الاول – اول

شریعت اسلام کی رو سے ’’اول‘‘ خدا کا نام ہے ’’ھو الاول‘‘ یہ ایک صاف اور سیدھی بات تھی۔ جس کو اسلامی شریعت اور ارباب طریقت ومعرفت نے ظاہر کر دیا۔ اور لفظ’’ اول‘‘ کے معنی ومصداق بھی بتلادیا۔ یعنی ’’اللہ‘‘، اسی دور میں ’’ الواحد لا یصدرعنہ الا الواحد‘‘ کا مقولہ اپنا لیا گیا۔ یا اختراع کر لیا گیا۔ اسی زبان زد مقولے کی بنیاد پرحق جل مجدہ‘ کو واحد اور جہات سے بری ہونے کے باعث صرف ’’عقل اول‘‘ کا خالق مانا گیا۔اس کے بعد عقل اول سے عقل عاشر تک سلسلہ تخلیق عقول وافلاک جاری رہا۔ تاآنکہ عقل عاشر نے،بالفاظ دیگر عقل فعال نے سارے عالم کوجنم دیا۔ یہ مقولہ نہ تو عقائد حکمیہ میں کا کوئی عقیدہ ہے نہ مسلمات فلاسفہ میں کاتسلیم شدہ اصول ہے۔ یوں بھی یہ مقولہ بنیادی طور پر درست نہیں۔‘‘

علت اور علت العلل اگرچہ موجود خارجی ہے مگر وصف علیت تو قبیل معقولات سے ہے اور معلول موجود خارجی ہو تو ہوا کرے معلولیت تو بہر حال اعتباری ہے۔ لہذا علت واحدہ سے اگر دو یا متعدد اثرات ومعلولات ظاہر وصادر ہوجائیں۔ توذات علت میں کہاں سے اختلاف اور طوفان برپا ہوجائے گا ،زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ اس کے اعتبارات عقلی دو ہوجائیںگے۔ جو اعتبار معتبر اور انتزاع منتزع پر موقوف ہوں گے۔ اور ظاہر ہے کہ منشاء انتزاع ذات علت ہی ہوگی۔ اور معتبر جب بھی علت کی کثرت جہات کا اعتبار کرے گا۔ تو خارج میں تکثر ضرور ہوجائے گا۔ اور ایک علت سے متعدد معلول صادر ہوسکیں گے۔

اب اسی لفظ ’’اول ‘‘کے متعلق حکما وفلاسفہ متقدمین ومتاخرین کی خیال آرائیاں ملاحظہ فرمائیں۔

افلاطون وارسطو اور ان سے پہلے مصرو یونان میں جومفکرین گزرے ہیں وہ حکماء وفلاسفہ کہلاتے ہیں، یہ سب بالعموم کسی مبدع وخلاق عالم کے قائل نہیں تھے، تخلیق عالم کے باب میں وہ انبشاق کے قائل تھے۔ یعنی جس طرح کسی جگہ آپ سے آپ چشمہ پھوٹ پڑتا ہے اور اس سے پانی جاری ہوجاتا ہے ،اسی طرح عالم خود بخود بلا کسی مبدع وخالق کی دخل کاری کے ظہور میں آگیا۔ اور اس سے جو مواد یعنی ہیولیٰ خارج ہوا۔ اس نے مختلف شکلیں اور جسمی اور نوعی صورتیں اختیار کرلیں۔ گویا ان حکماء وفلاسفہ میں سے اکثر کے خیال کے مطابق عالم زمانہ قدیم سے خود بخود وجود میں آیا ہوا ہے۔ وہ کسی مبدع وخالق، موجد وصناع اور جاعل یا کسی اول وآخر کارہین منت وتخلیق نہیں ہے، البتہ فارابی نے بعض فلاسفہ قدیم کو جن میں افلاطون بھی شامل ہے حدوث عالم کا قائل بتلادیا ہے۔ یہ قائلین حدوث عالم ایک نامعلوم شے کو اول تسلیم کرتے تھے اور نام بتلائے بغیر اس کو چند صفات سے متصف اور تعبیر کیا کرتے تھے،مثلاً۔ علت اولیٰ۔علت العلل۔ واجب الوجود وغیرہ۔ وہ ان صفات سے متصف نامعلوم الا سم شخصیت کو مرتبہ ذات میں یعنی اس کی ذات بحت وخالص کے اعتبار سے ہر چیز سے حتیٰ کہ وجود سے بھی مقدم مانتے تھے۔

حکمت وفلسفہ کے اسلام میں داخل ہوجانے کے بعد حکماء و فلاسفہ کا ایک اور گروہ پیدا ہوا۔ جو’’ حکماء اسلام‘‘ اور ’’فلاسفہ اسلام ‘‘کہلایا۔ ان حکماء پر یونانی فلاسفہ قدیم اور افلاطون ثانی کے فلسفہ اشراق کا بھی اثر تھا۔ جس کے نمائندے فارابی، ابن سینا۔ ابن باجہ۔ ابن رشد۔ ابن طفیل۔ یعقوب کندی۔ نصیر الدین طوسی۔ بہمن یار۔ نظام معتزلی۔ جاحظ۔ ابو علی الجبّائی۔ واصل ابن عطا۔ جہم بن صفوان۔ اسحاق ابن حسینی۔ حسینی بن اسحاق۔ شیخ ابو الحسن اشعری، شیخ ابو منصور ماتریدی۔ عبدالکریم شہرستانی۔ ابن مسکویہ وغیرہ وغیرہ ہیں، ان حکماء وفلاسفہ اسلام نے فلسفہ اور اسلام کے اصولوں میں اور بنیادوں میں جو تضاد و تصادم تھا۔ اس کو دفع کرنے کی اور ان میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اور دونوں مکاتیب فکر کو ایک دوسرے کے ہم آہنگ بنانے میں مصروف ہوگئے۔ کچھ اس میں لچک پیدا کی۔ کچھ اس کو کھینچ تان کر دوسرے کے قریب لائے۔ ان میں سے جس کا رجحان جس طرف زیادہ تھا۔ اس نے پلڑے کو اپنے رجحان کے مطابق جھکالیا۔ کسی نے فلسفے کو غالب کر دیا۔ کسی نے اسلام کوغلبہ دے دیا۔ جس کی تفصیلات ان فلاسفہ اسلام کی تصنیفات میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

انہیں حکماء وفلاسفہ اسلام میں سے ایک تیسرا طبقہ ’’متکلمین‘‘ کے نام سے ابھرا جس کی نمائندگی مختلف ادوار میں حسب ذیل مشاہیر وفضلاء دہرنے کی:
ا مام غزالی۔ امام رازی۔ شہاب الدین سہر وردی۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی۔ علامہ سعد الدین تفتازانی۔ قطب الدین شیرازی۔قطب الدین رازی۔ علامہ سید شریف جر جانی۔ محقق دوانی۔ میر باقر داماد۔ میر زاہد۔ عبدالحکیم سیالکوٹی، ملا محمود جونپوری۔حسن ابن معین مہبندی۔ صدرائے شیرازی۔ ملانظام الدین استاد الکل (فرنگی محل) ،ملا کمال الدین فرنگی محلی۔ قاضی محب اللہ بہاری۔ ملا حسن۔ حمد اللہ سندیلوی بحر العلوم فرنگی محلی۔ مولانا عبدالواحد خیر آبادی، علامہ فضل حق خیر آبادی۔ مولانا عبدالحئی (فرنگی محل)۔

ان متکلمین اسلام نے اور اس آخری دور میں علماء برصغیر پاک وہند نے جس شدو مد اور جوش وخروش کے ساتھ اسلام کی وکالت کی۔ اور معقولات ومنقولات کی مہارت وجامعیت کو اسلامی اصولوں کی بالا دستی کے لیے استعمال کیا وہ انہیں کا حصہ اور طرۂ امتیاز تھا۔ ہر شخص جانتا ہے۔ کہ فلسفۂ قدیم اور فلاسفہ کے اساسات ونظریات اور دلائل وبراہن کسی درجہ مستحکم اور جاذب قلب و نظر ہوا کرتے ہیں۔ بیشتر حالات میں انسانی دماغ اور اس کے ذہن وفکر کی ساری قوتیں اس کی گرفت میں آجاتی ہیں جس سے انسان نکل نہیں سکتا۔ فلسفے کے بہت سے مسلمات ونظریات عام ادیان وشرائع خاص کر دین اسلام اور شریعت مصطفویہ (علیہ التحیات) سے جہاں جہاں متصادم ہوگئے تھے اس کا اثر یہ ہوا تھا کہ اسلام اور اس کے بنیادی نظریات میں شکوک و شبہات نے راہیں پالی تھیں۔ اور بیشتر حالات میں خواص مسلمین تک صراط مستقیم سے بھٹک کر گمراہیوں کی ٹیڑھی ترچھی راہوں پر پڑ گئے تھے۔ ایسے نظریات ودلائل کا مقابلہ اور سامنا صرف فلسفہ ہی میں مہارت سے اور فلسفہ ہی کے اسلحہ سے مسلح ہو کر کیا جاسکتا تھا اس باب میں قدیم متکلمین کی کاوشیں مستحق تحسین بھی ہیں اور متکلمین مابعد کے لیے شمع راہ بھی۔ چنانچہ ماضی قریب میں فلاسفہ کے خلاف علماءپاک وہند کا تحریری اور تقریری جہاد عالم اسلام کے علمی حلقوں سے بلکہ عوام الناس تک سے خراج تحسین وتبریک حاصل کر چکا ہے۔ ان حضرات نے فلسفہ قدیم کی متصادم اساسات کو اسلامی نظریات سے ٹکرا جانے والی ہر بنیاد کو انہیں کے اصولوں سے اور قواعد سے ٹکرا کر پاش پاش کر دیا۔یہ علماء برصغیر کا ایسا زرین کارنامہ ہے جوعلم الکلام کی تاریخ میں اپنی نظیر آپ ہے، انہوں نے فلاسفہ کے ہفوات کا رد فلاسفہ ہی کی زبان میں ،انہیں کی اصطلاحات میں ،انہیں کے اصولوں سے کیا ہے۔ پھر طرز تحریر نہ تو تخریبی ہے نہ جذباتی ومنفی بلکہ حد درجہ متین اور تعمیری و مثبت ہے۔ جواینٹ جہاں سے ہٹائی گئی ہے اس کی جگہ دوسری اینٹ رکھ دی ہے۔ پھر حکمائے مشائیہ ہی کے رد پر بس نہیں کیا ہے ،بلکہ ان کے ہمنوا اشراقیہ پر بھی ضر بات کاری لگا دی ہیں۔ اور ان متکلمین کو بھی معاف نہیں کیا۔ جو فلاسفہ سے مرعوب ہونے کی وجہ سے نادانستہ ان کی ہمنوائی کرنے لگ گئے تھے۔ البتہ متکلمین کے ساتھ اتنی رعایت ضرور ملحوظ رکھی ہے کہ حتی الا مکان ان کے مسلک کی تشریح وتاویل کر دیتے ہیں۔ یہ تاویل ان کے مسلک کے مطابق ہو یا نہ ہو، لیکن دین حق کے اصول واحکام سے ضرور اقرب ومسلک صوفیہ کے عین مطابق ہوتی ہے۔

اب اصل مقصد کی طرف آیئے۔ فلاسفہ اسلام ہوں۔ یا فلاسفہ قدیم ان دونوں کے نزدیک ’’اول‘‘ سے مراد۔ علت العلل۔ عقل اول۔ قلم اول وغیرہ ہیں۔ جن کا خارجی مصداق گم ہے۔ یہ دونوں گروہ اس کو متعین ومتشخص کر کے بتلانے سے قاصر و ناکام ہوچکے ہیں ان فلاسفہ کی تصریحات کی روشنی میں تخلیق کائنات وموجودات کی ساری صورت حال اور اس کے مدوجزر کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو علت العلل۔ عقل اول قلم اعلیٰ۔ اور ان سے ملتے جلتے تمام الفاظ حسن اتفاق سے جس معنی ومصداق ومسمیٰ پر ٹھیک ٹھیک بیٹھتے اور پورے اترتے ہیں۔ وہ سرور کائنات وسردار موجودات کی ذات گرامی ہے ﷺ۔

یہ فلاسفہ اس نقطہ اور حد پر توپہنچ گئے کہ مبدع وخلاق عالم نے سب سے پہلے ایک نور پر تنویر کو وجود بخشا۔ جن کے نام ان فلاسفہ نے عقل اول۔ قلم اعلیٰ انسان کامل۔ خلیفۃ ا عظم۔ خلیفہ اکبر۔ کتاب عقلی۔ ام الکتاب۔ لوح محفوظ۔ کتاب محوواثبات کتاب مبین۔ نفس کلیہ وغیرہ وغیرہ رکھے۔لیکن ان کی چشم بصیرۃ شپرہ چشم کیوں بنی رہی۔ اور وہ ا س تخلیق اول کا مصداق ومسمی کیوں متعین نہ کرسکے اور عین روشنی میں اس مہر درخشاں اور چشمہ آفتاب کو کیوں نہ دیکھ سکے۔ جس کے جمال جہاں تاب سے کائنات وموجودات کی لامتناہی دسعتوں کا اور ان کی پہنائیوں کا ذرہ ذرہ روشن ہے:

جہاں روشن است از جمال محمد ﷺ

الغرض اہل اسلام اور اس کے برگزیدہ طبقے صوفیائے کرام کی جورائے تھی۔ حکماء وفلاسفہ کی عقلیں اس بلندی تک تو نہ پہنچ سکیں، وہ اس سے ایک سیڑھی پیچھے ہی رک گئے اور ان کی تصریحات کی بنا پر جو مصداق متعین ہونا تھا۔ اس کے نام نامی سے بھی گریز کیا:

گرنہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمہ آفتاب راچہ گناہ

error: Content is protected !!