باطنیت کی اسلام و عرب دُشمنی اور مُسلم کُشی

تحریر: مولانا شمس تبریز خان

باطنیت کی اسلام وعرب دشمنی اور مسلم کشی

دنیا کے نام خدا کا آخری پیغام یعنی اسلام عرب کے ذریعہ پھیلا اور عرب اس عالمگیر انسانی و روحانی مشن کے اولین علمبردار تھے، انہوں نے اپنی تہذیب کے سادہ ورق اور اپنے ذہن و دل کی لوح سادہ پر اسلام کا نقش اس طرح قبول کیا کہ وہ پتھر کی لکیر اور ان کا ضمیر و خمیر بن گیا، اس کے علاوہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے تمام ذخائر سے عربی زبان ہی مالا مال ہے اور وہ اسلام کی سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی ہے، عربی زبان، اہل عرب اور اکابر اسلام (جن کی بیشتر تعداد عربوں ہی پر مشتمل تھی) کے فضائل متعدد احادیث صحیحہ کے علاوہ خود قرآن مجید میں بھی آئے ہیں، جن کا انکار ممکن نہیں، ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ’’عربوں سے محبت رکھو، کیوں کہ میں عربی ہوں، قرآن عربی میں ہے اور اہل جنت کی زبان عربی ہوگی،‘‘یہ حدیث متعدد طریقوں سے آئی ہے اور اس کے بہت سے شواہد ہیں، اس لیے کم از کم معنی کے لحاظ سے تو صحیح ہے،اس کے علاوہ اشاعت اسلام کے سلسلے میں عربوں کے جو ناقابل فراموش کارنامے رہے ہیں اور بحیثیت مجموعی مسلمانوں پر ان کے جو احسانات رہے ہیں، حرمین شریفین اور مقامات مقدسہ رسول اعظم ﷺ اور ان کے صحابہ و تابعین کے عالم عربی سے نسبت ایسی چیز ہے جو ہر مسلمان کو عزیز ہونی چاہیے اور ان سب باتوں کا لازمی تقاضا ہے کہ عربوں کے ساتھ اکرام و احترام اور ان کی خیرخواہی کا معاملہ کیا جائے،چنانچہ اسلام کی پوری تاریخ میں اہل سنت نے عربوں کے ساتھ ایسا ہی کریمانہ معاملہ کیا اور انہیں اپنا محسن اور اسلام کے اولین علمبرداروں کا مقام دیا، عجمی سلاطین خصوصاً عثمانی خلفاء اپنے کو ہمیشہ ’’خادم الحرمین الشریفین‘‘ کہلانے میں فخر و اعزاز محسوس کرتے تھے۔

عرب مسلمانوں کا ایران فتح کرنا، مجوسی و عجمی تعجب رکھنے والوں کو ہمیشہ ناپسند رہا، جس کے نتیجے میں مسلم خراسانی، بابک خرمی اور حسن بن صباح جیسے عرب دشمن اور شعوبی پیدا ہوتے رہے، یہ شعوبیت کا اثر تھاکہ محمود غزنوی جیسے باحمیت مسلم حکمران کے زیر سایہ بھی فردوسی جیسا درباری شاعر عربوںکی ہجو ومذمت کرتا ہے اور علی الاعلان عجمی تعصب کو ہوا دیتا ہے،عربوں کے خلاف عجمی تعصب کا سب سے بڑا مرکز شروع سے آج تک ایران ہی رہا ہے، جس سے خلافت اسلامیہ اور مسلمانوں کی سیاسی قوت اور وحد کو خطرہ لاحق رہا،علامہ شکیب ارسلان نے ایک فرنچ مفکر ’’کونٹ دی غوبینو‘‘ کی یہ رائے نقل کی ہے:

’’اہل عجم کا کل مقصد متحدہ عرب حکومت کو پارہ پارک کرنا تھا، کیوں کہ اس عظیم سلطنت کی ماتحتی میں اس کا دم گھٹتا تھا جو اسپین سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی، وہ فارس کی داخلی خودمختاری کے لیے کوشاں رہتے تھے، ا س کے لیے سب سے پہلے انہوں نے اہل سنت کی خلافت کی شرعی حیثیت کا انکار کیا اور اہل بیت کے مغصوبہ حقوق کی بحالی کی آواز اس شرعی موقف کو اپناتے ہوئے اٹھائی جو ان کے نزدیک اسلام میں عربی موقف سے زیادہ اہم اور مقدم تھا، اس طرح وہ گویا عربوں سے بڑھ کر عرب اور اپنے خیال میں مسلمانوں سے بڑھ کر مسلمان بننے لگے، اور عربوں کے مقابلے میں ایسے موقف لے کر اٹھ کھڑے ہوئے جن کا وہ قطعی انکار بھی نہیں کرسکتے تھے، اس طرح ایران میں مذہب شیعہ کا نشوونما ہوا جس کے جلو میں بے شمار معرکے تھے، لیکن اس نے ایران کی بڑی قومی خدمت کی، اور اس کی پارینہ روایات کی تجدید کی، بہ ظاہر تو خلافت میں عباسیوں کے حق کے بارے نزاع تھی مگر یہ تحریک خالص ایرانی تحریک تھی‘‘۔(۱)

ایک جدید عرب مفکر و مؤرخ استاذ انورالجندی اپنی تاریخ اسلام میں ابومسلم خراسانی، برامکہ اور امین و مامون کی جنگ میں دعوبیت کے اثرات دکھاتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’فلسفیانہ اور باطنی تحریکیں جو اہل بیت کی حمایت کا نقاب ڈالے ہوئے تھیں بڑے پیمانے پر فکری، معاشرتی اور سیاسی تصادم کا خاکہ بنارہی تھیں، جو بعد کی بڑی سیاسی تحریکوں کے ذریعے سامنے آیا، جیسے حبشیوں کی بغاوت، قرامطہ کی شورش، باطنیہ کی تحریک، یہ ایسی تحریکیں تھیں جنہوں نے معاشرتی انصاف اور اہل بیت کی حمایت کی نقاب اوڑھ رکھی تھی، مگر ان کی کوشش عظیم خلافت عباسیہ کے خاتمے کے لیے تھی، چناں چہ یہ ساری کشمکش مسلمانوں کے عمومی زوال کا پیش خیمہ بن گئی۔ (۲)

باطنیہ کی تحریک پر تبصرہ کرتئے ہوئے استاذ انوارالجندی لکھتے ہیں:ـ

’’اس دعوت کے اندر قدیم ایرانی اثرات، ثنویت و مجوسیت کے مباحث بالکل ظاہر ہیں، جس سے یہ یقین ہوجاتا ہے کہ اس کا مقصد قطعاً اسلام کے خلاف تھا اور وہ اسلام اور اس کی دعوت کے خلاف سازشوں کی ایک کڑی تھی۔(۳)

حکیم ناصر خسرو

سفر نامہ ناصر خسرو کے مترجم مولوی عبدالرزاق کانپوری لکھتے ہیں:

’’خلافت عباسیہ، ترکی غلاموں کے اثر سے کمزور ہوکر ہنوز موجود تھی، لیکن خلفائے فاطمین اسی بھی صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے تھے، جس کے لیے ایک دارالحکومت (فری میس لاج) قائم تھا، اور جس کے نامور معلم ناصر خسرو جیسے علامہ تھے۔ (۴)

یہ حکیم ناصرخسرو اہل سنت اور عباسی خلافت سے کتنا بغض رکھتا تھا، اس کا اندازہ اس کے سفر نامے اور دوسری کتابوں سے ہوسکتا ہے، ہم یہاں اس کے دو شعر نقل کرتے ہیں، جن میں اس نے فاطمی خلیفہ کو عباسی خلیفہ پر فوج کشی کی دعوت دی ہے،وہ لکھتا ہے:

وقت آں آمد کہ روز کیں چو خاک کربلا آب را در دجلہ از خون عدد، احمر کنی
اے نبیرۂ آن کہ زوشد در جہاں خیبر سمر دیر برناید کہ تو بغداد را خیبر کنی (۵)

شیعہ سنی اختلافات کے اصولی اختلاف کو ناواقف لوگ جزئی اور فروعی اختلاف سمجھتے ہیں، لیکن اہل علم اس کی اصولی نوعیت سمجھتے ہیں اور ان اختلافات کو بنیادی اور کفر واسلام پر مبنی قرار دیتے ہیں، حتیٰ کہ مغربی فضلاء بھی اس اختلاف کی گہرائی دیکھ لیتے ہیں، چناں چہ پروفیسر برائون لکھتے ہیں:

’’شیعہ اور سنی کا جھگڑا صرف ناموں یا شخصیتوں کا جھگڑا نہیں ہے بلکہ دو متضاد اصولوں یعنی جمہوریت اور بادشاہوں کے حق الٰہی کا جھگڑا ہے، عرب زیادہ تر جمہوریت پسند ہیں اور ہمیشہ رہے ہیں، لیکن ایرانی ہمیشہ اپنے بادشاہوں کو الٰہی یا نیم الٰہی ہستیاں سمجھتے رہے ہیں، جو طبائع اس بات تک کو گوارا نہیں کرسکتے کہ انسانوں کا منتخب کردہ کوئی شخص ان کی ریاست کا حکم ہو،وہ امام یعنی خلیفۃ الرسول ﷺ کے انتخاب عمومی کو کیونکر تسلیم کرسکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ ایران ہمیشہ سے اسماعیلیہ اور امامیہ فروں کا مرکز بنا رہا ہے۔ (۶)

اپنے نظریئے کی تائید میں برائون نے رضائے کرد کے یہ اشعار بھی پیش کیے ہیں:

بشکست عمرؓ پشت ہزبران عجم را برباد فناد اورگ و ریشہ جم را
ایں عربدہ بر غصب خلافت زعلی نیست با آل عمرؓ کینہ قدیم است عجم را (۷)

شیخ محب الدین خطیب نے اپنی کتاب میں الصاحب بن عباد کے دربار میں ایک ایران نواز شعوبی شاعر کے شعر پڑھنے اور الصاحب کے حکم سے اس کے نکالے جانے کا واقعہ لکھتے ہوئے الصاحب کا مشہور قول نقل کیا ہے کہ:

لا تجد رجلا یطعن فی العرب الا وفیہ عرق من المجوسیہ (۸)

تم جب عربوں پر کسی کو طعنہ زنی کرتے ہوئے پائو تو سمجھ لو کہ اس میں کوئی عجمی رگ کارفرما ہے۔

باطنیت:اسلام دشمنی و مسلم کشی کی مسلسل تاریخ

خود کو مسلمان کہنے والے شیعہ فرقوں میں باطنیہ و قرامطہ سے جتنا نقصان اسلام اور مسلمانوں کو پہنچا ہے وہ ایک المناک اور افسوسناک تاریخی حقیقت ہے، سیاسی کشمکش کو انہوں نے دینی رنگ دینے اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانے سے کبھی دریغ نہیں کیا اورہمیشہ اسلام دشمن طاقتوں کے ساتھ مل کر سازش اور شورش پیدا کرے رہے اور اپنی پوری تاریخ میں عالم اسلامی کے امن و استحکام کے لیے خطرہ بنے رہے اور موقع بموقع قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے رہے، اسی لیے علامہ شمس الدین ذہبیؒ نے اپنے استاذ علامہ ابن تیمیہ ؒ کا یہ بیان نقل کیا ہے:

واللہ اعلم وکفی باللہ علیما لیس فی جمیع الطرائف المنتسبۃ الی الاسلام مع بدعۃ وضلالۃ شر منھم لااجھل ولا اکذب ولا اظلم ولا اقرب الی الکفر والفسوقہ والعصیان وابعد عن حقائق الایمان منہم (۹)

ترجمہ :اللہ جانتا ہے اور اس کا علم بہت کافی ہے کہ اسلام کی طرف منسوب فرقوں میں بدعت و ضلالت کے باوجود کوئی ان سے زیادہ برا نہیں اور نہ کوئی ان سے زیادہ جاہل، جھوٹا، ظالم اور کفر و فسق اور عصیان سے قریب اور حقائق ایمان سے دور ہے۔

وہ ان فرقوں کی اسلام دشمنی کے سلسلے میں لکھتے ہیں:

’’معلوم ہوا ہے کہ ساحل شام پر الجرد و کسروان نام کے بڑے پہاڑ تھے، جس میں ہزاروں روافض (دروز) رہتے ہیں اور لوگوں کا خون بہاتے اور انہیں لوٹتے ہیں اور جب ۶۹۹ھ میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو ان کے سازوسامان پر قبضہ کرلیا اور انہیں کافروں اور قبرص کے نصاریٰ کے ہاتھ بیچ دیا، وہ گزرنے والے مسلمان سپاہیوں کو بھی پکڑ لیتے تھے اور اس طرح وہ مسلمانوں کے لیے ان کے تمام دشمنوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے، ان کے بعض امراء نے نصاریٰ کا علَم بلند کیا، یہ پوچھے جانے پر کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں کون بہتر ہے؟ کہا کہ نصاریٰ بہتر ہیں، لوگوں نے اس سے پوچھا کہ قیامت میں کس کے ساتھ حشر پسند کروگے؟ تو کہا کہ نصاریٰ کے ساتھ، ان لوگوں نے مسلمانوں کے کئی شہروں کو نصاریٗ کے حوالے بھی کیا۔‘‘ (۱۰)

آخر میں علامہ ذہبی پھر بڑے درد کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کرتے ہیں کہ:

ففعلوا فی اھل الایمان مالم یغطہ عبدۃ الاوثان والصلبان (۱۱)

ان باطنیوں نے اہل ایمان کے ساتھ ایسا برا سلوک کیا جو بت پرستوں اور صلیبیوں نے بھی نہیں کیا۔

علامہ مصر شیخ ابوزہرہ، روافض باطنیہ کی اسلام دشمنی اور غیر اسلامی طاقتوں سے سازباز کی دیرینہ روایت کے متعلق لکھتے ہیں:

’’بلاد شام اور اس کے بعد عالم اسلام پر صلیبی حملے کے وقت انہوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں صلیبیوں سے دوستی کی، چناں چہ جب صلیبی بعض بلاد اسلامیہ پر قابض ہوئے تو انہیں اپنا مقرب بنایا اور مختلف عہدوں پر بحال کیا اور جب نورالدین زنگی، صلاح الدین ایوبی اور دیگر حکمران ہوئے، یہ چھپ بیٹھے اور مسلمانوں کے اکابر اور بڑے سپہ سالاروں کے قتل کی سازشیں کرنے لگے اور جب تاتاریوں نے شام پر حملہ کیا تو صلیبیوں کی طرح نصیریوں نے ان سے بھی دوستی کی اور ان کے آلہ کار بن گئے،پھر تاتاری حملے رکنے کے بعد اپنے پہاڑوں میں اسی طرح سمٹ گئے جیسے دریائے کیڑے اپنے خول میں سمٹ جاتے ہیں اور دوسرے موقع کے انتظار میں بیٹھ گئے۔‘‘ (۱۲)

شام کے ممتاز عالم شیخ عبدالرحمن حسن حبنکہ المیدانی نے باطنیوں اور قرمطیوں کی مسلم کشی کا ایک سنہ وار جائزہ درج کیا ہے، جس کا خلاصی یہاں دیا جاتا ہے، وہ لکھتے ہیں:

’’۲۹۰ھ میں یحییٰ قرمطی نے محاصرہ دمشق میں بہتوں کو قتل کیا، اس کے بھائی حسین نے بلاد شام میں قتل عام کیا، جانوروں اور بچوں تک کو نہ بخشا، ۲۹۴ھ میں زکرویہ بن مہرویہ نے حاجیوں کے خراسانی قافلے کو قتل کیا اور راستے کے تمام کنوئوں کو بند کردیا، اس سال تقریبا بیس ہزار حاجی شہید ہوئے، حجاج کا قتل قرامطہ کی مخصوص عادت تھی اور اس میں عراقی، ایرانی اور بحرینی آگے تھے، ۳۱۲ھ میں ابوطاہر قرمطی نے کوفہ میں قتل عام کیا، ۴۹۴ھ میں قرامطہ نے پھر زور پکڑا، ان کے سرغنہ احمد بن عطاش کا مرکز قلعہ اصفہان تھا اور حسن بن صباح کا الموت جس کے فدائیوں نے نظام الملک کو قتل کیا، ۴۹۸ھ میں خراسان و ہندوستان کے قافلہ حجاج کو رے کے پا س باطنیوں نے قتل کیا، بالآخر ۵۱۸ھ میں حسن بن صباح مر گیا، ۵۲۰ ھ میں وہ پھر سرگرم ہوئے، بہرام نے شام کو مرکز بنایا اور صلیبی حملوں سے فائدہ اٹھایا، قلعہ بانیاس (شام) پر قابض ہوکر مسلمانوں کو ستانے لگا، مزوقانی باطنی نے صور کے صلیبیوں سے دمشق کی پیش کش کی اور کہا کہ جمعہ کے دن جامع اموی کے دروازے بند کرکے انہیں قبضہ دلادے گا، مگر یہ راج تاج الملوک امیر دمشق کو معلوم ہوگیا، اس نے اُسے بلاکر قتل کردیا اور اس کا سر قلعے کے دروازے پر لٹکادیا، اور رمضان ۵۲۳ھ میں مسلمانوں نے باطنیوں کا صفایا کیا، ۵۲۴ھ میں اسماعیل باطنی نے قلعہ بانیاس صلیبیوں کے حوالے کردیا، ۵۴۹ھ میں خراسان میں باطنی، مسلمانوں کے ہاتھوں شکست خوردہ ہوئے، ۵۵۲ھ میں باطنیہ نے پھر خراسانی حجاج کا قتل عام کیا، مؤرخین کہتے ہیں کہ بلاداسلامیہ کا کوئی شہر ایسا نہ تھا جہاں شرفاء و حجاج کے اس قتل عام پر ماتم نہ ہوا ہو، (قال المؤرخون ولم یبق بلاد من بلاد المسلمین الا وفیہ ماتم علی من قتل من الفضلاء فی ھذہ الغدرۃ الخائنۃ)

۵۷۱ھ میں صلاح الدین ایوبی قلعہ اعزاز (نزد حلب) کے محاصرے کے دوران طائفہ اسدیہ کے امیر جائولی کے خیمے میں گیا، جہاں ایک باطنی نے اس کے سر پر حملہ کیا، مگر وہ مغفر کے سبب محفوظ رہا، صلاح الدین نے اسے پکڑ بھی لیا، اتنے میں امیر بازکش خیمے میں داخل ہوا، جسے باطنی نے زخمی کیا، پھر امیر نے اسے قتل کیا، پھر بہت سے باطنی آئے اور قتل ہوئے اور صلاح الدین صحیح سلامت نکل گیا اور فوج سے باطنیوں کو نکال دیا۔ (۱۳)

مصر کے غیرت مند سنی عالم و اہل قلم شیخ محب الدین خطیب نے دوجلدوں میں رد شیعہ میں اپنی مشہور کتاب ’’مجموع السنۃ‘‘ لکھی جس میں وہ بجا طور پر لکھتے ہیں:

’’ہمارے درمیان تاریخ فیصلہ کرسکتی ہے، کیا آپ نے کسی خارجی، شیعی یا معتزلی سپہ سالار کو اسلامی مقاصد کے لیے کسی فوج کی قیادت کرتے دیکھا ہے، یا وہ لوگ ہزیمت کے داعی اور تفرقہ و انتشار کے حامی رہے ہیں، وہ لوگ تو ہر مجاہد حکومت جیسے امویین اور آل عثمان کے خلاف سازشیں کرتے رہے ہیں۔‘‘ (۱۴)

عبدالقاہر بغدادی لکھتے ہیں:

’’ایک باطنی بدباطن سلیمان بن الحسین الاحسا سے اسلامی حکومت کے خاتمے کا دعویٰ لے کر اٹھا اور حاجیوں پر حملہ آور ہوکر بہتوں کو شہید کردیا، پھر مکہ معظمہ میں داخل ہوکر بیت اللہ کا طواف کرنے والے بے گناہوں کے خوان سے اپنے ناپاک ہاتھ رنگے، کعبہ کے مقدس پردے چاک کیے اور شہیدان حرم کو بیئر زمزم میں ڈال دیا اور مسلم افواج کو قتل کیا اور بالآخر ان سے شکست کھا کر مقام ہجر کی طرف فرار ہوگیا، جہاں ایک بہادر مسلمان خاتون کی پھینکی ہوئی اینٹ سے اس کا سرپُرغرور کچلا گیا۔

اس کے بعد اسلامی حکومت کا دائرہ اقتدار برابر بڑھتا گیا اور اللہ نے مسلمانوں کے ہاتھ سے تبت و چین کے اکثر علاقے اور یمین الدولہ امین الملت سلطان محمود غزنوی ؒ کے عہد میں ہندوستان بھی اسلامی سلطنت میں داخل ہوگیا،
پھر قیروان (تیونس) میں ایک باطنی عبیداللہ بن الحسن ظاہر ہوا اور اپنے دام فریب میں کتامہ، مصامدہ اور کچھ بربر قبائل کو مبتلا کردیا اور ان کی شعبدہ بازیوں کے سبب بھولے بھالے لوگ اس کے پیرو بن گئے اور ان کی مدد سے وہ المغرب کے بعض علاقوں پر قابض ہوگیا،پھر ابوسعید الحسین بن بہرام نامی باطنی الاحساء قطیف اور بحرین پر قابض ہوگیا اور مسلمانوں کی جان و مال سے کھیلنے لگا، عورتوں، بچوں تک کو قید کرلیا،مصاحف اور مساجد کو اغ لگائی، پھر ہجر پر قابض ہوکر وہاں کے لوگوں کے ساتھ یہی معاملہ کیا۔

یمن میں صنادیقی باطنی ظاہر ہوا اورمسلمانوں کا قتل عام کیا، جہاں ابن الفضل بھی اس کے ساتھ ہوگیا، مگر اللہ نے ان کا مرض اکلہ اور طاعون سے کام تمام کردیا، پھر شام میں میمون بن دیصان کے پوتے بوالقاسم بن مہرویہ نے اپنی حکومت کی پیش گوئی کے ساتھ خروج کیا، (۲۸۹ھ) خلیفہ المعتضد کے فوجی نسر سبک نے ان کا مقابلہ کیا، مگر وہ اسے قتل کرکے شہر صافہ میں داخل ہوگئے اور وہاں کی جامع مسجد کو ملادیا اور وہاں سے دمشق کا رخ کیا جہاں انہیں الحمامی غلام بن طیون نے رقہ کی طرف بھگادیا، جہاں المکتفی کے سیکریٹری محمد بن سلیمان نے انہیں شکست دی اور ابوالحسن بن زکریا بن مہرویہ رملہ کی طرف بھاگا، وہاں والی ٔ رملہ نے اسے اس کے ساتھیوں سمیت خلیفہ المکتفی کے پاس بھیج دیا اور خلیفہ نے بغداد کے شارع عام پر انہیں بری طرح قتل کیا اور ۳۱۰ھ تک قرامطہ کا فتنہ فرو رہا۔

حرم محترم کی بے حرمتی اور حجر اسود کی چوری

۳۱۱ھ میں سلیمان بن الحسن کا فتنہ کھڑا ہوا۔ اس نے امیر بصرہ سیکا مقلجی کو قتل کرکے بصرہ کا خزانہ بحرین بھیج دیا اور ۳۱۲ھ میں متہیبر میں ۳۰ محرم کو حاجیوں کو شہید کرکے ان کے بچوں اور عورتوں کو قید کرلیا۔ پھر ۳۱۳ھ میں کوفہ میں غارت گری کی۔ ۳۱۵ھ میں مسلمان کمانڈر ابن ابی الساج کو شکست دی اور اسے قید کرلیا۔ ۳۱۷ھ میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوکر طواف کرنے والے حاجیوں کا قتل عام کیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں تین ہزر حاجیوں کو شہید کیا اور سات سو کنواریوں کو اغوا کیا۔ بحر اسود کو اکھاڑ کر بحرین، پھرکوفہ بھیج دیا، جہاں سے وہ ابواسحاق ابراہیم بن محمد بن یحییٰ (نیشاپور کے عامل زکوٰۃ) کے ہاتھوں سے ۳۲۹ھ میں مکہ معظمہ واپس بھیجا گیا۔ سلیمان بن الحسن ۳۱۸ھ میں بغداد گیا، جہاں مقام ہیت میں ایک خاتون نے اپنی چھت سے پتھر پھینک کر اس کا کام تمام کردیا۔

توہین حرم کے اس المناک واقعے کی تفصیلات ابن خلدون(۱۵)، احمد بن امین(۱۶) اور ابن کثیر (۱۷)اور بہت سے مؤرخوں نے لکھی ہیں۔ ہم یہاں ابن الاثیر (م ۶۳۰ھ) کا بیان نقل کرتے ہیں،وہ ۳۱۷ھ کے حوادث کے بارے میں لکھتے ہیں:

اس سال لوگوں کے ساتھ منصور دیلمی نے حج کیا اور بغداد سے مکہ گیا۔ راستے میں تو امن رہا، مگر مکہ مکرمہ میں ابوطاہر قرمی نے یوم الترویہ میں ان پر حملہ کیا اور اس کے ساتھیوں نے حاجیوں کو لوٹا اور انہیں مسجد حرام بلکہ بیت اللہ کے اندر بھی قتل کیا اور حجر اسود کو اکھاڑ کر ہجر (بحرین) بھیج دیا۔ اس موقع پر جب ابن محلب امیر مکہ اشراف کی ایک جماعت کے ساتھ حاجیوں کی طرف سے سفارشی بن کر گئے، مگر اُس نے ان کی ایک نہ سنی اور اس سے جنگ میں سب مارے گئے۔

ابوطاہر نے بیت اللہ کا دروازہ بھی کھود دیا اور ایک آدمی کو میزاب رحمت اکھیڑنے کے لیے اوپر چڑھایا، جہاں سے وہ گر کر مرا۔ مقتول حاجیوں کو اس نے چاہ زمزم میں ڈلوایا اور باقی کو مسجد حرام میں بغیر غسل و کفن اور بغیر جنازہ کے دفن کرادیا۔ غلاف کعبہ کو اپنے ساتھیوں میں بانٹ دیا اور اہل مکہ کے گھروں کو لوٹ لیا۔

جب اس کی خبر (شیعی حکمران) المہدی ابو محمد عبیداللہ علوی کو افریقہ میں ملی تو اس نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے اسے لکھا کہ ’’تم نے ایسا کرکے ہم شیعوں اور ہماری حکومت کے والیوں کے بارے میں کفر و الحاد کا شبہ ثابت کردیا۔ اور اگر تم اہل مکہ اور حجاج کا مال اور حجر اسود کو اس کی جگہ اور غلاف کعبہ کو واپس نہ کروگے تو میں تم سے دنیا و اخرت میں بری ہوں۔‘‘

جب ابوطاہر کو یہ خط ملا تو اس نے حجر اسود کو واپس کیا اور اہل مکہ کا کچھ مال بھی واپس کیا اور غلاف کعبہ اور حجاج کے مال کے بارے میں یہ عذر کیا کہ اس کی تلافی پر وہ قادر نہیں۔

قرامطہ کا یہ امیر ابوطاہر (لعنہ اللہ) اس موقع پر باب کعبہ پر بیٹھا ہوا تھا اور حاجی اس کے آس پاس قتل کیے جارہے تھے اور مسجد حرام اور شہر حرام اور یوم الترویہ میں (جو اشرف الایام ہے) معصوم حاجیوں پر تلواریں چل رہی تھیں اور وہ یہ بیت پڑھا تھا کہ:

انا للہ و باللہ انا یخلق الخلق وافنیھم ان

ترجمہ: میں اللہ کا ہوں اور اللہ کے ذریعے ہوں، وہ مخلوق کو پید اکرتا ہے اور میں انہیں فنا کرتا ہوں۔

لوگ ان قاتلوں سے بھاگ کر کعبہ کے پردوں سے چمٹتے تھے، مگر اس کا بھی لحاظ کیے بغیر شہید کیے جاتے رہے۔ اسی طرح حالات طواف میں بھی شہید ہوتے رہے۔ اس دن ایک بزرگ طواف کررہے تھے، ختم طواف پر ان پر بھی تلواریں پڑیں۔ انہوں نے مرتے وقت یہ شعر پڑھا:

تری المحبین صرعٰی فی دیارھم کفتیۃ الکھف لایدرون کم لبثوا

ایک قرمطی مطاف میں داخل ہوا جو سوار تھا اور شراب پیے ہوئے تھا۔ ا س کے گھوڑے نے بیت اللہ کے پاس پیشاب کیا۔ اس نے حجر اسود کو ایک کلہاڑی سے مار کر توڑا اور پھر اکھاڑ لیا۔ اور اس لعین نے مسجد حرام میں ایسا الحادی اقدام کیا جو پہلے اور بعد میں کسی نے نہیں کیا۔ اس شرمناک حرکت پر انہیں ان کی شدت کفر زندقہ نے آمادہ کیا تھا۔

قرمطی مکہ میں گیارہ دن رہا، اور جب اپنے وطن لوٹا تو اللہ نے اس کے بدن پر ایک طویل عرصے تک عذاب ازل کیا، جس سے اس کے اعضاء کٹ کٹ کر گرتے تھے اور اس کے گوشت سے کیڑے ٹپکتے تھے۔ (ص ۲۰۳)

اللہ تعالیٰ پہلے ڈھیل دیتا ہے، پھر بڑے زور سے پکڑتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

ان اللہ یعلی للظالم حتٰی اذ اخذہ لم یفلتہ

’’اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے اور جب پکڑتا ہے توہ بچ نہیں پاتا۔‘‘

پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی۔

ولا تحسبن اللہ غافلا عما بعمل الظالمون۔ انما یؤخرھم لیوم تشخص فیہ الابصار

الصلہؔ کا مصنف لکھتا ہے کہ ابوطاہر نے کعبہ کے دروازے اکھیڑ دیئے اور اس کا غلاف اتار لیا اور اس وجودہ خلفاء کے وہ آثار لوٹ لیے جو انہوں نے بطور زینت وہاں رکھے تھے۔ اس نے حضرت ماریہ ؓ کے کانوں کے بندے، حضرت ابراہیم ؑ کے مینڈھے کے سینگ اور عصائے موسیٰ جو سونے جواہرات سے جڑے ہوئے تھے۔(۱۸)

حجر اسود ۳۳۹ھ میں واپس ہوا۔ چنانچہ ابن اثیر اس سال کے حوادث میں لکھتے ہیں:

’’اس سال قرامطہ نے یہ کہہ کر حضر اسود واپس کیا کہ اسے ہم حکماً لے گئے تھے اور حکماً واپس لائے ہیں۔ امیر بحکم نے انہیں حجر اسود کی واپسی کے لیے پچاس ہزار دینار کی پیش کش کی تھی، مگر وہ اس پر راضی نہیں ہوئے اور اس سال ذیقعدہ میں بغیر کسی معاوضہ کے واپس کردیا۔ وہ پہلے حجر اسود کو کوفہ لائے اور اس کی جامع مسجد میں لٹکایا۔ جب لوگوں نے دیکھا تو اسے مکہ واپس لے گئے۔ قرامطہ نے حجر اسود بیت الحرام سے ۳۱۷ھ کو اکھاڑا۔ اس طرح وہ بائیس سال ان کے پاس رہا۔ (۱۹)

احمد امین حرم میں قتل عام کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ:

ابوطاہر گھوم پھر کر اپنے ساتھیوں کو قتل پر یہ کہہ کر ابھارتا تھا کہ ان کفار اور بت پرستوں پر خوب حملہ کرو۔ (اجھزوا علی الکفار وعبدۃ الاحجار) اس نے اور اس کے ساتھیوں نے وہاں بارہ دن قیام اور قتل و غارت کا ایسا اقدام کیا جس سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔‘‘ (۲۰)

ماخوذ از : ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک ، اپریل ۱۹۸۵

حواشی

(۱) حاضر العالم الاسلامی ۱؍۱۸۵ بیروت (۳،۱۹)۔
(۲) تاریخ اسلام ۲؍ ۸۷ دارالانصار قاہرہ ۔
(۳) تاریخ اسلام، ص ۹۲ قاہرہ ۔
(۴) سفر نامہ ناصر خسرو، ص ۵۲ ۔
(۵)سفر نامہ ناصر خسر، ص ۸۷ بحوالہ دیوان ناصر خسرو، ص ۲۱۳۔
(۶) تاریخ ادبیات ایران، ص ۲۹، ۳۰ ۔
(۷) ایضاً ۔
(۸) مجموع السنۃ ۱؍۲۲۶۰۷۔
(۹) مختصر منہاج السنہ، ص ۳۳۲ ۔
(۱۰) ایضاً، ص ۳۲۹-۳۳۲ ۔
(۱۱) ایضاً، ص ۵۰۵۔
(۱۲) تاریخ المذہب الاسلامیہ لابی زہرہ، ص ۶۴ قاہرہ ۱۹۷۶ء۔
(۱۳) مکاید یہودیۃ حیرالتاریخ للاستاذ عبدالرحمن حسن حبنکہ المید، ص ۲۰۴، ۲۰۵ دمشق ۱۹۷۸ء ۔
(۱۴) مجموع السنۃ ۱؍ ۳۷۶۔
(۱۵) تاریخ ابن خلدون ۳؍۳۷۹ ۔
(۱۶) ظہر الاسلام ۴؍۱۳۳ ۔
(۱۷)البدایہ والنہایہ ۱۱؍۶۰-۱۴۹۔
(۱۸) الکامل ۶؍۲۰۳ (بیروت ۱۳۹۰ھ ۱۹۶۸ء) ۔
(۱۹) ایضاً ۶؍۳۳۵ ۔
(۲۰) ظہر الاسلام ۴؍۱۳۳ (بیروت ۱۹۷۹ء)۔

1,772 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!