مغربی اصطلاحیں اوراسلامی نظریات ، از پروفیسر محمد حسن عسکریؒ

تحریر: پروفیسر محمد حسن عسکری

دینی واسلامی اصطلاحات کی تبدیلی کاجدید مطالبہ

آج کل جس طرح اسلامی تاریخی ناولوں اور سوانح عمریوں کا بازار اچھاجارہاہے‘ اسی طرح یہ مطالبہ زور پکڑتا جارہاہے کہ اسلامی عقائد اور نظریات کو زمانہ حاضر کی اصطلاحات اور اسالیب بیان میں ڈھالا جائے‘ تاکہ ساری دنیا،خصوصاً مسلمان نوجوان اسلام کی عظمت اور حقانیت سے واقف ہوں،یہ خواہش افراد کی طرف سے بھی ظاہر کی گئی ہے اور انجمنوں اور تحریکوں کی طرف سے بھی‘ اس مطالبے کی پشت پناہی کے لئے دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اسلام ایک ابدی حقیقت ہے جو ہر زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے‘چنانچہ اب اسلام کو موجودہ زمانے کے لباس میں دنیا کے سامنے آنا چاہئے، ان حضرات کو یقین ہے کہ اسلامی علوم نے اب تک جن اصطلاحات کو استعمال کیا ہے وہ بے کار ہوچکی ہیں‘اور اگر اسلامی تصورات کو ”جدید علوم“ کی اصطلاحات کے پیرائے میں بیان نہ کیا گیا تو مسلمان بھی اسلام سے بیگانے ہوتے چلے جائیںگے‘ اپنی تجویز کی تائید میں یہ حضرات عموماً شاہ ولی اللہ ؒکا نام لیتےہیں۔

یہ مطالبہ شروع تو ہوا ہے ایسے لوگوں کی طرف سے جنہوں نے انگریزی تعلیم پائی یا مغرب کی مادی ترقی سے مرعوب ہوئے‘ لیکن اسلام سے یا مسلمانوںسے بھی الگ نہ ہو سکے‘ مگر یہ رجحان ایسا قوی تھا کہ جن لوگوں نے خالص دینی تعلیم پائی تھی وہ بھی بعض دفعہ اس کے اثر سے نہ بچ سکے‘ اور ایسے الفاظ استعمال کرنے لگے جن کے پس منظر اور مفہوم سے پوری طرح واقف نہ تھے‘ مغربی اصطلاحات کو اردو میں منتقل کرتے ہوئے جو نئے الفاظ ہماری زبان میں داخل ہوئے وہ تو پھر بھی اتنے خطرناک نہیں‘ زیادہ گھپلا ان اصطلاحی الفاظ کی وجہ سے ہوا جو پہلے سے ہمارے دینی علوم میں رائج ہیں‘ اور مغرب کے زیرِ
اثر ان کا مفہوم کچھ اور ہوگیا ہے۔

جدید ایجادات کے پس پردہ تصورات

انیسویں صدی میں مغرب کے آزاد خیال لوگوں کے لئے ”بدی“ کا عیسوی عقیدہ بالکل ہی ناقابل قبول ہوگیاتھا‘ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے چیسٹرٹن نے کہا ہے کہ’’ جو لوگ بدی کے وجود سے انکار کرتے ہیںوہ بچارے نیک اور معصوم آدمی ہیں‘ انہوں نے کبھی کوئی بری بات کی ہی نہیں جو انہیں معلوم ہوتا کہ بدی کیا چیز ہے؟ ‘‘بالکل یہی حال ان حضرات کا ہے جو اسلامی علوم کو جدید لباس پہنانا چاہتے ہیں‘وہ مغرب سے اس حد تک تو ضرور واقف ہیں کہ وہاں ہرآدمی کے گھر میں ریفریجریٹر ہوتا ہے‘ لیکن جن ”علوم“ کے ذریعے ریفریجریٹر وجود میں آیا ہے وہ کتنے بے اعتبار ہوگئے ہیں‘ اس کی انہیں خبر نہیں‘ یہ علوم اس اعتبار سے تو ضرور قابلِ قدر ہیں کہ ہمارے سامنے کوئی ایسی چیز بنا کے رکھ دیتے ہیں جسے ہم دیکھ سکیں‘ لیکن ان ایجادوں کے پیچھے جو تصورات ہیں وہ اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ ہم ایک دن کے لئے بھی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ کون سی چیز کیا ہے؟ اور یہ تو ان علوم کا حال ہے جنہیں یقینی کہاجاتاہے‘ یہ محض میری اتہام طرازی نہیں ‘ بلکہ پال والیری نے تیس سال پہلے بڑی تفصیل کے ساتھ اس صورت حال کے نتائج اور عواقب کا اعلان کردیا تھا،پھر جن علوم کا تعلق انسانی زندگی اور کائنات کی حقیقت سے ہےوہاں تو بالکل دھواں ہی دھواں ہے‘ نظریات ہزاروں ہیں‘ لیکن ان کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں‘ اور نہ نظریہ ساز اس بات پر راضی ہوتے ہیں کہ دوسرے کی بات سن لیں۔

مغرب کی علمی دنیا یا پاگل خانہ !

پھر یہ نظریئے یا تو شخصی تخیل کی پیداوار ہوتے ہیں یا سیاست کی‘ چنانچہ ایسے علوم میں الفاظ اور اصطلاحات کا کوئی واضح اور معین مفہوم باقی نہیں رہا‘ ہرکتاب پڑھتے ہوئے آپ کو دیکھنا پڑے گا کہ لکھنے والا کس لفظ کو کس معنی میں استعمال کررہا ہے‘ بلکہ بعض دفعہ تو یہ شبہ ہونے لگتاہے کہ الفاظ میں معنی بھی ہیں یا نہیں‘ چنانچہ مغرب کی ”علمی“ دنیا ایک پاگل خانہ بن کے رہ گئی ہے‘ جہاں سب بیک وقت بول رہے ہیں اور کوئی دوسرے کی نہیں سنتا‘ یہ بھی میری افسانہ نویسی نہیں‘ ٹی‘ ایس‘ ایلیٹ اور سا ترکئی دفعہ یہ رونا رو چکے ہیں‘ ساترنے تو مثال دی ہے کہ جب جرمنوں نے فرانس پر قبضہ کرلیا تو جرمنوں کے حامی فلسفی کہنے لگے ”انقلاب“ کے معنی ہیں چیزوں کو بدستور قائم رکھنا،مغرب نے اور زمانہ جدید نے لفظوں کا یہ حال بنایاہے‘ ترقی کا اگلا درجہ یہ ہے کہ اب تو مغرب کی ”علمی“ دنیا میں لفظوں کا استعمال ہی کم ہوتاجارہاہے‘ سائنس کے نئے نظریات صرف خاص علامتوں کے ذریعے بیان کئے جاسکتے ہیں‘ الفاظ کے ذریعے نہیں، اور اس سے بھی اگلا درجہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کی رائے میں الفاظ کا استعمال بالکل ہی ترک کردینا چاہئے‘ یہ خواب آج سے ساٹھ سال پہلےایچ‘ جی‘ ویلز نے دیکھنا شروع کردیا تھا۔

اسلامی علوم کو’’ جدید علوم‘‘ کا جامہ پہنانے کی روش

یہ ہے وہ ”جدید علوم کا جامہ“ جو ہمارے یہاں کے بہت سے معصوم لوگ اسلامی علوم کو پہنانا چاہتے ہیں‘ اگر مغرب میں الفاظ کے معنی مبہم ہوگئے ہیں تو کچھ ایسی بری بات بھی نہیں‘ وہاں کے لوگوں کے خیالات بھی اتنے ہی مبہم ہیں‘ لیکن عقیدہ تو واضح اور متعین چیز ہے‘ مغرب والوں کے نزدیک تو عقیدہ بھی محض ایک جذبہ ہے‘ لیکن بہرجال مسلمانوں کے نزدیک تو عقیدہ متعین چیز ہے اور اگر عقیدہ واضح اور متعین نہ ہو وہ عقیدہ نہیں رہے گا‘ چنانچہ اسلامی عقائد کے لئے جو اصطلاحات بنائی گئی ہیں وہ بھی واضح اور متعین مطلب رکھتی ہیں اور یہ اصطلاحات بھی ایجاد بندہ قسم کی چیزیں نہیں‘ ہر اصطلاح کا اپنے مفہوم سے ایک لازمی تعلق ہے اور ان دونوں کو الگ نہیں کیا جاسکتا‘ اگر الگ کیا جائے گا تو مفہوم غلط ہوجائے گا‘ اسلامی علوم اور مغربی علوم میں اتنا اصولی اور بنیادی تضاد ہے کہ ان دونوں کا امتزاج محال ہے‘ اگر آپ چاہیں تو اسلامی علوم کو غلط سمجھ لیں‘ مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ اسلام علوم کو ”جدید علوم“ کا جامہ پہنادیا جائے‘ اگر زبردستی ایسا کیا جائے تو وہ اسلامی علوم نہیں رہیں گے۔

اسلام کو مقبول عام بنانے کی کوشش :اندھے کنویں کا سفر

ایک معمولی سا لفظ لے لیجیے ”حیات“ اس کا جو مفہوم اسلامی علوم میں ہے‘ وہ جدید علوم میں نہیں‘ ایک مثال دوسری جانب سے لیجئے‘ مغرب میں آج کل لفظ ”نیچر“ کا جو مفہوم ہے اسے ادا کرنے کے لئے مشرق کی کسی زبان میں کوئی لفظ موجود نہیں،جو لوگ اسلام کو موجودہ دور میں مقبولِ عام بنانا چاہتے ہیں‘ ان کی نیت تو نیک ہے‘ لیکن جو ذرائع ان کے ذہن میں آئے ہیںوہ مہلک ہیں۔ اگر اسلامی عقائد کو مغربی اصطلاحات میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ اسلامی عقائد نہیں رہیں گے‘ یہ حضرات اپنی نیک نیتی کے جوش میں ایک اندھے کنوئیں کی طرف جارہے ہیں‘ اگر انہیں جدید علوم کی اصطلاحات پر ایسا ہی اعتقاد ہے تو کم سے کم وہ یہ تو معلوم کرلیں کہ یہ اصطلاحات کیا چیز ہیں؟ جن الفاظ اور اصطلاحات کو یہ حضرات بدلنا چاہتے ہیں وہی تو اس زمانے میں ایسی چیزیں باقی رہ گئی ہیں جن پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔

(بشکریہ ماہنامہ بینات ،شعبان ۱۴۲۷ھ ،بحوالہ ماہنامہ ادب لطیف لاہور)۔

1,866 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!