Sample Page

The Status of Celebrating Birthday in Islam

NOTE: It should be noted that the below answer is the English translation of the Fatwa issued by Jamia Uloom Islamia Allama Yusuf Banuri Town, Karachi, Pakistan.

Question

is celebrating birthday forbidden in Islam? If so what is the reason?

Answer

Celebrating a birthday is not a proven act in Shari’ah. Rather it is a modern-day ceremonial act introduced by non-Muslims, which usually involves a variety of significant customs, such as: wearing a special dress, cutting a cake with candles, music, birthday songs, mix gathering and photography. This is an imitation of other non-Muslim nations. all these things are forbidden in Islam, so it is not permissible to celebrate birthdays in its usual manner.

Yes! If there are no such impermissible activities nor is it intended to imitate the disbelievers, but the family is only remembering this day for the purpose of thanking Allah for all the blessings, wellbeing, and full filling all obligations while completing one year of life. if they arrange a ceremony free from unallowed activities and sins or cook something special for the happiness of their child at home or bring it from outside, it will be permissible, but being cautious is still better.

3,901 Views

ہمہ اوست: وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کیا ہے؟ مولانا اشرف علی تھانویؒ

تسہیل وترتیب: مفتی عمر انور بدخشانی

تعارف: حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نےمولانا جلال الدین رومیؒ کی شہرہ آفاق کتاب ’’مثنوی معنوی مولوی ‘‘کی اردو زبان میں شرح بھی لکھی ، جو کہ ’’کلید مثنوی ‘‘کے نام سے معروف ہے ، مثنوی کے دفتر اول کی ابتدا میں ایک شعر کے ضمن میں مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے مسئلہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کی تشریح وتوضیح بیان فرمائی ، یہاں ہم مثنوی مولانا روم کا وہ شعر اور اس کے تحت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی شرح آسان انداز میں پیش کررہے ہیں جس سے وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کے متعلق صحیح تعبیر اورتشریح ہمارے سامنے آجائے گی۔

جملہ معشوق ست وعاشق پردہ
زندہ معشوق ست وعاشق مردہ

ترجمہ: تمام کائنات(موجودات) معشوق ہے ،اور عاشق پردہ ہے ، معشوق زندہ ہے اورعاشق مُردہ ہے ۔

پیچھے(گزشتہ اشعارمیں) ’’راز عشق ‘‘کوجو کہ ’’وحدۃ الوجود‘‘ کا مسئلہ ہےمولانا رومؒ پوشیدہ کرگئے ،مگر وہ اخفاءوپوشیدگی عوام کے لیے تھی جو اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے ، اور ضلالت وگمراہی میں مبتلا ہوتے ہیں ، اب یہاں اس شعر میں خواص کے لیے اس راز کی طرف کسی قدر اشارہ کردیا ہے ، سو یہ احقر اسے عوام کی سمجھ کے مطابق بیان کرتا ہے ۔

’’جملہ معشوق ست ‘‘کے معنی ’’ہمہ اوست‘‘ کے ہیں ،جو اس مسئلہ کا مشہور عنوان ہے،یعنی ذات حق’’عاشق ‘‘سے مراد کل ممکنات ہیں جوکہ مسخر قدرت خداوندی ہیں ،’’پردہ ‘‘سے مراد موجود ظاہری جو حجاب اور ساتر ہے موجود حقیقی کا ، تشبیہا اس کو’’ پردہ ‘‘کہہ دیا کہ وہ بھی ساتر ہوتا ہے ،اورخود ظاہر نظر آتا ہے اورپردہ دار نظر نہیں آتا، پس پردہ کے معنی موجود ظاہری ہوئے ۔

وحدۃ الوجود اور ’’ہمہ اوست‘‘ کا مطلب

پہلے مصرعہ میں اس مسئلہ (وحدۃ الوجود) کا دعوی ہے ، دوسرا مصرعہ میں اس کی تفسیر ہے ،خلاصہ اس دعوی کا یہ ہے کہ ممکنات تو صرف ظاہری وجود رکھتی ہیں ، اور حقیقت میں کوئی موجود حقیقی یعنی موصوف بکمال ہستی نہیں ہے بجز ذات حق کے ،اسی مضمون کو ’’ہمہ اوست‘‘ سے تعبیر کردیتے ہیں،یہ روز مرہ کے محاورات کے مطابق ایک جملہ ہے، جس طرح کوئی حاکم کسی فریاد کرنے والے سے کہےکہ :’’تم نے پولیس میں رپورٹ لکھوائی؟تم نے کسی وکیل سے بھی مشورہ کیا ؟‘‘اوروہ جواب میں عرض کرے کہ:’’جناب ! پولیس اور وکیل سب آپ ہی ہیں ‘‘، ظاہر ہے کہ اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ حاکم ، پولیس اوروکیل میں کوئی فرق نہیں ، بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ پولیس اوروکیل کوئی قابل شمار چیز نہیں ، آپ ہی صاحب اختیار ہیں ،یعنی حاکم کا صاحب اختیار ہونا مراد ہے ، اسی طرح یہاں سمجھ لینا چاہیے کہ ’’ہمہ اوست‘‘ میں ’’ہمہ‘‘اور’’او‘‘ کا اتحاد مقصود نہیں ،یعنی یہ مطلب نہیں کہ ’’ہمہ‘‘اور’’او‘‘ ایک ہیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ’’ہمہ‘‘ کی ہستی قابل اعتبار نہیں ، صرف ’’او‘‘ کی ہستی قابل شمار ہے ، ہستی تو باقی موجودات کی بھی ہے ،مگر ان کی ہستی ،کامل ہستی کے سامنے محض ایک ظاہری ہستی ہے ،حقیقی یعنی کامل نہیں ۔

چنانچہ اس شعر کا دوسرا مصرعہ اسی مضمون کی تفسیر اورتمثیل ہے ، تشریح اس کی یہ ہے کہ ہر صفت کے دو درجے ہوتے ہیں:ایک کامل، اور دوسرا ناقص ، اور یہ قاعدہ ہے کہ ناقص کو ہمیشہ کامل کے سامنے کالعدم سمجھا جاتا ہے ،اس کی مثال ایسی ہےجیسے کسی بستی میں ایک شخص مثلا پانچ پاروں کا حافظ ہو ،اور وہ ناظرہ قرآن پڑھنے والوں میں حافظ مشہور ہو ، اتفاق سے وہاں ایک ایسا شخص آکر رہنے لگے جو مکمل قرآن کا حافظ اور سبعہ قراءت کا قاری ہو، ایسی حالت میں اگر کوئی اجنبی آدمی بستی والوں سے دریافت کرنے لگے کہ:’’ تمہاری بستی میں کتنے حافظ ہیں ؟‘‘تو ہر سمجھ دار یہی جواب دے گا کہ ایک حافظ ہے ،اس جواب پر اگر کوئی عام آدمی کہنے لگے کہ میاں ! فلاں بھی تو حافظ ہے !تو سمجھدار یہی جواب دے گا کہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ ! بھلا اس (قاری ) کے سامنے وہ (پانچ پاروں کا حافظ) بھی کوئی حافظ ہے ، حالانکہ ایک معنی کر حافظ وہ بھی ہے ،مگر چونکہ ناقص ہے ، اس لیے کامل کے سامنے اسے غیر حافظ قرار دیا گیا ۔

یا مثلا کوئی ادنی درجہ کا حاکم یاوزیر کرسی صدارت پر بیٹھاہوا اپنی شان حکومت دکھلارہاتھا ،اوراپنے منصب کے غرور میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا کہ اتنے میں بادشاہ وقت اتفاق سے وہاں پہنچ گیا ،بادشاہ کو دیکھتے ہی اس کے ہوش اڑگئے،اوراس مذکورہ حاکم یا وزیرکا نشہ وغرور ہرن ہوگیا ، سلطانی رعب سے بے حس وحرکت ہوکر رہ جاتا ہے ،اب جو اپنے اختیارات کو بادشاہ کے اقتدار کے مقابلہ میں دیکھتا ہے تو اس کا کہیں نام ونشان نہیں پاتا،نہ آواز نکلتی ہے ، نہ سراوپر اٹھتا ہے ، اگرچہ اس وقت اس حاکم یاوزیرکا منصب و عہدہ معدوم نہیں ہوا، مگر کالعدم ضرور ہے ،پس اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ ممکنات اگرچہ موجود ہیں ،اورموجود کیوں نہ ہوتے ،کیونکہ اللہ تعالی نے ان کو وجود دیا ہے ، مگر’’وجود حق ‘‘کے روبرو ان (ممکنات)کا وجود نہایت ناقص ،ضعیف اور حقیر ہے ،اس لیے ’’وجود ممکن ‘‘کو ’’وجود حق ‘‘کے روبرو اگرچہ معدوم نہیں کہیں گے مگر کالعدم ضرور کہیں گے (ممکنات کے وجود کو معدوم نہیں کہہ سکتے مگرتقریبا معدوم کے برابر ہے )جب ممکن کالعدم ہوا تو معتد بہ وجود ایک ہی رہ گیا ، اور یہی ’’وحدۃ الوجود‘‘ کے معنی ہیں ، کیونکہ اس کا لفظی ترجمہ ہے ’’وجود کاایک ہونا‘‘ ،سو ایک ہونے کے معنی یہ ہیں کہ دوسرا اگرچہ ہے تو سہی ، مگر ایسا ہی ہے جیسا نہیں ہے ، اسی کومبالغۃً ادعاء ’’وحدۃ الوجود‘‘ کہا جاتا ہے ، شیخ سعدیؒ نے(بوستان میں) خوب فرمایا ہے :

یکے قطرہ باراں زابرے چکید خجل شد چو پہنائے دریابدید
کہ جائیکہ دریاست من کیستم گر او ہست حقا کہ من نیستم

(بارش کا قطرہ جب بادل سے ٹپکا تو نیچے دریا کی وسعت دیکھ کر شرمندہ سا ہوگیا اوراپنے آپ کو حقیر سمجھنے لگا کہ دریا کے سامنے میری کیا حقیقت ہے ،اس کی عاجزی پسند آگئی ،سیپی نے منہ کھول دیا اور قدرت نے اس قطرہ آب کو بادشاہ کے تاج کا موتی بنادیا، جوبھی نیستی کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے وہی ہست ہوجاتا ہےاورجو پستی اپناتا ہے وہ سربلند کردیا جاتا ہے)۔

شیخ سعدیؒ نے تصریح کردی کہ ’’ہست‘‘ تو سب ہیں ، مگر ان کی ہستی ، ہستی حق کے سامنے ’’ہستی ‘‘کہلانے کے قابل نہیں ،

وحدۃ الشہود کا مطلب

مولانا رومؒ نے یہاں(دوسرے ) مصرعہ میں اس تفسیر کو ایک مثال میں بیان کیا ہے کہ حضرت حق کو زندہ کے مثل سمجھو، اور ممکن کو مردہ کے مثل سمجھو، اگرچہ مردہ نعش بھی کسی درجہ کا وجود رکھتی ہے ،آخر جسم تو ہے، مگر زندہ کے سامنے اس کی ہستی قابل اعتبار نہیں ، کیونکہ مردہ کی ہستی ناقص ہے ، اور زندہ کی ہستی کامل ہے ، اورکامل کے سامنے ناقص بالکل کمزور اورمحض ناچیز ہے ، اس مسئلہ کو مرتبہ تحقیق علمی میں ’’توحید‘‘ کہتے ہیں، جسے حاصل کرنا کوئی کمال نہیں، اور جب یہ سالک کا حال بن جائے تو اس مرتبہ میں ’’فنا‘‘کہلاتا ہے ، یہ البتہ مطلوب ومقصود ہے ،اوریہی حاصل ہے’’وحدۃ الشہود‘‘ کا،جس کی دلالت اس معنی پر بہت ہی ظاہر ہے ،کیونکہ وحدۃ الشہود کا ترجمہ ہے’’شہود کا ایک ہونا‘‘(متعدد ہستی کا مشاہدہ میں ایک نظر آنا)یعنی واقع میں تو ہستی متعدد ہے ،مگر سالک کو ایک ہی کا مشاہدہ ہوتا ہے اوربقیہ سب کالعدم معلوم ہوتے ہیں ،جیسا کہ اوپر کی مثالوں سے واضح ہوچکا، شیخ سعدیؒ نے (بوستان میں) ایک مثال اس سے بھی زیادہ واضح بیان فرمائی ہے :

مگر دیدہ باشی کہ در باغ وراغ بتابد بشب کرمکے چوں چراغ
یکے گفتش اے کرمک شب فروز چہ بودت کہ بیروں نیائی بروز
ببیں کاتشیں کرمک خاک زاد جواب از سر روشانئی چہ داد
کہ من روزوشب جز بصحرانیم ولے پیش خورشید پیدا نیم

(رات کے وقت باغوں ،سبزہ زاروں اور سیرگاہوں میں ایک چھوٹا سا چمک دار کیڑا نظر آتا ہے جسے جگنو کہتے ہیں، کسی نے ایک دن اس کیڑے سے کہا اے رات کو روز روشن کرنے والے کیڑے ! کیا بات ہے تو دن کو کبھی نظر نہیں آیا ؟ذرا غور کرنا اس مٹی سے بنے ہوئے ننھے سے آتشیں کیڑے نے کیا جواب دیا ؟اس نے جواب میں کہا :’’میں تو دن رات جنگل کے علاوہ کہیں نہیں ہوتا ، بات در اصل یہ ہے کہ سورج کے سامنے میری حیثیت ہی کیا ہے کہ روشنی لٹاسکوں؟!‘‘)۔

پس وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود میں اختلاف لفظی ہے (کما قال مرشدی) مگر چونکہ وحدۃ الوجود کے معنی عوام میں غلط مشہور ہوگئے تھے ،اس لیے بعض محققین نے اس کا عنوان بدل دیا -جو متروک عنوان کی بہ نسبت اس معنی میں زیادہ ظاہر ہے -کیونکہ لفظ وحدۃ الوجود کی دلالت مذکورہ معنی پر مجازی ہے ، اوروحدۃ الشہود کی دلالت اس معنی پر حقیقی ہے ، اور نقلی دلیل اس مسئلہ کی یہ آیت ہوسکتی ہے :’’کل شیئ ھالک الا وجہہ ‘‘، جیسا کہ شارح عقائد نسفی نے تفسیر کی ہے ۔

ماخوذ از: کلید مثنوی، جلد اول،صفحہ ۴۶ تا ۴۸، مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ

اسی موضوع پر مزید پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

5,497 Views

اکبر شاہ خان نجیب آبادیؒ: حالات زندگی اور قادیانیت سے براءت

از: مفتی عمر انور بدخشانی

مؤرخ اسلام مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادیؒ
(۱۸۷۵ء-۱۹۳۸ء)

کتاب تاریخ اسلام – مختصر تعارف

اردو زبان میں تاریخ اسلام کی کتابوں کی فہرست میں ایک ممتاز اورنمایاں نام مولانااکبر شاہ خان نجیب آبادیؒ کا بھی نظر آئے گا ،آپ کی تحریر کردہ ’’تاریخ اسلام ‘‘تین جلدوں پر مشتمل ہے جوابتداء اسلام سے لے کر دسویں صدی ہجری تک کے حالات کا احاطہ کرتی ہے،مولانا نے اپنا علمی سرمایہ تیس کے قریب کتابوں میں محفوظ فرمایا ،آپ کی دیگر کتابیں بھی مختلف ادوار میں شائع ہوئیں ، لیکن آپ کی شہرت وتعارف کا سبب ’’تاریخ اسلام ‘‘ہی بنی ،یہ کتاب محرم ۱۳۴۳ھ میں مکمل ہوئی ۔

کتاب کے پہلے حصے میں ’’عہد جاہلیت ‘‘سے لے کر ’’خلافت راشدہ ‘‘تک کا بیان ہے ۔
دوسرا حصہ بنو امیہ اور بنو عباس پر مشتمل ہے ، اس میں مسلمانوں کے عہد کشور کشائی ، تمدن آفرینی اور قیادت علمی کے عروج کی مکمل تاریخ بھی ہے اور زوال واسباب زوال کی ایک عبرت ناک داستان بھی ۔
کتاب کے تیسرے حصے میں اندلس ، مراکش ، افریقہ ،مصر ، ایران ، شام وغیرہ کی اسلامی سلطنتوں کے حالات شرح وبسط سے بیان ہوئے ہیں ، اس میں بنو امیہ (اندلس) ، دولت صفاریہ ، سلجوقیہ ، عثمانیہ ،مغلان چنگیزی اور خوارزم شاہیہ کاتذکرہ بھی تفصیل سے ملتا ہے ، اس طرح مصنف نے مصر میں دولت مملوکیہ کے اختتام اور سلطان سلیم خان کی فتح مصر اور خلافت تک (۹۲۳ھ مطابق۱۵۱۸ء) کے حالات تفصیل سے لکھے ہیں ۔

’’تاریخ اسلام ‘‘کے علاوہ آپ کی دوکتابوں ”آئینہ حقیقت نما“اور ”قول حق “ نے خاطر خواہ شہرت حاصل کی ،یہ دونوں کتابیں بھی تاریخ کے موضوع پر ہیں۔

اکبر شاہ خان نجیب آبادیؒ کی کتاب ’’قول حق‘‘

”قول حق “ میں ملت اسلامیہ کے زوال کی مجمل تاریخ بیان کی گئی ہے کہ کن کن فرقوں نے ملت اسلامیہ کی بیخ کنی میں کیا کیا کردار ادا کیا ہے اور مسلمانوں کی قائم شدہ سلطنتوں اور حکومتوں کو مٹانے میں مجوسیوں اور عجمیوں نے کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں ؟یہ الگ بات ہے کہ جگہ جگہ موٴلف مرحوم نے اسلاف سے محبت ، تقلید اور اکابرپرستی کو ملت اسلامیہ کے زوال میں اہم اسباب شمار کیا ہے،اور بات کارخ موضوع سے مناسبت کے بغیر اسی طرف موڑنے کی کوشش میں صرف کیا ہے کہ اگر ملت اسلامیہ میں مذکورہ بالا” مذموم عناصر“ نہ ہوتے تو آج تاریخ کچھ اورہوتی، اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۹۲۹ء میں نجیب آباد سے اور ۱۹۴۹ء میں دوسرا ایڈیشن نظامی پریس بدایوں سے شائع ہوا ، تیسرا ایڈیشن حافظ حیدر محمد اکیڈیمی کراچی کی طرف سے ڈاکٹر محمد ایوب قادری کے مقدمے کے ساتھ شائع ہوا ،اس کا ایک ایڈیشن پروگریسوبکس لاہور سے بھی شائع ہوا جس پر سن طباعت درج نہیں ،یہ طباعت پہلے ایڈیشن ہی کا عکس ہے ، پچھلے دنوں یہ کتاب ”دارالابلاغ“لاہور سے دوبارہ کمپوز ہو کرشائع کی گئی، ناشر نے از خود اس کتاب کا نام ”قول حق“ کے نام سے بدل کر ”امت محمدیہ زوال پذیرکیوں“ ؟ رکھ دیا ،اور کتاب کے سرورق پر یہ نشاندہی بھی ضروری نہیں سمجھی کہ اس کتاب کا مصنف کی طرف سے رکھاہوا صلی نام کیا ہے، بلکہ ناشر نے ”حرف تمنا“ کے عنوان کے تحت انتہائی غیر علمی انداز میں غیر محققانہ وجہ یہ ظاہرکی کہ :

”اب تک یہ کتاب نایاب تھی ،اگرچہ تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے شائع ہوتی رہی ، جس میں ”قول حق“ کا نام بھی شامل ہے ، دارالابلاغ کے اسٹیج سے اسے کتاب میں بیان کردہ موضوع کی مطابقت کے حساب سے ”امت محمدیہ زوال پذیر کیوں ہوئی؟“کے نام سے شائع کیا جارہا ہے “۔

ناشر نے کتاب کا نام کیوں بدلا ؟کتاب میں بیان کردہ مضامین کیا ہیں ؟ اس کتا ب پر تفصیلی تجزیہ توآگے چل کر آئے گا اور اسی کی روشنی میں مولانا نجیب آبادی کے نظریات اور افکار کا تنقیدی جائزہ پیش کیا جائے گا ، اوردراصل یہی کتاب اس مضمون کا محرک اور باعث ہے ۔

اکبر شاہ خان نجیب آبادیؒ کی کتاب ’’آئینہ حقیقت نما‘‘

مولانا کی تیسری مشہور کتاب”آئینہ حقیقت نما“ہے ،یہ کتاب تاریخی حقیقت کا اعلی نمونہ ہے ، مسلمان بادشاہوں پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں اس کتاب میں ان کے محققانہ ومجتہدانہ جواب دیے گئے ہیں ،ڈاکٹر سید محمود سابق وزیر بھارت نے جیل میں اس کتاب کے کچھ حصے کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیاتھا،یہ کتاب اس قدر مقبول ہوئی کہ مولانا محمد علی جوہر نے یہ جزوی انگریزی ترجمہ گاندھی کو تحفۃ پیش کیا ، خواجہ حسن نظامی نے اسے پڑھنے کے بعد کہا کہ:

” اگر میں صاحب استطاعت ہوتا تو مولانا نجیب آبادی کو موتیوں میں تول دیتا“۔

”آئینہ حقیقت نما“ کا پہلا ایڈیشن ۲۸-۱۹۲۶ء میں شائع ہوا ، ۱۹۵۸ء میں نفیس اکیڈیمی کراچی نے اسے دوبارہ شائع کیا ۔

مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی – مختصر حالات زندگی

آگے بڑھنے سے پہلے مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادیؒ کا کچھ تعارف بھی ضروری ہے، اکبر شاہ خان مولوی نادر شاہ خان کے بیٹے تھے ، ۱۸۷۵ء میں قصبہ نجیب آباد کے محلہ پٹھان پورہ میں پیدا ہوائے ،نجیب آباد ضلع بجنور (صوبہ یوپی) کا مشہور قصبہ ہے ، اس قصبے کو نواب نجیب الدولہ نے آباد کیا تھا ،اسی نسبت سے آپ کے نام میں ’’نجیب آبادی ‘‘کا لاحقہ شامل ہے ،تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد مولانا اکبر شاہ خانؒ تقریبا ۹۸-۱۸۹۷ء میں تدریس سے منسلک ہوگئے ،پہلے آپ نجیب آباد کے مڈل اسکول میں ٹیچر رہے ، پھر ترقی پاکر ہائی اسکول میں فارسی کے استاذ مقرر ہوگئے ۔

قادیانیت کی طرف میلان

اس زمانے میں آپ کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا جوبظاہرانجام کار آپ کے قادیان جانے کا باعث بنا،تفصیل اس واقعے کی کچھ یوں ہے کہ اس زمانے میں مسلمانوں کے خلاف آریہ سماج تحریک زوروں پر تھی ، یہ مولانا اکبر شاہ خان کی نوجوانی کا دورتھا ،ایک آریہ سماج مبلغ نجیب آباد آگیا اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر فشانی شروع کردی ، مولانا اکبر شاہ خان کی حمیت ایمانی اور غیرت اسلامی جوش میں آئی ، انہوں نے آریہ مبلغ سے ٹکر لی ، مباحثہ ومناظرہ کا سلسلہ شروع ہوگیا ،اتفاق سے اسی دوران مولانا کو اس زیر بحث موضوع پر مرزائے قادیان کی کوئی کتاب ہاتھ لگ گئی، انہوں نے اس کتاب کے مطالعے کے ذریعے آریہ سماجی کو مناظرے میں شکست دے دی اور اسے راہ فرار پر مجبور کردیا،اگرچہ مولانا کو اس معرکے میں کامیابی ہوئی مگر مولانا خود قادیانیوں کے جال میں پھنس گئے ، اس زمانے میں قادیانی تحریک زوروں پر تھی ،ممکن ہے قادیانیوں کی کتابوں سے استفادے کے بعد ان سے ایک گونہ عقیدت بھی آپ کے دل میںآ گئی ہوگی ،اور ڈاکٹر محمدایوب قادری دہلویؒ کے بقول ”ممکن ہے کوئی مبلغ بھی محرک ہوا ہو “، بہرحال آپ مرزا غلام احمد قادیانی کے خلیفہ حکیم نور الدین قادیانی سے متأثر ہو کر اس کے گرویدہ ہوگئے ، ان حکیم صاحب نے کچھ ایسا جادو کیا کہ مولانا قادیان پہنچ گئے ، خود لکھتے ہیں :

”میں نے ایک سفر پنجاب کا اختیار کیا اور سیاحانہ قادیان بھی پہنچا ، وہاں جلسہ منعقد ہورہا تھا اور غالبا یہ ۱۹۰۶ء کا واقعہ ہے ، میں کئی روز وہاں رہا ، مجھ کو وہاں کوئی چیز پسند نہ آئی، لیکن مولانا نور الدین کا درس قرآن میرے لیے قیمتی چیز تھا“۔

ایک اورجگہ رقمطراز ہیں:
”اگلے سال قادیان پہنچ کر وہاں قیام اختیار کیا ،مولانا ممدوح (نورالدین) نے مجھ کو جاتے ہی دبوچ لیا اور میرے ساتھ ان کا برتاوٴ ایسی محبت وشفقت کا تھا جس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی “۔

لاہوری جماعت سے وابستگی

۱۹۰۶ء سے ۱۹۱۴ء تک وہ قادیان میں رہے ، تقریبا پانچ سال تک مدرسہ تعلیم الاسلام کے بورڈنگ سپرنٹنڈنٹ رہے ، مولانا اکبر شاہ خان اپنے فرائض منصبی انجام دینے کے بعد زیادہ وقت حکیم نور الدین کے درس یا مطب میں گزارتے تھے ،یا پھر طلبہ کو قرآن کریم کا درس دیتے تھے ،ادھر سارے ملک میں خبر پھیل گئی کہ اکبر شاہ نجیب آبادی قادیانی ہوگئے ، قدرتا دوستوں اور عزیزوں کی طرف سے شدید رد عمل ہوا،دوسری طرف حکیم نورالدین کے انتقال کے بعد مولاناکی آزاد اسلام پسندی کی وجہ سے بقول خود :”میرے لیے قادیان کی زمین تنگ ہوچکی تھی “، ایک طرف قادیانیوں کی جانب سے مولانا کو قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں ،دوسری طرف مسلمانوں کی جانب سے کفریہ فتوے دیے جارہے تھے ، چونکہ مولانا کی وابستگی بڑی حدتک حکیم نور الدین کی وجہ سے تھی لہذا حکیم صاحب کے فوت ہوجانے کے بعد ان کا قادیان میں رہنا مشکل ہوگیا ،اور وہ وہاں کے نظام سے مایوس ہوکر ”لاہوری جماعت“سے وابستہ ہوگئے ،انہوں نے قادیان کے ناخوشگوار ماحول اورمرزا غلام احمدقادیانی کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود قادیانی کے نامناسب رویے کا اظہار اپنے بعض خطوط میں کیا ہے ، قادیانی جماعت سے تعلق ختم کرکے مولانااکبر شاہ خان اپنے قصبے نجیب آباد چلے آئے ،مگر ”لاہوری جماعت “نے ان کو پھر بلالیا اور وہ ۱۹۱۵ء کے وسط تک لاہور میں رہے ،بعدازاں مولانا نجیب آبادی کا تعلق ”لاہوری جماعت “سے بھی ختم ہوگیا ، اورانہوں نے اپنے آبائی مذہب اہل سنت کی طرف رجوع کرلیا اور ان لوگوں سے کوئی رابطہ وتعلق نہ رکھا ، اور وہ بھی مولانا اکبرشاہ خان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھول گئے ۔

قادیانیت سے براءت

مولانا قادیانی ہوئے تھے یا نہیں؟یہ کوئی راز کی بات نہیں تاہم ان پر اس ناقص فلسفے کا اثر ضرورہوا تھا ، تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ مولانا بہت جلد اس دور ابتلا سے نکل گئے ، انہوں نے اپنے خط بنام محمود بریلوی میں لکھا ہے کہ :

”میرے اندر جو ایمان اور میری روح میں جو سوز وگداز اپنے گھر کی چہار دیواری کے اندر بچپن میں پیدا ہوچکا تھا وہی آج تک موجود ہے ، الحمد للہ رب العالمین ! میں نے نہ ایک منٹ کے لیے قادیان میں کتاب وسنت کے خلاف کوئی چیز کسی سے مرعوب ہوکر تسلیم وقبول کی ،اور نہ کسی دوسری جگہ ، ہاں ! یہ ضرور ہوا کہ بعض مسائل میں تحقیق وتفتیش کی کمی اور بے علمی وناواقفیت کے سبب میں نے کچھ کا کچھ سمجھ لیا ،لیکن صحیح بات معلوم ہونے پر اس کو فورا تسلیم کرلینے میں مجھے کبھی تامل نہیں تھا اور دل کی حالت الحمد للہ کبھی نہیں بگڑی“۔

اس سلسلے میں مولانا اکبر شاہ خان کا ایک مختصر سا بیان یکم نومبر ۱۹۳۵ء ”مدینہ“ بجنور میں شائع ہوا ہے جسے یہاں نقل کیا جاتا ہے :
”میرے ایک دوست کو حال ہی میں کسی قادیانی صاحب کی صحبت کا موقع ملا ، وہ قادیانی علم کلام اور قادیانی دلائل سے بہت کچھ متأثر اور قادیانی مخصوص عقائد کو غالباقبول کرچکے ہیں ، میرے پاس انہوں نے چند سوالات لکھ کر بھیجے ہیں ، جن کی زبان اور لہجے میں تعریضات بھی نشتر زن ہیں ، میں شاید ان کے نشتر کی نسبت اپنی تلوار کی نوک سے زیادہ سلیقے سے کام لے سکتا ہوں ، لیکن اس جراحی اور فصادی سے میرا جی متلاتا ہے ،صرف نفس مطلب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ، ان کے پہلے سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ ”تو قادیان میں کئی سال تک قادیانی بن کر رہا ، اب قادیانیت سے کیوں منحرف ہے ؟کیا یہ متلون مزاجی اور رائے کی کمزوری نہیں “، اس قسم کا سوال مجھ سے مولانا حکیم اللہ صاحب بجنوری مرحوم نے بھی کیا تھا ، میں نے ان کے پاس جواب میں یہ مشہور شعر لکھ کر بھیج دیا تھا:

زنقص تشنہ لبی داں بہ عقل خویش مناز
دلت فریب گر از جلوہ سراب نہ خورد

(میرے نقصان کی وجہ پیاس تھی ،لیکن تم اپنی عقل پر نازاں مت ہو جانا ،اورتمہارا دل کہیں سراب کی چمک سے دھوکہ نہ کھاجائے)۔

ماہنامہ ’’عبرت‘‘-علامہ اقبال اور اکبر شاہ خان نجیب آبادی

مولانا اکبر شاہ خان نے نجیب آباد سے ایک تاریخی ماہ نامہ ”عبرت“ بھی جنوری ۱۹۱۶ء میں جاری کیا تھا اور مارچ ۱۹۱۷ء تک یہ رسالہ نکلتا رہا ، اس میں علمی ، تحقیقی اور تاریخی مضامین شائع ہوتے تھے ،اس کے مضامین و مقالات اکثر مولانا کے قلم سے تحریر کردہ ہوتے تھے ،اس دور کے نامور اہل قلم مثلا مولانا عبد الحلیم شرر ، اسلم جے راج پوری ، مولوی ابو الحسن بدایونی ، آغارفیق بلند شہری ، پروفیسر جمیل الرحمن بھی ”عبرت “ میں لکھتے تھے ، کبھی کبھی علامہ اقبال بھی توجہ فرماتے تھے اور اپنا کلام اشاعت کے لیے بھیجتے تھے ، اقبال ”عبرت “ کو بالالتزام پڑھتے تھے ، اپنے ایک خط مورخہ ۱۷ /مئی ۱۹۲۲ء میں لکھتے ہیں :

”عبرت بڑا مفید کام کررہا ہے ، مسلمان بیدار ہورہے ہیں ، ان شا اللہ آپ کا پرچہ ضرور چمکے گا“۔

اقبال ایک اور خط مورخہ ۲۲/ستمبر ۱۹۲۲ءء میں لکھتے ہیں :
”امیرخان پر آپ نے خوب مضمون لکھا ، خداتعالی اس کے جانشینوں کو بھی ہدایت دے کہ مسلمانوں پرظلم کرنے سے دست کش ہوجائیں “۔

اسی ضمن میں علامہ اقبال کے مولانا سے خصوصی تعلق کا اس سے اندازہ لگایے کہ مولانا نے ۱۹۲۵ء میں ایک رسالہ ”حجة الاسلام“ لکھا ، اسے پڑھ کر علامہ اس قدر متأثر ہوئے کہ سو روپے اس کتاب کی تقسیم کے لیے اپنی جیب خاص سے عنایت فرمائے ۔

اخبار’’زمیندار‘‘ سے وابستگی

۱۹۱۷ءمیں مولانا اکبر شاہ خان پھر لاہور آگئے اور ۱۹۲۱ءء کے وسط تک وہاں ان کا قیام رہا ، اس دوران وہ دیال سنگھ کالج ، مسلم ہائی اسکول اور سینیئر لوکل کیمبرج کالج میں اردو اور فارسی کے استاذ رہے ، اسی زمانے میں وہ ایک اخبار”منصور “ لاہور کے مدیر بھی رہے ، ان دنوں مولانا ظفر علی خان گرفتار ہوگئے اور مولانا نجیب آبادی کو پیغام دے گئے کہ:
”میں پہلے بھی کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں اور اب بھی ایک قیدی کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ آپ دفتر ”زمیندار“ میں تشریف لے جائیں اور اس کام کو سنبھالیں“۔
یہ پیغام ملتے ہی مولانا نے کالج کی ملازمت سے استعفی دے دیا اور اخبار ”زمیندار“کو سنبھال لیا ، تقریبا ایک سال تک ”زمیندار“ سے وابستہ رہے ، ۱۹۲۱ء کے وسط میں وہ ”زمیندار “ کی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو کر نجیب آباد آگئے اور رسالہ ”عبرت“ دوبارہ نومبر ۱۹۲۱ ء میں جاری کردیا جو دسمبر ۱۹۲۲ء تک چلتا رہا،رسالہ ”عبرت“ میں کتابوں اور رسالوں پر تبصرے توجہ اور محنت سے لکھے جاتے تھے ،”عبرت“ہر ماہ باقاعدگی سے شائع ہوتا تھا ، ملک بھر کے اہل علم کو اس کا انتظار رہتا تھا ، اس زمانے کے رسائل وجرائد نے ”عبرت“کا خیر مقدم کیا اور عمدہ تبصرے کیے یہاں تک کہ ”شنسودھک“ کے نام سے ”عبرت“کے گجراتی میں ترجمہ کرنے کی تحریک بھی ہوئی مگرافسوس کہ ”عبرت“زیادہ عرصے تک نہ چل پایا،مولانا نجیب آبادیؒ کی بہت ساری کتابیں بھی اسی طرح وجود میں آئیں کہ آپ نے جوعلمی وتحقیقی مضامین ”عبرت“ کے لیے لکھے تھے اپنی مقبولیت اور افادیت کی وجہ سے وہ بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوئے، آپ کی تالیفات میں سے ”تاریخ نجیب آباد“، ”جنگ انگورہ“،”نواب امیر خان“،”گائے اور اس کی تاریخی عظمت“،”وید اور اس کی قدامت“اور ”ہندومسلمانوں کا اتفاق“وغیرہ اسی قسم کے شاہکارہیں ۔

مولانا اکبر شاہ خان نے اردو زبان کے تاریخی وعلمی سرمائے میں گراں قدر اضافہ کیا ، موٴرخ اسلام ان کے نام کا جزء لاینفک ان کی زندگی میں ہی بن گیا تھا ، علامہ اقبال نے اپنے ایک مکتوب مورخہ ۲۳/اپریل ۱۹۳۵ء میں ”نظام سلطنت“ کی رسید دیتے ہوئے مولانا نجیب آبادی کی تصانیف پر مختصر مگر جامع تبصرہ یوں فرمایا ہے :

”بڑی مدت کے بعد آپ کی خیریت معلوم ہوئی اور کتاب بھی ملی ، بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں …… آپ کی کتاب کی ورق گردانی کی اور اسے مفید پایا،آپ کی تصانیف اردو لٹریچر میں قابل قدر اضافہ ہیں ، اس سے تمام پڑھنے والوں کی نقطہٴ نگاہ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور یہی اس ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہے “۔

جون ۱۹۳۷ءء میں مولانا کی علالت کا سلسلہ شروع ہوگیا ، ضعف معدہ کی شکایت ہوئی ، جب علاج سے کوئی افاقہ نہ ہوا تو اپریل ۱۹۳۸ءء میں وہ تبدیلی آب ہوا کی غرض سے جوالا پور گئے ، مگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا ،مقررہ وقت آچکا تھا ، چنانچہ ۱۰/مئی ۱۹۳۸ء کو مولانا اکبر شاہ خان کا سانحہٴ ارتحال پیش آیا ۔

’’آپ بیتی ‘‘لکھنے کی فرمائش پر جواب

مولانا اکبر شاہ خان ؒ سے گجراتی رسالہ ”شنسودھک“ (جس کا ذکر پیچھے آچکا ہے)کے ایڈیٹر امام شاہ لعل شاہ نے جب سوانح عمری لکھنے کی درخواست کی تو مولانا نے چند جملوں میں ہر انسان کی سوانح عمری کا حق ادا کردیا:

”مکمل سوانح عمری یہ ہے کہ مشت خاک یا قطرہٴ ناپاک سے پیدا ہوا ہوں ، مرنے کے بعد گل سڑ کر کھاد ، کیڑوں کی غذا ، خاک کے ذرات ، ہوا کا غبار بننے والا ہوں ، اب تک زندگی کا اکثر حصہ غفلت میں گزرا ، بقیہ ایام کی نسبت کچھ نہیں جانتا ، خاتمہ بخیر ہونے کی آرزو رکھتا ہوں ، اپنے گناہوں کو دیکھتا ہوں تو ڈرتا ہوں ، خدا تعالی کے رحم وفضل وکرم ومغفرت وستاری پر نظر کرتا ہوں تو امید وحسرت سے لبریز ہو کر بہشت بریں کو اپنی جاگیر یقین کرتا ہوں ، اگر خدا نخواستہ مجھ کو میری غفلتوں اور گناہوں کی سزادی گئی تو چوپائے اور حشرات الارض مجھ سے اچھے ہیں ،لیکن اگر مجھ سے عفو وعطا کا سلوک ہوا اور جنت مل گئی تو میں دنیا کے ہزارہا بادشاہوں سے زیادہ ذی عزت اور بلند مرتبہ ہوں ، میرے مورث اعلی کا نام آدم تھا ، جس کو فرشتے سجدہ کرتے تھے اور میرے روحانی باپ کا نام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو خیر البشر ، سید الرسل ، خاتم النبیین اور رحمة للعالمین ہیں ، باقی اس سے زیادہ تفصیل کے لیے گزارش ہے کہ :

ہیچم و ہیچ را نہ خرد ہیچ کس بہیچ
اے روزگار درگزر از چون و چندما

(میں معدوم ہوں اورکوئی شخص بھی معدوم کو کسی قیمت پر نہیں خرید سکتا، زمانے ہم سے سوال مت کہ کیسے ہو؟ اور کتناوقت گزارا؟)۔

اس مضمون کے لیے درج ذیل سے استفادہ کیا گیا:
۱-ماہنامہ معارف،دارالمصنفین، اعظم گڑھ ،اکتوبر ۱۹۹۷ء۔
۲-کاروان رفتہ ،ڈاکٹر محمد ایوب قادری، مکتبہ اسلوب کراچی ،۱۹۸۳ء۔
۳-تاریخ اسلام ، اکبر شاہ خان نجیب آبادی ، نفیس اکیڈیمی کراچی ،۱۹۸۶ء۔
۴-قول حق ، اکبر شاہ خان نجیب آبادی ، پروگریسو بکس ،لاہور۔
۵-امت محمدیہ زوال پذیر کیوں ، اکبر شاہ خان نجیب آبادی ، دارالابلاغ لاہور،۲۰۰۶۔
۶-سہ ماہی العلم ۱۹۵۸ءکراچی۔

بشکریہ ماہنامہ بینات ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی، شعبان ۱۴۲۷ھ مطابق ستمبر ۲۰۰۶ء

4,553 Views

علم الاعتبار: صوفیاء کرام اور قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح، از مولانا اشرف علی تھانویؒ

تسہیل وترتیب: مفتی عمر انور بدخشانی

تمہید – تعارف

ہر علم وفن کے ماہر حضرات نے اپنے متعلقہ موضوع کے اعتبار سے قرآن وسنت کے علوم کی خدمت انجام دی،اسی طرح صوفیاء کرام نے بھی تزکیہ واحسان (تصوف ) کو موضوع بناکر قرآن وسنت کے علوم کی تشریح کا فریضہ انجام دیا ، صوفیاء کرام سے قرآن کریم کی آیات کے تحت کچھ ایسی باتیں بھی منقول نظر آتی ہیں جو بظاہر تفسیر معلوم ہوتی ہیں ،مگر وہ آیت کے ظاہری معنی کے خلاف ہوتی ہیں ،جس کی بناپر بعض ناواقف حضرات صوفیاء کرام کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں، واضح رہے کہ صوفیاء نے قرآن کریم کی تشریح کے بیان میں جس علم سے کام لیا اسے ’’علم الاعتبار ‘‘ کہا جاتا ہے،یہاں اس مضمون میں ’’علم الاعتبار ‘‘سے متعلق حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے چند متفرق نکات یکجا پیش کیے جارہے ہیں ،جس سے اس موضوع کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔

علم الاعتبار کی تعریف

باطنی معنی جو بیان کیے جاتے ہیں اس سے تفسیر یا مراد کی تعیین مقصود نہیں ہوتی، بلکہ ایک شے کی حالت کو دوسری شے کی حالت پر محض تمثیل ہوتا ہے ، اس کو علم اعتبار کہتے ہیں (شریعت وطریقت، ص۳۶۳)۔

سو علم اعتبار یہ ہے کہ دوسرے کےواقعہ اور قصہ کو اپنی حالت پر منطبق کرکے سبق حاصل کیا جائے، دو چیزوں میں مشابہت ہوتو ایک نظیر سے دوسری نظیر کا استحضار کیا جائے، اور یہی ’’عبرت ‘‘حاصل کرنے کے معنی ہیں کہ دوسرے کی حالت کو اپنے اوپر منطبق کیا جائے(بدائع ،ص۲۴۱)یعنی غیر مدلول قرآنی کو مدلول قرآنی پر کسی مناسبت ومشابہت کی وجہ سے قیاس کرلیا جائے،یہ لطائف، تاویلات اور نکات کے درجہ میں ہوتےہیں ،تفسیر نہیں ،اور ان کو علوم قرآنیہ نہیں کہہ سکتے(اشرف الجواب ،ج۲،ص۳۱۴)۔

اس سے معلوم ہوا کہ:
۱-علم اعتبار کے ذریعہ بیان کردہ بات کو قرآن کی تفسیر نہیں کہا جائے گا۔
۲-علم اعتبار آیات کا مدلول نہیں ہوتا۔
۳-علم اعتبارکسی مناسبت اور مشابہت کی وجہ سے آیت پر منطبق ہوتا ہے ۔
۴-علم الاعتبار سے مقصود دین ہوتا ہے ۔

علم اعتبار کی قرآن کریم سے مثال

اوران دونوں(استدلال واعتبار) کی اصل قرآن سے ثابت ہے ،اوردوسرے طریقہ کانام خود قرآن ہی میں ’’اعتبار ‘‘آیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے :

فَاعْتَبِرُوْا یا أوْلِیْ الاَبْصَار

اس سے اوپر بنی نضیر کے جلاوطن کئے جانے کا قصہ مذکور ہے ،جس کے بیان کرنے کے بعد یہ فرمایا ہے کہ اے بصیرت والو! اس سے عبرت حاصل کرو، یعنی اگر تم ایسی حرکت کروگے جوان لوگوں نے کی ہے تو اپنے واسطے بھی اس عذاب کو تیار سمجھو اور یہی تو’’ علم اعتبار‘‘ ہے کہ دو چیزوں میں مشابہت ہو تو ایک نظیر سے دوسری نظیر کا استحضار کیا جائے ،اور یہی عبرت حاصل کرنے کے معنی ہیں کہ دوسرے کی حالت کو اپنے اوپر منطبق کیا جائے کہ اگر ہم نے اس کے جیسے اعمال کئے تو ہمارا بھی وہی حال ہوگا جو ان کا ہوا ہے(بوادر النوادر، ج۲،ص۳۹۷،بدائع ،ص۲۴۰،الفصل الوصل، ص۱۸۲، ملحوظات ص۱۱۲، اشرف الجواب)۔

قرآن کریم سے علم اعتبار کی ایک اور مثال

۲-إذْ َہْب إلٰی فِرْعَونَ أنَّہٗ طَغٰی

کے تحت صوفیہ نے لکھا ہے:

إذْہَبْ یَا رُوْحُ إلَی الْنَّفْسِ وَجَاہِدْہَا أنَّہَا قَدْ طَغَتْ

کہ اے روح !نفس کی طرف جا اور اس سے جہاد کرکے اس کو مغلوب کرکہ وہ حد سے نکلا جا رہا ہے،یہاں صوفیاء کی مراد تفسیر کرنا نہیں ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ اے قرآن پڑھنے والے !تو قرآن کے قصوں کو محض قصہ سمجھ کر نہ پڑھ، بلکہ ان سے سبق حاصل کر ،کیونکہ قرآن کریم میں جو قصے ہیں وہ عبرت حاصل کرنے کے لئے بیا ن کئے گئے ہیں :

لقدْ کاَنَ فیْ قَصَصِہِمْ عِبرَۃٌُ لاولی الالباب

پس جب تو موسی علیہ السلام کے قصہ پر پہنچے تو اس سے یہ سبق حاصل کر کہ تیرے اندر بھی ایک چیز موسی کے اور ایک چیز فرعون کے مشابہ ہے ،یعنی روح اور نفس، ایک داعی الی الخیر ہے جو موسی علیہ السلام کے مشابہ ہے، دوسرا داعی الی الشر ہے جو فرعون ملعون کے مشابہ ہے ،پس تو بھی اپنے روح کو نفس پر غالب کر ،اور نافرمانیوں سے باز آجا، یہی علم اعتبار ہے کہ دوسرے کے قصہ کو اپنی حالت پر منطبق کرکے سبق حاصل کیا جائے(بدائع ، ص۲۴۰)۔

قرآن کریم سے علم اعتبار کی تیسری مثال

۳-حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آیت:

إعْلَمُوْا أنَّ اﷲَ یُحْیِیْ الأرْضَ بَعْدَ موْتِہَا

کی تفسیر میں فرمایا ہے:

لَیَّنَ الْقُلُوْبَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَإلاَّ فَقَدْ عُلِمَ اِحْیَاء الأرْضِ مشاَہدَۃً

یعنی یہاں ’’ارض ‘‘سے مراد ’’قلوب ‘‘ہیں ، یہ بھی علم اعتبار ہی ہے ،اور إلا فقد علم احیَائُ الأرْضِ سے مشہور تفسیر کی نفی کرنا مقصود نہیں ،بلکہ مراد یہ ہے کہ اے مخاطب! تجھ کو اس آیت میں ظاہری مدلول پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے ،کیونکہ وہ تو ظاہر ہی ہے ،بلکہ اس سے ’’قلوب ‘‘کی طرف انتقال کرنا چاہئے کہ دلوں کی بھی وہی حالت ہے جو زمین کی حالت ہے،یہ روایات میرے رسالہ مسائل السلوک میں مذکور ہیں ، ان آثار وغیرہ سے ثابت ہوگیا کہ علم اعتبار صوفیہ کی بدعت نہیں ،نصوص میں اس کی اصل موجود ہے ،پس جو لوگ علم اعتبار کی رعایت کرنے میں صوفیہ پر زندقہ اور الحاد کافتویٰ لگاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں (التبلیغ نمبر۱۲، غایۃ النجاح ،ص۲۲۸و۲۲۹)

علم اعتبارکے جائز ہونے کی شرائط اورحکم

اگر علم اعتبار کے ذریعہ کیا گیا کوئی دعوی تفسیر اور تاویل کے طور پر نہ ہو، بلکہ صرف علم اعتبار کے طور پر ہو تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ:
۱- وہ حکم اگر کسی اور نص سے ثابت ہو تو پھر یہ اعتبار شرعی حدود میں داخل ہے اور جائز ہے ۔
۲- اور اگر وہ حکم کسی اور نص سے ثابت نہ ہو تو وہ پھر تکلف ہے ۔
۳- اور اگر وہ حکم کسی اور شرعی حکم کے معارض اور مخالف ہو تو بالکل ناجائز ہے۔

صوفیاء اور علم الاعتبار

پس صوفیاء اس (علم الاعتبار) کی حدود سے نہیں نکلتے ، کیونکہ وہ منقولہ معانی کے نہ تو مدلول ہونے کے منکر ہیں اور نہ مقصود ہونے کے (وہ منقولہ معانی کو مدلول اور مقصود ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں) اور جاہل صوفیاء منقولہ معانی کے مدلول ہونے کے منکر ہیں ، اور جدید تعلیم یافتہ منقولہ معانی کے مدلول ہونے کے تو منکر نہیں مگر مقصود ہونے کے منکر ہیں ، بلکہ یہ تو سیاسی معانی ہی کو مقصود سمجھتے ہیں ، ان سب فرقوں کو خوب سمجھ لو (انفاس عیسی، ص ۳۱۷)۔

قیاس فقہی اور اعتبار میں فرق

غیر مدلول قرآنی کو مدلول قرآنی پر کسی مناسبت ومشابہت کی وجہ سے قیاس کرلیا جائے یہ حقیقی قیاس نہیں ،محض قیاس کی ایک صورت ہے ،اس لئے اس سے قیاس کے احکام ثابت نہیں ہوتے، یہ قیاس حجت شرعیہ نہیں ، چنانچہ اس قیاس سے اس حکم کو نص کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ،شرعی حجت صرف قیاس فقہی ہے(بوادر النوادر،ج۲، ص۳۹۴)۔
ایسے استنباطات کا درجہ فقہی قیاس سے بھی کم ہے، نہ وہ اشارات یقینی ہیں نہ ان سے تعبیر مقصود ہے ،خود یہ علم بھی قابل تحصیل نہیں ،بلکہ بلا تحصیل ہی جس کے ذہن کو ان مناسبتوں سے مناسبت ہوگی وہ ایسے استدلالات پرقادر ہوگا ،اگرچہ وہ علم وفضل میں کوئی معتدبہ درجہ نہ رکھتا ہو۔خلاصہ یہ ہے کہ فقہی قیاس میں تو غیر منصوص کو منصوص کے ساتھ لاحق کرکے اس پر حکم کرتے ہیں اور وہ بھی جہاں مستقل دلیل نہ ہو، یہ غیر منصوص بھی علت کے واسطے سے نص کا مدلول ہوتا ہے اور قیاس محض مظہر ہے،اورصوفیہ کا قیاس (علم اعتبار ) اگر دلیل سے ثابت نہ ہوں تو ان نصوص سے ثابت ہی نہیں ہوتے، یہ اعتبار محض ایک تشبیہ کا درجہ ہے جس میں وجہ تشبیہ حکم میں مؤثر نہیں ہوتی،’’استدلال ‘‘تو مفہوم لغوی سے ہوتا ہے ان طرق کے ساتھ جو اہل معانی واصول نے بیان کئے ہیں اور’’اعتبار‘‘ تشبہ واشارہ کے طور پر ہوتا ہے۔

استدلال واعتبار کی حقیقت اور ان دونوں میں فرق

’’استدلال ‘‘تو مفہوم لغوی سے ہوتا ہے اُن طرق کے ساتھ جو اہل معانی واصول نے بیان کئے ہیں ،اور’’ اعتبار ‘‘تشبہ واشارہ کے طور پر ہوتا ہے، اور ان دونوں کی اصل قرآن سے ثابت ہے، لیکن قرآن میں دلیل واستدلال کا لفظ صراحۃ نہیں آیا ،بلکہ اس کے مرادفات آئے ہیں چنانچہ ارشاد ہے:

قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ

اور ارشاد ہے :

قُلْ ہَلْ عِنْدَکُمْ مِنْ عِلْمٍ

یہاں’’برہان ‘‘اور ’’علم ‘‘دلیل کے معنی میں ہے، اس لئے اس کا نام’’ استدلال ‘‘رکھنا صحیح ہوگیا جیسے :اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کے معنی میں یوں کہنا کہ حق تعالیٰ نے نماز کو فرض کیا ہے صحیح ہے حالانکہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ میں ’’اللہ ‘‘اور ’’فرض ‘‘کا لفظ صراحۃ نہیں مگر اس کا قائم مقام موجود ہے(حقوق الزوجین ،ص۵۱، غایۃ النجاح فی آیۃ النکاح)۔

فال ، اعتبار اورتعبیر

پھر آگے ان میں ایک تفصیل ہے جس سے دونوں کا درجہ جدا جدا ہوجاتا ہے ،وہ یہ کہ اگرغیر مدلول قرآنی سےدینی حکم مقصود ہے تو اس (صوری) قیاس کا درجہ ’’علم اعتبار ‘‘کاہے اور وہ امت کامعمول رہا ہے بشرطیکہ اس کو درجہ تفسیر تک نہ پہنچایا جائے، اوراگر غیر مدلول قرآنی سے دنیوی حکم مقصود ہے تو اس قیاس کا درجہ فال متعارف یا شاعری سے زیادہ نہیں ،اگرچہ مقیس صحیح ہی ہو، یا اتفاق سے صحیح ہوجائے ،چنانچہ شعراء بھی اپنے خیالی دعووں میں ایسے ہی قیاسات سے استدلال کیا کرتے ہیں ،اورکبھی وہ دعوے فی نفسہ صحیح بھی ہوتے ہیں، پس جو درجہ اس شاعری یا اس تفاول کا ہے یہی درجہ اس قیاس متکلم فیہ کا ہے۔

علم اعتبار اورعلم تعبیر رؤیا میں فرق

بلکہ ایک علم جو صلحاء کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے اس (فال وشاعری ) سے بھی اشرف ہے ،یعنی تعبیر رؤیا (خوابوں کی تعبیرکاعلم) اس کا مدار بھی ایسے ہی مناسبات پر ہے ،اس کو بھی نہ کوئی قابل تحصیل سمجھتا ہے اور نہ کسی درجہ میں اس کو حجت سمجھتا ہے،اورعلم اعتبار علم تعبیر سے بھی اشرف ہے اور اشرف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ’’تعبیر ‘‘سے تو فقط تکوینی احکام پر استدلال کیا جاتا ہے ،اور’’ علم اعتبار ‘‘سے خالص شرعی احکام پر استدلال کیا جاتا ہے ،سو اس حساب سے علم اعتبار ان قیاسات مبحوث عنہا سے دو درجہ اشرف ہوا(بوادرالنوادر، ج۲، ص۳۹۶)۔

مجاز اور اعتبار میں فرق

علم اعتبار کی حقیقت یہ ہے کہ ایک مشبہ کو دوسرے مشبہ بہ سے واضح کیا جائے، ثابت نہ کیا جائے ،بلکہ مشبہ دوسری دلیل سے ثابت ہے ۔
چنانچہ علم الاعتبار نہ مجاز میں داخل ہے، خواہ مجاز مرسل ہو خواہ استعارہ، کیونکہ مجاز میں معنی موضوع لہ کے مراد نہ ہونے پر قرینہ ہوتا ہے ،اس لئے معنی غیر موضوع لہ مراد ہوتا ہے ،یعنی جب کسی لفظ کو مجازا استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے حقیقی معنی مراد نہیں ہوتے جس کے لیے اس لفظ کو وضع کیا گیا ہوتا ہے ،بلکہ غیر موضوع لہ معنی مراد ہوتے ہیں،اور جبکہ علم الاعتبار میں نہ ہی معنی غیر موضوع لہ مراد لیے جاتے ہیں ،اور نہ ہی غیرموضوع لہ معنی مراد لینے کے لیے کوئی قرینہ موجود ہوتا ہے ۔

کنایہ اور اعتبار میں فرق

اسی طرح علم الاعتبار کنایہ میں بھی داخل نہیں ،کیونکہ کنایہ میں معنی موضوع لہ متروک نہیں ہوتے ،بلکہ کلام کا مدلول اصلی وہی معنی موضوع لہ ہوتاہے، مگر مقصوداس کا لازم یا ملزوم ہوتا ہے جیسے طَوِیْلُ النَّجاد کہ اس میں مدلول وضعی متروک نہیں ، مدلول کلام وہی ہے مگر مقصود طَوِیْلُ الْقَامَۃِ ہے، کیونکہ طویل النجاد کے لئے طویل القامۃ لازم ہے اور اعتبار میں وہ معنی نہ مقصود ہے نہ مدلول کلام ہے، پس یہ اعتبار گویا ’’قیاس تصرفی ‘‘ہے اور ’’قیاس فقہی ‘‘کےمشابہ ہے، مگر عین قیاس فقہی بھی نہیں ،کیونکہ قیاس فقہی میں علت جامعہ مقیس کے حکم میں مؤثر ہوتی ہے اس لیے وہ حکم قیاس کی طرف منسوب ہوتا ہے ،یہاں یہ بھی نہیں ، صرف مقیس مقیس علیہ میں تشابہ ہے اور مشابہت کا حکم میں کوئی اثر نہیں ، بلکہ وہ حکم خود مستقل دلیل سے ثابت ہے ،یہ حقیقت ہے علم اعتبار کی ۔

قرآن وسنت کی نصوص اور علم اعتبار

رہا یہ سوال کہ جس طرح صوفیاء نے’’ علم اعتبار ‘‘کا استعمال کیا ہے کیا نصوص میں بھی استعمال آیا ہے؟ تو میں کہتا ہوں کہ بحمد اللہ اس کی نظیر نصوص میں بھی موجود ہے اور میں یہ بات خود نہیں کہتا بلکہ شاہ ولی اللہ صاحب ؒکے قول سے میں اس کا ثبوت دیتا ہوں ۔اتنے بڑے محقق نے دو حدیثوں کے متعلق الفوز الکبیر میں یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ تقدیر کا مسئلہ ارشاد فرمایا:

مَامِنْکُمْ مِنْ أحَدٍ إلاَّ وَقَدْ کُتِبَ لَہُ مَقْعَدُۃٗ مِنَ النَّارِ وَمَقْعَدُہٗ مِن الْجَنَّۃِ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اﷲِ أفَلاَ نَتَّکِلُ عَلٰی کِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ؟

یعنی تم میں سے کوئی ایسا شخص نہیں جس کا ٹھکانا جہنم یا جنت میں نہ لکھا جاچکا ہو، صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ! تو کیا ہم اپنی تقدیر پر بھروسہ کرلیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

إعْمَلُوْا فَکُلٌّ مُیَسّرٌ لِمَا خَلَقَ لَہٗ اَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ اَہْلِ السَّعَادَۃِ فَسَیُیَسّر لِعَمَلِ السَّعَادَۃِ، الخ۔

عمل کرو کہ ہر شخص کے لیے ان اعمال کو آسان کردیا جاتا ہے جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے ، جو شخص اہل سعادت میں سے ہوگا اسے اہل سعادت کے اعمال یعنی نیکیوں کی توفیق ہوگی اور جو بدبخت ہوگا اسے بدبختوں کے اعمال کی توفیق ہوگی ، اس کے بعد آپ ﷺنے یہ آیت پڑھی:

فَأمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی وَأمَّا مَنْ بَخِلَ واستغنی وکذب الحسنی فسنیسرہ للعسری

اب اس پر سوال ہوتا ہے کہ اس آیت میں ’’تقدیر ‘‘کا ذکر کہاں ہے؟ آیت کا مدلول تو یہ ہے کہ اِعطا وتقویٰ سے جنت آسان ہوجاتی ہے اور بخل واستغناء سے دوزخ آسان ہوجاتی ہے، اس کا جواب شاہ صاحبؒ نے دیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے بطور علم اعتبار کے اس آیت کے مضمون سے حدیث کے مضمون پر استشہاد فرمایا ہے ،اورمقصود تشبیہ دینا ہے کہ جیسے بعض اعمال کے واسطہ سے بعض کے لئے جنت ،اور بعض کے لئے دوزخ کو آسان کردیا ہے۔ اسی طرح تقدیر کے واسطہ سے بعض کے لئے اعمال صالحہ کو، بعض کے لئے معاصی کو آسان کردیا ہے اور یہ تشبیہ محض توضیح کے لئے ہے کہ تقدیر سے تیسیرویسی ہی ہوجاتی ہے جیسی اس آیت میں تیسیر اعمال سے مذکور ہے پس مقصود تشبیہ سے توضیح ہے، شاہ صاحبؒ نے حدیث کی شرح میں علم اعتبار کی اصل قرآن سے بتلائی ہے(بدائع ،ص۲۴۳)۔

احادیث میں رسول اللہﷺ نے علم اعتبار کا استعمال فرمایا ہے ،بڑے شخص کے سر رکھ کر میں یہ کہہ رہا ہوں ،خود اتنی بڑی بات نہیں کہتا، کیونکہ یہ بڑا دعوی ہے اور اگر کوئی شاہ صاحبؒ کے قول کو نہ مانے تو میں اس سے کہوں گا کہ پھر وہ ان حدیثوں کی شرح کردے، یقیناً ان حدیثوں میں کوئی علم وہبی ہے ،ربط کی وجہ بجز اس کے جو شاہ صاحبؒ نے فرمایا بیان نہ کرسکے گا(بدائع ،ص۲۴۶)۔

ماخوذ از: فقہ حنفی کے اصول وضوابط، مفتی محمد زید مظاہری

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

3,791 Views

عاشوراء: دس محرم کا روزہ ، فضیلت کی وجہ اورچند غلط فہمیاں ، از مفتی محمد تقی عثمانی

ترتیب وعناوین: مفتی عمر انور بدخشانی

محرم کے مہینہ کی فضیلت

یوں تو سال کے بارہ مہینے اورہر مہینے کے تیس دن اللہ تعالی کے پیدا کیے ہوئے ہیں ،لیکن اللہ جل شانہ نے اپنے فضل وکرم سے پورے سال کے بعض ایام کو خصوصی فضیلت عطا فرمائی ہے اوران ایام میں کچھ خاص احکام مقرر فرمائے ہیں،یہ محرم کامہینہ بھی ایک ایسا مہینہ ہے جس کو قرآن کریم نے ’’حرمت ‘‘والا مہینہ قرار دیا ہے ۔

اورایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :

افضل الصیام بعد شھر رمضان شھر اللہ المحرم

یعنی ماہ رمضان کےروزوں کے بعد محرم کے روزے افضل ہیں ۔

عاشوراء کا مطلب اوراس دن روزہ کی فضیلت

محرم کی دسویں تاریخ جس کو عام طور پر ’’عاشوراء‘‘ کہا جاتا ہے، جس کے معنی ہیں دسواں دن،یہ دن اللہ تعالیٰ کی رحمت وبرکت کا خصوصی طور پر حامل ہے، جب تک رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے، اس وقت تک عاشوراء کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا تھا، بعد میں جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو اس وقت عاشوراء کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی، لیکن حضور اقدسﷺ نے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کو سنت اور مستحب قرار دیا، ایک حدیث میں حضور اقدسﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھے اللہ جل شانہ کی رحمت سے یہ امید ہے کہ جو شخص عاشوراء کے دن روزہ رکھے تو اس کے پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا، عاشوراء کے روزے کی اتنی بڑی فضیلت آپﷺ نے بیان فرمائی۔

ایک غلط فہمی!

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عاشوراء کے دن کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس دن میں نبی کریمﷺ کے مقدس نواسے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا، اس شہادت کے پیش آنے کی وجہ سے عاشوراء کادن مقدس اور حرمت والا بن گیا ہے، یہ بات صحیح نہیں، خود حضور اقدسﷺ کے عہد مبارک میں عاشوراء کا دن مقدس سمجھا جاتاتھا، اور آپﷺ نے اس کے بارے میں احکام بیان فرمائے تھے اور قرآن کریم نے بھی اس کی حرمت کا اعلان فرمایا تھا، جبکہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا واقعہ تو حضوراقدسﷺ کی وفات کے تقریباً ساٹھ سال بعد پیش آیا، لہٰذا یہ بات درست نہیں کہ عاشوراء کی حرمت اس واقعہ کی وجہ سے ہے، بلکہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا اس روز واقع ہونا یہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مزید فضیلت کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شہادت کا مرتبہ اس دن میں عطا فرمایاجو پہلے ہی سے مقدس اور محترم چلا آرہا تھا، بہر حال یہ عاشوراء کادن ایک مقدس دن ہے۔

عاشوراء کے دن کی فضیلت کی وجہ اورچند بے بنیاد باتیں

اس دن کے مقدس ہونے کی وجہ کیا ہے ؟یہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتے ہیں ، اس دن کو اللہ تعالی نے دوسرے دنوں پر کیا فضیلت دی ہے ؟اوراس دن کا کیا مرتبہ رکھا ہے ؟اللہ تعالی ہی بہتر جانتے ہیں ،ہمیں تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں ،بعض لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں اترے تو وہ عاشوراء کا دن تھا ، جب نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان کے بعد خشکی میں اتری تو وہ عاشوراء کا دن تھا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا اور اس آگ کو اللہ تعالی نے ان کے لیے گلزار بنایا تو وہ عاشوراء کا دن تھا ،اورقیامت بھی عاشوراء کے دن قائم ہوگی ، یہ باتیں لوگوں میں مشہورہیں ،لیکن ان کی کوئی اصل اوربنیاد نہیں ، کوئی صحیح روایت ایسی نہیں جویہ بیان کرتی ہو کہ یہ واقعات عاشوراء کے دن پیش آئے تھے ۔

حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون سے نجات

صرف ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام کا مقابلہ فرعون سے ہوا اور پھر حضرت موسی علیہ السلام دریا کے کنارے پر پہنچ گئے اور پیچھے سے فرعون کا لشکر آگیا تو اللہ تعالی نے اس وقت حضرت موسی علیہ السلام کوحکم دیا کہ اپنی لاٹھی دریا کے پانی پر ماریں ،اس کے نتیجے میں دریا میں بارہ راستے بن گئے اوران راستوں کے ذریعہ حضرت موسی علیہ السلام کا لشکر دریا کے پار چلاگیا اورجب فرعون دریا کے پاس پہنچا اور اس نےدریا میں خشک راستے دیکھے تو وہ بھی دریا کے اندر چلا گیا ،لیکن جب فرعون کا پورا لشکر دریا کے بیچ میں پہنچا تو وہ پانی مل گیااور فرعون اور اس کا پورا لشکر غرق ہوگیا، یہ واقعہ عاشوراء کے دن پیش آیا،اس کے بارے میں ایک روایت موجود ہے جونسبتاً بہتر روایت ہے ،لیکن اس کے علاوہ جو دوسرے واقعات ہیں ان کے عاشوراء کے دن میں ہونے پر کوئی اصل اور بنیاد نہیں۔

فضیلت کے اسباب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں!

جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اس تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ کس وجہ سے اللہ تعالی نے اس دن کو فضیلت بخشی ؟بلکہ یہ سب اللہ جل شانہ کے بنائے ہوئے ایام ہیں ، وہ جس دن کو چاہتے ہیں اپنی رحمتوں اور برکتوں کے نزول کے لیے منتخب فرمالیتے ہیں ،وہی اس کی حکمت اورمصلحت کو جاننے والے ہیں ،ہمارے اورآپ کے ادراک سے ماوراء بات ہے ، اس لیے اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔

عاشوراء کے دن سنت عمل: روزہ

البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ جب اللہ تعالی نے اس دن کو اپنی رحمت اور برکت کے نزول کے لیے منتخب کرلیا تو اس کا تقدس یہ ہے کہ اس دن کو اس کام میں استعمال کیا جائے جو کام نبی کریم ﷺ کی سنت سے ثابت ہو ، سنت کے طور پر اس دن کے لیے صرف ایک حکم دیا گیا ہے کہ اس دن روزہ رکھا جائے ، چنانچہ ایک حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ اس دن میں روزہ رکھنا گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا،بس یہ ایک حکم سنت ہے ،اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی اس کی توفیق عطافرمائے ، آمین ۔

یہودیوں کی مشابہت سے بچیں!

اس میں ایک مسئلہ اور بھی ہے ، وہ یہ کہ حضور اقدس ﷺ کی حیات طیبہ میں جب بھی عاشوراء کا دن آتا تو آپ ﷺ روزہ رکھتے ، لیکن وفات سے پہلے جو عاشوراء کا دن آیا تو آپ ﷺ نے عاشوراء کا روزہ رکھااورساتھ میں یہ ارشاد فرمایا کہ دس محرم کو ہم مسلمان بھی روزہ رکھتے ہیں اوریہودی بھی روزہ رکھتے ہیں ،اوریہودیوں کے روزہ رکھنے کی وجہ وہی تھی کہ اس دن میں چونکہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعہ فرعون سے نجات دی تھی ، اس کے شکرانے کے طور پریہودی اس دن روزہ رکھتے تھے ، بہرحال ! حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں ،اوریہودی بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ساتھ ہلکی سی مشابہت پیدا ہوجاتی ہے ، اس لیے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشوراء کا روزہ نہیں رکھوں گا،بلکہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملاؤں گا ، ۹محرم یا ۱۱؍محرم کا روزہ بھی رکھوں گاتاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے ۔

عاشوراء :ایک کے بجائے دو روزے

لیکن اگلے سال عاشوراء کا دن آنے سے پہلے حضور اقدس ﷺ کا وصال ہوگیا اور آپ ﷺ کو اس پر عمل کرنے کی نوبت نہیں ملی ، لیکن چونکہ حضور اقدس ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمادی تھی ،اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عاشوراء کے روزے میں اس بات کا اہتمام کیا اور ۹محرم یا ۱۱؍محرم کا ایک روزہ اورملاکر رکھا اوراس کو مستحب قرار دیا ،اورتنہا عاشوراء کے روزہ رکھنے کو حضور اقدس ﷺ کے اس ارشاد کی روشنی میں مکروہ تنزیہی اورخلاف اولی قرار دیا ،یعنی اگر کوئی شخص صرف عاشوراء کا روزہ رکھ لے تو وہ گناہ گار نہیں ،بلکہ اس کو عاشوراء کے دن کا روزہ کا ثواب ملے گا ،لیکن چونکہ آپ ﷺ کی خواہش دوروزے رکھنے کی تھی اس لیے اس خواہش کی تکمیل میں بہتریہ ہے کہ ایک روزہ اور ملاکردو روزے رکھے جائیں ۔

عاشوراء کے دن گھر والوں پر وسعت کرنا

ہاں ! ایک ضعیف اور کمزور حدیث ، مضبوط حدیث نہیں ،اس حدیث میں حضور اقدس ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ جو شخص عاشوراء کے دن اپنے گھر والوں پر اور ان لوگوں پر جو اس کے عیال میں ہیں ، مثلا اس کے بیوی بچے ، گھر کے ملازم وغیرہ ان کو عام دنوں کے مقابلے میں عمدہ اور اچھا کھانا کھلائے اورکھانے میں وسعت اختیار کرے ، تو اللہ تعالی اس کی روزی میں برکت عطا فرمائیں گے ، یہ حدیث اگرچہ سند کے اعتبار سے مضبوط نہیں ہے ، لیکن اگر کوئی شخص اس پر عمل کرتے تو کوئی مضائقہ نہیں ، بلکہ اللہ تعالی کی رحمت سے امید ہے کہ اس عمل پرجو فضیلت بیان کی گئی ہے وہ ان شاء اللہ حاصل ہوگی ،لہذا اس دن گھر والوں پر کھانے میں وسعت کرنی چاہیے ،اس کے آگے لوگوں نے جو چیزیں اپنی طرف سے گھڑ لی ہیں ، ان کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ۔

عاشوراء کے دن خاص کھانا پکانا اورتعزیہ وغیرہ میں شرکت

بہرحال ! اس مشابہت سے بچتے ہوئے عاشوراء کا روزہ رکھنا بڑی فضیلت کا کام ہے ، عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا حکم تو برحق ہے ، لیکن روزے کے علاوہ عاشوراء کے دن لوگوں نے جو اوراعمال اختیار کررکھے ہیں ، ان کی قرآن کریم اور سنت میں کوئی بنیاد نہیں ، مثلا بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ عاشوراء کے دن کھچڑا پکنا ضروری ہے ، اگر کھچڑا نہیں پکایا تو عاشوراء کی فضیلت ہی حاصل نہیں ہوگی ، اس قسم کی کوئی بات نہ تو حضور اقدس ﷺ نے بیان فرمائی اور نہ ہی صحابہ کرام نے اورتابعین نے اور بزرگان دین نے اس پر عمل کیا ، صدیوں تک اس عمل کا کہیں وجود نہیں ملتا۔

شیعہ حضرات اس مہینے میں جو کچھ کرتے ہیں وہ اپنے مسلک کے مطابق کرتے ہیں ،لیکن بہت سے اہل سنت حضرات بھی ایسی مجلسوں میں اور تعزیوں میں اوران کے کاموں میں شریک ہوجاتے ہیں جو بدعت اورمنکر کی تعریف میں آجاتے ہیں ، قرآن کریم نے تو صاف حکم دے دیا کہ ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو،بلکہ ان اوقات کو اللہ تعالی کی عبادت میں اوراس کے ذکر میں اوراس کے لیے روزہ رکھنے میں اوراس کی طرف رجوع کرنے میں اوراس سے دعائیں کرنے میں صرف کرو،اوران فضولیات سے اپنے آپ کو بچاؤ،اللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے اس مہینے کی حرمت اور عاشوراء کی حرمت اورعظت سے فائدہ اٹھانے کی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے اوراپنی رضا کے مطابق اس دن کوگزارنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔

عبادت میں بھی مشابہت نہ کریں!

رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے ہمیں ایک سبق اور ملتا ہے ،وہ یہ کہ غیر مسلموں کے ساتھ ادنی مشابہت بھی حضور اقدس ﷺ نے پسند نہیں فرمائی ،حالانکہ وہ مشابہت کسی برے اور ناجائز کام میں نہیں تھی ،بلکہ ایک عبادت میں مشابہت تھی کہ اس دن جو عبادت وہ کررہے ہیں ہم بھی اس دن وہی عبادت کررہے ہیں ،لیکن آپ ﷺ نے اس کو پسند نہیں فرمایا ،کیوں ؟اس لیے کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو جو دین عطا فرمایا ہے وہ سارے ادیان سے ممتاز ہے اوران پر فوقیت رکھتا ہے ، لہذا ایک مسلمان کا ظاہر وباطن بھی غیر مسلم سے ممتاز ہوناچاہیے ،اس کا طرز عمل ،اس کی چال ڈھال ، اس کی وضع قطع، اس کا سراپا، اس کے اعمال ، اس کے اخلاق ، اس کی عبادتیں وغیرہ ہرچیز غیر مسلموں سے ممتاز ہونی چاہیے ، چنانچہ احادیث میں یہ احکام جابجا ملیں گے جس میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ غیر مسلموں سے الگ طریقہ اختیار کرو،جب عبادت کے اندراوربندگی اورنیکی کے کام بھی نبی کریم ﷺ نے مشابہت پسند نہیں فرمائی تودوسرے کاموں میں اگر مسلمان ان کی مشابہت اختیار کریں تو یہ کتنی بری بات ہوگی ،اگریہ مشابہت جان بوجھ کر اس مقصد سے اختیار کی جائے تاکہ میں ان جیسا نظر آؤں تو یہ گناہ کبیرہ ہے ، افسوس ہے کہ آج مسلمانوں کواس حکم کا خیال اورپاس نہیں رہا ، اپنے طریقہ کار میں ، وضع قطع میں ،لباس پوشک میں ، اٹھنے بیٹھنے کے انداز میں ، کھانے پینے کے طریقوں میں ،زندگی کے ہر کام میں ہم نے غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت اختیار کرلی ہے ،ان کی طرح کا لباس پہن رہے ہیں ،ان کی زندگی کی طرح اپنی زندگی کا نظام بناتے ہیں ، ان کی طرح کھاتے پیتے ہیں ، ان کی طرح بیٹھتے ہیں ،زندگی کے ہر کام میں ان کی نقالی کو ہم نے فیشن بنالیاہے ، آپ اندازہ کریں کہ حضور اقدس ﷺ نے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے میں یہودیوں کے ساتھ مشابہت کو پسند نہیں فرمایا ، اس سے سبق ملتا ہے کہ ہم نے زندگی کے دوسرے شعبوں میں غیر مسلموں کی جو نقالی اختیار کررکھی ہے ،خدا کے لیے اس کو چھوڑدیں اورجناب رسول اللہ ﷺ کے طریقوں کی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نقالی کریں ،ان لوگوں کی نقالی مت کریں جو روزانہ تمہاری پٹائی کرتے ہیں ، جنہوں نے تم پر ظلم اور استبداد کا شکنجہ کسا ہوا ہے ، جوتمہیں انسانی حقوق دینے کو تیار نہیں ، ان کی نقالی کرکے آخر تمہیں کیا حاصل ہوگا؟ہاں ! دنیا میں بھی ذلت ہوگی اور آخرت میں بھی رسوائی ہوگی ، اللہ تعالی ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے ،آمین۔

اصلاحی خطبات، جلد۱۴، ازحضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہم

اس موضوع پر انگریزی میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

6,435 Views

Exegesis of the Sufis (Mystics) and its Conditions, By Mufti Muhammad Taqi Usmani

Certain words of the honorable Sufis about the verse of the Quran which may seem to be an exegesis but those words contradict the obvious meanings. For instance, the Quran says.

قاتلوا الذین یلونکم من الکفار

Fight those of the disbelievers who gird around you. (At-Tawbah. 9: 123)

About it some Sufis have said:

قاتلوا النفس فإنھا تلی الإنسان

“Fight your soul because it is nearest co man.”

Some people have taken such sentences as interpretations of the Quran, but in fact, they are not so. The Sufis never meant that these represent the actual intentions of the Quran and not the meanings that are apparent. Rather they have full faith in the apparent meanings proved from its original sources and admit this to be the true interpretation of the Quran, but along with it they also give vent to the ecstatic feelings they sense during the recital of the verse. Hence, the Sufis do not say that the foregoing verse does not advocate jihad against the unbelievers. What they mean to express is that while the verse, in fact, calls on us to fight the unbelievers, at the same time it tells us that the nearest enemy is his own soul that repeatedly prompts him to commit evil. Hence, he must engage in Jihad with it also at the same time as he is bound to wage Jihad with the disbelievers.

We find a large number of such intuitive interpretations of the Sufis in the Exegesis of renowned commentator ‘Allamah Mahmud Alusi. He has explained the views of the Sufis in the following words:

“The deliberations reported from the Sufis in connection with the Quran in fact point to those deep and fine disclosures that they read in it. These disclosures are truly based on the apparent meaning. The Sufis do not believe that the apparent meanings are to be ignored against intuitive meanings because this is the belief of the Batiniyyah apostates who have adopted it as stepping stone to negate the Laws of Islam. Our mystics have nothing to do with this belief. and it cannot be, because they insist that the apparent meanings of the Quran must be adopted first.

(Ruh ul Ma’ani, v1, p7, Introduction. Allamah Suyuti has reproduced the same material from Shaikh Tajuddin bin Ataullah, Al Itqan, v2, p185).

But the following considerations must he kept in mind in regard to such deliberations of the mystics:

  • (1) These deliberations should not be regarded as exegesis of the Quran. we should believe that the true exegesis of the Quran is the one that is apparent from its real source, and these deliberations are just intuitive deductions that cannot be regarded as exegesis without going astray. lmam Abdur Rahman Sulmi (R.A) had written a book, “Haqa’iqut Tafsir” which consisted of such deliberations. lmam Wahidi (R.A) has said about it, “whoever believes that this is Tafsir would become an apostate. (Al itqan, v2, p184)
  • (2) Of all such deliberations, only those may be taken as correct which do not negate the apparent meanings of a verse or an established principle of Islamic Law. If the established rules and regulations of religion are defied under the guise of intuitive deliberations it is open apostasy.
  • (3) Intuitions of this kind would he reliable only so long as they do not interpolate the words of the Quran. If anything is connoted by distorting the word of the Quran then that is also apostasy and wavering from the path. For instance, take the verse: من ذا الذی یشفع (Who is he that shall intercede). Someone said about it that it is actually: من ذل ذی یشف ع where ذی means “soul” giving the phrase the meaning. “Whoever shall disgrace the soul shall be cured. Remember.” When Allamah Sirajuddin Balqini was asked about it, he said: “Such a person is a heretic. (Al Itqan, v2, p184)

Batiniyyah

  • (4) In earlier times, there was a group of heretics named Batiniyyah. They claimed that in fact, Allah did not mean what is understood in the Quran on the face of it, but every word points to an intrinsic meaning which is its true interpretation. Such a belief is unanimously regarded apostasy by the Ummah. Hence, it will amount to subscribing to the misconceived ideas of, ‘Batiniyyat’ if we attribute such a belief to the deliberations of the Sufis.

The deliberations of the mystics (Sufis) can be studied with due regard to these four cautionary notes. Indeed, some people having an ideal bent of mind have benefitted from these deliberations. That is why Allamah Alusi has devoted an entire chapter named Bab-ul-Isharah fil Ayat in his Tafsir Ruhul Ma’ani in which he has mentioned such intuitions.

To sum up, the intuitive deliberations made by the Sufis are not against the Quran or Sunnah, and to blame them for Batiniyyah is not justified. In spite of that, we cannot resist quoting lbn-us Salah:

ومع ذلک فیا لیتھم لم یتساھلوا بمثل ذلک لما فیہ من الإیھام والإلباس

“Despite this, how I wish these people had not been so careless in delving upon these deliberations because there is much possibility of creating misunderstanding and doubt through them. (Al Itqan, v2, p184)

To read this article in Urdu, click on the link below:

4,199 Views

صوفیاء کرام کی تفسیریں، چند شرائط، از مفتی محمد تقی عثمانی

صوفیائے کرامؒ سے قرآن کریم کی آیات کے تحت کچھ ایسی باتیں منقول ہیں جو بظاہر تفسیر معلوم ہوتی ہیں ،مگر وہ آیت کے ظاہری اور ماثور معنی کے خلاف ہوتی ہیں ، مثلا قرآن کریم کا ارشاد ہے :

قاتلوا الذین یلونکم من الکفار

قتال کرو ان کافروں سے جو تم سے متصل ہیں۔

اس کے تحت بعض صوفیاء نے کہا کہ :

قاتلوا النفس فإنھا تلی الإنسان

یعنی نفس سے قتال کرو ،کیونکہ وہ انسان سے سب سے زیادہ متصل ہے ۔

اس قسم کے جملوں کو بعض حضرات نے قرآن کریم کی تفسیر سمجھ لیا ، حالانکہ درحقیقت وہ تفسیر نہیں ، صوفیاء کرام کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہوتا کہ قرآن کریم کی اصل مراد یہ ہے ، اور جو مفہوم ظاہری الفاظ سے سمجھ میں آرہا ہے وہ مراد نہیں ہے ، بلکہ وہ قرآن کریم کے ظاہری مفہوم پر جو اس کے اصل مآخذ سے ثابت ہو پوری طرح ایمان رکھتے ہیں ، اوراس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی تفسیر وہی ہے ، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنے ان وجدانی استنباطات کو بھی ذکر کردیتے ہیں جو اس آیت کی تلاوت کے وقت ان کے قلب پر وارد ہوئے ، چنانچہ مذکورہ بالا مثال میں صوفیاء کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اس آیت میں کفار کے مقابلے پر جہاد وقتال کا حکم مراد نہیں ،بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ کفار سے جہاد وقتال کا حکم تو اس آیت کا اصلی تقاضا ہی ہے ،لیکن اس آیت سے وجدانی طور پر انسان کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ سب سے قریبی نافرمان اس کا نفس ہے جو اسے برائیوں پر آمادہ کرتا رہتا ہے ، لہذا کفار سے جہاد کے ساتھ ساتھ اس سے بھی جہاد ضروری ہے ۔

صوفیاء کا منشاء

ماضی قریب کے معروف مفسر علامہ محمود آلوسی ؒ جن کی تفسیر میں صوفیاء کرام کے اس قسم کے وجدانی استنباطات بکثرت ملتے ہیں ، صوفیاء کے منشاء کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

’’قرآن کریم میں سادات صوفیاء سے جو کلام منقول ہے ، وہ درحقیقت ان دقیق امور کی طرف اشارے ہوتے ہیں جو ارباب سلوک پر منکشف ہوتے ہیں ،اوران اشارات میں اور قرآن کریم کے ظاہری مفہوم میں جو حقیقۃ مراد ہوتا ہے تطبیق ممکن ہے ، صوفیاء کا یہ اعتقاد نہیں ہوتا کہ ظاہری مفہوم مراد نہیں ،اور باطنی مفہوم مراد ہے ، اس لیے کہ یہ تو باطنی ملحدوں کا اعتقاد ہے جسے انہوں نے شریعت کی بالکلیہ نفی کا زینہ بنایا ہے ، ہمارے صوفیاء کرام کا اس اعتقاد سے کوئی واسطہ نہیں ،اور ہوبھی کیسے سکتا ہے ، جبکہ صوفیاء نے یہ تاکید کی ہے کہ قرآن کریم کی ظاہری تفسیر کو سب سے پہلے حاصل کیا جائے ‘‘(روح المعانی ، ص۷،ج۱، مقدمہ ،فائدہ ثانیہ ، یہی مضمون علامہ سیوطیؒ نے شیخ تاج الدین بن عطاء اللہ سے نقل فرمایا ہے ،الاتقان ،ص۱۸۵، ج۲)۔

صوفیاء کے اقوال میں چند شرائط

لیکن صوفیاء کے اس قسم کے اقوال کے بارے میں مندرجہ ذیل امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے :

۱-ان اقوال کو قرآن کریم کی تفسیر قرار نہ دیا جائے ،بلکہ یہ اعتقاد رکھا جائے کہ قرآن کریم کی اصل مراد وہی ہے جو تفسیرکے اصل مآخذ سے سمجھ میں آتی ہے ، اور یہ اقوال محض وجدانی استنباط کی حیثیت رکھتے ہیں ، لہذا اگر ان اقوال کو قرآن کریم کی تفسیر سمجھ لیا جائے تویہ گمراہی ہے ، چنانچہ امام ابو عبدالرحمن سلمیؒ نے ایک کتاب ’’حقائق التفسیر‘‘کے نام سے لکھی تھی جو اسی قسم کے اقوال پر مشتمل تھی ،اس کے بارے میں امام واحدیؒ نے فرمایا کہ :’’جوشخص یہ اعتقاد رکھے کہ یہ تفسیر ہے تو وہ کافر ہوجائے گا‘‘(الاتقان،ص ۱۸۴،ج۲)۔

۲-اس قسم کے اقوال میں بھی صرف ان اقوال کو درست سمجھا جاسکتا ہے جن سے قرآن کریم کی کسی آیت کے ظاہری مفہوم یا شریعت کے کسی مسلمہ اصول کی نفی نہ ہوتی ہو ،اوراگر ان وجدانیات کے پردے میں دین کے مسلم اصول وقواعد کی خلاف ورزی کی جانے لگے تو یہ صریح الحاد ہے ۔

۳-اس قسم کے وجدانیات صرف اس وقت معتبر ہوسکتے ہیں جب وہ قرآن کریم کی تحریف کی حد تک نہ پہنچتے ہوں ،اوراگر قرآن کریم کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر کوئی بات کہی جائے تو وہ بھی الحاد اورگمراہی ہے ، مثلا ایک شخص نے آیت قرآنی :’’من ذا الذی یشفع ‘‘ کے تحت یہ کہا کہ یہ اصل میں ’’من ذل دی یشف ع‘‘ہے ، ذی سے مراد ’’نفس‘‘ہے ، اورمطلب یہ ہے کہ’’ جو شخص نفس کو ذلیل کرے گا شفا پاجائے گا،اس بات کو یاد رکھو‘‘علامہ سراج الدین بلقینیؒ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ :’’ایسا کہنے والا ملحد ہے‘‘(الاتقان)۔

ملحدوں کا ایک فرقہ باطنیہ

۴-قدیم زمانے میں ملحدوں کا ایک فرقہ ’’باطنیہ‘‘ کے نام سے گذرا ہے جس کا دعوی یہ تھا کہ قرآن کریم سے ظاہری طور پر جو مطلب سمجھ میں آتا ہے ،حقیقت میں وہ اللہ تعالی کی مراد نہیں ہے ،بلکہ ہر لفظ سے ایک باطنی مفہوم کی طرف اشارہ ہے ،اوروہی قرآن کی اصل تفسیر ہے ، یہ اعتقاد باجماع امت کفر والحاد ہے ،لہذا صوفیاء کے کسی قول کے بارے میں اس قسم کا اعتقاد رکھا جائے تو وہ ’’باطنیت ‘‘ہوگا۔

ان چار امور کی رعایت کے ساتھ صوفیائے کرام کے اقوال کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے اوربلاشبہ بعض مخصوص واردات واحوال رکھنے والوں کو ان اقوال سے فائدہ بھی پہنچا ہے ،اسی وجہ سے علامہ آلوسی ؒ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں آیات کی مکمل تفسیر لکھنے کے بعد ایک مستقل عنوان ’’من باب الاشارۃ فی الآیات‘‘قائم کرتے ہیں اوراس میں اس قسم کے وجدانیات ذکر فرماتے ہیں۔

مذکورہ بالا گزارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ صوفیاء کرام نے قرآن کریم کے تحت اپنے جو وجدانیات ذکر فرمائے ہیں وہ قرآن وسنت کے خلاف نہیں ہیں ، اور بعض لوگوں نے ان پر ’’باطنیت‘‘ کا جو الزام عائد کیا ہے وہ درست نہیں ، اس کے باوجود ہم حافظ ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ کے اس ارشاد کو نقل کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ :

ومع ذلک فیا لیتھم لم یتساھلوا بمثل ذلک لما فیہ من الإیھام والإلباس(الاتقان، ۱۸۴، ج۲)۔

’’اس کے باوجود اے کاش! کہ یہ حضرات اس قسم کے اقوال نقل کرنے میں اتنے تساہل سے کام نہ لیتے ،کیونکہ ان میں غلط فہمی اوراشتباہ کی بڑی گنجائش ہے ‘‘۔

ماخوذ از: علوم القرآن ،مفتی محمد تقی عثمانی، ص ۳۵۳ تا۳۵۶

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:

اسی موضوع پر مزید پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

5,514 Views

وحدۃ الوجود میں غلو سے بچیے ! از مولانا اشرف علی تھانویؒ

تسہیل وترتیب: مفتی عمر انور بدخشانی

توحید کے دو معنی اور ان کا ثبوت

حضرت شارع سے توحید کے دو معنی ثابت ہوئے ہیں:
۱-ایک ’’لا معبود إلا اللّٰہ‘‘۔
۲- دوسرا ’’لا مقصود إلا اللّٰہ‘‘ ۔

(توحید کے)پہلے معنی کا ثبوت تو اظہر من الشمس ہے،اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ مَـا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِـہٖٓ اِلَّآ اَسْمَـآئً سَمَّیْتُمُوْہَـآ اَنْتُمْ وَاٰبَـآؤُکُمْ مَّـآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ

اے قید خانہ کے رفیقو متفرق معبود اچھے یا ایک معبود برحق جو سب سے زبردست ہے وہ اچھا (جواب اس کا ظاہر ہے) تم لوگ تو خدا کو چھوڑ کر صرف چند بےحقیقت ناموں کی عبادت کرتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادؤں نے (آپ ہی) ٹھیرا لیا ہے خدا تعالیٰ نے تو ان (کے معبود ہونے) کی کوئی دلیل (عقلی یا نقلی) بھیجی نہیں، ( اور) حکم (دینے کا اختیار صرف) خدا ہی کا ہے ( اور) اس نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے اور کسی کی عبادت مت کرو یہی توحید کا سیدھا طریقہ ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

وَ مَـآ اُمِرُوْآ اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَـہُ الدِّیْن حُنَفَآء

حالانکہ ان لوگوں کو (کتب سابقہ میں) یہی حکم ہوا تھا کہ اللہ کی اسی طرح عبادت کریں کہ عبادت اسی کے لیے خاص رکھیں (باطل ادیان اور شرک سے) یکسو ہو کر

اور تمام قرآنِ مجید اس سے بھرا پڑا ہے اور یہی ’’توحید ‘‘ہے جس کے اتلاف اور نقصان سے کافر اور مشرک ہوجاتا ہے اور جہنم میں ہمیشہ رہنا پڑتا ہے، یہ ہرگز معاف نہ ہوگا،کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَـا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآء

بیشک اللہ تعالیٰ (اس بات کو) نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے اور اس کے سوا اور جتنے گناہ ہیں جس کے لیے منظور ہوگا وہ گناہ بخش دیں گے ۔

(توحید کے)دوسرے معنی کا ثبوت اس طرح پر ہے کہ رسول اللہﷺ نے رِیا کو شرکِ اصغر فرمایا ہے، اور ظاہر ہے کہ رِیا میں غیر اللہ معبود نہیں ہوتا، البتہ مقصود ضرور ہوتا ہے، جب غیر اللہ کا مقصود ہونا شرک ٹھہرا تو توحید جو مقابلِ شرک ہے اس کی حقیقت یہ ٹھہرے گی کہ اللہ تعالیٰ ہی مقصود ہو، غیر اللہ بالکل مقصود نہ ہو، یہی معنی ہیں ’’لا مقصود إلا اللّٰہ‘‘۔

اب ہم وہ حدیث نقل کرتے ہیں جس میں رِیا کو شرک فرمایا گیا ہے:

محمود بن لبید سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’بڑی خوف ناک چیز جس سے تم پر اندیشہ کرتا ہوں، شرکِ اصغر ہے، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! شرکِ اصغر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: رِیا‘‘

(اس کے علاوہ)اور بھی بہت سی حدیثیں اس مطلب میں وارد ہیں،تفسیر مظہری میں سورۂ کہف کے ختم پر جمع کی گئی ہیں، اختصار کی وجہ سے یہاں نہیں لکھی گئیں، اس (دوسرے)معنی کے نہ ہونے سے اخلاص جاتا رہتا ہے، جس پر کسی قدر عقوبت (سزا)کا استحقاق ہوتا ہے لیکن خلود فی النار (جہنم میں ہمیشہ رہنا)نہ ہوگا۔

توحید کا تیسرا معنی :وحدۃ الوجود اوراس میں غلو

توحید کے تیسرے معنی اصطلاحِ صوفیہ میں ایک اور ہیں: ’’لا موجود إلا اللّٰہ‘‘ جس کو ’’وحدۃ الوجود‘‘ کہتے ہیں، اس معنی کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنا ۔ِنرا تکلف اورلا یعنی ہے، یہی غنیمت ہے کہ اس معنی کی اس طرح تقریر کی جائے کہ قرآن و حدیث سے خلاف نہ پڑے(قرآن وحدیث کے خلاف نہ ہو) آج کل اسی کی مشکل پڑ رہی ہے، چوںکہ مسئلہ نازک ہے اور اس کے ثبوت کا مدار محض ذوق اور کشف ہے، اس لیے اوّلاً تو اس تعبیر کے لیے کافی (شافی)عبارت ہی ملنا دشوار ہے، اور اس کے سمجھنے کے لیے جو کچھ قلیل و کثیر (کم یا زیادہ)تعبیر ممکن ہے(اس کےلیے)ذوق اور کشفی مناسبت کےعلاوہ علومِ عقلی و نقلی میں تبحر کی حاجت ہے، اس زمانے میں اکثر وحدۃ الوجود کے دعوے داروں کی حالت دیکھ کر سخت رنج ہوتا ہے کہ نہ ان کو علم، نہ ذوق، محض زبانی طاعات و شطحیات فرما دینے سے کام، نہ یہ پروا ہے کہ ان ملحدانہ کلمات سے جو بے سمجھے بوجھے زبان سے نکال رہے ہیں ایمان جاتا رہے گا، نہ اس کا کچھ خیال ہے کہ دوسرے عوام ہمیں محقق سمجھ کر مقلدانہ(تقلیدمیں) اس کا نہ صرف اعتقاد بلکہ دعویٰ کرنے لگیں گےاور ان کا ٹوٹا پھوٹا جو ایمان تھا وہ بھی رخصت ہوجائے گا۔ نماز روزہ الگ چھوڑ بیٹھیں گے کہ جب ہم خدا ہوگئے تو پھر نماز اور روزہ کس کا؟

حاشا و کلا ! وحدۃ الوجود کے ہرگز یہ معنی نہیں، حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک حالت ہے، جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے، نہ اس کو قصداً منہ سے نکالنا چاہیے، نہ دوسرے کی سمجھ میں آسکتی ہے، اس حالت کے غلبے میں یہ کیفیت ہوجاتی ہے:

بس کہ دَر جان فگار و چشم بیدارم توئی
ہرچہ پیدا می شود از درد پندرام توئی

سمایا ہے جب سے تو آنکھوں میں مری
جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تو ہے

کبھی یہ حالت دائمی ہوتی ہے، کبھی زائل ہوجاتی ہے، ان شاء اللہ بشرطِ خیریت کسی موقع پر اس مسئلے کی زیادہ تحقیق کی جائے گی، اس مقام پر صرف خیر خواہانہ یہ عرض کرکے بس کرتا ہوں کہ خدا کے واسطے اپنی جان پر اور اُمتِ محمدیہ پر رحم فرمایئے اور اس مسئلے میں غلو سے بچئے، بلکہ احتیاط یہ ہے کہ کشف کے بعد بھی اس کو قطعی نہ سمجھئے، کیوںکہ کشف میں، خصوصاً کشفِ الہٰیات میں بعض اوقات لغزش ہوجاتی ہے، اورجو اصل مقصود ہے، یعنی عبودیت اس میں لگے رہیے اور زبانی جمع خرچ کو الگ پھینکیے: کارکن کار، بگذر از گفتار

قدم باید اندر طریقت نہ دم
کہ اصلے ندارد دمے بے قدم

اللہ کی راہ میں ہمت چاہیے نہ کہ دعوی ، کیونکہ قدم اٹھائے بغیر نرا دعوی بے سود ہے ۔

ماخوذ از : فروع الایمان ، تصنیف حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ۔

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

5,490 Views

The Malicious Hearsay of Rawafid about Sayyidah A’ishah’s Journey to Basrah & the Battle of Jamal, By Mufti Muhammad Shafi

The offensive lapses of the Rawafid about the journey of Ummul-Mu’minin Sayyidah A’ishah (R.A) to Basrah and the event of the battle of Jamal

It has been made amply clear in the previous paragraph that the sense of the imperative of وَقَرْ‌نَ فِي بُيُوتِكُنَّ ‘remain in your homes’ (33) as proved from the very indicators, rather, expressions of the Qur’an, as well as from the practice of the Holy Prophet (ﷺ) and after him from the consensus of the noble Sahabah, it is confirmed that occasions of need are exempt from it – which includes going for religious needs of Hajj and Umrah, etc. Sayyidah A’ishah along with Sayyidah Umm Salamah and Sayyidah Safiyyah, may Allah be pleased with all of them, had gone for Hajj. There they heard about the martyrdom of Sayyidna  Uthman (R.A) and about the incidents of rebellion against him. They were intensely grieved. The apprehension of an ill-omened disorder counter to unity among Muslims was weighing heavy on their minds. Under these circumstances, Sayyidna Talhah, Zubair, Nu’man Ibn Bashir, Ka’b Ibn Ujrah, and some other noble Sahabah escaped from Madinah and reached Makkah al-Mu’azzamah because the killers of Sayyidna Uthman (R.A) wanted to kill them too. These people were not with the rebels. In fact, they had tried to dissuade them from acting in that manner. So, as they were after them as well, these people saved their lives by escaping to Makkah al-Mu’azzamah. Once there, they presented themselves before Ummul-Mu’minin Sayyidah A’ishah (R.A) and sought her good counsel. She advised them not to go to Madinah until such time the rebels are gathered around Sayyidna ` Ali (R.A) and he is exercising restraint against taking Qisas (retaliation) from them, lest the situation is aggravated further. In this situation, they should go to live for a few days at a place where they find themselves safe and the Amir al-Mu’minin succeeds in controlling the law and order situation in Madinah. As for making whatever efforts they can, the best they can do is to try that these people converged around the Amir al-Mu’minin get scattered and he is enabled to exercise his authority to exact Qisas (retaliation) or revenge from them.

To this, they agreed and thought of leaving for Basrah because at that time Muslim forces were converged there. Once their plan to go was firm, they also requested Ummul-Mu’minin Sayyidah A’ishah (R.A) to stay at Basrah along with them until such time that the government resumes its normal function.

And the fact of the power and dominance of the killers of Sayyidna Uthman (R.A) ، as well as of the leaders of disorder, and the lack of Sayyidna ‘Ali’s (R.A) power to enforce the Islamic legal punishment against them is something clearly proven from the report of Nahjul-Balaghah itself. (1) It should be borne in mind that Nahjul-Balaghah is regarded to be authentic by Shiites. It appears in Nahjul-Balaghah: ‘To the noble Amir (Amir al-Mu’minin Sayyidna Ali), some of his companions and colleagues themselves said: If you punish the people who attacked Uthman (R.A) ، it will be better. Thereupon, the noble Amir said: My brother, I am not unaware of this thing you are talking about. But, how can this be done when these very people are there all over Madinah – and your slaves and the Bedouins of the adjoining areas have also joined them. If, under these circumstances, I were to issue the orders for their punishment, how would these be implemented?

On one side, Sayyidah A’ishah (R.A) realized the helplessness of Sayyidna Ali (R.A) in this matter while, on the other, she also knew that the hearts of Muslims were wounded in the face of the shahadah of Sayyidna Uthman (R.A). Moreover, the delay in taking the due revenge from his killers on the part of Sayyidna Ali (R.A) was being watched as his helplessness while the killers of Sayyidna Uthman (R.A) also used to participate in the meetings of the Amir al-Mu’minin. People who were not aware of his helplessness had found their reason for complaint against him as well. It was possible that this kind of complaint may trigger some other trial. Therefore, it was to exhort people to observe patience, to strengthen the hands of Amir al-Mu’minin for the purpose of stabilizing the rule of law in the state, to remove mutual complaints and to achieve the objective of making things work better among people that Sayyidah A’ishah (R.A) decided to embark on the journey to Basrah. In this journey, her Mahram nephew, Sayyidna Abdullah Ibn Zubair (R.A), and others were with her. She had herself stated the purpose of this journey before Sayyidna Qa’qa` (R.A) as it would appear later. And it is also obvious that the mission of conciliation and betterment among believers at the time of such a terrible trial was really a significant religious service. If, for this purpose, the Ummul-Mu’minin (R.A) took to the journey of Basrah while accompanied by her Mahrams and seated in a metal-framed camel litter, why would the Shiites and Rawafid raise such a dust storm about it and say that the Ummul-Mu’minin contravened the injunctions of the Qur’an? What justification is there for it?

Later on, the war-like situation, created by the mischief of the hypocrites and the agent provocateurs of disorder, was something even the thought of which had never crossed the mind of Sayyidah A’ishah (R.A). For the explanation of this verse, this much is enough. Onwards from here, this is not the occasion for going into the details of the event of the battle of Jamal. But, in order to make the reality clear in brief, a few lines follow.

Circumstances that one confronts in this world at the time of mutual discord simply cannot be neglected by people of insight and experience. The same circumstances developed here too when the journey of Basrah undertaken by Sayyidah A’ishah (R.A) in the company of the noble Sahabah who had come from Madinah was reported before Sayyidna Ali (R.A) in a totally deformed manner by the hypocrites and the manipulators of the disorder. The version they gave to him was that all those people were going to Basrah to join up with forces stationed there and from where they would come out to confront him. If he was the Amir of the time, they instigated, it was his duty to preempt this threat and stop them by going to where they were, lest the danger increases any further. There were noble Sahabah of the stature of Sayyidna Hasan and Husain (R.A) Abdullah Ibn Ja’far and Abdullah Ibn Abbas (R.A) who even differed with this line of action. The advice they gave was that he should not throw his forces against them until such time that he had the correct assessment of the prevailing situation before him. But, the majority present there was of those who had tendered the first option. Sayyidna Ali, also tilting towards the same option, came out with the armed forces, and along with him, came these wicked votaries of disorder and rebellion.

When these gentlemen reached the environs of Basrah, they sent Sayyidna Qa’qa (R.A) to Ummul-Mu’minin Sayyidah A’ishah (R.A) to find out the circumstances of her visit. They asked her, ‘0 Mother of the Believers, what was the reason that brought you here?’ Sayyidah A’ishah (R.A) said, اَی بُنَیَّ الاِصلَاحُ بَین النَّاس  (My dear son, [ I am here to seek nothing but ] the betterment of relations between people) ‘. Then, she also called Sayyidna Talhah and Sayyidna Zubair (R.A) in this meeting with Sayyidna Qa’qa. He asked them, ‘What do you want?’ They submitted, ‘We want nothing but that the Islamic legal punishment is enforced against the killers of Uthman (R.A) .’ In response, Sayyidna Qa’qa’ (R.A) explained by saying, ‘This thing cannot be done until Muslim forces are organized and firmly established. Therefore, at this time, it is necessary that you take to a stance of conciliation.’

These blessed souls submitted to the advice. Sayyidna Qa’qa (R.A) went to Sayyidna Ali (R.A) and told him about it. He too was very pleased, and satisfied. Everyone decided to go back. For three days, they stayed on the camping grounds in a state that no one had any doubt about the forthcoming declaration of a truce between the two parties. And, on the fourth day, this announcement was going to be made and a meeting between Sayyidna Ali and Sayyidna Talhah and Zubair (R.A) was due to take place – in which these killers of Sayyidna Uthman (R.A) were not included. This thing was too hard for them to take. They made a plan. They told their colleagues, ‘First you go into the group around Sayyidah A’ishah (R.A) and unleash a spate of killing and pillage so that she and her compatriots think that the pledge was broken from the side of Sayyidna Ali (R.A) ، as a result of which, becoming victims of this misunderstanding, they would hurl themselves against the armed forces of Sayyidna Ali (R.A) .’ This shaitanic device engineered by them worked. So, when the attack on the group accompanying Sayyidah A’ishah (R.A) came from the side of the agents of disorder who had infiltrated the forces of Sayyidna Ali (R.A) ، they were excusable in taking this attack to have come from the forces of the Amir al-Mu’minin – and thus began their counteraction in defense. When Sayyidna Ali (R.A) saw this state of affairs, he had no option left but to fight. And the unintended mishap of mutual infighting that was to occur did occur. إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَ‌اجِعُونَ ! It is exactly like this that this event has been reported by at-Tabari and other reliable historians from the narrations of Sayyidna Abdullah Ibn Ja’far, Sayyidna Abdullah Ibn Abbas and others (R.A) (Ruh ul-Ma’ani).

In short, as a result of the wickedness of the agent provocateurs of disorder, this event of fighting between two revered groups came to pass unconsciously. And when this fitnah subsided, these very two revered personalities were the ones who were intensely grieved over it. Sayyidah A’ishah (R.A) when recalled this event, would weep so much that her scarf became all wet with her tears. Similarly, Sayyidna Ali b was also terribly shocked over this event. When, after the fitnah had subsided, he went to see the dead bodies of those killed, he beat his thighs with his hands and said, ‘Would that, much before this happened, I were dead, forgotten, lost!’

All these narrations and the subject matter have been taken from Tafsir Ruh ul-Ma’ani.

(1) Nahjul-Balaghah is a compilation of the lectures of Sayyidna Ali (R.A) held by the Shiites as authentic.

1,394 Views

Ayat Al-Tathir: Who are included in Ahl al-Bayt? By Mufti Muhammad Shafi

إِنَّمَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّ‌جْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَ‌كُمْ تَطْهِيرً‌ا

(Allah only intends to keep (all sorts of) filth away from you, O members of the family (of the prophet), and to make you pure through a perfect purification. – 33).

In the verses previous to this, the instructions given to the blessed wives by addressing them directly were, though, not special to them in person, rather, the entire Muslim community is obligated with these injunctions, yet the blessed wives were addressed particularly for the reason that they, in consonance with their dignity and the sanctity of the home of the Prophet, would be showing added care and concern for deeds that match their two singularities. Given in this verse is the wisdom of this particular address, that is, by the special instruction of the betterment of deeds, Allah intends to bless the household of the Messenger of Allah with an ideal state of purity by removing everything counter to it.

Meaning of Ar-Rijs

The word: الرِّ‌جْسَ (ar-rijs) has been used in the Qur’an for several meanings. At one place, ar-rijs has appeared in the sense of idols:

 فَاجْتَنِبُوا الرِّ‌جْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ

(So refrain from the filth of idols – 22:30)

and on other occasions, it is used in the sense of sin in absolute terms and at times it is employed to carry the meaning of punishment or impurity or filth. The outcome is that everything which is legally or naturally (or rationally) considered detestable is ar-rijs. In the present verse, the word: الرِّ‌جْسَ ar¬rijs) appears in this very general sense. (Al-Bahr ul-Muhit)

What does Ahl al-Bayt (People of the House) signify in this verse?

In verses appearing earlier in the present sequence, the address was to the blessed wives of the Holy Prophet ﷺ therefore, the form used was in the feminine gender. Here, the expression: أَهْلَ الْبَيْتِ Ahl al-Bayt) includes, along with the blessed wives, their children and fathers as well, therefore, the form used was in the masculine gender, that is: عَنکُم (from you) and: وَيُطَهِّرَ‌كُمْ (purifies you). And some Tafsir authorities take ‘Ahl al-Bayt’ to mean the blessed wives only. Ikrimah and Muqatil have said exactly this. And Sayyidna Said Ibn Jubayr (R.A) has reported the same narration from Sayyidna Ibn Abbas (R.A) saying that he has declared ‘Ahl al-Bayt’ in this verse to mean the blessed wives and then cited the next verse: وَاذْكُرْ‌نَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ (and remember what is recited in your homes-34) as proof (because the address here is to the blessed wives only, as is evident from the feminine gender used in the verse and from the ‘ reference to their homes.) [ reported by IbnAbi Hatim and lbn Jarir). And the words of the address: نِسَاءَ النَّبِيِّ. (0 women [wives] of the prophet) in the immediately previous verses are also its contextual evidence. Early commentator Ikrimah … used to go about proclaiming in the bazaars that ‘Ahl al-Bayt’ in the verse means the blessed wives, because this verse has been revealed to highlight their dignified status and he used to say that he was ready to enter into a Mubahalah* (imprecation) on it.

But, several narrations of Hadith reported by Ibn Kathir at this place bear witness that Sayyidah Fatimah, Sayyidna Ali and Sayyidna Hasan and Husain (R.A) are also included in ‘Ahl al-Bayt’ – as in a Hadith of Sahih Muslim where Sayyidah A’ishah (R.A) narrates: Once the Holy Prophet ﷺ went out of the house with a black sheet from Byzantine wrapped around his blessed body. When Hasan Ibn Ali (R.A) came out, he took him inside the sheet. Then Sayyidna Husain (R.A) came. He took him too inside the sheet in the same manner. After that, came Sayyidah Fatimah (R.A) and then Sayyidna Ali al-Murtada (R.A). He also made them come inside the sheet. Thereafter, he recited the verse:

 يُرِ‌يدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّ‌جْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَ‌كُمْ تَطْهِيرً‌ا

(Allah only intends to keep (all sorts of) filth away from you, 0 members of the family (of the prophet-33). And it also appears in some narrations that, after having recited the verse, he said: اللَّھُمَّ ھٰٓؤلٓآِء اَھلُ بَیتِی (0 Allah, these are members of my family) (reported by Ibn Jarir)

The blessed wives are included in Ahl al-Bayt

After having reported several reliable ahadith on this subject, Ibn Kathir has said: In reality, there is no contradiction in the two sayings reported from Tafsir authorities. Those who said that this verse was revealed in relation to the high station of the blessed wives and ‘Ahl al-Bayt’ means them does not go contrary to the possible inclusion of other people too under the purview of ‘Ahl al-Bayt.’ Therefore, the sound position is that under the words: ‘Ahl al-Bayt’, the blessed wives are included in any case, because they themselves are the cause of the revelation of this verse. And the inclusion of the direct addressees of the revelation cannot be subjected to any doubt. And Sayyidah Fatimah and Ali and Hasan and Husain (R.A) too – in accordance with the saying of the noble Prophet – are included in ‘Ahl al-Bayt.’ And at both places in this verse, before and after it, the address is to the wives of the prophet using the form of feminine gender. In previous verses, beginning from: فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ (So, do not be soft with your address – 32) up to the end all forms employed are feminine. Then, later on in: وَاذْكُرْ‌نَ مَا يُتْلَىٰ (and remember what is recited – 34) the form used in the address is in the feminine gender once again. Now, when the text departs from the context in this verse (33) in between and elects to employ the form of masculine gender as in: عَنکُم (antrum) and: يُطَهِّرَ‌كُمْ (yutahhirakum), it also becomes strong evidence of the fact that included here are not only the wives but some men as well.

Meaning of Purification

As for what has been said in the verse under study: لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّ‌جْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَ‌كُمْ تَطْهِيرً‌ا (Allah only intends to keep (all sorts of) filth away from you, O members of the family (of the prophet-33), it obviously means that, through these instructions, Allah Ta’ala will keep the ‘Ahl al-Bayt’ protected against satanic instigations, sins, and evils and cleanse them pure. In short, what is meant here is legal تَشرِعِی (tashri’i) purification – not the creational تَکوِنِی (takwini) purification which is the hallmark of prophets. It does not become necessary thereby that they all be مَعصُوم ‘ma’sum’ (infallible) and the commission of any sin by them should not be possible as is the case with the noble prophets, may peace be upon them all – which is the distinctive feature of creational purification. The people of Shiite persuasion have, by differing from the majority of the Muslim community, first of all, claimed that the expression: ‘Ahl al-Bayt’ is restricted to the progeny and male relatives of the Messenger and that his blessed wives are excluded from it. Then, they went on to declare the word: تطْهِير (tathir: purification) in the cited-verse (34) as standing for their عِصمَہ (‘ismah: the state of being protected, infallible) and thus made the ‘Ahl al-Bayt’ أَهْلَ الْبَيْتِ (ma` sum: infallible) like prophets. This humble writer has given an answer to this approach and has taken up the subject in full detail in his Ahkam ul-Qur’an under Surah Al-Ahzab. This work defines عِصمَہ ismah, and proves that it is restricted to prophets and angels and that no one is مَعصُوم (ma’sum) other than them—all this on the basis of Islamic legal arguments and proofs. People of knowledge may see it at their discretion. Others just do not need it.

* A form of resolving religious disputes through bi-partite invocation. For details, please see:

3,800 Views
error: Content is protected !!