مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ
تحریر: مفتی عمر انور بدخشانی
حضرت بَنوریؒ کے شاگرد رشید
مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
حضرت مولانا امین اورکزئی شہید رحمہ اللہ کا نام پہلی بار کب سنا ،یہ ٹھیک سے یاد نہیں ،لیکن بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن سے آپ کی ملاقات اگرچہ بہت تاخیر سے اور بہت مختصر دورانیے پر مشتمل ہوتی ہے، لیکن وہ آپ کے دل دماغ کو اپنے اخلاق ،کردار اور گفتار سے متاثر ضرور کردیتے ہیں، مولانا امین اورکزئی صاحب ؒکی شخصیت بھی بندہ کے لیے کچھ ایسی ہی تھی ،جن کی صحبت اور زیارت بہت کم نصیب ہوئی ، لیکن ان کا تذکرہ خیر ہمیشہ اپنے اساتذہ کرام سے بارہا سنا،حضرت بنوری رحمہ اللہ کی وفات کے بعد امام اہل سنت مفتی احمد الرحمن رحمہ اللہ کے دور اہتمام میں وہ اپنے علاقے ھنگو(کوہاٹ) واپس چلے گئے تھے، لیکن قلبی وروحانی طور پر وہ کبھی بھی اپنے آپ کو حضرت بنوریؒ اور جامعہ سے دور نہ رکھ سکے، مولانا امین اورکزئی شہید رحمہ اللہ اگرچہ جامعہ سے جانا تو نہیں چاہتے ہوں گے ،لیکن راقم کا ذاتی تاثر یہ ہے کہ اپنے شیخ استاذ حضرت بنوریؒ کی آرزو کی تکمیل کے لیے انہوں نے یہ فراق بھی بادل نخواستہ برداشت کیا ، چونکہ ہم نے اپنے اساتذہ کرام سے بارہا سنا کہ حضرت بنوری ؒ بسا اوقات یہ تمنا کیا کرتے کہ :’’کاش ! میں گمنام ہوتا ، کسی گاؤں دیہا ت میں ایک گمنام مسجد کا خادم ہوتا ، اس مسجدکی صفائی کرتا ، جھاڑو لگاتا ، جب نماز کا وقت ہوجاتا تو اذان دے کر لوگوں کو بلاتا اور انہیں نماز پڑھاتا ، پھر اس کے بعد نمازیوں کو وہیں مسجد میں بیٹھ کر قرآن کریم کی تعلیم دیتا‘‘،حضرت بنوریؒ نے تو یہ آرزو اور تمنا کی تھی ،لیکن اس آرزو کی تکمیل مولانامحمد امین اورکزئی شہیدؒ کے حصے میں تھی ، چنانچہ وہ بغرض خدمت دین اپنے آبائی علاقےآ گئے ، وہاں ایک مسجد ومدرسہ کی بنیاد رکھ کر تادم شہادت دین متین کی خدمت میں مصروف ہوگئے ۔
ہماراجب جامعہ بنوری ٹاؤن میں باضابطہ داخلہ ہوا تو امام اہل سنت حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن صاحب رحمہ اللہ کا دور اہتمام تھا ،حضرت مولانا امین اورکزئی صاحب ؒ تو جامعہ سے رخصت لے کرجاچکے تھے ، اساتذہ کرام بسا اوقات سبق کے دوران ان کا بہت زیادہ والہانہ انداز سے ذکر کیا کرتے ، اس لیے ان سے ملاقات اوران کی زیارت کا شوق دل میں بہت زیادہ پیدا ہوگیا تھا ،ہماری طلب علمی کے دوران کسی موقع کی مناسبت سے ان کا کراچی آنا ہوا، جب ان کو پہلی بار دیکھا تو یہی محسوس ہوا کہ جیسے بہت پہلے سے انہیں دیکھا اور جانا ہوا ہے ، بالکل بھی اجنبیت یا دوری محسوس نہ ہوئی ،درحقیقت دینی علوم کی سند کے سلسلے میں جو جڑتا ہے تو پھر وہ تمام کڑیوں سے مربوط ہوکر منظم ہوجاتا ہے اور مزید نکھر بھی جاتا ہے ،کیونکہ یہ ایک روحانی سلسلہ ہوتا ہے ،جس کا تعلق براہ راست روح سے ہوتا ہے اور روح کے تعلق میں بظاہر کتنی بھی دوری اور مسافت کیوں نہ ہو، لیکن دل ہمیشہ جڑے رہتے ہیں ،ان میں دوری پیدا نہیں ہوتی ،چنانچہ ہم اگرچہ ان سے باضابطہ طور پر زیادہ مستفید نہ ہوسکے ،لیکن روحانی طور پر ان کا فیض ہمیشہ محسوس کیا جو تا قیامت جاری رہے گا ان شاء اللہ ۔
غالبا ۲۰۰۷ء میں اسلام آباد میں مقیم دو ہم درس ساتھی مولانا نصیر احمد صاحب اور مولانا عمر شوکت صاحب کی رفاقت میں وسرپرستی میں حضرت مولانا امین اورکزئی صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے بطور خاص پہلی بار ھنگو(کوہاٹ) جانے کی ترتیب بنی ، صبح کے وقت ہم اسلام آباد سے نکلے ، عصر کے قریب ھنگو پہنچ گئے ، مولانا امین اورکزئی صاحب ؒ بھی حضرت بنوریؒ کے عاشقین میں سے تھے ، اس مناسبت سے اپنے قائم کردہ ادارے کا نام ’’جامعہ یوسفیہ‘‘ رکھا تھا ، جامعہ یوسفیہ کی مسجد میں ہم نے نماز عصر ادا کی ، نماز کے بعد حضرتؒ سے ملاقات ہوئی ، بہت زیادہ خوشی کا اظہار فرمایا ، ان کی صرف گفتگو ہی نہیں بلکہ ہر ہر ادا عاجزی وتواضع کا حسین مظہر تھی ، مسجد اور مدرسہ کے درمیان برآمدہ نما صحن میں ہم بیٹھ گئے ، گاؤں کی سادہ مگر پر وقار مسجد ، مہمانوں کے لیے ترتیب سے رکھی گئی چارپائیاں ، سردیوں کا موسم شروع ہوچکا تھا ، دن چھوٹے تھے تو ملاقات اور حال احوال کے دوران ہی مغرب کا وقت ہوگیا ، مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر پھر وہیں آگئے ، جامعہ کے متعلق پوچھتے رہے ، والد صاحب اور جامعہ کے اساتذہ کرام کی خیریت دریافت کی ، جامعہ کے جن مشائخ سے خاص تعلق تعلق تھا ، ان کے صاحبزادوں کا فردا فردا نام لے کر ان کی مصروفیات دریافت کیں ، یہ راقم کی ان کے ساتھ اس فرصت کے سے انداز میں شاید پہلی اور آخری ملاقات تھی ، ورنہ اس سے قبل یا اس کے بعد زیارت کا شرف ہمیشہ کراچی میں حاصل ہوا ، مولانا ؒ مہمان ہوا کرتے تھے ، شاگردوں کا ہر وقت ہجوم رہتا تھا ،اور شاگرد بھی کوئی معمولی نہیں ، اللہ نے مولانا امین صاحب ؒ جیسے اساتذہ کرام کی صحبت اور گلشن بنوری کی برکت سے ان شاگردوں سے بھی دین کا بہت کام لیا کہ جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ ایک ادارے کی حیثیت رکھتا ہے ، ایسے میں ملاقات کا شرف توحاصل ہوجاتا ، لیکن ان سے بات چیت اور استفادے کی نوبت بہت کم ملتی ، راقم اسی سعادت کے حصول کے لیے ھنگو حاضر ہوا تھا ، شوق کی کیفیت میں دوران گفتگو بندہ اپنی نادانی ، کم علمی اور ناسمجھی کی بنا پر ایک عام سا سوال کچھ ایسی تعبیر اور انداز سے کر بیٹھا جس پر آج بھی سوچتا ہوں تو کچھ شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے ، لیکن حضرت اورکزئی صاحبؒ کے جواب میں ہمارے لیے سبق کے بہت سارے اہم پہلو بھی تھے ،جسے یہاں تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ، اثنا ء گفتگو راقم نے ان سے پوچھا کہ :’’حضرت ! آپ کی کیا مصروفیات ہوتی ہیں؟‘‘، حضرت مولانا امین اورکزئی صاحبؒ جیسے محقق ، مدرس ، عالم نے نہایت تواضع اور عاجزی کے سے انداز میں فرمایا کہ :’’مصروفیات کیا ہونی ہیں ، بس ! وقت ضائع کرتا رہتا ہوں ‘‘، ان کا یہ جواب کچھ اس انداز سے تھا کہ بندہ کو اپنے اس سوال اور تعبیر کی غلطی کا فورا احساس ہوگیا ، ایک چھوٹے کا کسی بڑے سے یہ سوال کرنا مناسب نہیں تھا ، پھر وہ بڑا بھی کوئی معمولی نہیں ، ایسی شخصیت جن کا ہر لمحہ قال اللہ وقال الرسول سے عبارت ہو، جن کا اوڑھنا بچھونا مطالعہ ہو، جن کی زندگی کا اکثر حصہ دین کی خدمت کے لیے وقت ہو ، اس سب کے باوجود نہایت عاجزی سے یہ جواب دینا ، اپنی خدمات اور مصروفیات کو کچھ بھی نہ سمجھنا اور ساتھ ہی وقت کی قدر وقیمت کی اہمیت کا احساس بھی دلادینا ، ان کے اس جواب سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ، بڑوں کی صحبت کا یہی سب سے بڑ افائدہ ہے ، جس کے آگے دنیا واسباب دنیا سب کچھ ہیچ لگتے ہیں، کتابوں سے معلومات تو مل جاتی ہے ، لیکن عملی اور حقیقی زندگی کے آداب طور طریق کسی بڑے کی صحبت سے ہی سیکھنے کو ملتے ہیں۔
مولانا امین صاحبؒ جب جامعہ میں تھے تو بطور ناظم طلباء کی نگرانی اور سرپرستی کیا کرتے تھے ، ان کی انتظامی گرفت اور بلا رعایت باز پرس اپنے زمانے میں بہت مشہور تھی ،ہم نے اپنے ان اساتذہ کرام سے سنا جومولانا امین صاحبؒ کے شاگرد بھی رہ چکے تھے کہ مولانا مدرسے کے ایک دروازے سے داخل ہوتے تو دوسرے دروازے تک موجود تمام طلبا فورا متنبہ ہوجاتے ،یا اگران کے کمرے کا دروازہ کھلتا تو مسجد کی پہلی صف میں بیٹھے طلبہ بھی یکدم طاری ہوجانے والے سناٹے سے سمجھ جاتے کہ حضرت استاذ صاحب اپنے کمرے سے چل پڑےہیں،لیکن ان کی گرفت یا نگرانی صرف سختی برائے سختی نہیں تھی ،بلکہ وہ طلبہ اور شاگردوں کے لیے ایک شفیق مہربان باپ کی سی حیثیت رکھتے تھے اور والد ہی کی نگاہ سے تمام طلبہ کو دیکھا کرتے ،چنانچہ ان کی تمام تر سختیوں کے باوجود ان کے شاگردوں کے دل ان کی محبت اور شفقت سے معمور تھے ،تمام طلبہ کے سبق تکرار اور مطالعہ کی نگرانی کے ساتھ ساتھ ان کے دیگر احوال سے بھی مطلع رہنا اور اس کے بارے میں قیمتی مشورے ہدایات اور رہنمائی کرنا یہ ان کی زندگی کے فرائض میں شامل تھا،چنانچہ ان کے بہت سے سعادت مند شاگرد ایسے بھی ہیں جو عملی زندگی کا آغاز کرنے کے بعد بھی سال میں دو یا تین بار ان کے پاس ضرور جایا کرتے ، سالانہ چھٹیوں کا ایک معتد بہ حصہ اپنے استاذ کی صحبت میں گزارنا اپنی زندگی کے فرائض میں سمجھا کرتے تھے ، یقینا ایسے ہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے بڑوں کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں۔
ایک بار حضرت ؒ کراچی تشریف لائے ، استاذ محترم حضرت مولانا قاری قاسم صاحب زید مجدہ کے ہاں کبریا مسجد دھوراجی میں ٹھہرے ہوئے تھے ، مولانا امین صاحبؒ کو درود شریف کے وظائف کی معروف کتاب ’’دلائل الخیرات‘‘ کی اجازت حضرت بنوریؒ سے حاصل تھی ، حضرت بنوری ؒ کے علمی فیض کے ساتھ ساتھ یہ روحانی فیض بھی مولانا امین صاحب ؒ آگے پھیلایا کرتے تھے ، چنانچہ بندہ ’’دلائل الخیرات‘‘ کی اجازت کے حصول کے لیے حضرتؒ کی خدمت میں حاضر ہوا ، نہایت شفقت فرمائی ، ایک نسخہ مع اجازت تحریر کرکے عنایت کیا اور فرمایا کہ :’’اسے یومیہ پڑھنے کی پابندی بھی کرو اور اس کی اجازت آگے اوروں کو بھی دے دیا کرو، حضرت بنوریؒ معمولی آدمی نہیں تھے ، ان کی اجازت ان کے نسب کی طرح عالی ہے ‘‘۔
مولانا امین اورکزئی شہید رحمہ اللہ جامعہ میں استاذ اور ناظم ہونے کے ساتھ حضرت بنوری رحمہ اللہ کی صحبت کی بدولت دار التصنیف کے رکن بھی رہے اور حضرت بنوری رحمہ اللہ کی سرپرستی اور توجہات کے زیر سایہ انہوں نےعلمی و تحقیقی کام کا آغاز بھی کردیا اور دار التصنیف کے رفیق بن گئے ، حضرت بنوری رحمہ اللہ تصنیفی و تحقیقی امور کے لیے جامعہ کی وسطی عمارت میں واقع پہلی منزل پر دار التصنیف میں بیٹھا کرتے تھے ، حضرت بنوری رحمہ اللہ کے ایک طرف حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہید رحمہ اللہ کی اور دوسری طرف مولانا محمد امین اورکزئی شہید رحمہ اللہ کی نشست تھی اور حضرت بنوری ؒ کی نشست ان دونوں کے درمیان ، چنانچہ حضرت بنوری رحمہ اللہ غایت شفقت و محبت کی بنا پر فرمایا کرتے تھے کہ:’’ دارالتصنیف میں یہ دونوں میرے لیے پرندے کے دوپروں کی مانند ہیں، جن کے سہارے میں اڑتا ہوں‘‘۔
حضرت بنوری رحمہ اللہ امام طحاوی ؒ اور ان کی شہرہ آفاق کتاب ’’شرح معانی الآثار‘‘ کے بہت مداح اوراس کتاب پر علمی وتحقیقی کام کے خواہش مند تھے ،چنانچہ شرح معانی الآثار کی شرح وتخریج کا کام حضرت مولانا امین اورکزئی صاحبؒ کے سپرد کیا ،اس علمی وتحقیقی کام کی مکمل تفصیل حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کے مضمون ’’حضرت بنوری اور طحاوی شریف‘‘(بینات اشاعت خاص بیاد حضرت بنوریؒ) میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے ، مولانا امین اورکزئی صاحبؒ نے طحاوی شریف پر تحقیقی کام کے لیے ابتداءاکتب رجال وحدیث کی سینکڑوں کتب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا، ان کتابوں میں خطیب بغدادی ؒ کی تاریخ بغداد ، امام بخاریؒ کی تاریخ کبیر، ابو نعیم اصفہانیؒ کی حلیۃ الاولیاءاور ابن سعد ؒ کی طبقات سرفہرست ہیں ، یہ صرف چند کتب کے نام بطور مثال تحریر کیے ہیں، ان میں ہر کتاب کم از کم دس جلدوں پر مشتمل ہے ، کتب حدیث پر تحقیق ، تخریج اور شرح کا کام آج کے زمانے میں تو کافی آسان ہوگیاہے ، لیکن اب سے کوئی چالیس پینتالیس برس قبل جب یہ کام شروع کیا گیا تھا ،اس وقت بہت سی اہم کتب حدیث نایاب تھیں ، وسائل اور سہولیات کی قلت تھی ،قلمی مخطوطات کو علمی دنیا میں تلاش کرنا اور پھر ان کوحاصل کرنا ،اور وہ بھی ھنگو جیسے دور افتادہ مقام میں رہتے ہوئے بہت کٹھن اور مشکل کام تھا، ایسے میں ایک ایک حدیث کی پندرہ،سترہ یا بیس کتب سے تخریج کرنا اتنا آسان نہ تھا، بلکہ ایسے کام کا سوچتے ہوئے بھی دانتوں تلے پسینہ آجاتا تھا،لیکن مولانا امین صاحب ؒ نے اپنے شیخ اور استاذ کے مفوضہ کام کو بخوبی پورا کیا اور ’’نثرالازہار ‘‘ کے نام سے اس کی متعدد جلدیںشائع بھی ہوگئیں،اب اس کا نیا اور مکمل ایڈیشن ان شاء اللہ بہت جلد جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کی طرف سے شائع ہوکر منظر عام پر آئے گا۔
مولانا امین صاحبؒ کی ساری زندگی درس و تدریس اور مطالعہ کتب سے عبارت تھی ،درس وتدریس کے بعد نادر و نایاب کتب کا حصول ان کا خاص شوق تھا ،قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ علم رجال و تاریخ پر بہت گہری نظر رکھتے تھے اور عام رجحانات کے برعکس بہت سے تاریخی معاملات پر ان کی اپنی رائے ہوا کرتی تھی ،جسے وہ تاریخی دلائل سے ثابت بھی کیا کرتے تھے ، گوشہ نشین وخلوت گزین حضرت اورکزئی شہیدؒ کوعالم اسلام میں طبع شدہ نئی کتاب ، یا کسی بھی قدیم کتاب کا پتہ چلتا تو اسے فورا منگوانے کی کوشش کرتے ،کتاب دستیاب ہوجاتی تو اس کا اول تا آخر مکمل مطالعہ کرتے ،مطالعہ کے دوران حاصل ہونے والے نکات یا اپنی تعلیقات بھی اہتمام کے ساتھ تحریر فرماتے، اس طرح ان کا ذاتی کتب خانہ بہت وسیع ہوگیا تھا ،جس میں تقریبا ہر موضوع سے متعلق نایاب اور اہم کتابیں پائی جاتی تھیں،اگر یہ کہا جائے کہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں مولانا کا جمع کردہ ذخیرہ کتب اپنی نوعیت کے اعتبار سے یقینا ایک منفرد کتب خانہ کی حیثیت رکھتا ہےتو مبالغہ نہ ہوگا۔
جو شخص مطالعہ اور تحقیق کے ذوق سے آشنا ہوجائے پھر اس کے لیے کتاب سے بڑھ کر کوئی ہم نشین نہیں ہوتا ، لیکن مولانا اورکزئی صاحبؒ اپنی تمام تر علمی گوشنہ نشینی کے باوصف اپنے علاقہ کے لوگوں کے مسائل حل کرتے ، ان کی خوشی اور غم میں پیش پیش رہتے ، سب سے بڑھ کر ھنگو اور اس کے گردونواح کے انتہائی حساس علاقوں میں فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے باہمی اتحاد واتفاق کی کوشش کرنابھی ان کی زندگی کا ایک اہم فریضہ تھا ، جسے وہ بحسن وخوبی نبھایا کرتے تھے ، اس وجہ سے انہیں نہایت عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اوران کے فیصلے خوش دلی کے ساتھ قبول کیے جاتے تھے ۔
تعلیم وتربیت ، تحقیق وتدریس ، مطالعہ کتب ، گوشہ نشینی وخلوت گزینی ، سماجی ومعاشرتی خدمات اور تبلیغ دعوت ودین جیسی صفات سے آراستہ وپیراستہ یہ عظیم شخصیت اب ہمارے درمیان تو نہیں ، لیکن ان کی مثالی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے ، دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے والا بنائے ، آمین ، مولانا امین اورکزئی شہیدؒ رب کے دربار میں سرخرو ہوکرحاضر ہوگئے ،لیکن بزبان اقبال ؒ یوں کہہ گئے :
مرے خاک وخوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صلہ شہید کیا ہے ؟ تب و تاب جاودانہ
تیری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایت زمانہ
وضاحت : یہ مضمون سہ ماہی ’’المظاہر‘‘ کی اشاعت خاص بیاد مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ کے لیے لکھا گیا اور اسی میں شائع ہوا۔