مولانا سید محمد یوسف بنوری
Maulana Syed Muhammad Yousuf Banuri
مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ
نایاب مضامین اور دل چسپ یاد داشتوں کا مجموعہ
ترتیب وتدوین: مفتی عمر انور بدخشانی
استاذ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
کتاب کا تعارف
محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کی سیرت ، سوانح اور آپ کی علمی تصنیفات پر بہت سے مضامین لکھے گئے ، یہاں تک کہ برصغیر پاک وہند سمیت عالم عرب کی مشہور جامعات میں آپ پر ایم اے ، ایم اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالات بھی تحریر ہوئے ، آپ کے سانحہ وفات پر آپ کی حیات ، خدمات اور کارناموں پر مشتمل تین رسالوں – سرفہرست ماہنامہ ’’بینات‘‘ کراچی ، ’’خدام الدین‘‘ لاہور اور ’’لولاک‘‘ فیصل آباد – کی طرف سے خصوصی شمارے شائع ہوئے ، اس کے علاوہ دیگر رسائل وجرائد میں بھی وقتا فوقتا آپ پر مضامین شائع ہوتے رہے ، مشہور ہے کہ اخبار کی زندگی ایک دن اور ماہانہ جرائد ورسائل کی زندگی فقط ایک ماہ ہوتی ہے ، چنانچہ کسی بھی شخصیت پر خصوصی اشاعت چھپنے کے بعد وہ تاریخ کے اوراق کا حصہ بن جاتی ہے ، اور بہت کم ایسی نوبت آتی ہے کہ اسے دوبارہ شائع کیا جائے ، یا کوئی ماہنامہ جریدہ ورسالہ دوبارہ زیور طبع سے آراستہ ہو ، چنانچہ ایک وقیع علمی ، ادبی وتحقیقی ذخیرہ رسائل کی گزشتہ فائلوں میں پوشیدہ ہے ، بہرحال ’’بینات‘‘ کی اشاعت خاص بیاد حضرت بنوریؒ طبع اول کے بعد اسی آب وتاب کے ساتھ کئی بار شائع ہوئی ، اور کتب خانوں میں دستیاب ہے ، لیکن مؤخر الذکر رسائل تاریخ کا حصہ بن گئے ۔
اس بات کی ضرورت تھی کہ بینات کے علاوہ دیگر رسائل میں حضرت بنوریؒ پر مشاہیر اہل علم وقلم کے مضامین کو اکھٹا کرکے از سر نو شائع کیا جائے ، چنانچہ اس مجموعے کے اکثر مضامین ’’خدام الدین‘‘ اور بعض ’’لولاک‘‘ سے لیے گئے ، کچھ مضامین وہ بھی ہیں جو دیگر رسائل میں شائع ہوئے تھے ، ان کو بھی اس مجموعے میں شامل کرلیا گیا ہے ،چنانچہ اب یہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
مضامین کی ترتیب لکھنے والوں کے نام کی حروف تہیجی کے اعتبار سے ہے ، چونکہ اس مجموعے کے اکثر مضامین خاکہ نگاری – ذاتی تعلق ویاد داشت – کی صنف سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ابتدا میں حضرت بنوریؒ کا مکمل اجمالی تذکرہ وسوانح بھی اس میں شامل کیا گیا ہے جو آپ کے صاحبزادے استاذ محترم حضرت مولانا سید سلیمان یوسف بنوری زید مجدہ کا تحریر کردہ ہے ، نیز مولانا زاہد الرشدی صاحب کا حضرت بنوریؒ کی وفات پر لکھا گیا ’’ارباب علم کے لیے لمحہ فکریہ‘‘ بطور تتمہ کتاب کے آخر میں شامل ہے جس کے مندرجات آج بھی فکر وعمل کی دعوت دے رہے ہیں ۔
قارئین کے مطالعہ میں اگر ان مضامین کے علاوہ کوئی اور مضمون بھی ہو تو از راہ کرام راقم کو اس سے مطلع فرمائیں تاکہ آئندہ اشاعت میں اسے بھی شامل کرلیا جائے ، دعا ہے کہ اللہ تعالی اسے اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں اکابرین کے علوم سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔
عمر انور بدخشانی
جمادی الاولی 1432ھ