باطنیہ و قرامطہ کے ملحدانہ افکار و نظریات
تحریر: مولانا شمس تبریز خان
باطنیہ و قرامطہ کے گمراہانہ افکار ونظریات
عبد القادر بغدادی (م ۴۲۹ھ) نے باطنیہ پر بہت تفصیل سے لکھا ہے اوران کی تاریخ اور ان کے عقائد دوسرے متکلمین کے تبصرے نقل کرنے کے بعد اپنی فیصلہ کن رائے بھی دی ہے، اس طرح پرانے لکھنے والوں میں وہ باطنیہ پر سند کا درجہ رکھتے ہیں، یہاں ان کی تفصیلی تحریر کا مختصر خلاصہ پیش کیا جارہا ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’باطنیہ کے اغراض و مقاصد کے بارے میں متکلمین اسلام میں اختلاف ہے، ان کی اکثر تعداد کا کہنا یہ ہے کہ باطنیہ کا مقصد قرآن و سنت کی تاویل کرکے مجوسیت کی طرف بلانا ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ ان کا بانی میمون بن دیصان مجوسی اور اہواز کے غلاموں میں تھا، اس کے بیٹے عبداللہ نے بھی لوگوں کو اپنے باپ کے دین کی طرف بلایا، اسی طرح ان کا ایک داعی البزدھی نے اپنی معروف کتاب ’’المحصول‘‘ میں لکھا ہے کہ مبدع اول نے نفس کو پید ا کیا،پھر اول اور ثانی سات ستاروں اور چار طبائع کے ذریعے دنیا کو چلاتے ہیں اور یہ بالکل مجوسی عقیدہ ہے، بعض لوگوں نے باطنیہ کو صائبین حران سے منسوب کیا ہے،اور یہ دلیل دی ہے کہ میمون کے بعد باطنیہ کا داعی حمدان قرمط جران کے صابیوں میں سے تھا جو اپنا دین چھپاتے ہیں اور صرف اپنے آدمیوں پر ظاہر کرتے ہیں اور باطنیہ کی بھی یہی طرز ہے۔
دین باطنیہ کے بارے میں میرا یقین یہ ہے کہ وہ دہری و زندیق ہیں، وہ عالم کو قدیم مانتےہیں، رسولوں اور شریعتوں کے منکر ہیں، کیوں کہ وہ مان مانی کرنے کا میلان رکھتے ہیں، میں نے ان کی کتاب ’’السیاستہ والبلاغ الاکید والناموسی الاعظم‘‘ میں جو عبیداللہ بن الحسن قیروانی کا خطہ سلیمان بن الحسن الجنانی کے نام ہے، جس میں اس نے تاکید کی ہے کہ لوگوں کو ان مرغوبات کے ذریعے دعوت دو جن کی طرف وہ میلان رکھتے ہیں اور ہر ایک پر یہ ظاہر کرو کہ تم اسی کے آدمی ہو اور جس میں ’’صلاحیت‘‘ دیکھو اس پر اپنا راز ظاہر کرو اور اگر کوئی فلسفی مل جائے تو غنیمت سمجھو، کیونکہ فلاسفہ ہی ہمارا سرمایہ ہیں۔
اس نے خط میں آخرت اور عذاب و ثواب کا بھی انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ جنت سےمراد دنیا کا آرام اور عذاب سے مراد متشرع لوگوں کا نماز، روزہ، حج اور جہاد میں مشغول ہونا ہے، اس نے اسی خط میں لکھا ہے کہ اہل شریعت ایسے خدا کو پوجتے ہیں جسے پہچانتے نہیں اور اس کے نام کے سوا اس کے جسم تک رسائی نہیں۔
اس نے لکھا ہے کہ دہریہ کی عزت کرو کہ وہ ہمارے اور ہم ان کے ہیں، اسی طرح وہ معجزات، نزول ملائکہ،بلکہ آسمان میں وجود ملائکہ کے وجود ہی کے منکر ہیں اور اپنے داعیوں کو ملائکہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اپنے مخالفین کو شیطان کہتے ہیں، وہ انبیاء ؑ کو نبوت کے ذریعہ قیادت کے خواہشمند بتاتے ہیں، اس کے ساتھ وہ ہررکن شریعت کی گمراہ تاویل کرتے ہیں، ان کے ہاں نماز کے معنی اپنے امام کی پیروی، حج کے معنی اس کی زیارت اور خدمت، صوم کا مطلب امام کے راز کا افشا نہ کرنا،زنا کا مطلب بغیر عہد و پیمان لیے اپنے مذہب کا راز بتانا ہے، وہ کہتے ہیں کہ جو عبادت کا مفہوم سمجھ گیا اس سے فرض ساقط ہوجاتا ہے، اس کی دلیل واعبد ربک حتی یأتیک الیقین (حجر، ۹۹) سے دیتے اور یقین کا مطلب تاویل بتاتے ہیں۔
قیروانی نے اپنے رسالہ میں سلیمان بن الحسن کو لکھا ہے کہ لوگوں کو قرآن، توراۃ، زبور اور انجیل کی طر ف سے شک میں مبتلا کردو اور انہیں ابطال شریعت اور انکار آخرت و ملائکہ کی دعوت دو، رسالہ کے آخیر میںکہتا ہے کہ اس آدمی پر سخت تعجب ہے جوعقل کا مدعی ہو اور اس کی خوبصورت بہن یا بیٹی ہو (اور اس کی بیوی حسین نہ ہو) پھر بھی ہو انہیں اپنے اوپر حرام سمجھے اور ان کا دوسرے سے نکاح کردے، اگر اس جاہل کو عقل ہوتی تو اپنی بہن بیٹی کا اپنے کو مستحق سمجھتا، مگر ایسا اس لیے ہو کہ اس کے نبی نے ان پر اچھی چیزیں حرام کردیں اور ایک غیرمعقول و غائب خدا کا خوف پیدا کردیا ہے اور ان میں حشر و حساب اور دوزخ و جنت کی خبریں بتائیں، جنہیں وہ کبھی نہیں دیکھیں گے، اس طرح اس نے انہیں غلام اور اپنی زندگی میں اپنا اور اپنے خاندان کا وفادار بنادیا اور ان کے مال کا استحصال کیا، گویا ان سے اپنا معاملہ نقد کیا اور ان سے ادھار کا وعدہ کیا‘‘۔
باطنیہ کا فتنہ دجال سے بڑھ کر !
عبدالقاہر بغدادی (م ۴۲۹ھ) اپنی مشہور کتاب ’’الفرق بین الفرق‘‘ کی سترہویں فصل ’’باطنیہ کے خارج از اسلام ہونے کے بیان میں‘‘ فرماتے ہیں:
’’مسلمانوں پر باطنیہ کا ضرر یہود و نصاریٰ اور مجوس سے بھی زیادہ ہے ،بلکہ تمام دہریوں، ہر قسم کے کافروں اور اخیر زمانہ میں ظاہر ہونے والے دجال کے ضرر و نقصان سے بھی کہیں بڑھا ہوا ہے، کیونکہ باطنی دعوت کے ظہور سے اب تک اس کے ذریعے گمراہ ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے، اس لیے کہ فتنہ دجال تو کل چالیس دن رہے گا، جبکہ باطنیہ کے دجل و فریب ریت کے ذروں اور بارشوں کے قطروں سے بھی زیادہ ہیں۔
اصحاب مقالات،اخوان الصفا کا کہنا ہےکہ ’’باطنی دعوت‘‘ کی بنیاد ایک جماعت نے رکھی جن میں ایک میمون بن دیصان القداح بھی تھا، جو جعفر بن محمد صادق کا غلام اور اہواز کا رہنے والا تھا، ان میںمحمد بن الحسین، الملقب بہ ذیذان بھی تھا، یہ دونوں جب والی ٔ عراق کی قید میں تھے تو انہوںنے وہاں باطنی مذہب کے قیام کی سازش کی، سب سے پہلے اس جماعت میں الحیل کے کُردوں کے ساتھ البدین نامی شخص داخل ہوا، پھر میمون بن دیصان المغرب کی طرف چلا گیا اور اپنے کو عقیل بن ابی طالب کی نسل سے ظاہر کیا، پھر غالی رافضیوں اور حلول کے قائلوں کی تائید پاکر محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق کی نسل سے ہونے کا دعویٰ کیا، حالاں کہ انہوں نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی تھی۔
قرامطہ کا بانی حمدان قرمط اور باطنی دعوت
پھر اس باطنی دعوت میں حمدان قرمط داخل ہوا (اس کجروی، چھوٹے قدموں سے چلنے یا کج مج نویسی کی وجہ سے اسے قرمط کہتے تھے) وہ ابتداء میں سواد کوفہ کا ایک کسان تھا، قرامطہ کی نسبت اسی کی طرف ہوتی ہے، پھر اس دعوت میں ابوسعید الجنابی داخل ہوا، جو بحرین کے علاقے میں غالب آیا اور بنو سینر اس کی دعوت میں داخل ہوئے، کچھ عرصہ بعد القداح کی نسل میں سعید بن الحسین پیدا ہوا، جس نے اپنا نام ونسب بدل کر اپنے کو عبیداللہ بن الحسن محمد بن اسمٰعیل بن جعفر الصادق ظاہر کیا، پھر اس کا فتنہ المغرب میں نمودار ہوا، اس کی اولاد آج کل مصر کے علاقے پر قابض ہے، انہیں میں ابن کردیہ بن مہرویہ الدندانی تلمیذ حمدان اور حمدان کا بھائی مامون نے فارس میں اپنی دعوت دی، اسی لیے قرامطۂ فارس کو ’’مامونیہ‘‘ بھی کہاجاتا ہے، ارض دیلم میں ابوحاتم نے باطنی دعوت دی، نیشاپور میں الشعرانی نے دعوت دی جو ابوبکر بن محتاج کے عہد میں قتل ہوا، ماوراء النہر کے داعی محمد بن احمد نسفی اورابویعقوب السجزلی المعروف بہ بندانہ تھے، نسفی نے المحصول اور ابویعقوب نے اساس الدعوۃ، تاویل الشرائع، کشف الاسرار لکھی، نسفی اور بندانہ بھی اپنی ضلالت کے سبب قتل ہوئے۔
بابک خرمی
اصحاب تاریخ نے لکھا ہے کہ باطنیہ کی دعوت مامون کے زمانے میں شروع ہوئی اور معتصم کے زمانے میں اشاعت پذیر ہوئی، معتصم کے فوجی افسر الافشین نے بھی باطنی دعوت قبول کرلی تھی اور بابک خرمی سے ملا ہوا تھا جو البدین کے علاقے میں بغاوت برپا کیے ہوئے تھا، جبل خرمیہ کے مکین مزدکی تھے اس لیے خرمی اور باطنی متحد ہوگئے، چناں چہ بابک کے ساتھ اہل بدین اور دیلم کے تقریباً تین لاکھ آدمی ہوگئے، خلیفہ نے ان کے مقابلے میں الافشین کو بھیجا، خلیفہ اسے مسلمانوں کا مخلص سمجھ رہا تھا، حالاں کہ وہ بابک سے ملا ہوا تھا، چناں چہ اس نے مسلمان فوجیوں کی کمزوریاں بتادیں اور بہت سے مسلمان شہید ہوگئے، پھر افشین کو کمک پہنچی اور الشغری والعجلی اور عبداللہ بن طاہر کی فوجیں بھی اس سے مل گئیں اور اس طرح بابکہ اور قرامطہ مسلمانوں کے لیے دردسر بن گئے، مسلمانوں نے ان کے خوف سے بیرزندنامی ایک مخصوص بستی بسائی اور فریقین میں کئی سال جنگ چلتی رہی، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ان پر فتح عطا کی اور بابک قید ہوکر ’’سرمن رائے‘‘ میں ۲۲۳ھ میں پھانسی پا گیا، پھر اس کا بھائی اسحاق بھی پکڑا گیا اور جرجان و طبرستان کے باغی المازیار کے ساتھ پھانسی دیا گیا، بابک کے قتل کے بعد جب خلیفہ کو الافشین کی غداری کا علم ہوا تو اسے بھی سولی دے دی گئی۔
باطنیہ وقرامطہ کے بعض اور گمراہ کن عقائد
اصحاب تاریخ نے لکھا ہے کہ باطنیت کی بنیاد رکھنے والے مجوس کی اولاد اپنے آبائی دین کی طرف مائل تھے، مگر مسلمانوں کے خوف سے اس کااظہار نہیں کر پاتے تھے، ان لوگوں نے ایسے اصول وضع کیے جن مین مجوسیت چھپی ہوئی تھی پھر انہی اصولوں کے مطابق قرآن و سنت کی تاویلیں کیں۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ ثنویہ نور و ظلمت کو عالم کا خالق قدیم مانتے ہیں، باطنیہ اس کے مطابق عقل و نفس کو خالق مانتے ہیں جو سات ستاروں کے ذریعہ دنیا چلا رہے ہیں، باطنیہ صانع اول و ثانی کے بھی قائل ہیں جنہیں مجوس یزدان واہرمن کہتے ہیں، وہ آگ کی پرستش کا اظہار تو نہیں کرسکتے تھے، اس لیے انہوں نے ایک خوبصورت طریقہ نکالا اور مسلمانوں سے کہا کہ ہر مسجد میں ایک عوددان ہونا چاہیے، جس میں ہر وقت عود وبخور جلتا رہے، برامکہ نے ہارون الرشید کو یہ مشورہ دیا کہ خانہ کعبہ کے اندر بھی ایک آتش دان ہو، جس میں عود وغیرہ جلتا رہے، ہارون الرشید معاملہ کو سمجھ گیا کہ وہ کعبہ کو اس طرح آتش کدہ بنانا چاہتے ہیں، چناں چہ یہ بات بھی برامکہ پر ہارون کے عتاب کا سبب بنی۔
پھر باطنیہ نے اصول دین کی مشرکانہ تاویل کرنے کے بعد احکام شریعت کی ایسی تاویل کی جس سے شریعت ہی ختم ہوجاتی یا مجوسی احکام سے مشابہ ہوجاتی، چنانچہ انہوں نے بیٹیوں،بہنوں سے نکاح جائز بتایا، شراب نوشی اور تمام لذتوں کو مباح قرار دیا، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ بحرین و احسار میں سلیمان بن الحسین قرمطی کے بعد ایک باطنی نے اپنے پیروئوں کے لیے لواطت ضروری قرار دی اور ایسے لڑکے کو قتل کرنے کا حکم دیا جو اس سے منع کرے اور جو آگ کو اپنے ہاتھ یا منہ سے بجھائے تو اس کا ہاتھ اور زبا ن کاٹ لی جائے، اس کا نام ابن ابی زکریا طامی تھا، اس کاظہور ۳۱۹ھ میں ہوا تھا،اس کا فتنہ کچھ عرصہ تک چلا، بالٓاخر اللہ نے اس پر ایسے شخص کو مسلط کیا جس نے اُسے اس کے بستر میں ہی قتل کردیا۔
ہم نے باطنیوں کے مجوس کی طرف میلان کی جو بات کہی ہے اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ روئے زمین پر جہاں کوئی مجوسی ہے وہ باطنیوں کے ظہور کا منتظر اور ان کا ہوا خواہ ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ انہیں حکومت باطنی فرقے ہی کے ذریعے ملے گی، بعض نجومیوں کے کہنے میں آکر باطنیہ خلیفہ مکتفی اورمقتدر کے عہد میں اسلامی خلافت کے خاتمہ اور مجوسی حکومت کے قیام کے منتظر تھے، مگر اس کے برعکس انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں برابر ذلت و شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ماخوذ از : ماہنامہ الحق ، اکوڑہ خٹک ، مارچ ۱۹۸۵۔