انشورنس – بیمہ زندگی: علامہ ابن عابدین شامیؒ کا فتوی، از: مفتی ولی حسن ٹونکیؒ

ترتیب وتدوین: مفتی عمر انور بدخشانی

انشورنس (بیمہ) کی تاریخ: آغاز و انجام

کہا جاتا ہے کہ بیمہ کی ابتدا اٹلی کے تاجران اسلحہ سے ہوئی۔ ان لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ بعض تاجروں کا مال تجارت سمندر میں ضائع ہوجاتا ہے، جس کے نتیجہ میں انتہائی تنگدستی کا شکار ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس صورت کا حل یہ نکالا کہ اگر کسی شخص کا مال تجارت سمندر میں ضائع ہوجائے تو تمام تاجر مل کر اس کی معاونت کے طور پر اسے ہر ماہ یا ہر سال ایک معین رقم ادا کیا کریں۔ یہی تحریک ترقی کرکے جہازوں کے بیمہ تک پہنچی کہ ہر ایک ممبر ایک منفرد رقم ادا کرے تاکہ اس رقم کے حوادث و خطرات کے موقعہ پر نقصان کا کچھ نہ کچھ تدارک کیا جاسکے۔

یہ روایت بھی بیان کی جاتی ہے کہ سب سے پہلے اندلس کی مسلم حکومت کے دور میں بحری تجارت میں حصہ لینے والے مسلمانوں نے تجارتی بیمہ کی طرح ڈالی۔ ابتدا میں بیمہ کی شکل سادہ سی تھی۔ بعد میں اس کی نئی نئی صورتیں نکلتی رہیں اور تجربے ہوتے رہے۔ ہالینڈ اس تجربے میں پیش پیش رہا۔ موجودہ دور میں ایک مقررہ قسط پر بیمہ کاری کا نظام سب سے زیادہ مقبول ہے، جس کو’’ سرمایہ کارانہ نظام بیمہ‘‘ کہا جاتاہے۔ دنیا کی حکومتیں بیمہ کو لازمی قرار دے رہی ہیں جس کو ’’ریاستی بیمہ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ بیمہ کی ابتدا ۱۴۰۰ء میںبتلائی جاتی ہے۔ ابتدا ہوتے ہی اس کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا اور اس کے مقدمات اس کثرت سے عدالتوں میں آنے لگے کہ ۱۴۳۵ء میں اس کے لیے خاص عدالتیں مقرر کی گئیں جو صرف بیمہ کے مقدمات سماعت کریں۔ ’’بیمہ بحری‘‘ کے بہت عرصہ بعد بیمہ ’’برّی‘‘ شروع ہوا۔

اسلامی ممالک میں بیمہ(انشورنس) کی آمد اورفقہی بحث کا آغاز

سلطنت آل عثمان کے زمانہ میں جب حکومت ترکی کے تجارتی تعلقات یورپ کے ملکوں سے قائم ہوئے تو یورپین تاجروں کے توسط سے بیمہ اسلامی ملکوں میں داخل ہوا اور اس کے بارے میں علمائے وقت سے استفسارات شروع ہوئے۔ چنانچہ تیرہویں صدی ہجری کے مشہور فقیہ علامہ ابن عابدین ردالمختار میں تحرکر کرتے ہیں:

وبما قررنا لایظھر جواب ما کثر السوال عنہ فی زماننا، وھو انہ جرت العادۃ ان التجار اذا استاجروا مرکبا من حربی یدفعون لہ اجرتہ ویدفعون ایضا مالا معلومًا لرجل حربی مقیم فی بلادہ یسمی ذلک المال ’’سوکرہ‘‘ علی انہ مھما ھلک من المال الذی فی المرکب بحرق او غرقٍ او نھبٍ اوغیرہ فذالک الرجل ضامن لہ بمقابلۃ مایا خذہ منھم ولہ وکیل عنہ مستامن فی دارنا یقم فی البلاد السواحل الاسلامیۃ باذن السلطان یقبض من التجار مال السوکرہ واذا اھلک من مالھم فی البحر شیئ یؤدی ذالک المستامن متجار بدلہ تماما (رد المختار ،باب المستأمن ، ص ۳۴۵، ج۳)۔

ترجمہ :اور ہماری اس تقریر سے اس سوال کا جواب بھی ظاہو گیا جس کے بارے میں آج کل کثرت سے سوالات کیے جارہے ہیںکہ اب طریقہ یہ ہوگیا ہے کہ تاجر جب کسی حربی (دارالحرب کے باشندہ)سے کوئی بحری جہاز کرایہ پر لیتے ہیں تو اس کا کرایہ ادا کرنے کے ساتھ ہی دارالحرب کے کسی بادشاہ کو جو اپنے علاقہ میں مقیم رہتا ہے کچھ رقم اس شرط پر دے دیتے ہیں کہ جہاز میں لدے ہوئے مال کے آتش زدگی، غرقابی اور لوٹ مار ہوجانے کی صورت میں یہ شخص مال کا ضامن ہوگا اور رقم کو ’’سوکرہ‘‘ (بیمہ کی رقم) کہا جاتا ہے اس کا ایجنٹ ہمارے ملک کے ساحلی علاقوں میں شاہی اجازت نامہ کے بعد مستامن (۱) بن کر رہتا ہے جو تاجروں سے بیمہ کی رقوم وصول کرتا ہے اور مال کے ہلاک ہوجانے کی صورت میں تاجروں کا پورا پورا معاوضہ ادا کرتا ہے۔

واضح ہو علامہ موصوف کے فتوے کو تو ہم بعد میں ذکر کریں گے، لیکن عبارت مندرجہ بالا سے معلوم ہوا کہ بیمہ بحری کو اس زمانہ میں اچھا خاصہ فروغ ہوچکا تھا۔ یورپی ملکوں سے جو جہاز کرایہ پر لیے جاتے تھے، ان کا لازمی طور پر بیمہ کرایا جاتا تھا۔ بیمہ کمپنیوں کا عمل دخل ترکی حکومت میں جاری تھا۔ بیمہ کمپنیوں کے ایجنٹ ترکی کی بندرگاہوں پر باضابطہ سلطانی اجازت کے بعد مقیم تھے اور انہوں نے اپنے دفاتر قائم کرلیے تھے، یہاں تک کہ علمائے وقت کے پاس اس بارے میں کثرت سے سوالات آنے لگے۔ کتب فتویٰ (۲)میں ردالمختار غالباً پہلی کتاب ہے جس میں بیمہ کے بارے میں تفصیل سے جواب دیا گیا ہو۔

بیمہ کی ابتداء جس جذبہ کے تحت ہوئی اور جس طرح وہ ارتقاء کے مختلف ادوار سے گذرا وہ سب کے سامنے ہے، لیکن اس کا انجام فاضل جلیل استاد ابوزہرہ کے الفاظ میں قابل ملاحظہ ہے:

ا’’گرچہ اس کی اصلیت تو تعاون محض تھی لیکن اس کا انجام بھی ہر اُس ادارہ کا سا ہوا جو یہودیوں کے ہاتھ میں پڑا کہ یہودیوں نے اس نظام کو جس کی بنیاد تعاون علی البردالتقویٰ پر تھی ، اسے ایک ایسے یہودی نظام میں تبدیل کردیا جس میں قمار (جوا) اور ربوا (سود) دونوںپائے جاتے ہیں(لواء الاسلام ،بحوالہ ماہنامہ برہان ،دہلی ،بابت مارچ ۱۹۶۰ء)۔

انشورنس (بیمہ) کے متعلق چندفقہی آراء اورموقف

بیمہ کے سلسلہ میں ہندو پاک میں اجتماعی رائے حاصل کرنے کی باقاعدہ کوشش تو یہی نظر آتی ہے جو مجلس’’تحقیقات شرعیہ‘‘ ندوۃ العلماء لکھنؤ نے شروع کی ہے، لیکن مصر و شام میں اس پر علمی بحثیںمدت سے جاری ہیں۔ وہاں بیمہ کے نظام کو سمجھانے کے لیے کئی کتابیں (۳)بھی لکھی جاچکی ہیں۔

مصرمیں تین چار سال قبل مسائل جدیدہ پر غور و فکر کرنے کے لیے ایک مجلس ترتیب دی گئی جس میں استاذ ابوزہرہ، استاذ حلاف اور دیگر علماء شریک ہوئے۔ اس کے پہلے جلسہ میں جو مفتی اعظم فلسطین سیدامین الحسینی کی زیرصدارت منعقد ہوا تھا بیمہ کا مسئلہ پیش کیا گیا۔ اس جلسہ کی پوری روداد مجلہ لواء الاسلام قاہری میں چھپی تھی (۴)،پھر شام کے مشہور فاضل مصطفی الزرقاء نے مجلہ حضارۃ الاسلام (دمشق) کے صفحات پر ’’عقد التامین و موقف الشریعۃ ‘‘ کے عنوان سے بحث چھیڑی اور علماء کو دعوت دی کہ وہ اس مسئلہ پر خامہ فرسائی کریں۔ چنانچہ استاذ ابوزہرہ نے استاذ الزرقاء کے جواب میں نہایت مدلل مقالہ سپرد قلم فرمایا۔

استاذ الزرقاء کے مضمون سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علماء مصر و شام اس مسئلہ میں مختلف الخیال ہیں، اگرچہ اکثریت کا یہی خیال ہے کہ بیمہ ناجائز ہے اور جب تک کہ بیمہ کے موجودہ نظام کو تبدیل نہ کیا جائے مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں۔ مختلف الخیال حضرات کی آراء اور ان کے دلائل کا خلاصہ ذیل میں درج ہے:

انشورنس(بیمہ ) کو مطلقاجائز کہنے والوں کے دلائل

ایک مختصر سی تعداد کا خیال ہے کہ ہر قسم کا بیمہ جائز ہے۔ یہ حضرات بیمہ کے موجودہ نظام کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی حلت اور جواز کے قائل ہیں۔ ان حضرات کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے۔

(الف) بیمہ امداد باہمی کی ایک شکل ہے۔ تعاون اور امداد باہمی اسلامی حکم ہے۔

(ب) جس طرح بیع بالوفاء کو گوارا کرلیا، اسی طرح اس کو بھی گوارا کرلیا جائے۔

(ج) بیمہ کمپنی ضرورت مندوںکو جو قرض دیتی ہے اور اس پر جو سودلگاتی ہے یا بیمہ دار کو اصل مع منافع دیا جاتا ہے وہ شرعی ربوا (سود) نہیں ہے۔

انشورنس(بیمہ ) کو مشروط جائز کہنے والوں کے دلائل

دوسرا گروہ جس کی قیادت استاذ الزرقا کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا خیال ہے کہ غیرسودی بیمہ جائز ہے۔ بیمہ میں اگر قباحت ہے تو وہ سود ہے، اس کو ختم کرنے کے بعد بیمہ کی ہمہ اقسام جائز ہیں۔ ان حضرات کے دلائل کا تجزیہ اس طرح کیا جاسکتا ہے:

(الف)عقد موالاۃ پر قیاس (۵) کہ اس میں ایک غیر شرعی دیت وغیرہ کی ذمہ داری قبول کرلیتا ہے اور اس کے معاوضہ میں میراث کا حصہ دار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح بیمہ کو بھی سمجھ لیا جائے۔

(ب) ودیعۃ باجر(۶) اور مسئلہ ضمان خطرالطریق (۷) میں بیمہ کی بعض صورتوں کو داخل کیا جاسکتا ہے۔

(ج) مالکیہ کے نزدیک اگر کوئی شخص کسی سے وعدہ کرے بدوں کی عقد کے تو وہ وعدہ لازم ہوجاتا ہے اور نقصان کی صورت میں وعدہ کرنے پر معاوضہ نقصان ضروری ہوتا ہے(۸)۔

انشورنس(بیمہ ) کو مطلقا ناجائز کہنے والوں کے دلائل

تیسرا گروہ جس کی قیادت استاذ ابوزہرہ کے ہاتھ میں ہے، اس کا قائل ہے کہ بیمہ مطلقاً ناجائز ہے،خلاصہ دلائل یہ ہے:

۱- بیمہ اپنی اصل وضع میںیا تو قمار ہے جب کہ مدت مقررہ کے اختتام کے قبل ہی بیمہ دار کی موت واقع ہوجائے ،یا ربوا ہے جب کہ کل اقسام کی ادائیگی کے اختتام کے قبل ہی بیمہ دار کی موت واقع ہوجائے یا ربوا ہے جب کہ کل اقساط کی ادائیگی کے بعد بیمہ دار بیمہ شدہ رقم مع منافع حاصل کرے۔ قمار اور ربوا دونوںحرام ہیں۔

۲- بیمہ میں صفقتان فی صفقۃ (۹)پایا جاتا ہے۔ اس کی مخالفت نص حدیث سے ثابت ہے اور اس کی ممانعت پر ائمہ اربعہ کا اتفاق و اجماع ہے۔

۳- بیمہ سے نظام میراث درہم برہم ہوجاتا ہے، کیونکہ بیمہ دار کے نامزد کردہ شخص کو بیمہ کی رقم دی جاتی ہے، جبکہ ہر شرعی وارث مال متروکہ کا حقدار ہے۔

۴- عقد صرف (۱۰)ہے۔ جس میں مجلس میں قبضہ ضروری ہوتا ہے اور یہاں یہ شرط مفقود ہے۔

۵- عقیدہ تقدیر پر ایمان کا تقاضا ہے کہ پیش آنے والے حوادث اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیے جائیں اور یہاں بیمہ کرانے والے اس عقیدہ سے فرار کرتے ہیں، کیونکہ وہ پہلے سے حوادث و موت کے پیش بندیاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

بیمہ کے بارے میں علامہ ابن عابدین شامی کا فتویٰ

اب ہم علامہ ابن عابدین شامیؒ کے فتویٰ کی تلخیص درج کرتے ہیں۔ واضح ہو کہ یہ مسئلہ ’’مستامن‘‘ کے باب میں ذکر کیا گیا ہے۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ان تاجروں کو ہلاک شدہ مال کا معاوضہ لینا جائز نہیں ہے، کیونکہ التزام مالا یلزم (۱۱) کی صورت ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ امانت رکھنے والا،امانت کی حفاظت پر اجرت وصول کرلے اورمال ضائع ہوجائے تو وہ ضامن ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بیمہ کے مسئلہ کو اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہاں مال بیمہ کمپنی کی تحویل میں نہیں ہوتا بلکہ بحری جہاز کے مالک یا اس کے ملازموں کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اور اگر یہ صورت ہو کہ بیمہ کمپنی کا جہاز بھی ہو تب بھی ہلاک شدہ مال کا معاوضہ لینا جائز نہیں ہوگا(۱۲)، کیونکہ اس صورت میں بیمہ کمپنی اجیر مشترک سمجھی جائے گی جس نے حفاظت مال اور مال لے جانے دونوں کی اجرت لی ہے اور ظاہر ہے کہ اجیر مشترک ناگہانی آفات سے مال تلف ہوجانے کی صورت میں ضامن نہیں ہوتا۔

اگر یہ کہا جائے کہ باب الکفالۃ میں ایک مسئلہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص سے کہا کہ اس راستہ پر سفر کرو راستہ قابل اطمینان ہے۔ شخص مذکور نے راستہ پر سفر کیا۔ سفر میں مال ضائع ہوگیا تو اطمینان دلانے والا شخص ضامن نہیں ہوگا۔ برخلاف اس کے اگر اس نے ضمانت کے الفاظ بولے اور کہا کہ تیرا مال چھیننے کی صورت میں ضامن ہوں۔ راستہ میں مال چھین لیا گیا تو ضمانت دینے والا نقصان کا معاوضہ دے گا۔ شارح یعنی صاحب درمختار (۱۳) نے دونوں مسئلوں میں فرق اس طرح کیا ہے کہ دوسرے مسئلہ میں ضمانت کے الفاظ صراحتاً پائے جاتے ہیں، کیونکہ ’’انا ضامن‘‘ (میں ضامن ہوں)لفظوں میں موجود ہے اور پہلے مسئلہ میں اس طرح نہیں ہے۔ جامع الفصولین (۱۴) میں وجہ فرق اس طرح بیان کی ہے:

کلیہ قاعدہ یہ ہے کہ غرر (۱۵) میں آنے والا، غرر دینے والے سے ضمان اس وقت لے گا جب کہ غرر کسی عقد معاوضہ کے ضمن میں پایا جائے یا دھوکہ دینے والا دھوکہ دیے گئے شخص کے حق میں صفت سلامتی کا ضامن ہو۔ مثلاً ایک شخص کسی چکی والے کے پاس گیہوں پسانے کے لیے لایا۔ چکی والے نے اس سے کہاکہ اس برتن میں ڈال دو۔ اتفاق سے برتن میں سوراخ تھا اور چکی والا اس سے واقف بھی تھا۔ تب بھی اس نے گیہوں برتن میں ڈالنے کے لیے کہہ دیا۔ گیہوں سب ضائع ہوگئے۔ چکی کا مالک نقصان کا ضامن ہوگا کیونکہ اس نے عقد اجارہ کے ذیل میں دھوکہ دیا، حالانکہ معاملہ کا تقاضا یہ تھا کہ مال کی حفاظت رہے۔

ضامن کو نقصان کا ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے ضروری شرائط وقیود

میں کہتا ہوں کہ اس مسئلہ میں قید ضروری ہے کہ دھوکہ دینے والا نقصان سے واقف ہو اور دوسرا شخص اس سے واقف نہ ہو۔ اب ظاہر ہے کہ بیمہ کمپنی کا مقصد تاجروں کو دھوکہ دینا نہیں ہوتا اور نہ ان کو جہاز کے ڈوب جانے یا آگ لگنے وغیرہ کا علم ہوتا ہے۔ رہا عام خطرہ تو وہ تاجر اور بیمہ کمپنی دونوں کو ہوتا ہے،کیونکہ تاجر بیمہ کراتے ہی اس وقت ہیں جب اُن کو خطرہ ہو اور ہلاک شدہ مال کا معاوضہ لینے کی طمع ہو، لہٰذا بیمہ کے مسئلہ کو اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا (۱۶)۔ البتہ اگر مسلمان تاجر کا کوئی حربی شریک ہو اور وہ دارالحرب میں بیمہ کمپنی سے معاملہ طے کرے اور مال ہلاک ہونے کی صور ت میں معاوضہ کی رقم میں کچھ مسلمان تاجر کا بھی حصہ لگالے و یہ رقم مسلمان کے لیے حلال ہے، کیونکہ ’’عقد فاسد‘‘ دارالحرب میںرہنے والے دو شخصوں کے درمیان ہوا ہے اور دارالحرب والوں کا مال ان کی رضامندی سے مسلمانوں کو پہنچا ہے، لہٰذا اس کے لینے میں کوئی امر مانع نہیں ہے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مسلمان تاجر دارالحرب میں ہوتا ہے اور ہوں اس کے سامنے یہ معاملہ طے کرتا ہے اور معاوضہ دارالاسلام میں لیتا ہے۔ کبھی اس کے برعکس بھی صورت ہوتی ہے، یعنی معاملہ دارالاسلام میں طے ہوا اور وصولی دارالحرب میں ہوئی۔ پہلی صورت میں معاوضہ لینا جائز ہے، کیونکہ دارالحرب میں ہے کیا ہوا معاملہ کالعدم سمجھا جائے گا اور یہ کہیں گے کہ حربی کا مال اس کی خوشی سے لیا گیا ہے، اس لیے جائز ہے۔ دوسری صورت میں عقد چونکہ دارالاسلام میں قرار پایا ہے، اس لیے عقد پر فساد کا حکم لگایا جائے گا اور معاوضہ لینا ناجائز متصور ہوگا۔

حواشی

(۱) مستامن وہ دارالحر ب کے باشندے جو میعادی اجازت کے بعد دارالحرب سے داراسلام میں آیا ہوا ہو یا وہ دارالاسلام کا باشندہ، جو دارالاسلام سے تجارت وغیرہ کے لیے دارالحرب گیا ہو۔
(۲) بعد کے فتاویٰ میں امداد الفتویٰ مبوب اورفتویٰ دارالعلوم دیوبند میں بھی بیمہ کے سلسلہ میں جوابات دیے گئے ہیں۔
(۳) ڈاکٹر محمد علی عرفہ کی ’’عقد التامین‘‘ اور ڈاکٹر سعد واصف کی ’’اللتامین من المسئولیۃ‘‘ خاصی مشہور کتابیں ہیں۔ شام کے مشہور فاضل اور ’’المدخل الفقہی العام‘‘کے مصنف مصطفی الزرقاء نے نظام بیمہ کے سمجھنے کے لیے ان ہی دو کتابوں کو مدار بنایا ہے۔
(۴) اس کا ارد و ترجمہ ماہنامہ برہان دہلی بابت ماہ مارچ ۶۰ء میں دیکھا جاسکتا ہے۔
(۵) اس سلسلہ میں شیخ الزرقاء نے احمد طٰہٰ السنوسی کے مضمون ی بڑی تعریف کی ہے جو مجلۃ الازہر ۱۳۷۳ھ جلد ۲۵ میں چھپا تھا۔
(۶) ’’ودیعۃ باجر‘‘ کی صورت یہ ہے کہ اپنے مال کو کسی دوسرے شخص کے پاس امانت رکھا جائے اور حفاظت امان کی ’’اجرت‘‘ مقرر کردی جائے۔ اس صورت میں اگر مال ضائع ہوجائے تو امین ضامن ہوتا ہے اور نقصان کا معاوضہ اس کے ذمہ واجب ہے۔
(۷) اس کی شکل یہ ہے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص سے کہا کہ اس راستہ پر سفر کرو، راستہ قابل اطمینان ہے۔ اگر راستہ قابل اطمینان نہ ہوا اور تمہارا مال لوٹ لیا گیا تو میں ضامن ہوں۔ راستہ میں مال لوٹ لیا گیا تو وہ مال کا ضامن ہوگا اور تلافی نقصان کرے گا۔
(۸) یہ مسئلہ مالکیہ کے نزدیک بھی اتفاقی نہیں ہے، مالکیہ کے اس میں تین قول ہیں۔ ایک قول وہی ہے جو اوپر مذکور ہے۔ فتح العلی المالک، ص ۲۲۵ ج ۱-۱۲۔
(۹) یعنی ایک معاملہ کے ختم ہونے سے پہلے اس میں دوسرا معاملہ داخل کردیا جائے
(۱۰) ’’عقد صرف ‘‘روپے کی بیع روپے سے یا سونے چاندی کی آپس میں بیع کو صرف کہتے ہیں۔ اس میں شرط ہے کہ معاملہ کرنے والے مجلس ختم ہونے سے پہلے مال پر قبضہ کرلیں۔
(۱۱) جو چیز قانوناً لازم نہ ہو اس کو اپنے ذمہ لازم کرلینا۔
(۱۲) بعض فقہاء کے نزدیک یہ صورت جائز ہے۔ حضرت مولانا تھانوی ؒ نے بھی جوا ز کا فتویٰ دیا ہے۔
(۱۳) ’’تنویر الابصار ‘‘ایک متن ہے جو شیخ الاسلام محمدبن عبداللہ تمرتاشی کی تصنیف ہے۔ اس کی شرح شیخ محمد بن علی بن محمدحصکفی نے پہلے تو’’ خزائن الاسرار و بدائع الافکار ‘‘کے نام سے تالیف فرمائی جو ابواب الوتر تک دس ضخیم جلدوں میں پہنچی تھی۔ یہ شرح ناتمام رہی۔ پھر دوسری شرح ’’الدرالمختار ‘‘کے نام سے تالیف فرمائی۔ اس شرح کا حاشیہ علامہ ابن عابدین شامی نے ’’ردالمحتار ‘‘کے نام سے تحریر کیا جو علماء کے درمیان متداول معروف ہے۔
(۱۴) اس کے مؤلف شیخ بدر الدین محمود بن اسمٰعیل ہیں جو ’’قاضی سماوہ‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ کتاب صرف معاملات میں ہے۔
(۱۵) ’’ غرر‘‘ کے معنی ہیں کسی کو دھوکہ دینا اور غلط طریقے سے اس کو طمع میں ڈالنا۔ دھوکہ دینے والے کو’’ غار‘‘ اور دھوکہ کھائے ہوئے کو’’ مغرور ‘‘کہتے ہیں۔ غرر کی دو صورتیں ہیں:
۱- غرر قولی: یعنی زبان سے معاملہ میں دھوکہ دے۔ مثلاً یہ بکری دو سیر دودھ دیتی ہے اور وہ اتنانہ دیتی ہو۔
۲-غرر فعلی یعنی فعل سے دھوکہ دینا۔ جیسے گیہوں فروخ کرنے والا خراب گیہوں نیچے کردے اور چھے گیہوں اوپر کردے۔ واضح رہے کہ غرر ’’خطر ‘‘کے معنی میں بھی فقہ کی زبان میں بولا جاتا ہے۔ یعنی ملک کو ایسی چیز پر موقوف کرنا جس کے پائے جانے یا نہ پائے جانے دونوں کا احتمال ہو۔ جس طرح کہ قمار (جوا) میں ہوتا ہے۔ قمارکی علت غرر اور خطر فقہ کی زبان میں بتلائی جاتی ہے۔
(۱۶) علامہ شامی کے زمانہ میں سودی بیمہ نہیں ہوتا تھا اس لیے سود سے بحث نہیں کی ہے۔

ماخوذ از: رسالہ بیمہ زندگی ، صفحہ ۲۸ تا ۳۵۔

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کریں:

3,534 Views

One thought on “انشورنس – بیمہ زندگی: علامہ ابن عابدین شامیؒ کا فتوی، از: مفتی ولی حسن ٹونکیؒ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!