Translated By: Professor Muhammad Hasan Askari & Karrar Husain Compiled By: Mufti Umar Anwar Badakhshani
Answer To Modernism
Sixth Principle
6) There is some difference between a precedent and an argument. It may be justifiable to demand an argument from the man who makes an assertion, but it is not valid to demand a precedent from him.
Explanation
Let us suppose that a man asserts that King George V held his coronation at Delhi. Now, another man comes and says, “We shall accept this statement as true only when you cite a precedent to show that an English king has done it before, but if you fail to provide such a precedent, we shall consider the event to be unreal”. Would it, in this case, be obligatory for the man who makes the assertion to cite a precedent, or would it not be quite sufficient for him to say, “we do not possess any precedent for this event, but we do have a sound argument, since we have heard about it from people who observed it for themselves? But if he can cite no observer, it would be sufficient to say that it has been published in the newspapers. Once this argument has been presented, would it really be necessary to wait for a precedent in order to accept the event as real?
It is not permissible to demand for the precedent of speaking with hands and feet on the Day of Judgment
Similarly, if a man assets that human hands and feet will speak on the Day of Judgment, no one can have the right to demand a precedent from him, nor can anyone justifiably refute them merely on the ground that he has failed to cite a precedent. Of course it is obligatory for him to put forward an argument in support of his contention. But since his contention can be established only on the basis of a pure report, it would be more than sufficient for him to argue as follows, according to Principle No. 5, since there is no rational argument to prove that this fact is impossible, and a truthful reporter has reported to us that it will actually happen, so it is rationally necessary to affirm its existence and its actuality.
However, if he provides a precedent as well, it will be a concession on his part, and an act of generosity. For instance, he may cite the gramophone as a precedent to show that even a lifeless object can produce sounds and words. What a pity that today people with a Western education demand a precedent for everything that has been reported by the Holy Qur’an and the Hadith! They should try to understand that this is a case of considering what is unnecessary as necessary.
SOURCE: Answer to modernism, By Maulana Asharaf Ali Thanvi
Answer to Modernism: To read the Seventh Principle Click on the link below:
پہلی بات: قبل اس کے کہ ہم شیخ اکبر ابن عربی ؒ پر افتراء کا جواب ذکر کریں اس سے مطلع کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ مرزائیوں کو شیخ اکبرابن عربیؒ کی عبارت سے اپنے مسلک کی تائید حاصل کرنے کا انصافا کوئی حق نہیں پہنچتا، اس لیے کہ مرزا صاحب نے جو اس طبقہ کے روحانی باپ ہیں اپنی تصانیف ( فتوی الحاد ایک خط اور تقریر) میں شیخ اکبر کو مسئلہ وحدۃ الوجود کے سلسلہ میں ملحد اور زندیق (بے دین)قرار دیا ہے ،مرزائیوں کو شرم کرنی چاہیے کہ جس شخص کو آپ کے (روحانی) والد زندیق بے دین یقین کرتا ہو اس کی عبارات سے سہارا پکڑنا تمہارے لیے قطعا ناجائز ہے ، بلکہ ایسا کرنے میں اپنے نبی کی عملا نافرمانی ہے ، لہذا اس وبال نافرمانی سے آپ لوگوں کو خوف کرنا چاہیے ۔
اَجزاء نبوت (انوار و کمالات) اور ختم نبوت
شیخ اکبر ابن عربی ؒ دوسرے جمہور اہل اسلام کی طرح قائل ہیں کہ نبوت ختم ہوچکی ہے ، نبی کریم ﷺ سب نبیوں کے آخری پیغمبر ہیں ، حضور علیہ السلام کے بعد دروازہ نبوت بند ہوچکا ہے ، آسمان سے وحی دین الہی کسی آدمی پر نبی کریم ﷺ کے بعد قیامت تک ہرگز نہیں آسکتی ، ہاں !کمالات نبوت ، انوار نبوت، فضائل وشمائل رسالت اور بشارتیں نبوت سے اس فیضان کو شیخ ہمیشہ جاری تسلیم کرتے ہیں اور اکابر امت بھی ان چیزوں کو صحیح تسلیم کرتے ہیں اور ان نبوت کے فضائل وکمالات کو اجزائے نبوت سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ :
۱-ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات (ابن ماجہ ، باب الرؤیا الصالحۃ)۔
یعنی نبوت گزرچکی ہے ، البتہ اس کے مبشرات باقی ہیں ۔ اور حدیث میں فرمایا گیا :
۲-الرؤیا الصالحۃ جزء من ستۃ واربعین جزأ من النبوۃ (مسلم ، بخاری ومشکوۃ)
یعنی اچھا خواب اجزائے نبوت میں سے چھیالیسواں جز ہے ۔
۳-قال السمت الحسن والتؤدۃ والاقتصاد جزء من اربع وعشرین جزء من النبوۃ (مشکوۃ بحوالہ ترمذی)۔
یعنی اچھا خلق اور آہستگی سے کام کرنا اور ہر امر میں میانہ روی اختیار کرنا نبوت کے اجزاء میں سے چوبیسواں جزا ہے ۔
یہ صحیح روایات صاف بتلا رہی ہیں کہ کمالات نبوت اور فضائل رسالت کو آنحضور ﷺ نے نبوت کے جزکے نام سے ذکر فرمایا ہے ، اور اس قسم کے اجزائے نبوت ہر زمانہ میں بعد اختتام نبوت بھی باقی ہیں ، اور خالص مؤمنوں میں پائے جاتے ہیں ، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کہ ان اجزائے نبوت کے پائے جانے سے خود نبوت کے اجراء کو تسلیم کیا جاسکتا ہے ؟اور کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ نبوت باقی ہے ؟
اَجزاء نبوت اورختم نبوت کے متعلق ابن عربی کی رائے
دوسری بات: اس گزارش کے بعد اب فتوحات مکیہ میں سے شیخ کی دو عبارتیں پیش کی جاتی ہیں ، جس میں شیخ اکبرابن عربیؒ نے اس مسئلہ کے متعلق خاص تحقیق ذکرکی ہے :
فأخبر رسول اللہ ﷺ ان الرؤیا جزء من أجزاء النبوۃ ، فقدبقی للناس فی النبوۃ ھذا وغیرہ ، ومع ھذا لا یطلق اسم النبوۃ والا النبی علی المشرع خاصہ فجر ھذا الاسم لخصوص وصف معین فی النبوۃ (فتوحات مکیۃ ج ۲، ص ۴۹۵)۔
نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا کہ نبوت کے جزؤوں میں سے اچھا خواب ایک جز ہے ، پس نبوت میں سے لوگوں کے لیے یہ رؤیا وغیرہ باقی رہ گیا ہے ، مگر اس کے باوجود خصوصی طور پر بجز صاحب دین وشریعت کے کسی دوسرے پر لفظ نبوت اور نبی کے نام کا اطلاق قطعا درست نہیں ، ایک خاص وصف معین کی بنا پر اس نام (نبی ) کی بندش کردی گئی ہے ۔
فما تطلق النبوۃ إلا لمن اتصف بالمجموع فذالک النبی وتلک النبوۃ التی حجزت علینا انقطعت فإن جملتھا التشریع بالوحی المکی فی التشریع ، وذالک لا یکون إلا لنبی خاصۃ (فتوحات ، ص ۵۶۸)۔
ترجمہ : نبوت کا اطلاق صرف اسی وقت درست ہوسکتا ہے جبکہ وہ ذات تمام اجزائے نبوت کے ساتھ متصف ہو ، پس اس قسم کا نبی اور ایسی نبوت ( جو تمام اجزاء کو جامع اور سب کو شامل ہو) ہم (اللہ کے صالح بندوں) سے بندکردی گئی اوربالکل منقطع ہوگئی ہے ، اس لیے کہ اس نبوت کے جملہ اجزاء میں سے دینی وشرعی احکام ہیں ، جو فرشتہ کی وحی سے ہوں اور یہ کام صرف نبی کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی کے لیے نہیں ہوسکتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ : ۱-شیخ کے نزدیک کمالات واجزائے نبوت لوگوں میں باقی ہیں ۔ ۲-اجزائے نبوت ، کے بقاکے باوجود اس پر اسم نبوت اور لفظ نبی کا اطلاق شیخ ابن عربیؒ کے نزدیک بالکل ناجائز ہے ۔ ۳-ہاں صرف اس وقت نبی کا لفظ اور نبوت کا اطلاق درست ہے جس وقت تمام اجزائے نبوت بتما مہا مجتمع ہوں ، اور ان جملہ اجزاء میں سے احکام دینی وشرعی ہیں جو فرشتہ کی وحی سے نازل ہوتے ہیں ۔ ۴-نبوت کا اصل دارومدار احکام شرعیہ پر ہے ، جس نبوت میں یہ اجزاء (یعنی احکام شرعی ودینی جو وحی ملکی سے حاصل ہوتے ہیں) نہ پائے جائیں ،اس کو شیخ نبوت ہی نہیں قرار دیتے ،اور ان احکام کے بغیر شیخ ابن عربیؒ کے نزدیک نبوت متحقق ہی نہیں ہوسکتی۔
الغرض شیخ اکبرابن عربیؒ جس چیز کے اجرا وابقا کے قائل ہیں (اجزاء نبوت ومبشرات وکمالات وغیرہ) وہ نبوت نہیں ہے ، اور جو نبوت ہے اس کے اجراء وابقاء کے وہ قائل نہیں ۔
ختم نبوت: الہام اور کشف کے متعلق شیخ اکبر ابن عربی ؒ کی رائے
تیسری بات: اس مقام میں شیخ اکبرابن عربیؒ کی وہ عبارت جو علامہ عبد الوہاب شعرانی ؒ نے ’’الیواقیت والجواہر‘‘ میں نقل کی ہے وہ قابل ملاحظہ ہے ، اس کوبلفظہ یہاں نقل کیا جاتا ہے :
واعلم أن الملک یأتی النبی بالوحی علی حالین تارۃ یأتی فی صورۃ جسدیۃ من خارج فیلقی ماجاء بہ إلی ذلک النبی علی اذنہ فیسمعہ فیحصل لہ من النظر مثل لیحصل لہ من السمع سواء ، قال (شیخ اکبر) ھذا باب اغلق بعد موت محمد ﷺ فلا یفتح لأحد إلی یوم القیامۃ لکن بقی للأولیاء وحی الإلہام الذی لا تشریع فیہ (الیواقیت والجواہر ج2ص37)۔
ترجمہ :عبد الوہاب شعرانی ؒفرماتے ہیں کہ جاننا چاہیے کہ نبی کے پاس وحی دو طریقوں پرنازل ہوتی ہے ، کبھی فرشتہ وحی کو نبی کے دل پر نازل کرتا ہے اورکبھی صورت جسدیہ کے ساتھ خارج میں آکر اس وحی کو اس کے کانوں پر اور آنکھوں کے سامنے پیش کردیتا ہے ،پس اس نبی کو آنکھوں کے دیکھنے اور کانوں سے سننے سے پورا یقین حاصل ہوجاتا ہے ، اور کوئی شک نہیں رہ جاتا ، شیخ اکبرؒ نے فرمایا یہ دروازہ (وحی کے نزول) نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بند کردیا گیا ہے ، پس اب قیامت تک کسی کے لیے یہ دروازہ نہیں کھل سکتا ، لیکن اولیاء اللہ کے لیے الہام (اورکشف) کا القاء جس میں کوئی احکام دینی نہیں ہوا کرتے باقی ہے ۔
مذکورہ عبارت میں شیخ اکبرؒاورشیخ عبد الوہاب شعرانی دونوں حضرات کا نظریہ بالکل عیاں ہوچکا ہے کہ حضور ﷺ کے بعد قیامت تک وحی ختم ہوچکی ہے ، اور اولیاء اللہ کو الہام یا کشف ہوا کرتا ہے ، اس کا نام نبوت نہیں ہے ،اس لیے کہ جب تک احکام شرعی ودینی (یعنی تشریع) نہ پائے جائیں تب تک نبوت متحقق نہیں ہوتی (جیسا کہ شیخ نے سابقاواضح کردیا ہے ) لہذا الہامات وکشوف وغیرہ سے ختم نبوت میں کوئی فرق نہ آئے گا، نیز شیخ عبد الوہاب شعرانی ؒ کی کسی دوسری عبارت سے ان کی ایسی تصریح وتشریح کے بعد بزور اجرائے نبوت ثابت کرنا مصنف کے مقصود کے خلاف ہے ، مرزائیوں کا استدلال اسی طرح ہوتا ہے کہ ایک واضح بیان کو چھوڑ کر ایک موہوم عبارت کو پکڑ کر بڑا شور مچایا کرتے ہیں ۔
شیخ ابن عربی ؒ کے برخلاف مرزا قادیانی کےمزعومہ دعوے
چوتھی بات: یہ بھی یا د رہے کہ شیخ اکبر ؒ نے جن جن چیزوں کی نفی کردی ہے ااور ان کے انقطاع اوراختتام کا قول کرتے ہیں مرزا صاحب ان سب کے ایک ایک کرکے اِجرا کے مدعی ہیں ، انصاف کے ساتھ مندرجہ ذیل حوالہ جات ملاحظہ فرماکر شیخ کے عقائد ونظریات اورمرزا صاحب کے مزعومات کا توازن (تقابل ) کیجیے :
۱-اوائل میں میرا بھی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے ، وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین سے ،اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تھا تو میں اس کو جزوی فضیلت قرار دیتا تھا ، مگر بعد میں جو خدا تعالی کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی تو اس نے مجھ کو اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریحی طور نبی کا خطاب مجھے دیا گیا(حقیقۃ الوحی،ص ۱۴۹و۱۵۰، روحانی خزائن ،ج۲۲ ص۱۵۳،۱۵۴)
۲-مگر میں خدا تعالی کی ۲۳ برس کی متواتر وحی کو کیونکر رد کرسکتا ہوں ، میں اس کی پاک وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ ان تمام خدا کی وحیوں پر ایمان لاتا ہوں جو مجھ سے پہلے ہوچکی ہیں (حقیقۃ الوحی، ص ۱۵۰، روحانی خزائن ، ج۲۲، ص ۱۵۴)۔
۳-حق یہ ہے کہ خدا تعالی کی وہ پاک وحی جو میرے اوپر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں ، نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ ۔۔۔۔۔۔(ذرا آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ) چنانچہ وہ مکالمات الہیہ جو براہین احمدیہ میں شائع ہوچکے ہیں ان میں ایک وحی الہیہ یہ ہے :ہو الذی ارسل رسولہ بالہدٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ‘‘دیکھو صحفحہ ۴۹۸ براہین احمدیہ ، اس میں صاف طور پر اس عاجز کو رسول کرکے پکاراگیا ہے ۔(ایک غلطی کا ازالہ، ص ۲،۳، روحانی خزائن ، ج ۱۸، ص ۲۰۶،۲۰۷)۔
۴-ما سوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے ، جس نے اپنی وحی کے ذریعہ چند امر ونہی بیان کیے ، اور اپنی امت کے لیے قانون مقرر کیا وہی صاحب شریعت ہوگیا ، پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں،کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی ، مثلا یہ الہام : قل للمؤمنین یغضوا من ابصارہم ویحفظوا فروجہم ، ذالک ازکی لہم ‘‘ یہ براہین احمدیہ میں درج ہے ، اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی ، اور اس پر ۲۳ برس کی مدت بھی گزرگئی اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی ۔۔۔۔۔۔الخ (اربعین نمبر ۴، ص ۶، روحانی خزائن ج۱۷، ص ۴۳۵)۔
قارئین کرام !
شیخ اکبرؒ غیر مبہم اور صاف الفاظ میں بار بار کہہ رہے ہیں کہ وحی ملکی جو انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوتی تھی اس کا دروازہ قیامت تک حضور نبی کریم ﷺ کے بعد قطعا بند ہوچکا ہے ، اور کسی شخص کے لیے کھولا نہیں جاسکتا ، صرف اولیاء اللہ اور صلحاء امت کے لیے الہام وکشف ودیگر اوصاف وکمالات نبوت باقی ہیں ، جو یقینا نبوت نہیں ، ادھر مرزا صاحب بے چارے بڑے زور وشور سے کہہ رہے ہیں کہ مجھ پر بارش کی طرح وحی نازل ہوتی ہے اور میری وحی میں جو ۲۳ برس سے متواتر نازل ہورہی ہے امر بھی ہے اور نہی بھی ، اور میرا نام وحیوں میں نبی اور رسول اور مرسل رکھا گیا ہے ، اگر ذرہ بر بھی انصاف ہے تو
بہ بیں تفاوت راہ از کجا ست تا بکجا
ماخوذ از: مسئلہ ختم نبوت اور سلف صالحین ، از حضرت مولانا محمد نافع رحمہ اللہ ، ص ۳۳ تا ۳۸۔
اس مضمون کی دوسری قسط نیچے دیے گئے لنک پر ملاحظہ کیجیے :
Are women allowed to participate in congregational prayer led by a male? If it is allowed where they should stand? Similarly, is it allowed for women to arrange their own congregational prayer led by a female and participated by women exclusively? If it is allowed, what shall be the arrangement of the rows? Please also mention whether such type of congregational prayer can be held in the mosque or in the home. If it is possible for women to participate in a congregational prayer held in a mosque, how should a woman observe the injunctions relating to Hijab?
Answer
The Holy Prophet (S.A.W) has clarified in a number of Ahadith that it is not preferable for a woman to perform prayer outside her home.
The congregational prayer has been intended for the male Muslims only and they are not only included to perform their prayers in a congregation but it has been made almost obligatory on them that they should perform the prayer in a mosque and should not abandon the congregational prayer except in a case of necessity.
On the contrary, the females are always advised by the Holy Prophet (S.A.W) to perform their prayers in their homes so much so that the performance of prayer in an inner room has been made more rewardable for a woman than in the outside room, and performing the prayer in the outside room has been more rewardable for her than in a courtyard of her own house. However, in the days of the Holy Prophet (S.A.W) a large number of women used to come to the Mosque to perform prayer behind the Holy Prophet (S.A.W) an unparalleled merit. Since the women of those days used to observe all the requirements of Shari’ah including those of Hijab in the days of the Holy Prophet (S.A.W), they were not forbidden from attending the congregational prayers.
However, the Holy Prophet (S.A.W) has made it clear that it is more advisable for them to pray in their homes. But Sayyidna ‘Umar (R.A) felt in his days that the concession given to the women is sometimes misused and it was apprehended that it would be misused in the future even more. He was also aware of the fact that the Holy Prophet (S.A.W) did not like the women leaving their homes for the sake of prayers. Keeping all this in view he issued a directive that the women should no longer attend the congregational prayer. This directive was completely confirmed by all the Companions of the Holy Prophet (S.A.W) available at that time. Sayyida Aisha (R.A) opined, that had the Holy Prophet (S.A.W) been alive in those days he would have certainly stopped the women from attending the mosque for prayers.
It is in this context that the Muslims jurists have been unanimous on the point that it is not advisable for women to attend the congregational prayers in a mosque, rather most of them have taken it as a prohibited act.
At the same time it should be kept in mind that even though the participation of women in a congregational prayer is not advisable according to the Shari’ah, yet, if they join a congregation at some occasion, the prayer will be valid. In this case, they have to stand behind the rows of the males and the Imam should have the intention that he is leading both males and females in prayer.(1)
Similarly, the congregation of females only is held to be ‘Makrooh’ by the Muslim jurists. However, if at some occasion, the women elect to arrange their own congregation led by women, the female Imam should stand in the centre of the first row and not in front of the followers as the male Imam is supposed to do. As mentioned earlier, it is not advisable for women to pray in the mosques. However, if they elect to do so, their prayers will be valid according to the Shari’ah. In any case, the observance of Hijab while joining a male congregation is mandatory which cannot be dispensed with in any way.
I hope that this will satisfy your question. I would like to emphasize once again that the basic purpose of a Muslim, male or female, should be to follow the dictates of Shari’ah and to seek the pleasure of Allah and not to satisfy one’s own desire. The congregation of the male Muslims has been held as a meritorious act for the simple reason that Allah Almighty has declared it meritorious for the males but the case of women is totally different. Here, the Messenger of Allah has expressly mentioned that it is more meritorious for a woman to perform prayers in her home. Therefore, Muslim women should not insist on going to the mosque for joining the congregational prayers because the reward promised for a congregational prayer shall be available for them in their homes and not in the mosque.
1. There is a Hadith of the Holy Prophet (S.A.W) to the effect that women should not be prevented from praying in the mosque, should they elect to do so. (EDITOR)
فی اعلاء السنن: “فعلم أن جماعة النساء وحدهن مکروهة”. (إعلاء السنن، باب صفات المؤذن، ٢ / ١۴٧ ، ادارة القرآن و العلوم الاسلامية)۔ ” عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰه عنه أنه قال: لاتؤم المرأة. قلت: رجاله کلهم ثقات”. (إعلاء السنن، باب كراهة جماعة النساء، ۴ / ٢٤٣، ط: إدارة القرآن و العلوم الإسلامية) ۔
وفی سنن النسائي (2/ 104): أن قزعة مولى لعبد القيس أخبره أنه سمع عكرمة قال: قال ابن عباس: «صليت إلى جنب النبي صلى الله عليه وسلم وعائشة خلفنا تصلي معنا، وأنا إلى جنب النبي صلى الله عليه وسلم أصلي معه.
NOTE: It should be noted that the below answer is the English translation of the Fatwa issued by Jamia Uloom Islamia Allama Yusuf Banuri Town, Karachi, Pakistan.
Question
I am eligible to perform sacrifice but I don’t have enough money. Will it be permissible for me to perform my sacrifice with borrowed money?
Answer
If Sacrifice (Qurbani) is compulsory and a person does not have cash, then it will be necessary for him to take a loan and make Qurbani.
if Qurbani is not compulsory, then it is not better to take a loan. If he does the Qurbani, it will be permissible and he will get the reward and it will be necessary to fulfill his loan.
وفی الفتاوی الھندیۃ ج 5 ص 292 : (وأما شرائط الوجوب) منھا الیسار۔۔۔۔۔۔۔۔ (و أما حکمھا) فالخروج عن عھدۃ الواجب فی الدنیا والوصول إلی الثواب بفضل اللہ تعالی فی العقبی۔
وفی الفتاوی الھندیۃ ج 5 ص 292 : ولو کان علیہ دین بحیث لو صرف فیہ نقص نصابہ لا تجب۔
وفی البحر الرائق ج 8 ص 168 : وفقیر شراھا لھا لوجوبھا علیہ حتی یمتنع علیہ بیعھا
تعارف: حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ نے باطنی تحریک کے متعلق یہ مفید معلوماتی مضمون ایک کتاب کے مقدمہ کے طور پر لکھا تھا
باطنی اسماعیلی تحریک کو خفیہ رکھنے کی وجوہات
اسماعیلی مذہب پر کتابوں کی کمی کی شکایت قریبا ہر زمانہ میں رہی ہے ، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسماعیلی مذہب ایک باطنی تحریک ہے ، وہ اپنی دعوت خفیہ ذرائع سے پھیلانے کے قائل ہیں ، یہ لوگ اپنی تحریک کا کھلا تعارف پسند نہیں کرتے ،بلکہ ایسا بھی ہوا ہے کہ بعض حضرات نے بڑی محنت وجستجو سے باطنیوں کے حالات پر کتابیں لکھیں ،لیکن اس تحریک کے اکابر نے انہیں منظر عام سے غائب کرادیا،اس اخفا کی وجوہات کئی ایک ہوسکتی ہیں :
۱-ایک سب سے بڑی وجہ تو یہ کہ یہ باطنی دعوت ’’اہل بیت‘‘ کے نام پر پیش کی جاتی تھی ، مگر اہل بیت کے اکابر جو عام لوگوں کے سامنے موجود تھے ان کو اس دعوت کی ہوا بھی نہیں لگی تھی ، اگر علانیہ یہ دعوت پیش کی جاتی تو ’’ائمہ اہل بیت‘‘ اس کو فورا جھٹلادیتے ، اس لیے باطنی تحریک کے داعیوں نے نہ صرف اپنی دعوت اور اس کی سرگرمیوں کو صیغہ راز میں رکھا ، بلکہ خود ’’ائمہ اہل بیت‘‘ کو بھی ’’مکتوم‘‘ اور ’’مستور‘‘ بنادیا، جب ان سے پوچھا جاتا کہ وہ امام کہاں ہیں جس کی تم دعوت دیتے ہو؟ توکہہ دیا جاتا کہ بحکم الہی وہ کسی نامعلوم مقام پر چھپے ہوئے ہیں اوران سے ملاقات کی کسی کو اجازت نہیں ، ظاہر ہے کہ ایک ایسی دعوت جس کے مرکزی کردار بھی ’’پردہ ستر‘‘ میں ہوں اس کو کھلے بندوں کیسے جاری رکھاجاسکتا تھا؟
۲-دوسری بڑی وجہ یہ ہوئی کہ باطنی داعیوں کے پاس کوئی مربوط اور مفصل نظام نہیں تھا ، اس لیے جس داعی کی سمجھ میں جو بات آجاتی وہ کہہ دیتا ، علانیہ دعوت کی صورت میں ان کے آپس میں اختلافات رونما ہوتے ، اس لیے دعوت کا رخ ظاہر سے باطن کی طرف کردیا گیا ،تاکہ داعیوں کے خودتراشیدہ ’’حقائق‘‘ منظر عام پر نہ آسکیں۔
۳-اوراس سے بڑی وجہ اخفا کی یہ تھی کہ اسماعیلی دعوت میں جو باتیں بنیادی اصول کے طور پرپیش کی جاتی تھیں وہ ایک مسلمان کے لیے اتنی متوحش تھیں کہ بھلے زمانوں کے مسلمان ایسی باتوں کو کبھی برداشت ہی نہیں کرسکتے تھے ، مثال کے طور پر یہ باطنی اصول کہ اللہ تعالی کا نور حضرت علیؓ میں حلول کرگیا ہے ،اس لیے علیؓ خود اللہ ہے ، اورپھر یہی منصب الوہیت بعد کے دیگر ائمہ کی طرف منتقل ہوتا رہا ، کون مسلمان ہوگا جو اس باطنی اسماعیلی عقیدے کو سن کر آسانی سے ہضم کرجائے اوراس عقیدے کو علانیہ طور پرپھیلانے کی اجازت دے ؟
اس لیے اس دعوت کا ، اس کے بنیادی اصولوں اوراس کے مرکزی کرداروں کا یہاں تک اخفا کیا گیا کہ یہ تحریک ہی ’’باطنی تحریک‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئی ، اس تحریک کے ’’پردہ راز‘‘ میں رہنے کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ اس تحریک پر بہت کم کتابیں لکھی گئیں اور جو کچھ لکھا گیا وہ بھی مسلمانوں کے لیے ’’شجر ممنوعہ‘‘ قرار دیا گیا ، اس لیے باطنی تحریک کے باطنی احوال وکوائف یہاں تک پردہ راز میں رہے کہ اس تحریک کی تاریخ ، اس کے اصول وقواعد ، اس کے مذہبی رسوم وفرائض ، اس کے اغراض ومقاصد ، اس کے داعیوں کے حدود والقاب ،اوراس کی دعوت کے مدارج عام لوگوں کی نظر ہی سے اوجھل نہیں رہے ،بلکہ خود اسماعیلی باطنی بھی ان سے بے خبر رہے ،ان وجوہ واسباب کی بنا پر اسماعیلی تحریک کے لٹریچر کی کمی کی شکایت ہمیشہ رہی ،مگر اب کچھ عرصہ سے مستشرقین کی دل چسپی کی بنا پر خود اسماعیلیوں کی لکھی ہوئی کتابیں منظر عام پر آگئی ہیں اورانگریزی ، عربی اور گجراتی میں اس تحریک پر کافی مواد دستیاب ہونے لگاہے اوران مستند مآخذ کو سامنے رکھ کر ڈاکٹر زاہد علی صاحب نے اسماعیلی مذہب پر (جو ان کا خاندانی مذہب تھا) دو گراں قدر کتابیں لکھیں :(۱) تاریخ فاطمیین مصر (۲) ہمارا اسماعیلی مذہب اور اس کا نظام ۔
یہ دونوں کتابیں بہت ہی محنت وکاوش سے لکھی گئی ہیں اوراس موضوع پر گویا حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہیں ، مگر یہ کتابیں بھی بازار میں کم یاب ہیں ،ہمارے محترم جناب سید تنظیم حسین صاحب نے پیش نظر کتاب ’’اسماعیلیہ اورعقیدہ امامت کا تعارف تاریخی نقطہ نظرسے‘‘میں قدیم وجدید مآخذ سے استفادہ کرتے ہوئے اسماعیلی دعوت کے بارےمیں ایسا وقیع مواد جمع کردیا ہے کہ اس کا مطالعہ اس دعوت کے سمجھنے میں نہایت مفید اور ضروری ہوگا،کتاب میں طرز نگارش نہ صرف غیر جانب دارانہ ہے ،بلکہ ایسا عام فہم بھی ہے کہ ایک متوسط استعداد کا شخص بھی مطالب کے سمجھنے میں کوئی الجھن محسوس نہیں کرے گا۔
باطنی اسماعیلیوں کا بھیانک سفاکانہ کردار
کتاب کے چھٹے باب میں مؤلف نے ’’اسماعیلیوں کے منفی کردار‘‘ سے بحث کی ہے اوراس سلسلہ میں قرامطہ کی ہوش رہا سرگرمیوں اور حسن بن صباح کی تیار کردہ جماعت ’’فدائیین‘‘ (جو تاریخ میں ’’حشاشین‘‘ کے لقب سے معروف ہیں) کی ہولناک تباہ کاریوں کا تذکرہ کیا ہے ،اس ضمن میں اسماعیلیوں کی سفاکی وبے رحمی کی ایک مثال ابن النابلسی شہیدؒ کے قتل کا وہ واقعہ ہے جس کا تذکرہ حافظ ابن کثیرؒ نے البدایہ والنہایہ (ج۱۱، ص ۲۸۴) میں ،اور حافظ شمس الدین الذہبیؒ نے سیر اعلام النبلاء میں کیا ہے ، اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ :
امام ابوبکر محمد بن احمد بن سہل الرملی المعروف بہ ’’ابن النابلسی‘‘اپنے دور کے بہت بڑے محدث تھے ، عابد وزاہد اورصائم الدہر تھے ، حدیث وفقہ میں امام تھے ، فاطمیوں نے جب مصرپر غلبہ حاصل کیا تو اسماعیلی عقائد کو لوگوں پر بزور شمشیر مسلط کرنا چاہا ، ابن نابلسی شہیدؒ ان کی اس حرکت سے نالاں تھے ، اور وہ نہ صرف ان کے اس طرز عمل پر تنقید کرتے تھے ،بلکہ ان کے خلاف جہاد کا فتوی دیتے تھے ، اسماعیلی حکمران انہیں گرفتار کرنا چاہتے تھے ، وہ رملہ سے دمشق چلے گئے ، وہاں کے گورنر نے ان کو گرفتار کرکے لکڑی کے پنجرے میں بند کرکے مصر بھیج دیا ، یہ ۳۶۵ھ کا واقعہ ہے ، اس وقت ابو تمیم معز فاطمی حکمراں تھا، اوراس کا غلام امیر عساکر’’جوہر‘‘سیاہ وسفید کا مالک تھا ، ابن النابلسی شہیدؒ کو قائد جوہر کے سامنے پیش کیا گیا ، جوہر نے پوچھا کہ تم نے یہ فتوی دیا ہے کہ اگر کسی کے پاس دس تیر ہوں تو وہ ان میں سے ایک تیر روم کے نصرانیوں کے خلاف اور نو اسماعیلیوں کے خلاف استعمال کرے ؟ابن النابلسی شہیدؒ نے فرمایا :جناب ! آپ کو روایت غلط پہنچی ہے ، میں نے یہ فتوی نہیں دیا ، بلکہ میرا فتوی یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس دس تیر ہوں تو وہ نو تیر تو تمہارے خلاف استعمال کرے اور دسواں تیر بھی نصرانیوں کے بجائے تم لوگوں پر برسائے :
فإنکم غیرتم الملۃ ، وقتلتم الصالحین وادعیتم نور الإلھیۃ
ترجمہ : کیونکہ تم نے دین کو بدل ڈالا ، خدا کے نیک بندوں کے خون سے ہاتھ رنگے اور تم نور الہیت کے مدعی بن بیٹھے ۔
جوہرنے حکم دیاکہ ان کی تشہیر کی جائے (منہ کالا کرکے بازار میں پھرایاجائے) دوسرے دن ان کی پٹائی کاحکم دیا ، تیسرے دن ایک یہودی کو حکم دیا کہ ان کی زندہ کھال کھینچ لی جائے ، یہودی نے سرکی چوٹی سے ان کی کھال کھینچنا شروع کی ، چہرے تک کھال اتاری گئی ، مگر انہوں نے اُف نہیں کی ، بلکہ نہایت صبر وسکون کےساتھ ذکر الہی میں مشغول رہے اورقرآن کریم کی آیت :’’کان ذلک فی الکتاب مسطورا‘‘ (یہ بات کتاب میں لکھی ہوئی ہے) کی تلاوت فرماتے رہے ، یہاں تک کہ سینے کی کھال اتاری گئی ،اوران کے صبر واستقامت کے پاؤں میں لغزش نہیں آئی ، بالآخر کھال کھینچنے والے یہودی کو ان پر ترس آیا اوراس نے دل کی جگہ خنجر گھونپ کران کا قصہ تمام کردیا ، کھال اتارنے کے بعد اس میں بھوسہ بھرا گیا اور بھوسہ بھری کھال کو سولی پر لٹکایاگیا ، رحمہ اللہ تعالی (سیر اعلام النبلاء ج۱۶، ص ۱۴۸ تا۱۴۹)۔
یہ اسماعیلیوں کی سفاکی وبربریت کی ایک مثال ہے جس کے پڑھنے سے بھی بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ، اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے اسماعیلی خون خواروں کے ہاتھوں کتنے علماء حقانی نے جام شہادت نوش کیا ہوگا؟حق تعالی شانہ ان کے فتنے سے امت کی حفاظت فرمائے ، وللہ الحمد اولا وآخرا۔
رئیس المکاشفین شیخ اکبر محی الدین محمد بن علی الطائی المغربی المالکی (م ۶۳۸ھ) نے اپنی کتابوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع ونزول کی جا بجا تصریحات فرمائی ہیں :
فتوحات مکیہ باب ۳۶۷ میں حدیث معراج کے ذیل میں لکھتے ہیں :
فلما دخل إذا بعیسی علیہ السلام بجسدہ وعینہ ، فإنہ لم یمت إلی الآن ، بل رفعہ اللہ الی ھذہ السماء واسکنہ بہا (الیواقیت والجواھر ص۳۴ج۲)۔
ترجمہ: پس جب آپ ﷺ اس آسمان میں داخل ہوئے تو عیسی علیہ السلام کو بعینہ اسی جسم کے ساتھ دیکھا ، کیونکہ وہ اب تک مرے نہیں ، بلکہ اللہ تعالی نے ان کو اس آسمان پر اٹھالیا، اوراس آسمان میں ان کو ٹھہرایا۔
اورفتوحات مکیہ کے باب ۷۳ میں لکھتے ہیں:
فإنہ لا خلاف أن عیسی علیہ السلام نبی ورسول وأنہ لا خلاف أنہ ینزل فی آخر الزمان حکما مقسطا عدلا بشرعنا(فتوحات مکیۃ ص ۳ ج۲)۔
ترجمہ بے شک عیسی بن مریم نبی ورسول ہیں اور یقینا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ آخری زمانہ میں حاکم منصف بن کر نازل ہوں گے ، اور ہماری شریعت کے مطابق عدل کی حکومت کریں گے ۔
نیز باب ۳۵۳ میں لکھتے ہیں:
وقد جاء الخبر الصحیح فی عیسی علیہ السلام وکان ممن أوحی إلیہ قبل رسول اللہ ﷺ أنہ اذا نزل فی آخر الزمان لا یؤمنا إلا بنا أی بشریعتنا وسنتنا مع أنہ لہ الکشف التام إذا نزل زیادۃ علی الإلھام الذی یکون لہ کما لخواص ھذہ الأمۃ (یواقیت ج۳ ص ۸۴)۔
ترجمہ:اور صحیح حدیث میں حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں جن کی طرف ہمارے رسول اللہ ﷺ سے قبل وحی نازل ہوئی تھی تھی ۔۔۔۔۔آتا ہے کہ جب وہ آخری زمانے میں نازل ہوں گے تو وہ صرف ہماری شریعت وسنت کی پیروی کریں گے ، باوجودیکہ جب وہ نازل ہوں گے تو ان کو الہام سے بڑھ کر کشف تام ہوگا۔
اورشیخ اکبر ابن عربی کی طرف منسوب ’’تفسیر ابن عربی ‘‘ میں سورہ آل عمران کی آیت : انی متوفیک ورافعک الی ‘‘ کی تفسیر میں ہے :
ترجمہ: اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام سے فرمایا کہ میں تجھے یہود کے درمیان سے اپنے قبضہ میں لے کر روح کے آسمان کی طرف اپنے جوار میں اٹھانے والا ہوں ۔
آگے لکھتے ہیں کہ یہود نے عیسی علیہ السلام کو پکڑنے کے لیے ایک شخص کو بھیجا ، اللہ تعالی نے آپ کی شبیہ اس پر ڈال دی ، انہوں نے اسے عیسی سمجھ کر قتل کردیا اور صلیب دی ۔
واللہ رفع عیسی إلی السماء الرابعۃ (ج۱ص۱۱۵)۔
ترجمہ: اور اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کو چوتھے آسمان پر اٹھالیا۔
اسی تفسیر میں سورۃ النساء کی آیت ’’وان من اہل الکتاب ‘‘الخ کے ذیل میں ہے :
رفع عیسی علیہ السلام اتصال روحہ عند المفارقۃ عن العالم السفلی بالعالم العلوی ۔۔۔ولما کان مرجعہ إلی مقبرہ الأصلی ولم یصل إلی الکمال الحقیقی وجب نزولہ فی آخر الزمان بتعلقہ ببدن آخر، وحینئذ یعرفہ کل أحد فیؤمن بہ أھل الکتاب أی أھل العلم العارفین بالمبدأ والمعاد کلھم عن آخرھم قبل موت عیسی بالفناء فی اللہ (ج۱ص ۱۶۵)۔
ترجمہ:عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کی وجہ سے ان کی روح عالم سفلی سے جداہوکر عالم علوی سے متصل ہوگئی ۔۔۔اور چونکہ ان کو اپنے اصلی مستقر پر واپس آنا تھا اوراس کمال حقیقی تک (جو اللہ تعالی نے ان کے لیے تجویز فرمایا ) ابھی نہیں پہنچے ، اس لیے آخری زمانہ میں ان کا نزول دوسرے بدن سے متعلق ہوکر واجب ہوا، اس وقت ان کو ہر شخص پہچان لے گا، پس اہل کتاب جو مبدا ومعاد کے عارف ہوں گے سب کے سب ان پر ایمان لائیں گے ان کی موت سے پہلے ۔
فائدہ: یہاں دوسرے بدن سے متعلق ہوکر کا یہ مطلب نہیں کہ عیسی علیہ السلام کی روح بطور تناسخ کسی اور بدن میں حلول کرے گی ،بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس وقت ان کے بدن پر آثار ملکوتی کا غلبہ ہے ، اور جب ان کا نزول ہوگا تو آثار بشری نمایاں ہوں گے ۔
اسی تفسیر میں سورۃ الزخرف کی آیت ۶۱ ’’وإنہ لعلم للساعۃ‘‘ کے ذیل میں ہے :
أی أن عیسی مما یعلم بہ القیامۃ الکبری وذلک أن نزولہ من أشراط الساعۃ(ج۲ص۲۱۹)۔
ترجمہ: یعنی عیسی علیہ السلام کے ذریعہ قیامت کبری(کے قرب) کا علم ہوگا ،کیونکہ آپ کا نزول قیامت کی علامات میں سے ہے ۔
ماخوذ از : تحفہ قادیانیت ، جلد سوم ، صفحہ ۱۰۷ تا ۱۱۰
چاند، سورج اور سیاروں کے بارے میں موجودہ سائنس کی جو تحقیق ہے کیا وہ قرآن کریم کی رو سے درست ہے؟ یہاں بعض حضرات کہتے ہیں کہ سائنس اور قرآن و حدیث میں کوئی تعارض نہیں ہے، لہٰذا اِس کی ہر بات درست ہے۔ اور بعض کا کہنا ہے کہ سائنس کے نظریات قرآن سے ٹکراتے ہیں، براہ کرم اس معاملے میں اپنی جامع و مانع رائے سے مطلع فرمائیے
جواب
آپ کا سوال اپنے جواب کے لئے درحقیقت ایک مبسوط مقالے کی وسعت چاہتا ہے، تاہم اصولی طور پر چند ضروری باتیں پیش خدمت ہیں۔ امید ہے کہ وہ آپ کی الجھن دور کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔
سائنس کا بنیادی مقصد
۱- سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیجئے کہ سائنس کا بنیادی مقصد ان قوتوں کا دریافت کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں ودیعت فرمائی ہیں۔ اگر ان قوتوں کو انسانیت کی فلاح و بہبود میں استعمال کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ اسلام کی نظر میں نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے۔ اسلام ان کوششوں کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کرنے کے بجائے ان کی ہمت افزائی کرتا ہے، اس سلسلے میں اسلام کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ ان قوتوں کو ان مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے جو اسلام کی نظر میں جائز اور مفید ہیں۔ دوسرے الفاط میں سائنس کا کام یہ ہے کہ وہ کائنات کی پوشیدہ قوتوں کو دریافت کرے، لیکن ان قوتوں کا صحیح مصرف مذہب بتاتا ہے، وہی ان اکتشافی کوششوں کے لئے صحیح رخ اور بہتر فضا مہیا کرتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی اسی وقت انسانیت کے لئے مفید ہوسکتی ہے جب اسے اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق استعمال کیا جائے، ورنہ شاید اس سے کسی کو انکار نہیں ہوگا کہ سائنس جس طرح انسانیت کے لئے مادی فلاح و بہبود کا باعث بن سکتی ہے اسی طرح اگر اس کا غلط استعمال کیا جائے تو وہ ہمارے لئے تباہ کن بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ مثال ہمارے سامنے ہے کہ ماضی میں سائنس نے جہاں انسانیت کو راحت و آسائش کے اسباب مہیا کئے ہیں، وہاں اس کے غلط استعمال نے پوری دنیا کو بدامنی اور بے چینی کا جہنم بھی بنا دیا ہے۔ سائنس ہی نے سفر کے تیز رفتار ذرائع بھی ایجاد کئے اور اسی نے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم بھی بنائے۔ لہٰذا سائنس کا صحیح فائدہ اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب اسے اللہ تعالی کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق استعمال کیا جائے۔
سائنسی تحقیقات کے متعلق معتدل رویہ
۲- دوسری بات یہ سمجھنے کی ہے کہ سائنس کی تحقیقات دو طرح کی ہیں۔ ایک وہ جو صریح مشاہدہ پر مبنی ہیں، ایسی تحقیقات نہ کبھی قرآن و سنت سے متصادم ہوئی ہیں اور نہ ہو سکتی ہیں، بلکہ مشاہدہ تو یہ ہے کہ ایسی تحقیقات نے ہمیشہ قرآن و سنت کی تصدیق ہی کی ہے، اور قرآن و سنت کی بہت سی وہ باتیں جو کچھ عرصہ پہلے لوگوں کی سمجھ میں ذرا مشکل سے آتی تھیں، سائنس کی ان تحقیقات نے ان کا سمجھنا آسان بنادیا ہے، مثلاً معراج کے موقعہ پر براق کی جس تیز رفتاری کا ذکر صحیح احادیث میں آیا ہے قدیم زمانے کے نام نہاد عقل پرست اسے بعید از قیاس سمجھتے تھے لیکن کیا آج سائنس نے ثابت نہیں کر دیا کہ تیز رفتاری ایک ایسی صفت ہے جس کو کسی حد میں محدود نہیں کیا جاسکتا۔
دوسری قسم کے سائنٹفک نظریات وہ ہیں جو مشاہدہ اور یقین کے بجائے ظن و تخمین پر یا کم علمی پر مبنی ہیں، اور اس سلسلے میں سائنس دان کسی یقینی نتیجہ پر ابھی تک نہیں پہنچ سکے ہیں، ایسی تحقیقات بعض اوقات قرآن و سنت کی تصریحات سے ٹکراتی ہیں، ایسے مواقع پر سیدھا اور صاف راستہ یہ ہے کہ قرآن و سنت کی تصریحات میں کوئی تاویل کئے بغیر ان پر ایمان رکھا جائے، اور سائنس کی جو تحقیقات ان سے ٹکراتی ہیں ان کے بارے میں یہ یقین رکھا جائے کہ سائنس ابھی اپنی کم علمی کی بناء پر اصل حقیقت تک نہیں پہونچی، جوں جاں انسان کی سائنسی معلومات میں اضافہ ہوگا قرآن و سنت کے بیان کئے ہوئے حقائق واضح ہوتے جائیں گے۔
مثلاً بعض سائنسدانوں کو یہ خیال ہے کہ آسمان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ خیال اس بناء پر قائم نہیں ہوا کہ انہیں آسمان کے موجود نہ ہونے پر کوئی دلیل قطعی مل گئی ہے، بلکہ ان کے استدلال کا حاصل صرف یہ ہے کہ ہمیں آسمان کے وجود کا علم نہیں ہوسکا، اسلئے ہم اس کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ دوسرے الفاظ میں یہ خیال “علم عدم” کے بجائے “عدم علم” پر مبنی ہے ………… لہٰذا ہم جو قرآن و سنت کی قطعیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ پورے وثوق اور اعتماد کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ ان سائنسدانوں کی یہ رائے قطعی غلط ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ قرآن و سنت کی تصریح کے مطابق آسمان موجود ہے، مگر سائنس اپنی کم علمی کی بناء پر اسے دریافت نہیں کر سکی، اور اگر انسان کی سائنسی معلومات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا تو عین ممکن ہے کہ سائنسدانوں کو اپنی اس غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ اسی طرح آسمان کے وجود کو تسلیم کر لیں جس طرح بہت سی ان چیزوں کو تسلیم کیا ہے جن کو پہلے انکار کیا جاتا تھا۔
مشکل یہ ہے کہ ہمارے یہاں ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھنے کی ذہنیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ جب کسی چیز کی اہمیت ذہن پر سوار ہوتی ہے تو بسا اوقات اس میں حدود سے تجاوز ہونے لگتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نہایت مفید اور ضروری فنون ہیں، اور دورحاضر میں تو مسلمانوں کے لئے از حد ضروری ہے کہ ان فنون کی طرف بطور خاص توجہ دے کر ان مین ترقی کی انتھک کوشش کریں، اس کے بغیر موجودہ دنیا میں ان کے لئے اپنا جائز مقام حاصل کرنا ممکن نہیں رہا، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ کوئی سائنسداں اپنے ظن و تخمین سے جس نظرئیے کا اعلان کردے اسے وحی کی طرح درست تسلیم کر لیا جائے، اور اس بناء پر قرآن و سنت میں تاویل و ترمیم کا دروازہ کھول دیا جائے، یا اس کی بناء پر قرآن و سنت میں شکوک و شبہات پیدا ہونے لگیں، خاص طور پر جب یہ شب و روز کا مشاہدہ ہے کہ سائنس کے اس قسم کے نظریات آئے دن بدلتے رہتے ہیں۔
عیسائیت کی سائنس دشمنی اور گلیلیو کی مخالفت کی وجہ
۳- یاد رکھئے کہ اسلام کا معاملہ عیسائیت سے بہت مختلف ہے۔ عیسائی مذہب میں اتنی جان نہیں تھی کہ وہ زمانے کی نت نئی ضروریات اور انسان کی بڑھتی ہوئی سائنٹیفک معلومات کا مقابلہ کرسکتی، لہٰذا سائنس اس کے لئے ایک عظیم خطرہ بن کر سامنے آئی۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ کلیسا کے وقار کو سلامت رکھنے کے لئے یا تو سائنس کی مخالفت کرے یا اپنے مذہب میں رد و بدل کرے۔ شروع میں رومن کیتھولک چرچ نے پہلے راستے کو اختیار کیا، اور چونکہ عوام پر اس کا اقتدار قائم تھا، اس لئے گلیلیو جیسے سائنسدانوں کو بے شمار رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن جب کلیسا کا اقتدار ڈھیلا پڑا تو اب اس کے لئے سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ اپنے مذہب میں ترمیم کر کے اس کی نئی تشریح و تعبیر کریں۔ چنانچہ اہل تجدد (ماڈرن ازم) کے مکتب فکر نے یہ راستہ اختیار کر لیا۔
لیکن یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ عیسائی مذہب کو انتہائی غیر فطری اور غیر معقول بنیادوں پر کھڑا کیا گیا تھا۔ اسلام کو معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے، وہ دین فطرت ہے، اور عقل و خرد کی کوئی دلیل اسے چیلنج نہیں کر سکتی۔ اس میں زمانے کی ہر ضرورت کو پورا کرنے اور ہر دور کی تحقیقات کے ساتھ آنکھیں ملانے کی پوری صلاحیت ہے۔ لہٰذا ہمیں اسلام کے وقار کو سلامت رکھنے کے لئے سائنس کی مخالفت کی ضرورت ہے نہ اسلام کو بدلنے کی، اس لئے کہ ہمارا ایمان یہ ہے کہ سائنس جس قدر ترقی کرے گا اور انسان کی سائنسی معلومات میں جتنا اضافہ ہوگا اسلام کی حقانیت اور واضح ہوتی چلی جائے گی، بشرطیکہ انسان کا نقطہ ٔ نظر صحیح معنی میں سائنٹفک رہے، اور وہ محض قیاس و تخمین کو یقین اور مشاہدے کا درجہ نہ دے بیٹھے، بس یہ ہے وہ بات جو علمائے دین کہتے ہیں اس کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا چاہئے، جذباتی نعروں کی رو میں آکر حدود سے تجاوز کر جانا دانشمندی کا تقاضا نہیں ہے۔
حیرت ہے کہ اس معتدل اور سو فیصد معقول بات کی وجہ سے بعض حضرات مسلسل یہ تشہیر کر رہے ہیں کہ علماء سائنس اور ٹیکنالوجی کے مخالف ہیں، اور اس میدان میں ترقی کرنا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اس الزام کے جواب میں ہم یہ دعا کرنے کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالی ان حضرات کو فکر سلیم عطا کرے(آمین)، واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
وحدت الوجود کا کیا مطلب ہے؟ اور یہ عقیدہ کہاں تک درست ہے؟
جواب
وحدت الوجود کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں حقیقی اور مکمل وجود صرف ذات باری تعالیٰ کا ہے، اس کے سوا ہر وجود بے ثبات، فانی، اور نامکمل ہے۔ ایک تو اس لئے کہ وہ ایک نہ ایک دن فنا ہو جائے گا۔ دوسرا اس لئے کہ ہر شے اپنے وجود میں ذات باری تعالی کی محتاج ہے، لہذا جتنی اشیاء ہمیں اس کائنات میں نظر آتی ہیں انہیں اگرچہ وجود حاصل ہے، لیکن اللہ کے وجود کے سامنے اس وجود کی کوئی حقیقت نہیں، اس لئے وہ کالعدم ہے، اس کی نظیر یوں سمجھئے جیسے دن کے وقت آسمان پر سورج کے موجود ہونے کی وجہ سے ستارے نظر نہیں آتے، وہ اگرچہ موجود ہیں، لیکن سورج کا وجود ان پر اس طرح غالب ہو جاتا ہے کہ ان کا وجود نظر نہیں آتا۔
اسی طرح جس شخص کو اللہ نے حقیقت شناس نگاہ دی ہو وہ جب اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے وجود کی معرفت حاصل کرتا ہے تو تمام وجود اسے ہیچ، ماند، بلکہ کالعدم نظر آتے ہیں، بقول حضرت مجذوبؒ
جب مہر نمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے
تو مجھ کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا
وحدت الوجود کا یہ مطلب صاف، واضح اور درست ہے، اس سے آگے اس کی جو فلسفیانہ تعبیرات کی گئی ہیں وہ بڑی خطرناک ہیں، اور اگر اس میں غلو ہو جائے تو اس عقیدے کی سرحدیں کفر تک سے جا ملتی ہیں۔ اس لئے ایک مسلمان کو بس سیدھا سادا یہ عقیدہ رکھنا چاہئے کہ کائنات میں حقیقی اور مکمل وجود اللہ تعالیٰ کا ہے، باقی ہر وجود نامکمل اور فانی ہے ۔ واللہ سبحانہ اعلم احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ ۲۰ جمادی الاولی ۱۳۸۷ھ تفصیل کیلئے دیکھئے: شریعت و طریقت ص۳۱۰ مولفہ حکیم الامت حضرت تھانوی قدس سرہ۔ فتاوی عثمانی، جلد اول ، صفحہ ۶۶
Translated By: Professor Muhammad Hasan Askari & Karrar Husain Compiled By: Mufti Umar Anwar Badakhshani
Answer to Modernism
Fifth Principle
(5) It is not possible to prove a purely reported fact by a purely rational argument. So it is not also permissible to demand such an argument.
Explanation
Under Principle No. 4, we have shown that among the different kinds of facts there is one, the existence of which is made known to us only by the report of a truthful reporter. The term “pure report” refers to such facts. It is evident enough that one cannot argue about such facts on the basis of a purely rational argument, as is possible in the case of the third kind of facts (discussed under Principle No. 4).
For example, someon tells us that Alexander and Darius were two kings who went into battle against each other. Now, If another person were to demand a rational argument in order to establish this fact, even the greatest philosopher would not be able to present any other argument except this– the existence of two such kings and a war between them is not impossible, but possible enough, and trustworthy historians have reported that this possibility did actually come into existence, and since it is rationally necessary to affirm a fact as real when we learn from a truthful reporter that what was possible did really come into existence (as we have shown under Principle No. 3), we must necessarily accept the report about the two kings as an actual fact.
It is obligatory to believe in the Hereafter, and resurrection of the dead
Similar is the case of the coming of the Day of Judgment, the resurrection of the dead, and the beginning of a new life. All these facts are pure reports, and even their characteristics in detail are vouched by pure report. So, if a man affirms these facts, no one can justifiably demand a purely rational argument from him. It would be quite sufficient for him to say in order to silence all objections— there is no argument to prove that these facts are rationally impossible, even though one may not understand them; but as these two things are not identical (as explained under Principle No. 1). These facts are rationally possible, and moreover, as a reporter whose truthfulness is well established on just grounds, has reported to us that this possibility shall actually come into existence, therefore we must, according to Principle No. 2, necessarily affirm the existence and actuality of these facts. This reply, then, would be quite sufficient on the part of the man who affirms them. If he proceeds to provide a purely rational argument as well in support of his affirmation, his only intention would be to do away with the dubiety arising from improbability, and to remove the perplexity of his listeners. But the man who is arguing for this case would not owe this further explanation to his listeners— it would be an act of generosity on his part, and a mere concession, if he provides it.
SOURCE: Answer to modernism, By Maulana Asharaf Ali Thanvi
Answer to Modernism: To read the Sixth Principle Click on the link below:
Translated By: Professor Muhammad Hasan Askari & Karrar Husain Compiled By: Mufti Umar Anwar Badakhshani
Answer to Modernism
Fourth Principle
If a thing exists, it is not necessary that it must also be sensible and visible.
Explanation
There are three ways in which one can justifiably predicate of a fact that it is true:
1) Personal Observation: On the basis of personal observation—for example, we ourselves see Zaid coming.
2) Truthful Reporter: On the basis of a report from a truthful reporter — for example, some trustworthy man reports to us that Zaid has come. But our acceptance of such a report will depend on the condition that we cannot find a stronger argument to refute this report. For example someone reports to a man that Zaid came last night, and wounded the listener with a sword. But the listener knows that he has not been wounded by any one, nor is he wounded at the present moment. In this case, personal observation is there to refute thereport. So, we would conclude that the report is not true, and that the alleged fact is not real.
3) Rational Argument: On the basis of a rational argument – for example, although one has not seen the sun rising nor has any one made such a report, yet merely by seeing the sunlight one’s reason at once recognizes that the sun has already risen, for one knows that the existence of sunlight depends on the rising of the sun.
Among these three facts which we have just examined existenceis common to all, but only one of them is perceptible by the senses, while the other two are not. This goes to prove that:
When we say that a certain fact does exist, it is not necessary that it should also be perceptible by the senses.
Nor is it necessary that fact which is not perceptible by the senses should, on that ground alone, be considered as non-existent.
For example, explicit and clear verses of the Holy Quran have reported to us that there are above us seven great bodies which are called the Heavens. Now, if we cannot see them because of this visible blue tent above our heads, it is not rationally necessary that, merely on the ground of their not being perceptible by the sense, we should negate their existence. On the contrary, it is possible that they do exist, and since a truthful reporter (namely, the Holy Quran) has given us a report about them, it is rationally necessary to affirm their existence, as we have already shown under Principle No: 2.
SOURCE: Answer to modernism, By Maulana Asharaf Ali thanvi
Answer to Modernism: To read the Fifth Principle Click on the link below: