باطنیہ واسماعیلیہ کا پس منظر اور منفی کردار
تحریر: مولانا شمس تبریز خان
تاریخ اسلام میں باطنیت و شیعیت کا منفی کردار
تشیع (اورباطنیت واسماعیلیہ) پر کسی بھی زاویے سے نظر ڈالیے تو اسلام کے بالمقابل اورمتوازی ایک مستقل مذہب وتہذیب محسوس ہوتا ہے اوراس کا مقصد ہر چھوٹے بڑے مسئلہ میں جمہور امت اور راہ سنت سے علیحدگی وانحراف معلوم ہوتا ہے ،اوران دونوں کے درمیان عقائد اورعلم وعمل کے لحاظ سے اختلاف کی خلیج اتنی وسیع اور عمیق ہے جس کو اصولی وبنیادی تبدیلیوں کے بغیر پاٹا نہیں جاسکتا، سنی مؤرخین تشیع کا سلسلہ عبد اللہ بن سبا سے ملاتے ہیں جس کا آسانی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ،مگر تشیع کے مزاج ومنہاج کو دیکھتے ہوئے اس کا سلسلہ نسب نفاق ومنافقین سے قائم کیا جاسکتا ہے ،کیونکہ جس طرح نفاق کی بہت سی شکلیں ہیں اسی طرح شیعیت وباطنیت کے بھی بہت سے چہرے اور صورتیں ہیں ۔
باطنیت اور شیعیت کے اصول ومقاصد
تاریخ اسلام پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ باطنیوں اور شیعوں کے اکثر فرقوں کے اصول ومقاصد اسلام دشمنی پر مبنی ہیں اورانہوں نے تاریخ میں جمہور امت سے نہ صرف علیحدگی بلکہ ان کی بیخ کنی ،ان کے خلاف سازش اوران کے دشمنوں سے دوستی کا عمل جاری رکھا ہے ، اوراس مقصد کے لیے انہوں نے تمام امکانی ذرائع اپنائے ہیں ، تقیہ اور اخفا وراز داری چونکہ ان کے اصول دین میں ہے ، اس لیے اپنے عقائد ومقاصد کی کبھی کھل کر وضاحت نہیں کی ،جس کی وجہ سے اہل سنت ان کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرسکے ،اور جس کے نتیجے میں وہ شجر ملت کو گھن کی طرح کھوکھلا کرتے رہے اورکاروان امت کی پیش قدمیوں کی راہ میں برابر رکاوٹ بنے رہے ۔
شیعیت یا باطنیت کے مقاصد کبھی واضح اور متعین نہیں رہے ، لیکن اسلام دشمنی اور مسلم کشی اس کے تمام فرقوں میں قدر مشترک کے طور پر قائم رہی ،اوراپنے تاریخی سفر میں اس نے ہر اس عقیدے اور عمل کو اپنا لیا جو جمہور امت اور مسلک اہل سنت کے خلاف پڑتا ہو ، اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا تھا ، جنگ جمل وجنگ صفین میں اسی جماعت نے مسلمانوں کے دو گروہوں کو لڑایا ، اس کے بعد مسلمانوں کے درمیان فتنہ وفساد کی آگ بھڑکاتی اور انہیں خانہ جنگی پر اکساتی رہی،اس مقصد کے لیے انہوں نے ’’حب علیؓ‘‘ اور’’محبت اہل بیت‘‘ کا دعوی کیا ،مگر ان کے دلوں میں در اصل ’’بغض معاویہ ‘‘ اور اہل سنت کی مخالفت وعداوت کا جذبہ موجزن تھا، اوراہل بیت کی پیروی کے بجائے ان کا نام اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا، اور’’خلافت‘‘ کی جگہ ’’امامت‘‘ کی اصطلاح اپنائی ،اورتبرا کو اپنا اصول بنایا ، اس کے لیے انہوں نے دوسرا بڑا حربہ ’’باطنیت‘‘ کا اپنایا ، جس کے اسلام کے معنی ومفہوم اورمقصد ونصب العین کو برباد کرنے کا ایک سوچا سمجھا ، دور رس اوردیرپا منصوبہ تیار کیا گیا ، اور کہا جانے لگا کہ قرآن کریم کی ہر آیت کا ایک باطنی مفہوم ہے ،جسے ائمہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا، اورانسان باطنی ترقی کے ذریعہ اس مقام تک جا پہنچتا ہے جہاں شریعت بے معنی ہوجاتی ہے ، اسی کے ساتھ اہل تشیع نے اپنے کو خواص مؤمنین اور دوسروں کو عوام وجمہور کے خانوں میں بانٹا اور دعوی کیاکہ قرآن کی تاویل اصل ہے جو ہمارے حصے میں آئی ہے اور قرآن کا متن وتنزیل عوام کے ہاتھ میں ہے ،اسماعیلی داعی حکم ناصر خسرو (۳۹۴-۴۸۱ھ) کہتا ہے :
از بہر پیمبر کہ بدیں ضع ورا گفت
تاویل بہ دانا دہ وتنزیل بہ غوغا
(سفرنامہ ناصر خسرو، ص۶۴)
علم وعمل اورسیاسی ومعاشرتی محاذ پرباطنیت کا منفی کردار
بہرحال باطنیت کا مقصد علم وعمل کے ہر محاذ پر جمہور سے اختلاف اورمخالفت تھی ، تاویل کا دروازہ کھول کر اس نے اسلامی عقائد ونظام حیات اور اقدار کو تہہ وبالا کرنے کی سعی کی ، اورخوب کو ناخوب ،اور حرام کو حلال کردکھایا ، اسلامی فکر میں عقلیت واعتزال یونانیت وعجمیت کی ہمت افزائی کی ، اور وحی الہی کی جگہ عقل اور اقوال اکابر کو اہمیت دی ، اس طرح دین کے سیدھے راستے کو چھوڑ کر چند مفروضات وروایات کے پیچھے چل پڑی اور قیامت تک کے لیے دین میں تحریف و انحراف کا دروازہ کھول دیا۔
سیاسی ومعاشرتی محاذ پر باطنیت نے اسلام کو برابر اور ناقابل معافی وتلافی نقصان پہنچایا ، ابتدائے اسلام میں عباسیوں کی حمایت کے پردے میں عجمیت اور ثنویت نے عربیت کو شکست دی ، جو اسلامیت کا دوسرا نام تھی ، پھر خلافت عباسیہ کے خلاف بغاوتوں کی ہمت افزائی کرتی رہی ، جس کے نتیجے میں متعدد شیعی حکومتیں قائم ہوگئیں جو خلافت اسلامیہ کے لیے درد سر بنی رہیں، اورمسلمانوں کے متحدہ محاذ کو سبوتاذ کرتی رہیں ، اس طرح ہم یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہیں کہ ایران کا آریائی مزاج اور عجمی عصبیت ،اسلام اور اس کی سیاسی طاقتوں سے برابر نبرد آزما رہی اوراس نے دنیا کے سیاسی نقسے سے اسلامی اثرات کو محو کرنے کا شرمناک راستہ اپنایا ، جس کے نتیجے میں پہلے خلافت عباسیہ ،پھر خلافت عثمانیہ اوراخیر میں ہندوستان کی سلطنت مغلیہ کا خاتمہ ہوگیا۔
باطنیت:خدا پرستی کے بجائے ہوا پرستی
اسلام نام ہے اللہ اورا س کے رسول ﷺ کے احکام کی کامل اطاعت واتباع کا ، اس کے سوا جو راستے اپنائے جائیں گے وہ سب نفس کی اطاعت اور ہوا پرستی میں شمار ہوں گے ، خواہ اسے کسی خلیفہ وامام معصوم کی پیروی کا نام دیا جائے ، یا اسلام کی روح اور ایمان کی جان قرار دیا جائے ،اوراپنی خواہش نفس کو عقل وحکمت ، تقیہ ومصلحت ، باطنیت وروحانیت ،قرآن کے مغز وباطن کی پیروی اور اہل بیت کے اتباع کا نام دیا جائے ، قرآن نے جگہ جگہ اس اتباع ہوا اوراپنے مزعومہ ومفروضہ راستے پر چلنے کو گمراہی سے تعبیر کیا ہے۔
ہوا پرستی نے اسلام کی تاریخ میں بہت سے بھیس بدلے اوربہروپ بھرے ہیں اورعوام کو فریب دینے اوراپنے محدود مفادات کے حصول کے لیے اسے تشیع وباطنیت ،اور معقولیت پسندی اورباطن پرستی کا نام دیا ہے ، اورحد درجہ جسارت وذہانت سے کام لے کر قرآن کی ایسی تاویل کی جس سے وہ ربانی ہدایت کے عالمی صحیفے کے بجائے اہل بیت کا قصیدہ اور تبرا نظر آنے لگا اوراس کے پیغام کی اصلیت وحقیقت فوت اور اس کا مقصد ومقام خبط ومفقود ہوکر رہ گیا ۔
ظاہر وباطن کا مغالطہ اور الفاظ و معانی کا رشتہ
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی صاحب نے باطنیت وتشیع کے اس مہلک حربے کی نشاندہی کرتے ہوئے بالکل صحیح لکھا ہے کہ :’’انہوں نے اپنی ذہانت سے اس نکتہ کو سمجھا کہ الفاظ ومعانی کا یہ رشتہ امت کی پوری زندگی اور اسلام کے فکری وعملی نظام کی بنیاد ہے ، اوراسی سے اس کو وحدت اور اپنے سرچشمہ اوراپنے ماضی سے اس کا ربط قائم ہے ، اگر یہ رشتہ ٹوٹ جائے اور دینی الفاظ و اصطلاحات کے مفہوم ومعانی متعین نہ رہیں ،یا مشکوک ہوجائیں تو یہ امت ہر دعوت اورہر فلسفہ کا شکار ہوسکتی ہے ، اوراس کے سنگین قلعہ میں سینکڑوں چور دروازے اوراس کی مضبوط دیواروں میں ہزاروں شگاف پیدا ہوسکتے ہیں ‘‘۔
’’الفاظِ شرعی کے متواتر و متوارث معنی و مفہوم کا انکار اور قرآن و حدیث کے ظاہر و باطن اور مغز و پوست کی تقسیم ، ایسا کامیاب حربہ تھا ، جس سے اسلام کے نظامِ اعتقاد و نظامِ فکر کے خلاف سازش کرنے والوں نے ہر زمانہ میں کام لیا۔ اسلام کی پوری عمارت کو اس طرح آسانی سے ڈائنامیٹ کیا جا سکتا تھا اور اسلام کے ظاہری خول کے اندر ریاست اندرونِ ریاست قائم کی جا سکتی تھی، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کی صدیوں میں جن فرقوں نے اور منافقین کی جس جماعت نے نبوتِ محمدی کے خلاف بغاوت کرنی چاہی، اس نے باطنیت کے اسی حربہ سے کام لیا اور اس معنوی تواتر و توارث کا انکار کر کے پورے نظامِ اسلامی کو مشکوک و مجروح بنا دیا۔ اور اپنے لئے دینی سیادت بلکہ نئی نبوت کا دروازہ کھول لیا۔ ایران کی’’ بہائیت‘‘ اور ہندوستان کی ’’قادیانیت‘‘ اس کی بہترین مثالیں ہیں‘‘(تاریخ دعوت وعزیمت، ج۱، ص ۱۲۵-۱۲۷)۔
ایسے تمام باطل فرقوں کا شمار قرآن نے اہل اہواء میں کیا ہے جن کا اسلام سے کوئی علاقہ نہیں ، قرآن میں ایسے ہی گمراہ ، نفاق پسند ، نفس پرست ،اورتاویل باز وجعل ساز فرقوں کی نفسیات وکیفیات کی تصویر کشی کی گئی ہے اوروہ تمام اہل ادیان اور ان تمام فرقوں کو جو اپنے کو مسلمان کہتے ہوئے بھی کتاب وسنت کے معتبر ومعروف راستے سے ہٹے ہوئے اور ایک الگ دینی نظام اور فرقہ ورانہ علیحدگی پسندی کے مرتکب ہیں اورجمہور مسلمین کے مقابلے پر اپنی الگ راہ وروش قائم رکھے ہوئے ہیں اور اس طرح دین محمد وسنت نبوی سے بغاوت کیے ہوئے ہیں ان کی گمراہی کا اعلان کیا گیاہے ۔
باطنیہ واسماعیلیہ اور متکلمین اسلام
باطنیت وشیعیت کے تخریبی عزائم ومقاصد کی پیش بندی ودفاع کے لیے محدثین ومتکلمین اسلام نے شروع ہی سے اظہار حق کی اور ان کے فاسد عقائد کی نشاندہی کی جسے علم الرجال اورعلم الکلام کی کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے ، لیکن امام عبد القاہر بغدادی( ۴۲۹ھ) نے اپنی بلند پایہ وبیش قیمت کتاب ’’الفرق بین الفرق ‘‘ میں اسلامی فرقوں کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے ،امام غزالیؒ نے اپنی کتاب ’’فضائح الباطنیہ‘‘ (۱)میں اسی کتاب کے بیانات کو نقل کیا ہے ، پھر علامہ ابن الجوزی (۵۱۰-۵۹۷ھ) نے اپنی تاریخ ’’المنتظم فی تاریخ الملوک والامم ‘‘ میں امام غزالی ؒ کے بیان کو نقل کیا ہے ، ہم یہاں ان کے بیان کا خلاصہ نقل کرتے ہیں ، ابن الجوزی فرماتے ہیں :
’’(اسماعیلیہ نے سوچا) کہ ہم عام مسلمانوں کے دین کو مٹانا چاہتے ہیں ،مگران کی کثرت کے سبب یہ ممکن نہیں ، اس لیے یہی طریقہ رہ جاتا ہے کہ دین کے اندر ہم ایک دعوت پیدا کریں اور ان کے کسی فرقے کی طرف منسوب ہوجائیں اوران میں رافضیوں کا فرقہ سب سے زیادہ ضعیف العقل ہے ، اس لیے ہم ان سے سادات کی مظلومیت اوران کے حقوق کی پامالی اورقتل وغیرہ کا ذکر کرکے اسلام کے مٹانے کا کام کریں ، چنانچہ اسماعیلیہ وباطنیہ اس ناپاک مقصد کے لیے متحد ہوگئے ،اوراپنے کو اسماعیل بن جعفر بن محمد صادق (۱۴۳ھ) کی طرف منسوب کیا ، پھرشیطان کے سمجھانے پر انہوں نے مجوس اورفلاسفہ کے خیالات اپنا لیے ،اوراپنے پیرووں کے سامنے تحریف شدہ دین رکھا ،مگران کا مقصد اسلام کا مطلق انکارتھا ، لیکن یہ ممکن نہ ہونے کے سبب اس کے لیے دوسرے ذرائع اختیار کیے ‘‘(القرامطہ ، لابن الجوزی ، تحقیق محمد الصباع ،ص ۳۲،دمشق ۱۹۷۷ء)۔
بعض باطنی اوراسماعیلی فرقے اور ان کے عقائد
علامہ ابن جوزیؒ فرماتے ہیں (جو علامہ عبد القاہر اورامام غزالی کا بھی قول ہے ) کہ انہیں ’’باطنیہ ‘‘اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ قرآن وحدیث کے ظاہری الفاظ کے ایسے باطنی معنی ہیں جو چھلکے کے مقابلے میں مغز کا حکم رکھتے ہیں ،اور جو علم باطن میں ترقی کرجاتا ہے اس سے تکلیف شرعی ختم ہوجاتی ہے ، اوروہ اس سے آرام پاتا ہے ، ان کا اس سے مقصد شریعت کو ختم کرنا ہے ، کیونکہ جب انہوں نے عقائد کو ظاہری احکا م سے ہٹادیا تو ایسے باطنی دعوے کرنے لگے جو دین سے تعلق ختم کردیتے ہیں ،انہیں ’’محمرہ‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بابک خرمی کے زمانے میں سرخ کپڑے پہنتے تھے جو ان کا شعار تھا ، انہیں ’’سبیعہ‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ سات ستارے عالم سفلی کے مدبر ہیں ،اورانہیں ’’تعلیمیہ‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ مخلوق کو امام معصوم کی تعلیم کی طرف بلاتے ہیں ۔
ان کا مقصد شریعت کا خاتمہ ہے اس لیے کہ ان کی دعوت متعین نہیں ، بلکہ ہر جماعت سے اس کی رائے کے مطابق بات کرتے ہیں ،کیونکہ ان کی غرض سے سب پر حاوی ہونا ہے ، باطنیہ کے پردوں میں کم عقل ، جاہ پسند ، طالع آزما، عوام دشمن ، لذت پسند اور عقلیت زدہ انسان ہی نظر آتے ہیں جن سے وہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر انہوںنے ان کی مرضی کے مطابق کام کیا تو وہ امام اور نبی کے درجے پر پہنچ جائیں گے ، اور مبتدی ترقی کرتے کرتے حجت، پھر امامت ، پھر رسالت کے درجے پر پہنچ جاتا ہے اور(نعوذ باللہ) خدا سے مل کر خدا ہوجاتا ہے ‘‘(ایضا،ص ۳۶ تا ۷۲)۔
امام عبد القاہر بغدادی نے بھی ایسا ہی خیال ظاہر کیا ہے کہ’’ باطنیہ کے پردوں میں وہ عوام ہیں جو بصیرت سے خالی ہیں ، جیسے نبطی ، کرد، مجوسی اور دوسرے وہ شعوبی ہیں جو عجم کو عرب پر فضیلت دیتے ہیں اور عجم کی حکمرانی کے خواہش مند ہیں ،تیسری قسم بنی ربیعہ کے بے وقوفوں کی ہے جو آنحضرت ﷺ کے مضری ہونے سے خفا ہیں ، عبد اللہ بن خازم اسلمی نے اپنے خطبہ خراسان میں کہا کہ ربیعہ اللہ تعالی سے اپنے نبی کو مضر سے مبعوث کرنے پر خفا ہیں اسی وجہ سے بنو حنیفہ نے مسیلمہ کذاب سے بیعت کی تھی کہ شاید بنی ربیعہ کا نبی بن جائے ‘‘(الفرق بین الفرق ،ص ۲۸۶)۔
باطنیت اورفرقہ نصیریہ
علامہ ذہبی نصیریہ کے بارے میں کہتے ہیں :’’یہ محمد بن نصیر کے پیرو ہیں جو امامی شیعہ تھا ، نصیریہ ،یہ زمانے کے ساتھ برابر بدلتے رہے ، علامہ ابن تیمیہ کے زمانے میں ان کے تلمیذ ابن مری شافعی نے ان کے عقائد کے بارے میں بتایا کہ وہ حضرت علیؓ کو خدا اور محمد ﷺ کو حجاب ، سلمان فارسیؓ کو باب اورحضرت علیؓ کو خالق ارض وسما مانتے ہیں ، اورکہتے ہیں کہ آدم اسم تھے اور معنی حضرت شیث تھے ، اسی طرح محمد ﷺ اسم تھے اور معنی حضرت علیؓ ، اسی کے ساتھ وہ عالم کی قدامت ، تناسخ ارواح کے قائل ہیں ، اور قیامت کا انکار کرتے ہیں ، اور جنت وجہنم کو دنیاوی چیز سمجھتے ہیں ، پانچ نمازوں کا مطلب پنج تن علی ،حسن وحسین ، محسن اور فاطمہ کو بتاتے ہیں ، علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ نصیریہ ، اسماعیلیہ اور باطنیہ ، شیعہ امامیہ ہی سے پیدا ہوئے ‘‘(مختصرمنہاج السنۃ للذہبی ، ص ۹۷-۹۹)۔
باطنیت اور فرقہ دروز
نصیریہ کی بڑی تعداد شام میں ہے جو اب اپنے کو ’’علویین‘‘ کہتے ہیں ، شام ولبنان میں بسنے والے دروزیوں کے بارے میں مولانا عبد الحلیم شرر لکھتے ہیں :’’شام کے اسماعیلی فی الحال تین فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں :سویدانی ، خضروی اوردروز، سب سے زیادہ جماعت تو دروز کی ہے جنہوں نےحسن بن صباح کے اصول چھوڑ کر ایک نیا مذہب بنالیا ہے ، اس مذہب کی ابتدا یوں ہوئی :گیارہویں صدی عیسوی میں خلفائے بنی فاطمہ مصر میں سے الحاکم بامر اللہ نے جب پرانے خیال کے مسلمانوں پر بے انتہا مظالم کرکے تمام مخالف قوتیں توڑ دیں تو اس کے اشارے یا اس کی ہیبت وجبروت نے اس کی نسبت ایک نیاخیال پیدا کیا، محمد بن اسماعیل نامی ایک شخص نے دعوی کیا کہ خلیفہ الحاکم خداوند جل وعلا کا ایک مظہر کامل ہے ،اس اصول نے خلیفہ یا امام کی ذات میں ایک شان الوہیت پیدا کردی اوراسے ایک پورا دیوتا بنادیا ، خوشامد آمیز عقیدت الحاکم کو ایسی پسند آئی کہ اس کی تصدیق ہی نہیں کی بلکہ حکومت کے زور سے اورلوگوں کو بھی اس عقیدے کا پابند بنانے لگا، اس طریقے سے جو لوگ محمد بن اسماعیل کے ہم عقیدہ بنائے گئے ان لوگوں کو ’’دروز ‘‘کا خطاب دیا گیا ‘‘۔
’’اس مذہب کا سب سے بڑا داعی اور رواج دینے والا حمزہ بن علی نامی ایک شخص تھا جس کے خطوط تبلیغ کا ایک مجموعہ یورپ میں چھپا ہے ، یہ مجموعہ ’’کتاب الدروز‘‘ کے نام سے مشہور ہے ، اور فرقہ دروز میں قرآن سے زیادہ مقبولیت ووقعت رکھتا ہے ، حمزہ نے اس فرقہ والوں کے سامنے یہ اصول پیش کیا کہ محمد ﷺ صرف قرآن کی تنزیل یعنی ظاہری ولغوی معنوں کو سمجھ سکتے تھے ، ان کے اصطلاحی ،اصلی اور مرادی معنی فقط حاکم بامر اللہ ہی سمجھا ، جس میں شان الوہیت پائی جاتی تھی ، دروز کا واقعی یہ عجیب اعتقاد ہے کہ قرآن کی حقیقت اوراس کے بذریعہ وحی نازل ہونے کے تو معتقد ہیں مگرآنحضرت کو برا بھلا بھی کہتے ہیں ،اگر غور سے دیکھا جائےتو مسلمانوں میں یہ عجیب فرقہ ہے جس نے اپنے آپ کو قریب قریب تمام اسلامی شعائر اورمذہبی قیدوں سے آزادکرلیا ہے ، نہ ختنہ کرتے ہیں ، نہ نماز پڑھتے ہیں ، نہ روزہ رکھتے ہیں ، شراب بے تکلف پیتے ہیں ،سور کا گوشت کھاتے ہیں ، کبھی کسی قسم کا تامل نہیں کرتے ،اورازدواج ونکاح بہت سی رسموں اور قیدوں میں بھی شریعت اسلام کا کچھ پاس ولحاظ نہیں کرتے ‘‘(حسن بن صباح ، ص ۵۹-۶۳، مکتبہ اردو لکھنو)۔
جمال الدین قنطی لکھتا ہے :’’فرقہ باطنیہ کے بعض لوگ اس حکیم (ابیذ قلیس یونانی ) کو اپنا پیشوا خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ابیذ قلیس چند باتیں رمز وکنایہ میں کہہ گیا ہے جن کا علم آج تک کسی کو حاصل نہیں ہوا ، لیکن میں نے اس حکیم کی تصانیف دیکھی ہیں ان میں کوئی ایسی بات نہیں ملی ، اسلام میں اس فلسفی کا مشہور پیرو محمد بن عبد اللہ الجبلی القرطبی ہے جو اپنے مرشد کے فلسفے کا بڑا شیدائی تھا اورزندگی بھراس کی اشاعت کرتا رہا ‘‘(تاریخ الحکماء ،ص ۴۸-۴۹ )۔
عبدالکریم شہرستانی (۴۷۹-۵۴۸ھ) لکھتے ہیں :’’ان لوگوں کو باطنی اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ہر ظاہر کا باطن اور ہرآیت کی تاویل کے قائل ہیں ،انہیں اور القاب سے بھی یاد کیا جاتا ہے ، عراق میں وہ باطنیہ ، قرامطہ اور مزوکیہ ،اورخراسان میں تعلیمیہ وملاحدہ کہلاتے اور وہ اپنے کو اسماعیلیہ کہتے ہیں ، قدیم باطنیوں نے اپنے عقائد میں فلاسفہ کے اقوال شامل کرلیے تھے اوراپنی کتابیں بھی اسی طرز پر لکھی تھیں ‘‘(الملل والنحل ، ص ۲۹)۔
حواشی
(۱)امام غزالیؒ نے باطنیوں کی تردید میں جو کتابیں لکھیں ان میں سے پانچ کتابوں کے نام ملتے ہیں : حجۃ الحق ، مفصل الخلاف، قاصم الباطنیہ، فضائح الاباحیۃاور مواہم الباطنیہ ، ملاحظہ ہو :تاریخ دعوت وعزیمت ، ج۱، ص ۱۴۶۔
ماخوذ از:ماہنامہ الحق ،اکوڑہ خٹک، شمارہ فروری ومارچ ۱۹۸۵ء۔