اسفار اربعہ
سالکان راہ طریقت ، عارفین اہل اللہ کو حسب ذیل چار سفر پیش آتے ہیں: پہلا سفر خلق سے حق کی طرف۔ دوسرا سفر حق سے حق کی طرف۔ تیسرا سفرحق سے خلق کی طرف۔ چوتھا سفر حق کے ساتھ خلق کی طرف۔
پہلے سفر میں جو خلق سے حق کی طرف ہوتا ہے۔ سالک کو موجودات سے روگردانی کر کے حقیقت اور عالم وحدت کی جانب ہمہ تن متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ اس سفر میں بڑے سخت مراحل اور ہمت شکن منزلیں آتی ہیں، آٹھ مرحلے بڑے اہم کٹھن اورجان لیوا ہوتے ہیں۔ مثلاً (۱)طلب (۲)تہذیب اخلاق(۳)عجیب وغریب احوال کا طاری ہونا(۴)شوق و اضطراب (۵) عشق ومحبت (۶)گم شدگی وحیرت(۷)فنا وبقا(۸)پھر توحید ہی توحید۔
دوسرا سفر جو حق سے حق کی جانب ہوتا ہے۔ اس میں سالک ا سماء الٰہی اور ا س کی صفات کی سیر میں مشغول رہتا ہے اور جس طرح کہ پانی کا قطرہ دریا میں بتدریج غرق وجذب ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح سالک اپنے کو عظمت وجلال احدیت کے بحر مواج ناپیدا کنار میں غرق وجذب ہوتا محسوس کرتا ہے اور دوئی کا پردہ چاک ہوجاتا ہے۔
اور تیسرا سفر حق سے خلق کی طرف ہوتا ہے۔ اس کا انجام حق میں فنائیت ہے۔
چوتھے سفر میں سالک مظہر حق بن کر خلق کی ہدایت اور راہ نمائی کے لیے مخلوق میں آملتا ہے اور اس کا وظیفہ صبح وشام اور مشغلہ لیل ونہار دست بکارودش بیار ہورہتا ہے:
ادھر اللہ سے واصل ادھر مخلوق میں شامل
