سند – اسناد
لغت میں’’سند ‘‘کے معنی کسی شی سے سہارا لینا، بھروسہ کرنا یا کسی سطح کااونچا مقام، اس سے مراد پناہ گاہ بھی آیا ہے، عربی محاورہ ہے’’فلان سند لفلان‘‘ یعنی وہ شخص اس کا ملجا ومعتمد ہے، چونکہ حدیث کے صحت وضعف، مقبول ومردود ہونے میں اسی پر اعتماد کیا جاتا ہے اس لئے اس کا نام ’’ سند‘‘ یا ’’ اسناد‘‘ رکھا گیا ہے اس کو ’ ’طریق الحدیث‘‘ بھی کہتے ہیں، ’’طریق ‘‘کی جمع ’’طرق‘‘ اور ’’اسناد‘‘ کی جمع ’ ’ اسانید‘‘آتی ہے۔
اصطلاح میں وہ طریق کلام (راویوں کا سلسلہ) جو متن حدیث کی حکایت کرے اسے ’’سند ‘‘کہاجاتا ہے۔
بعض علماء نے سند و اسناد میں فرق کیا ہے، ان کے نزدیک متن حدیث کے طریق کو زبان سے نقل کرنا ’’ اسناد‘‘ ہے اور یہ نفس طریق ’’ سند‘‘ ہے مثلاً ’’حدثنا فلان عن فلان قال أخبرنا فلان عن فلان‘‘ کو زبان سے ادا کرنا ’’اسناد‘‘ ہے اور نفس رجال یعنی عین طریق یہ ’’ سند‘‘ ہے۔
اسناد کی حیثیت واہمیت کے بارے میں عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا قول بنیادی حیثیت رکھتا ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’الإسناد من الدین، ولولا الإسناد لقال من شاء ما شاء‘‘۔