کیا عشق مجازی کے بغیر عشق حقیقی حاصل نہیں ہوتا؟ اورعشق مجازی کا علاج

تسہیل وتدوین: مفتی عمر انور بدخشانی

’’عشق مجازی سے عشق حقیقی تک ‘‘کا دھوکہ
کیا عشق مجازی کے بغیر عشق حقیقی حاصل نہیں ہوتا؟

مولانا جامیؒ فرماتے ہیں :

متاب از عشق رد گرچہ مجازیست
کہ آں بہر حقیقت کارسازیست

ترجمہ : عشق سے اعراض نہ کرو اگرچہ وہ مجازی ہو ، کیونکہ وہ عشق حقیقی کے لیے سبب ہے ۔

اور مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں:

عاشقی گرزیں سر وگر زاں سر ست
عاقبت مارا بداں سر رہبر ست

ترجمہ : عشق اگر اُس چیز کا ہو یا اِس چیز کا ،آخر کار ہمارے لیے اس شاہ (محبوب حقیقی) کی طرف رہبر ہے ۔

اور مثلا بعض بزرگوں کی طرف ایسے واقعات کو منسوب کرنا ، یہ وہ دلائل ہیں جو عشق مجازی کے جواز میں پیش کیے جاتے ہیں ، اور تصوف (صوفیت) کا دعوی کرنے والوں کی ایک بڑی جماعت اس میں مبتلا ہے ، مگرچونکہ بعض لوگوں کو اس میں اتنا غلو ہوگیا ہے کہ گناہ سمجھنے کے بجائے اسےمشاہدہ حق کا واسطہ اور ذریعہ سمجھ کر طاعت اور نیکی سمجھنے لگے ہیں ، چنانچہ اس اعتبار سے یہ بہت سخت غلطی ہے ،اس میں دو باتیں ہیں: ایک اجمالی ، دوسری تفصیلی ۔

اجمالی بات تو یہ ہے کہ ان ہی صوفیاء حضرات کے دوسرے اقوال اس کےبالکل خلاف بھی پائے جاتے ہیں ، مولانا جامی ؒ ہی کا قول اس کے بعد یہ ہے :

ولے باید کہ در صورت نمانی
وزیں پل زو خود را بگذرانی

ترجمہ :لیکن یہ ضرور ہے کہ تم صورت (عشق مجازی) میں نہ رہ جاؤ(کیونکہ یہ پل کی طرح ہے) اور اس پل سے بہت جلد گزرجانا چاہیے۔

اور مولانا رومیؒ کا قول اسی قول کے قریب یہ بھی ہے :

عشق ہائے کز پئے رنگے بود عشق نبود عاقبت ننگے بود
عشق با مردہ نباشد پائیدار عشق را با حی و باقیوم دار
زانکہ عشق مردگاں پائندہ نیست چونکہ مردہ سوئے ما آئندہ نیست
عشق آں زندہ گزیں کو باقی ست وزشراب جانفزایت ساقی ست

ترجمہ :جو عشق رنگ روپ کی وجہ سے ہوتا ہے وہ حقیقت میں عشق نہیں ، بلکہ اس کا انجام ندامت ہے ، کیونکہ عشق فانی چیز کے ساتھ قائم قائم نہیں رہ سکتا ، عشق حی و قیوم ذات (خداوند تعالی ) کے ساتھ رکھنا چاہیے ، کیونکہ فانی چیزوں کا عشق دائمی نہیں ، کیونکہ فانی چیزیں فنا ہوکر ہمارے پاس واپس نہیں آتیں ، پس عشق اس زندہ کا اختیارکرو جو ہمیشہ باقی ہے (اللہ)اور تمہیں روح تازہ کرنے والی محبت کی شراب پلاتا ہے ۔

چونکہ محققین کے اقوال ان کے دوسرے اقوال واحوال سے متعارض نہیں ہوتے ، اس لیے ان کےوہم میں مبتلا کرنے والے وہ اقوال واحوال جن کی نسبت ان کی طرف ثابت ہیں ان کا محمل (معنی محل)وہ نہیں ہےجو استدلال کرنے والوں نے سمجھا ہے ،یہ تو اجمالی بات ہوئی۔

اگر عشق مجازی میں مبتلا ہوجائے تو؟!

تفصیلی بات یہ ہے کہ ان اقوال کے صحیح محمل (معنی محل)کو بتلادیا جائے ،اور وہ عشق مجازی کے حقیقت تک پہنچانے کے طرق ہیں،اگر ایسا اتفاق ہو کہ عشق مجازی میں بغیرقصد وارادہ کے مبتلا ہوجائے تو:

اول :عفت وپارسائی اختیار کرے ، یعنی اس کے ساتھشریعت کے خلاف کوئی کام نہ کرے ، یہاں تک کہ اسے قصدا نہ دیکھے ، نہ اس سے باتیں کرے ، نہ اس کی باتیں کرے ،اور نہ دل میں قصدا اس کا خیال کرے ، کیونکہ شریعت کی مخالفت عشق حقیقی کے منافی (ضد)ہے ، اور منافی کے ہوتے ہوئے کب امید ہے کہ عشق حقیقی حاصل ہو ۔

دوسرے: اس سے ظاہرا دوری اختیار کرے کہ اتفاقا یا اچانک بھی اس پر نظر نہ پڑے ، نہ اس کی آواز کان میں پہنچے تاکہ اس سے دل میں سوز وگداز پیدا ہو ، اوراگر قصدا یا اتفاقا اس سے لطف اندوز ہوتا رہا تو عمر بھر اسی شغل میں رہے گا ، کبھی مطلوب حقیقی (اللہ تعالی) کی طرف متوجہ ہونے کی نوبت نہ آئے گی ۔

تیسرے :یہ کہ خلوت وجلوت میں یہ سوچا کرے کہ اس شخص کا کمال یا حسن وجمال کہاں سے آیا اورکس نے عطا کیا ؟!جب محبوب مجازی کی یہ دل رُبائی ہے تو محبوب حقیقی کی کیا شان ہوگی ،بقول :

چہ باشد آں نگار خود کہ بندد ایں نگارہا

یعنی اس محبوب کی کیا شان ہوگی جس نے یہ تمام نقش ونگار بنائے ہیں ۔

اس سے اس کا عشق مخلوق سے خالق کی طرف مائل ہوجائے گا ، یہی معنی ہیں اس قول کے کہ شیخ کامل عشق مجازی کا ازالہ نہیں کرتا ، امالہ کردیتا ہے ،یعنی جس طرح انجن گرم ہو ، مگر الٹا چلتا ہو تو مسافت طر کرنے والے کو مناسب نہیں کہ انجن کو بجھائے ،بلکہ آگ تو روشن رکھنی چاہیے اوراس کی کل کو پھیر کر سیدھا چلادیا جائے ۔

بعض صوفیاء اور مشائخ نے عشق مجازی کا مشورہ دیا تو اس کا کیا مطلب؟

بعض مشائخ نے جو بعض طالبین کو قصدا عشق مجازی پیدا کرنے کا مشورہ دیا ہے ، تو اس سے عشق حلال مراد ہے ، نہ کہ حرام ، کیونکہ گناہ اور معصیت تو موصل الی اللہ ( اللہ تعالی تک پہنچانے والی ) ہو ہی نہیں سکتی ،اور جو اس مشورہ سے غرض ہے وہ عشق حلال (اولاد اوربیوی وغیرہ) سے بھی حاصل ہے ، کیونکہ عشق میں (اگرچہ وہ مجازی ہو) یہ خاصیت ضرور ہے کہ اس سے دل میں سوز وگداز پیدا ہوجاتا ہے ، اور بقیہ تمام تعلقات دل سے دور ہوجاتے ہیں اورخیال میں یک سوئی پیدا ہوجاتی ہے ، اب صرف ایک کام باقی رہ جاتا ہے کہ اس تعلق کو حق تعالی کی طرف پھیردیا جائے تو بہت آسانی سے دل خالی ہوجاتا ہے ، جیسے گھر جھاڑو دے کر تمام خس وخاشاک(کچرا) ایک جگہ جمع کرلیتے ہیں ،پھر ٹوکرے میں اٹھاکر باہرایک دم سے پھینک دیتے ہیں ، یہ ظاہر ہے کہ اگر ایک ایک تنکا گھر سے اٹھاکر باہر پھینکا جائے توزیادہ وقت خرچ ہوگا، اور پھر بھی اس قدر صفائی نہ ہوگی ۔

غرض اصلی مقصود تعلقات کو ترک کرنا یا دل میں رقت اور سوز وگداز پیدا کرنا ہے ، اوراگر یہ طریق سے حاصل ہوجائے تو بھی کافی ہے ، بعض مشائخ نےاس طریق مجازی کو اختیار کرایا،مگر چونکہ اس زمانہ میں اس طریق میں شدید خطرہ ہے ، کیونکہ نفوس میں شہوت پرستی اور لذت جوئی زیادہ ہے ، اس لیے قصد وارادہ سے ایسے طریق کا بتانا جائز نہیں ، ہاں ! اگر اتفاق سے مبتلا ہوجائے تو مذکورہ بالا طریق سے اس کا اِمالہ عشق حقیقی کی طرف کردینا چاہیے ، اور زمانہ کے بدل جانے سے طریقوں کا بدل جانا کوئی عجیب بات نہیں ، اور غضب تو یہ ہے کہ بعض لوگ عشق مجازی کوقرب الہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں ، خدا کی پناہ ! اگر گناہ ومعصیت ہی قرب الہی کا ذریعہ ہو تو سارے رنڈی بھڑوے کامل ولی ہو اکریں ۔

عشق مجازی کے علاج کا طریقہ

اول یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہمت کے بغیر آسان سے آسان کام بھی نہیں ہوتا، دیکھیے ظاہری امراض کے علاج کے لیے ناگوار اورکڑوی دوابھی پینی پڑتی ہے ، چونکہ صحت مطلوب ہوتی ہے ، اس لیے ہمت کرکے پی جاتے ہیں ،اور باطنی امراض میں تو اس کی زیادہ ضرورت ہوگی ، جب یہ بات معلوم ہوجائے تو اب اس کا علاج سنیں اور ہمت کرکے بنام خدا اس کا استعمال کیجیے ، ان شاء اللہ تعالی کامل شفا عطا ہوگی ، اس کا علاج چند اجزاء سے مرکب ہے :

۱-اس سے قطعا تعلق ترک کردیجیے ، یعنی اس محبوب مجازی سے بولنا چالنا ، اسے دیکھنا بھالنا ، آنا جانا ، یہاں تک کہ دوسرا شخص بھی اگر اس کا تذکرے تو قطعا روک دیا جائے ، بلکہ قصدا بتکلف کسی بہانہ سے اسے خوب برا بھلا کہہ کر اس سے اختلاف کیا جائے ، اس طور پر کہ اسے محبوب مجازی سے ایسی نفرت ہو جائے کہ اصلا اسے ادھر میلان اور رام ہونے کی توقع باقی نہ رہے ، اور اس سے ظاہرا اس قدر دوری اختیار کی جائے کہ کبھی غلطی سے بھی اس پر نظر نہ پڑے ،غرض اس سے کلی انقطاع ہوجائے ۔

۲-ایک وقت خلوت وتنہائی کا مقرر کرکے غسل تازہ کرکے صاف کپڑے پہن کر خوشبو لگا کر تنہائی میں قبلہ رخ ہوکر پہلے دو رکعت نماز توبہ کی نیت سے پڑھ کر اللہ تعالی کے روبرو خوب استغفار اور توبہ کی جائے ، اوراس بلا سے نجات لینے کی دعا والتجا کی جائے ، اور پانچ سو سے لے کر ہزار مرتبہ تک لا الہ الا اللہ کا ذکر اس طرح کیا جائے کہ لا الہ کے ساتھ تصور کیا جائے کہ میں نے سب غیر اللہ کو دل سے نکال دیا ،اور الا اللہ کے ساتھ خیال کیا جائے کہ میں نے محبت الہی کو دل میں جمالیا ، یہ ذکر ضرب کے ساتھ ہو ۔

۳-جس بزرگ سے عقیدت ہو اسے اپنے دل میں تصور کیا جائے کہ بیٹھے ہیں ،اورسب خرافات کو دل سے نکال نکال کر پھینک رہے ہیں ۔

۴-کوئی حدیث کی کتاب یا ویسے ہی کوئی کتاب جس میں دوزخ اور نافرمانوں پر جوغضب الہی ہوگا اس کا ذکر ہو ،اس کا مطالعہ کثرت سے کیا جائے ۔

۵-ایک وقت معین کرکے خلوت وتنہائی میں یہ تصور باندھا جائے کہ میں حق تعالی کے روبرو میدان قیامت میں حساب کے لیے کھڑا ہوں ،اور حق تعالی فرمارہے ہیں کہ اے بے حیا ! تجھے شرم نہیں آتی کہ ہمیں چھوڑ کر ایک مردار کی طرف مائل ہو ا، کیا تجھ پر ہمارا یہی حق تھا ، کیا ہم نے تجھے اسی لیے پیدا کیا تھا ، اے بے حیا ! ہماری ہی دی ہوئی چیزوں کو آنکھ کو ، دل کو ، ہماری نافرمانی میں تو نے استعمال کیا ، کچھ شرم بھی آئی ، دیرتک اسی مراقبہ میں غرق اورمشغول رہنا چاہیے ۔

اگر ان تدبیروں کا اثر ظاہر ہونے میں کسی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو پریشان نہ ہوں ، اس کو کوشش میں بھی اجر وثواب ملتا ہے جو کہ اصل مقصود ہے ،یہاں تک کہ اگر اسی میں جان بھی جاتی رہے تو شہادت کا ثواب ملتا ہے :

من عشق فعف فکتم فصبر فمات فھو شہید

یعنی جو شخص عاشق ہوا ، پس پاک دامن رہا اورچھپایا اور صبر کیا ،پھر مرگیا تو وہ شخص شہید ہے ۔

اور یہ جو مشہور ہے کہ عشق مجازی کے بغیر عشق حقیقی حاصل نہیں ہوتا ،یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے ، نفسانی فوائد اور شہوانی لذت حاصل کرنے کے لیے بزرگوں کے اقوال کو آڑ بنارکھا ہے ، اور دل کا حال اللہ تعالی کو خوب معلوم ہے ، اورخود ان سے بھی پوشیدہ نہیں ، انصاف اور حق پرستی ہو تو سب کچھ امید ہے ۔

ماخوذ از: شریعت وطریقت ، مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ، صفحہ ۲۸۶ تا ۲۹۰۔

2,886 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!