داستان آغاز جامعہ بنوری ٹاؤن، خود نوشت سوانح از مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ

تحریر: محدث العصرحضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ
اردو ترجمہ: حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہید رحمہ اللہ

تعارف: محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ (بانی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی) نے عربی زبان میں اپنے حالات زندگی مختصر انداز میں تحریر فرمائے تھے ، جس کا اردو ترجمہ حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہید رحمہ اللہ نے کیا ، اور یہ مضمون ماہنامہ بینات کی اشاعت خاص بیاد حضرت بنوریؒ میں شائع ہوا ، اس مضمون میں حضرت بنوری قدس سرہ کے حالات زندگی کے ساتھ ساتھ جامعہ بنوری ٹاؤن کا تعارف، ابتدا ، اغراض ومقاصد ، اور خصوصیات کے متعلق بھی کافی اہم معلومات ہیں ، یہاں یہ واضح رہے کہ اس مضمون میں جامعہ ، اس کے طلبہ اور شعبوں وغیرہ سے متعلق اعداد وشمار اس وقت کے اعتبار سے ہیں جب یہ مضمون لکھا گیا۔

نام و نسب اور تعلیم

راقم الحروف محمد یوسف بن سیّد محمد زکریا بن میر مزمل شاہ بن میر احمد شاہ البنوری الحسینی کی ولادت بتاریخ ۶ ربیع الثانی ۱۳۲۶ھ مطابق ۱۹۰۸ء بروز جمعرات بوقتِ سحر پشاور کے مضافات کی ایک بستی میں ہوئی۔

سلسلۂ نسب نویں جدِّ امجد عارف محقِّق حضرت سیّد آدم بن اسمٰعیل الحسینی الغزنوی البنوری المدنی کی وساطت سے حضرت سیّدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے۔

قرآن کریم اپنے والد ماجد اور ماموں سے پڑھا، امیر حبیب اللہ خاں کے دور میں افغانستان کے دارالحکومت ’کابل‘ کے ایک مکتب میں صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں پڑھیں، اس دَور کے مشہور استاذ شیخ حافظ عبد اللہ بن خیر اللہ پشاوری شہید ۱۳۴۰ھ ہیں، فقہ، اصولِ فقہ، منطق، معانی وغیرہ مختلف فنون کی متوسط کتابیں پشاور اور کابل کے اساتذہ سے پڑھیں، ان میں اکابر حضرت مولانا عبد القدیر افغانی لمقانی (جو جلال آباد افغانستان میں محکمہ شرعیہ کے قاضیٔ مرافعہ تھے) اور شیخ محمد صالح قیلغوی افغانی وغیرہ ہیں۔

باقی ماندہ علوم و فنون، علم حدیث اور اصولِ حدیث کی کتابیں ۱۳۴۵ھ سے ۱۳۴۷ھ تک دارلعلوم دیوبند میں پڑھیں، دورۂ حدیث جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں کیا، یہاں جن مشائخ سے استفادہ کیا ان میں سب سے بڑے شیخ محقّقِ عصر مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ (جو پاکستان کے شیخ الاسلام اور ’’فتح الملہم شرح صحیح مسلم‘‘ کے مصنف ہیں) اور امام العصر، محدث کبیر، عالم شہیر، شیخ محمد انور شاہ الکشمیری ثم الدیوبندی رحمہ اللہ ہیں، خصوصاً امام العصر رحمہ اللہ سے انتہائی استفادہ کیا، انہی سے تخرج حاصل کیا اور ایک سال سے زیادہ عرصہ تک شب و روز ان کا خادمِ خاص رہا۔

جامعہ اسلامیہ ڈابھیل سے فراغت کے بعد ۱۹۳۰ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایک ماہ میں پرائیویٹ تیاری کرکے مولوی فاضل کا امتحان دیا اور سند حاصل کی۔

دینی و ملّی خدمات

چار سال پشاور میں جمعیۃ العلماء کے پلیٹ فارم پر دینی و سیاسی خدمات انجام دیتا رہا، آخر میں جمعیۃ العلماء پشاور کا صدر رہا۔

(چونکہ شیخ انور کشمیری رحمہ اللہ سے خصوصی استفادہ کیا اس لیے) اسی نسبت و تعلّق کی بناء پر جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں تدریس کے لیے تقرر ہوا اور بالآخر وہاں کا شیخ الحدیث وصدر مدرس بنا، جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کی مجلس علمی کا رکن بھی منتخب کیا گیا۔

۱۹۳۷ء میں مجلس علمی نے اپنی کتابوں (فیض الباری اور نصب الرایہ ) کی طباعت کے لیے مجھے مصر بھیجا اور مجلس ہی کی طرف سے مصر کے علاوہ یونان، ترکی، حجاز مقدس کا سفر بھی ہوا، مجلس کی مفوضہ علمی خدمت کو بجُسن و خوبی انجام دیا، اور اس سلسلہ میں چودہ مہینے ملک سے باہر رہا۔

جمعیۃ العلماء ہند گجرات وضلع بمبئی کا صدر بھی رہا اور بمبئی اوقاف کمیٹی کا ممبر بھی۔

۱۳۵۷ھ مطابق ۱۹۳۸ء میں قاہرہ میں منعقد ہونے والی موتمر فلسطین میں مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ کا مساعد رہا، چونکہ مفتی صاحب رحمہ اللہ صاحب فراش تھے اس لیے دوران کانفرنس جتنے پروگرام ہوئے اور جو بیانات وغیرہ اخبارات میں شائع ہوئے سب میرے قلم سے نکلے۔

دارالعلوم دیوبند سے پیشکش

قیام ڈابھیل کے دوران دارالعلوم دیوبند کے طبقۂ علیا کی پیشکش بار بار کی گئی نیز دارالعلوم دیوبند میں منصب افتاء کے لیے شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا حسین احمد مدنی رحمہما اللہ اور قاری محمد طیب صاحب تینوں حضرات نے اصرار فرمایا مگر قبول کرنے سے معذرت کردی، جامعہ احمدیہ بھوپال کے لیے علامہ سیّد سلیمان ندوی نے بھی دعوت دی مگر اسے بھی قبول نہیں کیا۔

پاکستان آمد

بعض مشاہیر کے اصرار پر جنوری ۱۹۵۱ء میں ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچا اور دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈو الہ یار (حیدر آباد سندھ) میں شیخ التفسیر کے منصب پر تقرر ہوا، وہاں تین برس کام کیا، پھر وہاں سے مستعفی ہوکر کراچی چلا آیا اور یہاں اپنے بعض اکابر علماء کی رفاقت میں فارغ التحصیل حضرات کی تربیت کے لیے ایک علمی ادارہ قائم کیا۔

اسفار

راقم الحروف کو حرمین شریفین کے سفر مقدس کا شرف بارہا حاصل ہوا، ۱۹۳۷ء میں قاہرہ کا سفر ہوا جہاں تقریباً ایک سال قیام رہا، اسی طرح عراق، مصر، لیبیا، اُردن، شام، بیروت، ایران، افغانستان، ترکی، یونان وغیرہ کے اسفار بھی کیے۔

تصنیفات

بندہ کی تصنیفات یہ ہیں:

۱-بغیۃ الأریب فی احکام القبلۃ والمحاریب: جو قاہرہ سے ۱۳۵۷ھ میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوئی۔

۲-نفحتہ العنبر فی حیاۃ امام العصر الشیخ محمد اَنور: جو دہلی سے ۱۳۵۳ھ میں طبع ہوئی۔

۳-یتیمۃ البیان (جو دراصل امام العصر مولانا الشیخ محمد انور شاہ رحمہ اللہ کی تصنیف مشکلات القرآن کا مقدمہ ہے) دہلی سے ۱۹۳۶ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔

۴-معارف السنن شرح جامع الترمذی: نہایت جامع شرح ہے، ابتدائی کتاب سے کتاب المناسک کا اختتام چھ ضحیم جلدوں میں ہوا۔

متعدد کتابوں پر مقدمے بھی لکھے جن میں سے اہم یہ ہیں:

۱-مقدمۂ فیض الباری شرح صحیح البخاری۔
۲ -مقدمۂ النصب الرایۃ تخریج احادیث الہدایۃ۔
۳ -مقدمۂ مقالات کوثری
تینوں کتابیں مصر سے طبع ہوچکی ہیں۔
۴- مقدمۂ عقیدۃ الاسلام۔
۵-مقدمۂ عبقات للشاہ اسماعیل الشہید رحمہ اللہ۔
۶- مقدمۂ اکفار الملحدین فی ضروریات الدین۔

اس کے علاوہ اور بھی کئی مقدمات ہیں جن میں سب سے ضخیم اور قیمتی مقدمۂ معارف السنن ’’عوارف المنن‘‘ ہے جو سردست غیر مطبوعہ ہے،علاوہ ازیں بعض کتابوں پر تقریظیں بھی تحریر کی ہیں جن میں سے شیخ رضوان محمد رضوان کی کتاب ’’فہارس البخاری الکبیر‘‘ پر تقریظ بھی ہے، علاوہ ازیں راقم الحروف کے مختلف علمی موضوعات اور مسائل پر تحقیقی نوٹ بھی ہیں۔

شعر و سخن

عربی میں اہل علم کے انداز پر کلام (اشعار) کا مجموعہ بھی ہے جن میں بعض اشعار بہت عمدہ سمجھے گئے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں دو قصیدے ہیں، جن میں سے ایک قصیدہ فائیہ ہے، جو ’’شذرات الاَدب فی مدیح سیّد العجم و العرب‘‘ کے نام سے قاہرہ کے ہفت روزہ ’’الاسلام‘‘ کی اسراء و معراج پر خصوصی اشاعت میں ۱۳۵۷ھ مطابق ۱۹۳۸ء میں شائع ہوچکا ہے، جس پر اہل فن اور اہل زبان نے خوب داد دی تھی اور اسے بہت پسند کیا تھا۔

اساتذہ

اسفار کے دوران بڑے بڑے علماء واعیان سے ملاقاتیں ہوئیں اور ان سے اجازت حدیث بھی حاصل کی، ان میں سے چند حضرات کے اسماء گرامی یہ ہیں: محقق کبیر شیخ علّامہ محمد زاہد الکوثری، عالم کبیر شیخ خلیل الخالدی المقدسی، محدث جلیل شیخ عمر بن حمدان المحرسی المالکی المغربی، استاذ کبیر شیخ محمد بن حبیب اللہ بن مایابی الحکبنی/الحکنبی الشنقیطی (کلیہ اصول الدین مصر کے استاذ حدیث) اور محدثہ شیخہ امّۃ اللہ بنت شاہ عبد الغنی المجددی محدث دہلوی ثم مدنی وغیرہ ہیں۔

تلامذہ

بلادِ حرمین میں مجھ سے بہت سے علماء نے اجازت حدیث لی ہے، جن میں سے بعض حضرات کے نام یہ ہیں: شیخ سلیمان بن عبد الرحمٰن الصنیع (مکہ مکرمہ کے ادارۂ ’’ہئیۃ الاَمر بالمعروف والنہی عن المنکر‘‘ کے سربراہ) محدث شیخ حسن المشاط (مکہ مکرمہ کے مدرسہ صولتیہ کے مدرس) محترم بزرگ شیخ ابراہیم ختنی مقیم مدینہ منورہ، شیخ عبد العزیز عیون السود حمصی شامی، شیخ علی محمد مراد حموی اور عالم جلیل شیخ عبد الفتاح اَبو غدہ وغیرہ۔

ان پچیس سالوں میں مختلف فنون اور حدیث وغیرہ کی بہت سی کتابیں زیر درس رہی ہیں، جن کو خوب تحقیق و تدقیق کے ساتھ پڑھایا، خصوصاً سنن ابی داؤد، جامع ترمذی صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، مؤطا مالک، مؤطا محمد، مقدمہ ابن صلاح وغیرہ، علم ادب کی کتابوں میں سے مقامات بدیع الزماں الہمذانی، مقامات حریری، مقامات زمخشری، سبع معلّقات، ہمزیہ بوصیری، دیوان حماسہ وغیرہ۔

داستان آغاز جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی

مدرسہ عربیہ اسلامیہ (جامعہ بنوری ٹاؤن): ابتدائی فکر

جب دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈو الہ یار سے قطع تعلّق کیا تو کراچی سے پشاور تک پاکستان کے دس بارہ سے زیادہ علمی اداروں نے صدر مدرس وغیرہ کے منصب پیش کیے ،لیکن کسی کو قبول نہ کیا اور باقی ماندہ تھوڑی سی عمر ادھر اُدھر ضائع کرنے اور نئے تجربات کرنے کے بجائے یہی مناسب سمجھا کہ سابقہ تجارب کی روشنی میں اپنے انداز کا دینی مدرسہ قائم کیا جائے ،اور وہاں اپنے طویل تعلیمی تجربہ کی روشنی میں طلبہ کی تعلیم و تربیت کا ایک خاص نظام رائج کیا جائے جو نسل جدید کے لیے مفید ہو، لیکن ایسی عظیم الشان مہم کے لیے:

اوّلاً: اونچے درجے کے اخلاص کی حاجت ۔

ثانیا: ہمت بلند کی ضرورت ۔

ثالثا: جُہدِ مسلسل اور صبر و استقامت درکار۔

رابعا: رفقاء کے روحانی و مادی تعاون کی احتیاج۔

مجھے احساس تھا کہ مجھے یہ چیزیں میسّر نہیں، اور ان کے بغیر کسی کام کی ابتداء خوابوں کی دُنیا بسانے اور ٹھنڈے لوہے پر چوٹ لگانے کے مرادف ہے:

’’وَاَنّی لھم التناوش من مَّکان بعید‘‘

جامعہ کی بنیاد سے قبل حرمین شریفین کا سفر

لہٰذا میں نے مناسب سمجھا کہ حرمین شریفین کا سفر کروں، حج و زیارت کی سعادت حاصل کروں اور حج و زیارت کو ایسے کام کی توفیق کا ذریعہ بناؤں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو محبوب ہو، اور وہاں اللہ تعالیٰ سے استخارہ کروں کہ میرے دل میں وہ کام ڈالے جو دین و علم کی خدمت کے سلسلہ میں میرے مناسب حال ہو۔

چنانچہ بروز جمہ ۴ ذی الحجہ ۱۳۷۳ھ کو ہوائی جہاز سے بصرہ گیا اور وہاں سے عراقی طیارہ سے جدّہ اُترا اور مکہ مکرمہ پہنچا، ان مقدس مقامات میں، قبولیت دُعاء کے خصوصی مقامات و مبارک اوقات اور خاص کیفیت کی گھڑیوں میں اس مقصد وحید کے لیے خوب دعائیں مانگتا رہا، مکہ مکرمہ میں بیس روز گذار کر زیارت روضۂ نبوی (علی صاحبہا الصلاۃ و السلام)کی غرض سے مدینہ منورہ روانہ ہوا، وہاں بتیس ۳۲ دن قیام رہا اور استخارہ و استشارہ کے بعد پختہ ارادہ کر لیا کہ دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈو الہ یار سے مستعفی ہوکر نئے مدرسہ کی بنیاد ڈالوں گا اور اسے ایک خاص نہج پر چلاؤں گا۔

ایک صاحب ثروت کی طرف سے پیش کش

پاکستان واپس پہنچا تو حیران تھا کہ کیا کروں اور کیسے کروں؟ تقریباً سال بھر اسی شش و پنج میں گزرا، اس اثناء میں ایک صاحبِ ثروت حاجی یوسف سیٹھی (جنہوں نے اپنی دولت قرآن کریم اور دینی تعلیم عام کرنے کے لیے وقف کر رکھی تھی) آئے اور تقریباً پچاس ہزار روپئے مجھے پیش کرنا چاہے (جو میرے اور مولانا عبد الرحمن کامل پوری کے لیے تقریباً پانچ سال کے مشاہرہ کے لیے کافی ہوتے) تاکہ ہم نئے مدرسہ کا افتتاح کردیں، لیکن میں نے یہ کہہ کر وہ خطیر رقم واپس کر دی کہ میں متعدّد وجوہ کی بناء پر مدرسہ کی بنیاد رکھنے سے قبل کسی قسم کی امداد و معاونت قبول نہیں کر سکتا، ہاں! مدرسہ کے افتتاح کے بعد جو معاونت ہوگی شکریہ کے ساتھ قبول کی جائے گی، لیکن میں جتنا انکار کرتا رہا وہ اتنا ہی اصرار کرتے رہے، تاہم میں نے اس معاونت کے قبول کرنے سے قطعی انکار کر دیا۔

لال جیوہ ، حب ندی کے قریب ایک ادارہ کا قیام اور اس کا نصاب

بعد ازاں اپنے ایک دوست کی رفاقت میں مدرسہ کھولنے کا اِرادہ کیا، اس سلسلہ میں بعض ان حضرات کی معرفت جو حکومت میں اثر رکھتے تھے، حکومت سے مطالبہ کیا کہ مدرسہ کی تعمیر کے لیے ہمیں کوئی جگہ دی جائے، حکومت نے کراچی شہر سے تقریباً آٹھ میل کے فاصلہ پر شمال مغرب میں ’’حب ندی‘‘ کے قریب ’’لال جیوہ‘‘ نامی مقام پر دس ایکڑ زمین دینے پر رضامندی ظاہر کردی، مادی وسائل کی قلت، حصولِ کتب، طلبہ کے وظائف، مدرسین حضرات کی تنخواہوں وغیرہ کی درپیش مشکلات کے سبب ابھی میں تردّد ہی میں تھا کہ اس جگہ کام شروع کروں یا نہیں کہ اخبارات میں میری طرف سے یہ اعلان شائع ہوگیا کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلباء کے لیے تخصص و تکمیل کے درجہ کے لیے ایک مرکز کا افتتاح کیا جارہا ہے جس کا طرزِ تعلیم اور نصاب تعلیم یہ ہوگا:

۱-مشکلاتِ قرآن کی تعلیم۔

۲-مشکلات حدیث کا درس۔

۳-فقہاء کے مذاہب کا مقارنہ ابن رشد کی کتاب بدایۃ المجتہد کے طرز پر۔

۴- مقدمہ ابن خلدون کی تعلیم۔

۵-حکیم الہند شاہ ولی اللہ دہلوی کی ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کا پہلا جُز۔

۶-تاریخ ادب عربی کے سلسلہ میں ’’تاریخ ادب عربی‘‘ اور ’’الوسیط‘‘

۷-تحریر وانشاء اور عربی لکھنے بولنے کی مشق اور اس کے لیے موضوع سے متعلق کتابوں کا یاد کرنا، مثلاً ابن الأجدابی کی ’’کفایۃ المتحفظ‘‘، أسکافی کی ’’مبادیٔ اللغۃ العربیۃ‘‘، ہمدانی کی ’’الألفاظ الکتابیہ‘‘ أبو منصور ثعالبی کی ’’فقہ اللغۃ‘‘ وغیرہ۔

یہ اعلان ہوتے ہی دس بارہ فارغ التحصیل طلباء میرے پاس پہنچ گئے، جن میں دارالعلوم دیوبند اور مدرسہ مظاہر العلوم سہانپور کے فضلاء بھی تھے، اکثریت ان طلبہ کی تھی جو پاکستان کے مدارس سے سند یافتہ تھے، اب میں طلبہ کے لیے کتابیں خرید نے اور ان کو وظیفہ دینے پر مجبور تھا، اس وقت میرے پاس میرے ایک فاضل دوست کے بارہ سو روپے امانت تھے، میں نے ان سے وہ قرض لے کر ضروری کتابیں جو میسّر آسکتی تھیں خرید لیں۔

جس رفیق کے ساتھ مل کر میں نے اس کام کو شروع کیا تھا وہ اپنے مخلص احباب ورفقاء سے چندہ وغیرہ جمع کرنے لگے اور میں نے عملی کام شروع کردیا، ساتھ ہی اپنے احباب کو طلبہ کی معاونت اور ضروری اسباب مہیّا کرنے کی طرف متوجہ کرتا رہا، لیکن جلد ہی مجھے احساس ہُوا کہ میں اپنے اس رفیق کے ساتھ رہتے ہوئے صحیح کام نہیں کر سکتا اور طلبہ کی جس طرح دینی وعلمی، اخلاقی وعملی تربیت کرنا چاہتا ہوں وہ ان کے ساتھ رہتے ہوئے نہیں ہوسکتی، میرا ذوق اور خیالات ان صاحب سے مختلف تھے، ساتھ ہی کچھ اور حوادث اور تکلیف دہ واقعات بھی پیش آئے جن کا تذکرہ بے سُود ہے مجھے اُمید ہے کہ خدا مجھے اس کا صلہ آخرت میں دے گا۔

جامع مسجد بنوری ٹاؤن کا انتخاب

اس صورت حال کے پیش نظر میں ان سے قطع تعلق کرنے اور اس جگہ کو چھوڑنے پر مجبور ہوگیا اور اب میں نے یہ کوشش کی کہ کوئی مناسب جگہ دیکھ کر وہاں کام شروع کروں اور اپنے طرز کا مدرسہ کھولوں، اس کام کے لئے جامع مسجد نیو ٹائون، جس کی تعمیر ابھی شروع ہی ہوئی تھی مجھے پسند آئی، جامع مسجد کے ساتھ ہی ایک ٹکڑا فارغ پڑا تھا، منتظمین مسجد کا خیال تھا کہ جامع مسجد کی تعمیر سے فراغت کے بعد کبھی خدا نے موقع دیا تو وہاں پر مدرسہ بنائیں گے، میں نے مسجد کے سیکرٹری جناب محمد سلیم صدیقی لکھنویؒ اور خزانچی حاجی محمد یعقوب کالیہؒ کو یہ پیشکش کی کہ جس مدرسہ کو وہ ایک مدّت کے بعد بنانا چاہتے ہیں اس کو میرے حوالہ کردیں اور میں نے صاف الفاظ میں انھیں بتلا دیا کہ میں آپ حضرات سے کسی قسم کی معاونت کا خواہاں نہ ہوں گا، نہ تعمیر کے سلسلہ میں نہ کتابوں اور طلبہ کے وظائف وغیرہ کے سلسلہ میں، آپ حضرات صرف اتنا احسان کریں کہ اس فارغ قطعۂ اراضی سے مجھے فائدہ اٹھانے کی اجازت دے دیں، کمیٹی میں اس وقت مخلص قسم کے تاجر پیشہ لوگ تھے، جن میں حاجی وجہیہ الدین دہلوی رحمہ اللہ جیسے سمجھدار تجربہ کار، مخلص اور نیک لوگ موجود تھے جنھوں نے مسجد کی تعمیر اور دینی مدرسہ اور دارالمطالعہ کے قیام کے لیے حکومت سے تین سال مقدمہ لڑ کر یہ زمین حاصل کی تھی، کمیٹی کے سب اراکین نے متفقہ طور پر مدرسہ کا انتظام وانصرام اور دیگر تمام معاملات میرے سپرد کردیے۔

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی بنیاد

جب میں اس جامع مسجد میں پہنچا تو ابھی اس کا سنگ بُنیاد ہی رکھا گیا تھا وہاں وضو خانہ تھا نہ استنجا خانہ، رہنے کا مکان تھا نہ رہنے کے قابل کوئی جگہ، نہ ضروریاتِ زندگی کا کوئی وجود تھا، ادھر میں بالکل خالی ہاتھ تھا، میرے پاس کچھ بھی نہ تھا، مجبوراً مجھے ایک تاجر حاجی علیم الدین صاحب جے پوری سے تین سو روپے قرض لینا پڑے اور ان میں سے تیس روپیہ فی طالبعلم کے حساب سے طلبہ کو ایک ماہ کا وظیفہ تقسیم کردیا، اس طرح سے ۱۹۵۳ء میں مدرسہ عربیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی گئی، اور یوں کام کی ابتداء محض اللہ جلّ شانہ کے توکّل اور بھروسہ پر ہوئی اور خدا کا شکر ہے کہ اس دینی وعلمی کام میں خدا کے بھروسہ واعتماد پر کام شروع کرکے مجھے اللہ کی متوکل بندوں سے مشابہت کا موقعہ میسّر آگیا اگرچہ میں ان میں سے ہُوں نہیں۔

یہ تھی ابتداء کار اس راستہ میں جو مصائب وآلام، تکالیف اور مشقتیں اٹھانا پڑیں اور افکار کے جن پگھلا دینے والے ہجوم سے گزرنا پڑا ان کا تذکرہ بے معنی ہے، خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھ جیسے کمزور شخص کو توفیق واستقامت بخشی۔

فلہ الحمد کما ینبغی لجلال وجھہ وعظیمہ کبریائہ وکبیر منتہ والآئہ

جامعہ کا عظیم الشان کتب خانہ

خدا کا شکر ہے کہ اس نے اس مدرسہ کو اس کی نو عمری اور ابتداء ہی میں تعلیم وتربیت کی حسن۔ خوبی اور نظم ونسق کی عمدگی وغیرہ میں دوسرے مدارس ومعاہد سے ممتاز کردیا اور ابھی اس پر بیس سال بھی نہ گزرے تھے کہ اس کے پاس عظیم الشان قیمتی کتب خانہ جس میں علوم وفنون کی کئی ہزار درسی کتابوں کا ذخیرہ جمع ہوگیا جن کی قیمت کئی لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔

جامعہ بنوری ٹاؤن کے چند شعبے

مدرسہ میں سردست مندرجہ ذیل شعبہ جات کام کررہے ہیں:

۱- درجہ حفظ وتجوید قرآن کریم، جس میں اس وقت سو سے زیادہ بچے پڑھتے ہیں۔

۲- مکتب وناظرہ، جس میں تقریباً پچاس بچے پڑھتے ہیں۔

۳-درجہ اعدادی، جس میں عربی زبان، اردو لکھنا پڑھنا اور فارسی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ تقریباً پچاس بچے داخل ہیں۔

۴- درجہ ثانویہ۔

۵-درجہ عالیہ۔

تخصص فی الحدیث

۶-درجہ تحضص فی الحدیث، اس میں حدیث اور اس سے متعلّق علوم، اسماء الرجال، اصولِ حدیث، جرح وتعدیل، حدیثی مشکلات وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔

اس درجہ کے لیے طلبہ کے انتخاب کا طریقۂ کار یہ ہے کہ وفاق المدارس العربیۃ الاسلامیہ کے دورہ کے امتحان میں شریک ہونے والے پانچ چھ سو طلباء اوّل درجہ میں کامیاب ہوتے ہیں ان میں سے پانچ طلباء کو منتخب کرلیا جاتا ہے، یہ طلباء اپنے مشرف ونگران (جو اس فن میں ماہر وعلّامہ ہوتے ہیں) کی زیرِ نگرانی مقررہ نصاب کی کتابیں مطالعہ کرتے ہیں، چنانچہ صرف اصولِ حدیث میں دس کتابیں مطالعہ کرائی جاتی ہیں، حاکم کی ’’علوم الحدیث‘‘ خطیب کی ’’الکفایۃ‘‘ ابن الصلاح کی ’’علوم الحدیث‘‘ (یعنی مقدمہ ابن الصلاح‘‘) سیوطی کی ’’تدریب الراوی‘‘ جزائری کی ’’توجیہ النظر‘‘ وغیرہ وغیرہ ان کتابوں کے مطالعہ کے لیے طلبہ کو صرف تین ماہ کا عرصہ دیا جاتا ہے اور سہ ماہی پر ان کا امتحان لیا جاتا ہے۔

پھر دوسری سہ ماہی میں اسماء الرجال کی کتابیں مطالعہ کرتے ہیں جن میں تہذیب التہذیب، میزان الاعتدال، لسان المیزان وغیرہ شامل ہیں، ان کتب میں بھی امتحان لیا جاتا ہے پھر ان سے حدیث کی شروح ’’فتح الباری‘‘ مکمل اور ’’عمدۃ القاری‘‘ کے کچھ اجزاء کا مطالعہ کرایا جاتاہے اس میں امتحان ہوتا ہے اور آخر میں انھیں حدیث وعلم حدیث سے متعلّق کوئی موضوع دے دیا جاتا ہے جس پر مقالہ لکھ کر پیش کرتے ہیں اور حسبِ مقالہ تخصص فی الحدیث کی سند دی جاتی ہے۔

تخصص فی الفقہ

۷- درجہ تحضص فی الفقہ الاسلامی بھی درجہ تحضص فی الحدیث کے طرز پر قائم ہے جس میں ’’بدائع الصنائع‘‘، ’’ردالمختار‘‘ جامع الفصولین‘‘، ’’شرح الاشباہ والنظائر‘‘ جیسی اہم کتابیں مطالعہ کرائی جاتی ہیں، ساتھ ہی قضاء وافتاء کی تربیت بھی دی جاتی ہے اور پیش آمدہ مسائل وحالات پر مقالات لکھائے جاتے ہیں، مقالہ پر حسبِ درجہ سند دی جاتی ہے۔

چند دیگر تخصصات کا ارادہ

۸- ارادہ ہے کہ گنجائش اور حالات کو دیکھتے ہوئے آئندہ کچھ اور تخصصات شروع کئے جائیں مثلاً:

(ا)تحضص فی علوم القرآن ومشکلاتہ۔
(ب)تحضص فی علم الکلام والتوحید والفلسفۃ۔
(ج)تحضص فی الادب واللغۃ۔
(د)تحضص فی التاریخ الاسلامی۔
(ھـ)التحضص فی العلوم العصریۃ من الاقتصاد والمعیشۃ والسیاسۃ والاجتماع وعلوم الطبیعۃ الحدیثتہ۔

خدا سے دعا ہے کہ توفیق وہمّت دے۔

۹-ارادہ ہے کہ جلد ہی تحضص دعوت وارشاد کا شعبہ قائم کردیا جائے،جس میں دیگر کتب کے علاوہ انگریزی کی بھی تعلیم دی جائے گی۔

۱۰- دارالافتاء: جس میں چار مفتیانِ کرام کام کرتے ہیں، ملک کے گوشوں سے آنے والے فتاویٰ کے علاوہ اطرافِ عالم سے آنے والے فتاویٰ کے جوابات باقاعدہ دیئے جائے ہیں۔

۱۱- شعبہ ’’بیّنات‘‘: ماہنامہ بیّنات کراچی کے نام سے ایک مجلّہ جاری ہے جس نے دین اسلام کی مدافعت اور ہر قسم کے الحاد وزندقہ کے مقابلہ میں اپنے آپ کو واقعی ’’بیّنات‘‘ ثابت کر دکھایا ہے۔

طلبہ کی ضروریات کے لیے دیگر سہولیات

مدرسہ میں طلبہ کی ضروریات کے لیے درج ذیل چیزیں موجود ہیں:

مطبخ، کھانے کا مطعم، ٹھنڈے پانی کے کولر، صاف ستھرے کمرے، بیماروں کے لیے علاج کی سہولت، بوقتِ ضرورت ان کو اسپتال میں داخل کرنا، ناشتہ کے لئے ماہوار وظیفہ، یہ سب چیزیں اس مدرسہ کی خصوصیات ہیں۔

جامعہ کے اخراجات کے لیے سفیر اور اپیل سے اجتناب

مدرسہ کے تمام اخراجات ملک کے مخلص حضرات کی اعانت سے پورے ہوتے ہیں جس کے لیے نہ اخبارات میں اعلان ہوتا ہے، نہ چندہ کی اپیل، نہ سالانہ جلسوں کا انعقاد نہ سفراء بھیجے جاتے ہیں نہ حکومت سے امداد اور اوقاف سے معاونت طلب کی جاتی ہے، الحمدللہ تمام ضروریات پوری ہورہی ہیں، اس لیے کہ ہمارا بھروسہ خدا کی ذات پر ہے اور خزانے اس کے دستِ قدرت میں ہیں اور لوگوں کے دل اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں، ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں، وہ صاحبِ ثروت نیک وصالح بندوں کے دلوں کو مدرسہ کی طرف متوجہ کردیتا ہے اور وہ اسی طرح دیتے ہیں کہ بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلے کہ دائیں نے کیا دیا ہے۔

جامعہ بنوری ٹاؤن کی چند دیگر خصوصیات

اللہ کے فضل وکرم سے مدرسہ کی خصوصیات درج ذیل ہیں:

۱- اساتذہ ومدرسین کی تنخواہیں صرف عطیّات اور غیر زکوٰۃ کے فنڈ سے دی جاتی ہیں، زکوٰۃ اور صدقات واجبہ اس میں ہر گز نہیں لگائے جاتے۔

۲- زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ صرف غریب طلباء میں تقسیم کئے جاتے ہیں، ان سے کسی صورت میں تنخواہوں کے لیے قرض بھی نہیں لیا جاتا، حیلۂ تملیک کے نام سے جو فقہی حیلہ ہمارے پاکستان کے مدارس میں عام طور سے رائج ہے ہم نے بالکلیہ ختم کردیا ہے۔

۳- ہر کام کے لیے ہم نے خاص فنڈ رکھا ہے، اس کام پر اسی فنڈ کے پیسے کو لگایا جاتا ہے چنانچہ تعمیرات کے لیے جو پیسہ آئے گا وہ اسی میں خرچ ہوگا، جو پیسہ کتابیں خریدنے کے لیے لیا جائے اسے صرف کتابیں خریدنے پر، لحاف، گدّے، لباس وپوشاک کے پیسے صرف اسی کام میں، بجلی پنکھے وغیرہ کے لیے آمدہ پیسے صرف بجلی پنکھے پر ہی خرچ ہوں گے، ایک فنڈ کا پیسہ دوسرے فنڈ میں خرچ نہیں کیا جائے گا، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں ان خصوصیات پر ثابت قدم رکھنے کی توفیق بخشی، امید ہے کہ مدرسہ تاحیات اس پر عامل رہے گا، خدا سے دعا ہے کہ ہمیں اس پر دائم وقائم رکھے، یہ خدا تعالی کا اتنا بڑا انعام ہے کہ جس کا زبان سے شکریہ ادا نہیں ہوسکتا۔ ذلک فضل اللہ علینا وعلی الناس ولکن اکثر الناس لا یشکرون۔

مدرسہ عربیہ اسلامیہ اس وقت مغربی ومشرقی پاکستان کی ممتاز دینی درس گاہ ہے اور میں بحیثیت مدیر اور شیخ الحدیث کے خدمات انجام دے رہا ہُوں۔

چند دیگر دینی وعلمی ذمہ داریاں

اس درمیان کراچی یونیورسٹی کی طرف سے انتخاب اساتذہ کمیٹی کا رکن رہا، جس کے کل تین ممبر ہوتے ہیں، اپنے مشاغل کی وجہ سے معذور تھا اس لیے ایک سال بعد استعفیٰ پیش کیا مگر اب تک منظور نہیں ہُوا۔ قاہرہ کی مجمع البحوث الاسلامیہ کی کانفرنس میں شرکت کرتا رہا، جمہوریہ سوریہ کی اکیڈمی ’’المجمع العلمی العربی‘‘ کا پاکستان کی طرف سے ممبر ہوں اسی طرح مجمع البحوث الاسلامیہ کارکن اور مجلس علمی کراچی کا اعزازی نگرانِ اعلیٰ ہوں، تقریباً اڑتیس سال سے تدریسی خدمات میں مشغول ہوں ، الحمدللہ ہر سال ’’صحیح بخاری‘‘ زیرِ درس رہتی ہے۔ مجلس تحفظ ختم نبوّت کا امیر ہوںاور فتنۂ قادیانیت اور اس کے علاوہ دوسرے فتنوں (فتنۂ پرویزیت وڈاکٹر فضل الرحمن وغیرہ) کی مکافحت واستیصال اور اسلام کی طرف سے مدافعت کا اللہ تعالی نے محض اپنے فضل وکرم سے بہترین موقعہ دیا۔

فلہ الحمد الجزیل والشکر العزیز، وصلّی اللہ علیٰ خیر خلقہٖ سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلّم

حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری سے متعلق دیگر مفید اور معلوماتی مضامین کے مطالعہ کے لیے نیچے دیے گئے لنک سے کتاب ڈاؤن لوڈ کیجیے:

https://islaminsight.org/maulana-syed-muhammad-yousuf-banuri-%d9%85%d9%88%d9%84%d8%a7%d9%86%d8%a7-%d8%b3%db%8c%d8%af-%d9%85%d8%ad%d9%85%d8%af-%db%8c%d9%88%d8%b3%d9%81-%d8%a8%d9%86%d9%88%d8%b1%db%8c/
5,752 Views

2 thoughts on “داستان آغاز جامعہ بنوری ٹاؤن، خود نوشت سوانح از مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ

  1. سبحان اللہ ۔۔ بڑی سبق آموز اور بہت دلچسپ داستان ہے علامہ بنوری کی:”ان فی ذلك لعبرة لاولى الألباب” “و فى ذلك فليتنافس المتنافسون”. یہ بڑے بڑے کام ایسے ہی عظیم جبال العلم اولوالعزم ” أولوا الأيدى والأبصار،إنا أخلصناھم بخالصة ذكرى الدار” سے صادر ہوئے ہیں جن کو اعلیٰ درجہ کا اخلاص، اولوالعزمی و بلند ہمتی، صبر و استقامت اور روحانی و مادی اسباب و وسائل میں معاون افراد ربِ کریم رحیم نے اپنی رحمتِ خاصہ سے عطا فرمائے۔۔دل طلبگار ہے کہ رب کریم رحیم ہمیں بھی ان کی سی صفات خوبیاں کمالات عطا فرما کر ہم سے بھی اپنی مرضیات کے دنیا میں علمی حکمرانی کے مقبول کام لے لے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!