انشورنس: بیمہ زندگی کے متعلق فتوی اور شرعی حل، از مفتی ولی حسن ٹونکیؒ

ترتیب وتدوین: مفتی عمر انور بدخشانی

انشورنس کی مختلف صورتوں کے احکام قرآن وسنت کی روشنی میں

جواب کا پہلا حصہ

ہم اپنے جواب کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلے حصہ کا تعلق نظام بیمہ کی اصلاح سے ہے۔ اس طرح کہ وہ شریعت اسلامیہ کے مطابق ہوجائے۔ ’’تعاون علی الخیر‘‘ کا یہ نظام جو اَب قمار (جوا) اور ربوا (سود) کا مجموعہ نظر آتا ہے اپنی اصلی شکل میں ظاہر ہوکر ان لوگوں کے لیے قابل قبول ہو جو اپنے معاملات کو اسلام کی ہدایت اور روشنی سے درخشاں رکھنا چاہتے ہیں۔

بیمہ کی اصلاح کے قابل قدر اور قابل مذمت کردار

بعض اسلامی ملکوں میں اب اس قسم کی فکر ہورہی ہے کہ سودی نظام سے جس نے ہماری معاشی زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور جس نے قوم کی اجتماعی دولت کو گُہن کی طرح کھا لیا ہے۔ گلوخلاصی کی کوئی صورت نکلے۔ اسی طرح بیمہ کی اصلاح اور اس کو صحیح خطوط پر لانے کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے۔ یہ جذبہ بڑا قابل قدر ہے اور ضرورت ہے کہ ’’اقتصادیات‘‘ کے منتخب ماہرین اور ارباب بصیرت علماء ساتھ بیٹھ کر حلال و حرام کی حدیں پیش نظر رکھ کر بیمہ کاری کا ایسا نظام دریافت کریں جس میں شریعت محمدیہ سے سرموتجاوز نہ ہو۔

عام مسلمانوں سے بھی ہماری گزارش ہے کہ وہ اپنی حکومتوں پر جو اسلام کا نام لیتی ہیں زور دیں اور اُن پر اجتماعی وزن ڈالیں کہ وہ ان کو سود اور قمار کی لعنت سے نجات دلائیں۔ ان سے صاف صاف کہہ دیا جائے کہ اس یہودی نظام نے ہماری دنیا بھی خراب کر رکھی ہے اور آخرت بھی۔ اس کے برعکس یہ طریق کار صحیح نہیں ہے کہ صرف ماہرین شریعت کی طرح رجوع کرکے اُن سے کہا جائے کہ بیمہ کو حلال کردیں یا ضرورت و مجبوری کے نام پر کوئی حیلہ نکالیں۔

اُن علماء کا کردار بھی قابل مذمت ہے جو یورپ کے ماہر اقتصادی نظام کی چند خوبیوں اور خوشنما پہلوئوں کو دیکھ کر جواز اور حلت کا فتویٰ دینے میں نہایت جری ہیں۔ ان حضرات کو قرآن حکیم کی آیت کریمہ ذیل پیش نظر رکھنا چاہیے:

ولا تقولوا لما تصف السنتکم الکذب ھذا حلال وھذا حرام لتفترو علی اللہ الکذب، ان الذین یفترون علی اللہ الکذب لایفلحون (سورۃ النحل)۔

ترجمہ :اور نہ کہو اپنی زبانوں کے جھوٹ بنالینے سے کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹا بہتان باندھو، بلاشبہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھتے ہیں، کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔

انشورنس (بیمہ)جائز کہنے والوں کے سطحی دلائل کا شرعی تجزیہ

مجوزین کے دلائل کا خلاصہ آپ پڑھ چکے ہیں، دلائل کی سطحیت بالکل ظاہر ہے۔ مثلاً اس دلیل کو آپ کیا کہیں گے کہ بیمہ کا سود ’’حلال‘‘ ہے کیونکہ قرض میں سود نہیں ہوتا، ان حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن کریم کی آیت ربوا سودی تجارت اور سودی قرض کے جابلی نظام کو ختم کرنے کے لیے نازل ہوئی تھی۔ جاہلی نظام میں قرض اور تجارت دونوں کے ذریعہ سود لیا جاتا تھا۔ امام ابوبکر الجصاص الرازی احکام القرآن میں لکھتے ہیں:

والثانی انہ معلوم ان ربا الجاھلیہ انما کان قرضًا موجلًا بزیادۃٍ مشروطۃٍ فکانت الزیادۃ بدلًا من الاجل فابطلہ اللہ وحرمہ (احکام القرآن ، ص ۵۵۴،ج۱)۔

ترجمہ :دوسری بات یہ ہے کہ یہ امر بالکل عیاں ہے کہ زمانہ جاہلیت کا سود قرض میعادی کی شکل میں لیا جاتا تھا جس میں زیادتی شرط کرلی جاتی تھی۔ زیادتی میعاد کا بدل ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو باطل قرار دیا اور حرام فرمایا۔

مغنی ابن قدمہ میں ہے کہ امام احمد بن حنبل ؒ سے سوال کیا گیا کہ وہ کون سا ربوا ہے جس کے انکار سے کفر لازم آتا ہے۔ امام موصوف نے جواب دیا:

ھو الزیادۃفی الدین

ترجمہ :’’وہ قرض میں زیادتی (۱)ہے۔‘‘

ربوا کے بارے میں احادیث نبویہ کا حاصل یہی ہے کہ ربوا صرف روپے کے لین دین تک محدود نہیں ہے بلکہ ربوا کے سلسلہ میں بہت سے صورتیں داخل ہیں، حتیٰ کہ اُن صورتوں کو بھی حرام کردیا گیا جن میں ادھا نہیں ہے بلکہ نقد معاملہ ہے، مثلاً ایک تولہ چاندی لے کر دو تولہ چاندے دے دے ،یا ایک من نقد گیہوں دے کر اس کے معاوضہ میں دو من گیہوں نقد لے لے(۲) الغرض حدیث پاک نے ربوا کےریشے بھی اسلام کے معاشی نظام سے نکال کر پھینک دے تاکہ اسلامی معاشرہ اس نجاست سے بالکل صاف و پاک ہوجائے۔

فقہ حدیث کی شرح ہے جس طرح حدیث قرآن کریم کی۔ اس لیے کہ فقہاء کرام نے ان ہی صورتوں کی تفصیلات مرتب کی ہیں جو حدیث میں بیان کی گئی تھیں۔ اس لیے فقہ کی کتابوں میں سود کے مباحث دیکھ کربعض نام نہاد علماء اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ قرآن نے جس سود کو حرام کیا ہے وہ قرض والا سود نہیں ہے بلکہ خرید و فروخت کی چند نادر شکلوں میں سود پایا جاتا ہے جو ایام جاہلیت میں مروجہ نہیں اور جن کا ذکر فقہ کی کتابوں میں کیا گیا ہے۔

بعض نے وتعاونوا علی البر والتقویٰ اور لایظلمون ولا یظلمون(دیکھیے :فتاوی شلتوت ، ص: ۳۵۰-۳۵۲) اس قسم کی عمومی آیات سے استدلال کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات ربوا اور مسیر (جوے) کی آیات کو بالکل بھول گئے ہیں۔ دلائل خصوص کے ہوتے ہوئے دلائل عموم سے سہارا لینا قابل تعجب ہے۔

بیمہ کس لیے؟

شروع میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ بیمہ کی ابتداء نہایت سادہ تھی اور اس کا مقصد بھی صرف یہی تھا کہ نقصان زدہ تاجروں کو مالی امداد دی جائے، یا اس طرح کہہ لیجیے کہ ایک فرد کی مصیبت کے بار کو بہت سے افراد پر پھیلا دیا جائے۔ اس طرح کہ ہر ایک کو ایک خفیف سی قربانی دینا پڑے، لیکن اس قربانی کے عوض جملہ افراد کو مصیبت و آفت کے وقت تعاون حاصل ہو۔ تعاون علی الخیر کا یہ جذبہ بڑا قابل قدر ہے۔ قرآن کریم نے اس جذبہ کو متعدد آیات میں ابھارا ہے اور حدیث نبوی میں اس کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔

بیمہ کرانے والے شخص کے پیش نظر دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس شخص کے انتقال کے بعد اس کے بیوی بچوں کو تکلیف اٹھانا نہ پڑے۔ اس مقصد کوبھی ہم اسلامی نقطہ نگاہ سے غلط نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ تعلیم نبوی اس کو صحیح اور بہتر قرار دے رہی ہے۔ سرکارکائنات ﷺ ایک صحابی ؓ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

انک ان تدع ورثعک اغنیاء خیر من ان تدعھم عالۃ یتکففون الناس

ترجمہ:’’تمہارا اپنے ورثاء کو غنی چھوڑنا اس سے کہیں بہتر ہے کہ ان کو ایسا محتاج چھوڑو کہ وہ لوگوں سے سوال کرتے پھریں۔‘‘

اسی طرح آنحضرت ﷺ نے ازواج مطہراتؓ سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:

ان امر کن مما یھمنی من بعدی(مشکوۃ المصابیح ،ص۵۶۷،ج۲)۔

ترجمہ:تمہارے معاملہ نے مجھ کو فکر میں ڈال رکھا ہے کہ تمہاری گذر میرے بعد کیونکر ہوگی (یعنی میں نے کوئی میراث نہیں چھوڑی ہے اور تم نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی ہے)۔

اپنے دنیا سے چلے جانے کے بعد بیوی بچوں کی فکر ایک فکری داعیہ ہے۔ اس لیے اسلام نے ان کو ختم نہیں کیا ،بلکہ اس کی ہمت افزائی کی ہے۔ اسلام کی خصوصیت ہے کہ وہ فطری اور جبلی دواعی کوختم نہیں کرتا بلکہ اُن کے لیے مناسب اور جائز راہیں تجویز کرتا ہے۔

بیمہ کے بنیادی مقاصد اوران کا شرعی حل

طالب بیمہ کے حسب ذیل مقاصد بیان کیے جاتے ہیں:

۱- اس کا سرمایہ محفوظ رہے۔

۲- اضافہ مال بذریعہ سود یا تجارت۔

۳- حوادث کی صورت میں مالی معاونت۔ موجودہ زمانہ میں حادثوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ آئے دن ہولناک قسم کے حوادث ہوتے رہتے ہیں، جن میں جانی اور مالی دونوں قسم کے حوادث سے بے اندازہ نقصان ہوتا ہے۔

۴- پسماندگان کی مالی امداد۔

اب ان کا ترتیب وار حل درج ذیل ہے:

بیمہ کے پہلے اور دوسرے مقصد کی تکمیل : غیر سودی بینکاری

۱،۲-ان دونوں باتوں کا حل یہی ہے کہ غیر سودی بینک جاری کیے جائیں جن کی اساس شرکت اور مضاربت(۳) پر قائم کی جائے۔ اس طرح سرمایہ کی حفاظت بھی ہوگی اور مال میں بھی جائز طریقوں سے اضافہ ہوتا رہے گا۔ اسلام کے معاشی نظام کا جس شخص نے بغور مطالعہ کیا ہوگا وہ ضرور اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اسلام ’’ارتکاز دولت‘‘ کا حامی نہیں ہے کہ روپیہ ایک جگہ جمع کردیاجائے اور بدون تجارت اس سے منافع حاصل کیا جائے۔ روپیہ سے روپیہ حاصل کرنا اسلام کے نقطہ نظر سے صحیح نہیں ہے۔ سرمایہ میں جو لوگ اضافہ چاہتے ہیں اُن کے لیے تجارت کی شاہراہ کھلی ہوئی ہے۔ تجارت سے سرمایہ دار کو بھی فائدہ کہ سرمایہ میں اضافہ ہوتا رہے گا اور زکوٰۃ دولت کو ختم نہیں کرے گی اور ملک و قوم کا بھی فائدہ ہے کہ تجارت کو فروغ ہوگا۔ سرمایہ تجوریوں سے نکل کر منڈیوں اور بازاروں میں پہنچے گا۔ صنعت اور انڈسٹری کی کثرت ہوگی۔ مزدوروں اور ملازمت پیشہ لوگوں کو کام ملے گا۔ واضح رہے کہ اسلام اپنے معاشی نظام کی بنیاد زکوٰۃ پر رکھتا ہے برخلاف سرمایہ دارانہ نظام کے کہ وہاں سود ریڑھ کی ہڈی کا حکم رکھتا ہے۔ قرآن کریم نے اسلام کے معاشی نظام کو مختصر سے مختصر لفظوں میں اس طرح سمجھایا ہے:

کی لایکون دولۃ بین الاغنیاء ( سورۃ الحشر)۔

ترجمہ:’’تاکہ نہ آئے لینے دینے میں صرف دولت مندوں کے تم میں سے۔‘‘

آیت کریمہ کا حاصل یہ ہے کہ یہ مصارف (اس سے پہلے مصارف بتلائے گئے ہیں)۔ اس لیے بتلائے ہیں کہ ہمیشہ یتیموں، محتاجوں، بے کسوں اور عام مسلمانوں کی خبرگیری ہوتی رہے اور عام اسلامی ضروریات سر انجام پاسکیں۔ یہ اموال محض چند دولت مندوں کے الٹ پھیر میں پڑ کر ان کی مخصوص جاگیر بن کر نہ رہ جائیں جس سے صرف سرمایہ دار اپنی تجوریوں کو بھرتے رہیں اور غریب فاقوں سے مریں۔

غیر سودی بینکاری ایک حقیقت ہے مگر کیسے؟

غیر سودی بینک کا اجراء کوئی محض تخیلی چیزنہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے، جس کو بڑی آسانی سے بروئے کار لایا جاسکتا (۴)ہے۔ یورپ کی ذہنی غلامی نے دماغوں پر یہ عقیدہ مسلط کردیا ہے کہ سود کے بغیر معاشی نظام چل ہی نہیں سکتا۔ ان حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج بھی کچھ ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہیں بلکہ ان کی معاشی حالت سودی نظام اور بینکنگ کا سارا کاروبار موجود نہیں ہے اور بایں ہمہ وہ ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہیں بلکہ ان کی معاشی حالت سودی ملکوں سے زیادہ بہتر ہے۔ اگر کچھ اسلامی حکومتیں ہمت کرکے سود کے اس نظام سے نجات حاصل کرلیں تو بین الاقوامی طور پر بھی اس کا اثر ہو۔ بینک آف انگلینڈ قسم کے بین الاقوامی بینک ان ملکوں کو غیر سودی کاروبار کی سہولتیں مہیاکریں اور لوگوں کا یہ عذر کہ ہم سود کے بغیر بین الممالک تجارت کس طرح کرسکتے ہیں، ختم ہوجائے۔

بیمہ کے تیسرے مقصد کی تکمیل: باہمی امداد و تعاون

۳-’’دنیا حوادث کی آماجگاہ ہے۔‘‘ یہ مقولہ پہلے بھی صادق تھا اور اب تو ایسی حقیقت بن چکا ہے جس سے انکار ناممکن ہے۔ روزانہ حادثے ہوتے رہتے ہیں، جن میں جانی اور مالی دونوں قسم کے نقصانات ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کل تک ایک بھلا چنگا آدمی ہاتھ پیروں سے صحیح و سالم تھا، آج اچانک کسی حادثے کی زد میں آگیا اور اپاہج ہوکر رہ گیا۔ اس اپاہج انسان کے ساتھ اس کا خاندان بھی مصائب و حوادث کا شکار ہے۔ نہ پیٹ بھرنے کو روٹی ہے اور نہ تن ڈھانپنے کو کپڑا رہا۔ اسی طرح ایک بڑا صنعت کار جو کل تک ایک بڑی انڈسٹری کا مالک تھا، اچانک کارخانہ میں آگ لگ گئی، مشینری اور سارا سامان جل کر راکھ ہوگیا اور وہ اب نانِ جویں کو بھی محتاج ہے۔ پھر ہر روز بسوں،موٹروں کے حادثے ہماری زندگی کا روزمرہ بن چکے ہیں۔ آخر ان نقصانات کی تلافی کس طرح ہو اور اس کا حل شریعت اسلامی میں کیا ہے؟

اس کا حل یہی ہے کہ امدادباہمی اور تعاون علی الخبرکے جذبہ کے تحت ایسے ادارے قائم کیے جائیں جو ارباب خیر اور مال داروں سے عطیات وصول اور ان سے جمع شدہ رقوم کو تجارت اور انڈسٹری میں لگائیں۔ ان اداروں کا کام یہ ہو کہ وہ تحقیق حال کے بعد نقصان زدہ افراد اور خاندانوں کی مالی امداد کریں۔ اس سلسلہ میں ’’عام ادارے‘‘ بھی بنائے جاسکتے ہیں اور ’’خاص‘‘ بھی۔ خاص کی یہ صورت ہو کہ تاجر اپنا الگ ادارہ بنائیں اور صنعت کار اپنا الگ۔

اسلامی حکومت اگر اس سلسلہ میں جبر کرنا چاہے تو جبربھی کرسکتی ہے کیونکہ حکومت کو زکوٰۃ کے علاوہ بھی بعض صورتوں میں رعایا سے جبر عطیات وصول کرنے کا حق ہے:

فان ارید بھا مایکون بحق ککری النھر المشترک و اجر الحارس والموظف لتجھیز الجیش وفداء الاساری وغیرھا جازت الکفالۃ بھا علی الاتفاق( ہدایۃ باب الکفالۃ، ص ۱۰۹ ج ۳)۔

ترجمہ:اگر اس سے وہ ٹیکس مراد ہیں جو جائز اور صحیح ہیں اور جیسے مشترک نہر کا کھودنا، پولیس کی تنخواہ یا فوج کا انتظام والوں کی تنخواہ، جو سب پر ڈال دی جائے یا قیدیوں کو کافروں کی قید سے چھڑانے کے لیے عطیات تو اتفاقاً ان کی کفالت کی جاسکتی ہے۔

’’ضرر عام‘‘ ،’’ضرر خاص‘‘ سے مقدم ہے۔ یہ بھی تو اسلامی قانون کا اصول ہے اور ان تعارفی اداروں کے علاوہ دوسرا اقدام یہ ہو کہ معاقل کے اسلامی نظام کو پھر سے اسلامی معاشرہ میںجاری کیا جائے۔

معاقل کا اسلامی نظام:عاقلہ کیا اور کون ؟

معاقل، معقلۃ کی جمع ہے۔ ’’خون بہا‘‘ کو کہتے ہیں۔ ’’عقل‘‘ کے معنی روکنے اور منع کرنے کے ہیں اور دیت کے طریق کار سے لوگوں کی جانیں مفت میں چلی جانے سے محفوظ ہوجاتی ہیں۔ اس لیے خون بہا کو عقل کہتے ہیں اور ’’عاقلۃ ‘‘اس جماعت کو کہتے ہیں جو قاتل کی طرف سے اجتماعی طور پر ’’خون بہا‘‘ ادا کرتی ہے۔

ہجرت کے بعد جب رسول اللہ ﷺ نے انصار اور مہاجرین کے درمیان ’’بھائی چارہ‘‘ قائم کرایا تو ایک دستاویز بھی تحریر فرمائی، جس میں دونوں کو ایک جماعت قرار دے کر حوادث اور نقصانات کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالی،محدث کبیر ابن ابی شیبہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے:

کتب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کتابًا بین المھاجرین والانصار ان یعقلوا معاقلھم وان یفدوا عاینھم بالمعروف والاصلاح (نصب الرایہ، للزیلعی، ج ۴)۔

ترجمہ :جناب رسول اللہ ﷺ نے انصار اور مہاجرین کے لیے ایک تحریر لکھوائی جس میں یہ تھا کہ انصار اور مہاجرین ایک دوسرے کی دیت ادا کریں گے اور اگر کوئی قید ہوجائے تو اس کا فدیہ ادا کریں گے قاعدہ قانون اور اصلاح باہمی کے طریق پر۔

قبائلی سسٹم میں ’’قبیلہ‘‘ عاقلہ سمجھا جاتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے جب دواوین کو ترتیب دیا تو ’’اھل الدیوان‘‘ عاقلہ قرار پائے۔ پیشوں کی بنیاد پر بھی ایک پیشہ والوں یعنی برادری کو عاقلہ قرار دیا جاسکتا ہے:

ولھذا اقالوا لو کان الیوم قوم تناصرھم بالحرف قعاقتلتھم اھل الحرفۃ ( ہدایہ کتاب المعاقل، ص ۶۱۲ ج ۴)۔

ترجمہ :اسی بناء پر مشائخ نے فرمایا ہے کہ اگر آج کل تناصر، اعانت باہمی پیشوں کی طریق پر رائج ہوتا ہوتو ایک پیشہ میں منسلک افراد (برادری )عاقلہ قرار دیے جائیں گے۔

عاقلہ پر ذمہ داری کیوں؟

عاقلہ پر ذمہ داریاں ڈالنے کی غرض و غایت اور اس کی حکمت امام سرخسی اور طرح بیان کرتے ہیں۔عاقلہ پر ذمہ داریاں ڈالنا عقلی طور پر یوں سمجھئے:

قاتل جب فعل قتل کا ارتکاب کرتا ہے تو اس اقدام میں خارجی قوت و طاقت کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ قتل کی پاداش میںجب میں پکڑا جائوں گا تو میرے حمایتی (قبیلہ یا برادری) میری مدد کو پہنچیں گے۔ اب حمایت و نصرت کے چند اسباب ہوتے ہیں۔ کبھی یہ اہل دیوان کی یکجہتی پر مبنی ہوتی ہے، کبھی قبیلوں اور خاندان والوں کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ کبھی محلے اور پیشوں کی بناء پر ہوتی ہے۔ چونکہ قاتل ضرورت کے وقت ان سے ہی قوت و طاقت حاصل کرتاہے، اس لیے خون بہا بھی ان ہی پر لگایا جائے گا تاکہ یہ لوگ اپنے میں ناسمجھ اور بے وقوف لوگوں کو اس قسم کی حماقتوں سے روکیں۔ خون بہا کا مال بھی کافی مقدار میں ہوتا ہے۔ اس لیے سب پر ڈالنے سے وصولی میں بھی آسانی ہوجاتی ہے۔ ہر ایک شخص ادا بھی اس خیال سے کردیتا ہے کہ اگر مجھ سے بھی اس قسم کا فعل سرزد ہوگیا تو یہی لوگ میرا خون بہا ادا کردیں گے۔( المبسوط للسرخی، ص ۶۶ ،ج ۲۶)۔

اسی طرح اگر کسی مقام پر کوئی مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چل سکے تو وہاں کی آبادی ازروئے شرعی اجتماعی طور پر اس کاخون بہا ادا کرتی ہے۔

لہٰذا ان مسائل کی روشنی میں ایسا طریق کار اختیار کیا جاسکتا ہے کہ حادثات کی صورت میں ہر پیشہ کا عاقلہ (برادری یا یونین) خون بہا ادا کرے۔ مثلاً بسوں اور ٹرکوں کے مالک ایک عاقلہ قرار دیے جائیں۔ کسی کی بھی بس سے کوئی جانی یا مالی نقصان ہو جائے تو ان کی انجمن ادائیگی نقصان کی ذمہ دار ہو۔ اس سلسلہ کو دوسرے پیشوں اور حرفوں تک بھی پھیلایا جاسکتا ہے اور ان کے قواعد و ضوابط بنائے جاسکتے ہیں۔ عاقلہ پر ذمہ داری یقینا ان حوا دث میں کمی کا باعث بھی بن سکتا ہے جبکہ حوادث میں بے پنا اضافہ ہوگیا ہے اوردن بہ دن ہورہا ہے اور اب تو انشورنس کے نظام کی وجہ سے یہ عالم ہوگیا ہے کہ لوگ خود اپنی موٹروں، بسوں، ٹرکوں کو حادثہ کا شکار بنانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس طریقہ سے بیمہ کمپنی سے معقول رقم وصول کی جائے۔ رہی قانونی گرفت تو اس سے بچنے کی راہیں تو ملک کے نرم قوانین اور پھر وکلاء کی موشگافیوں نے بڑی حد تک ہموار کر رکھی ہیں۔

بیمہ کے چوتھے مقصد کی تکمیل: ریاست کی ذمہ داری

۴-چوتھا مقصد بیمہ کا یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے ذریعہ پسماندگان کی مالی امداد بڑی حد تک ہوجاتی ہے۔ لوگ بیمہ اس لیے کراتے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی اولاد کسمپرسی کے عالم میں مبتلا نہ ہو۔ اس مقصد کے سلسلہ میں عرض ہے کہ اگر کسی جگہ اسلامی نظام معیشت کی ترویج صحیح معنی میں ہو تو کوئی باپ اپنے مرنے سے اس لیے خوفزدہ نہیں رہ سکتا کہ میرے مرنے کے بعد میری اولاد مصیبتوں کا شکار ہوگی، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسلام کے دستور مملکت میں یہ دفعہ بھی شامل ہے:

حدثنا محمود قان اخبرنا اسرائیل عن ابی حصین عن ابی صالح عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انا اولی بالمومنین من انفسھم فمن مات وترک مالا قمالہ الموالی العصبۃ ومن ترک کلا او ضیاعًا فلا دع لہ (بخاری، ص ۹۹۹ ج ۳)۔

ترجمہ :حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں مومنین سے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہوں، لہٰذا جو شخص مال چھوڑ کر مرے تو وہ مال تو اس کے عصبات کا ہے اور جو شخص عاجز و درماندہ قرابت دار اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑے تو مجھے اس کے لیے بلایا جائے۔

نہ صرف شخص متوفی کے پسماندگی کی مالی امداد سلامی حکومت کے ذمہ ہے، بلکہ اگر اس پر کسی کا قرض بھی ہو تو اس کو بارآخرت سے سبکدوش کرانا اور قرض خواہ کو اُس کا حق دلوانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ سرور کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:

فمن مات وعلیہ دین ولم یترک وفاءً فعلی قضاء ہ ( سنن ابی داؤد و مسند احمد)۔

ترجمہ :پس جس شخص نے انتقال کے بعد قرض چھوڑااور اُس کی ادائیگی کا کوئی سامان نہیں ہے تو میرے ذمہ اس کی ادائیگی ہے۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ عام ناداروں اور غریبوں کی کفالت بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں میں داخل ہے۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے بعض وقت قرض لے کر ناداروں اور رغریبوں کی دادرسی فرمائی اور ان کو ننگا بھوکا نہیں رہنے دیا۔ حضرت بلال ؓ عہد رسالت میں اس ادارہ کے نگران تھے۔ ابودائود اور بیہقی نے بلال ؓ کی زبانی یہ روایت بیان کی ہے:

وکنت انا الذی الی ذلک عنہ منذ بعثہ اللہ الی حین توفی وکان علیہ السلام اذا اتاہ الانسان مسلمًا بیراہ عادیا یا مرنی فانطلق فاستقرض فاشتری لہ البردۃ فاکسوہ واطعمہ ( التراتیب الاداریۃ)۔

ترجمہ :اور میں ہی آپ کی بعثت سے لے کر وفات تک اس کا نگران تھا۔ آپ کے پاس اگر کوئی مسلمان ننگا بھوکا آجاتا تھا تو آپ مجھے حکم دیتے تھے، میں جاکر کسی سے قرض لیتا تھا۔ پھر اس رقم سے اس کے لیے کپڑے اور کھانے کا انتظام کرتا تھا۔

اور حضرت بلال ؓ کو رسالت مآب ﷺ کی طرف سے ہدایت تھی:

انفق بلالًا ولا تخش من ذی العرش اقلالًا ( الاشرف لابن المتذر بحوالہ الترتیب الاداریۃ، ص ۴۴۲ ج ۱)۔

ترجمہ :بلال! خوب خرچ کیاکرو اور اللہ تعالی ٰ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے تنگدستی سے نہ ڈرا کرو۔

غلاموں کے اوپر خرچ کرنے میں اگر کسی آقا سے کوئی کوتاہی ہوجاتی تھی تو ان کے اخراجات بھی اس ادارہ کے ذمہ ہوتے تھے۔ مروان بن قیس دوسی کے حالات میں مروی ہے کہ اُن کے اخراجات پورا کرنے میں ہمیشہ بخل سے کام لیتے تھے۔ ان دونوں نے بارگاہ رسالت میں شکایت کی، شکایت سنتے ہی حضرت بلال ؓ کو حکم دیا گیا:

فامر بلالًا ان یقدم بنفقتھا( الاصابۃ ترجمہ مروان بن قیس دوسی)۔

ترجمہ:بلال کو حکم دیا کہ ان دونوں کے نفقہ کا انتظام کریں۔

وصایت کا اسلامی نظام :وصی اوراس کے فرائض وذمہ داریاں

ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ ایک شخص کے پاس مال وغیرہ سب کچھ ہے، لیکن اس کے بچے چھوٹے چھوٹے ہیں، ڈرتا ہے کہ میرے مرنے کے بعد مال متروکہ کو صحیح طریقہ پر خرچ نہیں کیا جائے گا۔ مال کی نگرانی اور اس کی حفاظت میں دشواریاں ہوں گی۔ اس لیے اپنے مال کو بیمہ کمپنی کے سپرد کردیتا ہے، تاکہ مال نقصان سے محفوظ رہے اور بچوں کی ضرورت (تعلیم، شادی وغیرہ) کے موقعہ پر ان کے مصارف پورے ہوتے رہیں۔ اس صورت کا حل ’’وصایۃ‘‘ کے نظم میں موجود ہے، یعنی اس شخص کو چاہیے کہ کسی کو اپنا وصی مقرر کرجائے۔ ’’وصی‘‘ کے باضابطہ فرائض ہیں اور وہ ان کے لیے مسئول ہے، جس کو فقہ کی کتابوں میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اجمالی فرائض کا نقشہ ہدایہ میں اس طرح دیا گیا ہے:

شراء کفن المیت وتجھیزہ وطعام الصغار وکسوتھم ورد الودیعۃ وردالمغصوب والمشتریٰ شراء فاسدًا وحفظ الاموال وقضاء الدیون وتنفیذ الوصیۃ والخصرمۃ فی حق المیت وقبول الھبہ وبیع مایخشی علیہ التویٰ والتلف وجمع الاموال الضائعۃ ( ہدایۃ، ص ۶۷۹ ج ۵ نہایت الادب فی معرفۃ انساب العرب۔)۔

ترجمہ :میت کے کفن کی خریداری اور اس کی تجہیز و تکفین چھوٹے نابالغ بچوں کے خورونوش اور کپڑوں کا انتظام امانت اور غصب کیے ہوئے اموال کی اور بیع فاسد سے خریدے مال کی واپسی، مال و جائیدا دکی حفاظت، قرضوں کی ادائیگی، وصیت کے نفاذ کے انتظامات، مرنے والے کے کسی حق کے لیے نالش کرنا، ہبہ قبول کرنا، جن چیزوں کے خراب ہونے کا ڈر ہو ان کوفروخت کرنا، گمشدہ اموال کی واپسی کی کوشش کرنا۔

’’وصایۃ‘‘ کے نظم پر عہد رسالت اور دور صحابہؓ میں برابر عمل ہوتا رہا، چنانچہ جعفر بن ابی طالب کی شہادت کے بعد جناب رسول اللہ ﷺنے حضرت جعفر ؓ کے دونوں صاحبزادوں محمد اور عبداللہؓ کی ’’وصایت‘‘ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے فرمایا:

انا ولیھم فی الدنیا والاخرۃ

ترجمہ:میں دنیا اور آخرت دونوں میں ان کا سرپرست ہوں۔

اور صاحب ’’سمط الجوہر الفاخر‘‘ نے ایسے متعدد یتیم بچوں کے نام گنائے ہیں جن کے آپ وصی تھے، جن میں تین کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے:

۱-محمد بن عبداللہ بن جحش: ان کے والد ماجد غزوہ اُحد میں شہید ہوگئے تھے۔ شہادت سے قبل آنحضرت ﷺ کو وصی مقرر فرمایا۔ آپ نے ان کے لیے خیبر میں زمین خریدی، جس سے ان کے اخراجات پور ے ہوتے تھے اور مدینہ منورہ کے ’’سوق الرقیق‘‘ میں ایک گھر بطور عطیہ دیا جس میں ان کی رہائش تھی۔

۲- ام زینب بنت نبیط: ان کے والد سعد بن زرارہ نے آپ کو وصی مقررکیا تھا۔

۳- قبیلہ بنی لیث بن بکر کی ایک بچی: ا س کے بھی آپ وصی تھے۔

حضرت زبیر بن العوام ؓ بار’’ وصایت‘‘ اٹھانے میں بڑے مشہور تھے۔ چنانچہ ان کو سات جلیل القدر صحابہ حضرت عثمان، عبدالرحمن بن عوف، مقداد بن الاسود، ابن مسعود، زبیر بن بکار مطیع بن الاسود، ابوالعاص بن الربیع ؓ نے وصی مقرر کیا تھا (اسد الغابۃ ،الاصابۃ ،تذکرہ حضرت زبیرؓ)۔

ابوعبداللہ السنوی نے سات کے بجائے ستّر کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ کہا ہے:

واصی الیہ سبعون من الصحابۃ باموالھم واولادھم فحفظھاوکان ینفق علیھم من مالہ (شرح ہمزیہ بحوالہ التراتیب الاداریۃ )۔

ترجمہ :ستّر صحابہ نے ان کو اپنے اموال و اولاد کا نگران مقرر کیا تھا۔ حضرت زبیر ان پر اپنا مال بھی خرچ کردیا کرتے تھے۔

اگر کسی نے اپنا وصی مقرر نہیں کیا ہوا تو اس کے اموال کی حفاظت اور اولاد کی صیات کے لیے حاکم کو حق دیا گیا ہے کہ وہ وصی مقرر کردے، ورنہ بیت المال میں اُن کے اموال جمع کرے اور حسب ضرورت خرچ کرتا رہے۔

جواب کا دوسراحصہ

سوالنامہ کے فاضل مرتب نے جو سوالات قائم کیے ہیں، یہاں ہم ان کو مع جوابات ترتیب سے درج کرتے ہیں:

انشورنس کے منافع کی ربوی(سودی) حیثیت

۱-سوال: انشورنس کی جو حقیقت بیان کی گئی ہے، اس میں کمپنی جو رقم بطور سود دیتی ہے، جس کا نام وہ اپنی اصطلاح میں منافع رکھتی ہے، شریعت کا اصطلاحی ربوا ہے یا نہیں؟

جواب: بیمہ کی حقیقت جن حضرات کے پیش نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ بیمہ میں دو طرح سے شریعت کا اصطلاحی ربوا پایا جاتا ہے:

الف: ایک تو یہ کہ بیمہ کمپنی بیمہ داروں سے جو رقم وصول کرتی ہے وہ ضرورت مندوں کو سود پر قرض دیتی ہے۔
ب: دوسرے بیمہ داروں کو ان کی کل اقساط کی ادائیگی پر جو رقم زائد بطور منافع دیتی ہے، وہ سود ہوتی ہے، کیونکہ بیمہ دار جو رقم بصورت اقساط جمع کرتا ہے وہ دین (۵) ہے اور دین میں اجل (میعاد) کے مقابلہ میں جو ’’منافع‘‘ بطور مشروط یا معروف (۶)دیاجائے وہ شرعی اور اصطلاحی ربوا ہے۔ جس کی حرمت قرآن کریم،احادیث نبوی اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ علاوہ ازیں خود سوالنامہ کے مرتب کو اعتراف ہے:

’’حقیقت کے لحاظ سے انشورنس کا معاملہ ایک سودی کاروبار ہے جو بینک کے کاروبار کے مثل ہے۔ دونوں میں جو فرق ہے وہ شکل کا ہے۔ حقیقت کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘

جن نام نہاد علماء نے انشورنس کے کاروبار کو بالکل جائز قرار دیا ہے ان کے پاس لے دے کر صرف یہ دعویٰ رہ جاتا ہے کہ قرض میں جو منافع دیا جاتا ہے وہ شرعی اصطلاحی ربوا نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ یہ دعویٰ بالکل غلط اور شریعت محمدیہ پر بہت بڑا بہتان ہے۔ ہم اس دعوے کی تردید پچھلے صفحات میں کرچکے ہیں اور بتلا چکے ہیں کہ قرآن کریم کی آیت ربوا قرض و تجارت ہر دو کے جاہلی نظام کو ختم کرنے کے لیے نازل ہوئی تھی۔ جاہلی نظام میں قرض اور تجارت دونوں کے ذریعہ سود لیا جاتا تھااور یہ ایسی واضح حقیقت ہے کہ اس سے انکار ناممکن ہے۔ ہمارے سارے اسلامی لٹریچر کا ایک ایک حرف اس کی دلیل ہے۔ پچھلے صفحات میں ہم امام ابوبکر الجصاص الرازی کی زبانی آیت ربوا کا پس منظر بتلاچکے ہیں۔ یہاں اس پر مزید اضافہ حاضر خدمت ہے۔ حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں:

وروی مالک عن زید بن اسلم فی تفسیر الایۃ قال کان الربوا فی الجاھلیۃ ان یکون للرجل علی الرجل حق إلی الرجل فاذا حل قال اتقضی ام تربی فان قضاہ اخذ والازادفی حقہ وزاد الاخر فی الاجل ( ص۲۶۴ ج ۴)۔

ترجمہ :امام مالک زید بن اسلم سے آیت ربوا کی تفسیر میں اس طرح روایت کرتے ہیں: جاہلیت کا ربوا اس طرح ہوتا تھا کہ ایک کا دوسرے پر کوئی حق ہوتا تھا(حق عام ہے، قرض ہو، خریدی ہوئی چیز کی قیمت ہو یا کچھ اور) اور اس کی ادائیگی کی ایک مدت مقرر ہوتی تھی۔ جب مدت آجاتی تھی تو وہ کہتا تھا ادا کروگے یا سود دو گے؟ وہ اگر ادا کردیتا تھا تو رقم میں اضافہ نہیں ہوتا تھا اورنہ وہ اس کے حق (مال میں اضافہ) کردیا کرتا تھا اور دوسرا اس کے عوض مدت بڑھادیا کرتا تھا۔

اور ابن رشد الکبیر ’’المقدمات‘‘ میں لکھتے ہیں۔
ّ
وکان ربا الجاھلیۃ فی الدیون ان یکون الرجل علی الرجل الدین فاذا حل قال لہ اتقضی ام تربی فان قضاہ اخذ والا زادہ فی الحق وزادہ فی الاجل فانزل اللہ فی ذالک ماانزل۔

ترجمہ :جاہلیت کا ربوا (سود) دیون میں ہوتا تھا۔ ایک شخص کا دوسرے کے ذمہ کچھ واجب الادا دین ہوتا تھا، جب ادائیگی کی میعاد آجاتی تھی تو وہ اس سے معلوم کرتا تھا کہ ادائیگی کا ارادہ ہے یا سود دینے کا۔ اگر مدیون ادا کردیتا تو داین اپنی رقم بغیر سود لے لیتا ورنہ مدیون رقم میں اضافہ کردیتا اور دائن میعاد میں تو آیات ربوا نازل فرمائیں۔

اس ربوا کو حلال سمجھنے والے کے بارے میں فتویٰ دیتے ہیں:

فمن استحل الربا فھم کافر حلال الدم یستتاب فان تاب والاقتل قال اللہ عزوجل ومن عاد فاولئک اصحاب النارھم فیھاخلدون( برحاشیہ مدونۃالکبریٰ، ص ۱۹ ج ۳) ۔

ترجمہ :جو شخص ربوا کو حلال سمجھے وہ کافر ہے، جس کو قتل کرنا حلال ہے۔ پہلے اس سے توبہ کرائی جائے گی۔ توبہ کرے تو بہتر ہے، ورنہ قتل کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جو لوگ ممانعت کے باوجود پھر سود لیتے ہیں وہ دوزخی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

آئمہ مجتہدین نے بھی اس سے یہی سمجھا ہے۔ امام محمد بن ادریس القرشی المطلبی الشافعی فرماتے ہیں:

وذالک ان الربا منہ یکون فی النقد بالزیادۃ فی الکیل والوزن ویکون فی الدین بزیادۃ الاجل (کتاب الام ص ۱۲-۱۳ ،ج ۳)۔

ترجمہ :ربوا نقد میں بھی ہوتا ہے اور ادھار میں بھی ،نقد میں تو یہ ہے کہ ناپ تول میں اضافہ کردیا جائے۔ ادھار میں یہ ہے کہ میعاد کی زیادتی کے عوض دین میں اضافہ کردیا جائے۔

پھر یہ مسئلہ ایسا اجتماعی اور اتفاقی ہے کہ کسی کو اس سے سرموانحراف کی گنجائش نہیں ہے، قاضی ابوالولید ابن رشد رقم فرما ہیں:

’’علماء کا اتفاق ہے کہ ربوا دو چیزوں میں پایا جاتا ہے:۱- تجارت کی بعض صورتوں میں۔ ۲- اس چیز میں جو ذمہ میں آجائے۔ مثلاً خریدی ہوئی چیز کی قیمت یا قرض یا سلم وغیرہ۔ ذمہ میںجو چیز آجائے اس کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم تو متفق علیہ ہے اور وہ زمانہ جاہلیت کا ربوا ہے، جس کی ممانعت کی گئی ہے اور اس کی صورت یہ تھی کہ وہ میعاد کے اضافہ کے بدلے اصل واجب الادا رقم میں اضافہ کردیا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے:’’ انظر نی ازدک‘‘( مدت بڑھا دو، میں اس کے عوض بڑھتی دے دوں گا) یہ وہی سود ہے جس کے بارے میں جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جاہلیت کا ربوا ختم کردیا گیا ہے اور سب سے پہلے میں عباس بن عبدالمطلب کے ربوا کو ختم کرتا ہوں‘‘ ( بدایۃ المجتہد، ص ۱۰۶ ج ۲)۔

شیخ ابوبکر بن العربی نے احکام القرآن میں آیت ربوا پر بڑی سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس کے ایک حصہ کا ترجمہ ہدیہ ناظرین ہے:

الربا :لغت میں زیادتی کو کہتے ہیں۔ زیادتی میں مزید علیہ یعنی وہ چیز جس پر زیادتی کی جائے، ہونا ضروری ہے۔ اس بناء پر اختلاف ہوا کہ یہ آیت ہر قسم کے ربوا کے حرام ہونے میں عام ہے یا یہ مجمل ہے، جس کے لیے حدیث کے بیان و تشریح کی ضرورت ہے؟ صحیح یہی ہے کہ آیت عام ہے۔ زمانہ جاہلیت میں جو ربوا رائج تھا، وہ بالکل مشہور و معروف طریقہ پر ان کے یہاں رائج تھا۔ اس میں نہ کوئی ابہام ہے نہ اجمال۔ایک شخص کسی سے کوئی چیز خرید کر قیمت اسی وقت ادا نہیں کرتا تھا بلکہ ادائیگی کی ایک مدت مقرر کرلی جاتی تھی۔ جب میعاد پوری ہوتی تو فروخت کرنے والاخریدار سے پوچھتا تیرا ارادہ ادائیگی کا ہے یا سود دینے کا؟ جیسا وہ جواب دیتا، اس کے مطابق عمل ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو حرام فرمایا۔

یہ ہم پہلے بتلا چکے ہیں کہ زیادتی مزید علیہ (جس پر زیادتی کی جائے) کے بغیر ممکن نہیں ہے، لہٰذا جب کسی چیز کو غیر جنس(۷) کے مقابلہ میں فروخت کیا جائے تو زیادتی (بڑھتی) ظاہر نہیں ہوتی اور جب جنس کے مقابلہ میں فروخت کیا جائے جب بھی زیادتی اس وقت تک ظاہر نہیں ہوتی، جب تک کہ شریعت اس کو ظاہر نہ کرے(۸) اس لیے یہ آیت بعض لوگوں کو مشکل معلوم ہوئی اور مختلف قسم کے اشکالات میں مبتلا ہوگئے، لیکن جن حضرات کو اللہ تعالیٰ نے شریعت کے علوم کی روشنی عطا فرمائی ہے، وہ آیت جو سمجھنے میں کسی قسم کی دقت محسوس نہیں کرتے، جن لوگوں کا خیال ہے کہ آیت مجمل ہے وہ لوگ درحقیقت شریعت کے محامل قطعیہ کو نہیں سمجھتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو ایسی قوم کی طرف مبعوث فرمایا جن کی زبان، عربی تھی۔ تجارت، بیع اور ربوا وغیرہ الفاظ ان کے یہاں عام طور پر سمجھے جاتے تھے، لہٰذا ان کو ان معلومات میں صحیح اور سچی بات کی ہدایت کی اور ان چیزوں سے منع کیا جو ناجائز اور غلط تھیں۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:

لاتاکلو اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم(۹)۔

ترجمہ :اے ایمان والو نہ کھائو مال ایک دوسرے کے آپس میں ناحق مگر یہ کہ تجارت ہو آپس کی خوشی سے۔

واضح رہے کہ یہاں باطل سے مراد یہ ہے کہ کسی کے مال کو عقد معاوضہ میں بغیر عوض کے لے لینا۔

اور تجارت، بیع (خرید و فروخت) کے ہم معنی ہیں (پھر اس کی قسمیں بتلائی ہیں) اور ربوا لغت میں زیادتی (بڑھوتری) کو کہتے ہیں اور آیت میں ربوا سے مراد ہر وہ زیادتی ہے جس کے مقابلے میں عوض نہ ہو۔ دونوں آیتوں(آیت ربا وآیت تجارت) کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیع مطلق کو حلال کیا ہے، جس میں بشرط صحت قصد و عمل معاوضہ پایا جائے اور جس میں معاوضہ اس طریقہ پر نہ پایا جائے، وہ حرام ہے۔ اہل جاہلیت میعاد اور مدت کے عوض میں بڑھتی کے خواہاں تھے اور کہتے تھے کہ بیع تو ربوا کی طرح ہے یعنی جس طرح ایک شخص قیمت میں زیادتی لے سکتا ہے تو اس میں کیا حرج ہے کہ میعادپر نہ دینے کی صورت میں مدت کے عوض زیادتی لے لے۔ ان کے اس خیال باطل کو رد فرمایا۔

اب یہ قرار پایا کہ اموال ربویہ میں معاوضہ کی مقدار (یعنی مساوات) شریعت نے اپنے ذمہ لے لی ہے اب کوئی شخص ان میں زیادتی کسی طرح کی میعاد وغیرہ کے مقابلہ میں نہیں لے سکتا (احکام القرآن ، ابن العربی، ص ۲۲، ج۱)۔

حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی ؒ نے ربوا کی بڑی جامع و واضح تعریف بیان فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں:

الرباء ھو القرض علی ان یودی الیہ اکثر وافضل مما اخذ۔ ( حجۃ اللہ البالغہ، ص ۱۰۶ ،ج ۲)۔

ترجمہ : ربوا وہ قرض ہے جو اس شرط پر ہو کہ قرض دار، قرض خواہ کو جتنا لیا ہے اس سے زیادہ اسے اچھا واپس کردے۔

ربوا شرعی پر علامہ محمود الحسن خاں ٹونکی صاحب معجم نے بڑی دقیق بحث فرمائی ہے۔ ہم یہاں اس کا ایک حصہ نقل کرتے ہیں:

ربوا اور بیع لغات عرب میں سے ہیں، جب تک کوئی اصطلاح شرعی توفیقی، خلاف لغت کے مغیر نہ ہو، کتاب و سنت کے معنی لغت عرب سے معلوم ہوتے ہیں۔ ربوا لغۃً ’’زیادہ ‘‘ ہے اور لسان العرب وغیرہ سے ثابت ہوچکا ہے کہ حقیقت بیع کی ’’معاہدہ فی تعارض الاموال‘‘ ہے۔ پس لغوی اعتبار سے ربوا کی تعریف یہ ہے کہ تعارض الاموال کے معاہدی میں عوضین مماثلین میں سے ایک عوض کا دوسرے عوض پر زیادت مذکور ہونا( مذکور نہ ہو بلکہ معروف ہو اس کا بھی یہی حکم ہے)۔ باجماع امت ربوا دو قسم پر ہے: ۱-ایک حسی، جس کو کتاب اللہ نے لاتاکلوا الربا اضعافًا مضاعفہ میں بیان فرمایا ہے اور حدیث صحیح’’ الفصل ربوا‘‘ میں اسی حسی ربواکو ہی بیان کیا گیا ہے اور حدیث’’ لا تاخذوالدینار بالدینار ین ولا الدرھم بالدرھین ‘‘(طبرانی عن ابن عمر) بھی بحق ربوا کتاب اللہ کی تفسیر سے اور تفسیر اضعافاً کے تحت داخل ہے۔ حدیث بخاری کی رباحسی کی مفسر ہے’’ الذھب بالذھب مثلاً بمثل ‘‘(رواہ البخاری) یعنی فضل ربوا ہے۔ پس اسی حسی ربوا میں شارع نے لغوی معنی میں مغائرت پیدا نہیں فرمائی۔ پس حسی رباء شرعی کی بھی وہی تعریف ہے جس کی عربی عبار ت یہ ہے: ’’الفضل الخال عن العوض المشروط فی البیع‘‘۔۲- دوسرا ربا حکمی ہے کہ حسا تفاضل عوضین میں نہیں ہے، لیکن شارع نے سدالباب الرباء صورت تماثل کو بھی ربوا حسی کے حکم میں قرار دیا ہے۔ جب کہ معاوضۃ یدابید نہ ہو کیونکہ مادہ ربوا کا تاخیر وتاجیل ہے اور بغیر تاخیر کے فضل غیر متعامل ہے۔ اسی معنی پر محمول ہے۔ حدیث مسلم ’’لاربا فیما کان یدا بید‘‘ فضل حسی کا دروازہ اسی رباء حکمی سے مفتوح ہے کہ تجارت حاضرہ میں فضل حسی عادۃً ناممکن ہے۔
اسی رباء حکمی کو شارع نے حدیث ’’نھی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن بیع دینار‘‘ اور حدیث ’’الذھب بالورق ربا الاھاء وھاء ‘‘الحدیث فی الاشباء الستۃ میں بیان فرمایا ہے(رسالہ سود بحوالہ لغات القرآن، ج ۳ لفظ رباء)۔

گزشتہ اقتباسات کا خلاصہ:چند اصولی باتیں

اقتباسات طویل ہوگئے اس لیے ان کا خلاصہ ذہن نشین کرلیجیے:

۱- ربوا شرعی اصطلاحی قرض اور تجارت دونوں میں پایا جاتا ہے۔
۲-ربوا شرعی کو تجارت کی صرف چند شکلوں کے ساتھ خاص کرنا اسلام پر افترا ہے۔
۳-اسلام کی نظر میں ’’مہاجنی اور تجارتی سود‘‘ دونوں حرام ہیں۔ صرف مہاجنی سود کو ’’حرام‘‘ قرار دینا اور ’’تجارتی سود‘‘ کو جائز قرار دینا شریعت سے ناواقفی کی دلیل ہے۔
۴-ہر وہ چیز جو ذمہ پر آجائے اس میں زیادتی ’’مشروط‘‘ یا ’’معروف‘‘ طریقہ پر لینا سود ہے خواہ و ہ بیع کی صورت میں ہو یا قرض کی یا سلم کی شکل میں ہو۔
۵-انشورنس اور بینکنگ میں شرعی ربوا پایا جاتا ہے۔
۶-زیادتی کی شرط کا لفظوں میں بیان کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ جو شرط معروف ہو وہ بھی مشروط کے حکم میں ہے۔
۷-شریعت میں حقیقت (۱۰) کا اعتبار ہوتا ہے ’’تسمیہ‘‘ (نام رکھ لینے کا)نہیں۔ شریعت نے جن عقود و معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور ان میں حرام و حلال کا فیصلہ فرمادیا ہے اُن میں طرفین کی رضامندی سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ شریعت کے حکم کو پیش نظر رکھا جائے گا۔ طرفین کی رضامندی اس پر اثر انداز نہیں ہوگی۔

مصالح کی وجہ سے ربوا (سود) کی حلت کا سوال

۲-سوال: اگر سود مذکور شرعی اصطلاحی ربوا ہے تو کیا مصالح مذکورہ کے پیش نظر اس کے جواز کی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے۔ اگر نکل سکتی ہے تو کیا؟

جواب :مصالح مذکورہ کی بناء پر انشورنس (جو ربوا اور قمار دونوں پر مشتمل ہے )کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ امام ابواسحاق الشاطبی نے ’’الاعتصام‘‘ میں اس موضوع پر ایک مستقل باب لکھا ہے۔ اس میں مفصل دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ’’مصالح مرسلہ‘‘ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شریعت نے ہمیں کھلی چھٹی دے دی ہے کہ ’’مصالح‘‘ کو سامنے رکھ کر جس طرح چاہیں قوانین اسلام میں ترمیم کرتے رہیں بلکہ اس کے لیے تین شرطیں ہیں:

اول: مصالح کے پیش نظر جو قانون بنایا جائے وہ شریعت کے مقاصد کے مطابق ہو نہ کہ ان کے خلاف۔

دوم: جب وہ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے تو عام عقلیں اس کو قبول کریں۔

سوم: وہ کسی حقیقی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہو(الاعتصام، ص ۱۱۰ ج ۲)۔

اس کے علاوہ امام موصوف نے ’’الموافقات‘‘ میں ’’مفاسد اور مصالح‘‘ پر سیر حاص بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ ’’مصالح‘‘ وہی معتبر ہیں جو شریعت کی نگاہ میں مصالح ہوں اور شریعت جن کا اعتبار کرے۔ صرف چند ظاہری فائدوں کو ’’مصالح‘‘ نہیں کہا جائے گا۔ مثلاً شریعت نے ’’نکاح فاسد‘‘ کو قابل قبول نہیں سمجھا، حالانکہ اس میں بعض مصالح نظر آتے ہیں، جیسے نسب کا ثابت ہونا، میراث کا دیا جانا وغیرہ،بحث کے آخر میں فرمایا:

’’وہی مصالح قابل اعتبار ہیں جو اسباب مشروعہ سے حاصل ہوں، اسباب غیر مشروعہ سے حاصل ہونے والے مصالح شریعت کی نگاہ میں مصالح نہیں ہیں‘ ‘( ص ۲۴۳ ج ۱ )۔

علاوہ ازیں یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ ایسے احکام جو قرآن و حدیث میں منصوص ہوں، وہاں مصالح و مفاسد کی بحث ہی پیدا نہیں ہوتی۔ ربوا اور قمار دونوں کی حرمت قرآن کریم سے ثابت ہے، اس لیے کوئی مصلحت اس حرام کو حلال نہیں کرسکتی۔

بیمہ کی تینوں اقسام میں ربوا وقمار

۳- سوال: زندگی کے بیمہ، املاک اور ذمہ داری کے بیمہ کے درمیان شرعاًکوئی فرق ہوگا یا تینوں کا حکم ایک ہی ہوگا۔

جواب:تینوں قسمیں ربوا اور قمار پر مشتمل ہیں اس لیے تینوں کا حکم ایک ہی ہے۔

لائف انشورنس میں مقررہ وقت سے قبل موت کی صورت بھی قمار ہے

۴-سوال: معاملہ کی یہ شرط کہ اگر بیمہ شدہ شخص یا شے وقت معین سے پہلے تلف ہو جائے تو اتنی، جب کہ تلف ہونے کے وقت کا تعین غیر ممکن ہے۔ اس معاملہ کو قمار کی حدود میں تو داخل نہیں کردیتی ہے؟

جواب: بلاشبہ قمار ہے، قمار کے بارے میں علمائے شریعت نے جو قاعدہ لکھا ہے وہ یہ ہے:

تعلیق الملک علی الخطر والمال فی الجانبین (۱۱)۔

اور بیمہ پر یہ قاعدہ بالکل صادق ہے، اس لیے اس پر قمارکا حکم لگایا جائے اور قمارکی حرمت نص قرآن ثابت ہے۔ قمار کی حرمت میں غرر اور خطر(۱۲) کی ساری صورتیں داخل ہیں۔ ابوبکر الجصاص الرازی آیت میسر کے ذیل میں لکھتے ہیں:

ولا خلاف بین اھل العلم فی تحریم القمار وان المخاطرہ من القمار، قال ابن عباس ان المخاطرۃ قمار وان اھل الجاھلیۃکانوا یخاطرون علی المال والزوجۃ وقدکان ذالک مباحًا الی ان ورد تحریمہ(احکام ۳۸۸ ج ۱)۔

ترجمہ :قمار (جوے ) کی حرمت میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ اسی طرح اس امر میں بھی کہ’’خطر‘‘ کی ساری صورتیں قمار میں داخل ہیں، ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ’’خطر‘‘ قمارہے۔ اہل جاہلیت مال اوربیوی سب جوئے کی بازی پر لگادیا کرتے تھے اور شروع میں اس کی اباحت تھی۔ یہاں تک کہ اس کی حرمت نازل ہوگئی۔

غرر اورخطر میں انجام سے بے خبری ہوتی ہے۔ ملک العلماء فرماتے ہیں:

والغرر مایکون مستورالعاقبۃ (بدائع، ص ۶۸ ج ۳)۔

ترجمہ :غرر وہ ہے جس میں انجام سے بے خبری ہو۔

قمار(جوا) کے فقہی حکم کا حاصل

حاصل یہ ہوا کہ مال کو بازی پرلگانا اور انجام سے بے خبرہوناجواہے۔اسی طرح وہ معاملہ جس میں دونوں طرف مال ہو اورانجام معلوم نہ ہو قمارکی حدود میں داخل ہے، خواہ وہ خرید و فروخت کی شکل میں ہویابیمہ کی شکل میں،امام دارالہجرہ مالک بن انس ؓ اسی قسم کے ایک معاملہ کی مثال دیتے ہیں:

ان یعمد الرجل الی الرجل قد ضلت راحلتہ او دابتہ اوغلامہ وثمن ھذہ الاشیاء خمسون دینارًا فیقول انا اخذھا منک بعشرین دینارًا فان وجدھا المتاع ذھب من مال البائع ثلاثین دینارًا وان لم یجدھا ذھب البائع منہ بعشرین دینار ا وھما لاید ریان کیف یکون حالھا فی ذالک ولا یدریان ایضًا اذا وجدت تلک الضالۃ کیف توخذ وما حدث فیھا من امر اللہ، مما یکون فیہ نفضھا وزیادتھا فھذا اعظم المخاطرہ( المدونۃ الکبریٰ ۳۵۲ ج ۳)۔

ترجمہ :ایک شخص کسی دوسرے شخص کے پاس آجائے،جس کا اونٹ یا کوئی اور جانوریاغلام گم ہوگیا ہواور اس کی قیمت مثلاً پچاس دینار ہو، وہ جاکر اس سے کہے کہ گمشدہ چیز کو بیس دینار میں خریدتا ہوں سو اگر خریدنے والے کو گمشدہ چیز مل جاتی ہے تو مالک کو تیس دینار کا نقصان ہوگا اور اگر نہیں ملتی تو اس کو بیس دینار مفت میں مل جائیں گے۔ ان دونوں کو معاملہ کرتے وقت کچھ نہیں معلوم کہ کیا ہوگا۔ وہ چیز ملتی یا نہیں اور گر ملتی بھی ہے تو کس حال میں اور یہ بھی نہیں معلوم کہ اس میں کیا زیادتی کمی ہوچکی ہے یہ سب ’’خطر‘‘ میں داخل ہے۔

بیمہ کے نظام میں اصلاح کا امکان؟!

۵-سوال: اگر یہ قمار ہے یا غرر ہے تو کیا مصالح مذکورہ کے پیش نظر اسے نظرانداز کرکے اس معاملہ کے جواز کی کوئی گنجائش نہیں نکل سکتی اور اگر نکل سکتی ہے تو کیسے؟

جواب: جب تک بیمہ کا موجودہ نظام برقرار ہے کوئی صورت نہیں نکل سکتی۔

بیمہ میں اضافی رقم سے بچنے کے باوجود بیمہ سے اجتناب

۶-سوال:اگر بیمہ دار مندرجہ اقسام بیمہ میں سے کسی میں سود لینے سے بالکل محترز رہے اور اپنی اصل رقم کی صرف واپسی چاہتا ہو تو کیا معاملہ جائز ہوسکتا ہے؟

جواب:سود کے ساتھ ہی ساتھ بیمہ زندگی یابیمہ املاک میں قمار کی جو صورت ہوتی ہے اس سے بھی احتراز کرے تب تو گنجائش نکل سکتی ہے لیکن ربوا اور قمار کے کاروبار کی اعانت و امداد کی قباحت بدستور رہے گی۔

بیمہ کی رقم کو احسان یا تبرع کہنے سے شرعی حکم نہیں بدلتا

۷-سوال: جو رقم کمپنی بطور سود ادا کرتی ہے اسے ربوا کے بجائے اس کی جانب سے اعانت و امداد اور تبرع و احسان قرار دیا جائے؟

جواب: جب تک معاملہ کی حقیقت تبدیل نہ ہو صرف نام رکھ لینے یا سمجھ لینے سے مسئلہ شرعی میں فرق نہیں پڑتا۔

دارالحرب والوں کے سود اور بیمہ کاحکم

۸-سوال: اگر کوئی مسلمان کسی دارالحرب کا باشندہ ہو (مقامی نہیں) ور کمپنی بھی حربیوں ہی کی ہو تو کیا اس صورت میں یہ معاملہ مسلمانوں کے لیے جائز ہوگا؟

جواب:دارالحرب میں فقہا نے ’’عقود فاسدہ‘‘ (۱۳) کی اجازت دی ہے۔ عام کتابوں میں اگرچہ ’’مستامن‘‘ کی قید ہے، لیکن شرح السیر الکبیر سے ’’حربی مسلم‘‘ کے لیے بھی اجازت معلوم ہوتی ہے:

ثم قد علم ان الربا لایجری بین المسلم والحربی فی دارالحرب( ص ۱۲ ج ۳)۔

ترجمہ :پھر یہ امر معلوم ہے کہ ربوا دارالرحب اور دارالاسلام کے باشندوں کے درمیان جاری نہیں ہے۔

اس کی دلیل بھی خود مؤلف کی زبانی سنیے:

’’حضرت عباس ؓ کے اسلام لانے کے بارے میں اختلا ف ہے کہ وہ کب اسلام لائے؟ بعض کی رائے یہ ہے کہ وہ غزوئہ بدر سے قبل ہی اسلام لاچکے تھے، بعض کہتے ہیں کہ غزوۂ بدر میں گرفتار کرلیے گئے اور اس کے بعد اسلام لائے۔ پھر جناب رسول اللہ ﷺ سے ’’مکہ‘‘ واپس جانے کی اجازت چاہی۔ آپ ﷺ نے اجازت مرحمت فرمادی۔ مکہ میں سکونت پذیر رہے اور وہاں سودی کاروبارفتح مکہ تک کرتے رہے، حالانکہ سود کی حرمت اس سے قبل آچکی تھی۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے اگر سود لیا ہو توواپس کردو۔ علاوہ ازیں لاتاکلوا الربوا أضعافًا مضاعفۃ (سود نہ کھائودو چند سہ چند) آیت کریمہ غزوہ احد کے زمانہ میں اتری تھی اور مکہ اس کے کئی سال بعد فتح ہوا۔فتح مکہ کے زمانہ میں آپ ﷺ نے حضرت عباس ؓ کے پچھلے سارے معاملات کو باطل قرار نہیں دیا۔ سوائے ان معاملات کے جن میں ابھی تک قبضہ نہیں ہوا تھا اس سے معلوم ہوا کہ حربی اور مسلم کے درمیان سودی معاملہ ہوسکتا ہے‘‘ (شرح السیر الکبیر، ص ۲۲۶ ج ۳)۔

ایک اور جزیہ قابل ملاحظہ ہے:

ولو کان المسلم فی منعۃ المسلمین فکلم الحربی من حصنہ وعاملہ بھذہ المعاملات الفاسدۃ فیما بین المسلمین فان ذالک لایجوز، وقد بینا ان کثیرًا من مشائخنا یقولون بالجوازھا ھنا لان مال الحربی مباح فی حق المسلم۔

ترجمہ :اگر کوئی مسلمان، اہل اسلام کے لشکر میں ہو، حربی نے اپنے قلعہ سے مسلمان سے گفتگو کی اور معاملات فاسدہ میں سے کوئی معاملہ کرلیا، تو یہ امام محمد ؒ کے نزدیک جائز نہیں۔البتہ ہم پہلے بتلا چکے ہیں کہ ہمارے اکثر مشائخ اس مسئلہ میں بھی جواز کے قائل ہیں، کیونکہ حربی کا مال مسلمان کے حق میں (جب کہ اس میں دھوکہ فریب نہ ہو) مباح ہے۔

دارالحرب سے دارالاسلام کی اگر صلح ہوجائے تب بھی اس قسم کے معاملات کی اجازت ہے،دارالحرب والوں نے دارالاسلام والوں سے اگر صلح کر رکھی ہو، اس زمانہ میں دارالاسلام کا باشندہ ان کے یہاں گیا اور ایک درہم کو دو کے عوض بیچ دیا تو اس میں حرج نہیں ہے، کیونکہ اس صلح سے درالحرب دارالاسلام نہیں بن جاتا۔ مسلمانوں کے لیے تو دارالحرب والوں کا مال ان کی خوشی اور رضامندی کے بغیر لیناحرام ہے، کیونکہ اس میں عذر (دھوکہ و فریب) پایا جاتا ہے، لیکن جب انہوں نے خوشی اور رضامندی سے یہ معاملہ کیا ہے تو دھوکہ و فریب کے معنی معدوم ہوگئے اور ان سے لیا ہوا مال مباح ہوگیا( شرح السیر الکبیر، ص ۲۲۸ ج ۳)۔

دارالحرب میں ’’عقود فاسدہ‘‘ کے جواز کا مسئلہ صرف امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک ہی نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر مشہور ہے بلکہ امام مالک ؒ بھی اس کے جواز کے قائل ہیں۔ البتہ امام موصوف کے نزدیک ایک شرط ہے وہ یہ کہ دارالاسلام سے دارالحرب کی صلح نہ ہو:

سئل الامام مالک ھل بین المسلم إذا دخل دارالحرب وبین الحربی ربوا فقال الامام ھل بینکم و بینھم ھدنۃ؟ قالوا لا،فقال مالک فلا باس فی ذلک ( المدونۃ الکبریٰ، ص ۲۸۱)۔

ترجمہ :امام مالک ؒ سے سوال کیا گیا کہ مسلم اگر دارالحرب میں داخل ہو تو وہاں کے لوگوں سے سود لے سکتا ہے؟ امام مالک ؒ نے دریافت کیا کہ کیا تم میں اور ان میں صلح ہے؟ کہا گیا: نہیں، تو آپ ؒ نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔

علامہ شامی ؒکے فتوے میں بھی حربیوں سے اس قسم کے معاملات کی اجازت آپ پڑھ چکے ہیں، لیکن یہ واضح رہے کہ ربوا اور قماربنص قرآن حکیم حرام ہیں اور ان دونوں پر سخت وعیدیں آئی ہیں، اس لیے اس قسم کے معاملات سے احتراز کرنا ضروری ہے۔ انتہائی ضرورت و مجبوری کی حالت میں اس طرح کی گنجائش سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس موقعہ پر ایک غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے، لہٰذا اس کے ازالہ کے لیے ہم مولانا سیدنا مناظر احسن گیلانی ؒ کے عبارت نقل کردینا کافی سمجھتے ہیں:

’’اسی مسئلہ کی بنیاد پر ایک اور معاشی سوال پیدا ہوگیایعنی غیر اسلامی حکومت کسی غیر مسلم باشندہ کا روپیہ کسی ایسے ذریعہ سے جو اسلامی قانون کی رو سے لین دین کاقانونی اور شرعی ذریعہ نہیں ہے۔ مثلا ربوا یا قمار ازیں قبیل کے کسی اور غیر شرعی ذریعہ سے کسی مسلمان کے قبضہ میں آجائے تو کیا قانوناً یہ مسلمان اس کا مالک ہوسکتا ہے یا نہیں؟ چونکہ یہ ایک جائز اور مباح مال پر قبضہ ہے اور مباح و جائز مال کے مملوک ہونے کے لیے صرف قبضہ کافی ہے۔ مثلاً جنگل کے کسی پرندے کا شکار کرکے قبضہ کرلینا، اس پرندے کا مالک ہونے کے لیے کافی ہے۔ اسی لیے امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے ہے کہ اس قسم کے اموال کا مسلمان قانونی طور پر مالک بن جاتا ہے اور یہی اُن کا وہ مشہور نقطہ نظر ہے جس کی وجہ سے حنفی فقہ کی عام کتابوں میں ’’لاربوا بین الحربی والمسلم‘‘ الحربی غیر مسلم اسلامی حکومت کا باشندہ اور المسلم اسلامی حکومت کا باشندہ کے درمیان ربوا (سودنہیں ہے) کا ذکر پایا جاتا ہے۔ گویا یہ بین الاقوامی قانون کی ایک دفعہ ہے۔ عوام چونکہ اس کے اصل منشاء سے واقف نہیں ہیں اس لیے ان کو حیرت ہوتی ہے کہ ربوا (سود) جب اسلام میں حرام ہے اور ہر شخص سے لینا حرام ہونا چاہیے۔ حربی یعنی غیراسلامی حکومت کے غیرمسلم باشندوں کے ساتھ اس کے جائز ہونے کے کیا معنی؟ مگر سچی بات یہ ہے کہ حربی کے ساتھ یہ معاملہ ربوا کا معاملہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک مباح مال کو قبضہ میں لے کر اسے ملک بنانا ہے۔ اسی طرح یہ مسئلہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ شرعی غلام اور آقا کے درمیان بھی اگر ربوا کامعاملہ کیا جائے تو وہ بھی ’’ربوا‘‘ نہ ہوگا۔ ظاہراً اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ باوجود ربوا اور سود ہونے کے امان نے اس کو حرمت سے مستثنیٰ کیا ہے۔ بھلا ایک مجتہد کو اس کا حق کیا ہے بلکہ بات یہ ہے کہ قانوناً غلام کا مال آقا ہی کا مال ہے،الخ(اسلامی معاشیات، ص ۴۰۸)۔

سرکاری سطح پر انشورنس وبیمہ بھی حلال ہونے کا ذریعہ نہیں بن سکتا

۹-سوال: اگر یہ کاروبار حکومت کے ہاتھ میں ہو تو کیا اس بناء پر کہ خزانہ حکومت میں رعیت کے ہر فرد کا حق ہوتا ہے۔ زیر بحث معاملہ میں سود کی رقم عطیہ حکومت قرار پاکر ربوا کے حدود سے خارج ہوسکتی ہے؟

جواب:اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ خزانہ حکومت میں رعیت کے ہر فرد کا حق ہوتا ہے، تب بھی سود کی رقم ربوا کے حدود سے خارج نہیں ہوتی، کیونکہ ’’حق ملک‘‘ اور مِلک میں بنیادی فرق ہے۔ حق ملک کو مِلک قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ملک کی صورت میں ربوا نہیں ہوتا۔ مثلاً شرعی غلام اور آقا اگر کوئی سودی معاملہ کریں تو اس کو سود نہیں کہا جائے گا کیونکہ ملک غلام اور آقا کی واحد ہے۔ اسی طرح اگر ایک شخص اپنی آمدنی کو مختلف مدوں میں تقسیم کرکے الگ الگ رکھ لے، پھر ایک مد کے لیے دوسری مد سے قرض لے اور اس میں کچھ رقم بطور سود لگالے تو وہ سود نہیں کہلائے گا۔ علاوہ ازیں جن دو شخصوں کے درمیان شرکت کا معاملہ ہوا اور وہ اس مال مشترک میں آپس میں کوئی سودی معاملہ کرلیں تو وہ بھی سود نہیں ہوگا۔ شرکت کی وجہ سے دونوں کی ’’مِلک‘‘ ایک سمجھی جائے گی۔

حق مِلک کی صورت میں سود ہوگا۔ مثلاً میاں بیوی جب کہ دونوں کی املاک علیحدہ ہوں، اگر آپس میں کوئی سودی لین دین کریں تو حرام اور ناجائز متصور ہوگا، حالانکہ بیوی کو اپنے شوہر کے مال میں بقدر نفقہ حق مِلک ہوتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس باپ اور بیٹا اگر آپس میں ربوا کا معاملہ کریں تو اس پر حرام ہونے کا حکم لگایا جائے گا اور یہ کہنا کہ بیٹے کے مال میں باپ کا حق ہے اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے’’ انت ومالک لابیک‘‘(تم اور تمہارا مال تمہارے با پ کاہے) اس معاملہ کو ربوا کے حکم سے خارج نہیں کرسکتا۔

ملک العلماء ’’ربوا‘‘ جاری ہونے کی شرائط کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:

ومنھا ان لایکون البدلان ملکًا لاحد المتبایعین فانہ لا یجری الرباء علی ھذا یخرج العبد الماذون اذا باع مولاہ درھما بدرھمین ولیس علیہ دین انہ یجوز لانہ اذٓا لم یکن علیہ دینا فمافی یدہ لمولاہ فکان البد لان ملک المولٰی فلا یکون ھذا بیعًا فلا یتحقق الرباء اذ ھو یختص بالبیعات وکذالک المتفاوضان اذا تبابعا درھمًا بدرھین یجوز لان البدل من کل واحد منھا مشترک بینھما فکان مبادلۃ مالہ بمالہ فلا یکون بیعًا ولا مبادلۃ حقیقۃ ( بدائع الصنائع، ص ۱۹۳ ج ۵)۔

ترجمہ :بدلین اگر معاملہ کرنے والوں کے مِلک نہ ہوں تو سود جاری نہیں ہوگا۔ مثلاً عبد ماذون (۱۴) اگر اپنے آقا کو ایک درہم کے عوض میں دو درہم بیچ دے اور غلام پر کسی کا دین نہ ہو تو یہ معاملہ جائز ہے، کیونکہ دین نہ ہونے کی صورت میں غلام کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کے آقا کی مِلک ہے، لہٰذا بدلین آقا کی ملک ہیں۔ اس لیے یہ بیع ہی نہیں ہوئی، لہٰذا ربوابھی نہیں ہوگا کیونکہ ربوا بیع کے ساتھ خاص ہے۔ اسی طرح دو شریک جب اس طرح کا معاملہ کریں تو وہ بھی جائز ہے، کیونکہ بدل مشترک ہے، اس لیے یہاں حقیقتاً بیع ہی نہیں ہوئی۔

حقیقت ملک اور حق ملک کا ایک اور فرق

حقیقت ملک اور حق ملک کا فرق ایک اور مسئلہ سے بھی واضح ہوگا۔ مسئلہ یہ ہے کہ بائع (فروخت کرنے والا) جب خریدنے والے سے کہے کہ میں نے تیرے ہاتھ یہ مال فروخت کردیا۔ اس کو ’’ایجاب‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایجاب کے بعد خریدنے والے کو حق ہوتا ہے کہ وہ اس معاملہ کو قبول کرے یا نہ کرے۔ بائع کے ایجاب کے بعد خریدنے والے کو قبول کرنے کا حق معاملہ کی مجلس تک باقی رہتا ہے، لیکن اگر بائع کے ایجاب کرنے کے بعد جب کہ مشتری نے قبول نہ کیا ہو اپنے ’’ایجاب‘‘ سے رجوع کرلے تو وہ رجوع کرسکتا ہے۔ اس صورت میں مشتری کا حق قبول سوخت ہوجائے گا۔ اس پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ مشتری کو جب مجلس کے اختتام تک حق قبول حاصل ہے تو بائع کو’’ایجاب‘‘ سے رجوع نہیں کرنا چاہیے۔ اس اعتراض کا جواب صاحب عنایہ اس طرح دیتے ہیں کہ مشتری کو تو ’’حق مِلک‘‘ حاصل ہے، لیکن بائع کو ’’حقیقت مِلک‘‘ حاصل ہے اور ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ ’’حقیقت مِلک‘‘ اعلیٰ ہے اور ’’حق ملک‘‘ ادنیٰ، لہٰذا اعلیٰ ادنیٰ کو سوخت کردے گا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

فالجواب ان الایجاب اذا لم یکن مفیداً للحکم وھو الملک کان الملک حقیقۃً للبائع وحق التملک للمشتری وھو لایمنع الحقیقہ لکونھا اقوی من الحق لامحالۃ (عنایۃ برحاشیہ فتح القدیر، ص ۷۸ ج ۵)۔

ترجمہ :اس کا جواب یہ ہے کہ محض ایجاب سے جبکہ حکم یعنی ملک حاصل نہیں ہوتی تو ملک حقیقت کے لحاظ سے بائع کی ہے اور حق ملک مشتری کا حق ملک، ملک کو منع نہیں کر سکتا، کیونکہ وہ حق سے قوی تر ہے۔

بیمہ سے حاصل شدہ سود کو ٹیکس میں دینےکاحکم

۱۱-سوال: فرض کیجیے بیمہ کا کاروبار حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ ایک شخص بیمہ پالیسی خریدتا ہے اور میعاد میں اصل مع سود کے وصول کرتا ہے، لیکن سود کی رقم بصورت ٹیکس یا چندہ خود حکومت کو دے دیتا ہے۔

جواب:سود کا لینا ’’حرام‘‘ ہے، اس لیے اس کو لے کر پھر واپس کردیتا ہےاس ’’حرام‘‘ کو حلال نہیں کرسکتا؟

بیمہ اورسود کی رقم میں صدقہ کی نیت کرنا؟!

۱۲سوال- بیمہ دار اگر سود کی رقم بغیر نیت ثواب کسی دوسرے شخص کی امداد کےطور پر دے دیتا ہے تو اس صورت میں انشورنس کا معاملہ کیا جائز ہوگا؟

جواب:اس صورت میں بھی انشورنس کے کاروبار کی اجازت نہیں ہے، الّا یہ کہ ناواقفیت کی بناء پر اگر انشورنس کا معاملہ کرے اور اس سے رقم سود وصول ہوجائے تو یہی طریقہ ہے کہ کسی شخص کو بلانیت ثواب امداد کے طور پر دے دے۔

مصالح اور ضرورت کی بنیاد پر بیمہ کے جواز کی تفصیل

۱۳-سوال: اگر انشورنس کے جواز کی کوئی گنجائش نہیں ہے تو کیا مصالح و حاجات مذکورہ کو سامنے رکھ کر ا س کا کوئی بدل ہوسکتا ہے، جس میں مصالح مذکورہ موجود ہوں۔ اور اس پر عمل کرنے سے ارتکاب معصیت لازم نہ آئے۔ اگر ہوسکتا ہے تو کیا انشورنس کی مروجہ شکل میں کوئی ایسی ترمیم ہوسکتی ہے، جو اسے معصیت سے خارج کردے اور مصالح مذکورہ کو فوت نہ کرے۔ اگر ہوسکتی ہے تو کیا ہے؟

جواب: الف: اس کا بدل پچھلے صفحات میں ہم بتلا چکے ہیں۔
ب: جب تک کہ ربوا اور قمار موجود ہیں معصیت کے دائرہ سے خارج ہونا مشکل ہے.

بیمہ مروجہ میں دو صورتیں جائز ہیں:
۱- ڈاک خانہ کا بیمہ، یہ جائز ہے، کیونکہ ودیعۃً باجر میں داخل ہے جس طرح فیس دینا جائز ہے۔
۲-جہاز ران کمپنی اگر بیمہ بھی کرے اور مال کی ضمانت بھی دے دے تو مال تلف ہونے کی صورت میں اس کو ضامن بنایاجاسکتا ہے اور نقصان کا معاوضہ لیا جاسکتا ہے جب کہ تاجر نے اس کمپنی کے جہاز میں اپنا مال بھیجا ہو (ابن عابدین، ص ۲۱۷ ج ۵ باب ضمان الاجیر)۔

حواشی

(۱) ’’دین ‘‘کا ترجمہ ’’قرض ‘‘کے ساتھ نامکمل سا ہے ،کیونکہ دین ما ثبت فی الذمہ (جو بھی انسان کے ذمہ آجائے اس) کو کہتے ہیں،اس میں بدل ،قرض، ثمن ،مبیع وغیرہ سب داخل ہیں۔ شریعت کی اس اصطلاح کے نہ جاننے سے بھی لوگ عجیب قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
(۲) اس کو اس طرح سمجھ لیجیے کہ ایک من عمدہ گیہوں دے کر دو من خراب گیہوں لے لے۔ یہ بھی ناجائز ہے، کیونکہ اموال ربویہ (یعنی جن اموال میں ربوا ہوتا ہے) میں برابری ضروری ہے۔ خواہ صفت میں تفاوت ہی کیوں نہ ہو۔
(۳) سرمایہ اور کام مشترک ہو، اس کو’’شرکت ‘‘کہتے ہیں،پھر اس کی کئی قسمیں ہیں،ایک کا سرمایہ ہو، دوسرے کا کام، یہ’’ مضاربت ‘‘کہلاتا ہے۔ تفصیلات کتب فقہ میں مذکور ہیں۔
(۴) ماہنامہ ’’المسلمون‘‘ جو جنیوا سے زیر ادارت جناب سعید رمضان صاحب شائع ہوتا ہے، میں اس میں ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کا غیر سودی بینک پر ایک مقالہ چھپا ہے۔ جس میں صاحب موصوف نے بتلایا ہے کہ ریاست حیدرآباد مرحوم میں ایک مرتبہ اس کا عملی تجربہ بھی کیا جاچکا ہے اور اس کو خاصی کامیابی ہوئی تھی۔
(۵) دین ما ثبت فی الذمہ (جو بھی انسان کے ذمہ آجائے اس) کو کہتے ہیں،اس میں بدل ،قرض، ثمن ،مبیع وغیرہ سب داخل ہیں۔ شریعت کی اس اصطلاح کے نہ جاننے سے بھی لوگ عجیب قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
(۶) مشروط کا مطلب تو یہ ہے کہ معاملہ کے وقت زبانی یا تحریری شرط لگائی جائے۔ مثلاً کہہ دیا جائے کہ ہم سوا روپے سیکڑہ منافع لیں گے۔ معروف کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ کے وقت زبانی یا تحریری شرط نہیں لگائی۔ لیکن عام دستور ہے کہ سوا روپیہ سیکڑہ نفع دیاجاتا ہے تو یہ بھی مشروط کے حکم میں ہے۔ اسی لیے شریعت کا قاعدہ ہے’’ المعروف کالمشروط ‘‘یعنی معروف بھی مشروط کی طرح ہے۔
(۷) مثلاً روپے کا عوض کوئی جنس گیہوں، کپڑا وغیرہ خرید لیا جائے۔
(۸) چنانچہ شریعت نے ہدایت کی کہ اس صورت میں زیادتی نہ کی جائے بلکہ برابری کے ساتھ موازنہ کیا جائے۔
(۹) باطل تو ہر حال میں حرام ہے، خواہ رضامندی ہو یا نہ ہو۔ تجارت میں رضامندی کی قید لگائی ہے۔ شریعت نے جن معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے ان میں طرفین کی رضامندی موثر نہیں(حوالہ آیت سورۃ النساء)۔
(۱۰) شریعت کا مشہور قاعدہ ہے:’’ انما العبرۃ فی العقود للمعانی لاالفاظ‘‘ یعنی کسی معاملہ کی حقیقت کا اعتبار ہوگا اور اس کے لحاظ سے شرعی احکام جاری ہوں گے۔ نام رکھنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ربوا کا نام اگر ’’منافع‘‘ رکھ لیا جائے تو اس سے وہ حلال نہیں ہوگا۔ بنی اسرائیل پر جب چربی حرام ہوگئی تھی تو انہوں نے اس کا دوسرا نام رکھ لیا تھا اور کھانا شروع کردیا تھا۔
(۱۱)یعنی ملک کو کسی ایسی چیز پر موقوف کرنا جو ہونے یا نہ ہونے کا احتمال رکھے جس طرح بیمہ ہوتا ہے کہ اگر پہلے مر گیا تو اس قدر رقم کا مالک ہوگا ورنہ اتنی رقم نہیں ملے گی۔ قمار(جوا) ہونے کی دوسری شرط یہ بھی ہے کہ دونوں طرف مال ہو، اگر ایک طرف مال ہو، دوسری طرف نہ ہو تو قمار نہیں ہے۔
(۱۲)’’غرر ‘‘کی تشریح پہلے گذر چکی، ’’خطر‘‘ جس کا وجود عدم معلوم نہ ہو ’’بیمہ میں خطر‘‘ واضح صورت میں پایا جاتا ہے کہ بیمہ شدہ شخص یا شے کا وقت سے پہلے تلف ہونا معلوم نہیں ہوتا اور نہ کوئی وقت معین ہوتا ہے۔
(۱۳) وہ معاملات جو شریعت کی نگاہ میں صحیح نہیں ہیں، البتہ ان میں رضامندی کی شرط ضروری ہے۔ عذر کی اجازت نہیں۔
(۱۴) عبد ماذون وہ غلام جس کو اس کے آقا نے تجارت کی اجازت دی ہو۔

4,368 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!