مغالطہ عامۃ الورود

اس کو مغالطۂ عامۃ الورود اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ہرجگہ جاری ہو سکتا ہے، جیسے فرض کرو کہ تمہارے ہاتھ میں پنسل ہے تو زید یوں کہے کہ مان لو ! یہ قلم ہے ورنہ اس کی نقیض لاقلم صادق ہوگی ، کیوں کہ اگر لا قلم ہونا بھی تسلیم نہیں کروں گے تو ارتفاع نقیضین لازم آئے گا جو محال ہے ،اور جب اس کی نقیض (لاقلم ہونا) صادق آئے گی تو ’’شيئٌ من الأشیاء‘‘ ہونا صادق آئے گاجس سے یوں شکل بن جائے گی المدعی ثابت وإلا (أي وإن لم یکن المدعی ثابتا) فنقیضہ ثابتٌ وکلما کان نقیضہ ثابتا کان شيء من الأشیاء ثابتا، اس میں سے جب حد اوسط کو جو نقیضہ ثابتٌ ہے گرا دیا جائے تو نتیجہ نکلے گا کلما لم یکن المدعی ثابتا کان شيء من الأشیاء ثابتا ،اور چوں کہ ہر قضیہ کو اس کی عکس نقیض لازم ہوتی ہے، اس لیے جب اس کی نقیض نکالی جائے گی تو اس کی صورت یوں ہوگی کہ کلما لم یکن شيء من الأشیاء ثابتا کان المدعی ثابتا، اور یہ بالبداہت باطل اور محال ہے، کیوںکہ جب  ’’شيء من الأشیاء‘‘ یعنی کوئی بھی چیز ثابت نہ ہو تو مدعی کیوں کر صادق آئے گا کیوں کہ مدعی بھی تو ’’شيء من الأشیاء‘‘ ہے، اب اگر آپ کا مدعی صادق آئے گا تو پھر ایسے مدعی کو ثابت کرنا لازم آئے گا جس کی نفی ’’شيء من الأشیاء‘‘ کے ضمن میں پہلے کر چکے ہو، اور یہ محال بہ وجہ عد مِ تسلیمِ مدعی لازم آیا اس سے ہمارا مدعی ثابت ہوا کہ تمہارے ہاتھ میں پنسل نہیں ہے بلکہ قلم ہے۔

اس مغالطہ کا جواب یہ ہے کہ عدمِ ثبوتِ ’’شيئٌ من الأشیاء‘‘ محال ہے اورعدمِ ثبوت  ’’شيئٌ من الأشیاء‘‘ کی تقدیر پرثبوت مدعی بھی محال  ہے تو یہاں ایک محال دوسرے محال کو مستلزم ہوا اور یہ (ایک محال کا دوسرے محال کو مستلزم ہونا) محال نہیں ہے کیوں کہ کتب منطق میں ہے ’’جوزوا استلزام المحال للمحال‘‘ یہ ہے مغالطۂ عامۃ الورود کی تقریر اور اس کا جواب۔

error: Content is protected !!