حال
علم معانی وبیان کی اصطلاح میں حال ایسا امر ہے جو متکلم کو مخصوص تکلم کی دعوت دے ،مثلاً اگر مخاطب وسامع کسی امر کا منکر ہے تو اس کے انکار کا مقتضایہ ہے کہ متکلم تاکیدی اور زوردار الفاظ استعمال کر ے ،جیسا کہ منافقین نے جب رسول اللہﷺ کی رسالت کا ازراہ منافقت اقرار کیا جو درحقیقت انکار تھا تو حق تعالیٰ نے معمولی اور سادہ الفاظ میں رسالت کی تصدیق نہیں فرمائی بلکہ اپنی شہادت رسالت کے بعد اس کو مؤکد کیا اور زو ردار الفاظ میں تصدیق رسالت فرمائی :
وَاللہ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ
اللہ جانتاہے کہ آپ بلا شک وشبہ، قطعاً اس کے رسول ہیں۔
چونکہ منافقین ازراہ نفاق اقرار کے پردے میں رسالت کا انکار کررہے تھے جن کے باطن سے علام الغیوب باخبر تھا اس لیے اس نے سب سے پہلے تو اپنے علم رسالت کی تصدیق کی ،بعد ازاں لفظ’’ ان‘‘ استعمال کیا جو تحقیق کے معنی دیتاہے، اس کے بعد لام تاکید کا اضافہ فرمایا ’’لرسولہ‘‘یہاں موقع ومحل کا اقتضایہی تھا کہ کلام میں غیر معمولی زور دار اور تحقیقی اور تاکیدی الفاظ استعمال کیے جائیں۔
بعض فضلاحال کو موجود اور معدوم کے درمیان واسطہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ حال نہ موجود ہے نہ معدوم وہ ایقاع وایجاد کی طرح امور اعتبار یہ میں سے ہے۔
نحویین کے نزدیک حال وہ کہلاتا ہے جو لفظاً یا معناً فاعل یا مفعول بہٖ کی ہیئت بیان کر دے۔
یا حال وہ ہے جو کسی محل میں ہو.
یا جو ماضی کی انتہا اور مستقبل کا آغاز ہو۔
یا وہ آن جو ماضی اور مستقبل کے درمیان حد مشترک اور حد فاصل ہو ۔
یا وہ وقت جس میں ہم تم موجود ہیں ۔
یا قلب پر وارد ہونے والی کیفیت جو بلا کسی تصنع اور بلا کسب وسعی کے مسرت وانبساط یا غم واندوہ کے جذبات پیدا کرے جس سے سالک کے منازل ومراتب روبہ ترقی یا روبہ تنزل ہوں۔
یا وہ صفت جو نفس میں راسخ نہ ہو۔