیے،نیز حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ بھی اپنے تجربہ کی بنیاد پر طلبہ کو سبق کے مطالعہ،غور سے سننے اور تکرار کرنے کی ہدایت فرماتے تھے،پھر اس ذوق و شوق کی نشوونما اس طرح ہوئی کہ میں نے اپنا مزاج یہ بنایاکہ کسی بھی درس کو اور اس میں موجود اصطلاحات کو اچھے طریقے سے سمجھے بغیرآگے نہیں جاتاتھا، اگر ایک بار مکمل طور پر سبق سمجھ میں نہ آتا توپھرسے سمجھنے کی کوشش کرتا ،نیز استاذ سے دوبارہ پوچھنے کی مناسب صورت ہوتی تو وہ اختیار کرلیتا، ورنہ کسی سمجھدار اور ذی استعداد ساتھی سے سبق سمجھنےکی کوشش کرتا،مطالعہ اور سبق کے سمجھنے کے ساتھ ساتھ ہم چارپانچ طلبہ ساتھی مل کر تکرار کرتے تھے ، جو نکات دورانِ درس استاذ سے سنے ہوتے ان کو ذہن نشین کرلیتے، تاکہ بعدمیں ہمیں کام آئیں۔

جہاں تک ہمارے خاندانی نظام ِتعلیم وتربیت کا تعلق ہے،اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ میرے چچا محترم مولانا محمد شریف صاحب ،مفتی اعظم ہند مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ کے مدرسہ امینیہ دہلی سے فارغ التحصیل تھے ،یہ ادارہ آج کل کے عمومی اداروں کی مانندنہیں تھا، بلکہ یہ وہ مدرسہ امینیہ دہلی تھا جہا ں مفتی کفایت اللہؒ شیخ الحدیث تھے اور مہتمم بھی، ان کے پاس ہمارے چچامرحوم نو سال رہے ، انہوں نے تمام علوم وفنون وہیں پڑھے ،وہیں سے دورۂ حدیث بھی کیا،بہرحال! چچامرحوم کے ہندوستان سے واپس آنے کے بعدالحمدللہ ہمارے خاندان میں ایک دینی اور علمی انقلاب کا سلسلہ شرع ہوا،بدخشان واپس آکرانہوں نے مختلف علوم وفنون کی تدریس شروع کردی ، ان ہی چچامحترم ؒ کی تربیت ، نگرانی اور ان کی کوششوں سے ہم اس قابل ہوئے کہ اپنے علمی ذوق وشوق کو آگے بڑھائیں اورمطالعہ و تکرار کو مداومت کے طورپر اپنا شیوہ بنائیں ، یہ تھی ہماری علمی وتربیتی خاندانی بنیاد!!!

علمی تعلق پیدا ہونے کے بعد میرے ساتھ میرے دو چچا زاد بھائی اور ایک پھوپھی زاد بھائی بھی شامل ہوئے ،البتہ میں عمر میں بڑاتھا اور وہ چھوٹے تھے، انہوں نے مجھے اس میدان سے وابستہ دیکھا تو وہ بھی شامل ہوگئے،بارہ سال کی عمر میں میں نے ناظرہ قرآن کریم پڑھنا شروع کیا ، اور پھر جب میری عمر پندرہ سال ہوئی تو میں نے چچا مرحوم کے پاس ہی گھر پر مبادیات (علوم عربيہ: صرف ،نحو ، لغت اور فقه)پڑھناشروع کیے ،تین چار سال تک یہ ابتدائی تعلیمی سلسلہ جاری رہا، واضح رہے کہ اس زمانے میں علوم عربیہ اور علوم اسلامیہ کا کوئی خاص تعلیمی نصاب، کوئی خاص وقت ، یا کوئی خاص موضوع یا علوم کی آپس میں کوئی ترتیب مقرر نہیں ہوتی تھی ، بہرحال بعد ازاں میںافغانستان کے صوبہ ’’تخار ‘‘چلاگیا، اس زمانے میں اتنے وسائل تو ہوتے نہ تھے ، بدخشان سے تخار کا پیدل سفر تین دن میں طے ہوتا تھا ، اور اس طرح کئی بار پیدل سفر کرکے میں بدخشان سے تخار آتا جاتا، سردیوں کے زمانہ میں بسا اوقات ننگے پیر برف پر چل کر بھی مجھے جانا پڑا، وہاں مختلف اساتذہ سے چھ سال تک بغیر کسی مقررہ نصاب کے ثانوی اور عالی علوم جیسے نحو ، منطق ، بلاغت ، فقہ اور اصول وغیرہ حاصل کیے ،تخار میں مختلف اساتذہ کرام سے میں نے جملہ علوم وفنون کی ابتدائی اور وسطانی کتب پڑھیں، جن میںدیگر کے علاوہ میر ایسا غوجی ،تشریح الافلاک کی شرح تصریح ، سلم العلوم کی شرح ملا حسن ، خلاصۃ الحساب، مختصر المعانی ،قطبی اور سلم العلوم پڑھیں،اس دوران والد صاحب مرحوم کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے میں دوبارہ اپنے گھر (بدخشان) آگیا اور گھر کے کام کاج میں حصہ لیا،ساتھ ہی علم کے حصول کی ترتیب یہ بنائی کہ دن دن میں دو دَرس اپنے چچا محترم سے پڑھ کر کام کاج کے لیے نکل جاتا، تاکہ علم کے حصول کا سلسلہ منقطع نہ ہواور رات کوگھر واپسی ہوتی، اس عرصے میں میں نے اپنے چچامحترم ؒ سے ’’ہدایہ ثالث‘‘ ، ’’خلاصۃ الحساب‘‘ اور ’’شافیہ‘‘ پڑھی۔

اس کے ایک سال بعد مزید دینی تعلیم کے حصول کے لیے میں۱۳۸۵ھ مطابق ۱۹۶۵ء میں پاکستان آیا ،اورپانچ سال تک کتب فنون کی تعلیم صوبہ خیبر پختون خوا (سرحد) کے مختلف مدارس میں بھی حاصل کی،اس زمانہ میں علامہ انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ کے شاگرد خاص حضرت بنوریؒ رحمہ اللہ کی ہر طرف شہرت تھی ، چنانچہ سن ۱۹۶۸ء میں کراچی آگیا، اور عالم اسلام کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں درجہ سابعہ میں داخلہ لیا، اور یہاں مجھے توفیق ایزدی سے محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ جیسی علمی عبقری شخصیت سے استفادے اور یہاں کے صاف وشفاف علم کے چشموں سے سیرابی کا موقع میسر آیا ، والحمد للہ علی ذالک۔

اس تعلیمی وتربیتی مشغلے کو اپنانے میں ہمارے ان چچا محترمؒ (مولانا محمد شریف صاحب رحمہ اللہ)کا بھی بڑا ہاتھ تھا، اگر وہ نہ ہوتے تو شاید تعلیم وتعلم اور تحریرکےیہ سلسلے ہمارے ہاں بہت کم ہوتے ،ہمارے انہی چچامحترمؒ کی محنت اور سعی کی بناپر ہمارے خاندان میں بحمدہٖ تعالیٰ کئی چچازاد بھائی اور پھوپھی زادبھائی عالم ہیں ، نیز خاندان کی بیشتر خواتین اور مرد قرآن کریم کی حفظ کی دولت سے مالامال ہیں،اس محنت اور جدوجہد کا یہ اثر ہوا کہ عموماً معاشرے میں جیسے بعض گھرانوں کو مختلف نسبتوں سے منسوب کیاجاتاہے ہمارے گھرانوں کو ’’مولویوں اور قاریوں کا گھرانہ ‘‘کہاجاتاہے، فللہ الحمد والمنۃ۔

سوال دوم : ذوقِ مطالعہ کو مہمیز دینے والی رہنما شخصیات، مطالعہ کے مختلف ادوار

ویسے تو الحمد للہ میرے زمانۂ تعلیم میں مجھے جن ثقہ علماء سے استفادے کا موقع ملا ، وہ سب ہی اپنی ذات میں انجمن تھے ، مطالعہ کا ذوق رکھنے والے اور انتہائی اعلیٰ استعدادوں کے حامل تھے، مگر ان میں جن سے مجھے خصوصی علمی اور مطالعاتی فائدہ ہوا ان کا ذکر کردیتا ہوں :

جن عظیم شخصیات سے میرے ذوقِ مطالعہ کو ترقی ملی اور جن حضرات نے مجھے اس سفر میں رہنمائی فراہم کی ان میں، میں اپنے چچامحترم حضرت مولانا محمد شریف صاحبؒ کی شخصیت کو سب سے مقدم رکھنا ضروری سمجھتا ہوں ،کیونکہ میں نے علوم کے مبادیات کی تحصیل کا آغاز ان ہی سے کیا تھا، اور نیزچونکہ وہ علوم وفنون میں کامل دسترس رکھتے تھے تو مجھے ان سے ہی یہ شوق بھی پیدا ہوا کہ میں الفاظ کے درست تلفظ،صحیح ادائیگی اور جملوں کی ترکیب سیکھوں،یعنی میں علوم وفنون پڑھنے اورسمجھنے کے قابل ہوجاؤں، یہ سب کچھ ان چچاؒکی توجہ اور محنت کی برکت سے ممکن ہوا ، اورپھر خاص طور پر قرآن کریم کے ساتھ میرے ذوق وشوق میں بھی ان کی توجہ کا خاص دخل تھا ، وہ مختلف فقہی ،لغوی علمی مسائل کی بابت مجھ سے قرآن کریم کی آیات کے بارے میں سوال کرتے رہتے تھے اور میں ہر وقت اسی سوچ اور فکر میں مگن رہتا کہ اس کا استدلال میں قرآن کریم کی آیت سے کرسکوں۔

۱۹۶۵ءمیں پاکستان آنے کے بعد تقریبا تین یاچار سال کا عرصہ میں نے صوبہ خیبر پختون خواہ کے مختلف مدارس میں اس وقت کے مشہور اساتذہ کرام سے پڑھا،اور ان کا میری تعلیمی اور مطالعاتی ترقی میں بے حدا ثر رہا ، ان میں سے کچھ کا یہاں ذکر کرتا ہوں ، کوہاٹ کے مدرسہ انجمن تعلیم القرآن کے صدر المدرسین مولانا عبد الغفار صاحب ؒ سے قاضی مبارک پڑھی ، مولانا احمد گل صاحب ؒ سے تفسیر بیضاوی اور مولانا نعمت اللہ صاحب سے ہدایہ ثالث پڑھنے کا شرف حاصل ہوا،پھر ۱۹۶۶ء میں جامعہ علوم اسلامیہ اکوڑہ خٹک میں مفتی محمد یوسف بونیری ؒ سے مطول اور مفتی محمد فریدؒ سے تفسیر بیضاوی ، شرح عقائد اوردیگر کچھ کتب پڑھی،فلسفہ کی مشہور کتاب میبذی میں نے مولانا فضل الہی صاحب ؒ سے پڑھی ، یہ مفتی رضاء الحق صاحب (فاضل جامعہ بنوری ٹاؤن ،مفتی اعظم جنوبی افریقہ )کے چچا تھے ، چنانچہ میبذی کے سبق میں مفتی رضاء الحق صاحب حفظہ اللہ میرے ہم درس رہے،اس کے بعد میں دارالعلوم اسلامیہ سیدوشریف سوات چلا گیا ، یہاں ملا جلال پر سید زاہد کا حاشیہ ،رسالہ قطبیہ کی شرح ، دیوان المتنبی اور مقامات حریری پڑھی ، اسی طرح مولانا کفایت اللہ ؒ سے ’’قاضی مبارک‘‘ اور مولانا عبدالمجید بازارگوی سے فلسفہ کی معروف کتاب ’’ہدایۃ الحکمۃ‘‘ کی مشہور شرح ’’صدرا‘‘اور ’’شمس بازغہ ‘‘ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ، سیدوشریف میں دوسرے سال مارتونگ باباؒ سے شرح مواقف پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، اسی طرح فلکیات میں تصریح ، شرح چغمینی اورسبع شداد ثلاثہ مولانا عبد المجیدؒ سے پڑھیں ، اسی سال علم ہندسہ کی مشہورکتاب ’’اقلیدس‘‘بھی پڑھی ، اورپھر آخر میں حاشیہ خیالی اور سلم العلوم کی شرح حمداللہ سندیلوی مولانا کفایت اللہ ؒ سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا،علم عروض وقوافی میں نے مشہور ادیب مولانا لطافت الرحمن سواتی ؒسے پڑھے،الغرض علوم وفنون کی ان مذکورہ کتابوں اور اساتذہ کرام کے طفیل مجھے بہت زیادہ علمی ترقی ہوئی ، اللہ تعالی میرے تمام اساتذہ کرام کے درجات بلند فرمائے،آمین

علوم وفنون کی جملہ اہم کتب پڑھنے کے بعد پھر میں نے موقوف علیہ اور دورہ حدیث کے لیے کراچی کا رخ کیا،یہاں محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ اپنے زمانے کے عظیم محدث اور ادیب جلوہ افروز تھے، انہیں علم حدیث اور علوم عربیہ ادبیہ میں یدطولی حاصل تھا، آپ عربی زبان میں فصیح وبلیغ نثر ، انشاء اور شعر کہنے پر قادر تھے ، آپ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے علوم کے امین اور علمی جانشین تھے ، علم حدیث اور ادب میں حضرت بنوریؒ سے خوب استفادہ کیا اور ان علوم میں وہی میرے راہنما ومقتدا ہیں ، ۱۹۷۱ء میں جامعہ بنوری ٹاؤن سے درس نظامی کی سند فراغت حاصل کی ،فراغت کے بعد دوسال حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمہ اللہ کی دعوت پر مجھے جامعہ فاروقیہ کراچی میں تدریس کا موقع ملا ، یہاں مجھے سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، ہدایہ ثالث ، توضیح تلویح ، دیوان حماسہ، قطبی اور کنز الدقائق پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی ، دوسال بعد حضرت بنوری رحمہ اللہ نے اپنی شفقت سے بندہ کو جامعہ میں تدریس کے لیے بلالیااورساتھ ہی مجھے ان سے صہری نسبت بھی حاصل ہوئی، یقینا میرے اس طویل تعلیمی وتدریسی اور تصنیفی مشغلے میں اللہ تعالی کی توفیق کے ساتھ ساتھ حضرت بنوری رحمہ اللہ کے اعتماد اور ان کی سرپرستی و شفقت اور توجہات کا بڑا دخل ہے ، حضرت بنوریؒ کی صحبت اور توجہ کی برکت سے میرے علمی مطالعہ کو بہت زیادہ وسعت ملی ، وہ مختلف مواقع پر میری رہنمائی فرماتے رہتے تھے ،جامعہ کی مجلس تعلیمی کی طرف سے جودرسی کتب مجھے پڑھانے کے لیے سے سپرد کی جاتیں ان کے متعلق مجھ سے سوال کرتے اور ان مفوضہ تدریسی کتب سے متعلق مختلف شروح اور حواشی بتایا کرتے ۔

چچا جان مولانا محمد شریف ؒ اور حضرت بنوری رحمہما اللہ کے بعد جس شخصیت نے اپنے علمی تبحر ، وسعت مطالعہ ،حسن تعبیر ، فنی مہارت اور تدریسی سے مجھے متاثر کیا اوران کی تدریس اور تدریس کے مالہ وما علیہ مجھ پر گرویدگی کی حد تک حاوی تھی وہ شخصیت استاذ گرامی مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ تھے ، جن کی صحبت سے مطالعہ ومراجعہ کا شوق بلکہ رہنمائی ملتی رہی ، مفتی صاحب ؒ میرے محبوب اور محسن اساتذہ میں سے تھے،حضرت مفتی صاحب بلند پایہ فقیہ اورمحدث تھے ، سادہ مزاج رکھتے تھے ، لیکن سنن ترمذی کے سبق میں خوب جواہر بکھیرتے ، ان کا ذوق تحقیقی تھا ، اس لیے ان کے ذوق سے بھی مجھے مہمیز ملی ، میری علمی نشوونما میں ان کا بھی اہم کردار ہے، وہ میرے لیے سرپرست کا درجہ بھی رکھتے تھے ، میرا دوسرا نکاح مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کی نواسی (مولانا نوراحمد صاحب رحمہ اللہ ناظم اول جامعہ دارالعلوم کراچی کی صاحبزادی) سے ہوا ، میرے والدین تو یہاں نہ تھے ، اس نکاح میں میری طرف سے سرپرستی کے امور استاذمحترم مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ نے ادا فرمائے اور جو دعوت نامہ لوگوں کو بھیجا گیا وہ بھی حضرتؒ کی طرف سے ہی تھا۔

خیرابتدائی تعلیم کے زمانہ میں جب میں ’’بدخشان ‘‘سے’’ تخار‘‘ گیا،تو وہاں پہنچ کر میں نے وہاں کے بڑے اساتذہ وشیوخ سے استفادہ کیا ،ان میں ایک استاذ حضرت مولاناعبدالجلیل صاحب تخاریؒ (نمک آبی) سب سے مشہور ومعروف تھے اور وہ نمک آب میںہوتے تھے، میں ان نے ان کے پاس دوسال رہ کر فقہ وادبِ عربی کے علوم پڑھے ، نحو میں شرح جامی مکمل ، بعض کتب منطق جیسے الحاشية الجديدة علی المير شرح إيساغوجی ، بديع الميزان حصة التصورات من القطبي وغیرہ بھی انہیں سے پڑھیں اور اس عرصہ میں بھی میں نے مطالعہ سے بہت کچھ سیکھا۔ مجھے وہا ں دوسال کے قیام میں مجھے یہ محسوس ہوا کہ گویا میں پہلے بیٹھا ہوا تھا، اب کھڑا ہوگیا ہوں ، ان کے علوم وفیض کی برکت نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا تھا ،ان کا شوق اور خواہش یہ تھی کہ اپنے شاگرد خواہ ابتدائی ہوں ،وسطانی ہوں یا منتہی درجہ کے طلبہ سب کو متعلقہ موضوع اور اس کی ابحاث سمجھ آجائیں اور ان کی محنت یہ تھی کہ طلبہ کو خوب فائدہ ہو،اور طلبہ میںیہ استعداد پیدا ہوسکے کہ وہ اپنے استاذ سے پڑھا سبق اور حاصل کیے ہوئے علوم وفنون آگے دوسرے لوگوں تک پہنچاسکیں،گویاحضرت بنوری رحمہ اللہ کی طرح ذی استعداد افراد تیار کرنا ان کا دلی جذبہ تھا۔

حاصل یہ ہے کہ میرے مطالعہ کے جذبہ کی ابتداء شرح جامی سے ہوئی ، اس زمانے میں طلبہ کا مزاج یہ تھا کہ طلبہ اس طرح کے دقیق وعمیق فنون پر کامل عبورحاصل کرنے کے لیے کئی عربی شروحات کا خوب خوب مطالعہ کیاکرتے تھے، صرف شرح ملاجامی کی پچاس سے زائد شروحات ہیں، ان میں بعض فارسی اور بعض عربی زبان میں ہیں ، میں بھی الحمدللہ ان عربی وفارسی شروحات سے خوب استفادہ کرتاتھا،اور مجھے زیادہ مناسبت بھی عربی وفارسی زبان سے تھی، اس مطالعہ کے بعد اصل استفادہ تو استاذ سے ہوتاتھا،نیز کافیہ کی شروحات سے بھی میں نے خوب فائدہ اٹھایا،اورمقصدیہ تھا کہ مجھے علم ہوکہ ان کتب کے مصنفین کا اسلوب کیا ہے ؟!اور ان کی شرح کا اسلوب کیا ہے ؟!اس طرح کے مقاصد کے حصول کے لیے بحمداللہ میں بھرپور مطالعہ کیاکرتاتھا۔

نیز میں ایک جلیل القدرعالم حضرت مولانا فیض محمد صاحب کے پاس بھی گیا ،یہ خان آبادمیں ہوتے تھے،بڑے عجیب انسان تھے،تبحرعلمی کی صفت بدرجہ اتم ان میں موجود تھی، انتہائی باوقار اور سنجیدہ شخصیت تھی، علم کے تو گویاپہاڑ تھے، البتہ خارجی معلومات سے دلچسپی نہ رکھتے تھے،زیادہ تر نصاب سے متعلقہ کتابوں سے ان کا تعلق ہوتاتھا ، کتاب کو اچھی طرح سمجھتے بھی تھے اور سمجھاتے بھی تھے ، ادب عربی کی جانب بھی ان کی رغبت تھی ،اس کا شوق بھی رکھتے تھے لیکن چونکہ موصوف درسی کتابوں کو کئی کئی بارخود پڑھ بھی چکے تھےاور پڑھابھی چکے تھے ا س لیے ان کاتجربہ تدریسی اعتبار سے کافی پختہ تھا۔ ان سے بھی میں نے ’’شافیہ‘‘ کے کچھ حصے اور ہدایہ ثالث کی کتاب الاجارۃ اور مشکوۃ شریف پڑھی ۔

حضرت مولانا محمد امین صاحب مشتانی فرخاریؒ سے مجھے منطق وبلاغت پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ،چنانچہ ان سے میں نے مختصر التفتازاني فی البلاغة ، اور قطبي اور اس کی تعليق للسيد الشريف الجرجاني پڑھی ، یہ بھی انتہائی عظیم انسان تھے، ان کے اسلوبِ تدریس وطرزِتکلم ،طریقہ افہام وتفہیم اور متعلقہ موضوع پر حاوی ہونےکا کیاہی کہنا !بس ان صفات میں اپنی مثال آپ تھے۔ عام آدمی بھی ان کے درس کو ان کی زبان سے اچھی طرح سمجھ سکتا تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ منطق کی ابحاث میں سے ’’موجہات‘‘مجھ سے پڑھ لیں پھر کبھی آ پ کسی اور سے پڑھنے کے محتاج نہیں ہوں گے۔ چنانچہ میں نے ’’موجہات ‘‘ کی بحث اور بسائط ومرکبات کے مباحث ان سے پڑھے ، پہلے بسائط اور پھر مرکبات کی ابحاث پڑھیں، واقعی اسی طرح ہوا کہ ابھی تک مجھے علم منطق کی موجہات میں الحمدللہ عبور حاصل ہے۔منطق،فلسفہ،بلاغت سے متعلق میری معلومات، ان علوم کی اصطلاحات کی پہچان اوران کایاد رہنا ان ہی کی برکت سے ہے، کیونکہ وہ منطق وبلاغت میں کافی عبور رکھتے تھے ۔

ہماری طالب علمی کے زمانے میں منطق وفلسفہ بہت عروج پر تھے اور ان علوم میں جولوگ بہت زیادہ مشہور ومعروف تھے اور کامل دسترس رکھتے تھے ، ان اشخاص میں سے ایک مارتونگ باباؒبھی تھے جن کو اللہ تعالی نے عجیب وغریب صفات سے نوازا تھا ،اللہ تعالیٰ نے ان کی شخصیت میں عجیب دلآویزی اور دل کشی پیدا کردی تھی، ان کی گفتگو سامعین کی طبیعت پر بار نہیں ہوتی تھی،علاقہ سوات میں تو یہ بہت مشہور تھے،الحمدللہ ان سے میں نے امور ِعامہ علم کلام کا ابتدائی حصہ پڑھا،اس زمانے میں ان کے درس میں شریک ہونے والے ہم تقریباً اکیس افراد تھے، ان کا انداز یہ تھا کہ پہلے متن ایجی(جو کلام منطق اور فلسفہ میں تین ابحاث ہیں ان ابحاث )کا ترجمہ کرتے تھے،اس کے بعد پھر سید شریف کی جو شرح ہے( چارجلدوں میں ) اس شرح کی تشریح کرتے ،پھر اس کے بعد سیدزاہد ہروی کی جو اس پر تعلیق ہے اس سے ہمیں سمجھاتے تھے ،گویا ان کے کلام سننے اور سمجھنے کے بعدان علوم سے متعلق اوروں کی باتیں ہمیں بچوں کی باتیں لگتی تھیں، اسی بنارپر مارتونگ بابااپنے شاگردوں اور اہل علم کے حلقے میں بڑے محبوب ومقبول تھے،لیکن با ایں ہمہ انہوں نے کوئی خاص کتاب نہیں لکھی، سوائے چند ابحاث کے جو مسلم الثبوت سے متعلق ہیں، میں نے اپنی شرح ’’ازالۃ الرھبوت عن مشکلات مسلم الثبوت‘‘میں اس سے اچھا خاصااستفادہ کیاہے۔

پسندیدہ موضوعات

میرے پسندیدہ ترین موضوعات میں سرفہرست قرآن کریم اور اس کی تفاسیر ہیں، ادبی موضوعا ت سے مجھے دلچسپی بھی ہے اور مجھے پسند بھی ہیں ، خواہ یہ ادب کسی بھی زبان میں ہو یا کسی بھی فن سے متعلق ہو، البتہ عربی اور فارسی ادب کی طرف میری توجہ زیادہ رہی اور ان دونوں زبانوں کی ادبی کتب کے مطالعہ کا بھرپور موقع بھی مجھے ملا، البتہ قرآنیات میرا خاص ذوق اورالحمد للہ میری تالیفی سرگرمیوں کا محور رہا ، اللہ تعالی نے اپنے فضل سے اس موضوع پر مختلف کاموں کی توفیق مرحمت فرمائی ، فارسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی جسے اب مجمع ملک فہد مدینہ منورہ شائع کررہا ہے اور حرمین شریفین میں دیگر تراجم قرآن کے ساتھ وہ فارسی ترجمہ بھی وہاں رکھ دیا گیا ہے اور حجاج ومعتمرین میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے ، قرآنی ذوق کی ترقی میں چچا مولانا شریف رحمہ اللہ کے بعد مجھے حضرت بنوریؒ کی صحبت سے بہت استفادہ ہوا، مولانا بنوری رحمہ اللہ کی بھی یہ عادت تھی کہ وہ درس کے دوران مختلف نکات کے استدلال قرآن کریم سے کیا کرتے تھے ، اور طلبہ سے پوچھا کرتے تھے ، میں ہمیشہ اسی جستجو میں رہتا کہ فورا قرآن کریم سے استدلال میں مطلوب آیت کو پیش کرسکوں۔

ذوق میں ارتقائی تبدیلیا ں

ذوق مطالعہ میں پہلی ارتقائی تبدیلی اس وقت پیدا ہوئی جب میں نے شرح جامی کے حصہ اول سے فارغ ہوکر حصہ دوم پڑھنا شروع کیا ،یہ ظاہرہے کہ درس نظامی کے زمانے میں ہمارے لیےیہی کتب اہم بھی ہوتی تھیں اور ان ہی کتب پر ہماری ساری توجہ اور محنت صرف ہوتی تھی ، اس لیے طالب علمی کے زمانے میں نصابی کتب ہی سے وابستہ رہے ، خیر! اس عرصہ میں مطالعہ سے دلچسپی بھی بڑھی، نیز میں نے مطالعہ اور کتابوں کو سمجھنے کے اعتبار سے کافی تبدیلیاں محسوس کیں، پھر ارتقائی تبدیلی کا دوسرا درجہ خیبر پختون خواہ کے اساتذہ کرام سے علوم وفنون کی مختلف کتابیں پڑھ کر مجھے منطق فلسفہ اور دیگر عقلی علوم سے کافی زیادہ مناسبت ہوگئی اوراس عرصہ کے دوران مجھے عقلی علوم کی تقریبا تمام مشہور کتب درساپڑھنے کا شرف بھی حاصل ہوا، لیکن پھر تیسرا مرحلہ اس وقت شروع ہوا جب میں کراچی آیا اور مجھے حضرت بنوری ، مفتی ولی حسن ٹونکی اور مولانا ادریس میرٹھی رحمہم اللہ جیسے اساتذہ سے قرآن وسنت پڑھنے سمجھنے کا شرف حاصل ہوا ، جامعہ اور ان اساتذہ کرام کی صحبت کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ علوم قرآن وسنت کے سامنے دیگر تمام عقلی علوم ہیچ ہیں ، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ عقلی علوم پڑھنےسے انسان کو پختگی اور رسوخ ضرور حاصل ہوجاتا ہے اس لیے ان کی اہمیت اپنی جگہ ہے ، بہرحال جامعہ اور حضرت بنوری ؒ کی صحبت کے بعد میرا ذوق مطالعہ کا مرکز قرآن اور حدیث ہوگیااورپھر اس سے متعلقہ تمام معروف ومشہور کتب پڑھنے کا مجھے شرف حاصل ہوا۔

سوال سوم: پسندیدہ مصنفین وپسندیدہ کتب

مجھے جو کتاب پسندہوتی ہے ،اس کا مصنف بھی پسندہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ جو کتاب پسند نہ ہو تو اس کتاب کے مصنف سے بھی لگاؤنہیں ہوتا،بنیادی طور پر اس سلسلہ میں جن مصنفین نے تصنیف کے کام کا انتخاب کیا ہے اورضروری اور اہم علوم کو موضوعِ تصنیف بنایا ہے چاہے وہ ادبِ عربی کے قبیل سے ہوں جوکہ علوم اسلامیہ کے لیے جڑاور مقدمہ ہےیا دوسرے علوم ہوں جیسے تفسیر وحدیث جو دین ودنیا کی اساس ہیںیہ سب مصنفین اور ان کی کتب مجھے پسند ہیں ۔

محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کی ذات سے مجھے انتہائی گرویدگی کا تعلق تھا، حضرتؒ اپنے زمانے کے عظیم محدث اور ادیب تھے۔ مولانا رحمہ اللہ کی سنن ترمذی کی شرح ’’ معارف السنن‘‘جو علم حدیث کے ذخیرہ میں قابل ذکر اہم ترین کتابوں میں سے ہے ، ادب وبلاغت کے اعتبار سے بھی اعلیٰ شاہکار ہے ، حضرتؒ اس شرح میں جس طرح مسائل کے تحت پہلے تفصیل سےائمہ کے مذاہب کو اور پھر بحث کے آخر میں ان کا خلاصہ بیان فرماتے ہیں ، حضرت کے اس انداز سے میں بہت متاثر ہوں اور حضرت کے اس انداز کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ،معارف السنن نے مجھے بہت کچھ سکھایا ہے ،طالب علمی کے زمانے میں کتاب خریدنے کی استطاعت نہ تھی ، مولانا رحمہ اللہ نے ہی مجھے معارف السنن مطالعہ کے لیے دی تھی،عربی زبان سے مجھے زیادہ مناسبت اور شوق مولانا رحمہ اللہ کی وجہ سے ہی ہوا، حضرت کی دیگر اردو عربی کتب بھی بندہ کی پسندیدہ کتب میں سے ہیں ، جو سب ہی علمیت اور ادب وبلاغت شاہکار ہیں ۔

علمائے مغرب میں سے مالکی شیخ الاسلام تیونسی عالم دین شیخ محمد طاہر ابن عاشوراچھے مضبوط مصنف ہیں ، ان کی چالیس کے قریب کتابیں ہیں ، ان میں سے تفسیر کے موضوع پر ایک کتاب ’’التحریر والتنویر‘‘ میرے نزدیک بہت ہی عمدہ تفسیر ہے ،میں نے قرآن کریم کے فارسی ترجمہ وتفسیر تحریر کرنے کے دوران اس سے بہت استفادہ کیا۔

اسی طرح شام کے علماء میں سے ایک مشہور عالم شیخ عبد الفتاح ابو غدہ ؒ ہیں ، ان کی تالیفات وتصنیفات سے بھی میں نے بہت زیادہ استفادہ کیا ،ان سے بہت قریبی تعلق بھی تھا،شیخ بھی مجھ سے محبت فرماتے تھے ، اورپاکستان آمد پر دو بار میرے گھر بھی تشریف لاچکے ہیں، ان کے اسلوب سے میں نے بہت کچھ سیکھا اورسمجھا ہے ، ان کی کئی مفید کتابیں ہیں ،علوم حدیث پر انہوں نے کئی کتابوں کی تالیف وتحقیق کی ہے ، ان کی تحقیق وتعلیقات نہایت عمدہ اور ان کا طرز تحقیق قابل تقلید ہے ۔

مصنفین کی دوقسمیں ہیں : ایک جدید مصنفین جو جدید علوم میں جدید طرز پر لکھتے ہیں، یہ ایک الگ اور نئی چیز ہے ،دوسری قسم : قدیم مصنفین کی ہے،جنہوں نے قدیم علوم پر کام کیا اور لکھا ہے، ہم نے زیادہ تر ان قدیم طرز پر کام کرنے والے مصنفین کی کتابوں کو پڑھا اور سمجھا ہے ، ان میں پختگی بھی زیادہ ہے، اور ان کاانداز بھی ٹھوس ہے سطحی نہیں ، اسی وجہ سےمتقدمین کاطرز وانداز اور اسلوب مجھے زیادہ پسند ہے ، ہاں البتہ اب یہ بات ضرور ہے کہ یہ سہل پسندی کا دور ہے، ان متقدمین کو پڑھنا سمجھنا آج کی نسل کے لیے مشکل ہوگیا ہے ، اسی بنا پر اللہ تعالی نے مجھے توفیق دی کہ درس نظامی کی اہم اور مشکل کتب کی تسہیل کی جو اس وقت برصغیر کے علاوہ دیگر کئی ممالک کے مدارس ومعاہد میں شامل نصاب ہے ، لیکن یہ تسہیلات محض علم اور فن اورقدماء کے ذخیرے کے ساتھ مناسبت پیدا کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں ، رسوخ اور پختگی کے لیے متقدمین مصنفین کے اسلوب سے مناسبت بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے۔

پسندیدہ رسائل

ہم نے چونکہ زمانہ طالب علمی میں افغانستان کے مختلف علاقوں (یعنی بدخشان ،تخار اور قندوز ) میں پڑھا ہے،اس زمانے میں وہاں زیادہ رسائل وجرائد وغیرہ نہیں ہوتے تھے، بلکہ قدیم درسی کتب کا ہی رواج تھا، اس لئے ہمیں ان کتب سے ہی زیادہ سروکار رہاہے، البتہ پاکستان آنے کے بعد یہاں رسائل وجرائد وغیرہ دیکھنے کا موقع تو بہت ملا ، لیکن میں قدیم علمی ، تحقیقی اورفنی کتب کے مقابلے میں ان رسالوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا، بلکہ میرا میلان متقدمین کی کتب کی جانب زیادہ ہے،البتہ میری دانست میں خالص علمی تحقیقی رسائل سے طلبہ کو ضرور استفادہ کرنا چاہیے ،بعض مقالہ نگار کسی موضوع پر اپنی زندگی بھر کے مطالعہ کانچوڑ اپنے ایک مقالے میں پیش کردیتے ہیں ، ایسے مقالہ جات قابل قدر ہیں ۔

افسانہ نگار

مجھے طبعی طورپر ان افسانہ نگاروں کی طرف کبھی میلان نہیں رہا، کیونکہ ان میں اکثروبیشتر جھوٹ وفریب ،خلاف حقیقت چیزوں کو بیان کیا جاتا ہے، جیساکہ عام مشاہدہ ہے، اس لیے میں ان بے معنی افسانوں کی طرف توجہ نہیں دیتا ، ان افسانوں میں کھوکر انسان خود افسانہ یا افسانوی مزاج بن جاتاہے ، علمی رسوخ اورپختگی افسانوں یاناولوں سے حاصل نہیں ہوسکتی ۔

کالم نگار

کالم میں کافی عرصہ تک پابندی سے پڑھتا رہا، کالم نگاروں میں مجھے جنگ اخبار کے کالم نویس ارشاد احمد حقانی کے مضامین پسند تھے، وہ مختلف موضوعات پر کالم لکھتے تھے،اس زمانے میں ٗمیں روزانہ کی بنیاد پر ان کی مختلف تحریرات پڑھاکرتا تھا،غالبا 2010ء میںوہ انتقال کرگئے تھے ۔

مزاح نویس

مزاح نویسوں میں مجھے مولانا بہاء الحق قاسمی مرحوم کے فرزند عطاءالحق قاسمی کی مزاحیہ کالم نگاری پسند ہے۔البتہ ان کی بہت سی آراء سے کلی اتفاق نہیں رکھتا ۔

طنز نگار

طنز کے موضوعات پر مجھے زیادہ دلچسپی اور لگاؤ نہیں ہے ،کیونکہ ایک تو یہ شرعاً جائز نہیں ہے ، نیزیہ دین سے دورلوگوں کا شیوہ ہے،پھرہمارا دین ہمیں ا س کی اجازت بھی نہیں دیتا، اس لیے میں نے اس جانب توجہ نہیں دی۔

سوال چہارم : مطالعہ کے اوقات

جواوقات ذہنی اعتبار سے سکون اور اطمینان کا باعث ہوں اور ذہن پر کوئی بوجھ نہ ہوایسے اوقات میں مطالعہ کرنا زیادہ مفید رہتاہے ، نیز فارغ اوقات میں بھی انسان اگر اپنے اوقات مطالعہ میں صرف کرے تو وقت قیمتی بن جائے گا،ورنہ وقت نے ویسے بھی گزرنا ہے،میں سمجھتا ہوں کہ مغرب اور فجر کے بعد کے اوقات مطالعہ کے لیے زیادہ بہتر مناسب ہیں ، نیز اگر عصر کے بعد کوئی مصروفیت یا مشغولیت نہ ہو تو وقت ضائع کرنے کے بجائے عصر کے بعد بھی مطالعہ کرنا چاہیے،اگر طلب اور چاہت ہوتو آدمی اس وقت میں بھی بہت کچھ مطالعہ کرسکتا ہے۔مجھے فراغت ہو تو میں طالب علمی سے ہی عصر کے بعد بھی مطالعہ کی عادت رہی ہے،ہمارے دورۂ حدیث کے سال ’’معارف السنن شرح سنن الترمذی ‘‘ کی پانچ جلدیں طبع ہوچکی تھیں ، میں نے ’’معارف السنن ‘‘کی ان مطبوعہ تمام جلدوں کا مطالعہ دورہ کے سال عصر کے بعد کیا تھا، اسی طرح مثنوی مولانا روم کا بھی میں نے دوسے تین بار مکمل مطالعہ کیا اور بہت ہی کم وقت میں ، کیونکہ میری عادت ہے کہ جب ایک کتاب کا مطالعہ شروع کردیتا ہوں تو پھر اسے پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہوں ، پھراس کے لیے وقت کی قید نہیں ہوتی ،وقت خواہ کوئی بھی ہو ، اسی طرح رسائل اخوان الصفا بھی میں نے ایک ساتھ مکمل مطالعہ کیے اور چند مہینوں میں ، میں ذاتی طور پر مطالعہ کے لیے یکسوئی یا تنہائی کا کبھی خواہاں نہیں رہا ، گھر یا مدرسہ میں مجھے جب جیسے موقع ملتا تو میں مطالعہ میں مشغول ہوجاتا ، اور مجھے یہ لگتا ہے کہ انسان کو ہر ماحول اور ہر قسم کے لوگوں میں بیٹھ کر مطالعے کا عادی ہونا چاہیے ،زیادہ تکلفات کی وجہ سے بھی انسان بہت کچھ پڑھنے سے رہ جاتا ہے ۔

مطالعہ کی رفتار

مطالعہ کی رفتارذوق ، ذہن اور قوت مشاہدہ وحافظہ کے اعتبار سے الگ الگ ہوتی ہے ،پھر مطالعہ کی رفتارمیں فن ، موضوع اور مضمون کے اعتبار سے بھی فرق پڑجاتا ہے ، البتہ مطالعہ کی رفتار درمیانی ہونا چاہیے، نہ زیادہ تیز ہو اور نہ زیادہ سست ہو، درمیانہ رفتار سے مطالعے کی عادت ابتداسے ہی بنالی جائے تو زیادہ بہتر ہے، اس طرح کہ مطالعہ کرنے والا کتاب کو سمجھ بھی سکے گا اور اور زیادہ مطالعہ بھی کرسکےگا،اس کے برخلاف اگر سست رفتاری سے مطالعے کی عادت بن جائے تو لوگ اکتاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں،پھر مطالعہ میں دل نہیں لگےگا،اسی طرح زیادہ تیز مطالعہ کرنے سے آدمی کو سمجھ نہیں آئےگا۔

دوران سفر مطالعہ

اصل بات یہ ہے سفر کی کئی قسمیں ہوتی ہیں: ایک سفر بہت زیادہ طویل ہوتا ہے اور مشکل بھی ہوتا ہے اور انسان تھک بھی جاتا ہے ،جیسے کار کا سفر ہے، اس میں اکثروبیشتر شورشرابہ کا ماحول ہوتا ہے ، اس لئے آدمی میں مطالعہ کرنے کا ذوق نہیں رہتا ،دوسری قسم ریل گاڑی یا جہاز کا سفر ہے، اس میں آدمی کے لیے سہولت میسر ہوتی ہے، اس لیے کوئی اگر مطالعہ کرنا چاہے تو کرسکتا ہے ،میں خود بھی اس طرح ریل گاڑی یا ہوائی جہاز کے سفر میں اپنے ساتھ کتابیں رکھتا ہوں اور مطالعہ بھی کرتا ہوں ۔

سوال پنجم : نئے لکھنے والوں کے لیے طریقہ کار

نئے نویسندہ گان اور نئے قارئین کومطالعہ کے سلسلے میں متقدمین کی کتب اور تحریروں کے ساتھ ساتھ عصری ادبی وعلمی اوربلاغی مضامین اور رسالوں کا مطالعہ کرناچاہیے، اورمطالعہ کے بعد اسی مطالعہ کردہ کتب یا رسائل کی ترتیب پر اپنے مضمون مرتب کرنے چاہئیں۔

کتابوں کے انتخاب میں رہنما اصول

کتابوں کے انتخاب کے رہنمااصول کے سلسلے میںیہ بات ضروری ہے کہ یہ چیزیں منقولی تو ہیں لیکن منصوصی نہیں ہیں بلکہ اجتہادی ہیں، ہر زمانے کا اجتہاد آنے والے زمانے کے اجتہاد سے مختلف ہوتا ہے، اس لیے ہم لوگوں کی رہنمائی کے لیےاس سلسلہ میں کوئی خاص اصول مقرر نہیں کرسکتے کہ لکھنےکےلئے کسی خاص اصول کو ضروری قراردیا جائے،البتہ ہرزمانے کے لکھاریوں کے لیے اسی زمانے کے اعتبار سےمتقدمین کے اصولوں کی روشنی میں اصول مقرر کئے جاسکتے ہیں،کیونکہ ہر لائق سابق پر موقوف ہوتا ہے، یعنی جدید لکھنے والے افراد قدیم لکھنے والوں کو دیکھیں کہ وہ کن اصولوں کو اپنائے ہوئے تھے ،اسی طرح جدید قارئین بھی سابقہ قارئین کے اصولوں کو اپناکر اپنے لئے کوئی اصول مقرر کرسکتے ہیں اور یوں اپنے لئے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔میں ذکرکرچکا کہ وجہ اس کی یہ ہے کہ مطالعاتی یا تصنیفی اصول کوئی منصوصی چیز نہیں ہےجس کی تقلید ہمیشہ کے لیے کی جائے، بلکہ ہرزمانے کے اعتبار سے بالفعل جو اصول مطلوب ہیں ان ہی کو لیا جائے یہ زیادہ مفید ہے۔

مطالعہ رہنمائی کے ساتھ ہو یا ذوقی مطالعہ ہو؟

مطالعہ کے دوطریقے ہیں :

۱-کسی باذوق علمی اورادبی شخصیت سے اس بارے میں مشورہ کیا جائے ، اور ان کی رائے کے مطابق مطالعہ کیا جائے ،اس سلسلہ میں ایسے فرد کا انتخاب کیاجائے جو خود بھی کتابی ذوق رکھتا ہو اور علوم وفنون سے اسے اچھی مناسبت بھی ہو،تاکہ وہ اچھا اور مفید مشورہ دے سکے۔

۲-یا خود انسان اپنے ذوق سے مطالعہ کےلیے راستہ وضع کرے یعنی اپنے لیے کوئی ایک راستہ متعین کرے،لیکن از خود مطالعہ کے لیے کوئی موضوع منتخب کرنے کے بجائے کسی بااعتماد فرد سے رائے لینا زیادہ مفید ہے،تاکہ وہ آدمی کے ذوق وشوق کو بھی دیکھے اور پھر اس سلسلہ میں بہترسے بہتر رہنمائی فراہم کرسکے،یہاں یہ بات بھی بہت ضروری ہے کہ مطالعہ یقینا انسان کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتا ہے ،لیکن مطالعہ کے ساتھ ساتھ عملی زندگی کے حقائق کی شناسائی اور اس کی رہنمائی کے لیے صالح تجربہ کار شخص کی صحبت اور رہنمائی بھی نہایت کی اہمیت کی حامل ہے ، مطالعہ انسان کے لیے نصف کی اہمیت رکھتا ہے اور بقیہ کی تکمیل کے لیے اچھی صحبت انتہائی ضروری ہے ۔

7,900 Views

One thought on “میری علمی ومطالعاتی زندگی: مولانا محمد انور بدخشانی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!