متنازع کتاب خلافت معاویہ ویزید کے مصنف محمود احمد عباسی ناصبی پر حکیم محمود احمد برکاتی کا دل چسپ خاکہ
محمود احمد عباسی صاحب مرحوم سے میرا تعارف پاکستان آکر غالباً ۵۴-۱۹۵۳ء میں ہوا تھا۔ انہیں کسی کتاب کی ضرورت تھی، اس لیے کسی کی نشان دہی پر میرے یہاں آئے تھے۔ جب یہ معلوم ہوا کہ وہ ہمارے استاد امام طب حکیم فرید احمد صاحب عباسی مرحوم و مغفور کے چھوٹے بھائی ہیں تو ایک قرب کا پہلو نکل آیااور طرفین کی آمدورفت شروع ہوگئی ۔ ان کے اور ان کے اہل و عیال کی خدمت علاج کے بھی مواقع بارہا ملے۔
کچھ ہی دن کے بعد ان کی کتاب کے چرچے علمی حلقوں میں شروع ہوئے، مگر مطالعے کی لت کے باوجود مجھے اس کتاب کے مطالعے کی اکساہٹ نہیں ہوئی، کیوں کہ اہل تسنن اور اہل تشیع کے اختلافات میرا موضوع فکر و مطالعہ ہیں، نہ میری افتاد مزاج کو خلافیات سے کوئی مناسبت ہے، نہ میں ان مناقشات کو امت محمدیہ (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کے حق میں مناسب اور مفید سمجھتا ہوں اور تاریخی، کلامی یا فقہی مسالک کے اختلاف کے بجائے عقائد کے اشتراک اور متفق علیہ امور پر نگاہ رکھتا ہوں۔ بہرحال میں یہ کتاب نہ پڑھ سکا، مگر ایک بار خود عباسی صاحب مرحوم ہی نے مجھے ’’خلافت معاویہ و یزید‘‘ عنایت فرمائی تو اسی مطالعے کی لت کے ہاتھوںاس کا مطالعہ کرگزرا اور خلاف مزاج پاکر الماری میں سجا دی اور یوں عباسی صاحب کے افکار و آراء کا تعارف حاصل ہوگیا۔ لیکن اس موجوع پر ان سے گفتگو کی کبھی نوبت نہیں آئی، حالاں کہ انہوں نے بارہا سلسلہ چھیڑا، مثلاً ایک بار انہوں نے فرمایا ’’تم حسنی سید ہو یا حسینی؟‘‘ میں اس سے پہلے کئی حضرات سے سن چکا تھا کہ وہ شجروں اور انساب پر گفتگو کرتے ہیں ، اس لیے تڑاخ سے جواب دیا کہ ’’میں نے آپ سے کب کہا کہ میں سید ہوں؟‘‘ اس پر وہ خاموش ہوگئے۔ اسی طرح جب میں نے ’’سرسید ‘‘کے سیاسی کردار پر تنقید کی تو عباسی صاحب ایک روز فرمانے لگے: ’’کل ہمارے ایک دوست کہہ رہے تھے کہ تمہارے عزیز (میری طرف اشارہ تھا) تمہارے مقتدا (سرسید) پر بڑی سخت تنقید کی ہے‘‘ تو میں نے برجستہ جواب دیا کہ ’’جی ہاں وہ صاحب مجھ سے بھی کہہ رہے تھے مگر میں نے ان سے کہہ دیا کہ عباسی صاحب نے ہمارے نانا (سید حسینؓ) کو نہیں بخشا تو ہم ان کے مقتدا کو کیوں بخشتے‘‘، اس پر وہ بڑی دیر تک ہنسے اور بات آئی گئی ہوئی۔
عباسی صاحب سے ان ملاقاتوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ وہ معمولی صلاحیتوں کے آدمی تھے۔ عربی غالباً بالکل نہیں جانتے تھے، فارسی پر بھی عبور نہیں تھی۔ میں نے ان کو فارسی کی غلط عبارتین پڑھتے کئی بار سنا ہے۔ تحریر کا کام بھی وہ مسلسل نہیں کرتے رہے، آغاز عمر میں تاریخ امروہہ، تحقیق الانساب اور تذکرۃ الکرام لکھی تھیں۔ اس کے بہت عرصے بعد ۷۰ سال سے زیادہ کی عمر میں ’’خلافت معایہ و یزید‘‘ لکھی۔ اس کتاب کے سلسلے میں ان کو متعدد اہل علم و قلم کا تعاون حاصل تھا، جن میں سے ایک نام کے متعلق مجھے تحقیق ہے اور وہ ہے مولانا تمنا عمادی کا نام، جو ان کے لیے کتب تاریخ سے اقتباسات اور ان کے ترجمے لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔ ایک بار وہ عباسی صاحب کے یہاں چند روز مقیم بھی رہے اور وہاں بھی میں نے انہیں یہی کام کرتے دیکھا ہے۔
دوسرا تاثر میرا یہ ہے کہ وہ اپنی تحریک کے سلسلے میں مخلص نہیں تھے۔ زبان و قلم سے ردشیعیت کے باوجود اہل تشیع سے ان کے گوناگوں مراسم تھے۔ ایک بار میں پہنچا تو چند نام ور شیعہ اہل قلم ان کے یہاں بیٹھے تھے اور بڑا پُرتکلف ناشتہ کررہے تھے اور بہت اپنائیت کی باتیں ہورہی تھیں۔ ان کے جانے کے بعد از خود صفائی پیش کرنے لگے کہ ان بچوں سے وطن ہی سے مراسم ہیں، بڑی محبت کرتے ہیں، میرا بڑا لحاظ کرتے ہیں۔ میں نے ’’جی‘‘ کہہ کر بات ٹال دی کہ مجھے اس سے کیا دلچسپی؟ اسی طرح ایک بار انتخابات میں انہوں نے ایک شیعہ امیدوار کو ووٹ دیا اور میرے سامنے ایک صاحب کے سوال کے جواب میں اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس کے خاندان سے قدیم مراسم ہیں اور میں اسے اہل سمجھتا ہوں۔ ایک بار ان کی اہلیہ محترمہ، جو مجھ پر بڑی شفقت فرماتی تھیں، اپنے ایک ہمسائے کی شکایت کرنے لگیں کہ وہ آج صبح انہیں (عباسی صاحب کو) گالیاں دے رہا تھا اور یزید اور یزید کی اولاد تک کہہ گیا۔ اس پر میں نے ازراہِ تفنن کہہ مارا کہ ’’یہ تو آپ کے نقطہ نظر کے پیش نظر مدح ہوئی، قدح نہیں ہوئی۔‘‘ اس پر وہ بہت برہم ہوگئے اور اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ اور ان کی اہلیہ محترمہ کہنے لگیں ’’کیوں چھیڑتے ہو۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ میرے خیال میں وہ دل سے یزید دوست اور شیعہ دشمن نہیں تھے ،بلکہ دانستہ یا نادانستہ کسی اسلام دشمن تحریک یا طاقت کا آلہ کار تھے اور افتراق بین المسلمین کی مہم میں سرگرم تھے، میں نے ان میں شیعیت کے مظاہر تو کئی بار دیکھے (مثلاً مجالس تک ان کے یہاں برپا ہوتی تھیں اور وہ ذکر کرکے روتے اور رلاتے تھے) مگر ان کی پابندی احکام شریعت کا کوئی منظر اور واقعہ میرے علم و ذہن میں نہیں ہے۔ کم سے کم میں نے ان کو کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا ،نہ کسی سے سنا۔ تجارت اور معاشی منفعت بھی اس مہم میں یقینا ان کے پیش نظر تھی۔ ایک بار نیاز فتح پوری کا ایک خط انہوں نے ایک دوسرے خط کے دھوکے میں مجھے پڑھنے کے لیے دیا۔ میں بھی جب خط پڑھ چکا تو پتہ چلا کہ یہ وہ مطلوبہ خط نہیں ہے۔ خط واپس کیا تو وہ بھی چکرا سے گئے۔ بہرحال اس خط کا جو مفہوم ذہن میں مستحضر ہے، کچھ اس قسم کا تھا کہ خوب کتاب لکھی ہے، کچھ ہنگامہ گرم رہے گا،لطف رہے گا، خوب نکل رہی ہوگی۔ میں نے بھی اس پر تبصرہ لکھا ہے، کتابی شکل میں بھی آئے گا، اسے وہاں نکلوائیں اور اپنی کتاب کے اتنے نسخے تاجرانہ نرخ پر مجھے بھجوائیں، کہ تبصرہ پڑھ کر کتاب کی مانگ بھی آئے گی۔
اسی طرح ایک صاحب سے جو نہ خدا کے قائل تھے نہ مذہب کے ان سے اپنی تحقیق کا ذکر کرکے چاہتے تھے کہ وہ رائے دیں۔ انہوں نے کہا ’’میری رائے کا کیا کریں گے، میری نظر میں آپ کے حسین اور آپ کے یزید دونوں گھٹیا تھے، عالمی سطح پر ان کی حیثیت نہیں ہے، تاریخ عالم کے اکابر میں ان کو محسوب نہیں کیا جاسکتا۔ تخت کے دو معمولی امیدوار لڑ پڑے تھے اور ایک مارا گیا۔‘‘ اس پر عباسی صاحب نے تائید اور مسرت کا اظہار ایک قہقہے سے کیا اور انگریزی میں چند جملے کہے، جن کا مفہوم یہ تھا کہ بالکل یہی رائے میری اور ہر پڑھے لکھے آدمی (ایجوکیٹڈ) کی ہے، مگر ان صاحب (جنٹلمین) کے سامنے بات نہ کیجیے۔ یہ لوگ قدامت گزیدہ (آرتھوڈکس) ہوتے ہیں، عباسی صاحب نے مجھے انگریزی سے نابلد سمجھا تھا، میں نابلد ہی بنا رہا اور اجازت چاہی جو بڑی خوش دلی سے دے دی گئی۔ میرے بعد باہم گفتگو ہوئی ہوگی کہ آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں۔ میں تو خود روشن خیال اور آزاد فکر ہوں، مگر ایک فرقے کو بہکانا اور معاشی منفعت حاصل کرنا ہے۔ اس قسم کے حضرت کو صرف معاشی منفعت ہی حاصل ہوکر رہ جاتی ہے ،یا پھر اس کے ساتھ کوئی عالی منصب اور شہرت بھی، مگر اصل منفعت تو کفار کو حاصل ہوتی ہے، یہود کو حاصل ہوتی ہے، اسلام دشمنوں کو حاصل ہوتی ہے جنہیں اگر کوئی خطرہ ہے تو اس امت کی بیداری سے ہے۔ اس لیے وہ مسلمانوں کی صفوں میں انتشار اور ان میں تاریخی، کلامی اور فقہی مسائل پر اختلافات کی آگ کو اپنے دامن دولت سے ہوادے کر فروزاں کرتے ہیں۔
ا ن کے مسلک کے بودے پن کے سلسلے میں یہ دلچسپ واقعہ بھی سننے کا ہے۔ ایک بار معلوم ہوا کہ لاہور سے حکیم حسین احمد صاحب عباسی مرحوم آئے ہوئے ہیں اور محمود احمد عباسی صاحب کے یہاں مقیم ہیں۔ چنانچہ میں اور میرے رفیق درس اور عزیز دوست حکیم جامی صاحب (جو کوٹری سے حسین میاں سے ملنے کے لیے تشریف لائے تھے) عباسی صاحب کے یہاں پہنچے۔ حسین میاں تو نہیں ملے ،البتہ عباسی صاحب ضرور مل گئے اور حسب عادت وہی موضوع چھیڑ دیا۔ میں حسب دستور تحمل سے کام لیتا رہا، مگر جامی صاحب تحمل کے قائل نہیں اور رد باطل کے لیے ہمہ وقت آمدہ و مستعد رہتے ہیں ور زبان و بیان تک کی اغلاط کی تصحیح کو جہاد سمجھتے ہیں۔ چنانچہ عباسی صاحب اسلامی تاریخ کے مآخذ پر گفتگو کررہے تھے اور طبری وغیرہ کو نامعتبر بتا رہے تھے۔ اچانک سیدنا حسین کے لیے فرمانے لگے ’’انہیں خناق کا مرض تھا اور اطباء نے لکھا ہے کہ اس مرض میں مبتلا انسان کی قوت فیصلہ بہت متاثر ہوجاتی ہے۔‘‘ اب جامی صاحب کے جہاد کی گھڑی آگئی تھی، عباسی صاحب سے پوچھا کہ یہ بات کس نے لکھی ہے؟ عباسی صاحب روانی میں کہہ گئے کہ طبری نے لکھا ہے، اس پر جامی صاحب نے ایک بڑے زہریلے قسم کا طنزیہ قہقہہ لگایا اور بولے جی ہاں وہی طبری جو نامعتبر ہے، اس پر عباسی صاحب نے اپنے مؤقف کے ضعف کو اپنی برہمی سے قوت میں بدلنا چاہا اور آپے سے باہر ہوگئے۔ کھڑے ہوکر کہنے لگے ’’میرے بھائی (بابائے طب مرحوم و مغفور) کا شاگر ہوکر مجھ پر تنقید کرتا ہے‘‘ اور ایسی ہی حواس باختگی کی بہت سے باتیں بڑے جوش غضب کے عالم میں کہہ گزرے، جامی صاحب نے، جو ایسے معرکوں کے عادی و ماہر اور جسمانی صحت سے بھی مایہ دار ہیں، بڑے اطمینان اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا ’’بڑئے میاں! پہلے تو بیٹھ جائو، ہانپ رہے ہو،پھر تم اس یگانہ وقت اور باخدا بزرگ (بابائے طب) سے کیا نسبت رکھتے ہو اور ان سے نسبت جتاتے ہو جس کی تصدیق کا ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ اگر ہے تو اسے ثابت کرو اور اچھے آدمیوں کی طرح معقولیت سے بات کرو۔ اپنی باتوں کے تضاد کو رفع کرو اور اگر کشتی ہی لڑنا ہے تو لو میں بھی کھڑا ہوجاتا ہوں‘‘، (اسی دوران دونوں کی بلند آوازیں سن کر زنانے میں سے ایک نوجوان غالباً نواسہ نکل آیا، اسے مخاطب کرکے جامی صاحب نے پچکارتے ہوئے کہا) ’’میاں! ابا کی مدد کے لیے صرف تم سے کام نہیں چلے گا۔ اللہ کے فضل سے۲۵ آدمیوں سے بیک وقت لڑوں گا۔‘‘ وہ نوجوان تو مرعوب ہوکر پیچھے ہٹ گیا اور میں نے جامی صاحب کی آتش جلال کو سرد کرنے کے لیے کچھ کہنا چاہا تھا کہ جامی صاحب کڑکے ’’معاف فرمائیے محمود میاں! میں باطل اور گمراہ کن اور بے سروپا باتیں سن کر آپ کی طرح خاموش ہوجانا اور تردید کے لیے مناسب موقع کا انتظار کرنا گناہ سمجھتا ہوں، اب میں اس شخص کو بھگتنے کے لیے کیا کوٹری سے پھر کبھی آئوں گا؟ یا یہ مجھے معقول جواب دے ورنہ میں (اپنے بھرے بازو دکھاتے ہوئے) ان کو حرکت میں لائوں گا۔‘’‘ عباسی صاحب یہ عالم، یہ دنگ دیکھ کر بڑے خوفزدہ اور بدحواس سے ہوگئے تھے۔ میں نے اپنے مراسم کے زور پر جامی صاحب کو بہ جبر التواء جہاد پر آمادہ کیا اور ان کو گھسیٹتا ہوا وہاں سے لے آیا۔
عباسی صاحب سے آخری ملاقات یوں ہوئی کہ میرے فاضل دوست جناب اقتدا ہاشمی صاحب اور میں عباسی صاحب کے یہاں گئے، ہاشمی صاحب تاریخ اسلام پر بڑا عبوررکھتے ہیں اور ان کے اور عباسی صاحب کے درمیان کتب مطالعہ کا تبادلہ میں ہوتا رہتا تھا، تو ایک دن ہاشمی صاحب اور میں عباسی صاحب کے یہاں گئے، عباسی صاحب اور ہاشمی صاحب اسی موضوع (حسین و یزید) پر گفتگو کرنے لگے، میں ایک کتاب ہاتھ میں لے کر وقت گزارنے لگا۔ مطالعہ سے میری توجہ بلند ہوتی ہوئی آواز نے ہٹائی: ایڈیٹ؟ (بے وقوف) ہاں، ایڈیٹ تھا۔ علی ایڈیٹ، علی ایڈیٹ۔ یس علی ایڈیٹ، علی واز ایڈیٹ۔ اور ہاشمی صاحب جو پائوں اٹھائے تخت پر بیٹھے تھے، پائوں لٹکا کر جوتا پہنتے ہوئے مجھ سے کہنے لگے ’’حکیم صاحب! آپ ٹھہریں گے؟ میں تو چلا، اب برداشت کی بات نہیں رہی‘‘۔
میں نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ’’فوراً چلیے، اب یہاں کبھی نہیں آنا، توبہ توبہ!‘‘ اور عباسی صاحب ’’حکیم صاحب!، ہاشمی صاحب!‘‘ چیختے رہے، مگر ہم وہاں سے نکل آئے اور پھر کبھی وہاں نہیں گئے ، یہاں تک کہ ۱۹۸۰ء میں عباسی صاحب اس کے دربار میں پہنچ گئے جس کے سامنے ان کا باطن ظاہر ہوگا۔
استاذ تفسیر حدیث ومدیر ماہنامہ بینات،جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی صدر :وفاق المدارس العربیہ پاکستان سابق استاذ :جامعہ دارالعلوم کراچی
۲۴ جمادی الاخریٰ ۱۴۰۹ھ مطابق ۲ فروری ۱۹۸۹ء بروز پنج شنبہ پونے بارہ بجے کے قریب،ہمارے معمر ترین بزرگ، ماہنامہ بینات کے مدیر مسئول، وفاق المدارس العربیہ کے صدر عالی قد،ر اور جامعۃ العلوم الاسلامیہ کے استاذحدیث و تفسیر حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی سفر آخرت پر تشریف لے گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
جامعہ دارالعلوم کراچی ، ادارہ شرقیہ اور جامعہ بنوری ٹاؤن میں تدریس
حضرت مرحوم کا سن نوے سے بڑھ چکا تھا، ان کا شمار امام العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ صاحب نوراللہ مرقدہ کے قدیم ترین تلامذہ میں تھا۔ فراغت کے بعد دہلی کے مدرسہ امینیہ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ اسی کے ساتھ دارالمصنفین سے بھی تعلق رہا۔ عربیت کا خاص ذوق تھا اور علوم میں استعداد بڑی پختہ تھی۔ دہلی میں السنہ شرقیہ کی تعلیم کے لیے ایک ادارہ قائم کیا تھا جس میں مولوی فاضل اور منشی فاضل کی تیاری کرائی جاتی تھی، قیام پاکستان کے بعد کراچی منتقل ہوئے تو یہاں بھی اُسی طرز کا ایک ادارہ قائم کیا۔ جس سے بہت سے لوگوں نے استفادہ کیا۔ حضرت اقدس مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نے دارالعلوم کورنگی کی بنیاد رکھی تو وہاں تدریسی خدمات انجام دینے لگے، برادرم مولانا محمد تقی عثمانی زید مجدہم نے حضرت مرحوم کی اس دور کی کیفیت کا بہت خوبصورت نقشہ کھینچا ہے، مناسب ہوگا کہ اس کا اقتباس یہاں نقل کردیا جائے، مولانا لکھتے ہیں:
’’یہ وہ وقت تھا، جب ۱۳۷۷ھ (۱۹۵۷ء) میں دارالعلوم نانک داڑھ کی قدیم عمارت سے عالیہ جدید عمارت میں منتقل ہوا تھا۔ اس وقت دارالعلوم کے آس پاس نہ کورنگی کی آبادی تھی، نہ اس کا کوئی تصور، دارالعلوم کی زمین جنگلی جھاڑیوں اور ریتیلے ٹیلوں کے درمیان دو پختہ اور ایک زیرتعمیر عمارت پر مشتمل تھی۔ قریب ایک قدیم شرافی گوٹھ کے سوا کوئی آبادی نہ تھی۔ نہ بجلی، نہ پانی، نہ ٹیلیفون اور شہر سے رابطے کے لیے بس بھی ایک میل کے فاصلے سے ملتی تھی اور یہ پورا فاصلہ لق و دق صحرا پر مشتمل تھا۔ مولانا کے لیے ادارہ شرقیہ کی ذمے داری کو یک لخت چھوڑنا ممکن نہیں تھا اور اس لیے وہ دارالعلوم میں مستقل قیام بھی نہیں فرماسکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے دارالعلوم میں تدریس کے لیے روزانہ آمدورفت کا سلسلہ شروع کیا۔ شہر سے روزانہ دوبسیں بدل کر لانڈھی پہنچنا اور وہاں سے ایک ڈیڑھ میل کا فاصلہ اس طرح پیدل طے کرنا کہ ساتھ کتابیں بھی ہوتیں اور چونکہ مولانا چائے اور پان کے نہ صرف عادی ،بلکہ بلانوش تھے، اس لیے ساتھ چائے کا تھرماس بھی ہوتا اور پان کا سامان بھی اور پھر کئی گھنٹے جم کر درس دینا اور بعد میں اسی طرح شہر واپس جانا اور وہاں جاکر ادارہ شرقیہ کی ذمے داریاں نبھانا روزمرہ کا معمول تھا، جسے دیکھ کر ہم نوجوانوں کو بھی پسینہ آتا تھا اور یہ معمول ایک دو دن یا چند ماہ نہیں، مسلسل چار سال تک جاری رہا اور اس ساری مشقت کے صلے میں مولانا نے کوئی مالی معاوضہ لینا گوارہ نہیں فرمایا‘‘۔
دار العلوم کراچی میں دیوان حماسہ کی تدریس
’’برادرمحترم جناب مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب اور احقر کو یہ شرف حاصل ہے کہ اسی زمانے میں ہم نے دیوان حماسہ حضرت مولانا سے پڑھا۔ مولانا بڑے لطیف ادبی مذاق کے حامل تھے اور واقعہ یہ ہے کہ ان کے دیوان حماسہ کے درس کی حلاوت ۳۳ سال گذر جانے کے بعد بھی قلب و ذہن میں اسی طرح تازہ ہے اور دیوان حماسہ کے اشعار ان کے مخصوص انداز و آہنگ اور آواز کی اسی گھن گرج کے ساتھ آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں اور بہت سے اشعار کی تشریحات اور اس کے ذیل میں بتائے ہوئے افادات اسی طرح یاد ہیں، جیسے کل ہی ان سے یہ درس لیا ہو۔ درس کی یہ تاثیر بہت کم اساتذہ کے حصے میں آتی ہے کہ طالب علم کو سالہا سال گذرنے پر بھی اس کی چھوٹی چھوٹی باتیں ہی نہیں، استاذ کا لب و لہجہ بھی مستحضر رہ جائے‘‘۔
’’مولانا اپنے حماسہ کے درس میں الفاظ کی لغوی تحقیق اور نحوی ترکیب کے علاوہ شعر کے مختلف ممکن معانی پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالتے اور اس کے ذیل میں عربوں کی معاشرت، ان کی تاریخ، ان کی عادات و نفسیات اور بالخصوص جاہلی اور اسلامی عہد کے درمیان پیدا ہونے والے فرق کی ایسی وضاحت فرماتے کہ طلبہ کے سامنے عرب کی خانہ بدوش اور قبائلی زندگی کا نقشہ کھنچ جاتا۔ جاہلیت کی شاعری میں مشاہدہ کی جوقوت اور ذہنوں کی نفسیاتی کیفیت کا جو بے ساختہ بیان پایا جاتا ہے، اس سے خود بھی لطف لیتے اور پڑھنے والے کو اس لطف میں حصہ دار بناتے، چنانچہ اسی وقت سے حماسہ کے بیشتر اشعار جو مولانا سے پڑھے تھے، کسی کوشش کے بغیر ازبر ہوگئے تھے اور آج بھی جب کبھی وہ اشعار پڑھتا ہوں تو مولانا کی تصویر آنکھوں میں پھر جاتی ہے‘‘۔
جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن آمد
’’مولانا بڑے بلند آواز بزرگ تھے۔ دارالعلوم کی درس گاہوں اور دارالاقامہ کے درمیان کافی وسیع و عریض میدان حائل ہے اور اس وقت اس میدان میں ٹیلوں اور جھاڑیوں کی بھی کثرت تھی، لیکن ہم دارالاقامہ میں بیٹھ کر درسگاہ سے مولانا کی آواز سنا کرتے تھے اور اس طرح مولانا کی تشریف آوری کی اطلاع ہوجاتی تھی،دارالعلوم کے اس دور افتادہ مقام کا اور اس بے سروسامانی کے دور میں روزانہ شہر سے آکر کئی گھنٹے پڑھانا یقینا مولانا کے لیے ایک شدید مجاہدہ سے کم نہ تھے، لیکن مولانا نے یہ مجاہدہ کئی سال جاری رکھا۔ پھر بالآخر حضرت مولانا سید محمد یوسف صاحب بنوری ؒ کے مدرسہ میں جواب جامعۃ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹائون کے نام سے معروف ہے۔ تدریس شروع فرمادی۔ وہاں پہنچ کر مولانا نے رفتہ رفتہ ’’ادارہ شرقیہ‘‘ کے مشغلہ کو بالکل ختم ہی کردیا اور ہمہ تن مدرسہ کے ہوکر رہ گئے، تدریس کے علاوہ مولانا انتظامی امور میں بھی حضرت مولانا بنوری صاحب قدس اللہ سرہ کے دست و بازو بنے رہے اور جب حضرت مولانا نے مدرسہ سے ماہنامہ ’’بینات‘‘ جاری کیا تو اس کے مدیر اور طابع و ناشر کی حیثیت سے مولانا ہی کو منتخب فرمایا‘‘۔
مولانا میرٹھیؒ کاذوق نمازوعبادات
حضرت مولانا جیسی بزرگ شخصیت کا وجود ہمارے مدرسہ کے لیے خیر و برکت کا باعث تھا۔ ان کی بعض صفات اس ناکارہ کے لیے ہمیشہ لائق رشک رہیں، ان میں سب سے اہم نماز کی لذت ہے۔ حق تعالیٰ شانہ نے ان کو نماز کا خاص ذوق نصیب فرمایا تھا۔ انہیں تمام تر ضعف و ناتوانی اور معذوری کے باوجود نماز باجماعت اور صف اول کا ایسا اہتمام تھا جس کی مثایں اکابر اہل علم میں بھی بہت کمیاب ہیں۔ انہیں مہینوں نہیں بلکہ برسوں تک کبھی مسبوق دیکھنے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ صف میں ان کے برابر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کا کبھی اتفاق ہوتا تو ایک خاص خنکی اور سکینت کا احساس ہوتا تھا۔ حدیث شریف میں فرمایا ہے:
ان احدکم اذا قام فی الصلوٰۃ فانما یناجی ربہ، وان ربہ بینہ وبین القبلۃ (رواہ البخاری، مشکوٰۃ ص ۷۱)
’’بے شک تم میں سے ایک جب کھڑا ہوتا ہے۔ نماز میں تو اس کے سوا نہیں کہ سرگوشی کرتا ہے اپنے رب سے اور بے شک اس کا رب اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے۔‘‘
’’بے شک نمازی اپنے پروردگار سے سرگوشی کرتا ہے، پس اسے اُس چیز کو دیکھنا چاہیے، جس کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرتا ہے۔‘‘
نماز میں حضرت مولانا کے قلب کی کیا کیفیت ہوتی تھی؟ اس کو تو سینوں کے بھید جاننے والا ہی جانتا ہے، تاہم دیکھنے والوں کو حضرت مولانا کی نماز میں ’’فانما یناجی ربہ‘‘ کی جھلک نظر آتی تھی، وہ نماز کے سجدے میں دعائیں کرنے کے عادی تھے۔ ایک بار راقم الحروف سے فرمایا کہ حنفیہ کے یہاں فرض نماز کے سجدے میں دعا کا معمول کیوں نہیں۔ اس کی مشہور وجہ جو کتابوں میں لکھی ہے عرض کی گئی تو بگڑ کر فرمایا: نہیں جی! حدیث شریف میں دعا کا صاف حکم آیا ہے:
’’بندے کو اپنے رب کا سب سے زیادہ قرب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، لہٰذا کثرت سے دعا کرو۔‘‘
ایک اور حدیث میں ہے:
واذا سجدتم فاجتھدوا فی الدعاء فانہ فمن ان یستجاب لکم (نسائی، ج ۱ ص ۱۶۸)
’’اور جب سجدے میں جائو تو دعا میں خوب کوشش کیا کرو، کیونکہ یہ اس لائق ہے کہ اسے قبول کیا جائے۔‘‘
غرض کیا کہ یہ احادیث تونوافل سے متعلق ہیں۔ ویسے اگر مقتدیوں کو گراں نہ ہو تو فرض میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، اس پر خاموش ہوگئے۔
ایک بار فرمایا کہ مجھے پیشاب کی تکلیف ہوگئی ہے۔ میں نے نماز کے سجدے میں یہ دعا شروع کردی ہے: رب انی مسنی الضر وانت ارحم الراحمین۔ ان شاء اللہ جلد شفا ہوجائے گی۔
حج وعمرہ اور حرمین شریفین سے شغف
نماز کے بعد انہیں سب سے زیادہ شغف حج و عمرہ سے تھا، قریباً پچیس تیس سال سے سال میں دو مرتبہ حرمین شریفین کی حاضری کا معمول چلا آتا تھا، ایک بار رمضان مبارک میں عمرہ کے لیے، اور دوسری بار حج کے لیے، حج و عمرہ کے موسم میں جب تک انہیں ویزا نہ مل جاتا، ان پر بے قراری و بے چینی کی کیفیت طاری رہتی۔ وہ دوسری تمام دلچسپیوں کو بھول جاتے اور انہیں کسی دوسرے موضوع پر گفتگو کرنا یا سننا گوارا نہ ہوتا اور جب منظوری کی اطلاع آجاتی تو یکایک ان پر مسرت و شادمانی اور انشراح و انبساط کی ایسی کیفیت طاری ہوجاتی جسے ہر شخص ان کے چہرے مہرے سے پہچان سکتا تھا۔ رمضان مبارک میں معمول تھا کہ قبیل مغرب طواف شروع کرتے اور طواف ختم کرکے ملتزم پر افطار کرتے، آخر میں یہ معمول چھوٹ گیا تھا۔ ایک دن ملتزم کے سامنے بڑی حسرت سے فرمایا کہ پچیس سال سے یہاں روزہ افطار کرنے کا معمول رہا۔ ابھی کچھ عرصہ قبل احباب کی رائے ہوئی کہ حضرت مولانا کی ناتوانی و کمزوری اب حج کی مشقتوں کی متحمل نہیں، ان کے لیے چند قدم چلنا بھی مشکل ہے۔ مناسک کے دوران گرجانے اور بے ہوش ہوجانے کی نوبت بھی آئی۔ اس لیے اس سال حضرت کا ویزا نہ لیا جائے، چنانچہ جب انہیں ویزا نہ ملنے کی اطلاع دی گئی ان پر غم و اندوہ اور افسردگی کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ دیکھنے والوں کو رحم آنے لگا۔ گزشتہ سال بھی ان کا ویزا نہیں ہوا تھا۔ راقم الحروف کو بلوا کر بہت لجاجت کے انداز میں فرمایا:’’ مجھے ساتھ لے کر جائیے۔‘‘حج و عمرہ کے شائقین تو بہت دیکھے ہیں اور بعض خوش نصیبوں کو اس بارگاہِ اقدس کی حاضری کا شرف بھی بار بار حاصل ہوتا ہے۔ لیکن بیت اللہ سے عشق اور حج و عمرہ کے لیے سوزوگداز، عشق و انجذاب اور فریفتگی ووالہیت کی جو کیفیت حضرت مولانا میں دیکھی وہ اپنی مثال آپ تھی۔ فرماتے تھے کہ بس دو چیزوں کے لیے زندہ ہوں، ایک حرمین شریفین کی حاضری۔ دوسرے حدیث و تفسیر کا درس۔
حضرت مولانا کی ایک لائق رشک خصوصیت، اپنے کام سے ان کی بے پناہ لگن تھی۔ جو کام ان کے سپرد کردیا جاتا، یا جس کام کو وہ اپنے ہاتھ میں لے لیتے تھے۔ اس میں فنائیت کی حد تک ڈوب جانے کے عادی تھے اور جب تک وہ پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ جاتا، انہیں کسی دوسرے طرف متوجہ کرنے کی گنجائش نہیں تھی۔ عشاق کی اصطلاح میں ’’ان کے کوچہ میں رقیب کا گزر نہ تھا‘‘، اس دوران نہ انہیں کھانے پینے کا ہوش رہتا اور نہ راحت و آرام کا خیال آتا۔ صحت کے دنوں میں فرماتے تھے کہ ’’بس چائے اور پان دیے جائو، پھر جتنا چاہو بٹھائے رکھو‘‘۔
اس ناکارہ کی حاضری سے پہلے ’’بینات‘‘ کی ترتیب و ادارت کا کام انہی کے سپرد تھا۔ ان کو ’’بینات‘‘ کے کام میں اسی شان سے منہمک دیکھا۔ جب ’’وفاق المدارس العربیہ‘‘ کی تنظیم عمل میں آئی تو حضرت مولانا کو اس کا ناظم مقرر کیا گیا اور جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ حضرت مرحوم ہی کی شخصیت تھی، جس نے وفاق کو خونِ جگر سے سینچ کر پاکستان میں دینی مدارس کے لیے شجرۂ طوبیٰ بنادیا۔ اس ضمن میں ان کے واقعات و سوانح کی ایک تاریخ ہے۔
حضرت مولانا آہنی عزم و ارادہ کے مالک تھے۔ ان کے یہاں عزیمت ہی عزیمت تھی۔ وہ مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی رخصت پر عمل کرنے کے قائل نہیں تھے۔ آخری برسوں میں ان کی جسمانی قوتیں ان کے بلند حوصلہ اور جوان عزم کا ساتھ دینے سے معذور تھیں لیکن وہ اپنے ضعف و ناتوانی کی رعایت کرنے پر آمادہ نہ ہوتے، جس کی وجہ سے ان کے خدام کو بعض اوقات تشویش ناک صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا۔
کام ، آرام یا عبادات
ایک بزرگ کا ارشاد ہے کہ تم مومن کو تین چیزوں میں سے کسی ایک بھی مشغول دیکھوگے وہ یا تو اپنی معاش میں لگا ہوا ہوگا، یا عبادت میں مشغول ہوگا ،یا آرام کررہا ہوگا۔ حضرت مولانا کے لمحات زندگی انہی تین حرفوں کی شرح تھے۔ وہ کام، آرام یا عبادت کے سوا کسی چوتھی چیز میں مشغول نہیں ہوتے تھے۔ انہیں فضول مجلس آرائی، گپ تراشی اور تبصرہ بازی سے نفرت تھی۔ خصوصاً حرمین شریفین میں ان کا مجاہدہ بہت بڑھ جاتا تھا اور وہ اس سفر کا ایک ایک لمحہ وصول کرنا چاہتے تھے، راقم الحروف سے ایک بار فرمایا کہ اس سے قطع نظر کہ یہاں کے اوقات بہت قیمتی ہیں، میں یہ سوچتا ہوں کہ ہم نے اس سفر پر کتنے گرانقدر مصارف برداشت کیے ہیں، ہمارا یہاں کا ایک ایک دن ہزار ہزار روپے میں پڑتاہے۔ اس قدر گراں مصارف اٹھانے کے بعد ان اوقات کو ضائع کرنا کس قدر افسوس ناک حرکت ہے۔
حضرت بنوریؒ سے والہانہ عقیدت ومحبت
انہیں حضرت اقدس سیدی و سندی مولانا سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ و نوراللہ مرقدہٗ سے والہانہ عقیدت و محبت تھی۔ وہ انہیں اپنے شیخ حضرت امام العصر مولانا محمد انور شاہ کشمیری نوراللہ مرقدہ کا آئینہ سمجھتے تھے اور حضرت بنوری ؒ کی شخصیت میں انہیں اپنے محبوب شیخ ؒ کا سراپا جھلکتا نظر آتا تھا، انہوں نے حضرت بنوری ؒ کی وفات پر ’’نابغۃ العصر‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جو ’’بینات‘‘ کے ’’بنوری‘‘ نمبر میں شامل ہے، اس کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں:
حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوریؒ میری نظر میں
’’مدرسہ عربیہ اسلامیہ سے تعلق او روابستگی کے ابتدائی کسی سال میں ایک دن اپنی نشست گاہ میں حضرت مولانا ؒ تنہا تشریف فرماتے تھے۔میں کسی سلسلہ میں حاضر تھا، سلسلہ گفتگو تو مجھے یاد نہیں، بہرحال میں نے عرض کیا۔ حضرت میری آپ سے وابستگی کا راز صرف یہ ہے کہ میں آپ کے آئینہ میں اس محبوب ہستی کا عکس دیکھتا ہوں، جس سے مجھے انتہائی محبت ہے، حضرت مولانا یہ سن کر خاموش ہوگئے اور حقیقت ہے کہ میں آپ کی بیشتر مجلسوں میں صرف حضرت شیخ نوراللہ تعالیٰ مرقدہ کی باتیں آپ کی زبان سے سننے کے لیے بیٹھتا تھا، کیوں کہ آپ حضرت شیخ نوراللہ تعالیٰ مرقدہ کی باتوں کا ٹیپ ریکارڈ تھے۔ بالکل اسی انداز اور اسی لب و لہجہ میں بعینہ وہی الفاظ نقل فرماتے تھے جو شیخ کی زبان مبارک سے نکلے ہوتے، بالکل ایسا محسوس ہوتا تھا، جیسے حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ ہی بول رہے ہیں اور جب تک حضرت مولانا شیخ نوراللہ تعالیٰ مرقدہ کی باتیں نقل کرتے رہتے۔ انتہائی محویت اور کیف و سرور کے عالم میں سنتا رہتا اور جب آپ کسی دوسرے موضوع پر گفتگو کرتے تو تکدرکے ساتھ بیٹھا رہتا یا اٹھ کر چلا آتا اور جب حضرت مولانا مکان سے آہستہ آہستہ مدرسہ تشریف لاتے اور میں دور سے آپ کو دیکھتا تو بالکل ایسا محسوس ہوتا جیسے حضرت شاہ صاحب خراماں خراماں تشریف لارہے ہیں‘‘۔
’’اسی تعلق کی بنیاد پر جب مولانا عبدالرشید صاحب نعمانی نے جامعہ عباسیہ بہاولپور میں تقرر کے بعد ماہانہ رسالہ بینات کی ادارت سے استعفیٰ دیا اور آئندہ رسالہ پر اپنا نام نہ لکھنے پر اصرار کیا تو سوال پیدا ہوا کہ اب ’’مدیر مسئول‘‘ کس کو بنائیں، کیوں کہ مدیر مسئول بنانا چاہتے ہیں، جس کا فیصلہ یہ ہو کہ میں مدرسہ سے قبرستان ہی جائوں گا تو میرا نام دے دیجیے۔چناں چہ جب سے رسالہ کا مدیر مسئول میں ہوں، باوجودیکہ ادارت کا تمام کام مولانا محمد یوسف صاحب کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ اور عزم صرف حضرت مولانا بنوری ؒ کی دائمی رفاقت کی بنیاد پر ہی تھا جس کا باعث وہیں اشتیاق دیدار محبوب اور استماع کلام محبوب تھے، مگر افسوس کہ وفات کے مرحلہ پر پہنچ کر میں اس رفاقت کے عزم کو نہ نبھا سکا، وہ چلے گئے اور میں رہ گیا، مگر روزانہ قبر مبارک پر حاضری دیتا ہوں:’’ السلام علیکم یااھل القبور انتم سلفنا‘‘ کے بعد ’’وانا ان شاء اللہ بکم للاحقون‘‘ اسی امید پر کہتا ہوں کہ اللہ نے فضل و کرم سے آخرت میں پھر یہ رفاقت نصیب ہو۔ باقی یہ عہد بدستور ہے کہ زندگی بھر حضرت مولانا بنوری ؒ کی یادگار مدرسہ عربیہ اسلامیہ کو سینے سے لگائے رہوں گا اور مدرسہ کے علاوہ کسی بھی دوسری جگہ کام نہ کروں گا۔ اگرچہ وہاں دنیاوی منافع کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو‘‘۔
’’اپنا یہی عہد میں نے تیسرے یا چوتھے سال مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب بانی ندوۃ المصنفین دہلی کے سامنے دہرایا تھا جب کہ حضرت مولانا آخری عشرئہ رمضان میں مسجد نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں معتکف تھے اور مفتی عتیق الرحمن صاحب ان سے ملاقات کے لیے تشریف لائے تھے اور اطلاع ملنے پر میں حاضر ہوا تھا اور مفتی صاحب نے (نہ معلوم کیوں) مجھ سے مولانا کے سامنے دریافت کیا: ’’آپ مولانا کے مدرسہ میں مطمئن ہیں؟‘‘ تو میں نے عرض کیا۔ ’’نہ صرف مطمئن بلکہ میں نے تو حضرت مولانا سے عرض کیا ہے کہ میں مدرسہ عربیہ سے بس قبرستان ہی جائوں گا‘‘ ،میرا جواب موصوف نے کچھ عجیب حیرانی سے سنا، اس کے بعد میں اپنی جگہ پر جا بیٹھا‘‘۔
مولانا میرٹھی ؒ:ناکارہ کے کراچی آنے اوربینات میں تقررکا ذریعہ
احسان ناشناسی ہوگی اگر یہ ذکر نہ کروں کہ حضرت مولانا مرحوم اس ناکارہ کے عظیم محسن تھے کیوں کہ اس ناکارہ کے کراچی آنے کا ذریعہ وہی بنے تھے۔ یہ ۸۶-۱۳۸۵ھ کا قصہ ہے، یہ ناکارہ مدرسہ احیاء العلوم، ماموں کانجن ضلع لائل پور میں مدرس تھا، ان دنوں ڈاکٹر فضل الرحمن کے فتنہ تجدد کا غلغلہ تھا، ماہنامہ ’’بینات‘‘ اس تجدد کے اژدھا کا سر کچلنے کے لیے تابڑ توڑ ضربیں لگارہا تھا۔ میں نے بھی اس موضوع پر بینات میں شائع شدہ فضل الرحمانی اقتباسات کی مدد سے ایک مقالہ تیار کیا، جس کا عنوان تھا: ’’ڈاکٹر فضل الرحمن اور ان کے تحقیقاتی فلسفہ کے بنیادی اصول‘‘، اس مقالہ کی دو نقلیں تیار کیں، ایک برادرم مولانا سمیع الحق صاحب زید مجدہ مدیر ’’الحق‘‘ کو اشاعت کے لیے بھیج دی، اور دوسری حضرت مولانا مرحوم کی خدمت میں اس نوٹ کے ساتھ بھیجی کہ ’’اس مقالہ کو ’’بینات‘‘ میں چھپوانا مطلوب نہیں، چونکہ اس میں بعض نازک مسائل اور نازک تعبیرات آئی ہیں اس لیے اس کو ملاحظہ فرما لیجیے اور جہاں کوئی چیز اصلاح طلب نظر آئے اس کی اصلاح فرما کر اسے واپس کردیجیے، کسی پرچے میں چھپ جائے گا‘‘، میرے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی یہ خیال نہیں ہوا کہ یہ مضمون ’’بینات‘‘ میں شائع ہوجائے گا، میں اپنے آپ کو اس لائق نہیں سمجھتا تھا کہ میری تحریر ’’بینات‘‘ میں شائع ہوسکے۔
مولانا مرحوم نے اس مقالہ کو ملاحظہ فرمایا تو غالباً یہ خیال فرمایا کہ ’’ایں ہم بچۂ شتراست‘‘۔ حضرت اقدس بنوری نوراللہ مرقدہ کی خدمت میں انہوں نے نہ جانے کیا کہا کہ چند دن بعد حضرت بنوری ؒ کا گرامی نامہ اس ناکارہ کے نام موصول ہوا کہ تمہارا مضمون ’’بینات‘‘ میں شائع کیا جارہا ہے، ہماری خواہش ہے کہ تم رمضان المبارک ہمارے پاس گزارو، اور اگر یہ تعلق مستقل مستقل ہوجائے تو بہت اچھا ہے۔
یہ اس ناکارہ کے ’’بینات ‘‘ سے تعلق کی ابتدا تھی، جس کی تحریک حضرت مولانا مرحوم نے فرمائی اور یہ حضرت مولانا مرحوم کا اس ناکارہ کی گردن پر وہ احسان ہے، جس کے تشکر سے کبھی عہد برا نہیں ہوسکتا۔
مولانا میرٹھیؒ کے میرے نام دو کارڈ
اس ضمن میں حضرت مولانا مرحوم کے دو کارڈ اس ناکارہ کے پاس محفوظ چلے آتے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد مدیر بینات کی یہ امانت ’’بینات‘‘ کے سپرد کرتا ہوں:
(۱) از دفتر رسالہ بینات کراچی ۲۵ ؍اگست۱۹۶۶ء محترمی کثر اللہ خیرکم السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہٗ
’’مقالہ‘‘موصول ہوا (۱)، بہت خوب ہے، میں خاص طور پر شکرگذار ہوں اس لیے کہ آپ کے لیے توجہ دلانے کے باوجود (۲) میں ’’فضل الرحمانیات‘‘ کے لیے انتہائی کوشش کے باوجود وقت نہیں نکال سکا تھا جزاکم اللہ خیراً۔آپ نے اس ضرورت کو پورا کردیا۔
اب لگے ہاتھوں اتنا اور کیجیے کہ ماہنامہ ’’فکر و نظر‘‘ کے سہ سالہ تمام پرچے سامنے رکھ کر(۳) ایک فہرست بنایے کہ اب تک ادارہ تحقیقات اسلامی کے اس ترجمان ماہنامہ ’’فکر و نظر ‘‘ میں کن کن عنوانات پر کن کن اہل قلم نے خامہ فرسائی کی ہے اور کس کس طریق پر دین کو مسخ کیا گیا ہے۔ اس کا عنوان رکھیے ’’ادارہ تحقیقات اسلامی کی اسلامی تحقیقات‘‘ یا ’’ادارہ تحقیقات اسلامی کے اسلامی شاہ کار‘‘۔ یہ فہرست مضمون نگاروں کے نام سے بنایے، مثلاً رفیع اللہ قریشی نے کن کن عنوانات پر مضمون لکھے اور کس طرح مسخ و تحریف کی، اور عمر احمد عثمانی نے کن عنوانات پر، علیٰ ہذا القیاس۔ اور نیت یہ رکھیے کہ اللہ تعالیٰ یا تو صحیح معنی میں اس ادارہ کو اسلامی ادارہ بنادیں (۴) ورنہ اس کو غرق فرمادیں، اس لیے کہ آنے والی نسل کے لیے یہ ادارہ انتہائی خطرناک مواد فراہم کررہا ہے۔
آپ کا یہ مضمون رسالہ میں اس طرح شائع ہوگا کہ اس کی سو دو سو کاپیاں رسالہ کے علاوہ پمفلٹ کی شکل میں تیار کرالی جائیں گی۔ اسی طرح مذکورہ بالا مضمون کی۔ اور ان کو حسب ضرورت ملک میں تقسیم کیا جائے گا۔اس سلسلے میں اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے لکھئے۔ خاص طور پر اگر فل اسکیپ سائز رول دار کاغذماموں کانجن میں نہ ملتا ہو تو فوراً لکھئے، میں بھیج دوں گا۔
والسلام خادم محمد ادریس
(۲) از ادارہ ماہنامہ بینات مدرسہ عربیہ اسلامیہ کراچی نمبر ۵ رجب ۸۶ھ اکتوبر ۶۶ء عزیز محترم کثر اللہ خیرکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا سن لی ہے اور حضرت ہارون کی طرف آپ کو خادم کے ساتھ ’’بینات‘‘ کے ادارت کے لیے شریک کار بنادیا ہے۔ ماہنامہ بینات کے دو مستقل عنوانات اب تک ہم پر قرض ہیں جو ہم اب تک ادا نہیں کرسکے: ایک ’’جواہر حدیث‘‘ دوسرے ’’جواہر قرآن‘‘ (لف و نشر و غیر مرتب) (۵) طے ہوا تھا کہ ہر ماہ چار صفحے ایک عنوان کے لیے اور چار دوسرے عنوان کے لیے آیات قرآن عظیم اور احادیث رسول اللہ ﷺ کا انتخاب عام معاشرہ کی اصلاح کی غرض سے غیراہل علم (علماء) طبقہ کی فہم کے معیار سے کیا جائے۔ حسن انتخاب ظاہر ہے ،ذوق انتخاب پر موقوف ہے۔ میں آپ کو اس کارِخیر کے لیے بہت موزوں پاتا ہوں،میری درخواست ہے کہ ’’بینات‘‘ کے ماہانہ ۸ صفحات کے ذمے دار آپ بن جایے۔ وقتی تقاضوں کے پیش نظر ایک یا چند آیات اسی طرح ایک یا چند احادیث کا انتخاب فرما کر لکھ دیا کریں، محض زادِراہ آخرت کی نیت سے۔
ازراہِ کرم ’’بینات‘‘ کے تین چار ماہ قبل کے شمارے اٹھا کر دیکھئے، جواہر حدیث کے عنوان سے اخلاق النبی ﷺ سے متصل، کبھی پہلے، کبھی بعد، یہ انتخاب مولانا محمد طاسین ناظم مجلس علمی کراچی کے نام سے شائع ہوا ہے، وہی انداز بہت مناسب ہے۔ مولانا نے ’’بینات‘‘ کے خادموں سے ناراض ہوکر اس سلسلہ کو بند کردیا ہے۔ میں ہمہ وقت کی مصروفیت کے باوجود اس زادِراہ کے لیے وقت نہ نکال سکا اور تین چار ماہ سے یہ سلسلہ بند ہے۔ آپ جہاں بھی ہوں، ماموں کانجن یا ملتان یا کراچی یا حرمین شریفین میں (اللہ تعالیٰ آپ کو بلالیں، آمین) یہ عنوان اپنے ذمے سمجھیں۔ اگر کسی زمانے میں زیادہ فرصت نصیب ہو تو چند ماہ کے لیے اکٹھا لکھ دیں اور تجزیہ کردیں ورنہ ماہ بماہ بھیجتے رہیں۔ آخر میں پھر بارگاہ رب العزت میں دعا کرتا ہوں:
رب اشددبہ ازری واشرکہ فی امری کی نسبحک کثیرًا ونذکرک کثیرًا انک کنت بنا بصیرًا
دل کہہ رہا ہے کہ دعا ضرور قبول ہوگی اور جواب آئے گا:
اس دنیا سے رخصت ہونے والوں کے ساتھ رب کریم کا معاملہ کیا ہوتا ہے؟ اس کو تو وہ علیم و خبیر ہی جانتا ہے، لیکن بعض آثار و قرائن اور علامات سے کچھ اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کریم مالک نے رحمت و عفو کا معاملہ فرمایا ہوگا۔
حضرت مولانا مرحوم کی وفات بھی اچھی علامات کا مظہر تھی، ۲۵ جمادی الاخریٰ جمعرات کی صبح کو طبیعت زیادہ ناساز تھی۔ اس لیے نماز فجر کے لیے تشریف نہیں لاسکے۔ گھر ہی پر نماز پڑھی۔ ڈاکٹر کو بلایا گیا، انہوں نے آرام کا مشورہ دیا۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد سوانوبجے جلالین شریف کے درس کے لیے نیچے تشریف لائے اور فرمایا کہ ڈاکٹر نے تو منع کیا تھا، مگر میرا جی چاہا کہ سبق پڑھالوں۔ سورئہ مطففین کے نصف ان الابرار لفی نعیم سے آخر سورہ تک کا درس دیا اور اوپر تشریف لے گئے۔ یہ ان کا آخری درس تھا۔ صحیح مسلم شریف کا ایک سبق باقی تھا جو بعد میں حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن صاحب مدظلہ العالی نے پورا کرایا۔ ۱۱ بجے کے قریب غنودگی کی سی کیفیت طاری ہوئی، تیمارداروں نے خیال کیا کہ چونکہ رات نیند نہیں ہوسکی تھی، اس لیے سونا چاہتے ہیں۔ اسی دوران ڈاکٹر صاحب تشریف لائے۔ انہوں نے دیکھ کر فرمایا کہ آخرت وقت ہے۔ چنانچہ پونے بارہ بجے روح پرواز کر گئی اور نوے سال کا تھکا ماندہ مسافر آرام سے ابدی نیند سوگیا۔
تجہیز و تکفین کے بعد عصر و مغرب کے درمیان جنازہ زیارت کے لیے دارالحدیث میں رکھا گیا، چہرئہ مبارک نہایت روشن اور سفید تھا جو سفید کفن میں بے حدپرنورلگ رہا تھا۔ مغرب کے بعد حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن مدظلہ العالی نے نمازِ جناز پڑھائی اور دارالعلوم کورنگی میں تدفین عمل میں آئی۔
صد شکر کہ آپہنچا لب گور جنازہ لو بحرِ محبت کا کنارہ نظر آیا
حق تعالیٰ شانہ ٗ اپنے اس مخلص بندے سے رحمت و عنایت کا خاص معاملہ فرمائیں۔ ان کی زلاّت اور لغزشوں کو معاف فرما کر رحمت و رضوان کے درجات عالیہ نصیب فرمائیں۔
اللھم ابدلہ داراً خیراً من دارہ واھلاً خیراً من اھلہ۔ اللھم لاتحرمنا اجرہٗ ولا تفتنا بعدہ، ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غللا للذین امنوا، ربنا انک روف رحیم۔ سبحان ربک رب العزۃ العزۃ عمّا یصفون، وسلامٌ علی المرسلین، والحمدللہ رب العالمین۔
حواشی
(۱)مقالہ سے وہی مضمون مراد ہے جس کا اوپر ذکر ہوا، یعنی ’’ڈاکٹر فضل الرحمن اور ان کے تحقیقاتی فلسفہ کے بنیادی اصول‘‘ یہ مقالہ ماہنامہ ’’الحق‘‘ اکوڑہ خٹک میں جمادی الاولیٰ ۸۶ھ میں شائع ہوا تھا اور حضرت مولانا مرحوم نے بہت سی پیوندکاری کےبعد اسے بینات جمادی الاخریٰ ۸۶ھ کے ضمیمہ کے طور پر شائع کیا تھا۔
(۲) یہ ناکارہ فضل الرحمانی فتنہ کی مؤثر سرکوبی کے لیے حضرت اقدس بنوری ؒ کو بھی اور حضرت مولانا محمد ادریس ؒ کو بھی خط لکھتا رہتا تھا۔ ان خطوط کی طرف اشارہ ہے۔
(۳) ’’فکر و نظر‘‘ ادارئہ تحقیقات اسلامی کا اردو ماہنامہ تھا، میرے پاس ماموں کانجن میں اس کے پرچے کہاں سے آتے؟ میں نے اپنے مقالہ میں ’’فکر و نظر‘‘ کے حوالے ’’بینات‘‘ ہی سے نقل کیے تھے۔
(۴)حق تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے حضرت مرحوم کی یہ دعا قبول فرمالی، ڈاکٹر فضل الرحمان آنجہانی کو جلد ہی ادارے سے چھٹی مل گئی۔ اس کے بعد اس ادارے کی حالت میں رفتہ رفتہ تبدیلی آئی اور اس نے اچھی اسلامی خدمات انجام دیں۔ اب ادارے میں غلبہ الحمدللہ خوش عقیدہ لوگوں کا ہے۔
(۵) افسوس ہے یہ قرض اب تک باقی ہے ’’بینات‘‘ سے منسلک ہونے کے بعد یہ ناکارہ کوشش کرتا رہا کہ جو حضرات اس کام کے اہل ہیں، وہ اس خدمت جلیلہ کو بجا لائیں، لیکن کوئی بزرگ اس کے لیے آمادہ نہ ہوئے۔ میرے حضرت بنوری ؒ نے فرمایا کہ جواہر حدیث کی جگہ تم خود ہی ترمذی شریف کے ابواب الزہد کا ترجمہ شروع کردو۔ لیکن یہ ناکارہ اس کی جرأت نہ کرسکا۔ حضرت بنوری ؒ کے وصال کے بعد حضرت اقدس سیدی و سندی قطب الاقطاب مولانا الحاج الحافظ محمد زکریا کاندہلوی مہاجر مدنی نوراللہ مرقدہ کی خدمت میں لکھا کہ یہ خدمت کسی پر محول فرمادیں۔ حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ نے فرمایا کہ میں تمہی کو حکم کرتا ہوں۔ چناں چہ حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ کے حکم پر اس ناکارہ نے یہ سلسلہ شروع کردیا۔ الحمدللہ ابواب الزہد، ابواب صفۃ القیامۃ، ابواب صفۃ الجنۃ اور ابواب صفۃ جہنم مکمل ہوچکے ہیں۔ انشاء اللہ یہ حصہ الگ کتابی شکل میں بھی آرہا ہے اور اب ’’ابواب البرّالصلہ‘‘ کا سلسلہ شروع ہوگا، لیکن شدید خواہش کے باوجود تفسیر قرآن کا سلسلہ شروع کرنے کی یہ ناکارہ اب تک جرأت نہیں کرسکا۔ بعض احباب نے اصرار کیا کہ مسجد میں جو درس قرآن کا سلسلہ جاری ہے، صاف کرکے اسی کو ’’بینات‘‘ میں دے دیا جائے، لیکن اس کی بھی جرأت نہیں ہوئی۔ اگر کسی واجب الاحترام بزرگ نے حکم فرمادیا ہوتاتو تعمیل حکم واجب ہوجاتی۔ ولعل اللہ بحدث بعد ذالک امرًا۔
(۶) حضرت مولانا مرحوم نے خط کے آغاز اور خاتمہ پر جس دعاکا ذکر فرمایا اور اس کی قبولیت کا جزم ظاہر فرمایا۔ واقعی اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرمالیا۔یہ خط رجب ۸۶ھ کا لکھا ہوا ہے اور جب کے ختم ہوتے ہی یہ ناکارہ یکم شعبان ۸۶ھ کو ’’بینات‘‘ کی خدمات کے لیے بلالیا گیا۔ ۲۳ سال ہوتے ہیں (شعبان ۸۶ ھ سے شعبان ۱۴۰۹ھ تک) کہ ناکارہ حضرت مولانا کی اس دعا کی برکت سے بحمداللہ اس خدمت میں مشغول ہے۔ حق تعالیٰ شانۂ اپنی رحمت سے حضرت مولانا مرحوم کی دعا کے طفیل بقیہ زندگی بھی اسی میں صرف کرادیں اور محض اپنے لطف و عنایت سے آخرت میں بھی اپنے ان مخلص بندوں کی رفاقت و معیت نصیب فرمادیں۔ امین یارب العالمین۔
تحریر:مولانا ڈاکٹر مفتی عبدالواحد رحمہ اللہ ترتیب وتدوین:مفتی عمر انور بدخشانی
سیرت نگاری میں مارٹن لنگز کے چند گمراہانہ افکار
اردو بازار لاہور کے مشہور ناشر و تاجر کتب ’’الفیصل‘‘ نے چند سال پہلے رسول اللہ ﷺ کی سیرت ایک کتاب ’’حیات سرور کائنات محمد ﷺ‘‘ کے نام سے شائع کی ہے۔ یہ ترجمہ ہے انگریزی کتاب Mohammad (Basced on Earliest Sources)کا جوایک انگریز نومسلم مارٹن لنگز (Martin Lings)نے لکھی ہے۔ مصنف کا اسلامی نام ابوبکر سراج الدین ہے اور انگریزی میں اصل کتاب لاہور کے مشہور ناشر کتب سہیل اکیڈمی نے شائع کی ہے۔
مغرب کا کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص اسلام قبول کرلے تو مسلمانوں کو بجا طور پر اس پر خوشی ہوتی ہے اور وہ اس کے عقیدت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اسی عقیدت کے تحت ’’سہیل اکیڈمی‘‘ اور ’’الفیصل‘‘ نے یہ کتاب شائع کی ہوگی، لیکن اس خوشی اور عقیدت کے باوجود مسلمانوں کو ان کے بارے میں چوکنارہنا چاہیے کیوں کہ ان حضرات کا اسلام کے بارے میں علم عام طور پر محض اپنے مطالعہ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اہل حق علماء سے اُن کا رابطہ کم ہی ہوتا ہے۔ اس لیے یہ حضرات بعض ایسی غلطیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ جب وہ غلطیاں سامنے آتی ہیں تو وہ خوشی اور عقیدت کافور ہوجاتی ہے اور مسلمانوں کی حسرتوں میں ایک اور حسرت کا اضافہ ہوجاتا ہے۔
ہم نے سیرت کی اس کتاب کا از اول تا آخر مطالعہ کیا، اس کی وجہ ہم بعد میں ذکر کریں گے، پہلے ہم اس کتاب سے متعلق چند باتیں ذکر کرتے ہیں۔
کیا نبی اور پیغمبر کی ضرورت صرف عربوں کو تھی؟ کیا عیسائی اور یہودی نبی اور پیغمبر کے محتاج نہ تھے؟
۱- صفحہ ۵۵ پر ہے: ’’ورقہ عیسائی ہوگئے تھے اور اس علاقے کے عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ ایک نبی کی بعثت کا زمانہ قریب آلگا ہے۔ جہاں تک یہودیوں کا تعلق ہے۔ جن کے لیے آس کا قائل ہونا آسان تر تھا، کیوں کہ انبیاء کے سلسلہ مسیح ؑ پر ختم ہوچکا تھا۔ ایک نبی کا انتظار کرنے کے بارے میں تقریباً وہ سب کے متفق تھے۔ ان کے ربی اور دانش مند انہیں یقین دلاتے تھے کہ ایک نبی بس آنے ہی والا ہے۔ اس کی آمد سے متعلق بیشتر علامات جن کی پیشین گوئی ہوچکی تھی ظاہر ہوچکی تھیں۔ یہ ربی یہودیوں کو یہ بھی یقین دلاتے تھے کہ آنے والا نبی یہودی ہی ہوگا، کیوں کہ وہی برگزیدہ امت ہیں’’عیسائی‘‘۔ اور ورقہ ان میں سے ایک تھے جو اس مسئلے میں اپنے سکوک رکھتے تھے۔ انہیں کوئی وجہ نظر نہ آتی تھی کہ آخر وہ نبی قبائل عرب میں سے کیوں نہ ہو؟ یہودیوں سے بڑھ کر عربوں کو ایک نبی کی حاجت تھی۔ یہودی کم از کم اس حد تک تو دین ابراہیمی کے پیرو تھے کہ ان کے یہاں بت نہ تھا اور وہ خدائے واحد کے پرستار تھے اور ایک نبی کے سوا کون تھا جو عر کے بادیہ نشینوں کو معبودان باطل کی پرستش سے نجات دلا سکتا تھا‘‘۔
بادی النظر میں تو ہر پڑھنے والا یہی سمجھے گا کہ مصنف نے امر واقع کو ذکر کیا ہے، لیکن اگر کچھ غور کیا جائے تو پڑھنے والا ضرور چونکے گا۔ مثلاً یہ کہـ:
’’انہیں (یعنی عیسائیوں کو) کوئی وجہ نظر نہ آتی تھی کہ آخر وہ نبی قبائل عرب میں سے کیوں نہ ہو۔‘‘
’’یہودیوں سے بڑھ کر عربوں کو ایک نبی کی حاجت تھی۔‘‘
ہم کہتے ہیں کہ جب نبی کی ضرورت کو بیان کیا جارہا ہو اور یہ بھی تسلیم کیا جائے کہ وہ نبی تمام قوموں کے لیے اور تمام انسانوں کے لیے ہو تو ضرورت تو ہر قوم کو تھی۔ پھر مصنف کا طرز عمل کہ عربوں کی ضرورت کو تو تفصیل سے بیان کیا اور اُن کی بت پرستی کے تمام گوشوں کو آگے پورے ایک پیرے میں بیان کیا، لیکن عیسائیوں کی ضرورت کو سرے سے ذکر ہی نہیں کیا اور یہود کی ضرورت کو عربوں سے کمتر خیال کیا، حالاں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے جو دینی حالات تھے وہ آخرت کے اعتبار سے مشرکین عرب سے کچھ بھی بہتر نہ تھے۔ قرآن پاک میں’’ مغضوب علیھم ‘‘اور ’’ضالین‘‘ یہودیوں اور عیسائیوں ہی کو کہا گیا ہے۔
پھر مصنف کا یہ کہنا کہ: ’’یہ ربی یہودیوں کو یہ بھی یقین دلاتے تھے کہ آنے والا نبی یہودی ہی ہوگا۔‘‘ یہ بات بھی حقیقت کے خلاف ہے، یہ تو یہودیوں نے جب نبی ﷺ کا انکار کیا تب یہ بہانہ بنایا ،ورنہ اس سے پہلے وہ کوئی ایسا دعویٰ نہ کرتے تھے بلکہ وہ جانتے تھے اور بتاتے بھی تھے کہ نئے آنے والا نبی مکہ مکرمہ کی طرف سے ظاہر ہوں گے اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کریں گے۔
سیرت ابن ہشام میں ہے،ابن اسحاق نے نقل کیا ہے کہ سلمہ بن سلامہ ؓ جو کہ اصحاب بدر میں سے ہیں انہوں نے بنی عبدالاشہل میں سے اپنے ایک یہودی پڑوسی کا قصہ ذکر کیا کہ اس نے ایک مرتبہ مجمع عام میں قیامت اور حساب و کتاب، جنت اور دوزخ کا ذکر کیا۔ لوگوں کے کچھ سوال کرنے پر اس نے بتایا:
نبی مبعوث من نحو ھذہ البلاد واشار بیدہ ولی مکۃ والیمن
ان علاقوں کی طرف سے ایک نبی مبعوث ہونے والے ہیں اور اپنے ہاتھ سے مکہ اوریمن کی طرف اشارہ کیا۔ سیرت ابن ہشام ہی میں ہے ابن اسحاق نے یہودی قبیلہ بنو قریظہ کے ایک بڑے آدمی سے یہ واقعہ ذکر کیا کہ شام کا ایک یہودی مدینہ منورہ آکر آباد ہوگیا۔ وہ بہت ہی عبادت گزار تھا۔ اپنی وفات کے وت اس نے مدینہ منورہ کے یہودیوں کو نصیحت کی کہ میں نے شام کا زرخیز علاقہ چھوڑ کر تنگی اور بھوک کا یہ علاقہ محض ایک نبی کے انتظار میں اختیار کیا ہے، کیوں کہ ان کا زمانہ آچکا ہے اور اسی شہر کی طرف وہ ہجرت کرکے آئیں گے۔
اسی طرح ابن اسحاق نے مدینہ منورہ کے لوگوں کے اسلام قبول کرنے کی یہ وجہ ذکر کی کہ انصار کا مدینہ کے یہودیوں سے مستقل جھگڑا رہتا تھا۔ یہودی اُن کو کہتے تھے کہ ایک نبی کی بعثت کا زمانہ قریب آگیا ہے۔ ہم ان کے ساتھ ہوکر تمہیں خوب قتل کریں گے۔ جب نبی ﷺ کا ظہور ہوا تو انصار کایہودیوں کی دھمکی یاد آئی اور انہوں نے اسلام قبول کرنے میں سبقت کی اور یہود نے کفر کیا۔ (سیرت ابن ہشام، ص ۲۲۵ تا ۲۲۸)
ہم کہتے ہیں کہ اگر مصنف کے کہنے کے مطابق علمائے یہود نے لوگوں کو باور کرایا تھا کہ آنے والا نبی یہود میں سے ہوگا تو انصار رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے سے پہلے آپ کے غیر یہودی ہونے پر یقینا تردد اور پس و پیش کرتے۔
مصنف کی بات اس اعتبار سے بھی غلط ہے کہ قرآن پاک میں ہے یہود آپ کو اپنے بیٹوں کی پہچانتے ہیں۔ اگر یہودی علماء اور عوام کے دماغوں میں یہی بات بھری ہوتی کہ آنے والے نبی کی پہچان یہ ہے کہ وہ یہودی میں سے ہوگا تو قرآن کا یہ دعویٰ غلط ٹھہرتا۔
غرض مصنف مارٹن لنگز یا ابوبکر سراج الدین کی یہ کوشش نظر آتی ہے کہ وہ اپنے قارئین کو بتائیں کہ نبی ﷺ عیسائیوں کے لیے نبی نہ تھے بلکہ اصلاً صرف عربوں کے لیے تھے۔البتہ جیسے آگے واضح ہوگا، ان کے نزدیک آپ کی نبوت اور آپ کا دین اس اعتبار سے عالمی ہے کہ اور اقوام کے لوگ اس کو قبول کرسکتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ کی نبوت پوری ’’امت ‘‘کے لیے یاکسی ’’قوم‘‘کے لیے ؟
۲- صفحہ ۱۱۶ پر مصنف لکھتے ہیں:
’’حضرت خدیجہ ؓ کو تسلی دیتے ہوئے ورقہ بن نوفل نے کہا ’’بالیقین محمد(This People)اس ’’قوم ‘‘کے نبی ہیں‘‘:
وانہ لنبی ھذہ الامۃ
یعنی بلاشبہ یہ اس امت کے نبی ہیں۔
پھر دوبارہ خود نبی ﷺ کو خطاب کرکے کہا:
والذی نفسی بیدہ انک لنبی ھذہ الامۃ
قسم ہے اس ذات کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے آپ اس امت کے نبی ہیں۔
’’امت ‘‘اور ’’قوم‘‘ میں جو فرق ہے وہ محتاج بیان نہیں، لیکن مصنف نے یہاں ’’قوم ‘‘کا لفظ استعمال کرکے اپنے مخصوص فکر کا اظہار کیا ہے۔
مسلمانوں کی خوشی کی وجہ رومیوں کی فتح نہیں!
۳-صفحہ ۶۹۰ پر لکھا ہے:
’’غزوہ حنین پر زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ شہنشاہ ہرقل نے مقدس صلیب یروشلم واپس پہنچادی اور یہ کارروائی رومیوں کی ایرانیوں پر آخری فتح کی تکمیل کی علامت بن گئی۔ وہ فتح جس کی وحی نے پیشین گوئی کی تھی اور جس کے بارے میں کہا تھا کہ اس دن اہل ایمان خوشی منائیں گے۔ واقعی یہ خوشی منانے کا دن تھا۔ ایرانیوں کو شام اور مصر دونوں مقات سے اپنی فوجوں کا انخلا کرنا پڑا‘‘۔
مصنف کی اس عبارت سے عام قاری یہی سمجھے گا کہ رو میوں کی فتح ہی اہل ایمان کی خوشی کا سبب تھی، حالانکہ قرآن پاک میں ہے:
ویومئذ یفرح المومنون بنصراللہ
’’اس دن اہل ایمان خوش ہوں گے اللہ کی مدد کی وجہ سے‘‘،اور اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ کی مدد دو طرح سے حاصل ہوئی:
(۱) اسی دن مسلمانوں کو بھی مشرکین عرب پر جنگ بدر میں فتح حاصل ہوئی۔
(۲)مشرکین عرب کے خلاف قرآن کی پیشین گوئی پورا ہونے کی وجہ سے۔
مارٹن لنگز اور حضور اکرم ﷺ کے اقدام کی تحقیر
۴- صفحہ ۶۹۱ پر لکھتے ہیں:
’’مدینے میں افواہ کی گرم بازاری تھی کہ ہرقل نے یثرب کے خلاف اپنی لمبی مہم کے پیش نظر فوج کو ایک سال کی پیشگی تنخواہ دے دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رومی جنوب میں بلقاء پہنچ چکے ہیں اورانہوں نے عاملہ، غسان، جزام اور لخم کے قبائل کو جمع کرلیا ہے۔ یہ خبریں جزوی طور پر مبالغہ آمیز اور جزوی طور پر خلاف حقیقت تھیں۔ سب سے بڑھ کر یہ اب تک عام طور پر معلوم نہ تھا کہ ایرانی مہم کے دوران ہرقل نے یہ خواب دیکھا تھا کہ پورے شام پر ایک مختون شخص کی حکومت کا غلبہ ہے جس کو اس نے وہ مکتوب نگار قرار دیا، جس نے اس کو اسلام کی دعوت دی تھی۔ یہ خواب اتنا زوردار اور اتنا واضح تھا کہ جنوب کی جانب اس کے کوچ اور ایک حد تک خود شام کے دفاع کو اس نے متاثر کیا۔ وہ اب یروشلم سے حمص لوٹ چکا تھا اور اپنے اس یقین کی بناء پر کہ پورا صوبہ ہی بالآخر اسلامی فوجوں کے ذریعے پامال ہوجائے گا اپنے جنرلوں کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ نبی ﷺ سے معاہدہ صلح کرلیا جائے اور شام کا صوبہ اس شرط پر دے دیا جائے کہ شمالی سرحدوں کے آگے مزید پیش قدمی نہ ہوگی۔ اس تجویز پر ان کی حیرت اور اس سے ان کی شدید ناگواری اور عدم اتفاق کے سبب اس نے اس تجویز کو ترک کردیا، مگر وہ اپنا خواب کبھی نہ بھولا‘‘۔
’’نبی ﷺ بھی یقین رکھتے تھے کہ اللہ ان کی اسلامی فوجوں کے لیے شام کا دروازہ کھول دے گا اور خواہ اس کے لیے آپ ﷺ کے نزدیک وقت آگیا تھا یا اس لیے کہ آپ ﷺ چاہتے تھے کہ اپنی فوجون کو ناگریز شمالی مہم کے لیے کچھ تربیت دیں۔ آپ ﷺ نے رومیوں کے خلاف مہم کا اعلان کردیا اور اب تک کی ہمیشہ سے زیادہ مسلح اور بھاری فوج یکجا کرنے کے بندوبست میں لگ گئے‘‘۔
پھر صفحہ ۶۹۵ پر لکھا ہے:
’’فوج نے بیس دن تک تبوک میں قیام کیا۔ یہ واضح تھا کہ رومیوں کی جانب سے خطرے کی افواہ بالکل بے بنیاد تھی اور دوسری طرف شام کی موعودفتح کا وقت بھی نہیں آیا۔‘‘
ہم کہتے ہیں کہ مصنف نے یہاں رسول اللہ ﷺ کے اقدام کی خاصی تحقیر کی ہے، جس کا بیان یہ ہے:
ٍ(۱) مصنف نے یہ تاثر دیا کہ محض ایک بے بنیاد افواہ پر مسلمانوں نے اقدام کیا، حالاں کہ ہرقل کی شام پر قبضہ میں دلچسپی نہ رہی تھی۔
(۲) رسول اللہ ﷺ نے شام کی فتح کے وقت کے بارے میں اندازہ کرنے میں خطا کی۔
(۳) رسول اللہ ﷺ کا اگر تربیت دینے کا ارادہ تھا تو وہ بھی پورا نہ ہوسکا۔محض ساز و سامان اکٹھا کرنا اور فوج کو جمع کرنا کوئی کارنامہ نہ تھا، کیوں کہ مسلمان تو جنگجو لوگ تھے، جن کو بہت سی جنگوں کا تجربہ ہوچکا تھا۔ اس سے پہلے جنگ موتہ کا تجربہ بھی ہوچکا تھا۔
اس کتاب کے مطالعہ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ مارٹن لنگز ، گائے ایٹن ، فرتھ جوف شواں اور فلسفہ وحدت ادیان
ہم نے اس کتاب کا مطالعہ کیوں کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تقریباً تیرہ چودہ سال پیشتر امریکا میں مقیم چند مسلمانوں کی طرف سے کیے ایک سوال کی خاطر ہم نے مارٹن لنگز اور ان کے دیگر ساتھیوں مثلاً فرتھ جوف شواںFrithjof Schuon اور گائے ایٹنEaton وغیرہ کی کچھ کتابوں کا مطالعہ کیا اور معلوم ہوا کہ یہ لوگ درحقیقت’’ وحدت ادیان‘‘ کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک رسول اللہ ﷺ اور قرآن کو نہ ماننے والا بھی اسلام میں داخل ہے۔ ان لوگوں نے تصوف کو اوڑھنا بچھونا بنا دیا ہے، لیکن اپنے گمراہ اور غیر اسلامی فکر کی وجہ سے یہ قرآن پاک کی تحریف معنوی پر بھی جری ہیں۔ سیرت کی مذکورہ کتاب دیکھ کر ہمیں ڈر ہوا کہ انہوں نے اپنے فکر کو اس میں بھی سمویا ہوگا اور خصوصاً عیسائیت کے بارے میں جو ان کے اندر نرم گوشہ ہے اس کی وجہ سے ہم مذکورہ بالا اقتباسات تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اب آپ ان کی تحریروں کے اقتباسات سے ان کی گمراہی فکر کو ملاحظہ فرمائیے۔ ان پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں:
Islam & The Destiny of Manکے مصنف گائے ایٹن نے لکھا:
Since the word of Islam means “Self-surrender” (to God), it is in this sense that most commentators and translators understood the verse acknowledging that the surrender of heart and will and mind to God is a basic principle of every authentic religion.
1) Whosoever follows any other religion than al-Islam, it shall not be accepted of him, and in the Hereafter he will be among the losers.
چونکہ لفظ’’ اسلام ‘‘کا مطلب ہے (خدا کے سامنے) اپنے آپ کو تسلیم کردینا اس لیے اکثر مفسرین اور مترجمین آیت:
ومن یتبغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الآخرۃ من الخسرین
ؔ(جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین اختیار کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا)میں ’’اسلام ‘‘کا یہی مذکور مطلب سمجھتے ہیں۔ اور اس طرح اعتراف کرتے ہیں کہ دل و دماغ اور ارادے کو خدا کے آگے تسلیم کردینا ہر مستند دین کا بنیادی اصول ہے۔
مارٹن لنگزنے لکھا:
In the same context, versed affirming that Muhammad has been sent for all people have to be understood in a less monopolizing way than they have been throughout the centuries by Muslims with little or no general knowledge about other religions and their distribution. What the Quran tells us here is that Islam, unlike Judaism or Hinduism, is a world religion. But it is not denying that Buddism and Christianity are also world religions, that I, open to everybody, at last in principle. These last words are important, “for God doth what He will’ and our only means of knowing His will in this respect are by the results. With regard to the world as it has been in its geographical distribution of peoples for the last two thousand years. It will not escape the notice of an observant Muslim any more than an observant Christian that there is, spatially speaking, a certain sector in which providence has worked wonders for Buddhism and done relatively little for either Christianity or Islam. The same Muslim will also notice that there is another sector in which Providence has worked wonders for the Christianity and done very little for the other religions.
اس سیاق میں وہ آیات جن میں یہ دعویٰ ہے کہ حضرت محمد ﷺ تمام لوگوں کے لیے بھیجے گئے ان کو اجارہ داری سے کمتر طریقے پر سمجھنے کی ضرورت ہے بہ نسبت اس کے جد صدیوں سے مسلمان سمجھے چلے آئے ہیں، حالانکہ ان کو دیگر ادیان اور ان کے پھیلائو کے بارے میں عام معلومات بھی یا تو بہت کم تھیں یا سرے سے نہ تھیں۔ قرآن ہمیں جو بتاتا ہے وہ یہ ہے کہ یہودیت اور ہندمت کے برخلاف اسلام ایک عالمی دین ہے، لیکن قرآن بدھ مت اور عیسائیت کے عالمی دین ہونے کی نفی نہیں کرتا جیسا کہ کم از کم اصولی طور پر ہر ایک کے سامنے عیاں ہے یہ آخری الفاظ ’’اللہ جو ارادہ کرتے ہیں اُس کو کر گزرتے ہیں‘‘ بہت اہم ہے اوریہاں اللہ کے ارادے کو صرف اس کے نتائج اور اثرات ہی سے جانا جاسکتا ہے۔ پچھلے دو ہزار سال میں مختلف اقوام کی جغرافیائی تقسیم کے اعتبار سے جہاں تک دنیا کا تعلق ہے تو ایک تیز نگاہ عیسائی کی طرح ایک تیز نگاہ مسلمان کی نظر سے یہ بات مخفی نہ ہوگی کہ دنیا میں ایک حصہ ایسا ہے جہاں فضل خداوندی نے بدھ مت کی بہت مدد کی اور دیگر ادیان کے لیے خواہ وہ عیسائیت ہو یا اسلام ہو بہت کم کیا ہے۔ وہی مسلمان اس بات کا بھی مشاہدہ کرے گا کہ دنیا میں ایک اور حصہ ایسا ہے جس میں خدا کے فضل نے عیسائیت کے دیگر ادیان کی بہ نسبت بہت زیادہ مدد کی ہے:
ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون۔
وہ اللہ ایسا ہے کہ اس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کردے گو مشرک کیسے ہی ناخوش ہوں۔
اس آیت کے بارے میں مارٹن لنگز کا تبصرہ پڑھیے:
The most that a sound intelligence can accept are the claims which naturally result from the fact the Islam represents the most recent Divine Intervention upon the earth. But these claims, though considerable; are relative, not absolute; and a Muslim intellectual in the modern world will not find peace of mind except by assenting to this. It should not however be difficult for him to do so, for a glance at those passages of the Quran on which the theologians. Exclusivism is based shows that the verses in question call for a deeper and more universal interpretation than is generally given.
One of these passages is the following:
He it is who hath sent his messenger with the guidance and the religion of Truth, that He may make it prevail over all religion, though the idolators are averse.
This verse can be given a narrower or wider interpretation. Its more immediate meaning is clearly the narrower one: the messenger is Muhammad, the religion of Truth is the Quranic message and the idolaters are the pagan Arabs; Persians, Berbers, and certain other pagans. But what of the words that He may make it prevail over all religion? It is here that the crux of the matter may be said to lie.
Whatever the disadvantages of modern education, it serves to implant a more global concept of world history and geography than is normally held by members of traditional civilization which tend, as we have seen, to be aloof and introspective. The wider knowledge is a mixed blessing, but where it exists it must be taken into account. An intelligent Muslim, living in the modern world, is bound to realize sooner or later, suddenly or gradually, not only that the Quranic message has not been made to prevail over all religion, but also that providence itself is directly responsible for the short-coming. The shock of this realization may shatter his belief unless he is enabled to understand that the verse in question has a wider significance. in the narrower sense, all religion can only be taken to mean all religion in your part of the world. But if all religion be interpreted in an absolute sense, and if idolators are made to include such people as Germans and Celts, many of whom were still pagan at the outset of Islam, then the religion of Truth must also be given its widest application, and the words once again’ must be understood (i.e. He it is who hath sent…), for the divinity has sent messengers before, and never with anything other than the religion of Truth. These last four words, like the term Islam itself, can be taken in a universal sense, to include all true religion. The Quran makes it clear that the religions of Adam, Noah, Abraham, Moses, and Jesus may be called Islam in the literal meaning of submission to God. In this sense, Islam may be said to have been made to prevail over all religion. But in its narrower sense, Islam has only been allowed to prevail overall religion in a limited part of thw world. It is now fourteen hundred years since the revelation of the Quran and Providence has allowed non. Quranic modes of the religion of Truth remain as barriers of the Quranic message in more than half the globe.
فہم سلیم جو زیادہ سے زیادہ قبول کرسکتی ہے وہ وہ دعوے ہیں جو اس حقیقت کے قدرتی نتائج ہیں کہ اسلام روئے زمین پر سب سے جدید تصرف الٰہی ہے یہ دعوے اگرچہ معتدبہ ہیں لیکن مطلق نہیں بلکہ اضافی ہیں۔ جدید دنیا کا ایک مسلمان دانشور اس بات کو تسلیم کیے بغیر بے چین رہے گا اور اس کو تسلیم کرنا اس کے لیے دشوار بھی نہیں ہے کیوں کہ قرآن کی وہ آیات جن پر علماء دینیات کی فکر عدم شرکت (دین غیر) مبنی ہے۔ ان پر ایک نظر ڈالنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ زیر بحث آیات کی جو تاویل عام طور پر کی جاتی ہے وہ اس سے کہیں زیاہ عمیق اور عالمگیر تفسیر و تاویل کا تقاضا کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ آیت ہے:
ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون۔
’’وہ اللہ ایسا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام دینوںپر غالب کردے گا گو مشرک کیسے ہی ناخوش ہوں۔‘‘
اس آیت کا محدود مفہوم بھی لیا جاسکتاہے اور وسیع مفہوم بھی لیا جاسکتا ہے، بادی النظر میں اس کا جو معنی سامنے آتا ہے وہ وہ ہے جو محدود ہے، یعنی یہ کہ محمد رسول ہیں اور دین حق قرآنی پیغام ہے اور مشرکین میں بت پرست عرب، آتش پرست، بربر اوربعض دیگر جاہلی اقوام لیکن پھر ان الفاظ کا کیا مطلب ہوگاکہ وہ اس کو تمام ادیان پر غالب کردے۔ اصل مسئلہ اور عقدہ تو یہی ہے۔
جدید تعلیم کے جو بھی نقصان ہوں لیکن اس کا یہ فائدہ ضرور ہے کہ تنہا اور خودبینی میں مشغول روایتی تہذیب کے افراد دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ کا جو تصور رکھتے ہیں۔ جدید تعلیم اس سے بڑھ کر عالمی تصور دیتے ہے۔ وسعت علمی اگرچہ ایک ملی جلی نعمت ہے، لیکن اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ جدید دنیا میں رہنے والا دانشور مسلمان جلد یا بدیر، اچانک یا تدریجاً اس حقیقت کو سمجھنے پر مجبور ہوگا کہ قرآنی پیغماکو دیگر تمام ادیان پر غلبہ نہیں دیا گیا اور اس کوتاہی کو براہ راست ذمہ دار خود فضل خداوندی ہے۔ اس حقیقت کا ادراک صدمہ بن کر شاید اس کے عقیدے کو بکھیر کر رکھ دے اگروہ یہ سمجھنے کے قابل نہ ہو کہ اس آیت کا مطلب اتنا محدود نہیں بلکہ اس سے کہیں وسیع ہے۔ ہاں محدود معنی میں یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ دنیا کے تمہارے حصے میں دیگر تمام ادیان پر غلبہ دیا گیا ہے، لیکن اگردیگر ادیان کو مطلق لیا جائے اور بت پرستوں میں جرمنوں اور Celtsوغیرہ قوموں کو بھی شمارکیا جائے کہ جن میں بہت سے ابتدائے اسلام کے وقت بت پرستی میں مبتلا تھے، پھر دین حق کا اطلاق وسیع تر رکھنا پڑے گا اور آیت کے الفاظ کو دوبارہ سمجھنا پڑے گا (اس طرح سے) کہ خدا نے ہی پہلے بھی رسولوں کو بھیجا ہے اور صرف دین حق ہی دے کر بھیجا ہے۔ لفظ اسلام کی طرح ان چارالفاظ ارسلہ رسولہ بالھدی و دین الحق کا بھی عالمی مفہوم لیا جاسکتا ہے، تاکہ ان میں تمام سچے ادیان شامل ہوجائیں۔ قرآن نے یہ واضح کردیا ہے کہ (حضرات) آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کے ادیان کو لغوی معنی یعنی خداکی تابعداری کے اعتبار سے اسلام کہا جاسکتا ہے۔ اس طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کو دیگر تمام ادیان پر غلبہ دیا گیا، جب کہ محدود تر معنی کے اعتبار سے اسلام کو دنیا کے دیگر تما م ادیان پر صرف ایک محدود علاقے میں غلبہ دیا گیا ہے۔ قرآن کو نازل ہوئے چودہ سو سال ہوچکے ہیں اور خود فضل خداوندی نے دین حق کے غیر قرآنی طریقوں کو نصف سے زیادہ دنیا میں قرآنی پیغام کے لیے حجاب و رکاوٹ بناکر رکھا ہوا ہے۔
مارٹن لنگز نے لکھا:
A religions claim to unique efficacy must be allowed the status of half-truth because there is, in fact in the vast majority of cases, no alternative choice.
’’دین کے بارے میں یہ دعویٰ کہ تنہا وہی مؤثر ہے اس کو صرف نصف حقیقت قرار دیا جاسکتا ہے، کیوں کہ ایک عظیم اکثریت کے لیے حقیقت میں کوئی متبادل اختیار نہیں ہے‘‘۔
Frithjof Schuonفرتھ جوف شواں نے لکھا:
For those who come face to face with the founder of a new religion, the lack of alternative choice becomes as it were absolute in virtue of the correspondingly absolute greatness of the Divine Messenger himself. It is moreover at its outset, that is, during its brief moment of ‘absoluteness, that the claims of religion are for the most part formulated. But with the passage of time, there is inevitably a certain leveling out between the new and the less new, the more so in that less new may have special claims on certain peoples.
جن لوگوں کا سابقہ ایک نئے دین کے بانی سے ہوتا ہے تو چوں کہ اُن کے سامنے کوئی متبادل اختیار نہیں ہوتا اور رسول کی عظمت مطلقہ ان کے ذہنوں میں چھائی ہوتی ہے، اس لیے وہ یہی خیال کرتے ہیں کہ یہی دین مطلق ہے۔ مطلقیت (یعنی ملطق سمجھنے) کے اس مختصر زمانے میں ہی دین کے بارے میں (ایسے) دعوے وجود میں آتے ہیں، لیکن پھر جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے تو نئے اور پرانے ادیان کے درمیان ناگزیر طور پر ایک توازن قائم ہوجاتا ہے۔ خصوصاً اس اعتبار سے کہ پرانے ادیان بھی بعض قوموں پر اپنی خصوصیت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔
آگے ہم مارٹن لنگز وغیرہ کے فلسفہ وحدت ادیان کا دلائل سے رد کرتے ہیں۔
وحدت ادیان کی تردید یعنی رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد قرآنی اسلام ہی میں نجات منحصر ہونے کے دلائل
(۱) ذلک الکتب لاریب فیہ ھدی للمتقین۔ الذین یومنون بالغیب ویقیمون الصلٰوۃ ومما رزقنتھم ینفقون والدین یومنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالآخرۃ ھم یوقنون اولئک علی ھدی من ربھم واولئک ھم المفلحون۔
ترجمہ: یہ کتاب ایسے ہے جس میں کوئی شبہ نہیں۔ راہ بتلانے والی ہے خدا سے ڈرنے والوں کو۔ وہ خدا سے درنے والے لوگ ایسے ہیں کہ یقین لاتے ہیں چھپی ہوئی چیزوں پر اور قائم رکھتے ہیں نماز کو اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے ان میں سے خرچ کرتے ہیں اور وہ لوگ ایسے ہیں کہ یقین رکھتے ہیں اس کتاب پربھی جو آپ کی طرف اتاری گئی ہے اور ان کتابوں پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری جاچکی ہیں اور آخرت پر بھی وہ لوگ یقین رکھتے ہیں۔ بس یہ لوگ ہیں ٹھیک راہ پر جو اُن کے پروردگار کی طرف سے ملی ہے اور یہی لوگ ہیں کامیاب۔
اس آیت میں خدا سے ڈرنے والوں کی صفات بیان کرکے ہدایت و فلاح کو ان میں منحصر ہونا ذکر کیا ہے۔ ان کے اوصاف میں سے ایک وصف ایسا مذکور ہے جو مسلمانوں کے علاوہ کسی اور اہل مذہب میں نہیں پایا جاتا، یعنی قرآن پر ایمان۔
(۲) وآمنوا بما انزلت مصدقالما معکم ولا تکونوا اول کافربہ
ترجمہ:’’اور (اے بنی اسرائیل) ایمان لے آئو اس کتاب پر جو میں نے نازل کی ہے (یعنی قرآن پر) ایسی حالت میں کہ وہ تصدیق کرنے والی ہے اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے اور مت بنو تم سب میں پہلے انکار کرنے والے اس قرآن کے)۔
مذکورہ بالا آیت میں یہود و نصاریٰ کو حکم ہے کہ وہ قرآن پر ایمان لائیں اور انکار کرنے سے منع کیا اور انکار کرنے کو کفر بتایا۔
(۳) وقالوا کونوا ھودا اونصاری تھتدوا قل بل ملۃ ابراھیم حنیفا وماکان من المشرکین قولوا آمنا باللہ وما انزل الینا وما انزل الی ابراہیم واسمٰعیل واسحاق ویعقوب والاسباط وما اوتی موسٰی و عیسٰی وما اوتی النبیون من ربھم لانفرق بین احد منھم ونحن لہ مسلمون فان آمنوا بمثل بما آمنتم بہ فقد اھتدوا وان تولوا فانما ھم فی شقاق فسیکفیکھم اللہ وھو السمیع العلیم (۱۳۵ تا ۱۳۷- سورہ بقرہ)
ترجمہ:’’اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم لو گ یہودی ہوجائو یا نصرانی ہوجائو تم بھی ہدایت پر ہوجائوگے۔ آپ کہہ دیجیے کہ ہم تو ملت ابراہیم پر رہیں گے جس میں کجی کا نام نہیں اور ابراہیم ؑ مشرک بھی نہ تھے۔ کہہ دو کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور اس پرجو ہمارے پاس بھیجا گیا اور اس پربھی جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام اور اولاد یعقوب کی طرف بھیجا گیا اور اس پربھی جو حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کو دیا گیا اور اس پربھی جو کچھ اور انبیاء علیہم السلام کو دیا گیا ان کے پروردگار کی طرف سے اس کیفیت سے کہ ہم ان میں سے کسی ایک میں بھی تفریق نہیں کرے اور ہم تو اللہ تعالیٰ کے مطیع ہیں، سو اگر وہ بھی اسی طریق سے ایمان لے آئیں جس طریق سے تم ایمان لائے ہو تب تو وہ بھی ہدایت پر لگ جائیں گے اور اگر وہ روگردانی کریں گے تو وہ لوگ تو برسرمخالفت ہیں ہی تو آپ کی طرف سے عنقریب ہی نمٹ لیں گے ان سے اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ سنتے ہیں جانتے ہیں۔‘‘
ان آیات میں مسلمانوں کی زبانی ان کے عقائد و ایمانیات کہلوائے گئے اور پھر ان کو معیار بناکر یہود و نصاریٰ کو ان معیار کے مطابق ایمان لانے کی دعوت دی اور واضح طور پر بتادیا کہ اگر انہوں نے اس معیار کو اختیار کیا تو ہدایت پائیں گے، ورنہ اس سے روگردانی کی صورت میں ہدایت سے ہٹے ہوئے ہوں گے۔
(۴) ان الدین عنداللہ الاسلام وما اختلف الذین اوتوا الکتاب الا من بعد ماجاء ھم العلم بغیا بینھم ومن یکفر بایت اللہ فان اللہ سریع الحساب فان حاجوک فقل اسلمت وجھی اللہ ومن اتبعن وقل للذین اوتوا الکتب والامین ء اسلمتم فان اسلموا فقد اھتدوا وان تولوا فانما علیک البلغ۔
ترجمہ:’’بلاشبہ دین (حق و مقبول) اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے اور اہل کتاب نے جو اختلاف کیا ایسی حالت کے بعد کہ ان کو (اسلام کے حق ہونے کی) دلیل پہنچ چکی تھی۔ محض ایک دوسرے سے بڑا بننے کی وجہ سے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار کرے گا (جیسا کہ ان لوگوں نے کیا) تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بہت جلد اس کا حساب لینے والے ہیں(اسلام کے حق ہونے کی دلیل قائم ہونے کے بعد) پھر بھی اگر یہ لوگ آپ سے حجتیں نکالیں تو آپ فرمادیجیے کہ (تم مانو یا نہ مانو) میں تواپنا رخ خاص اللہ کی طرف کرچکا اور جو میرے پیرو تھے وہ بھی (اپنا رخ خاص اللہ کی طرف کرچکے۔ یہ کنایہ ہے اس سے کہ ہم سب اسلام اختیار کرچکے) اور کہیے اہل کتاب سے اور عرب سے کہ کیا تم بھی اسلام لائے ہو۔ سو اگر وہ لوگ اسلام لے آئیں تو وہ لوگ بھی راہ پر آجائیں اور اگر وہ لوگ روگردانی کریں تو آپ کے ذمہ صرف پہنچا دینا ہے۔‘‘
(۵) واذ اخذ اللہ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتب وحکمۃ ثم جائکم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ قال ء اقررتم واخذتم علی ذلکم اصری قالوا اقررنا قال فاشھدوا وانا معکم من الشاھدین فمن تولی بعد ذلک فاولئک ھم الفاسقون افغیر دین اللہ یبغون ولہ اسلم من فی السموت والارض طوعا و کرھا والیہ یرجعون۔ قل آمنا باللہ وما انزل علینا وما انزل علی ابراھیم واسمٰعیل واسحق ویعقوب والاسباط وما اوتی موسی و عیسی والنبیون من ربھم لانفرق بین احد منھم ونحن لہ مسلمون ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الآخرۃمن الخاسرین۔
ترجمہ:اور جب کہ اللہ تعالیٰ نے عہد لیا انبیاء سے کہ جو کچھ میں تم کو کتاب اور علم (شریعت) دوں پھر تمہارے پاس کوئی (اور) پیغمبر آئے جو مصداق ہو اس (علامت) کا جو تمہارے پاس (کی کتاب و شریعت میں) ہے (یعنی دلائل معتبرہ عندالشرع سے اس کی رسالت ثابت ہو) تو ضرور تم اس رسول پر اعتقاد بھی لانا اور اس کی طرفداری (و مدد) بھی کرنا۔ (پھر) فرمایا کہ آیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا عہد قبول کیا۔ وہ بولے ہم نے اقرار کیا۔ ارشاد فرمایا تو (اپنے اس اقرار پر) گواہ رہنا اور میں اس پر تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں (یعنی واقعہ کی اطلاع اور علم رکھنے والا ہوں)۔
سو جو شخص (امتوں میں سے) اس (عہد) کے بعد پھرا تو ایسے ہی لوگ بے حکمی کرنے والے ہیں۔ کیا پھر دین خداوندی کے سوا کسی اور طریقہ کو چاہتے ہیں، حالاں کہ حق تعالیٰ (کی یہ سان ہے کہ ان) کے (حکم کے) سامنے سب سرافگندہ ہیں۔ جتنے آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں خوشی سے اور بے اختیاری سے اور سب خدا ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔
آپ فرمادیجیے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور اس پر جو ہمارے پاس بھیجا گیا اور اس پر جو ابراہیم و اسماعیل و اسحاق و یعقوب اور اولاد یعقوب کی طرف بھیجا گیا اور اس پر بھی جو موسیٰ و عیسیٰ اور دوسرے نبیوں کو دیا گیا ان کے پروردگار کی طرف سے اس کیفیت سے کہ ہم ان میں سے کسی ایک میں بھی تفریق نہیں کرتے (کہ کسی پر ایمان رکھیں اور کسی پر نہ رکھیں) اور ہم تو اللہ ہی کے مطیع ہیں اور جو شخص اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کو طلب کرے گا تو وہ اس سے مقبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں تباہ کاروں میں سے ہوگا۔
نوٹ: یہاں یہ واضح رہے کہ انبیاء سے یہ عہد ان کی امتوں سے بھی ہے۔
(۶) قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفرلکم ذنوبکم (آل عمران، ۳۱)
ترجمہ:’’آپ فرمادیجیے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میرا اتباع کرو۔ خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمہارے گناہوں کو معاف کردیں گے۔‘‘
اس آیت میں خطاب عام ہے تمام انسانوں سے ہے جن میں یہود و نصاریٰ بھی آگئے اور دیگر اہل ادیان بھی۔ سبکے لیے رسول اللہ ﷺ کا اتباع لازم ہے۔ اس کے علاوہ اللہ کی محبت اور اپنے گناہوں کی مغفرت حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ایک حدیث میں آیا ہے:
ولو کان موسٰی حیّا ماوسعہ الا اتباعی
اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو انہیں میری اتباع کے علاوہ چارہ نہ ہوتا۔
(۷) یاایھا الذین آمنوا ان تطیعوا فریقا من الذین اوتوا الکتاب یردوکم بعد ایمانکم کافرین۔
ترجمہ:’’اے ایمان والو! اگر تم کہنا مانو گے کسی فرقہ کا ان لوگوں میں سے جن کو کتاب دی گئی ہے تو وہ لوگ تم کو تمہارے ایمان لائے پیچھے کافر بنادیںگے۔‘‘
اہل کتاب کے کسی بھی گروہ کی اطاعت کا موجب کفر ہونا محض اسی بناء پر ہے کہ وہ خود کفر میں مبتلا ہیں، لہٰذا قابل اعتبار ایمان و ہدایت کا انحصار صرف اسلام میں ہوا۔
(۸) یاایھا الناس قد جاء کم الرسول بالحق من ربکم فامنوا خیرا لکم وان تکفروا فان للہ ما فی السموت والارض۔
ترجمہ:’’اے تمام لوگو تمہارے پاس یہ رسول سچی بات لے کر تمہارے پروردگار کی طرف سے تشریف لائے ہیں، سو تم یقین رکھو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا (کیوں کہ نجات ہوگی) اور اگر تم منکر رہے تو خدا تعالیٰ کی ملک ہے یہ سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے)۔
(۹) یااھل الکتاب قد جاء کم رسولنا یبین لکم کثرا مما کنتم تخفون من الکتب ویعفو عن کثیر قد جاء کم من اللہ نور وکتب مبین یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلم ویخرجھم من الظلمت الی النور باذنہ ویھدیھم الی صراط مستقیم۔
ترجمہ:’’اے اہل کتاب! تمہارے پاس ہمارے یہ رسول آئے ہیں۔ کتاب میں سے جن امورکا تم اخفا کرتے ہو ان میں سے بہت سی باتوں کو تمہارے سامنے صاف صاف کھول دیتے ہیں اور بہت سے امور کو واگذاشت کردیتے ہیں۔ تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی ہے اور (وہ) ایک واضح کتاب ہے (یعنی قرآن مجید) کہ اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں کو جو کہ رضائے حق کے طالب ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتے ہیں اور ان کو اپنی توفیق سے تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آتے ہیں اور ان کو راہ راست پر قائم رکھتے ہیں۔
(۱۰) یااھل الکتب قد جاء کم رسولنا یبین الکم علی فترۃ من الرسل ان تقولوا ماجاء نا من بشیر ولا نذیر فقد جاء کم بشیر ونذیر واللہ علی کل شیئٍ قدیر۔
ترجمہ:’’اے اہل کتاب تمہارے پاس یہ ہمارے رسول (محمد ﷺ) آپہنچے جو کہ تم کو (شریعت کی باتیں) صاف صاف بتلاتے ہیں ایسے وقت میں کہ رسولوں (کے آنے) کا سلسلہ (مدت سے)موقوف تھا اور بوجہ حوادث کے شرائع سابقہ مفقود ہوگئی تھی اور فترت رسل سے ان کے علم کا کوئی ذریعہ نہ تھا اس لیے کسی رسول کے آنے کی بہت ضرورت تھی تو ایسے وقت میں آپ کی تشریف آوری کو نعمت عظمیٰ سمجھنا چاہیے تاکہ تم (قیامت میں) یوں نہ کہنے لگو کہ (ہم دین کے باب میں کوتاہی کرنے میں اس لیے معذور ہیں کہ) ہمارے پاس کوئی (رسول جو کہ) بشیر و نذیر (ہو جس سے ہم کو دین کے بارے میں صحیح علم مع تنبہ کے ہوتا) نہیں آیا (اور پہلی شرائع ضائع ہوچکی تھیں۔ اس لیے ہم سے کوتاہیاں ہوگئیں) سو (سمجھ رکھو کہ اب عذر کی گنجائش نہیں رہی کیوں کہ) تمہارے پاس بشیر اور نذیر (یعنی محمد ﷺ) آچکے ہیں (اب ماننا نہ ماننا اس کو تم دیکھ لو) اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔
ان مذکورہ بالا دو حوالوں سے بخوبی واضح ہوگیا کہ اہل کتاب بھی اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے میں اور گمراہی کی تاریکیوں سے ہدایت کی روشنی میں آنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی رسالت اور قرآن کے محتاج ہیں۔
اوپر کے تین حوالہ جات میں بیان کردی حقیقت کو ایک اور آیت میں یوں بیان فرمایا:
(۱۱) وما ارسلنک الا کافۃ للناس بشیرًا و نذیرًا۔
ترجمہ:’’اور ہم نے تو آپ کو تمام لوگوں کے واسطے پیغمبر بناکر بھیجا ہے خوش خبری سنانے اور ڈرانے والے۔‘‘
ظہور اسلام کے وقت کوئی مذہب بھی حق پر نہ تھا!
اس بات میں تو کوئی شک و شبہ ہی نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام جو دین لے کر آئے تھے وہ بالکل حق تھا، لیکن اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جس شکل میں وہ دین آئے تھے وہ پھر باقی نہ رہی۔ تحریفات اور بدعات کی بناء پر وہ دین اللہ کی مرضی کے مطابق نہ رہے۔ اس بات کو ہم چند آیات قرآنیہ کی مدد سے واضح کرتے ہیں:
(۱) افتطمعون ان یؤمنوا لکم وقد کان فریق منھم یسمعون کلام اللہ ثم یحرفونہ من بعد ماعقلوہ وھم یعلمون۔
ترجمہ :کیا اب بھی تم توقع رکھتے ہو کہ یہ (یہودی) تمہارے کہنے سے ایمان لے آئیں گے، حالاں کہ ان میں کچھ لوگ ایسے گزرے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام (توریت) سنتے تھے اور پھر اس کو کچھ کا کچھ کر ڈالتے تھے اس کو سمجھنے کے بعد، اور جاننے تھے کہ تم برا کررہے ہو۔‘‘
(۲) فویل للذین یکتبون الکتب بایدیھم ثم یقولون ھذا من عنداللہ لیشتروا بہ ثمنًا قلیلًا۔
ترجمہ:تو بڑی بربادی ان کی ہوگی جو لکھتے ہیں(بدل سدل کر) کتاب (تورات) کو اپنے ہاتھوں سے (اور) پھر (عوام سے) کہہ دیتے ہیں کہ یہ (حکم) خدا کی طرف سے (یوں ہی آیا) ہے (اور) غرض(صرف) یہ ہوتی ہے کہ اس ذریعہ سے کچھ نقد قدرے قلیل وصول کرلیں۔
(۳) یااھل الکتب لم تلبسون الحق بالباطل وتکتمون الحق وانتم تعلمون۔
ترجمہ:’’اے اہل کتاب کیوں مخلوط کرتے ہو واقعی (مضمون یعنی نبوت محمدیہ) کو غیر واقعی (مضمون یعنی تحریف شدہ عبارت یا تفسیر فاسد) سے اور (کیوں) چھپاتے ہو واقعی بات کو حالاں کہ تم جانتے ہو (کہ حق بات کو چھپا رہے ہو)۔
(۴) وبکفرھم وقولھم علی مریم بھتانا عظیما۔
ترجمہ:’’اور ان کے کفر کی وجہ سے اور حضرت مریم ؑ پر بڑا بھاری بہتان دھرنے کی وجہ سے۔
(۵) ولا تقولوا ثلثۃ انتھوا خیرا لکم انما اللہ الہ واحد سبحنہ ان یکون لہ ولد۔
ترجمہ:اور مت کہو کہ (خدا) تین ہیں۔ (اس شرک سے) باز آجائوتمہاریے بہتر ہوگا (اورتوحید کے قائل ہوجائو، کیوں کہ) معبود حقیقی تو ایک ہی معبود ہے (اور) وہ صاحب اولاد ہونے سے منزہ ہے۔
مذکورہ بالا آیات کی تائید ان بے تحاشا تحریفات سے ہوتی ہے جو تورات و انجیل وغیرہ میں ہوتی رہی ہیں اور جن کا سلسلہ ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آیا۔
حاصل یہ ہے کہ ظہور اسلام کے وقت جتنے بھی مذاہب پہلے سے موجود تھے خواہ وہ آسمانی ہی کیوں نہ ہوں، ان میں وہ تغیرات آچکے تھے کہ اب وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی و پسند کے موافق نہ رہے تھے اور سوائے چند ایک بچے کھچے راہبوں کے جو توحید پر تھے، باقی سب اہل ارض اللہ تعالیٰ کے غصہ و ناراضگی کے موجب کاموں میں مبتلا تھے، یہی مضمون مذکورہ حدیث میں موجود ہے:
وانی خلقت عبادی حنفاء کلھم وانھم اتتھم الشیاطین فاحتالتھم عن دینھم وحرمت علیھم ما احللت لھم وأمرتھم ان یشرکوا بی مالم انزل بہ سلطانا وان اللہ نظر الی اھل الارض فمفتھم عربھم وعجمھم الا بقایا من اھل الکتاب۔
ترجمہ:’’اور میں نے اپنے تمام بندوں کو شرک سے یکسوا پیدا کیا اور ان کے پاس شیطان آئے اور ان کو ان کے دین سے ہٹا دیا اور ان پر وہ چیزیں حرام کردیں جو میں نے ان کے لیے حلال کیں اور ان شیاطین نے ان کو حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ ایسوں کو شریک ٹھہرائیں جن کے بارے میں میں نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور اللہ نے اہل زمین کی طرف نظر کی تو سب عرب و عجم پر غصہ فرمایا، سوائے اہل کتاب میں سے کچھ (دین حق پر) بچے ہوئے لوگوں کے یہود و نصاریٰ باطل مذہب پر ہیں۔
ترجمہ :اور اگر (یہ) اہل کتاب (بھی جو تم سے مخالفت کررہے ہیں تمہاری طرح) ایمان لے آتے تو ان کے لیے (ان کی حالت موجودہ سے جس کو بزعم خود اچھی سمجھتے ہیں زیادہ اچھا ہوتا (کیوں کہ پھر یہ بھی اسی مذکورہ اچھی جماعت یعنی خیر امۃ میں داخل ہوجاتے مگر دائی برحال ایشاں کہ سب مسلمان نہ ہوئے بلکہ) ان میں سے بعضے تو مسلمان ہیں اور زیادہ حصہ ان میں سے کافر ہیں۔
یہودیوں کی ذلت کا بیان
(۲) ضربت علیھم الذلۃ این ماثقفوا الا بحبل من اللہ وحبل من الناس وباء وا بغضب من اللہ وضربت علیھم المسکنۃ ذلک بانھم کانوا یکفرون بایت اللہ ویقتلون الانبیاء بغیر حق ذالک بما عصوا وکانو یعتدون۔
ترجمہ: جمادی گئی ان پر (خاص) بے قدری (یعنی بے امنی جان کی) جہاں کہیں بھی پائے جائیں گے مگر یوں (دو ذریعوں سے امن میسر ہوجاتا ہے) ایک تو ایسے ذریعہ کے سبب جو اللہ کی طرف سے ہے اور ایک ایسے ذریعہ جو آدمیوں کی طرف سے ہے اور مستحق ہوگئے (یہ لوگ) غضب الٰہی کے اور جمادی گئی ان پر پستی۔ یہ (ذلت و غضب) اس وجہ سے ہوا کہ وہ لوگ منکر ہوجاتے تھے احکام الٰہی کے۔ اور قتل کردیا کرتے تھے پیغمبروں کو (اس طرح سے کہ وہ قتل خود اُن کے نزدیک بھی ناحق (ہوتا تھا) اور (نیز) یہ (ذلت و غضب) اس وجہ سے ہوا کہ ان لوگوں نے اطاعت نہ کی اور دائرہ (اطاعت) سے نکل نکل جاتے تھے۔
(۳) مایود الذین کفروا من اھل الکتب ولا المشرکین ان ینزل علیکم من خیر من ربکم۔
ترجمہ :ذرا بھی پسند نہیں کرتے کافر لوگ (خواہ) اہل کتاب میں سے (ہوں) اور (خواہ) مشرکین میں سے اس امر کو کہ تم کو تمہارے پروردگار کی طرف سے کسی طرح کی بہتری (بھی) نصیب ہو اس آیت میں کس صراحت سے اہل کتاب کو کفار میں شمارکیا۔
(۴) وقالوا قلوبنا غلف بل لعنھم اللہ بکفرھم فقلیلا مایؤمنون ولما جاء ھم کتب من عنداللہ مصدق لما معھم وکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا فلما جاء ھم ماعرفوا کفروا بہ فلعنۃ اللہ علی الکفرین بئسما اشتروا بہ انفسھم ان یکفروا بما انزل اللہ بغیا ان ینزل اللہ من فضلہ علی من یشآء من عبادہ فباء وا بغضب علی غضب وللکفرین عذاب مھین۔
ترجمہ :’’اور وہ (یہودی فخر سے) کہتے ہیں کہ ہمارے قلوب (ایسے) محفوظ ہیں (کہ اس میں مخالف مذہب یعنی اسلامکا اثر ہی نہیں ہوتا تو مذہب پر ہم خوب پختہ ہیں۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ محفوظی اور پختگی نہیں ہے) بلکہ ان کے کفر کے سبب سے ان پر خدا کی مار ہے۔ سو بہت ہی تھوڑا سا ایمان رکھتے ہیں (اور تھوڑا ایمان مقبول نہیں پس وہ کافر ہی ٹھہرے)۔
اور جب ان کو ایک ایسی کتاب پہنچی (یعنی قرآن) جو من جانب اللہ ہے (اور) اس (کتاب) کی (بھی) تصدیق کرنے والی ہے جو (پہلے سے) اُن کے پاس ہے (یعنی تورات) حالاں کہ اس کے قبل (خود) بیان کرتے تھے (اور) کفار سے (یعنی مشرکین عرب سے کہ ایک نبی آنے والے ہیں اور ایک کتاب لانے والے ہیں مگر) پھر جب وہ چیز آپہنچی جو کو وہ (خوب جانتے) پہچانتے ہیں تو اس کا (صاف) انکار کر بیٹھے۔ سو (بس) خدا کی مار ہو ایسے منکروں پر (کہ جان بوجھ کر محض تعصب کے سبب سے انکار کریں)۔
وہ حالت (بہت ہی) بری ہے، جس کا اختیار کرکے (وہ بزعم خود) اپنی جانوں کو (عقوبت آخرت سے) چھڑانا چاہتے ہیں (اور وہ حالت) یہ (ہے) کہ کفر (و انکار) کرتے ہیں ایسی چیز کا جو حق تعالیٰ نے (ایک سچے پیغمبر پر) نازل فرمائی (یعنی قرآن اور وہ انکار بھی) محض (اس) ضد پر کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جس بندہ پر اس کو منظور ہو (یعنی محمد ﷺ پر کچھ) نازل فرمائے سو (اس حسد بالائے کفر سے) وہ لوگ غضب بالائے غضب کے مستحق ہوگئے اور (آخرت میں) ان کفر کرنے والوں کو ایسی سزا ہوگی جس میں (تکلیف کے علاوہ) ذلت (بھی) ہے۔
(۵) فبما نقضھم میثاقھم لعنھم وجعلنا قلوبھم قسیۃ یحرفون الکلم عن مواضعہ ونسواحظا مما ذکروا بہ ولا تزال تطلع علی خائنۃ منھم الا قلیلا منھم فاعف عنھم واصفح ان اللہ یحب المحسنین ومن الذین قالو انا نصری اخذنا میثاقھم فنسوا حظا مما ذکروا بہ فاغرینا بینھم العداوۃ والبغضاء الی یوم القیمۃ وسوف ینبئھم اللہ بما کانو یصنعون۔
ترجمہ :تو صرف ان کی (یعنی بنی اسرائیل کی) عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا اور ہم نے ان کے قلوب کو سخت کردیا (کہ حق بات کا ان پر اثر ہی نہیں ہوتا اور اس سخت دلی کے آثار سے یہ ہے کہ) وہ لوگ (یعنی ان کے علماء) کلام (ہی یعنی تورات) کو اس کے (الفاظ یا مطالب کے) مواقع سے بلدتے ہیں(یعنی تحریک لفظی یا تحریف معنوی کرتے ہیں) اور (اس تحریف کا اثر یہ ہوا کہ)وہ لوگ جو کچھ ان کو (تورات میں) نصیحت کی گئی تھی اس میں سے اپنا ایک بڑا حصہ (نفع کا جو کہ ان کو عمل کرنے سے نصیب ہوتا، فوت کر بیٹھے اور (حالت یہ ہے کہ) آپ کو آئے دن (یعنی ہمیشہ دین کے باب میں) کسی نہ کسی (نئی) خیانت کی اطلاع ہوتی رہتی ہے جو ان سے صادر ہوتی رہتی ہے، بجز ان کے معدودے چند شخصوں کے (جو کہ مسلمان ہوگئے تھے) سو آپ ان کو معاف کیجیے اور ان سے درگزر کیجیے۔
اور جو لوگ (نصرت دین کے دعویٗ سے) کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں ہم نے ان سے بھی ان کا عہد (مثل عہد یہود کے) لیا تھا سو وہ بھی کچھ ان کو (انجیل وغیرہ میں) نصیح کی گئی تھی اس میں سے اپنا ایک بڑا حصہ (نفع کا جو کہ ان کو عمل کرنے سے نصیب ہوتا) فوت کر بیٹھے (کیوں کہ وہ امر جس کو فوت کر بیٹھے توحید ہے اور ایمان ہے جناب رسول اللہ ﷺ پر جس کا حکم ان کو بھی ہوا تھا جب توحید کو چھوڑ بیٹھے) تو ہم نے ان میں باہم قیامت تک کے لیے بغض و عداوت ڈال دی اور عنقریب (آخرت میں) کہ وہ بھی قریب ہی ہے ان کو اللہ تعالیٰ ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے (پھر سزا دیں گے)۔
عقیدۂ تثلیث شرک ہے!
(۱) یااھل الکتب لاتغلوا فی دینکم ولا تقولوا علی اللہ الا الحق انما المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ وکلمتہ ألقھا الی مریم وروح منہ فامنوا باللہ ورسلہ ولا تقولوا ثلاثۃ انتھوا خیرا لکم انما اللہ الہ واحد سبحنہ ان یکون لہ ولد لہ مافی السموت وما فی الارض وکفی باللہ وکیلا۔
ترجمہ :اے اہل کتاب (یعنی انجیل والو) تم اپنے دین (کے بارے) میں (عقیدہ حقہ) کی حد سے مت نکلو اور خدا تعالیٰ کی شان میں غلط مت کہو۔ مسیح عیسیٰ ابن مریم تو اور کچھ بھی نہیں، البتہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ایک کلمہ (کی پیدائش) ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے مریم تک (جبرائیل ؑ) کے واسطہ سے پہنچایا اور اللہ کی طرف سے ایک جان (دار چیز) ہیں۔ سو اللہ پر اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائو اور یوں مت کہو کہ تین ہیں (اس شرک سے) باز آجائو، تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ معبود حقیقی تو ایک ہی معبود ہے۔ وہ صاحب اولاد ہونے سے منزہ ہے اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں موجودات ہیں سب اس کی ملک ہیں۔
(۲) لقد کفرالذین قالو ان اللہ ثالث ثلاثۃ وما من الٰہ الا واحد وان لم ینتھوا عمایقولون لیمسن الذین کفروا منھم عذاب الیھم۔
ترجمہ :بلاشبہ وہ لوگ بھی کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تین میں کا ایک ہے، حالاں کہ بجز ایک معبود کے اور کوئی معبودنہیں اور اگر یہ لوگ اپنے اقوال سے باز نہ آئے تو جو لوگ ان میں کافر رہیں گے ان پر دردناک عذاب واقع ہوگا۔
تحریک ختم نبوت کی کامیابی پر حضرت بنوریؒ کا خواب اور اس کی تعبیر مولانا سید سیلمان یوسف بنوری کا نسبی و تعلیمی تعارف
گزشتہ روز برصغیرکی عظیم دینی و علمی درسگاہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے سابق مہتمم و شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر کے سانحہ ارتحال سے خالی ہونے والے عہدوں پر تقرریوں کے لیے جامعہ کی مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد ہوا ، مجلس شوریٰ میں اتفاق رائے سے نائب مہتمم مولانا سید سلیمان یوسف بنوری کو مہتمم ،اور مولانا سید احمدیوسف بنوری کونائب مہتمم ،جبکہ مولانا محمدانور بدخشانی کو شیخ الحدیث مقرر کر دیا گیا ،قارئین کے لیے سردست حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری صاحب کے صاحبزادے مولانا سید سلیمان یوسف بنوری کا مختصر نسبی وعلمی تعارف پیش کیا جارہا ہے ۔
سیدآدم بنوری – مولانا سید سلیمان بنوری
جامعہ بنوری ٹاؤن کے مہتمم مولانا سید سلیمان یوسف بنوری حسینی محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کے چھوٹے فرزند ہیں،آپ کا نسبی تعلق حضرت سید آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ سے ہےجو امام ربانی، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے سب سے بڑے خلیفہ تھے،ان کی جائے پیدائش ’’بنور‘‘ تھی‘ جو ریاست پٹیالہ میں سرہند کے قریب ایک قصبہ ہے،اسی کی نسبت سے آپ کی اولاد ’’بنوری‘‘ کہلاتی ہے،چنانچہ مولانا سلیمان بنوری کاسلسلۂ نسب دسویں جدِ امجد عارف محقق حضرت سید آدم حسینی بنوری کی وساطت سے حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے۔
سادات حسینی – مولانا سیدسلیمان بنوری
جیساکہ ابھی ذکر ہواکہ مولانا سیدسلیمان بنوری کاسلسلۂ نسب دسویں جدِ امجد عارف محقق حضرت سید آدم حسینی بنوری کی وساطت سے حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچتاہے،گویامولانا کا نسب صرف چوبیس واسطوں سے آنحضرت ﷺتک جاپہنچتا ہے ، اور اس وقت سادات حسینی کا یہ مستند ترین شجرہ واسطوں کے اعتبار سے غالبا دنیا کے ان نایاب اورمستندشجروں میں سے ہیں کہ جس میں حضور اکرم ﷺ تک سب سے کم واسطے پائے جاتے ہیں ، حضرت مولاناسید محمد یوسف بنوریؒ نے اپنا نسب نامہ مفتی غلام سرور کی کتاب ’’خزینۃ الاصفیاء ‘‘کے ابتدائی اوراق پر اپنے قلم سے اس طرح تحریرفرمایا ہے:
احقر محمد یوسف بن محمد زکریا بن سید مزمل شاہ بن سید میر احمد شاہ بن سید میر موسیٰ بن سید غلام حبیب بن سید رحمت اللہ شاہ بن سید عبدالاحد بن حضرت سید محمد اولیاء بن سید السادات شیخ المشائخ صفوۃ الشجرۃ النبویۃ معدن علوم الاولین والآخرین، قطب الاقطاب سلطان العارفین حاجی الحرمین الشریفین مخزن اسرار الٰہی السید آدم بنوری (علیہ وعلیٰ اولادہٖ الی یوم القیامۃ من اللہ الرحمۃ والرضوان) بن سید اسمٰعیل بن سید یہوا ابن سید حاجی یوسف بن سید یعقوب بن سید حسین بن سید دولت بن سید قلیل بن سید سعدی بن سید قلندر کہ از فرزندان حضرت سید محمد کہ از اولاد سید اسمٰعیل ولد ابراہیم برادر خورد امام حضرت موسیٰ بن حضرت امام موسیٰ کاظم بن سید امام جعفر صادق بن سید امام باقر بن سید امام زین العابدین بن سید شباب اہل الجنۃ قرۃ العینین لرسول الثقلین الحسین بن امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ (امہ سیدۃ النساء فاطمۃ الزہرا بنت نبی الانبیاء محمدمصطفی احمدمجتبیٰ علیہ وعلیٰ آلہ افضل الصلوٰۃ وازکی التحیات واتم السلام) انتھیٰ بلفظہ۔
حضرت بنوریؒ کی امارت میں تحریک ختم نبوت کی کامیابی
مولانا سلیمان بنوری کی پیدائش سے تقریبا دو سال قبل ان کے والد حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ نے ایک عجیب وغریب خواب دیکھا اوراس کی تعبیر بھی خود تحریر فرمائی ، خواب اور اس کی تعبیر سے پہلے وضاحت کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ حضرت بنوری رحمہ اللہ دیگر مناصب کے ساتھ ساتھ تحریک ختم نبوت کے امیر بھی تھے ، ۱۵ ربیع الاول ۱۳۹۴ھ مطابق ۹؍ اپریل ۱۹۷۴ء کو یہ عبقری شخصیت ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کی مسندِ امارت پر رونق افروز ہوئی،کسی جماعت کی صدارت قبول کرنا حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مزاج و مشاغل کے قطعاً منافی تھا،لیکن مخلصین کے اصرار پر آپ کو یہ منصب قبول کرنا پڑا،حضرت بنوری قدس سرہ کادورِ امارت اگرچہ بہت ہی مختصر رہا اور اس میں بھی حضرت رحمۃ اللہ علیہ اپنے بے شمار مشاغل اور ضعف و پیرانہ سالی کی بناء پر جماعت کے امو رپر خاطر خواہ توجہ نہیں فرماسکتے تھے،اس کے باوجود حق تعالیٰ شانہ نے آپ کی پرخلوص قیادت کی برکت سے جماعت کے کام کو،ثریٰ سے ثریا تک پہنچادیا اور ’’بنوری دور میں‘‘ جماعت نے وہ خدمات انجام دیں جن کی اس سے پہلے صرف تمنا کی جاسکتی تھی، تحریک ختم نبوت کی کامیابی پربہت سے اکابر امت نے حضرت بنوریؒ کو تہنیت اور مبارکباد کے گرامی نامے لکھے، یہاں صرف دو خطوط کا اقتباس پیش کیا جاتا ہے ۔
تحریک ختم نبوت کی کامیابی پر حضرت بنوری ؒ کے نام حضرت شیخ الحدیثؒ کا پیغام
برکۃ العصر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی ؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’سب سے اول تو جناب کی انتہائی کامیابی پر انتہائی مبارکباد پیش کرتا ہوں‘ مژدہ سننے کے بعد سے آپ کے لئے دل سے دعائیں نکلیں کہ ان کا اصل سہرا تو آپ ہی کے سر ہے۔ اگرچہ:
مصلحت راتہمتے برآ ہوئے چین بستہ اند
لوگ جو چاہیں لکھیں، یا جو چاہیں کہیں، میرے نزدیک تو آپ ہی کی روحانی قوت اور بدنی جانفشانی کا ثمرہ ہے‘ اللہ تعالیٰ مبارک کرے‘ آپ نے جو دعائیہ کلمات اس نابکار کے حق میں لکھے ہیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور آپ کی دعا کی برکت سے اس نابکار کو بھی کارآمد بنادے۔‘‘
تحریک ختم نبوت کی کامیابی پر حضرت بنوری ؒ کے نام مفکراسلام مولاناعلی میاںؒ کا پیغام
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ ایک خط میں حضرت بنوری ؒ کو تحریر فرماتے ہیں:
’’سب سے پہلے تو آپ کو اس عظیم کامیابی پر آپ کے اسلاف کے ایک ادنیٰ نیاز مند کی حیثیت سے مخلصانہ مبارکباد پیش کرتاہوں‘ جس کے متعلق بدیع الزمان الہمدانی کے یہ الفاظ بالکل صادق ہیں:
فتح فاق الفتوح وأمنت علیہ الملائکۃ والروح‘‘
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے اس کارنامہ سے آپ کے جد امجد حضرت سید آدم بنوری اور ان کے شیخ حضرت امام ربانی اور آپ کے استاد و مربی حضرت علامہ سید انور شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی روح ضرور مسرور مبتہج ہوئی اور اس کی بھی امید ہے کہ روح مبارک نبوی علیھا الف الف سلام کو بھی مسرت حاصل ہوئی ہوگی۔’’فھنیئاً لکم و طوبیٰ‘‘ اگر میری ملاقات ہوئی تو میں آپ کے دست مبارک کو بوسہ دے کر اپنے جذبات کا اظہار ضرور کروں گا۔‘‘
تحریک کے اختتام پر حضرت بنوریؒ کو خواب کے ذریعہ بشارت وانعام
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فتنہ قادیانیت کی بیخ کنی پر صرف زمین کے باشندوں ہی کو خوشی نہیں ہوئی‘ بلکہ ملاء اعلیٰ میں جشنِ مسرت منایا گیا اور عالم ارواح میں بھی ، حضرت اقدس رحمۃ اللہ علیہ کو اس فیصلہ کے بعد عجیب و غریب مبشرات سے نوازا گیا،چنانچہ تحریک ختم نبوت کی کامیابی پرآپ کو ایک اور انعام بھی ملا، حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: تحریک کے بعد غالباً رمضان مبارک میں، میں نے خواب دیکھا کہ ایک چاندی کی تختی مجھے عطا کی گئی ہے اور اس پر سنہرے حروف سے یہ آیت لکھی گئی ہے:
’’انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘
میں نے محسوس کیا کہ یہ تحریک ختم نبوت کی کامیابی پر مجھے انعام دیا جارہا ہے او راس کی یہ تعبیر کی کہ مجھے حق تعالیٰ بیٹا عطا فرمائیں گے او رمیںاس کا نام ’’سلیمان ‘‘رکھوں، چنانچہ اس خواب کے دو سال بعد حق تعالیٰ نے ستر برس کی عمر میں آپ کو صاحبزادہ عطا فرمایا اور آپ نے اس کا نام’’ سلیمان‘‘ تجویز فرمایا،حضرت بنوری رحمہ اللہ نے یہ خواب اور اس کی تعبیر اپنی ڈائری میں اپنے ہاتھ سے تحریر فرمائی اور حضرت بنوری ؒ کی وہ ڈائری آج بھی ان کے ورثاء کے پاس محفوظ ہے ۔
مولانا سید سلیمان یوسف بنوری:مختصر تعارف
مولانا سید سلیمان یوسف بنوری کی پیدائش نومبر 1976 میں ہوئی،جب حضرت بنوری رحمہ اللہ کا انتقال ہوا تو اس ان کی عمر گیارہ ماہ تھی،آٹھ سال کی عمر میں جامعہ میں شعبہ تحفیظ میں داخلہ لیا،جامعہ کے بزرگ استاد حضرت مولانا قاری حبیب الرحمن سے آپ نے حفظ قرآن کی تکمیل کی ،اور اس کے بعد درس نظامی کے تمام درجات میں تعلیم کے بعد 1998 میں جامعہ بنوری ٹاؤن سے فراغت ہوئی۔
تعلیمی قابلیت ابتدا سے تھی، وفاق المدارس اورمدرسہ کی سطح پر امتحانات میں ہمیشہ پوزیشن حاصل کرتے تھے ، آخری سال یعنی دورہ حدیث میں بھی وفاق المدارس کے تحت ملکی سطح پر پوزیشن حاصل کی ، تعلیم سے فراغت کے بعد تدریس کی ذمہ داریوں کے ساتھ جامعہ کی مجلس شوری نے نائب مہتمم کے عہدہ پر مقرر کیا تھا۔اس دوران آپ جامعہ کی مجلس شوری کے رکن بھی بنائے گئے اور بعد میں مجلس تعلیمی کا سربراہ بھی مقرر کیا گیا ۔ اس کے علاوہ شعبہ بینات ، شعبہ دارالتصنیف سمیت دیگر شعبوں کے بھی ذمہ دار کی حیثیت سے تقریبا گزشتہ تئیس (23) سالوں سے ذمہ داریاں ادا کررہے تھے ،جبکہ شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر رحمہ اللہ کی غیر موجودگی میں ان کے تمام امور کی نیابت بھی کرتے رہے،آپ نے دنیا کے کئی ممالک میں علمی و دعوتی اسفار بھی کئے جن میں حرمین شریفین ، جنوبی افریقہ ، برطانیہ ، یورپ ، ترکی ، کینیا، زمبیا، متحدہ عرب امارات وغیرہ سرفہرست ہیں،اردو ،عربی اور انگریزی زبان پر عبور رکھتے ہیں، اپنے والد حضرت بنوری کی شہرہ آفاق کتاب ’’یتیمۃ البیان فی شیئ من علوم القرآن‘‘ کا اردو ترجمہ بھی کیا جو اصول تفسیر وعلوم قرآن کے نام سے شائع ہوچکا ہے ، اس کے علاوہ مختلف موضوعات پر جامعہ کے مجلہ ماہنامہ بینات میں وقتا فوقتا مضامین بھی شائع ہوچکے ہیں ۔
آپ کے اساتذہ کرام میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ ، حضرت مولانا عبد الرشید نعمانیؒ، حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندرؒ ، مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ ،حضرت مولانا قاری عبد الحق ؒ، حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی ؒ ، حضرت مولانا محمد انور بدخشانی ، مولانا سجاد حسن ٹونکی ، مفتی عبدالسمیع شہیدؒ ، مولانا قاری مفتاح اللہ، مولانا عطاء الرحمن شہید ؒسمیت دیگر کبار علما شامل ہیں۔
آپ کو تصوف کے چاروں سلاسل میں مختلف مشائخ کی جانب سے اجازت بھی حاصل ہے،جس میں قطب الاقطاب شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز پیر طریقت حضرت مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی رحمہ اللہ اور سلسلہ قادریہ کے شیخ حضرت مولانا محمد انور دامت برکاتہم (سکھر) سرفہرست ہیں۔
محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری کی خود نوشت سوانح (داستان آغاز جامعہ بنوری ٹاؤن) نیچے دیے گئے لنک پر پڑھیے:
ترجمہ:اور میں نے جنات کو اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ میری عبادت کریں
اس آیت میں بالکل واضح طریقے میں بتا دیا کہ انسان کے زندگی کا مقصد اللہ تعالی کی عبادت کے سوااور کچھ بھی نہیں ہے جب حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی حوا کو اللہ تعالی نے زمین پربھیجا تو فرمایا تھا :
فاما یأ تینکم منی ھدی فمن اتبع ھدای فلا خوف علیھم ولا ھم یحز نون والذین کفروا وکذبوا بآیاتنا اولئک اصحٰب النا ر ھم فیھا خالد ون ۔
ترجمہ :سو اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے سو جو شخص میری ہدایت کااتباع کرے گا ان پر نہ کوئی خوف ہو گا نہ کوئی غمگین ہوں گے ، اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا یہ دوزخ والے ہوں گے اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔
اس آیت میں واضح طور پر بتا دیا کہ اے آدم اور حوا ! تم دنیا میں جاتو رہے ہو ( اور آدم کو پیدا ہی اس لیے کیا گیا کہ زمین پر خلافت کو اس کے سپرد کیا جائے )وہاں کھانے پینے سونے جاگنے اور بے مقصد زندگی گزارنے کے لیے نہیں جارہے ہو ،وہاں میری طرف سے ہدایت آئے گی، اس پر عمل کرنا ہوگا ،اس پر عمل کرنے میں وہ زندگی ملے گی جس میں کوئی خوف اور غم نہ ہو گا، اور جس نے اس کے خلاف زندگی گزاری اُسے دوزخ میں جانا ہوگا ،اور ہمیشہ آگ میں جلنا ہوگا۔
اللہ جل شانہ نے بنی آدم کو دنیا میں بھیجا او ر ساتھ ہی نبوت اور رسالت کا سلسلہ جاری کیا ۔پہلے نبی ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام تھے اور سب سے آخری نبی سیدنا حضرت محمد ﷺ ہیں ،درمیان میںبڑی بھاری تعداد میں حضرات انبیا ء کرام علیہم الصلواة والسلام تشریف لائے۔ انہوں نے اپنی اپنی امتوںکو حق کی دعوت دی ،یعنی اللہ تعالی کی عبادت کی طرف بلایا اور بتایا کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور یہ بھی بتایا کہ جود ین اللہ تعالی کے ہاں محبوب اور پسندیدہ ہے وہ دین اسلام ہے جس کی ہر نبی نے تبلیغ کی ہے، اللہ نے جو دین بھیجا اس کا انکار کرنے والے کافر ہیں ،دوزخی ہیں ،ان کی نجات نہیں ہوگی ۔قرآن مجید میں واضح طریقے پر ارشاد فرمایا :
ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وہو فی الآخرة من الخاسرین
ترجمہ :اور جو شخص دین اسلام کے علاوہ کوئی دین طلب کر ے گا اس سے وہ دین ہرگز قبول نہیںکیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ والوں میں سے ہوگا۔
نیز ارشاد فرمایا :
ان الذین کفروا و ظلموا لم یکن اللّٰہ لیغفرلھم ولا لیھدیھم طریقا الا طریق جھنم خٰلدین فیھا ابدا وکان ذالک علی اللّٰہ یسیرا۔
ترجمہ :بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم کیا اللہ انہیں نہیں بخشے گا اورنہ انہیں جہنم کے راستہ کے علاوہ کوئی راستہ دکھائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے اور یہ اللہ پرآسان ہے ۔
پھر ارشادفرمایا :
یآیھا الناس قد جا ئکم الرسول بالحق من ربکم فاٰمنواخیرالکم وان تکفروا فان للّٰہ مافی السمٰوات والارض وکان اللّٰہ علیماحکیما۔
ترجمہ :اے لوگو! تمہارے پاس رسول آیا ہے حق کے ساتھ تمہارے رب کی طرف سے سوتم ایمان لے آئو،یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا اگر تم کفر کرو (تو سمجھ لو کہ اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے زمین میں ہے اور اللہ جاننے والا ہے حکمت والا ہے
سورہ نساء میں فرمایا :
ان اللّٰہ لا یغفران یشرک بہ ویغفرمادون ذالک لمن یشا ء و من یشرک باللّٰہ فقد ضل ضلالا بعید ا ۔
ترجمہ :بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اورا س کے علاوہ جس کو چاہے بخش دے گا اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے وہ بہت دور کی گمر ا ہی میںپڑ گیا ۔
آخرت کی نجات صرف دین اسلام میں !
ان آیات سے واضح طورسے معلوم ہوا کہ دین اسلام میں اللہ تعالی کی رضا ہے اور اسی پرآخرت کی نجات منحصر ہے ، مشرک کی بھی نجات نہیں ،اور اسلام کے سوا جو بھی کوئی دین ہو اس کے ماننے والے سب کافر ہیں ،ان کی بھی نجات نہیں ،یہ لوگ دوزخ میں جائیں گے ،اوراس میں ہمیشہ رہیں گے ،جو لوگ یوں کہتے ہیں کہ ہر دین کے ماننے والوں کی نجات ہو گی، اور یہ سب کا راستہ اور انجام ایک ہی ہے ،جھوٹے ہیں قرآن کے خلاف بولتے ہیں ،دوزخ کے داعی ہیں ۔
حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰ ة والسلام تشریف لاتے رہے ان پر ایمان لانے والے کم ہوتے تھے ،منکرین زیادہ ہوتے تھے ،شیطان نے لوگوں کو شرک پربھی لگایا اور اسلام قبول کرنے سے بھی روکا، کفر وشرک کی جز ا دوزخ ہے جسے ملحد و زندیق ہیں کسی دین کے قائل نہیں نہ قیا مت کو مانتے ہیں نہ حساب کتاب کو نہ جنت دوزخ کو ۔ایمان والوں کا ایمان نجات دلانے کا باعث ہو گا، اور اہل کفر اور اہل شرک دوزخ میںجائیں گے ،اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اسلام سے ہٹانے اور اسلام قبول کرنے سے روکنے کے لیے دشمنوں نے روز اول سے ہی طرح طرح کے منصوبے بنائے ،مسلمانوںکو ڈرانا ،دھمکانا ،مارنا پیٹنا ،قتل کرنا،لالچ دے کر ورغلانا ،یہ سب طریقے دشمنان اسلام اختیا رکرتے رہے ہیں ،پختہ ایمان والے پٹے کٹے قتل ہوئے ،اُنہیں بڑے بڑے لالچ دیے گئے ،لیکن ایمان سے نہیں پھرے۔
وحدت ادیان کا فتنہ کیا ہے؟
دشمنان اسلام نے آج کل مسلمانوں کو اسلام سے دور کر نے کے لیے اور ان کے دلوں میں کفر رچانے کے لیے ایک نیا دھندہ سوچا ہے اور اوروہ’’ وحدتِ ادیان‘‘ کا نعرہ ہے ۔ان لوگوں نے یہ کوشش شروع کی ہے کہ وحدت ادیان کے نام سے جلسے کیے جائیں کانفرنسیں بلائی جائیں اور حاضرین کے سامنے یہ بات پیش کی جائے کہ جتنے بھی دین ہیں یہودیت ہو یا نصرانیت ، ہندو مت ہو یا بدھ ازم ،اسلام ہو یا آتش پرستی یہ سب ایک ہی دین ہے ،کیونکہ یہ سب اللہ تعالی کو پیدا کرنے والا مانتے ہیں ،اور ہردین کی ابتدا خدا پرستی ہی سے ہے ،اور آخرت میں سب جاکرایک ہو جائیں گے ،اور وہاں نجات پا جائیں گے۔ کسی کو دوزخ میں جانا نہ ہوگا(العیاذ باللہ) ۔
یہ دشمنوں کی بہت بڑی چال ہے جگہ جگہ جلسے کریں گے ،عرب وعجم میں ،افریقہ و ایشیا میں جہاں مسلمان زیادہ ر ہتے ہیں ،وہاں حاضرین کے سامنے اس قسم کی تقر یریں کریں گے کہ ہر دین میں نجات ہے ،اور کسی خاص دین سے لگنے اور چمٹے رہنے کی ضرورت نہیں، اس کا یہ مطلب ہوگا کہ جن مسلمانوں کو اسلام اور کفر کے درمیان فرق معلوم نہیں جنہیں ماں باپ نے دین و ایمان نہیں سکھایا ،جنہیں ٹائی اور پتلون سے آراستہ کیا ،جنہیں ہندو انہ دھوتی پہنائی ،ایسے لوگ وحدت ِادیان کے داعیوں کے پھندے میں جلدی سے آ سکتے ہیں ،ان دشمنان دین کا یہ وحدت ادیان کا جھوٹا نظر آنا صرف مسلمانوں کو کفر کی طرف کھینچنے کے لیے ہے ،خود اپنا دین چھوڑ نا نہیں ہے ،جو مسلمان یہ سمجھتاہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے دین اسلام ہی بھیجا ہوا ہے ،اور جس نے اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین قبول کیا، یا ماں باپ اور کنبے قبیلہ کے ماحول میں کسی دین کو اختیار کیا جو اسلام کے علاوہ ہو ،وہ دوزخ میں جائے گا ،اس بات کا جاننے ماننے والا مسلمان کبھی وحدتِ ادیان کے داعیوں کے فریب میں نہیں آسکتا ، لیکن جن نام کے مسلمانوں نے اپنی اولاد کو دین و ایمان نہیں سکھایا ،اسلام کا فائدہ نہیں بتایا، جنت اور دوزخ سے و اقف نہیں کرایا ،کفر و شرک کی سزا ،دائمی عذاب دوزخ نہیں بتائی ،ایسے لوگ خود اور ان کے بیٹی بیٹا اسلام کو چھوڑکر وحدت ِادیان کا نظریہ قبول کر سکتے ہیں ۔
ماہنامہ”انوار مدینہ” لاہور بابت محرم الحرام ١٤٢٢ھ میں یہ خبر پڑھ کر تعجب ہوا کہ وحدت ادیان کی آئندہ کانفرنس پاکستان میں منعقد کی جانے والی ہے ،اللہ کرے یہ خبر غلط ہو،لیکن جو لوگ اس منصوبے کو لے کر چل رہے ہیں ان کی کوششیںبرابرجاری ہیں ،انوار مدینہ مذکورہ شمارہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ پچیس ممالک میں وحدت ادیان کے دفاتر قائم کیے جاچکے ہیں ،پاکستان میں اس کا دفتر لاہور میں واقع ہے ،نیز یہ بھی لکھا ہے کہ اس سلسلے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کا ایک مشترکہ اجلاس ١١اکتوبر ٢٠٠٠ ء کو پشاورمیں ہو چکاہے۔کہ جو لوگ مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں وہ ایسی تحریکات میں حصہ لیتے ہیں اور اپنے ملکوں میں ایسے اداروں کے دفاترقائم کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں جو کفر پھیلا نے کے لیے قائم کیے گئے ہیں، پہلے ہی سے نصارٰی کی تنظیمیں قائم ہیں ،قادیانی کافر بھی بڑھ چڑھ کر کفر پھیلارہے ہیں۔معلوم ہوا کہ بنگلہ دیش میں عیسائیوں کے تیرہ ہزار مشن قائم ہیں جو مسلمانوں کو عیسائی بنارہے ہیں ،تعجب ہے کہ ملک مسلمانوں کے اور ان میں دعوت دی جائے کفر کی ،مسلمان اصحاب اقتدار صرف یہ دیکھتے ہیں کہ نصارٰی کو راضی کرنا ہے ،یہ نہیں دیکھتے کہ ہم اسلام کے دشمن بن کر آخرت میں عذاب کے مستحق ہورہے ہیں ،عیسائیوں کے مشن قادیانیوںکے مراکز تو تھے ہی اب وحدت ادیان کے دفاتر بھی قائم ہونے لگے۔
تمام مسلمان عوام اور خواص اصحاب اقتدار غریب اور مالدار سب پر لازم ہے کہ اپنے ممالک کو کفر سے اور کافروں کی دعوت سے پاک کریں ،اور مسلمانوں کو صحیح مسلمان بنائیں ،اسلام کی چیزیں سمجھائیں ،ماں باپ اولاد کو اسلامی عقائد سکھائیں ،اور اسلام کے احکام کی تعلیم دیں ،اگر مولوی حافظ بنانے میں خفت محسوس کرتے ہیں (العیاذباللہ )توکم ازکم بچوں کو عقائد اسلام اور حقیقت ایمان اور احکام اسلام تو سمجھا دیں اور بتا دیں ،تاکہ وہ کفر وایمان کا فرق سمجھ لیں ،اور یہ کہ کسی داعی کفر کی دعوت قبول کرکے جانتے بوجھتے ہوئے دوزخ کا ایندھن نہ بنیں ،واللہ المستعان و علیہ التکلان ۔
ماخوذاز:ماہنامہ انوار مدینہ ، لاہور ، شمارہ جون 2002
وحدت ادیان کے موضوع پر مزید پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنکس پر کلک کیجیے:
ترجمہ:” بے شک جو لوگ مسلمان ہوئے اورجو لوگ یہودی ہوئے او رنصاری اور صائبین ، جو ایمان لایا (ان میں سے ) الله پر اور روز قیامت پر او رکام کیے نیک… تو ہے ان کے لیے ان کا ثواب، ان کے رب کے پاس اور نہیں ان پر کچھ خوف اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“
ربط: گزشتہ آیات میں یہودیوں کی جن شرارتوں اور نافرمانیوں کا تذکرہ تھا اسے پڑھ کر کسی یہودی کو یہ خلجان ہو سکتا تھا کہ ہماری نالائقیوں کی طویل فہرست ندامت کے آنسو سے بھی نہیں دھل سکتی ، اب اگر ایمان بھی قبول کر لیا جائے تو شاید بارگاہ الہٰی میں قبول نہ ہو ، اس آیت میں الله تعالیٰ اپنی شان رحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مایوسانہ کیفیت کو دور فرما رہے ہیں۔
تفسیر: اس آیت میں الله تعالیٰ نے چارگروہوں کا تذکرہ فرماکر انہیں نجات او رکام یابی کے ایسے معیار سے آگاہ فرما دیا ہے جس پر پورا اتر کر ہر گروہ رضائے الہی کا پروانہ حاصل کر سکتا ہے۔
۱-پہلے گروہ کا بیان’’ان الذین اٰمنوا‘‘ سے ہو رہا ہے، اس سے منافقین مراد ہیں، جو زبان سے ایمان کا اقرار کرتے ہیں، لیکن درحقیقت کافرانہ اعتقاد پر قائم ہیں۔
(عن سفیان الثوری: أنہم المؤمنون بألسنتھم، وھم المنافقون، بدلیل انتظامہم فی سلک الکفرة، والتعبیرعنہم بذلک دون عنوان النفاق للتصریح بأن تلک المرتبة وإن عبر عنہا بالإیمان لا تجدیہم نفعاً، ولا تنقذھم من ورطة الکفر قطعاً) (روح المعانی، البقرة، تحت آیة رقم:62)
۲-دوسرے گروہ کا بیان ’’والذین ہادوا‘‘ (اور جو لوگ یہودی ہوئے) سے ہو رہا ہے۔ اس سے یہودی مراد ہیں۔
۳-تیسرے گروہ کا بیان’’والنصاری‘‘ سے ہو رہا ہے، نصاری جمع ہے نصرانی کی۔ نصرانی حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکاروں کا نام ہے، جس بستی میں آپ کی رہائش تھی، اس کا نام ناصرہ تھا ، اسی نسبت سے آپ کے پیروکاروں کو نصرانی کہا جاتا ہے ۔ ( احکام القرآن للقرطبی، البقرة تحت آیة رقم:62)
۴-چوتھے گروہ کا بیان’’والصابئون‘‘ سے ہو رہا ہے، صابی لغت میں اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنا دین چھوڑ کر دوسرے دین کی طرف چلا جائے یا اس کی طرف مائل ہو جائے۔ ( مفردات القرآن للراغب: ص، ب، ی:ص:475)
صابی: اصطلاح میں ایک مذہبی فرقے کا نام ہے، اس فرقے کے لوگ توحید اور عقیدہٴ رسالت کے قائل تھے ۔ حضرت عمر فاروق اور عبدالله بن عباس رضی الله عنہم نے صابیوں کو اہل کتاب میں شمار کیا ہے۔ (معالم التنزیل، البقرة، تحت آیة رقم:62)
اب یہ نجوم پرستی میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔ ستاروں کو مقدس جاننا، نجم قطب شمالی کی طرف متوجہ ہونا، تین نمازیں پڑھنا او رمختلف روزے رکھنا، بہتے پانی میں نہانا اس مذہب کی اہم علامات ہیں ،یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ عراق میں دجلہ وفرات کی نچلی پٹیوں او رایران کے ساحلی علاقوں میں آباد ہیں، ان کا دعوی ہے کہ ہم حضرت یحییٰ علیہ السلام کے امتی ہیں۔ ( مذاہب عالم کا جامع انسائیکلو پیڈیا، ص:274)
نجات کا اصول اور معیار
آیت کریمہ میں الله تعالیٰ نے ان چارگروہوں کا تذکرہ فرماکر… نجات کا اصول او راس کا ایک معیار مقرر کر دیا ہے کہ جو شخص بھی الله تعالیٰ کی ذات وصفات پر ایمان اور اسی ضمن میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کا صدق دل سے اقرار کر لے گا او رانہوں نے روز محشر کے متعلق جو خبردی ہے اس کو حق اور سچ جان کر اعمال صالحہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے گا تو اس کی برکت سے ہم ان کی سابقہ غلطیوں اور شرارتوں کو معاف فر ما دیں گے، انہیں نہ اپنے ماضی کے اعمال پر حسرت ہو گی نہ مستقبل کے متعلق خوف ہو گا۔’’ولا خوف علیہم ولاھم یحزنون‘‘(اورنہیں ان پر کچھ خوف اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔) فتنہ محشر کی حشر سامانیوں میں بھی ان پر اطمینان وسکون کی چادر تنی ہو گی ۔ اگرچہ اس معیار پر اترنے سے پہلے وہ منافقانہ روش پر چل چکا ہو یایہودی ونصرانی اور صابی رہ چکا ہو، ہماری رحمت کسی گروہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ، صاحب ایمان اور صاحب اعمال صالحہ کے ساتھ مخصوص ہے، اگرچہ اس کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہو۔
فلسفہ وحدت ادیان کی حقیقت
بعض لوگوں نے قرآن کریم کی اسی مذکورہ بالا آیت سے وحدت ادیان کا فلسفہ کشید کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یعنی جو شخص بھی الله تعالیٰ کی ذات وصفات پر اور آخرت پر ایمان ویقین رکھنے کے ساتھ ساتھ نیک اعمال کی جستجو میں لگا رہا ،وہ نجات اخروی کا مستحق ہو گا، اگرچہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ محبوب کبریا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانا ضروری نہیں، وحدت ادیان کے علم برداروں سے اس آیت کریمہ کے سمجھنے میں بنیادی طور پر دو غلطیاں صادر ہوئیں:
۱-انہوں نے آیت کریمہ کا معنی ومفہوم سمجھنے کے لیے فقط لغت کو پیش نظر رکھ کر اس کے لغوی معنی مراد لیے، حالاں کہ یہاں ایمان بالله کے اصطلاحی معنی مراد ہیں۔
۲-.قرآنی آیت کی تفسیر سمجھنے میں کسی دوسری آیت یا حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم سے مدد نہیں لی، حالاں کہ قرآن فہمی کے سلسلے میں یہ دونوں چیزیں مسلمہ اصول کی حیثیت رکھتی ہیں ، آیت کریمہ سے وحدت ادیان کا استدلال کئی وجوہ سے باطل ہے:
1…قرآن کریم میں لفظ ، ایمان کا استعمال پورے اسلام کے عنوان کے طور پر ہوا ہے، اس کا لغوی معنی مراد نہیں، بلکہ اصطلاحی معنی مراد ہے، اصطلاح میں ایمان کہتے ہیں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرنے کے بعد، ان کی تعلیمات کی روشنی میں الله تعالیٰ کی ذات وصفات اور قیامت کے احوال وواقعات پر صدق دل سے ایمان لانااوراخروی زندگی سدھارنے کے لیے شریعت محمدی کے موافق زندگی بسر کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ آلوسی رحمہ الله تعالیٰ نے’’ من آمن بالله‘‘ کی تفسیر ”بالدخول فی ملة الاسلام“( دخول اسلام) سے فرمائی۔ ( روح المعانی، البقرہ، تحت آیہ رقم:62)
علاوہ ازیں قرآن کریم میں الله تعالیٰ نے بعض ایسے مدعیان ایمان سے ”ایمان“ کی نفی فرمائی ہے جو ذات الہی اور آخرت پر صدق دل سے ایمان رکھتے تھے، لیکن آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کے منکر تھے۔ یعنی ان کا ایمان لغوی (آمنا بالله والیوم الآخر) موجود تھا، لیکن ایمان اصطلاحی نہ تھا، بنا بریں ان کے بارے میں فرمایا گیا :
ترجمہ:” او رجو کوئی چاہے سوا دین اسلام کے اور کوئی دین، سو اس سے ہر گز قبول نہ ہو گا۔“
علاوہ ازیں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! میری اس امت میں سے جو شخص بھی میری بات سن لے وہ یہودی ہو یا عیسائی پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا۔ صحیح مسلم میں اس حدیث مبارکہ کے لیے عنوان ہی یہی باندھا گیا ہے،ہمارے نبی محمد صلی الله علیہ وسلم کی رسالت پر وجوب ایمان کا بیان“ (صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب وجوب الإیمان برسالة نبینا محمد صلی الله علیہ وسلم، رقم الحدیث:386)
اس سے پتہ چلا کہ وحدت ادیان کی گم راہی درحقیقت قرآنی آیات اورحدیث رسول صلی الله علیہ وسلم کو نظر انداز کرکے عقلی گھوڑے دوڑانے کا نتیجہ ہے۔
3…اس نظریہ کی رو سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی رسالت انسانیت کے کسی ایک طبقے کے ساتھ مخصوص ہو جائے گی، حالاں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کا ئنات کے ہر انسان کے لیے ہے:
ترجمہ:” اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو سارے لوگوں کے واسطے، خوشی اور ڈر سنانے کو۔“
4…اس نظریہ کی رو سے وہ تمام ادیان، جو الله تعالیٰ کی ذات گرامی اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہوں،برحق ہیں ، حالاں کہ الله تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ قیامت کے دن میں ان کے مابین فیصلہ کروں گا کہ کون حق پر تھا؟ اگر سب برحق ہیں تو پھر روز محشر کے اس فیصلے کا کیا مطلب ہے؟
ترجمہ:”جولوگ مسلمان ہیں اور جویہود ہیں اور صابئین اور نصاریٰ اور مجوس اور جو شرک کرتے ہیں، مقرر الله فیصلہ کرے گا ان میں قیامت کے دن، الله کے سامنے ہے ہرچیز۔“
ترجمہ:” اور یہود تو کہتے ہیں کہ نصاری نہیں کسی راہ پر اور نصاری کہتے ہیں کہ یہود نہیں کسی راہ پر، باوجود یہ کہ وہ سب پڑھتے ہیں کتاب، اسی طرح کہا ان لوگوں نے جو جاہل ہیں، ان ہی کی سی بات، اب الله حکم کرے گا ان میں قیامت کے دن، جس بات میں جھگڑتے تھے۔“
ترجمہ:”ہر امت کے لیے ہم نے مقرر کر دی ایک راہ بندگی کی کہ وہ اسی طرح کرتے ہیں بندگی ، سو چاہیے تجھ سے جھگڑا نہ کریں اس کام میں اور تو بلائے جا اپنے رب کی طرف، بے شک تو ہے سیدھی راہ پر، سوجھ والا اور اگر تجھ سے جھگڑنے لگیں تو تو کہہ! الله بہتر جانتا ہے جو تم کرتے ہو، الله فیصلہ کرے گا قیامت کے دن جس چیز میں تمہاری راہ جدا جدا تھی۔“
اس نظریے کی رو سے اسلامی بنیادوں پر حکومت کا قیام، کافروں سے جزیہ کی وصول یابی ، اسلامی حدود وتعزیرات کا نفاذ ، اعلائے کلمة الله کے لیے جہادو وقتال کی تمام تر کوششیں بے معنی مقاصد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بلکہ اس فلسفے کی اٹھان اسلام کے سیاسی نظریات کے انہدام پر ہی قائم ہے، برصغیر میں برطانیہ کے استعماری دور میں یہ فلسفہ بڑے زور وشور سے پھیلایا گیا تھا، تقسیم ہند کے بعد گواس کا زور ٹوٹ گیا ،لیکن اب یہی صدا مغرب کی فضا سے ”مکالمہ بین المذاہب“ کے عنوان سے سنائی دے رہی ہے، الله تعالیٰ اس کے شر سے اہل ایمان کو محفوظ رکھے۔ ( آمین)
ماخوذ از: ماہنامہ الفاروق ، ربیع الاول 1435ھ ۔
وحدت ادیان کے موضوع پر مزید پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنکس پر کلک کیجیے:
وضاحت: اُردودُنیا اوربرصغیر کے مشہور ادیب ونقاد پروفیسر محمد حسن عسکری مرحوم کی وفات پر مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے ان کی شخصیت وخدمات پرتفصیلی مضمون لکھا ،اسی طرح حسن عسکری صاحب کی آخری تصنیف ’’جدیدیت‘‘ پربھی مفتی صاحب نے مختصر تبصرہ تحریر فرمایا تھا ،یہ دونوں مضامین ماہنامہ ’’البلاغ ‘‘میں چھپ چکے ہیں ، قارئین کی دل چسپی کے لیے یہاں وہ دونوں مضامین شائع کیے جارہے ہیں۔
آہ! پروفیسر حسن عسکری مرحوم
۷ صفر ۱۳۹۸ ھ کی صبح اچانک یہ جانکاہ خبر بجلی بن کر گری کہ میرے محسن، کرم فرما اور بزرگ دوست پروفیسر محمد حسن عسکری اچانک اس سفر پر روانہ ہوگئے جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔ ’’بزرگ دوست‘‘ کی ترکیب شاید اجنبی اور ناموس ہو۔ لیکن میرے ساتھ مرحوم کے تعلقات کی جو نوعیت تھی اس کے اظہار کے لئے مجھے بہت سوچنے کے بعد بھی کوئی اور لفظ نہیں ملا، وہ اپنی عمر، معلوما ت، تجربے، کہنہ مشقی اور مجھ پر احسانات کی بناء پر میرے بزرگ تھے، لیکن اپنی محبت، بے تکلفی، سادگی اور میرے ساتھ مجموعی طرز عمل کے لحاظ سے میرے بہترین دوست بھی تھے۔
ان کے اچانک انتقال کی خبر ایسی غیر متوقع اور ناگہانی تھی کہ انہیں خود کندھا دینے، ان کی نماز جنازہ پڑھانے اور انہیں اپنے سامنے قبرمیں اتارنے کے باوجود ا س کی تصدیق کرنے کو جی نہیں چاہتا، بمشکل پچاس پچپن سال کے درمیان ہوں گے اور ان کے ساتھ میرے گیارہ سالہ تعلق میں کبھی یہ وہم و گمان بھی نہیں ہوا کہ وہ اتنی جلدی ہم سے بچھڑجائیں گے، لیکن موت ایسی چیز ہے کہ جس نے اندازوں اور تخمینوں کو ہمیشہ شکست دی ہے، پھر بھی انسان اپنی زندگی میں موت کو وہم اور تخمینوں کو یقین سمجھتا آیا ہے۔ اپنے پیاروں کو اپنے ہاتھ سے مٹی دینے کے بعد بھی اس کا نفس یہی فریب دیتا رہتاہے کہ ’’ابھی تو میں جوان ہوں۔‘‘
بہرکیف! عسکری صاحب اچانک ہم سے جدا ہوگئے،ان کی موت نے نہ جانے کتنے بڑے بڑے منصوبے، کتنی بڑی بڑی امیدیں اور کتنی خوشگوار آرزوئیں پل بھر میں جلا کر راکھ کردی ہیں اور آج جب کہ راکھ کے اس ڈھیر میں سے ان کے ساتھ گذرے ہوئے لمحات کی یادیں جمع کرنا چاہتا ہوں تو حیرت و حسرت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
عسکری صاحب مرحوم کے ساتھ میرے تعلق کی کہانی بھی عجیب ہے۔ بظاہر ہم دونوں کی دنیا ایک دوسرے سے بالکل الگ تھی۔ وہ اصلاً افسانوی ادب و شعر و تنقید کے آدمی تھے، اور میں شروع سے دین کا خشک طالب علم، وہ اپنی ادبی تحریروں کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور اور میں بالکل گمنام، وہ شعر و ادب سے لے کر فلسفہ و سیاست تک ہر کوچے کی خاک چھانے ہوئے اور میں سدا سے بسم اللہ کے گنبد میں گوشہ نشین۔ اس لئے بظاہر دونوں میں کسی دیرپا تعلق کا سوال نہ تھا۔ کبھی کبھی ادبی پرچوں میں ان کے مضامین ضرور نظر سے گذرتے تھے، لیکن کبھی وہم بھی نہ آیا تھا کہ ان سے کوئی قرابت قائم ہوسکتی ہے۔ چنانچہ آج سے گیارہ سال پہلے جب وہ اچانک میرے مکان پر تشریف لائے اور اپنا نام ’’محمد حسن عسکری‘‘ بتایا تو ایک لمحے کے لئے توذہن اس ’’محمد حسن عسکری‘‘ کی طرف گیا جس کی تنقیدی شہ پاروں سے ادبی دنیا گونج رہی تھی، لیکن دوسرے ہی لمحے ذہن نے اس خیال کی تردید کردی، دل نے کہا کہ میں کہاں اور وہ کہاں؟ یقینا یہ کوئی دوسرے صاحب ہوں گے او رجو سراپا مجھے نظر آیا وہ اس مشہور فسانہ نگار اور نقاد کے تصور سے کوئی مطابقت نہ رکھتا تھا۔ سادہ سی شیروانی اور پاجامہ، سر پر ململ کی وہ دو پلی ٹوپی اَدا اَدا میں سکونت اور تواضع۔ آکر بیٹھے بھی تو آدھے گھنٹے کی نشست میں دوچار ضروری باتوں کے سوا کچھ نہ بولے۔ اس کم سخن، مرنجان و مرنج اور مسکین شخصیت میں مجھے ڈھونڈے سے بھی وہ گونجتا گرجتا نقاد نظر نہ آسکا جس کے تیکھے مضامین اور چومکھے فقروں سے جدید مغربی ادیب کا کلیجہ چھلنی ہے۔
وہ میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کسی دینی مسئلے میں معلومات حاصل کرنے آئے تھے اور جب انہیں پتہ چلا کہ میں عیسائیت پر کوئی کتاب لکھ رہا ہوں تو ازراہ عنایت میرے پاس بھی تشریف لے آئے، اور اپنے محبوب فرانسیسی مصنف ’’رینے گینوں‘‘ کی ایک انگریزی کتاب مجھے دے کر چلے گئے۔ اس پہلی ملاقات میں مجھے آخر تک اندازہ نہ ہوسکا کہ یہ وہی ’’محمد حسن عسکری‘‘ ہیں جو اپنی افسانوں اور تنقیدوں کے لئے مشہور ہیں۔
لیکن اس کے بعد جب ملاقاتوں کا سلسلہ دراز ہوا اور اجنبیت کے حجاب اٹھے تب یہ راز کھلا یہ کہ معروف افسانہ نگار شعر و ادب، تنقید، مصوری او رموسیقی کی سیاحی کے بعد بالآخر دین و مذہب اور تصوف کی آغوش میں آسودہ ہوگیا ہے۔
عسکری صاحب کو شروع ہی سے مطالعے کا شوق تھا، اسی وجہ سے انہوں نے شادی بھی نہیں کی اور یہی شوق انہیں کشاں کشاں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف اور ان کے مواعظ و ملفوظات تک لے گیا، یہاں پہنچ کر انہیں محسوس ہوا کہ جس علم و حکمت کی تلاش میں انہوں نے اردو، ہندی، انگریزی اور فرانسیسی ادب اور فلسفے کی خاک چھانی ہے وہ تھانہ بھون کے ایک درویش مصنف ؒ کی بظاہر بے آب و رنگ تصانیف میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف کی تعداد ایک ہزار تک پہنچتی ہے، عسکری صاحب نے ان میں سے بیشتر کتابوں کا ذوق و شوق سے مطالعہ کیا ۔ اس دوران ان کی علمی زندگی میں بھی دینی اعتبار سے بڑا خوشگوار تغیر پیدا ہوا۔ سالہا سال سے وہ نہ صرف نماز باجماعت کے پابند بلکہ بہت سے اذکار و اَوراد کے بھی عادی تھے۔ تصوف ان کے مطالعے اور دلچسپی کا خاص موضوع تھا اور حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے خصوصی عقیدت کی بناء پر وہ ان سے تعلق رکھنے والے علماء کے پاس آنے جانے لگے اور میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اتوار کی مجلس میں اکثر و بیشتر پہنچ جاتے تھے۔
جوں جوں عسکری صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا دل میں ان کی محبت و عظمت بڑھتی گئی، وہ صرف اپنے وسیع مطالعے اور وافر معلومات کی بناء پر ہی قابل قدر نہ تھے، بلکہ اپنی خوش خلقی، تواضع،ایثاراور سادگی میں اپنی مثال آپ تھے۔ شرافت و متانت کے ایسے پیکر میں نے زندگی میں کم دیکھے ہیں۔ سالہا سال اس طرح گذرے کہ میں اکثر جمعہ کو ان کے یہاں چلا جاتا اور وہ تقریباً ہر اتوار کو دارالعلوم آجاتے ا ور بسا اوقات سارا سارا دن میرے پاس رہتے تھے۔ اس پورے عرصے میں، میں نے ان کے اندر ایک تڑپ موجزن پائی، اور وہ یہ کہ ہمارے زمانے میں جو لوگ مغربی افکار کی چمک دمک سے مرعوب ہیں، کسی طرح انہیں قدیم عربی، فارسی اور اردو کتابوں میں چھپے ہوئے لعل و جواہر سے آشنا کیا جاسکے، تاکہ انہیں معلوم ہو کہ بہت سی وہ بحثیں اور وہ الجھے ہوئے مسائل جو مغربی مفکرین کی ہزار کوششوں کے باوجود الجھتے ہی جارہے ہیں، انہیں ان’’دقیانوسی‘‘ کتابوں نے کس خوبصورتی سے حل کردیا ہے؟
اپنے آخری دنوں میں وہ عربی اور فارسی کے علم بلاغت کے مطالعے میں مصروف تھے اور میرے ساتھ ہر نشست میں وہ بلاغت کے کسی مسئلے پر تبادلہ خیال کرتے تھے، مجھ سے اس موضوع پر کئی پرانی کتابیں لے کر پڑھیں اور آخری نشست میں شیخ محمد علی تھانوی ؒ کی عربی کتاب ’’کشاف اصطلاحات الفنون‘‘ سے ’’افعال ناقصہ‘‘ کی ایک بحث کا خلاصہ میری زبانی سنا تو اس کے ایک ایک لفظ پر وجد کرتے رہے کہ اس بحث نے ایک ایسے مسئلے کوبالکل صاف کردیا ہے جو آج کل مغربی علم لغت کے ماہرین میں طویل مباحث کا محور بنا ہواہے۔
میرے نزدیک عسکری مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مضامین کے ذریعے مغربی کی مرعوبیت بلکہ ذہنی غلامی کے بتوں کو پاش پاش کیا ہے، وہ اپنے وسیع و عمیق مطالعے کے ذریعے اس راز کو پاچکے تھے کہ مغرب کی سب سے بنیادی گمراہی مابعد الطبیعت سے اعراض ہے، اور یہ گمراہی صرف فلسفے اور اخلاق وغیرہ تک محدودنہیں رہی، بلکہ اس نے مغرب کی ایک ایک حرکت و نقل کو متاثر کیا ہے، یہاں تک کہ وہ ادب، شاعری اور تنقید میں بھی ایسے غیر محسوس انداز سے رچ بس گئی ہے کہ سرسری نظر میں اس کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ چنانچہ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتداء میں جن مسلمانوں نے مغربی ادب کا مطالعہ کیا انہوں نے اس کی بہت سی باتیں معصوم اور بے ضرر سمجھ کر اپنالیں، حالانکہ ان کا رشتہ درحقیقت مغرب کی اسی بنیادی گمراہی سے جڑا ہوا تھا۔ اس ضمن میں عسکری صاحب نے سرسید، حالی اور شبلی مرحوم پر جو تنقیدیں کی ہیں وہ ان کی باریک بینی اور سوچ کی گہرائی کی دلیل ہیں۔میری ادارت میں نکلنے والے ماہنامے ’’البلاغ‘‘ میں انہوں نے بڑے گرانقدر مضامین لکھے ہیں، ان میں سب سے پہلے مضمون کا عنوان تھا ’’اردو کی ادبی روایت کیا ہے؟‘‘ اس مضمون کا بنیادی نقطہ یہی ہے کہ شعر و ادب اور تنقید میں بھی ہم نے شعوری یا غیرشعوری طور پر مغرب کی تقلید کرکے اپنا رشتہ اپنے اس عظیم سرمائے سے کاٹ لیا ہے جو نہ صرف مغرب کی فکری اڑان سے بالاتر تھا، بلکہ آج مغرب کے مفکرین جن مسائل کے گرداب میں سرگرداں ہیں ان سے نجات کا واحد راستہ بھی وہیں سے نکل سکتا ہے۔ عسکری صاحب کا یہ مضمون ادبی حلقوں میں عرصے تک موضوع گفتگو بنا رہا، اس پر کچھ لے دے بھی ہوئی، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے ادب اور تنقید کے شائقین کے سامنے فکر و نظر کی نئی راہیں کھولی ہیں۔
عسکری صاحب چونکہ مختلف افکار، فلسفوں اور نظام ہائے حیات کے مشاہدہ نما مطالعے کے بعد پوری بصیرت کے ساتھ دین کی طرف آئے تھے۔ اس لئے ان کی دینی فکر میں دور دور تک معذرت خواہی کی کوئی پرچھائیں نہیں تھی، انہوں نے دینی فکر کو پورے اعتماد و یقین کے ساتھ اپنایا تھا، اس لئے انہیں وہ مکتب فکر کبھی ایک آنکھ نہیں بھایا جو مغربی افکار سے مرعوب ہوکر دین میں کتر بیونت کے درپے ہے۔ چنانچہ وہ دین میں تحریف کی کوششوں کو سیکولر ازم سے زیادہ خطرناک سمجھتے تھے۔
ان کی بیشتر زندگی انگریزی ادب پڑھانے میں گزری، اور وہ اردو کی طرح انگریزی کے بھی صاحب طرز ادیب تھے، اس لئے میں نے بارہا ان سے فرمائش کی کہ وہ بعض دینی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کریں ،شروع میں یہ کہہ کر عذر کرتے رہے کہ دین کا معاملہ نازک ہے، لیکن پھرانہوں نے خود ہی سب سے پہلے میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مقالے ’’اسلام کا نظام تقسیم دولت‘‘ کا انگریزی ترجمہ کیا جو جناب پروفیسر کرار حسین کی نظرثانی کے بعد Distribution of Wealth in Islam کے نام سے چھپا، اور اب تک بلامبالغہ لاکھوں کی تعدادمیں شائع ہوچکا ہے۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ؒ کی کتاب ’’الانتباہات المفیدہ‘‘ میری طرح عسکری صاحب کو بھی پسند تھی، کیونکہ اس میں مغرب کی اہم گمراہیوں اور مغربی طرز استدلال کی بنیادی خامیوں کو بڑے مختصر اور جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ میری فرمائش پر عسکری صاحب نے اس کتاب کا بھی بڑا دلکش ترجمہ کیا۔ اصل کتاب چونکہ بہت مختصر اور اصطلاحات سے پُر تھی، اس لئے یہ بڑا مشکل کام تھا، لیکن عسکری صاحب نے اس کے ترجمے میں غیر معمولی فضل و کمال کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ کتاب بھی جناب پروفیسر کرار حسین صاحب کی نظر ثانی کے بعد Answer to Modernism کے نام سے شائع ہوچکی ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ یہ انگریزی ترجمہ مجھے اصل سے زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے۔
میری فرمائش پر عسکری صاحب نے اردو میں بھی ایک کتاب لکھی تھی جس میں ارسطو اور افلاطون سے لے کر جدید مغربی فلاسفہ تک تمام مشہور مفکرین کے بنیادی فلسفوں کو بڑے اختصار اور جامعیت کے ساتھ بیان کیا تھا، اور مغرب کی فکری گمراہیوں کی ایک جامع فہرست بڑی دیدہ ریزی سے مرتب کی تھی۔ انہوں نے بارہا یہ کتاب شائع کرانی چاہی، مگر وہ نظر ثانی کے ارادے سے ٹلتی رہی۔ ابھی چند ماہ پہلے انہوں نے اس کی اشاعت پر رضامندی ظاہر کردی تھی لیکن ابھی چھپ نہیں سکی تھی کہ وہ رخصت ہوگئے۔ یہ کتاب ان کے مسودات میں محفوظ ہوگی۔
پھر اللہ تعالیٰ کو عسکری صاحب سے ایک اور عظیم الشان کام لینا تھا جو ان کی زندگی کے تمام دوسرے کاموں پربھاری تھا۔ میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ایک اردو تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ آٹھ جلدوں میں شائع ہوچکی ہے، اور غالباً عصر حاضر کی اردو تفاسیر میں سب سے زیادہ مفصل اور جامع تفسیر ہے۔ میں نے عسکری صاحب سے فرمائش کی کہ وہ اس کا انگریزی ترجمہ شروع کردیں۔ ابتداء میں وہ عذر کرتے رہے، لیکن چونکہ وہ خود اس کی ضرورت محسوس کرتے تھے کہ انگریزی میں کوئی مستند اور مفصل تفسیر منظر عام پر آئے۔ اس لئے بالآخر اس شرط پر راضی ہوگئے کہ میں بھی مشورے میں برابر شریک رہوں۔ چنانچہ تقریباً تین سال پہلے انہوں نے ایک عظیم الشان کام کا بیڑا اٹھالیا۔
وہ ہفتہ بھر تفسیر کا ترجمہ کرتے، جمعہ کے دن مغرب کے بعد میں اور عبدالوحید قریشی صاحب ان کے پاس پہنچ جاتے۔ رات گئے تک ہماری نشست رہتی جس میں وہ اپنا لکھا ہوا مسودہ ہمیں سناتے، مشورہ طلب امور میں مشورہ کرتے، اور مسودہ میرے حوالے کردیتے، ان کا معمول یہ تھا کہ قرآن کریم کی آیات کا ترجمہ میری موجودگی ہی میں کرتے تھے اور اس غرض کے لئے وہ اتنی محنت اٹھاتے تھے کہ جتنے انگریزی اور فرانسیسی تراجم ان کے پاس موجود تھے۔ ان سب میں سے متعلقہ آیات کا ترجمہ وہ ترتیب وار ایک کاپی میں لکھ لیتے تھے، تاکہ سارے تراجم ایک نظر میں سامنے آجائیں، اس کے بعد باہمی مشورے سے الفاظ اور ترکیبوں کا انتخاب کرکے آیات کا طے شدہ ترجمہ لکھ لیتے تھے۔ عسکری صاحب بھی کہا کرتے تھے اور خود میرا تجربہ بھی یہی تھا کہ تصنیف و تحریر کا کوئی کام قرآن کریم کے ترجمے سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔
عسکری صاحب کے ساتھ یہ ہفتہ وار نشست جو تین سال سے تقریباً بلاناغہ جاری تھی، اس قدر دلچسپ مفید اور معلومات آفریں ہوتی تھی کہ پہلے سے اس کا انتظار لگا رہتا تھا اور میں بھی اس کا اس قدر اہتمام کرتا تھا کہ بعض اوقات سفر سے کراچی پہنچ کر اپنے مکان کے بجائے سیدھا عسکری صاحب کے یہاں پہنچ جایا کرتا تھا۔ لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ یہ پرکیف مجلس اس قدر جلد اجڑ جائے گی۔ ابھی قرآن کریم کا سوا پارہ،تفسیر کی پہلی جلد کا دو تہائی حصہ، اور انگریزی مسودے کے تقریباً پانچ سو صفحات ہوپائے تھے کہ عسکری صاحب رخصت ہوگئے:
فصل گل سیر نہ دیدیم و بہار آخرشد
عسکری صاحب نے تفسیر کا یہ کام اس قدر اخلاص کے ساتھ شروع کیا کہ اس پر کوئی ادنیٰ معاوضہ لینے کا تو میرے اصرار کے باوجود ان کے یہاں کوئی سوال نہ تھا، انہوں نے اصل اردو تفسیر بھی دام دے کر خریدی تھی، اور اس کوبھی میری ناگواری کے باوجود ہدیتہ لینا گوارا نہیں کیا، ان کا کہنا یہ تھا کہ میں آپ سے کوئی اور کتاب تحفہ میں لے سکتا ہوں، لیکن تفسیر تحفہ میں لوں گا تو مجھے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
عسکری صاحب سگریٹ نوشی کے جیسے عادی تھے اسے ان کے سب ملنے والے جانتے ہیں، لیکن تفسیر کے کام کے دوران وہ کبھی سگریٹ نہیں پیتے تھے، حالانکہ ہماری یہ نشست بعض اوقات کئی کئی گھنٹے دراز ہوجاتی تھی۔ ’’معارف القرآن‘‘ کا ترجمہ شروع کرتے وقت انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ حضرت مفتی صاحب ؒ نے اس کے شروع میں لکھا ہے کہ ’’قرآن کریم ختم کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ ایسی چیز ہے جس میں عمر ختم کردی جائے‘‘ میں بھی یہ کام اسی نیت سے شروع کررہا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے یہ نیت ایسی قبول فرمائی کہ وہ یہی کام کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہوگئے، اور سوا پارے کا ترجمہ کرکے پوری تفسیر کا ثواب سمیٹ لے گئے اور آج معارف القرآن کے مصنف حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ کے بالکل قریب آرام فرما ہیں، اور یہ بھی قدرت کا کرشمہ ہے کہ ’’حرا مجادی‘‘ جیسے افسانوں کا مصنف بالآخر قرآن کریم اور اس کی تفسیر کا مترجم بن کر رخصت ہوا اور ایک دینی مدرسے کی فضا میں پاکستان کے مفتی اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور عظیم مفسر کے پہلو میں محو آرام ہے۔ میں جب ان کی قبر پر جاتا ہوں تو وہ زبان حال سے یہ کہتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ:
بافلک گویم کہ آرامم نگر
دیدئہ آغازم، انجامم نگر
ماخوذ از:نقوش رفتگاں ، مفتی محمد تقی عثمانی، ص ۱۱۹ تا ۱۲۵،بحوالہ ماہنامہ البلاغ ، جلد ۱۲، شمارہ ۴۔
پروفیسر محمد حسن عسکری مرحوم کی کتاب ’’جدیدیت‘‘
جناب محمد حسن عسکری صاحب مرحوم ادبی دنیا میں تو معروف تھے ہی ، قارئین ’’البلاغ‘‘ بھی ان سے اچھی طرح واقف ہوں گے ، کیونکہ موصوف کے بہت سے مضامین ’’البلاغ‘‘ کی زینت بنتے رہے ہیں ، اور’’معارف القرآن‘‘ کے انگریزی ترجمے کے سلسلے میں مرحوم کی خدمات کا ذکر بھی ’’البلاغ‘‘ میں آتا رہا ہے ۔
زیر نظر کتاب[جدیدیت] آج سے تقریبا گیارہ سال پہلے عسکری صاحب مرحوم نے احقر کی فرمائش پر مرتب کی تھی ، مرحوم کا موضوع اگرچہ ادب و تنقید تھا ، لیکن مغربی فلسفے پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی ، اور فرانس کے ایک مسلمان فلسفی ’’رینے گینوں ‘‘ (جن کا اسلامی نام شیخ عبدالواحد یحییٰ تھا ) نے مغربی فلسفے پر جو تنقیدیں کی ہیں ، عسکری صاحب مرحوم نے ان کا نہ صرف بہ نظر غائر مطالعہ کیا تھا ، بلکہ وہ ان کے بے حد مداح بھی تھے ، احقر کو فرانسیسی زبان سے ناواقفیت کے سبب رینے گینوں کی کتب کے مطالعے کا تو موقع نہ مل سکا ، لیکن عسکری صاحب مرحوم جب ان کی باتیں کبھی سناتے تو ان سے بڑی سلیم ، متصلّب اور بے آمیز دینی فکر جھلکتی نظر آتی تھی ، اور یہ محسوس ہوتا تھا کہ انہوں نے مغربی فکر کی دکھتی ہوئی رگوں پر ہاتھ رکھ دیا ہے ۔
اس لیے احقر نے عسکری صاحب مرحوم سے فرمائش کی تھی کہ وہ جدید مغربی افکار اور مختلف فلسفوں کا خلاصہ عام فہم انداز میں مرتب فرماکر رینے گینوں کے افکار کی روشنی میں ان کی بنیادی گمراہیوں کی نشاندہی فرمادیں ، میرا مقصد یہ تھا کہ یہ کتاب دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے لیے کار آمد ہوگی اور اس کی مدد سے وہ جدید مغربی افکار اور ان کی گمراہیوں کو بہتر طریقے پر سمجھ سکیں گے ، زیر نظر کتاب اسی فرمائش کی تعمیل ہے ۔
کتاب کے دو حصے ہیں ، پہلے حصے میں فاضل مصنف نے یورپ کی فکری تاریخ اس جامعیت ، اختصار اور انضباط کے ساتھ بیان فرمائی ہے کہ اسے ’’دریا بکوزہ‘‘ کہنا چاہیے ، پہلے ابواب میں انہوں نے یونانی اور رومی ادوار اور ازمنۂ وسطی کے فکری رجحانات کو نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیاہے ، پھر ’’نشأۃ ثانیہ‘‘ کے بعد سے یورپ میں جتنے فکری انقلابات آئے ہیں اور جتنے فلسفوں نے مقبولیت حاصل کی ہے ، ان کو انتہائی دل نشین ترتیب سے بیان کیا ہے ، انداز بیان ایسا ہے کہ مختصر الفاظ میں ان فلسفوں کی بنیادی خصوصیات بھی واضح ہوجاتی ہیں اور ساتھ ساتھ ان کی گمراہیوں کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں ۔
دوسرے حصے میں ان فکری گمراہیوں کی فہرست ہے جو ان مغربی افکار کے زیر اثر جدید تعلیم یافتہ طبقے میں عام ہوچکی ہیں ، اور جن کی وجہ سے دین کی صحیح فہم سے روز افزوں بعد ہوتا جا رہا ہے ۔
فاضل مؤلف نے اس مختصر کتاب کی ترتیب میں بڑی محنت اٹھائی ہے اور یہ نہ جانے کتنی ضخیم اور مفصل کتابوں کے مطالعے کا نچوڑ ہے ۔
یوں تو یہ کتاب ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جس کے ذہن پر مغربی افکار اور فلسفوں کا رعب مسلط ہو ، لیکن خاص طور پر دینی مدارس کے علماء وطلباء کے لیے یہ کتاب نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ اس کے ذریعے جدید مغربی ذہن کا صحیح مطالعہ کر سکتے ہیں ، اور جو فائدہ بہت سی کتابیں پڑھنے کے بعد بھی حاصل ہونا مشکل تھا ، وہ اس چھوٹی سی کتاب کے مطالعے سے بآسانی حاصل ہوسکتا ہے ، چنانچہ اس کتاب کی اشاعت سے قبل جب اس کا مسودہ ایک مدت تک احقر کے پاس رہا تو احقر نے دارالعلوم میں اس کے مضامین تقریروں کی شکل میں پڑھائے اور اس کا فائدہ محسوس کیا، ہم دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ سے اس کے مطالعے کی پر زور سفارش کرتے ہیں ۔
Many things which are merely makshoof (established through kashf) and famous, whereupon their not being a proof is established by valid Shari substantiation – to have a firm belief in their meaning and import, or to adhere firmly to their practice, or to regard them as being an object in itself, as we see in many matters nowadays, is excessiveness in Deen (Ghuloo fid Deen).
If kashf is not conflicting with the Shariah, then it holds two possibilities, either correct or not, regardless of whether this is one’s own kashf or that of some Akaabir. [Bawaadirun Nawaadir, page71]
The ruling of Masail-e-kashfiya
One trait of Masaail-e-kashfiya is that it does not conflict with the Nass (text of the Quran and Sunnah). That is, there is no Nass that contradicts or negates it. An effort will be made to endorse it with Shariah. If there is a possibility that it can be accommodated into some Nass (text of the Quran and Sunnah), then it will remain at the level of being a possibility. If it is regarded as anything more or higher than this, then it will be ghuloo (excessive). If it bears no semblance or finds no endorsement in the Nass and then to claim it to be endorsed, will be nothing other than Tahreef (altering) the Nass.
However, if this claim is not done as a tafseer (interpretation) or taweel, but rather as a form of ilm al-Aitebar (Consideration), then if that ruling is endorsed by some other Nass, then that Aitebar will be considered and valid, but if it is not endorsed by another Nass, then it will be takalluf (exaggerated). [Al-Bawaadir, page 784]
Two types of kashf-e-Quloob
There are two types of kashf-e-quloob:
1) One which is purposely directed towards another person to ascertain his faults. This is impermissible. It is a form of spying because spying is exactly that when someone tries to hide his faults and wrongs and you try to divulge and unearth them.
2) The second is when it occurs involuntarily. This is a karamat (miracle). [Dawaat Abdiyat, page 136, vol. 19]
The ruling of Ilham (inspiration) & Kashf (manifestation)
Issues of kashf are not in any level proof in the Shariah. The only upside of it is that if it does not conflict with the Shariah, then the person upon whom the kashf manifested itself, and his followers, may practice upon it. They cannot be dogged on its execution. Its non-observance may result in worldly harm and not harm in the hereafter. [Husn Azeez, page 520]
To oppose ilham may result in some worldly castigation, like illness or some other misfortune, but not so in the hereafter, because ilham is not a valid proof for the Shariah, hence its opposition is not a sin, which warrants punishment in the hereafter. However, opposition to wahi (divine revelation to a Prophet) is a punishable offense in the hereafter. [malhoozaat, page 181]
The definition of karamat (miracles)
Karamat is that act that is manifested at the hands of a true follower of Prophet (SAW), which defies nature. If the act is not contrary to the normal (i.e. not miraculous), then it is not a karamat. If this person (who carries out a supernatural act) is not a follower of Prophet (SAW), then it is not termed a karamat, like the tricks and magic of the magicians, etc. [Bawaadir, page 78]
The difference between istidraj, Kashf & Karamat
Karamat is the term given to that supernatural act that is manifested at the hands of a pious follower of the Prophet (SAW). If the act is not of a supernatural nature and just a normal one, then this is not karamat. If any supernatural act is displayed by someone who is not a follower of Prophet (SAW), like an astrologer, magician, etc. or if he claims to be a follower but is not a practical adherent to the Sunnat, like a faasiq, faajir or ahle bid’ah, then this is also not karamat, but it is called istidraaj. A karamat is only that (miraculous act) which is manifested at the hands of a person with perfect Taqwa. [Tajdeed, page 91]
The difference between Kashf & Firasat (insight/sagacity/intuition)
A graduate from a famous Madrasah once asked the difference between kashf and firasat. The reply was that whatever knowledge was derived through kashf cannot be used a proof, but can be taken in a literal sense, whereby contentment may be derived. Contrary to firasat, because this can in a sense be used as proof (for a Shari ruling), although ilm-e-dharoori (necessary/essential knowledge) is part of it. In essence, that knowledge which is derived from firasat is a combination of ilm-e-dharoori and ilm-e-istidlaali, where the major part is the former and the latter is overwhelmed by it. Firasat is initiated by ilm-e-dharoori, thereafter in order to understand the ruling, and whether whatever we understand by it is correct or incorrect, can only be deduced by observation (reflection and investigation). Although that observation will not be of the level of istidlaal (proof), however, it is very similar to it.
No observation (reflection and investigation) is required for kashf, its validity or unsuitability is self-evident. [Ifadhat, page 207-8, vol. 10/ Husnul Azeez, page 195, vol. 2]
The difference between Aql (intellect/rational) & Kashf
The effectiveness and limit of the aql reach to that of kashf. However, the difference is that the similarity and likeness of kashf is to that of a telephone where clear words are heard and the likeness of the aql is to that of a telegraph, where a small bit of observation (reflection and investigation) is also necessary. [Ifaadhaat, page 207, vol. 10]
The difference between ilm-e-ghaib (knowledge of the unseen) & kashf
There are two meanings to ghaib: haqiqi and idaafi.
Haqiqi is when there is no means present in the acquisition of knowledge. This is special to Allah only. This acquisition is impossible for the servant, both according to Shariah and logically.
Idaafi is where a part of knowledge is revealed through some means and a part is hidden. This is possible for the servant through the revelation by Allah. Therefore there is a difference between the former meaning of ghaib and kashf, but insofar as the second meaning of ghaib there is no difference between the two.
Kashf is acquired through some concentration and even without concentration. Sometimes even with concentration, it does not come. This, therefore, means that it is an involuntary matter. This is the same definition that will apply to kashf of the graves. [Imdadul Fatawa, page 144, vol. 5]
Source: Fiqh Hanfi kay usool o zawabit by Maulana Ashraf Ali Thanvi
’’عشق مجازی سے عشق حقیقی تک ‘‘کا دھوکہ کیا عشق مجازی کے بغیر عشق حقیقی حاصل نہیں ہوتا؟
مولانا جامیؒ فرماتے ہیں :
متاب از عشق رد گرچہ مجازیست کہ آں بہر حقیقت کارسازیست
ترجمہ : عشق سے اعراض نہ کرو اگرچہ وہ مجازی ہو ، کیونکہ وہ عشق حقیقی کے لیے سبب ہے ۔
اور مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں:
عاشقی گرزیں سر وگر زاں سر ست عاقبت مارا بداں سر رہبر ست
ترجمہ : عشق اگر اُس چیز کا ہو یا اِس چیز کا ،آخر کار ہمارے لیے اس شاہ (محبوب حقیقی) کی طرف رہبر ہے ۔
اور مثلا بعض بزرگوں کی طرف ایسے واقعات کو منسوب کرنا ، یہ وہ دلائل ہیں جو عشق مجازی کے جواز میں پیش کیے جاتے ہیں ، اور تصوف (صوفیت) کا دعوی کرنے والوں کی ایک بڑی جماعت اس میں مبتلا ہے ، مگرچونکہ بعض لوگوں کو اس میں اتنا غلو ہوگیا ہے کہ گناہ سمجھنے کے بجائے اسےمشاہدہ حق کا واسطہ اور ذریعہ سمجھ کر طاعت اور نیکی سمجھنے لگے ہیں ، چنانچہ اس اعتبار سے یہ بہت سخت غلطی ہے ،اس میں دو باتیں ہیں: ایک اجمالی ، دوسری تفصیلی ۔
اجمالی بات تو یہ ہے کہ ان ہی صوفیاء حضرات کے دوسرے اقوال اس کےبالکل خلاف بھی پائے جاتے ہیں ، مولانا جامی ؒ ہی کا قول اس کے بعد یہ ہے :
ولے باید کہ در صورت نمانی وزیں پل زو خود را بگذرانی
ترجمہ :لیکن یہ ضرور ہے کہ تم صورت (عشق مجازی) میں نہ رہ جاؤ(کیونکہ یہ پل کی طرح ہے) اور اس پل سے بہت جلد گزرجانا چاہیے۔
اور مولانا رومیؒ کا قول اسی قول کے قریب یہ بھی ہے :
عشق ہائے کز پئے رنگے بود عشق نبود عاقبت ننگے بود عشق با مردہ نباشد پائیدار عشق را با حی و باقیوم دار زانکہ عشق مردگاں پائندہ نیست چونکہ مردہ سوئے ما آئندہ نیست عشق آں زندہ گزیں کو باقی ست وزشراب جانفزایت ساقی ست
ترجمہ :جو عشق رنگ روپ کی وجہ سے ہوتا ہے وہ حقیقت میں عشق نہیں ، بلکہ اس کا انجام ندامت ہے ، کیونکہ عشق فانی چیز کے ساتھ قائم قائم نہیں رہ سکتا ، عشق حی و قیوم ذات (خداوند تعالی ) کے ساتھ رکھنا چاہیے ، کیونکہ فانی چیزوں کا عشق دائمی نہیں ، کیونکہ فانی چیزیں فنا ہوکر ہمارے پاس واپس نہیں آتیں ، پس عشق اس زندہ کا اختیارکرو جو ہمیشہ باقی ہے (اللہ)اور تمہیں روح تازہ کرنے والی محبت کی شراب پلاتا ہے ۔
چونکہ محققین کے اقوال ان کے دوسرے اقوال واحوال سے متعارض نہیں ہوتے ، اس لیے ان کےوہم میں مبتلا کرنے والے وہ اقوال واحوال جن کی نسبت ان کی طرف ثابت ہیں ان کا محمل (معنی محل)وہ نہیں ہےجو استدلال کرنے والوں نے سمجھا ہے ،یہ تو اجمالی بات ہوئی۔
اگر عشق مجازی میں مبتلا ہوجائے تو؟!
تفصیلی بات یہ ہے کہ ان اقوال کے صحیح محمل (معنی محل)کو بتلادیا جائے ،اور وہ عشق مجازی کے حقیقت تک پہنچانے کے طرق ہیں،اگر ایسا اتفاق ہو کہ عشق مجازی میں بغیرقصد وارادہ کے مبتلا ہوجائے تو:
اول :عفت وپارسائی اختیار کرے ، یعنی اس کے ساتھشریعت کے خلاف کوئی کام نہ کرے ، یہاں تک کہ اسے قصدا نہ دیکھے ، نہ اس سے باتیں کرے ، نہ اس کی باتیں کرے ،اور نہ دل میں قصدا اس کا خیال کرے ، کیونکہ شریعت کی مخالفت عشق حقیقی کے منافی (ضد)ہے ، اور منافی کے ہوتے ہوئے کب امید ہے کہ عشق حقیقی حاصل ہو ۔
دوسرے: اس سے ظاہرا دوری اختیار کرے کہ اتفاقا یا اچانک بھی اس پر نظر نہ پڑے ، نہ اس کی آواز کان میں پہنچے تاکہ اس سے دل میں سوز وگداز پیدا ہو ، اوراگر قصدا یا اتفاقا اس سے لطف اندوز ہوتا رہا تو عمر بھر اسی شغل میں رہے گا ، کبھی مطلوب حقیقی (اللہ تعالی) کی طرف متوجہ ہونے کی نوبت نہ آئے گی ۔
تیسرے :یہ کہ خلوت وجلوت میں یہ سوچا کرے کہ اس شخص کا کمال یا حسن وجمال کہاں سے آیا اورکس نے عطا کیا ؟!جب محبوب مجازی کی یہ دل رُبائی ہے تو محبوب حقیقی کی کیا شان ہوگی ،بقول :
چہ باشد آں نگار خود کہ بندد ایں نگارہا
یعنی اس محبوب کی کیا شان ہوگی جس نے یہ تمام نقش ونگار بنائے ہیں ۔
اس سے اس کا عشق مخلوق سے خالق کی طرف مائل ہوجائے گا ، یہی معنی ہیں اس قول کے کہ شیخ کامل عشق مجازی کا ازالہ نہیں کرتا ، امالہ کردیتا ہے ،یعنی جس طرح انجن گرم ہو ، مگر الٹا چلتا ہو تو مسافت طر کرنے والے کو مناسب نہیں کہ انجن کو بجھائے ،بلکہ آگ تو روشن رکھنی چاہیے اوراس کی کل کو پھیر کر سیدھا چلادیا جائے ۔
بعض صوفیاء اور مشائخ نے عشق مجازی کا مشورہ دیا تو اس کا کیا مطلب؟
بعض مشائخ نے جو بعض طالبین کو قصدا عشق مجازی پیدا کرنے کا مشورہ دیا ہے ، تو اس سے عشق حلال مراد ہے ، نہ کہ حرام ، کیونکہ گناہ اور معصیت تو موصل الی اللہ ( اللہ تعالی تک پہنچانے والی ) ہو ہی نہیں سکتی ،اور جو اس مشورہ سے غرض ہے وہ عشق حلال (اولاد اوربیوی وغیرہ) سے بھی حاصل ہے ، کیونکہ عشق میں (اگرچہ وہ مجازی ہو) یہ خاصیت ضرور ہے کہ اس سے دل میں سوز وگداز پیدا ہوجاتا ہے ، اور بقیہ تمام تعلقات دل سے دور ہوجاتے ہیں اورخیال میں یک سوئی پیدا ہوجاتی ہے ، اب صرف ایک کام باقی رہ جاتا ہے کہ اس تعلق کو حق تعالی کی طرف پھیردیا جائے تو بہت آسانی سے دل خالی ہوجاتا ہے ، جیسے گھر جھاڑو دے کر تمام خس وخاشاک(کچرا) ایک جگہ جمع کرلیتے ہیں ،پھر ٹوکرے میں اٹھاکر باہرایک دم سے پھینک دیتے ہیں ، یہ ظاہر ہے کہ اگر ایک ایک تنکا گھر سے اٹھاکر باہر پھینکا جائے توزیادہ وقت خرچ ہوگا، اور پھر بھی اس قدر صفائی نہ ہوگی ۔
غرض اصلی مقصود تعلقات کو ترک کرنا یا دل میں رقت اور سوز وگداز پیدا کرنا ہے ، اوراگر یہ طریق سے حاصل ہوجائے تو بھی کافی ہے ، بعض مشائخ نےاس طریق مجازی کو اختیار کرایا،مگر چونکہ اس زمانہ میں اس طریق میں شدید خطرہ ہے ، کیونکہ نفوس میں شہوت پرستی اور لذت جوئی زیادہ ہے ، اس لیے قصد وارادہ سے ایسے طریق کا بتانا جائز نہیں ، ہاں ! اگر اتفاق سے مبتلا ہوجائے تو مذکورہ بالا طریق سے اس کا اِمالہ عشق حقیقی کی طرف کردینا چاہیے ، اور زمانہ کے بدل جانے سے طریقوں کا بدل جانا کوئی عجیب بات نہیں ، اور غضب تو یہ ہے کہ بعض لوگ عشق مجازی کوقرب الہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں ، خدا کی پناہ ! اگر گناہ ومعصیت ہی قرب الہی کا ذریعہ ہو تو سارے رنڈی بھڑوے کامل ولی ہو اکریں ۔
عشق مجازی کے علاج کا طریقہ
اول یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہمت کے بغیر آسان سے آسان کام بھی نہیں ہوتا، دیکھیے ظاہری امراض کے علاج کے لیے ناگوار اورکڑوی دوابھی پینی پڑتی ہے ، چونکہ صحت مطلوب ہوتی ہے ، اس لیے ہمت کرکے پی جاتے ہیں ،اور باطنی امراض میں تو اس کی زیادہ ضرورت ہوگی ، جب یہ بات معلوم ہوجائے تو اب اس کا علاج سنیں اور ہمت کرکے بنام خدا اس کا استعمال کیجیے ، ان شاء اللہ تعالی کامل شفا عطا ہوگی ، اس کا علاج چند اجزاء سے مرکب ہے :
۱-اس سے قطعا تعلق ترک کردیجیے ، یعنی اس محبوب مجازی سے بولنا چالنا ، اسے دیکھنا بھالنا ، آنا جانا ، یہاں تک کہ دوسرا شخص بھی اگر اس کا تذکرے تو قطعا روک دیا جائے ، بلکہ قصدا بتکلف کسی بہانہ سے اسے خوب برا بھلا کہہ کر اس سے اختلاف کیا جائے ، اس طور پر کہ اسے محبوب مجازی سے ایسی نفرت ہو جائے کہ اصلا اسے ادھر میلان اور رام ہونے کی توقع باقی نہ رہے ، اور اس سے ظاہرا اس قدر دوری اختیار کی جائے کہ کبھی غلطی سے بھی اس پر نظر نہ پڑے ،غرض اس سے کلی انقطاع ہوجائے ۔
۲-ایک وقت خلوت وتنہائی کا مقرر کرکے غسل تازہ کرکے صاف کپڑے پہن کر خوشبو لگا کر تنہائی میں قبلہ رخ ہوکر پہلے دو رکعت نماز توبہ کی نیت سے پڑھ کر اللہ تعالی کے روبرو خوب استغفار اور توبہ کی جائے ، اوراس بلا سے نجات لینے کی دعا والتجا کی جائے ، اور پانچ سو سے لے کر ہزار مرتبہ تک لا الہ الا اللہ کا ذکر اس طرح کیا جائے کہ لا الہ کے ساتھ تصور کیا جائے کہ میں نے سب غیر اللہ کو دل سے نکال دیا ،اور الا اللہ کے ساتھ خیال کیا جائے کہ میں نے محبت الہی کو دل میں جمالیا ، یہ ذکر ضرب کے ساتھ ہو ۔
۳-جس بزرگ سے عقیدت ہو اسے اپنے دل میں تصور کیا جائے کہ بیٹھے ہیں ،اورسب خرافات کو دل سے نکال نکال کر پھینک رہے ہیں ۔
۴-کوئی حدیث کی کتاب یا ویسے ہی کوئی کتاب جس میں دوزخ اور نافرمانوں پر جوغضب الہی ہوگا اس کا ذکر ہو ،اس کا مطالعہ کثرت سے کیا جائے ۔
۵-ایک وقت معین کرکے خلوت وتنہائی میں یہ تصور باندھا جائے کہ میں حق تعالی کے روبرو میدان قیامت میں حساب کے لیے کھڑا ہوں ،اور حق تعالی فرمارہے ہیں کہ اے بے حیا ! تجھے شرم نہیں آتی کہ ہمیں چھوڑ کر ایک مردار کی طرف مائل ہو ا، کیا تجھ پر ہمارا یہی حق تھا ، کیا ہم نے تجھے اسی لیے پیدا کیا تھا ، اے بے حیا ! ہماری ہی دی ہوئی چیزوں کو آنکھ کو ، دل کو ، ہماری نافرمانی میں تو نے استعمال کیا ، کچھ شرم بھی آئی ، دیرتک اسی مراقبہ میں غرق اورمشغول رہنا چاہیے ۔
اگر ان تدبیروں کا اثر ظاہر ہونے میں کسی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو پریشان نہ ہوں ، اس کو کوشش میں بھی اجر وثواب ملتا ہے جو کہ اصل مقصود ہے ،یہاں تک کہ اگر اسی میں جان بھی جاتی رہے تو شہادت کا ثواب ملتا ہے :
من عشق فعف فکتم فصبر فمات فھو شہید
یعنی جو شخص عاشق ہوا ، پس پاک دامن رہا اورچھپایا اور صبر کیا ،پھر مرگیا تو وہ شخص شہید ہے ۔
اور یہ جو مشہور ہے کہ عشق مجازی کے بغیر عشق حقیقی حاصل نہیں ہوتا ،یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے ، نفسانی فوائد اور شہوانی لذت حاصل کرنے کے لیے بزرگوں کے اقوال کو آڑ بنارکھا ہے ، اور دل کا حال اللہ تعالی کو خوب معلوم ہے ، اورخود ان سے بھی پوشیدہ نہیں ، انصاف اور حق پرستی ہو تو سب کچھ امید ہے ۔
ماخوذ از: شریعت وطریقت ، مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ، صفحہ ۲۸۶ تا ۲۹۰۔
ترجمہ: یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ( ناک واقعہ پڑنے والا) ہے اور نہ وہ ( کسی مطلوب کے فوت ہونے پر) مغموم ہوتے ہیں ( یعنی اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو خوف ناک اور غم ناک حوادث سے بچاتا ہے، اور) وہ ( اللہ کے دوست) وہ ہیں جو ایمان لائے اور (گناہوں سے) پرہیز رکھتے ہیں ( یعنی ایمان اور تقوی سے اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے)،(از:آسان بیان القرآن)۔
اس آیت میں ولایت کا مدار دو چیزوں پر فرمایا ہے ، ایمان اور تقوی ، سو جس درجہ کا ایمان اور تقوی حاصل ہوگا ،اسی مرتبہ کی ’ولایت‘ حاصل ہوگی ،اگر ادنی درجہ کا ایمان اور تقوی ہو (جو کہ صحیح ضروری عقائداور ضروری اعمال سے حاصل ہوتا ہے )تو ادنی درجہ کی ولایت حاصل ہوگی جو کہ ہر مؤمن مسلمان کوحاصل ہے ، اوراسے ’’ولایت عامہ‘‘ کہتے ہیں ،اور اگر اعلی درجہ کا ایمان اورتقوی ہے تو اعلی درجہ کی ولایت حاصل ہوگی ،اوراسے ’’ولایت خاصہ‘‘ کہتے ہیں ۔
ولی کون ہوتا ہے؟
اصطلاح میں ’’ولی‘‘ وہی شخص کہلاتا ہے جو اس ’’ولایت خاصہ‘‘ یعنی اعلی درجہ کے ایمان اور تقوی کے ساتھ موصوف ہو ، تواب ’ولایت خاصہ ‘کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ٹھہری :کامل ایمان ، کامل تقوی ، اورنماز روزے کی طرح یہ بھی فرض وواجب ہے ، اور یہ دونوں چیزیں (کامل ایمان ، کامل تقوی) باطن کی اصلاح کے بغیر حاصل نہیں ہوتیں ، کیونکہ ایمان کا محل تو ظاہر ہے کہ قلب ہے ، رہا تقوی سو وہ اگرچہ ظاہری اعضاوجوارح سے متعلق ہے ،مگر حقیقی تقوی جو کہ کامل تقوی ہے وہ قلب ہی سے متعلق ہے ،حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
التقوی ھھنا، واشار الی الصدر۔
یعنی تقوی یہاں ہے اورسینے کی طرف اشارہ فرمایا۔
سو جبکہ کامل ایمان اور کامل تقوی کا حاصل کرنا فرض ٹھہرا ، اور وہ باطن کی اصلاح پر موقوف ہے ، توباطن کی اصلاح بھی فرض ہوئی ، اسی طرح ظاہر ہے کہ اگر ادنی درجہ کا ایمان اور تقوی ہی معدوم ہوگا تو اعلی درجہ کا ایمان اور تقوی بھی کسی طرح حاصل نہ ہوگا۔
مذکورہ بالاآیت میں ’’ولایت ‘‘یعنی اللہ سے دوستی کا دارومدار صرف ایمان اورتقوی پر ہے ،چنانچہ ایمان وتقوی پر ’ولایت ‘کی بنیاد رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ’ ولایت‘ کے لیے یہ شرط نہیں کہ اس کے ہاتھ پر کوئی کرامت بھی صادر ہوا کرے،اسی طرح آیت سے یہ نتیجہ بھی نکلا کہ جو لوگ شریعت و سنت کے خلاف عمل کرنے کے باوجود’’ ولی اللہ ‘‘ہونے کا دعوی کریں وہ جھوٹے ہیں ،اور جو ایسے لوگوں کو ’’ولی اللہ ‘‘سمجھیں وہ بھی دھوکے میں ہیں،’ولایت ‘کی بنیادی شرط ایمان اورتقوی یعنی گناہوں سے بچناہے، جب تک یہ نہ ہو انسان ’’ولی ‘‘نہیں ہوسکتا (مسائل السلوک ، بیان القرآن )۔
ولایت افضل ہے یانبوت؟
اس میں گفتگو ہے کہ ’نبوت ‘افضل ہے یا’ ولایت‘؟مگر اس پر اتفاق ہے کہ’ نبی‘ افضل ہے ’ولی ‘سے ، کیونکہ انبیاء نبوت اور ولایت کے جامع ہوتے ہیں۔
جو حضرات ’نبوت ‘کے افضل ہونے کے قائل ہیں وہ ’نبی ‘کی افضیلت سے استدلال کرتے ہیں،اور جو حضرات ’ولایت ‘کے افضل ہونے کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’ولایت ‘میں توجہ الی الحق یعنی صرف خدا کی طرف توجہ ہوتی ہے ، اور’ نبوت‘ میں توجہ الی الخلق یعنی مخلوق کی طرف توجہ ہوتی ہے ،چونکہ خدا کی طرف توجہ کرنا،مخلوق کی طرف توجہ کرنے سے افضل ہے ، اس لیے ’ولایت ‘افضل ہوئی ۔
لیکن تحقیق یہ ہے کہ ’ولایت ‘تو بے شک توجہ الی الحق یعنی خدا کی طرف توجہ ہے ، مگر’ نبوت‘ خدا اور مخلوق دونوں کی طرف توجہ ہے ( توجہ الی الخلق والحق معا )اور یہ جامع مرتبہ ہے ، اس لیے ’نبوت ‘کا افضل ہونا ظاہر ہے ۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ اگر’ ولا یت‘ کو افضل کہا جائے تواس سے یہ لازم آتا ہے کہ نبی کو’ نبوت‘ ملنے سے اعلی سے ادنی کی طرف نزول ہوتا ہے ، کیونکہ نبی تو’نبوت ‘سے پہلے ہی ولی ہوتا ہے ، پھر نبوت ملتی ہے (یعنی بالفرض اگر ولایت کو افضل مانا جائے تو پھر اس کے بعد نبی کو ولایت سے کم درجہ نبوت کیوں عطا کی جاتی ہے ، یہ تو اعلی سے ادنی کی طرف جانا ہوا، جبکہ ترقی ادنی سے اعلی کی طرف ہوتی ہے) مگران دونوں میں لفظی نزاع ہے ، کیونکہ جو لوگ نبوت کو افضل کہتے ہیں وہ نبوت کومعنی مطابقی (یعنی خدا اور مخلوق کی طرف توجہ)پر محمول کرتے ہیں ، اور جو لوگ ولایت کو افضل کہتے ہیں وہ معنی تضمنی (یعنی مخلوق کی طرف توجہ) کے اعتبار سے کہتے ہیں ۔
دوسری بات یہ کہ نبی کی دو شاخیں ہوتی ہیں :ایک ولایت کی ، ایک نبوت کی ، تو نبی کی ولایت،نبی کی نبوت سے افضل ہوتی ہے ، چنانچہ دیکھ لیجیے کہ نبی کی توجہ ،مخلوق کو فائدہ پہنچانے کے لیے نبوت کی حیثیت سے توجہ تھی (توجہ الی افادۃ الخلق من حیث النبوۃ)،اورنبی کی اللہ کی طرف توجہ ولایت کی حیثیت سے تھی(توجہ الی الحق من حیث الولایۃ) ، یعنی اصل مطلوب (لعینہ)یہی توجہ الی اللہ ہے ، اورمخلوق کی طرف توجہ مطلوب لغیرہ ہے ۔
الغرض ولی کبھی کسی نبی کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا ، نہ عبادت کبھی معاف ہوسکتی ہے ، بلکہ خواص کو تو زیادہ عبادت کا حکم ہے ، البتہ مجذوب(مسلوب الحواس) جس کے حواس سلب ہوجاتے ہیں وہ معذور ہوتا ہے ، ولی نہ معصوم ہوتا ہے اور نہ ہی صحابہ کے مرتبہ کو پہنچ سکتا ہے ،کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا :
کنتم خیر امۃ
یعنی تم لوگ بہترین امت ہو ۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
خیر القرون قرنی ۔
یعنی سب زمانوں سے بہتر میرا زمانہ ہے ۔
اوراس لیے کہ سب کا اجماع ہے کہ :
ان الصحابہ کلہم عدول
یعنی صحابہ کرام سب کے سب عادل ہیں ۔
عبد اللہ بن مبارک ؒ جو تابعین میں سے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ:
الغبار الذی دخل انف فرس معاویۃ خیر من اویس القرنی وعمر المروانی ۔
یعنی جو غبار حضرت معاویہؓ کے گھوڑے کی ناک میں گیا ہے وہ (مشہورولی)حضرت اویس قرنیؒ اور حضرت عمر بن عبد العزیز مروانی ؒ سے بہتر ہے ۔
اوراسی طرح حضرت غوث اعظم ؒ نے فرمایا ہے کہ حضرت معاویہ ؓاورحضرت عمر بن عبد العزیزؒ میں اتنا ہی فرق ہے کہ حضرت معاویہ ؓ کے گھوڑے کی ناک میں جو گرد بیٹھ کر جم گئی ہو وہ ہزار عمر بن عبد العزیز جیسوں سے افضل ہے ، اس لیے کہ عمر بن عبد العزیزؒ وہ آنکھ کہاں سے لائیں گے جن سے حضرت معاویہؓ نے حضور اکرم ﷺ کو دیکھا ہے ،اور وہ زمانہ کہاں سے لائیں گے جس میں حضور اکرم ﷺ کے ساتھ رہے ،اور حضور اکرم ﷺ کے پاس اٹھے بیٹھے۔
ماخوذ از: شریعت وطریقت ،مولانا اشرف علی تھانوی ، ص۳۶-۳۷و۴۳تا۴۵، ومسائل السلوک از بیان القرآن۔