خلافت معاویہ ویزید: محمود احمد عباسی
تحریر:حکیم محمود احمد برکاتی
متنازع کتاب خلافت معاویہ ویزید کے مصنف محمود احمد عباسی ناصبی پر
حکیم محمود احمد برکاتی کا دل چسپ خاکہ
محمود احمد عباسی صاحب مرحوم سے میرا تعارف پاکستان آکر غالباً ۵۴-۱۹۵۳ء میں ہوا تھا۔ انہیں کسی کتاب کی ضرورت تھی، اس لیے کسی کی نشان دہی پر میرے یہاں آئے تھے۔ جب یہ معلوم ہوا کہ وہ ہمارے استاد امام طب حکیم فرید احمد صاحب عباسی مرحوم و مغفور کے چھوٹے بھائی ہیں تو ایک قرب کا پہلو نکل آیااور طرفین کی آمدورفت شروع ہوگئی ۔ ان کے اور ان کے اہل و عیال کی خدمت علاج کے بھی مواقع بارہا ملے۔
کچھ ہی دن کے بعد ان کی کتاب کے چرچے علمی حلقوں میں شروع ہوئے، مگر مطالعے کی لت کے باوجود مجھے اس کتاب کے مطالعے کی اکساہٹ نہیں ہوئی، کیوں کہ اہل تسنن اور اہل تشیع کے اختلافات میرا موضوع فکر و مطالعہ ہیں، نہ میری افتاد مزاج کو خلافیات سے کوئی مناسبت ہے، نہ میں ان مناقشات کو امت محمدیہ (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کے حق میں مناسب اور مفید سمجھتا ہوں اور تاریخی، کلامی یا فقہی مسالک کے اختلاف کے بجائے عقائد کے اشتراک اور متفق علیہ امور پر نگاہ رکھتا ہوں۔ بہرحال میں یہ کتاب نہ پڑھ سکا، مگر ایک بار خود عباسی صاحب مرحوم ہی نے مجھے ’’خلافت معاویہ و یزید‘‘ عنایت فرمائی تو اسی مطالعے کی لت کے ہاتھوںاس کا مطالعہ کرگزرا اور خلاف مزاج پاکر الماری میں سجا دی اور یوں عباسی صاحب کے افکار و آراء کا تعارف حاصل ہوگیا۔ لیکن اس موجوع پر ان سے گفتگو کی کبھی نوبت نہیں آئی، حالاں کہ انہوں نے بارہا سلسلہ چھیڑا، مثلاً ایک بار انہوں نے فرمایا ’’تم حسنی سید ہو یا حسینی؟‘‘ میں اس سے پہلے کئی حضرات سے سن چکا تھا کہ وہ شجروں اور انساب پر گفتگو کرتے ہیں ، اس لیے تڑاخ سے جواب دیا کہ ’’میں نے آپ سے کب کہا کہ میں سید ہوں؟‘‘ اس پر وہ خاموش ہوگئے۔ اسی طرح جب میں نے ’’سرسید ‘‘کے سیاسی کردار پر تنقید کی تو عباسی صاحب ایک روز فرمانے لگے: ’’کل ہمارے ایک دوست کہہ رہے تھے کہ تمہارے عزیز (میری طرف اشارہ تھا) تمہارے مقتدا (سرسید) پر بڑی سخت تنقید کی ہے‘‘ تو میں نے برجستہ جواب دیا کہ ’’جی ہاں وہ صاحب مجھ سے بھی کہہ رہے تھے مگر میں نے ان سے کہہ دیا کہ عباسی صاحب نے ہمارے نانا (سید حسینؓ) کو نہیں بخشا تو ہم ان کے مقتدا کو کیوں بخشتے‘‘، اس پر وہ بڑی دیر تک ہنسے اور بات آئی گئی ہوئی۔
عباسی صاحب سے ان ملاقاتوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ وہ معمولی صلاحیتوں کے آدمی تھے۔ عربی غالباً بالکل نہیں جانتے تھے، فارسی پر بھی عبور نہیں تھی۔ میں نے ان کو فارسی کی غلط عبارتین پڑھتے کئی بار سنا ہے۔ تحریر کا کام بھی وہ مسلسل نہیں کرتے رہے، آغاز عمر میں تاریخ امروہہ، تحقیق الانساب اور تذکرۃ الکرام لکھی تھیں۔ اس کے بہت عرصے بعد ۷۰ سال سے زیادہ کی عمر میں ’’خلافت معایہ و یزید‘‘ لکھی۔ اس کتاب کے سلسلے میں ان کو متعدد اہل علم و قلم کا تعاون حاصل تھا، جن میں سے ایک نام کے متعلق مجھے تحقیق ہے اور وہ ہے مولانا تمنا عمادی کا نام، جو ان کے لیے کتب تاریخ سے اقتباسات اور ان کے ترجمے لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔ ایک بار وہ عباسی صاحب کے یہاں چند روز مقیم بھی رہے اور وہاں بھی میں نے انہیں یہی کام کرتے دیکھا ہے۔
دوسرا تاثر میرا یہ ہے کہ وہ اپنی تحریک کے سلسلے میں مخلص نہیں تھے۔ زبان و قلم سے ردشیعیت کے باوجود اہل تشیع سے ان کے گوناگوں مراسم تھے۔ ایک بار میں پہنچا تو چند نام ور شیعہ اہل قلم ان کے یہاں بیٹھے تھے اور بڑا پُرتکلف ناشتہ کررہے تھے اور بہت اپنائیت کی باتیں ہورہی تھیں۔ ان کے جانے کے بعد از خود صفائی پیش کرنے لگے کہ ان بچوں سے وطن ہی سے مراسم ہیں، بڑی محبت کرتے ہیں، میرا بڑا لحاظ کرتے ہیں۔ میں نے ’’جی‘‘ کہہ کر بات ٹال دی کہ مجھے اس سے کیا دلچسپی؟ اسی طرح ایک بار انتخابات میں انہوں نے ایک شیعہ امیدوار کو ووٹ دیا اور میرے سامنے ایک صاحب کے سوال کے جواب میں اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس کے خاندان سے قدیم مراسم ہیں اور میں اسے اہل سمجھتا ہوں۔ ایک بار ان کی اہلیہ محترمہ، جو مجھ پر بڑی شفقت فرماتی تھیں، اپنے ایک ہمسائے کی شکایت کرنے لگیں کہ وہ آج صبح انہیں (عباسی صاحب کو) گالیاں دے رہا تھا اور یزید اور یزید کی اولاد تک کہہ گیا۔ اس پر میں نے ازراہِ تفنن کہہ مارا کہ ’’یہ تو آپ کے نقطہ نظر کے پیش نظر مدح ہوئی، قدح نہیں ہوئی۔‘‘ اس پر وہ بہت برہم ہوگئے اور اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ اور ان کی اہلیہ محترمہ کہنے لگیں ’’کیوں چھیڑتے ہو۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ میرے خیال میں وہ دل سے یزید دوست اور شیعہ دشمن نہیں تھے ،بلکہ دانستہ یا نادانستہ کسی اسلام دشمن تحریک یا طاقت کا آلہ کار تھے اور افتراق بین المسلمین کی مہم میں سرگرم تھے، میں نے ان میں شیعیت کے مظاہر تو کئی بار دیکھے (مثلاً مجالس تک ان کے یہاں برپا ہوتی تھیں اور وہ ذکر کرکے روتے اور رلاتے تھے) مگر ان کی پابندی احکام شریعت کا کوئی منظر اور واقعہ میرے علم و ذہن میں نہیں ہے۔ کم سے کم میں نے ان کو کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا ،نہ کسی سے سنا۔ تجارت اور معاشی منفعت بھی اس مہم میں یقینا ان کے پیش نظر تھی۔ ایک بار نیاز فتح پوری کا ایک خط انہوں نے ایک دوسرے خط کے دھوکے میں مجھے پڑھنے کے لیے دیا۔ میں بھی جب خط پڑھ چکا تو پتہ چلا کہ یہ وہ مطلوبہ خط نہیں ہے۔ خط واپس کیا تو وہ بھی چکرا سے گئے۔ بہرحال اس خط کا جو مفہوم ذہن میں مستحضر ہے، کچھ اس قسم کا تھا کہ خوب کتاب لکھی ہے، کچھ ہنگامہ گرم رہے گا،لطف رہے گا، خوب نکل رہی ہوگی۔ میں نے بھی اس پر تبصرہ لکھا ہے، کتابی شکل میں بھی آئے گا، اسے وہاں نکلوائیں اور اپنی کتاب کے اتنے نسخے تاجرانہ نرخ پر مجھے بھجوائیں، کہ تبصرہ پڑھ کر کتاب کی مانگ بھی آئے گی۔
اسی طرح ایک صاحب سے جو نہ خدا کے قائل تھے نہ مذہب کے ان سے اپنی تحقیق کا ذکر کرکے چاہتے تھے کہ وہ رائے دیں۔ انہوں نے کہا ’’میری رائے کا کیا کریں گے، میری نظر میں آپ کے حسین اور آپ کے یزید دونوں گھٹیا تھے، عالمی سطح پر ان کی حیثیت نہیں ہے، تاریخ عالم کے اکابر میں ان کو محسوب نہیں کیا جاسکتا۔ تخت کے دو معمولی امیدوار لڑ پڑے تھے اور ایک مارا گیا۔‘‘ اس پر عباسی صاحب نے تائید اور مسرت کا اظہار ایک قہقہے سے کیا اور انگریزی میں چند جملے کہے، جن کا مفہوم یہ تھا کہ بالکل یہی رائے میری اور ہر پڑھے لکھے آدمی (ایجوکیٹڈ) کی ہے، مگر ان صاحب (جنٹلمین) کے سامنے بات نہ کیجیے۔ یہ لوگ قدامت گزیدہ (آرتھوڈکس) ہوتے ہیں، عباسی صاحب نے مجھے انگریزی سے نابلد سمجھا تھا، میں نابلد ہی بنا رہا اور اجازت چاہی جو بڑی خوش دلی سے دے دی گئی۔ میرے بعد باہم گفتگو ہوئی ہوگی کہ آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں۔ میں تو خود روشن خیال اور آزاد فکر ہوں، مگر ایک فرقے کو بہکانا اور معاشی منفعت حاصل کرنا ہے۔ اس قسم کے حضرت کو صرف معاشی منفعت ہی حاصل ہوکر رہ جاتی ہے ،یا پھر اس کے ساتھ کوئی عالی منصب اور شہرت بھی، مگر اصل منفعت تو کفار کو حاصل ہوتی ہے، یہود کو حاصل ہوتی ہے، اسلام دشمنوں کو حاصل ہوتی ہے جنہیں اگر کوئی خطرہ ہے تو اس امت کی بیداری سے ہے۔ اس لیے وہ مسلمانوں کی صفوں میں انتشار اور ان میں تاریخی، کلامی اور فقہی مسائل پر اختلافات کی آگ کو اپنے دامن دولت سے ہوادے کر فروزاں کرتے ہیں۔
ا ن کے مسلک کے بودے پن کے سلسلے میں یہ دلچسپ واقعہ بھی سننے کا ہے۔ ایک بار معلوم ہوا کہ لاہور سے حکیم حسین احمد صاحب عباسی مرحوم آئے ہوئے ہیں اور محمود احمد عباسی صاحب کے یہاں مقیم ہیں۔ چنانچہ میں اور میرے رفیق درس اور عزیز دوست حکیم جامی صاحب (جو کوٹری سے حسین میاں سے ملنے کے لیے تشریف لائے تھے) عباسی صاحب کے یہاں پہنچے۔ حسین میاں تو نہیں ملے ،البتہ عباسی صاحب ضرور مل گئے اور حسب عادت وہی موضوع چھیڑ دیا۔ میں حسب دستور تحمل سے کام لیتا رہا، مگر جامی صاحب تحمل کے قائل نہیں اور رد باطل کے لیے ہمہ وقت آمدہ و مستعد رہتے ہیں ور زبان و بیان تک کی اغلاط کی تصحیح کو جہاد سمجھتے ہیں۔ چنانچہ عباسی صاحب اسلامی تاریخ کے مآخذ پر گفتگو کررہے تھے اور طبری وغیرہ کو نامعتبر بتا رہے تھے۔ اچانک سیدنا حسین کے لیے فرمانے لگے ’’انہیں خناق کا مرض تھا اور اطباء نے لکھا ہے کہ اس مرض میں مبتلا انسان کی قوت فیصلہ بہت متاثر ہوجاتی ہے۔‘‘ اب جامی صاحب کے جہاد کی گھڑی آگئی تھی، عباسی صاحب سے پوچھا کہ یہ بات کس نے لکھی ہے؟ عباسی صاحب روانی میں کہہ گئے کہ طبری نے لکھا ہے، اس پر جامی صاحب نے ایک بڑے زہریلے قسم کا طنزیہ قہقہہ لگایا اور بولے جی ہاں وہی طبری جو نامعتبر ہے، اس پر عباسی صاحب نے اپنے مؤقف کے ضعف کو اپنی برہمی سے قوت میں بدلنا چاہا اور آپے سے باہر ہوگئے۔ کھڑے ہوکر کہنے لگے ’’میرے بھائی (بابائے طب مرحوم و مغفور) کا شاگر ہوکر مجھ پر تنقید کرتا ہے‘‘ اور ایسی ہی حواس باختگی کی بہت سے باتیں بڑے جوش غضب کے عالم میں کہہ گزرے، جامی صاحب نے، جو ایسے معرکوں کے عادی و ماہر اور جسمانی صحت سے بھی مایہ دار ہیں، بڑے اطمینان اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا ’’بڑئے میاں! پہلے تو بیٹھ جائو، ہانپ رہے ہو،پھر تم اس یگانہ وقت اور باخدا بزرگ (بابائے طب) سے کیا نسبت رکھتے ہو اور ان سے نسبت جتاتے ہو جس کی تصدیق کا ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ اگر ہے تو اسے ثابت کرو اور اچھے آدمیوں کی طرح معقولیت سے بات کرو۔ اپنی باتوں کے تضاد کو رفع کرو اور اگر کشتی ہی لڑنا ہے تو لو میں بھی کھڑا ہوجاتا ہوں‘‘، (اسی دوران دونوں کی بلند آوازیں سن کر زنانے میں سے ایک نوجوان غالباً نواسہ نکل آیا، اسے مخاطب کرکے جامی صاحب نے پچکارتے ہوئے کہا) ’’میاں! ابا کی مدد کے لیے صرف تم سے کام نہیں چلے گا۔ اللہ کے فضل سے۲۵ آدمیوں سے بیک وقت لڑوں گا۔‘‘ وہ نوجوان تو مرعوب ہوکر پیچھے ہٹ گیا اور میں نے جامی صاحب کی آتش جلال کو سرد کرنے کے لیے کچھ کہنا چاہا تھا کہ جامی صاحب کڑکے ’’معاف فرمائیے محمود میاں! میں باطل اور گمراہ کن اور بے سروپا باتیں سن کر آپ کی طرح خاموش ہوجانا اور تردید کے لیے مناسب موقع کا انتظار کرنا گناہ سمجھتا ہوں، اب میں اس شخص کو بھگتنے کے لیے کیا کوٹری سے پھر کبھی آئوں گا؟ یا یہ مجھے معقول جواب دے ورنہ میں (اپنے بھرے بازو دکھاتے ہوئے) ان کو حرکت میں لائوں گا۔‘’‘ عباسی صاحب یہ عالم، یہ دنگ دیکھ کر بڑے خوفزدہ اور بدحواس سے ہوگئے تھے۔ میں نے اپنے مراسم کے زور پر جامی صاحب کو بہ جبر التواء جہاد پر آمادہ کیا اور ان کو گھسیٹتا ہوا وہاں سے لے آیا۔
عباسی صاحب سے آخری ملاقات یوں ہوئی کہ میرے فاضل دوست جناب اقتدا ہاشمی صاحب اور میں عباسی صاحب کے یہاں گئے، ہاشمی صاحب تاریخ اسلام پر بڑا عبوررکھتے ہیں اور ان کے اور عباسی صاحب کے درمیان کتب مطالعہ کا تبادلہ میں ہوتا رہتا تھا، تو ایک دن ہاشمی صاحب اور میں عباسی صاحب کے یہاں گئے، عباسی صاحب اور ہاشمی صاحب اسی موضوع (حسین و یزید) پر گفتگو کرنے لگے، میں ایک کتاب ہاتھ میں لے کر وقت گزارنے لگا۔ مطالعہ سے میری توجہ بلند ہوتی ہوئی آواز نے ہٹائی:
ایڈیٹ؟ (بے وقوف)
ہاں، ایڈیٹ تھا۔
علی ایڈیٹ، علی ایڈیٹ۔
یس علی ایڈیٹ، علی واز ایڈیٹ۔
اور ہاشمی صاحب جو پائوں اٹھائے تخت پر بیٹھے تھے، پائوں لٹکا کر جوتا پہنتے ہوئے مجھ سے کہنے لگے ’’حکیم صاحب! آپ ٹھہریں گے؟ میں تو چلا، اب برداشت کی بات نہیں رہی‘‘۔
میں نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ’’فوراً چلیے، اب یہاں کبھی نہیں آنا، توبہ توبہ!‘‘ اور عباسی صاحب ’’حکیم صاحب!، ہاشمی صاحب!‘‘ چیختے رہے، مگر ہم وہاں سے نکل آئے اور پھر کبھی وہاں نہیں گئے ، یہاں تک کہ ۱۹۸۰ء میں عباسی صاحب اس کے دربار میں پہنچ گئے جس کے سامنے ان کا باطن ظاہر ہوگا۔