آسان بیان القرآن مع تفسیر عثمانی ترتیب مفتی عمر انور بدخشانی
Aasan Bayan ul Quran & Tafseer e Usmani (3 Vol)
آسان بیان القرآن مع تفسیر عثمانی 3 جلد
ترجمہ: شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمہ اللہ
خلاصہ تفسیر: حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
فوائد تفسیر: شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ
تسہیل وترتیب: مفتی عمر انور بدخشانی
استاذ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
آسان بیان القرآن کا تعارف اور پس منظر
اللہ تبارک وتعالی کی توفیق اور والدین واساتذہ کی دعاؤں کی برکت ہے کہ بندہ ناچیز کو کلام الٰہی کی کسی درجہ میں خدمت کی سعادت حاصل ہوئی ،اس پر اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے ، اُردو زبان کے تفسیری ذخیرے میں ’’بیان القرآن‘‘ اور ’’تفسیر عثمانی‘‘ کوبنیادی اور مرکزی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے ،یہ دونوں تفسیریں کسی تعارف کی محتاج نہیں ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی تالیف کردہ تفسیر ’’بیان القرآن‘‘ پہلی بار ۱۳۲۵ھ میں شائع ہوئی، جبکہ ’’تفسیر عثمانی ‘‘کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمہ اللہ نے قرآن مجید کا ترجمہ ’’موضح فرقان‘‘ کے نام سے۱۳۳۶ھ میں مکمل کرلیا تھا،اس کے بعد تفسیری فوائد تحریر کرنا شروع کیے ، سورہ نساء تک پہنچے تھے کہ ۱۳۳۹ ھ میں آپ کا انتقال ہوگیا، تفسیری فوائد کے باقی حصہ کی تکمیل کے لیے اللہ تعالی نے آپ کے شاگرد رشید شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ کو منتخب فرمایا، انہوں نے اپنے استاذ کے اس ادھورے کام کی تکمیل کا ارادہ اورآغاز فرمایا جس کی تکمیل سے ۱۳۵۰ھ میں ہم کنار ہوئے اور فوائد عثمانی کی شکل میں تفسیری جامعیت کا منفرد شاہکار ۱۳۵۵ھ میں منصہ شہود پر آیا، چونکہ تقریبا پچیس پاروں کے تفسیری فوائد حضرت علامہ شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ کے قلم سے تھے اس لیے یہ ’’تفسیر عثمانی ‘‘کے نام سے مشہور ومعروف ہوگئی۔
غرض اردو زبان کی مستند،مختصر اور جامع تفسیروں میں ’’بیان القرآن ‘‘اور’’تفسیر عثمانی‘‘ دونوں کو امتیازی حیثیت حاصل ہے ، اس کے بعداردو زبان کی اکثر تفسیری خدمات خواہ قدیم ہو ں یا جدید ان دونوں تفسیروں ہی کی خوشہ چین نظر آتی ہیں، چنانچہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی تفسیر ’’معارف القرآن ‘‘(۸جلد)، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ کی تفسیر’’ معارف القرآن‘‘ (۸جلد) اور مولانا عبد الماجد دریا آبادی رحمہ اللہ کی’’ تفسیر ماجدی‘‘(۶جلد) یہ تینوں وہ مشہور تفسیریں ہیں جو دیگر امور کے ساتھ ساتھ حضرت تھانویؒ کی تفسیر بیان القرآن کی تسہیل و تشریح کے باعث وجود میں آئیں اور ان تفاسیر میں جابجا ’’تفسیر عثمانی ‘‘ سے بھی بھرپور استفادہ کیا گیا، چنانچہ مادر علمی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں زمانہ طالب علمی کے دوران والد گرامی حضرت مولانا محمد انور بدخشانی صاحب زید مجدہم اور اپنے اساتذہ کرام سے بارہا یہ سنا کہ اردو تفسیروں میں بیان القرآن اور تفسیر عثمانی کو ہمیشہ مطالعہ میں شامل رکھناچاہیے ، ان دونوں کی اہمیت کا صحیح اندازہ بڑی تفسیروں کے مطالعہ کے بعد ہی ہوتا ہے ، حضرت والد صاحب مدظلہ جس زمانہ میں قرآن کریم کا فارسی ترجمہ و تفسیر تحریر فرمارہے تھے (والد صاحب مدظلہ کا فارسی زبان میں ترجمہ قرآن پہلی بار۲۰۰۶ء میں شائع ہوا، اللہ تعالی نے اسے شرف قبولیت سے نوازا، فارسی زبان بولنے والے حضرات نے دنیا کے کئی ممالک سےاس کے حصول کے لیے رابطہ کیا، اب تک یہ ہزاروں کی تعداد میں شائع کیا جاچکا ہے ، چنانچہ ۲۰۱۷ ءسے مجمع ملک فہد مدینہ منورہ سعودی عرب سےحرمین شریفین اور زائرین حج وعمرہ کے لیے اسے شائع کیا جارہاہے) اس دوران بارہا ان سے یہ فرماتے سنا کہ قرآن کریم کے بہت سے مشکل مقامات پر کئی عربی تفسیروں کے مطالعہ کے بعد جب بیان القرآن یا تفسیر عثمانی کو دیکھتا ہوں توان میں بہت مختصر اور جامع تعبیر میں وہ بات مل جاتی ہے جو دیگر تفاسیر میں طویل عبارتوں میں بیان ہوتی ہے۔
بندہ کے اس کام کی ابتدا تفسیر عثمانی سے ہوئی تھی، ویسے تو طالب علمی کے زمانہ سے ہی’’ تفسیر عثمانی‘‘ سے استفادے کی کوشش رہی ، لیکن بعد میں درس وتدریس کے دوران اس کی اہمیت مزید دل میں جاگزیں ہوگئی ، مطالعہ کے دوران بارہا یہ خیال آتا کہ تفسیر عثمانی کوحواشی کے بجائے عام فہم اور آسان انداز میں مرتب کرکے پیش کیا جائے ، تاکہ مطالعہ کرنے والے کو تفسیری فوائد وحواشی ڈھونڈنے کی دشواری نہ ہو اور آیت کے ترجمہ کے ساتھ ہی اس کے تفسیری فوائد درج ہوجائیں تاکہ یکسوئی کے ساتھ قرآن کریم کی آیات کے مطالب ذہن نشین ہوسکیں، یہی بات کئی اساتذہ کرام اور متعدد باذوق رفقاء درس سے بھی سننے کو ملتی رہی، چنانچہ اساتذہ کرام اور ساتھیوں سے مشورے کے بعد تقریبا چھ سال قبل یہ کام اللہ کا نام لے کر شروع کردیا ، دیگر مصروفیات کے ساتھ جیسے جیسے موقع ملتا تھوڑا تھوڑا کرکے یہ کام ازخود کمپیوٹر پر کرتا رہا، الحمد للہ !تقریباتین ساڑھے تین سال کے عرصہ میں تفسیر عثمانی کی ترتیب نو کا کام اللہ تعالی نے مکمل کروادیا، اس کے بعد ساتھیوں کا اصرار رہا کہ اسے شائع کردیا جائے ، لیکن اللہ تعالی نے دل میں یہ بات ڈالی کہ تفسیر عثمانی کے ساتھ حضرت تھانوی ؒ کی شہرہ آفاق تفسیر’’بیان القرآن‘‘ کےترجمہ وتفسیری فوائدکو آسان زبان میں ڈھال کرساتھ ہی شامل کردیا جائے ، اس طرح اردو زبان کے دو مستند اورمقبول ترجموں اورتفسیروں سے ایک ساتھ استفادہ آسان ہوجائے گا، چونکہ تفسیر بیان القرآن کے متداول مطبوعہ نسخے عصرحاضر کے اشاعتی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ، جس کی وجہ سے صحیح طور پر استفادہ مشکل ہوتا جارہا ہے، بیان القرآن کی اہمیت کے بارے میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم تحریر فرماتے ہیں ’’کہنے کو تو یہ ایک مختصر تفسیرہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے اختصار کے باوجود جامعیت اورحل قرآن میں اپنی مثل آپ ہے ، اوراسے حضرت تھانوی قدس سرہ کے تدبر قرآن کا شاہکار کہنا چاہیے ، اس تفسیر کی صحیح قدر ومنزلت اس وقت معلوم ہوتی ہے جب کسی آیت کی تفسیر میں عربی زبان کی مفصل تفاسیر کو چھاننے کے بعد اس کی طرف رجوع کیا جائے ، اس وقت اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت نے حل قرآن کے سلسلے میں ان تمام تفاسیر کاعطر نکال کر رکھ دیا ہے اور وہ عظیم الشان اشکالات جن کا جواب بعض اوقات کئی کئی ضخیم تفسیروں کی مراجعت کے بعد بھی نہیں ملتا ، حضرت ؒ نے قوسین میں چند تشریحی الفاظ بڑھا کر حل فرمادیے ہیں ‘‘۔ چنانچہ دسمبر ۲۰۱۶ء میں مدینہ طیبہ میں بیان القرآن کے خلاصہ تفسیر کو آسان زبان میں منتقل کرنا شروع کردیا ، یہاں یہ واضح رہے کہ اس اشاعت میں تفسیر عثمانی میں کسی بھی قسم کی لفظی تبدیلی یا کمی نہیں کی گئی بلکہ اسے مکمل شامل کیا ہے، البتہ بیان القرآن میں چونکہ بہت سے مقامات پر دقیق عربی الفاظ اورمختلف فنون کی علمی اصطلاحات زیر استعمال تھیں جن کی وجہ سے اب اس کا سمجھنا عام قارئین کے لیے مشکل ہوگیا تھا اس لیےاسے آسان اردو میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس اشاعت میں تفسیر بیان القرآن کے خاص اس حصہ کومدنظر رکھاگیا ہے جس کا تعلق عوام سے ہے ، کیونکہ اس تفسیرکا ایک بڑا حصہ وہ ہے جس کا تعلق خواص اہل علم اورعلماء کرام سے ہے اور وہ عربی زبان میں ہے ، چنانچہ حضرت تھانوی ؒ نے اپنے خطبہ تفسیرمیں اس بات کو یوں تحریر فرمایا :
’’چونکہ نفعِ عوام کے ساتھ افادۂ خواص کا بھی خیال آگیااس لیے ان کے فائدہ کے واسطے ایک حاشیہ بڑھایا ہے۔۔۔۔۔۔۔اس حاشیہ کی عبارت عربی اس لیے تجویز کی ہے کہ عوام اس کے دیکھنے کی ہوس ہی نہ کریں، ورنہ جب زبان سمجھتے اور مضامین نہ سمجھتےتو بہت پریشان ہوتے‘‘ ۔
چنانچہ حضرت تھانویؒ کے بیان کردہ مقصد اور عمومی نفع کو پیش نظر رکھتے ہوئے ’’آسان بیان القرآن‘‘ میں انہی حصوں کو شامل کیا گیا جن کا تعلق عام اُردُودَان طبقہ سے ہے ، اس تمہید وپس منظر کے بعد اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ اشاعت ’’آسان بیان القرآن مع تفسیرعثمانی‘‘ کی ترتیب بیان کردی جائے جس کے ضمن میں بقیہ متعلقہ تفصیلات بھی سامنے آجائیں گی
قرآنی آیات کے متن کا ترجمہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمہ اللہ کاتحریر کردہ ہے ۔
ترجمہ کے بعد حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی تفسیر بیان القرآن ہے، جس کا عنوان بندہ نے اپنے پر نانا اور صاحب معارف القرآن مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کی اتباع میں ’’خلاصہ تفسیر‘‘ رکھا ہے ، حضرت مفتی صاحب قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ :’’اس کا نام خلاصہ تفسیر رکھنا اس لیے موزوں ہوا کہ خود حضرت ؒ نے خطبہ بیان القرآن میں اس کے متعلق فرمایا ہے کہ اس کو تفسیر مختصر یا ترجمہ مطول کہا جاسکتا ہے ‘‘۔
تفسیر بیان القرآن کا ایک خاص وصف سورتوں اورآیات کے درمیان نظم یعنی ربط ومناسبت کا اہتمام ہے ، چنانچہ ’’خلاصہ تفسیر‘‘ کے عنوان کے بعد آیت کے ترجمہ وتفسیر سے پہلے اس آیت کا ما قبل سے ربط بھی آسان زبان میں بیان کردیا گیا ، ربط آیت کے علاوہ سورتوں کے درمیان ربط کا بھی حضرت ؒ نے اکثر اہتمام فرمایا ہے، بقول پروفیسرمولانا عبدالباری ندوی ؒ ’’بیان القرآن نے یہ خدمت بقدر ضرورت پوری فرمادی کہ ہر چھوٹا بڑا حصہ اور ہر چھوٹی بڑی آیت دوسری سے اس طرح مربوط ہوگئی ہے کہ ہر آیت کا قوسین کے ساتھ جو تفسیری ترجمہ فرمایا دیا گیا ہے اگر اس کو آدمی پڑھتا چلا جائے تو معلوم ہوگا کہ ایک بے تکلف مسلسل ومربوط کتاب پڑھ رہا ہے ‘‘۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے ’’ تفسیر‘‘ کے عنوان سے ایک خاص اسلوب میں قرآنی آیت کا ترجمہ وتشریح کا اہتمام فرمایا ہے ، چونکہ قرآن کریم سمجھنے کے لیے بسا اوقات صرف ترجمہ کافی نہیں ہوتا اس لیے حضرت تھانویؒ نے ترجمہ کے ساتھ قوسین () میں کچھ تشریحی الفاظ یا جملے بڑھا کر قرآن کریم کے مضامین کی عمدہ وضاحت فرمائی ، البتہ قرآنی آیت کے ترجمہ میں لازمی احتیاط اور امتیاز کے پیش نظر اسے خط کشیدہ Overline بھی کررکھاتھا جو ترجمہ کے متن کی علامت ہے جس کا بندہ نے بھی اس اشاعت میں خاص طور پر اہتمام کیا ہے، چنانچہ خط کشیدہ الفاظ میں ترجمہ قرآن ہے اوربین القوسین اس کی تفسیر ہے ۔
ترجمہ وتفسیر کے بعد جہاں کسی ضروری بحث کا بیان یا کسی شبہ کا ازالہ ضروری ہوا تو وہاں ترجمہ وتشریح کے بعد ’’ف‘‘ کا عنوان لگا کرحضرت تھانویؒ نے اس کو بھی مختصرا بیان فرمادیا ، چنانچہ بندہ نے ان تفسیری فوائد کو بھی الفاظ وتعبیرات کی معمولی تبدیلی کے ذریعہ مختصراور آسان زبان میں پیش کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے، آیت کے جس حصے سے متعلق تفسیری فائدہ ہے وہاں ’’فائدہ ‘‘ کے بجائے آیت کے اس حصہ کو عنوان بناکر نشاندہی کی گئی ہے ۔
تفسیر بیان القرآن میں ایک مستقل سلسلہ مسائل اخلاق وسلوک کا ہے ، یعنی جن جن آیات سے تزکیہ و اخلاقیات کا کوئی مسئلہ مستنبط ہوتا ہے وہاں اس کو حضرت تھانویؒ نے وجہ استنباط کے ساتھ ذکر فرمادیا ہے، اس اشاعت میں دیگر تفسیری فوائد کے ساتھ ساتھ تزکیہ واخلاق کے ان مسائل کو بھی آسان اورمختصر زبان میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
آیت کے خلاصہ تفسیر اور دیگر متعلقہ فوائد وتشریح کے بعد بیان القرآن کاحصہ پورا ہوجاتا ہے،اس کے بعد علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کے تفسیری فوائد ذکر کیے گئے ہیں، درمیان میں امتیاز کے لیے ایک لمبی سرخ لکیر ڈال دی گئی ہے ، تاکہ بیان القرآن اورتفسیر عثمانی میں امتیاز برقرار رہے، اور مطالعہ کرنے والا یہ بآسانی سمجھ سکے کہ اس امتیازی لکیر کے بعد اس مذکورہ آیت سے متعلق علامہ عثمانی رحمہ اللہ کے تفسیری فوائد شروع ہورہے ہیں۔
علامہ عثمانیؒ کے تفسیری فوائدعدد کی ترتیب کے اعتبار سے ہیں جس کی طرف اوپر آیت کے ترجمہ میں عدد کے ذریعے بھی نشاندہی کردی گئی ہے ، البتہ جس آیت کےتحت فوائد عثمانی زیادہ یا تفصیلی تھے وہاں عدد کے ساتھ ساتھ آیت کے اس متعلقہ حصے کے ذریعہ بھی نشاندہی کردی گئی ہے ۔
بیان القرآن کو آسان کرنے کے لیے دیگرتفاسیر کے ساتھ ساتھ درج ذیل تفسیروں سےبطورخاص مدد لی گئی :
معارف القرآن : مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ
تسہیل بیان القرآن : حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ
معارف القرآن : حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی صاحب رحمہ اللہ
تفسیر ماجدی : حضرت مولانا عبد الماجد دریاآبادی صاحب رحمہ اللہ (مسائل السلوک کی تسہیل کی حد تک)۔
اگر یہ کہا جائے توشاید مبالغہ نہ ہوگا کہ یہ مجموعہ تفسیر ’’آسان بیان القرآن مع تفسیر عثمانی‘‘ اردو کی کئی ضخیم تفسیروں کا ایک قسم کا خلاصہ اورمتن ہے، غرض اس مجموعہ میں برصغیر کے دو مستند مشہور ترجمے: ترجمہ حضرت شیخ الہندؒ اورترجمہ حضرت تھانویؒ ، اسی طرح دو مشہور تفسیریں : بیان القرآن اور تفسیر عثمانی یکجا ہوگئیں، ضخامت سے بچنے اور اس مجموعہ تفسیرکو تین جلدوں تک محدود رکھنے کے لیے’’آسان بیان القرآن‘‘ میں کچھ امور فی الحال شمولیت سے رہ گئے، اس ارادے اور امید پر کہ’’ آسان بیان القرآن‘‘ کو مستقل طور پربہت جلدعلیحدہ بھی شائع کیا جائے گا تواس میں وہ چیزیں بھی شامل کردی جائیں گی ان شاء اللہ ۔
اللہ تعالی کے فضل وکرم سے یہ کام اب پایہ تکمیل کو پہنچا ،تصحیح کی ہرممکن کوشش کے باوجود اس کام میں بندہ سے نادانستہ طور پر غلطی ہوئی ہوگی ، اس لیے درخواست ہے کہ مطالعہ کے دوران اگر ایسے مقامات سامنے آئیں تو ان مقامات کی نشاندہی کردی جائے تاکہ آئندہ طباعت میں اسے درست کرلیا جائے ، والد گرامی حضرت مولانا محمد انوربدخشانی صاحب زید مجدہ، استاذ محترم حضرت مولانا سید سلیمان یوسف بنوری صاحب زید مجدہ اوراستاذ محترم حضرت مولانا عمران عیسی صاحب زید مجدہ کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے بندہ کی سرپرستی فرمائی اور اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا، دعا ہے کہ اللہ تعالی اس خدمت کو نافع اور مفید بنائے اورشرف قبولیت عطا فرمائے ،اوراس خدمت کو مرتب، اس کے والدین ، اساتذہ کرام اور ان تمام احباب ومخلصین کے لیے صدقہ جاریہ بنائے جنہوں نےقرآن کریم کی اس خدمت میں تصحیح ، تجویز مشورے اور کسی بھی درجہ میں معاونت فرمائی ہو ، آمین یا رب العالمین ۔
عمر انور بدخشانی
جامعہ علوم اسلامیہ ، علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی
جامع مسجد قبا ، گلشن اقبال کراچی
؍رجب۱۴۴۰ھ – 23 مارچ 2019ء
تاثرات: حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرّزاق اسکندر رحمہ اللہ
مہتمم جامعہ عُلوم اِسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی
صدر وِفاق المدارس العربیّہ پاکستان
امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت
الحمد للہ وحدہ والصّلوٰۃ والسّلام علیٰ من لا نبی بعدہ ، أمّا بعد
قرآن کریم اللہ تعالی کا معجز کلام ہے، اس کے معانی ومطالب کے حقائق واسرار تک رسائی کا سفر ختم نہ ہونے والا سفر ہے ، روزِ اول سے تاحال یہ سفر جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا، اس راہ میں جتنی بھی کوششیں کی جائیں اسے حتمی کوشش نہیں کہا جاسکتا ، البتہ قرآنی حقائق واسرار کی تفہیم وتسہیل کے لیے بہترسے بہتر کی کوشش کرتے رہنا بھی خود قرآن کریم کا اعجاز ہے ، جس کا اردو زبان میں بہترین مظہر حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی ’’بیان القرآن‘‘ اور علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی ’’تفسیر عثمانی‘‘ بھی ہیں ، جنہیں ندرت بیانی ، جامعیت اور اختصار میں انفرادی مقام حاصل ہے ۔
ان دونوں تفسیروں کا امتیازی مقام اس امر سے بھی واضح ہے کہ اردو زبان میں ہونے کے باوجود اردو زبان میں مخدوم تفسیریں چلی آرہی ہیں ، ان دونوں تفسیروں کی اردو زبان میں خدمت کی نئی کاوش ہماری جامعہ کے استاذ عزیزم مولانا محمد عمر انور بن مولانا محمد انور بدخشانی -سلّمہما – نے انجام دی ہے ، اس کام کا تعارف ابتدایے میں موجود ہے ، اہل علم کی توثیقی وتوصیفی تحریریں بھی سامنے ہیں ، میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی اس کاوش کو قبولیت تامہ اور مقبولیت عامہ نصیب فرمائے اور جامع ومرتب کو اس طرح کے علمی کاموں کے لیے توفیق مزید سے نوازے ، آمین ، وماذلک علی اللہ بعزیز۔
فقط والسلام: عبد الرزاق اسکندر
ربیع الاول ۱۴۴۱ھ
تاثرات: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہ
شیخ الحدیث و نائب ورئیس جامعہ دار العلوم کراچی
صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
الحمد للہ رب العالمین ، والصلوۃ والسلام علی سیدنا ومولانا محمد خاتم النبیین ، وعلی آله و أصحابه اجمعین ، وعلی کل من تبعھم بإحسان إلی یوم الدین ، أمّا بعد
اردو تفاسیر میں حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’بیان القرآن‘‘ اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’تفسیر عثمانی‘‘ کی افادیت محتاج بیان نہیں ، لیکن آج کل لوگوں کی اردو اور عالمانہ زبان کی استعداد اتنی پست ہوگئی ہے کہ ان تفسیروں سے استفادہ مشکل ہوگیا ہے ، یا ان کے علمی انداز بیان کی وجہ سے یا ان کی ترتیب کی بنا پر ۔
عزیز گرامی مولانا عمر انور بدخشانی (استاذ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن ) حفظہ اللہ نے بڑی محنت سے ان دونوں تفسیروں کو اس طرح جمع فرمایا ہے کہ آج کے عام آدمی کے لیے ان سے استفادہ آسان ہوگیا ہے ، ’’بیان القرآن میں جو دقیق علمی اصطلاحات تھیں ان کو آسان کرکے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، اور ’’تفسیر عثمانی‘‘ کو اس ترتیب کے ساتھ جمع کیا گیا ہے کہ اس سے مسلسل استفادہ آسان ہوگیا ہے ۔
بندہ نے اس کتاب کا جستہ جستہ مطالعہ کیا اورالحمد للہ مفید پایا، دل سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تبارک وتعالی اس کام کو اپنی بارگاہ میں شرف قبول عطا فرمائے اور خواص وعوام کے لیے نافع ثابت ہو، آمین۔
بندہ: محمد تقی عثمانی
صفر ۱۴۴۱ھ
تاثرات: حضرت مولانا محمد انور بدخشانی صاحب زید مجدہ
شیخ الحدیث جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی تفسیر بیان القرآن اردو تفاسیر میں نمایاں اور امتیازی شان رکھتی ہے ، کلامی ، اصولی ، فروعی اورسلوکی مسائل اورجدید عصری شبہات جیسے بڑے مباحث کو لطافت اور ندرت کے ساتھ مختصر الفاظ میں جس انداز سے جمع کرنے کی حضرت نے کوشش فرمائی ہے ، یہ علمی اور معنوی گہرائی اردو کی کسی اور تفسیر میں شاید ہی ملے ، تفسیر قرآن کے دوران متعلقہ مباحث کی ہمہ گیری اور فنی وعلمی آراستگی کا امتیاز بھی حضرت ہی کا خاصہ ہے ، چنانچہ بعض اہل علم کا یہ تبصرہ ہے کہ بیان القرآن اردو زبان کی تفسیر جلالین ہے، اسی لیے بیان القرآن کو پختہ اورٹھوس علماء کے استفادے کی تفسیر قرار دیا جاتا ہے ، اسے سمجھنے اورسمجھانے کے لیے پختہ علم اور وسیع مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے،اس تفسیر پر کام کرنے کے لیے علامہ شبیر احمد عثمانی، مفتی اعظم مولانا مفتی محمد شفیع،حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی اور مولانا عبد الماجد دریاآبادی رحمہم اللہ جیسے لوگ سامنے آئے تھے اورانہوں نے اپنے ادوار اوراپنے انداز میں حضرت تھانویؒ کی بیان القرآن کی تفہیم ، تسہیل اور تعبیر نو کا کام کیا تھا جس میں سے ہر کام اپنی جگہ عظیم تر ہونے کے باوجود دوسرے سے مستغنی نہیں کرتا ، اس بنا پر بیان القرآن کی اس جلالت شان کو دیکھتے ہوئے مجھے ذاتی ، اصولی اور فنی لحاظ سے یہ تردد تھا کہ اس عظیم المرتبت تفسیری خدمت کے لیے فرزند عزیز مولوی عمر انور سلمہ کا کمر بستہ ہونا اوریہ کام انجام دینا شاید مشکل نہ ہو ، اسی وجہ سے تاثرات رقم کرنے کے لیے عزیزم کی فرمائش پوری کرنے میں بھی مجھے قدرے تامل رہا ، اس تامل سے خلاصی کے تین اسباب سامنے آئے جس کے نتیجے میں یہ سطور رقم کررہا ہوں :
۱-اللہ تعالی کے فضل وکرم سے قرآن کریم کی تفسیری خدمت میرا اپنا شغف اور شوق بھی ہے ، عزیزم کے اس کام سے ان کے قرآن کریم کے ساتھ شوق وشغف کا اندازہ ہوا جو کہ قابل تشجیع ہے ۔
۲-عزیزم موصوف نے تفسیر قرآن جیسے نازک موضوع پر عصری آزادانہ محنت کے بجائے اکابر واسلاف کی تفسیری کاوشوں سے اپنا رشتہ اور تعلق جوڑنے کا مظاہرہ کیا جسے تفسیر قرآن کے میدان میں اتباع سلف کا شوق اور التزام سمجھتا ہوں، عصرحاضر میں اتباع سلف کا یہ التزام یقینا باعث سعادت ہے ۔
۳-عزیزم مرتب کے کام اوریہ تاثرات رقم کرنے پر سب سے زیادہ جس چیز نے مجھے آمادہ کیا وہ یہ کہ موصوف نے تفسیری افادات کے جمع کرنے میں ابتداع کے بجائے نقل واتباع پر ہی اکتفا کیا ہے اور اس ترتیب نومیں بیان القرآن اورتفسیر عثمانی کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی ہے ، بحیثیت والد اور استاذ اگرچہ مجھے عزیزم مولوی عمر انور سلمہ کے فہم وذکاء پر کافی حد تک اطمینان ہے اور عزیز موصوف کے اساتذہ کرام بھی ان کے بارے میں حسن ظن اورحسن رائے رکھتے ہیں مگراس کے باوجود عزیزم کے کام میں علم تفسیر کی نزاکت کا کتنا لحاظ ہوپایا ہے ،مزید بہتری کی کتنی گنجائش ہے یہ موضوع اس میدان کے اہل علم کے سپرد کرتا ہوں ، والد ہونے کی حیثیت سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا ، البتہ اس مجموعہ تفسیر کے جائزے سے درجہ ذیل باتوں نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا :
۱- پہلی بات کہ یہ مجموعہ صرف تین جلدوں میں اردو زبان کی دو اہم اورمستند تفسیروں بیان القرآن اور تفسیر عثمانی پر مشتمل ہے ۔
۲-دوسری بات یہ کہ اس میں شیخ الہندحضرت مولانامحمود حسنؒ کا ترجمہ قرآن بھی مکمل شامل ہے ، اورخلاصہ تفسیر میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا ترجمہ قرآن بھی آگیا چنانچہ اب اس مجموعہ میں برصغیر کے دو مستند اوراہم ترجمہ وتفسیر شامل ہوگئے ۔
۳-تیسری اوراصل بات یہ کہ اس میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تفسیربیان القرآن کوآسان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے ، یہ کام وقت کی انتہائی اہم ضرورت تھی ، کیونکہ بیان القرآن جیسی گرانقدر علمی تفسیر سے کماحقہ استفادہ عوام تو عوام خواص کے لیے بھی اب مشکل ہوتاجارہا ہے ، چنانچہ ہمارے مدارس کے فضلاء وطلبہ بھی اب اس تفسیرسے اجنبیت محسوس کرنے لگے ہیں ، تفسیر بیان القرآن ایک خاص حیثیت کی وجہ سےبھی اردو زبان کی دیگر تفسیروں میں نمایاں مقام رکھتی ہے کہ اس میں حضرت تھانوی ؒ نے تفسیر قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہوئے ذہن میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کو دور کرنے کا خاصا اہتمام کیا ہے ، اوران کا جواب اس قدرسلیس، مختصراورجامع دیتے ہیں کہ تمام شکوک کا بآسانی ازالہ ہوجاتاہے،اگرچہ اردو زبان کی دیگرتفسیروں میں اس موضوع پر کچھ موادتو ہے، مگراس کے باوجود عصرحاضر کے کلامی شبہات کے لیے وہ تفسیریں مکمل طور پر کفایت نہیں کرتی، اس لیے موجودہ علم کلام کے لیے حضرت تھانویؒ کی تفسیر بیان القرآن عظیم اہمیت کی حامل ہے جس میں اختصار وجامعیت کے ساتھ ساتھ مسلک سلف کی پوری پوری وکالت ہے اورکلام خداوندی قرآن مجید کے اوپر وارد شدہ شبہات کا تحقیقی جواب بھی دیا گیا ہے ۔
۴-چوتھی بات یہ کہ مرتب نے اس مجموعہ میں قرآن کریم کی دو تفسیروں کو ایک ساتھ جمع کردیا لیکن امتیاز وفصل کو بھی برقرار رکھا ، اور ساتھ ہی بیان القرآن کو آسان اردو میں ڈھالنے کی کوشش بھی فرمائی ہے،البتہ بیان القرآن اور تفسیر عثمانی کو یکجا شائع کرنے سے اگرچہ قارئین کو بہت سی جگہ تکرار محسوس ہوگا ،لیکن یہ تکرار بھی یقینا فائدہ سے خالی نہیں ،اوراسی وجہ سے اس مجموعہ کی افادیت مزید بڑھ گئی ،چنانچہ تفسیر قرآن کا مطالعہ کرنے والے قارئین کے لیے یہ سہولت اورآسانی ہوگئی کہ انہیں دو ترجمے اور دو تفسیریں مطالعہ میں ایک ساتھ مل جائیں گی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کی اس کو شش کو قبول فرمائے اور اس مجموعہ تفسیر کو قارئین کے لیے کلام الہی کے ساتھ ربط وتعلق ، عمل صالح اوراخروی نجات کا ذریعہ بنائے ، آمین۔
محمد انور بدخشانی
لیلۃ النصف من شعبان ۱۴۴۰ھ
تاثرات: حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی رحمہ اللہ
شاگرد رشید: شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ
رئیس شعبہ تخصص علوم حدیث: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اللہ تبارک وتعالی اپنا خاص فضل جس پر فرماتے ہیں اسے قرآن وحدیث کی خدمت کے لیے چن لیتے ہیں ، قرآن کریم کی جس انداز سے بھی خدمت کی جائے بہت بڑی سعادت کی بات ہے ، حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ آخری دور میں اس بات پر زور دیا کرتے تھے کہ جیل میں رہ کر یہ بات سمجھ میں آئی کہ مسلمانوں کے زوال کے اسباب میں سے ایک سبب قرآن سے دوری بھی ہے ، اسی فکر میں انہوں نے قرآن کریم کا ترجمہ کیا اوراپنے شاگردوں کو اس کی ترغیب بھی دی ۔
زیر نظر کتاب انہی کے ترجمہ قرآن کی خدمت ہے جس میں مرتب کتاب نے حضرت شیخ الہند ؒ کے ترجمہ قرآن ، مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر (بیان القرآن) اور حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کے فوائد تفسیریہ کی جمع وترتیب کی ہے ، البتہ تسہیل کا کام صرف ’’بیان القرآن ‘‘ سے متعلق ہے ، ’’بیان القرآن‘‘ چونکہ حضرت تھانویؒ نے خواص کے لیے لکھی تھی ، اس لحاظ سے انہوں نے اس کی تعبیرات بھی علمی اختیار کی تھیں ، چنانچہ ’’بیان القرآن‘‘ کا ایک حصہ تو وہ ہے جو خالص عربی زبان میں ہے ، جس سے فائدہ اہل علم تو اٹھا سکتے ہیں عام اردو خواں نہیں ، جب کہ دوسرا حصہ اردو زبان میں ہے ، البتہ اس کی تعبیر علمی ہے ، مرتب نے اس دوسرے حصے کی تسہیل کا کام سر انجام دیا ہے ، جبکہ پہلا حصہ انہوں نے حذف کردیا ہے ، البتہ تفسیر عثمانی کی تمام عبارات من وعن نقل کی ہیں ۔
مرتب کے مذکورہ منہج کا خلاصہ درج ذیل ہے :
آیات قرآنیہ کے ذیل میں ترجمہ حضرت شیخ الہندؒ اوراس کے ذیل میں ’’خلاصہ تفسیر‘‘ کے عنوان سے تفسیر’’بیان القرآن ‘‘ کو ذکر کیا ہے ۔
بیان القرآن کے بعد سرخ امتیازی لکیر ڈال کر ہر آیت کے ذیل میں حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کے فوائد تفسیر کو ذکر کیا ہے ۔
مؤلف کے اس طرز عمل سے تفسیر عثمانی اور تفسیر بیان القرآن یکجا ہوگئے ، گویا کہ مرتب نے علماء دیوبند میں سے دو بڑے علماء کے تفسیری نکات کو جمع کرکے دار العلوم دیوبند کی تفسیری خدمات کو اجاگر کیا ہے ۔
نیز عام طور پر طلبہ کرام بیان القرآن یا تفسیر عثمانی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرکے اپنا مطالعہ اس ایک حد تک محدود کرتے ہیں ،مرتب کی اس کاوش سے اب طلبہ کے لیے دونوں تفسیروں کو بیک وقت پڑھنا آسان ہوگا۔
مرتب حفظہ اللہ ایک باذوق اور سلیقہ مند شخصیت ہیں اس لیے انہوں نے کتاب کی تسہیل میں بقدر وسعت خوب کوشش کی ہے ، تفسیر چونکہ خواص کے لیے ہے ،خصوصا طلبہ مدارس کے لیے ، اس لیے طلبہ کو اس کتاب سے استفادہ کرنا آسان ہوگا۔
اللہ تبارک وتعالی موصوف کی اس سعی کو قبول فرمائے ،اور ان کی کتاب کو طلبہ دین کے لیے نافع بنائے ، موصوف اور ان کے والدین کے لیے ذخیرہ آخرت بنائے اور ان کو مزید کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔
وصلی اللہ وسلم علی سید المرسلین وعلی آله وصحبه وأمته أجمعین
د-محمد عبد الحلیم چشتی
ربیع الثانی ۱۴۴۱ھ