قضا و قدر
محدثین، فلاسفہ اور متکلمین سب اس امرپر متفق ہیں کہ قضاء عقول مجردہ کا علم ہے ،یعنی وہ علمی صورتیں جو عقول مجردہ کے نفوس میں منقش، لوح محفوظ میں ثبت اور مجتمع ہیں ،عقول مجردہ کا یہ علم قضاء الٰہی ہے ،خدا ئی اٹل فیصلے ہیں جن میں تغیر وتبدل کی گنجائش اور راہ نہیں ہے، اور جو اعیان موجودات نفس الا مری و واقعی پرازل سے جاری اور ابد تک جاری رہنے والے ہیں گویا قضاء ازلی حکم کلی ہے اور مرتبہ خیال ہے۔
یہی علمی صورتیں ہیں، لیکن اگر وہ مقتضاء صفات الٰہی نہ ہوں تو ان میں تغیر اور تبدیلی کی گنجائش رکھی گئی ہے ،اس میں حسب حالات و شرائط محوواثبات ہوتا رہتا ہے ،اس کی علمی صورتیں حالات کے اعتبار سے نفوس و عقول میں منقش ہوتی رہتی ہیں اور تبدیلی حالات کے ساتھ ساتھ متغیر و متبدل ہوتی رہتی ہیں ،گویا جزی احکام ہیں اور تفصیلی مرتبہ ہے ،لیکن اگر احکام جزئی صفات الٰہی کا اقتضاء ہوں تو پھر ان میں بھی تغیر نہ ہوسکے گا، بالفاظ دیگر صرف ان جزئی احکام میں تبدیلی اور محوواثبات ہوسکے گا جو مقتضاء صفات الٰہی نہ ہوں، کیونکہ جو امر مقتضاء صفات الٰہی ہوگا وہ تو دائرہ قضاء میں آجائے گا۔
