مولانا یوسف بنوریؒ سے میرے روابط ، از ڈاکٹر اسرار احمدؒ

تحریر : ڈاکٹر اسرار احمدؒ

مولانابنوریؒ: سلسلہ شیخ الہند کی اہم ترین علمی کڑی

حضرت شیخ الہندؒ کی ذات جامع الصفات سے علم وعمل کے جو چشمے جاری ہوئے ان کا ایک اجمالی ذکر گزشتہ صحبت میں ہوچکا ہے ، اس سلسلہ میں انگریزی مثل Last but not the least کے مصداق ذکر میں آخری اور پانچواں لیکن خالص علمی اعتبار سے اولین اور اہم ترین سلسلہ وہ ہے جس کی پہلی کڑی تھے مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ ،اور دوسری اہم ترین کڑی تھے مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ۔

بیہقی وقت مولانا سید انور شاہ کشمیری ؒ کے شاگرد رشید مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ کا مزاج بھی بالکل غیر سیاسی اور خالص علمی بلکہ تعلیمی وتدریسی تھا ، اہل علم کے حلقے میں تو وہ یقینا بہت پہلے نمایاں اور معروف ہوگئے ہوں گے ، لیکن عوامی سطح پر ان کی شہرت ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت سے پہلے زیادہ تر صرف کراچی اوراس کے گرد ونواح تک محدود تھی ، البتہ ۷۴ء کی تحریک کے دوران وہ دفعتا ملک گیر شہرت کے حامل ہوگئے ، ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت اوراس کی نہایت شاندار کامیابی کے ضمن میں ایک طویل اداریہ راقم نے اکتوبر ،نومبر ۱۹۷۴ء کے ’’میثاق‘‘ میں شائع کیا تھا ،جس میں اس کی کامیابی کا ایک اہم سبب حضرت مولاناؒ کی قیادت وسیادت کو قرار دیا تھا ، راقم کا احساس ہے کہ یہ پورا اداریہ موجودہ حالات کے اعتبار سے بھی بہت اہم ہے ، راقم کو ان سے جو ذہنی وقلبی تعلق رہا ،اس کی اجمالی داستان الحمد للہ کہ ان کی وفات پر سپرد قلم ہوگئی تھی ، اور ’’میثاق‘‘ کی نومبر ۷۷ء کی اشاعت میں شائع ہوگئی تھی ، جو ذیل میں نقل کی جارہی ہے (۱۹۸۷ء)۔

موت العالم موت العالم

آہ ! مولانا سیدمحمد یوسف بنوریؒ

اس دار فانی میں جو بھی آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن کوچ کرنا ہی ہے ، لیکن کچھ لوگوں کے انتقال سے ایک دم ایک مہیب خلاء پیدا ہوتامحسوس ہوتا ہے ،اور ایک بار تو دنیا واقعۃً اندھیر سی ہوجاتی ہے ، مولانا محمد یوسف بنوریؒ کی وفات حسرت آیات یقینا اسی زمرے میں ہے ، اوراس سے پورے عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کے دینی وعلمی حلقے میں جو خلا پیدا ہوا ہے ،اس کے پر ہونے کی کوئی صورت بظاہر احوال تو دُور دُور تک نظر نہیں آتی ۔

ابتدائی ملاقاتیں

راقم الحروف۔۔۔۔۔میں لگ بھگ چھ ماہ ، اور پھر سن ۶۲ء تاسن ۶۵ء تقریبا چار سال کراچی میں مقیم رہا ، اوراس دوران میں اکثر جمعے جامع مسجد نیوٹاؤن (بنوری ٹاؤن ، جمشید روڈ) ہی میں ادا ہوئے اوراس طرح مولانا کے اقتداء کی سعادت بھی نصیب ہوتی رہی ،اور مدرسہ اسلامیہ نیوٹاؤن (جامعہ علوم اسلامیہ ،علامہ بنوری ٹاؤن ،جمشیدروڈ) کے تعمیر وترقی کے مراحل بھی ’’واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت‘‘ کے مانند نگاہوں سے گزرتے رہے ، جس سے مولانا ؒ کی عظمت کا نقش دل پر قائم ہوتا چلا گیا ، محب مکرم ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی(واضح رہے کہ یہ تحریر ۱۹۷۷ء کی ہے ، بعدمیں ڈاکٹر عثمانی صاحب نے جو انداز اختیار کیا اس کے باعث اب راقم کا کوئی ربط وضبط ان سے نہیں ہے ) ان دنوں مولانا سے باقاعدہ دورہ حدیث میں شامل ہوکر استفادہ کررہے تھے ،اورساتھ ہی کچھ علاج معالجے کی خدمت بھی بجا لاتے تھے ، اس دوران میں ان کے ساتھ مولانا سے چند بار ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا ، لیکن زیادہ تر رسمی اور سرسری انداز میں ، تاہم ان سرسری ملاقاتوں میں بھی مولاناؒ سے جو قرب ذہنی وقلبی پیدا ہوگیا تھا اس کا مظہر ہے کہ جب راقم نے سن ۱۹۶۶ء میں ’’میثاق‘‘ کی ادارت سنبھالی تو مولانا ؒ کی ایک تحریر مئی ۱۹۶۷ء کے شمارے میں شائع کی ، اور ’’حرمت صحابہ ‘‘ کے عنوان سے ایک طویل مضمون اپریل ومئی ۱۹۷۰ء کے مشترک شمارے میں شائع کیا ، حضرت مولانا ؒ کی یہ دونوں تحریریں نہایت اہم ہیں ، اوران شاء اللہ ’’میثاق‘‘ کی قریبی اشاعتوں میں دوبارہ شائع کی جائیں گی۔

مسجد نبوی میں اعتکاف اورراقم کی عبارت کی اصلاح

اکتوبر ،نومبر ۱۹۷۰ء کے دوران رمضان المبارک کا پورا مہینہ راقم کو مدینہ منورہ میں بسر کرنے کی سعادت ملی تھی ، آخری عشرے میں مولانا بنوریؒ بھی تشریف لے آئے تھے اور مسجد نبوی میں معتکف تھے ، لہذا وہاں چند تفصیلی ملاقاتوں کا موقع میسر آیا ، راقم نے اپنا کتابچہ ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ مولانا کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ پیش کیا کہ اسے ایک نظر دیکھ لیں ،اور کوئی غلطی ہو تو متنبہ فرمادیں تاکہ اصلاح کرلی جائے ، مولانا ؒ نے اسے بالاستیعاب دیکھا اور ایک مقام پر عبارت میں اصلاح فرمائی جواگلے ایڈیشن میں کردی گئی ، راقم کی اصل عبارت یوں تھی :

’’لیکن پڑھے لکھے لوگ جنہوں نے تعلیم پر زندگیوں کا اچھا بھلا عرصہ صرف کردیا ہو اور دنیا کے بہت سے علوم وفنون حاصل کیے ہوں ، مادی ہی نہیں ،غیر ملکی زبانی بھی سیکھی ہوں ،اگر قرآن مجید کو بغیر سمجھے پڑھیں تو ان کی یہ تلاوت نہ صرف یہ کہ بے کار اورلاحاصل ہوگی ،بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ قرآن کی تحقیر وتوہین اور تمسخر واستہزا کے مجرم گردانے جائیں !‘‘۔

جسے مولاناؒ نے بدل کریوں کردیا :

’’اگر قرآن مجید کو بغیر سمجھے پڑھیں تو عین ممکن ہے وہ قرآن کی تحقیر وتوہین اور تمسخر واستہزا کے مجرم گردانے جائیں ،اور اس اعراض عن القرآن کی سزا تلاوت کے ثواب سے بھی بڑھ جائے ‘‘۔

اس طرح الحمد للہ کہ میری مراد بھی اورزیادہ واضح ہوگئی ،اور محض لفظی بے احتیاطی کے باعث منکرین حدیث سے جو مشابہت پیدا ہورہی تھی اس کا بھی ازالہ ہوگیا۔

مدینہ منورہ :قلبی تعلق کی تمہید

عید الفطر کے روز ایک عجیب واقعہ پیش آیا، راقم مولاناؒ کی خدمت میں غالبا بخاری حضرات کی رباط میں حاضر ہوا ، راقم کی اس درخواست پر کہ اسے کچھ علیحدگی میں عرض کرنا ہے ، مولاناؒ نے فورا تخلیہ کا اہتمام فرمایا، تب راقم نے عرض کیا کہ ’’مجھے تشویش لاحق ہے کہ مسجد نبوی میں تو دل بھی لگتا ہے اور انشراح صدر وانبساط کی کیفیت بھی نصیب ہوتی ہے ،لیکن مسجدحرام میں قطعا دل نہیں لگتا !‘‘، یہ سنتے ہی مولانا ؒ پر رقت طاری ہوگئی ،اوران کی آنکھوں میں آنسو آگئے ،اورانہوں نے فرمایا :’’ڈاکٹر صاحب! آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی دینی وروحانی الجھن کا ذکر کیا ہے ،ورنہ ہمارے پاس جو بھی آتا ہے دنیوی معاملات کا ہی رونا رونے آتا ہے ‘‘، راقم مولاناؒ کے اس شدت احساس سے حد درجہ متاثر ہوا ،اوریہ واقعہ راقم اور مولاناؒ کے مابین ایک قریبی قلبی تعلق کی تمہید بن گیا ۔

راقم کی کراچی آمد ورفت اور مولانا بنوریؒ کی شفقتیں

۱۹۷۲ء کےدوران راقم ہر ماہ کراچی اور گاہے گاہے مولانا کی زیارت سے مشرف بھی ہوتا رہا ، اسی زمانے میں ایک بار مولانا نے اپنے دورہ حدیث کے طلبہ سے خطاب کا موقع بھی عنایت فرمایا ،اور اگرچہ راقم مولانا کی موجودگی اور ان کے رعب علمی کے باعث کچھ کھل کر بات نہ کرسکا ،اوراس نے اعتراف بھی کیا کہ ’’میری حالت اس وقت وہی ہے جس کا نقشہ قرآن مجید کے ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے کہ :’ویضیق صدری ولا ینطلق لسانی ‘، تاہم راقم نے جس طرح بھی بن پڑا ’’اسلام کی نشاۃ ثانیہ ‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی ،جس کی مولانا نے کھلے دل کے ساتھ تصویب فرمائی ۔

انہی دنوں مولاناؒ نے یہ محبت آمیز پیش کش بھی فرمائی کہ ’’جب بھی کراچی آنا ہو مدرسے ہی میں قیام کیا کرو ، تمہارے لیے ایک بالکل علیحدہ کمرہ مخصوص کردیا جائے گا‘‘، راقم کے لیے مولانا کی اس مشفقانہ پیش کش سے فائدہ اٹھاناتو بوجوہ ممکن نہ ہوسکا ، تاہم دل پر ان کی ان شفقتوں کا بے حد اثرہوا ، اور قلب میں مولانا کی عظمت اور عقیدت کے ساتھ ساتھ محبت بھی جاگزیں ہوگئی ۔

قرآن کانفرنس لاہورمیں شرکت

وسط دسمبر ۱۹۷۳ء میں پہلی سالانہ قرآن کانفرنس منعقد ہوئی تو راقم نے مولانا کو اس میں شرکت کی دعوت دی ،جسے انہوں نے کمال شفقت سے قبول فرمالیا، چنانچہ حسب وعدہ تشریف لائے اور دُو دِن راقم کے غریب خانے ہی پر رونق افروز رہے ، راقم الحروف کو ۱۶؍دسمبر ۷۳ء کی اس شام کی کیفیات ابھی تک اچھی طرح یاد ہیں جب مولاناؒ نے ’’مقام رسالت‘‘ پر اپنی عالمانہ اورجذبہ انگیز تقریر فرمائی تھی ، جناح ہال نہ صرف یہ کہ خود پوری طرح کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، بلکہ اس کی تمام گیلریاں بھی انسانوں سے پر تھیں ، راقم نے مولانا کی تقریر کے بعد عرض کیا تھا کہ ’’میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ علامہ اقبال مرحوم کا یہ شعر آج پوری طرح سمجھ میں آیا ہے کہ :

بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبی است!!!

مولانا بنوریؒ کی سادگی اور بے تکلفی

اہالیان لاہور میں سے اکثر کے لیے مولاناؒ سے یہ پہلے تعارف کا موقع تھا ، اوراکثر وبیشتر لوگوں کے چہروں پر ایک خوش گوار حیرانی کا تاثر نمایاں تھا،اس دوران ان کی سادگی اور بے تکلفی کا جو تجربہ ہوا ،اس سے بھی دل بہت متاثر ہوا ، اوران کا یہ طرزعمل تو بہت ہی غیر معمولی نظر آیا کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ آمد ورفت کا کرایہ وصول کرنے سے انکار کردیا ، بلکہ جب انجمن خدام القرآن کی کچھ مطبوعات ان کی خدمت میں پیش کی گئیں تو ان کی قیمت بھی باصرار ادا فرمائی ۔

مولانا فراہی واصلاحی کے متعلق مولانا بنوریؒ کی رائے اور راقم کا مولانا اصلاحی سے انقطاع تعلق

۱۹۷۵ء میں ’’تنظیم اسلامی ‘‘ کا قیام عمل میں آیا توراقم نے مولانا کو اس کے ’حلقہ مستشارین‘ میں شرکت کی دعوت دی تو فرمایا :’’ڈاکٹر صاحب! آپ مجھے بے حد عزیز ہیں ،آپ کو پوری آزادی ہے کہ جب چاہیں آئیں اورجو چاہیں مشورہ طلب کریں ، میں کبھی دریغ نہ کروں گا ، لیکن کوئی باضابطہ ذمہ داری قبول کرنے میں اپنی صحت کی کیفیت اور مصروفیت کی شدت کے باعث معذور ہوں ‘‘، اس کے بعد ایک اور بات بھی ارشاد فرمائی جو راقم دسمبر ۷۶ء کے ’’میثاق‘‘ میں نقل کرچکا ہے ، حضرت مولاناؒ کی بقیہ بات یہ تھی :’’ویسے یہ بات بھی ہے کہ آپ مولانا فراہیؒ اور مولانا اصلاحی کو بہت اہمیت دیتے ہیں ،اور ہم ان کے معلم اول امام ابن تیمیہ کو علم کا بحر ذخار ماننے کے باوجود اہمیت نہیں دیتے توان لوگوں کی توحیثیت ہی کیا ہے !‘‘، راقم نے اس وقت اس کا ذکر مناسب نہیں سمجھا تھا ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس وقت مولانا اصلاحی صاحب کے ساتھ راقم کا ربط وتعلق کم ہوتے ہوتے معدوم کے درجے میں آچکا تھا ،چنانچہ دسمبر ۷۶ء کے ’’میثاق‘‘ میں راقم نے مولانا اصلاحی سے اپنے تعلقات کے انقطاع کااعلان بھی کردیا تھا۔

آخری ملاقاتیں

اس کے بعد افسوس ہے کہ مولانا سے صرف چندسرسری ملاقاتیں ہی ہوسکیں ، جن میں سے ایک میںمولانا نے دسمبر ۷۶ء کے متذکرہ بالا مضمون کا ذکر تحسین آمیز انداز میں کیا ، اوراپنی دو تازہ عربی تالیفات بھی عنایت فرمائیں ، جن میں سے ایک میں بعض وہی موضوعات زیر بحث آئے تھے جن پر راقم نے اپنی مذکورہ تحریر میں اظہار رائے کیا تھا ، غالبا اسی موقع پر راقم نے مولانا سے دریافت کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ حضرت شیخ الہندؒ نے مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’اس نوجوان نے ہمیں ہمارا بھولا ہوا سبق یاد دلادیا ‘‘؟تو مولانا نے اس کی توثیق فرمائی اور مزید ارشاد فرمایا کہ ’’اس سے ایک طرف تو حضرت شیخ الہندؒ کے تواضع وانکسار کا اندازہ ہوتا ہے ،ارو دوسری طرف چھوٹوں کی قدر دانی اور حوصلہ افزائی کا‘‘۔

راقم کی تحریر پر مولانا بنوری ؒ کی تنقید وگرفت

راقم الحروف کے لیے یہ بات تازندگی رنجم وغم کا باعث رہے گی کہ ماہنامہ ’’بینات‘‘ کا جو غالبا آخری شمارہ مولانا کے اداریے کے ساتھ شائع ہوا ہے اس میں مولانا نے راقم کی ایک تحریر کے بعض مقامات پر گرفت فرمائی اور راقم سوچتا ہی رہ گیا کہ حاضر خدمت ہوکر بالمشافہ وضاحت پیش کرے یا تفصیلی خط لکھے کہ خبر آگئی کہ مولانا نے راول پنڈی میں داعی اجل کو لبیک کہہ دیا ،انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ویسے جن حضرات سے بھی مولانا کی اس گرفت کے بارے میں بات ہوئی وہ گواہی دیں گے کہ راقم کو اس سے ہرگز کوئی تشویش نہیں ہوئی ،اس لیے کہ جہاں تک ’’گرفت‘‘ کا تعلق ہے ،اس کے بارے میں تو راقم کو یقین تھا کہ اس کی بنیاد غلط فہمی پر ہے ، اور جیسے ہی راقم وضاحت پیش کرے گا مولانا یقینا تسلیم فرمالیں گے ، اورجہاں تک محبت وشفقت کا تعلق ہے تو وہ مولانا کی اس تحریر سے بھی ٹپک رہی تھی ،یہاں تک کہ اپنے لیے مولانا کے قلم سے ’’آں محترم‘‘ کے الفاظ دیکھ کر تو اپنے آپ میں ایک شرمندگی کا سا احساس بھی ہوا ، البتہ حسرت ہے تو صرف اس کی کہ کاش مولانا سے ملاقات ہوجاتی اورراقم خود ان ہی کو گواہ بناتا کہ :راقم کو نہ مفسر بننے کاکوئی شوق ہے ، نہ ہی وہ جہنم سے نجات پاجانے کو ادنی درجہ کی کامیابی متصور کرتا ہے ، نہ اس کا کسی بھی درجہ میں کوئی تعلق ’’خارجیت‘‘ سے ہے ، اس لیے کہ وہ گناہ کبیرہ کے مرتکب کو ہرگز کافر نہیں سمجھتا ، اوراس دنیا میں کسی کے ایمان کے فیصلے کا دارومدار عمل پر نہیں صرف ’’قول‘‘ پر سمجھتا ہے ۔

ہوسکتا ہے کہ بعض حضرات ’’غلط فہمی‘‘ کے لفظ سے مغالطے کا شکار ہوجائیں ، اس میں ہرگز کوئی دخل مولانا کے سوء فہم کو حاصل نہیں ، یہ توثابت ہی ہے کہ مولانا نے راقم کی متعلقہ تحریر انجمن خدام القرآن کے طبع کردہ کتابچے ’’راہ نجات:سورہ والعصر کی روشنی میں ‘‘ میں نہیں پڑھی ، بلکہ ادارہ اشاعت علوم اسلامیہ ،چہلیک ، ملتان کے ماہانہ سلسلہ مطبوعات کے شمارہ نمبر ۱۴۴؍میں ’’انسان کا اصل سرمایہ‘‘ کے عنوان سے مطبوعہ رسالے میں پڑھی ، جس میں نہ صرف یہ کہ اس کا اول وآخر غائب ہے ، بلکہ راقم کا نام بھی ’’ڈاکٹر اسرارمحمدخاں ‘‘ درج کیا گیا ہے ، ثانیا اندازہ ہوتا ہے کہ کسی نے اس تحریر کے بعض مقامات نشان زد کرکے مولانا کے سامنے رکھ دیے اورمولانا نے اس پر رائے رقم فرمادی ، واللہ اعلم۔

بہرحال راقم الحروف کے نزدیک مولانا کے ساتھ کم وبیش سات سالہ تعلقات کی انتہائی خوش گوار یادوں کے آخر میں اگر ایک ذرا سی تلخ یاد بھی شامل ہوگئی تب بھی کوئی مضائقہ نہیں ، اس لیے کہ اس تلخی میں بھی محبت وشفقت کی چاشنی بدرجہ اتم موجود ہے ۔

مولانا کو ہماری دعاؤں کی ہرگز کوئی حاجت نہیں ، لیکن ان کے لیے دعا خود ہمارے لیے یقینا اجر وثواب کاذریعہ ہے ۔

اللہم اغفرلہ وارحمہ وادخلہ فی اعلی علیین ، برحمتک یا ارحم الراحمین۔

مولانا بنوریؒ کے صدقہ جاریہ

یہ ایک امر مسلم ہے کہ اللہ والوں کا اصل ترکہ اور عظیم ترین صدقہ جاریہ صالح اولاد ہوتی ہے ، راقم کاحضرت مولانا یوسف بنوریؒ کے صاحبزادے مولانا محمد بنوری سے مولانا کی وفات کے بعد بہت ہی کم ملنا ہوا ،لیکن چونکہ انہوں نے مولانا کی مجھ پر شفقت وعنایت کا مشاہدہ کیا ہوا ہے ،لہذا وہ میرا بہت لحاظ کرتے ہیں ۔

مولانا یوسف بنوری کا دوسرا عظیم صدقہ جاریہ ’’جامعہ علوم اسلامیہ ‘‘ ہے ، جس کی ایک ایک اینٹ پر مولانا کے عزم مصمم اورمحنت ومشقت کے نقوش اسی شان کے ساتھ ثبت ہیں جو نعیم صدیقی صاحب کے ان اشعار میں سامنے آتی ہے :

ہیں بالاکوٹ کی مٹی کے ذرے
ہماری آرزؤوں کے مزارات
ہیں ہر ذرے کی پیشانی پر منقوش
ہمارے عزم کے خونیں نشانات

اس جامعہ کا ماہانہ مجلہ ’’بینات‘‘ بھی مولاناؒ ہی کا صدقہ جاریہ ہے ، جس کے ’’بصائر وعبر‘‘ کے صفحات سالہا سال تک ان ہی کے رشحات قلم سے مزین ہوتے رہے ،اور جس کی ادارت ان کی وفات کے بعد مولانا محمد یوسف لدھیانوی کے سپرد ہوئی جو مولانا کو اپنا ’’شیخ اور مربی‘‘ بھی قرار دیتے ہیں اوران کے ساتھ ہم نامی کی اضافی نسبت بھی رکھتے ہیں ۔

ماخوذ از: جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی ، ڈاکٹر اسرار احمد ، یکے از مطبوعات تنظیم اسلامی

3,440 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!