NOTE: It should be noted that the below answer is the English translation of the Fatwa issued by Jamia Uloom Islamia Allama Yusuf Banuri Town, Karachi, Pakistan.
Question
Can a disposable face masks be worn while in ihraam during ‘Umrah to protect oneself from Corona virus?
Answer
The common face mask covers a quarter or more of the face, so if a person (whether male or female) wears this kind of mask in ihram to avoid dust or for any other purpose, during the whole day or whole night, then it will obligatory to give Dum, and if it is worn for lesser time than that, then Sadaqah will be obligatory, and whoever wears a mask will be sinful. However, if it is worn due to a shar’i excuse then it will not be sinful. But Dum and Sadaqah will apply in any case, according to the above description.
في غنية الناسك: “و أما تعصيب الرأس و الوجه فمكروه مطلقاً، موجب للجزاء بعذر أو بغير عذر، للتغليظ إلا ان صاحب العذر غير آثم”. ( باب الإحرام، فصل في مكروهات الإحرام، ص: ٩١، ط: إدارة القرآن)۔
و فيه أيضًا: “و لو عصب رأسه أو وجهه يومًا أو ليلةً فعليه صدقة، إلا ان يأخذ قدر الربع فدم”. ( باب الجنايات، الفصل الثالث: في تغطية الرأس و الوجه، ص: ٢٥٤، ط: إدارة القرآن)۔
As far as the prevention from the virus (or any other harmful diseases) is concerned, keep recitation of the following prayer regularly:
Recite regularly the above two du’as thrice in the morning and in the evening (after the Fajr and Maghrib prayers). We have a strong faith that Allah will keep us safe from all deadly diseases.
وفی صحیح لمسلم: “عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! مَا لَقِيتُ مِنْ عَقْرَبٍ لَدَغَتْنِي البَارِحَةَ، قَالَ : أَمَا لَوْ قُلْتَ حِينَ أَمْسَيْتَ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ لَمْ تَضُرَّكَ”. ( مسلم، رقم : 2709)۔
استخارہ عربی زبان کا لفظ ہے ، جس کا معنی ہیں :’’طلب الخیر‘‘، کسی معاملے میں خیراور بھلائی کا طلب کرنا،یعنی روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے اپنے ہرجائز کام میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا اور اللہ سے اس کام میں خیر ،بھلائی اور رہنمائی طلب کرنا ۔
استخارہ کے عمل کو یہ سمجھنا کہ اس سے کوئی خبر مل جاتی ہے تویہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جس کی وجہ سے کئی غلط فہمیوں نے جنم لیا جن کا تفصیل سے تذکرہ آگے آرہا ہے، استخارہ ایک مسنون عمل ہے، جس کا طریقہ اور دعانبیﷺ سے احادیث میں منقول ہے ،حضور اکرمﷺ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہرکام سے پہلے اہمیت کے ساتھ استخارے کی تعلیم دیا کرتے تھے، حدیث کے الفاظ پر غور فرمایے حضرت جابر بن عبد اللہ ؓفرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضۃ [بخاری]۔
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی شخص کسی بھی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ۔
استخارہ حدیث نبوی کی روشنی میں
۱- عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ قال کان رسول اللہﷺ یعلمنا الاستخارۃ فی الامور کلھا کما یعلمنا سورۃ من القرآن [ترمذی ]۔
ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو تمام کاموں میں استخارہ اتنی اہمیت سے سکھاتے تھے جیسے قرآن مجید کی سورت کی تعلیم دیتے تھے ۔
استخارہ نہ کرنا محرومی اور بدنصیبی ہے
ایک حدیث میں جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
۲- من شقوۃ ابن آدم ترکہ استخارۃ اللّٰہ [مجمع الاسانید ]۔
یعنی اللہ تعالی سے استخارہ کا چھوڑدینا اور نہ کرنا انسان کے لیے بدبختی اور بدنصیبی میں شمار ہوتا ہے ۔
اسی طرح ایک حدیث میں حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
۳- عن سعد بن وقاص عن النبیﷺ قال: مـن سعـادۃ ابن ادم استخـارتہ مـن اللہ و مـن شقاوتہ ترک الاستخارۃ و من سعادۃ ابن اٰدم رضاہ بما قضاہ اللہ ومن شقوۃ ابن اٰدم سخطہ بما قضی اللہ[مشکوۃ]۔
ترجمہ: انسان کی سعادت اورنیک بختی یہ ہے کہ اپنے کاموں میں استخارہ کرے اور بدنصیبی یہ ہے کہ استخارہ کو چھوڑ بیٹھے،اور انسان کی خوش نصیبی اس میں ہے کہ اس کے بارے میں کیے گئے اللہ کے ہر فیصلے پر راضی رہے اور بدبختی یہ ہے کہ وہ اللہ کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کرے۔
استخارہ کرنے والاناکام نہیں ہوگا
ایک حدیث میں حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا:
۴- ما خاب من استخار وما ندم من استشار[طبرانی]۔
یعنی جو آدمی اپنے معاملات میں استخارہ کرتا ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہوگا اور جو شخص اپنے کاموں میں مشورہ کرتا ہو اس کو کبھی شرمندگی یا پچھتاوے کا سامنا نہ کرنا پڑے گا کہ میں نے یہ کام کیوں کیا ؟یا میں نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟، اس لیے کہ جو کام کیا وہ مشورہ کے بعد کیا اور اگر نہیں کیا تو مشورہ کے بعد نہیں کیا ، اس وجہ سے وہ شرمندہ نہیں ہوگا ۔
اس حدیث میں جو یہ فرمایا کہ استخارہ کرنے والاناکام نہیں ہوگا ،مطلب اس کا یہ کہ انجام کے اعتبار سے استخارہ کرنے والے کو ضرور کامیابی ہوگی ، چاہے کسی موقع پر اس کے دل میں یہ خیال بھی آجائے کہ جو کام ہوا وہ اچھا نہیں ہوا ، لیکن اس خیال کے آنے کے باوجود کامیابی اسی شخص کو ہوگی جو اللہ تعالی سے استخارہ کرتا رہے ، اسی طرح جو شخص مشورہ کرکے کام کرے گا وہ کبھی پچھتائے گا نہیں ، اس لیے کہ خدا نخواستہ اگر وہ کام خراب بھی ہوگیا تو اس کے دل میں اس بات کی تسلی ہوگی کہ میں نے یہ کام اپنی خود رائی اور اپنے بل بوتے پر نہیں کیا تھا بلکہ اپنے دوستوں اور بڑوں سے مشورہ کے بعد کیا تھا ، اب آگے اللہ تعالی کے حوالے ہے کہ وہ جیسا چاہیں فیصلہ فرمادیں ۔ اس لیے آپﷺ نے دوباتوں کا مشورہ دیا ہے کہ جب بھی کسی کام میں کشمکش ہو تو دو کام کرلیا کرو :
۱- ایک استخارہ یعنی اللہ تعالی سے خیر اور بھلائی طلب کرنا ۔ ۲- دوسرے استشارہ ،یعنی کسی نیک مخلص اورخیر خواہ سے مشورہ کرنا۔
استخارہ کا مقصد
محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
’’واضح ہو کہ استخارۂ مسنونہ کا مقصد یہ ہے کہ بندے کے ذمے جو کام تھا وہ اس نے کرلیا اور اپنے آپ کو حق تعالی کے علم محیط اور قدرت کاملہ کے حوالہ کردیا ، گویا استخارہ کرنے سے بندہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگیا ، ظاہر ہے کہ اگر کوئی انسان کسی تجربہ کار عاقل اور شریف شخص سے مشورہ کرنے جاتا ہے تو وہ شخص صحیح مشورہ ہی دیتا ہے اور اپنی مقدور کے مطابق اس کی اعانت بھی کرتا ہے ، گویا استخارہ کیا ہے ؟حق تعالی سے مشورہ لینا ہے ،اپنی درخواست استخارہ کی شکل میں پیش کردی ، حق تعالی سے بڑھ کر کون رحیم وکریم ہے ؟ اس کا کرم بے نظیر ہے ، علم کامل ہے اور قدرت بے عدیل ہے ، اب جو صورت انسان کے حق میں مفید ہوگی، حق تعالی اس کی توفیق دے گا ، اس کی رہنمائی فرمائے گا ، پھر نہ سوچنے کی ضرورت ، نہ خواب میں نظر آنے کی حاجت، جو اس کے حق میں خیر ہوگا وہی ہوگا ، چاہے اس کے علم میں اس کی بھلائی آئے یا نہ آئے ، اطمینان وسکون فی الحال حاصل ہویانہ ہو ، ہوگا وہی جو خیر ہوگا ، یہ ہے استخارہ مسنونہ کا مطلوب !اسی لئے تمام امت کے لئے تاقیامت یہ دستور العمل چھوڑا گیا ہے ‘‘[دورحاضر کے فتنے اور ان کا علاج]۔
استخارہ کی حکمت
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ میں استخارہ کی دو حکمتیں بیان فرمائیں ہیں :
۱-فال نکالنے سے نجات اور اس کی حرمت
۱-پہلی حکمت یہ کہ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ جب کوئی اہم کام کرنا ہوتا مثلا سفر یا نکاح یا کوئی بڑا سودا کرنا ہوتا تو وہ تیروں کے ذریعے فال نکالا کرتے تھے ، یہ تیر کعبہ شریف کے مجاور کے پاس رہتے تھے ، ان میں سے کسی تیر پر لکھا ہوتا ’’امرنی ربی‘‘ (میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے )اور کسی پر لکھا ہوتا ’’نہانی ربی‘‘ (میرے رب نے مجھے منع کیا ہے)اور کوئی تیر بے نشان ہوتا، اس پر کچھ لکھا ہوا نہیں ہوتا تھا، مجاور تھیلا ہلا کر فال طلب کرنے والے سے کہتا کہ ہاتھ ڈال کر ایک تیر نکال لے ،اگر ’’امرنی ربی‘‘ (کام کے حکم )والا تیر نکلتا تو وہ شخص کام کرتا اور ٍ’’نہانی ربی‘‘ (کام سے منع) والا تیر نکلتا تو وہ کام سے رک جاتا اور بے نشان تیر ہاتھ میں آتا تو دوبارہ فال نکالی جاتی ،سورۃ مائدہ آیت نمبر ۳ کے ذریعے اس کی حرمت نازل ہوئی ، اور حرمت کی دو وجہیں ہیں:
۱- یہ ایک بے بنیاد عمل ہے اور محض اتفاق ہے ، جب بھی تھیلے میں ہاتھ ڈالا جائے گا تو کوئی نہ کوئی تیر ضرور ہاتھ آئے گا ۔
۲- اس طرح سے فال نکالنا یہ اللہ تعالی پر افترا اور جھوٹا الزا م ہے ، اللہ تعالی نے کہاں حکم دیا ہے اور کب منع کیا ہے ؟اور اللہ پر افترا حرام ہے ۔
نبیﷺ نے لوگوں کو فال کی جگہ استخارہ کی تعلیم دی ہے، اس میں حکمت یہ ہے کہ جب بندہ رب علیم سے رہنمائی کی التجا کرتا ہے تو اپنے معاملے کو اپنے مولی کے حوالے کرکے اللہ کی مرضی معلوم کرنے کا شدید خواہش مند ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالی کے دروازے پر جا پڑتا ہے اور اس کا دل ملتجی ہوتا ہے تو ممکن نہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندے کی رہنمائی اور مدد نہ فرمائیں ، اللہ تعالی کی طرف سے فیضان کا باب کشادہ ہوتا ہے ، اور اس پر معاملہ کا راز کھولاجاتا ہے ، چنانچہ استخارہ محض اتفاق نہیں ہے، بلکہ اس کی مضبوط بنیاد ہے ۔
۲-فرشتوں سے مشابہت
۲-دوسری حکمت یہ کہ استخارہ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان فرشتہ صفت بن جاتا ہے ، استخارہ کرنے والا اپنی ذاتی رائے سے نکل جاتا ہے اور اپنی مرضی کو خدا کی مرضی کے تابع کردیتا ہے ،اس کی بہیمیت (حیوانیت) ملکیت(فرشتہ صفتی)کی تابع داری کرنے لگتی ہے اور وہ اپنا رخ پوری طرح اللہ کی طرف جھکادیتا ہے تو اس میں فرشتوں کی سی خو بو پیدا ہوجاتی ہے ، ملائکہ الہام ربانی کا انتظام کرتے ہیں اور جب ان کو الہام ہوتا ہے تو وہ داعیہ ربانی سے اس معاملے میں اپنی سی پوری کوشش خرچ کرتے ہیں ، ان میں کوئی داعیہ نفسانی نہیں ہوتا ، اسی طرح جو بندہ بکثرت استخارہ کرتا ہے وہ رفتہ رفتہ فرشتوں کے مانند ہوجاتا ہے ، حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :ملائکہ کے مانند بننے کا یہ ایک تیر بہدف مجرب نسخہ ہے جو چاہے آزما کر دیکھے[حجۃاللہ البالغۃ] ۔
استخارہ کا مسنون اور صحیح طریقہ
سنت کے مطابق استخارہ کا سیدھا سادہ اور آسان طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت [بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو]دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ کرے کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔
سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی وہ مسنون دعا مانگیں جو حضورﷺ نے تلقین فرمائی ہے، یہ بڑی عجیب دعا ہے ،اللہ جل شانہ کے نبی ہی یہ دعا مانگ سکتے ہے اور کسی کے بس کی بات نہیں ، کوئی گوشہ زندگی کا اس دعا میں نبیﷺ نے چھوڑا نہیں ، اگر انسان ایڑی چوٹی کا زور لگا لیتا تو بھی ایسی دعا کبھی نہ کرسکتا جو نبی کریمﷺ نے تلقین فرمائی ،اگرکسی کو دعا یاد نہ ہو توکوئی بات نہیں کتاب سے دیکھ کریہ دعا مانگ لے ،اگر عربی میں دعا مانگنے میں دقت ہورہی ہو تو ساتھ ساتھ اردو میں بھی یہ دعا مانگے، بس ! دعا کے جتنے الفاظ ہیں، وہی اس سے مطلوب ومقصود ہیں ، وہ الفاظ یہ ہیں :
دعاکرتے وقت جب ’’ہذا الامر‘‘ پر پہنچے [جس کے نیچے لکیر بنی ہے] تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ’’ہذا الامر‘‘ کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلا ’’ہذا السفر‘‘ یا ’’ہذا النکاح‘‘ یا ’’ہذہ التجارۃ ‘‘ یا ’’ہذا البیع ‘‘ کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ’’ہذا الأمر‘‘ ہی کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے اور دھیان دے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے۔
استخارہ کی دعا کا مطلب ومفہوم
اے اللہ ! میں آپ کے علم کا واسطہ دے کر آپ سے خیراور بھلائی طلب کرتا ہوں اور آپ کی قدرت کا واسطہ دے کر میں اچھائی پر قدرت طلب کرتا ہوں ، آپ غیب کو جاننے والے ہیں ۔
اے اللہ ! آپ علم رکھتے ہیں میں علم نہیں رکھتا ، یعنی یہ معاملہ میرے حق میں بہتر ہے یا نہیں ،اس کا علم آپ کو ہے، مجھے نہیں ، اور آپ قدرت رکھتے ہیں اور مجھ میں قوت نہیں ۔
یا اللہ ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں بہتر ہے ، میرے دین کے لیے بھی بہتر ہے ، میری معاش اور دنیا کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور انجام کار کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور میرے فوری نفع کے اعتبار سے اور دیرپا فائدے کے اعتبار سے بھی تو اس کو میرے لیے مقدر فرمادیجیے اور اس کو میرے لیے آسان فرمادیجیے اور اس میں میرے لیے برکت پیدا فرمادیجیے ۔
اور اگر آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں برا ہے ،میرے دین کے حق میں برا ہے یا میری دنیا اور معاش کے حق میں برا ہے یا میرے انجام کار کے اعتبار سے برا ہے، فوری نفع اور دیرپا نفع کے اعتبار سے بھی بہتر نہیں ہے تو اس کام کو مجھ سے پھیر دیجیے اور مجھے اس سے پھیر دیجیے اور میرے لیے خیر مقدر فرمادیجیے جہاں بھی ہو ، یعنی اگر یہ معاملہ میرے لیے بہتر نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیجیے اور اس کے بدلے جو کام میرے لیے بہتر ہو اس کو مقدر فرمادیجیے ، پھر مجھے اس پر راضی بھی کر دیجیے اور اس پر مطمئن بھی کردیجیے [اصلاحی خطبات]۔
استخارہ کتنی بار کیا جائے؟
حضرت انسؓایک روایت میں فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ انس ! جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے بارے میں اللہ تعالی سے سات مرتبہ استخارہ کرو ، پھر اس کے بعد (اس کا نتیجہ) دیکھو، تمہارے دل میں جو کچھ ڈالا جائے ، یعنی استخارے کے نتیجے میں بارگاہ حق کی جانب سے جو چیز القاء کی جائے اسی کو اختیار کرو کہ تمہارے لیے وہی بہتر ہے [مظاہر حق]۔
بہتر یہ ہے کہ استخارہ تین سے سات دن تک پابندی کے ساتھ متواتر کیا جائے، اگر اس کے بعد بھی تذبذب اور شک باقی رہے تو استخارہ کاعمل مسلسل جاری رکھے ، جب تک کسی ایک طرف رجحان نہ ہوجائے کوئی عملی اقدام نہ کرے ، اس موقعہ پر اتنی بات سمجھنی ضروری ہے کہ استخارہ کرنے کے لیے کوئی مدت متعین نہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو ایک ماہ تک استخارہ کیا تھا تو ایک ماہ بعد آپ کو شرح صدر ہوگیا تھا اگر شرح صدر نہ ہوتا تو آپ آگے بھی استخارہ جاری رکھتے[رحمۃ اللہ الواسعۃ]۔
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’دعائے استخارہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی سے دعائے خیر کرتا رہے ، استخارہ کرنے کے بعد ندامت نہیں ہوتی اور یہ مشورہ کرنا نہیں ہے، کیونکہ مشورہ تو دوستوں سے ہوتا ہے ، استخارہ سنت عمل ہے ، اس کی دعا مشہور ہے ،اس کے پڑھ لینے سے سات روز کے اندر اندر قلب میں ایک رجحان پیدا ہوجاتا ہے اور یہ خواب میں کچھ نظرآنا ،یا یہ قلبی رجحان حجت شرعیہ نہیں ہیں کہ ضرور ایسا کرناہی پڑے گا ، اور یہ جو دوسروں سے استخارہ کرایا کرتے ہیں ،یہ کچھ نہیں ہے ، بعض لوگوں نے عملیات مقرر کرلیے ہیں دائیں طرف یا بائیں طرف گردن پھیرنا یہ سب غلط ہیں ، ہاں دوسروں سے کرالینا گناہ تو نہیں لیکن اس دعا کے الفاظ ہی ایسے ہیں کہ خود کرنا چاہیے‘‘[مجالس مفتی اعظم ]۔
استخارہ کا نتیجہ اور مقبول ہونے کی علامت استخارہ سے کس طرح رہنمائی ملے گی ؟
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ استخارہ کا صرف اتنا اثر ہوتا ہے کہ جس کام میں تردد اور شک ہو کہ یوں کرنا بہتر ہے یا یوں ؟یا یہ کرنا بہتر ہے یا نہیں ؟تو استخارے کے مسنون عمل سے دو فائدے ہوتے ہیں :
۱-دل کا کسی ایک بات پر مطمئن ہوجانا۔ ۲-اور اس مصلحت کے اسباب میسر ہوجانا ۔ تاہم اس میں خواب آنا ضروری نہیں [اصلاح انقلاب امت]۔
استخارہ میں صرف یکسوئی کا حاصل ہونا استخارہ کے مقبول ہونے کی دلیل ہے، اس کے بعد اس کے مقتضی پر عمل کرے ، اگرکئی مرتبہ استخارہ کے بعد بھی یکسوئی اور کسی ایک جانب اطمینان نہ ہوتو استخارہ کے ساتھ ساتھ استشارہ بھی کرے یعنی اس کام میں کسی سے مشورہ بھی لے لیکن استخارہ میں ضروری نہیں کہ یکسوئی ہوا ہی کرے[الکلام الحسن]۔
بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خود انسان کے دل کا رجحان ایک طرف ہوجاتا ہے ، بس جس طرف رجحان ہوجائے وہ کام کر لے ، اور بکثرت ایسا رجحان ہوجاتا ہے ، لیکن بالفرض اگر کسی ایک طرف رجحان نہ بھی ہو بلکہ دل میں کشمکش موجود ہو تو بھی استخارہ کا مقصد حاصل ہوگیا ، اس لیے کہ بندہ کے استخارہ کرنے کے بعد اللہ تعالی وہی کرتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے ، اس کے بعد حالات ایسے پیدا ہوجاتے ہیں پھر وہی ہوتا ہے جس میں بندے کے لیے خیر ہوتی ہے اور اس کو پہلے سے معلوم بھی نہیں ہوتا ، بعض اوقات انسان ایک راستے کو بہت اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے لیکن اچانک رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں اور اللہ تعالی اس کو اس بندے سے پھیر دیتے ہیں ، لہذا اللہ تعالی استخارہ کے بعد اسباب ایسے پیدا فرمادیتے ہیں کہ پھر وہی ہوتا ہے جس میں بندے کے لیے خیر ہوتی ہے ، اب خیر کس میں ہے ؟ انسان کو پتہ نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالی فیصلہ فرمادیتے ہیں ۔
بس استخارہ کی حقیقت اتنی سی ہے کہ دو رکعت نفل پڑھ کر دعا مانگ لی، پھر آگے جوہوگا اسی میں خیر ہے ، کام ہوگیا تو خیر ! نہیں ہوا تو خیر ! دل جس طرف متوجہ ہو جائے اور جس کے اسباب پیدا ہورہے ہوں یقین کر لیں کہ یہی میرے لیے بہتر ہے اور اگر دل کی توجہ ہٹ گئی یا اسباب پیدا نہیں ہوئے یا اسباب موجود تھے مگر استخارہ کے بعد ختم ہوگئے، کام نہیں ہوسکا تو اطمینان رکھے، اللہ پر یقین رکھے کہ اس میں میری بہتری ہوگی ، اپنی طبیعت بہت چاہتی ہے مگر اللہ تعالی میرے نفع ونقصان کو مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں، اس طرح سوچنے سے ان شاء اللہ اطمینان ہوجائے گا ، اگر دل کا رجحان کسی جانب نہ ہو تو صرف اسباب کے پیش نظر جو فیصلہ بھی کرلے گا اس میں خیر ہوگی ، خدا نخواستہ اگر استخارہ کے بعد کوئی نقصان بھی ہوجائے تو یہ عقیدہ رکھے کہ استخارہ کی برکت سے اللہ تعالی نے چھوٹے نقصان کے ذریعے کسی بڑے نقصان سے بچا لیا ، استخارہ کی دعا میں دین کا ذکر پہلے ہے اور دنیا کا بعدمیں، اس لیے کہ مسلمان کا اصل مقصد دین ہے، دنیا تودر حقیقت دین کے تابع ہے ۔
استخارہ کے باوجود اگرنقصان ہوگیا تو ؟!
یہاں ایک سوال ذہن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی کام میں استخارہ کرنے کے باوجود بھی اگر نقصان ہوگیاتو؟اس کا جواب سمجھنے کے لیے یہ روایت ملاحظہ کیجیے:
عن مکحول الازدی رحمہ اللہ تعالی قال : سمعت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ یقول : ان الرجل یستخیر اللہ تبارک وتعالی فیختار لہ ، فیسخط علی ربہ عز وجل ، فلا یلبث ان ینظر فی العاقبۃ فاذا ہو خیر لہ [کتاب الزہد]۔
مکحول ازدی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا یہ ارشاد سنا ،فرماتے ہیں کہ بعض اوقات انسان اللہ تعالی سے استخارہ کرتا ہے کہ جس کام میں میرے لیے خیر ہو وہ کام ہوجائے تو اللہ تعالی اس کے لیے وہ کام اختیار فرمادیتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے ،لیکن ظاہری اعتبار سے وہ کام اس بندہ کی سمجھ میں نہیں آتا تو بندہ اپنے پروردگار سے ناراض ہوتا ہے کہ میں نے اللہ تعالی سے تو یہ کہا تھا کہ میرے لیے اچھا کام تلاش کیجیے ، لیکن جو کام ملا وہ تو مجھے اچھا نظر نہیں آرہا ہے ، اس میں میرے لیے تکلیف اور پریشانی ہے ، لیکن کچھ عرصے بعد جب انجام سامنے آتا ہے تب اس کو پتہ چلتا ہے کہ حقیقت میں اللہ تعالی نے میرے لیے جو فیصلہ کیا تھا وہی میرے حق میں بہتر تھا ، اس وقت اس کو پتہ نہیں تھا اور یہ سمجھ رہا تھا کہ میرے ساتھ زیادتی اور ظلم ہوا ہے ، اوراصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کے فیصلے کا صحیح ہونا بعض اوقات دنیا میں ظاہر ہوجاتا ہے اور بعض اوقات آخرت میں ظاہر ہوگا۔
اب جب وہ کام ہوگیا تو ظاہری اعتبار سے بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ جو کام ہوا وہ اچھا نظر نہیں آرہا ہے ، دل کے مطابق نہیں ہے ، تو اب بندہ اللہ تعالی سے شکوہ کرتا ہے کہ یا اللہ ! میں نے آپ سے استخارہ کیا تھا مگر کام وہ ہوگیا جو میری مرضی اور طبیعت کے خلاف ہے اور بظاہر یہ کام اچھا معلوم نہیں ہورہا ہے ، اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرمارہے ہیں کہ ارے نادان ! تو اپنی محدود عقل سے سوچ رہا ہے کہ یہ کام تیرے حق میں بہتر نہیں ہوا ، لیکن جس کے علم میں ساری کائنات کا نظام ہے وہ جانتا ہے کہ تیرے حق میں کیا بہتر تھا اور کیا بہتر نہیں تھا ، اس نے جو کیا وہی تیرے حق میں بہتر تھا ، بعض اوقات دنیا میں تجھے پتہ چل جائے گا کہ تیرے حق میں کیا بہتر تھا اور بعض اوقات پوری زندگی میں کبھی پتہ نہیں چلے گا ، جب آخرت میں پہنچے گا تب وہاں جا کر پتہ چلے گا کہ واقعۃ یہی میرے لیے بہتر تھا۔
اوریہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو ،اوریہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو ، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو اور(اصل حقیقت تو) اللہ جانتا ہے اورتم نہیں جانتے ۔
انسانی بصیرت ودانش مندی اورتدبیر ومحنت عواقب (انجام) ونتائج کے بارے میں بکثرت فیل ہوتی ہے ،کسی مفید کو مضر یا مضر کو مفید سمجھ لینا بڑے سے بڑے ہوشیارعقل مند سے بھی مستبعد نہیں ، ہر انسان اگر اپنی عمر میں پیش آنے والے واقعات پر نظر ڈالے تو اپنی ہی زندگی میں اس کو بہت سے واقعات ایسے نظر پڑیں گے کہ وہ کسی چیز کو نہایت مفید سمجھ کر حاصل کررہے تھے اورانجام کار یہ معلوم ہوا کہ وہ انتہائی مضر تھی ، یاکسی چیز کو نہایت مضر سمجھ کر اس سے اجتناب کررہے تھے ، اورانجام کار یہ معلوم ہوا کہ وہ نہایت مفید تھی ، انسانی عقل وتدبیر کی رسوائی اس معاملہ میں بکثرت مشاہدہ میں آتی رہتی ہے [معارف القرآن]۔
اس کی مثال یوں سمجھیں جیسے ایک بچہ ہے جو ماں باپ کے سامنے مچل رہا ہے کہ فلاں چیز کھاؤں گا اور ماں باپ جانتے ہیں کہ اس وقت یہ چیز کھانا بچے کے لیے نقصان دہ اور مہلک ہے ، چنانچہ ماں باپ بچے کو وہ چیز نہیں دیتے ، اب بچہ اپنی نادانی کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ میرے ماں باپ نے مجھ پر ظلم کیا ،میں جو چیز مانگ رہا تھا وہ مجھے نہیں دی اور اس کے بدلے میں مجھے کڑوی کڑوی دوا کھلا رہے ہیں ، اب وہ بچہ اس دوا کو اپنے حق میں خیر نہیں سمجھ رہا ہے لیکن بڑا ہونے کے بعد جب اللہ تعالی اس بچے کو عقل اور فہم عطا فرمائیں گے اور اس کو سمجھ آئے گی تو اس وقت اس کو پتہ چلے گا کہ میں تو اپنے لیے موت مانگ رہا تھا اور میرے ماں باپ میرے لیے زندگی اور صحت کا راستہ تلاش کررہے تھے ، اللہ تعالی تو اپنے بندوں پر ماں باپ سے زیادہ مہربان ہیں ، اس لیے اللہ تعالی وہ راستہ اختیار فرماتے ہیں جو انجام کار بندہ کے لیے بہتر ہوتا ہے ، اب بعض اوقات اس کا بہتر ہونا دنیا میں پتہ چل جاتا ہے اور بعض اوقات دنیا میں پتہ نہیں چلتا ۔
یہ کمزور انسان کس طرح اپنی محدود عقل سے اللہ تعالی کے فیصلوں کا ادراک کرسکتا ہے، وہی جانتے ہیں کہ کس بندے کے حق میں کیا بہتر ہے؟ انسان صرف ظاہر میں چند چیزوں کو دیکھ کر اللہ تعالی سے شکوہ کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالی کے فیصلوں کو برا ماننے لگتا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی سے بہتر فیصلہ کوئی نہیں کرسکتا کہ کس کے حق میں کیا اور کب بہتر ہے ۔
اسی وجہ سے اس حدیث میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمارہے ہیں کہ جب تم کسی کام کا استخارہ کرچکو تو اس کے بعد اس پر مطمئن ہوجاؤ کہ اب اللہ تعالی جو بھی فیصلہ فرمائیں گے وہ خیر ہی کا فیصلہ فرمائیں گے ، چاہے وہ فیصلہ ظاہر نظر میں تمہیں اچھا نظر نہ آرہا ہو ، لیکن انجام کے اعتبار سے وہی بہتر ہوگا ، اور پھر اس کا بہتر ہونا یا تو دنیا ہی میں معلوم ہوجائے گا، ورنہ آخرت میں جا کر تو یقینا معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالی نے جو فیصلہ کیا تھا وہی میرے حق میں بہتر تھا[اصلاحی خطبات]۔
استخارہ کے بارے میں چند غلط فہمیاں اورکوتاہیاں
قرآن وسنت کی تعلیمات اور دینی شعور وآگہی سے دوری کی وجہ سے لوگوں میں استخارے کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں ، چنانچہ مفتی رشید احمدلدھیانوی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
’’اب دیکھیے یہ[استخارہ] کس قدر آسان کام ہے مگر اس میں بھی شیطان نے کئی پیوند لگادیے ہیں :
۱-پہلا پیوند یہ کہ دو رکعت پڑھ کر کسی سے بات کیے بغیر سو جائو ، سونا ضروری ہے ورنہ استخارہ بے فائدہ رہے گا۔ ۲- دوسرا پیوند یہ لگایا کہ لیٹو بھی دائیں کروٹ پر ۔ ۳-تیسرا یہ کہ قبلہ رو لیٹو ۔ ۴-چوتھا پیوند یہ لگایا کہ لیٹنے کے بعد اب خواب کا انتظار کرو ، استخارہ کے دوران خواب نظر آئے گا ۔ ۵- پانچواں پیوند یہ لگایا کہ اگر خواب میں فلاں رنگ نظر آئے تو وہ کام بہتر ہوتا ہے ، فلاں نظر آئے تو وہ بہتر نہیں ۔ ۶-چھٹا پیوند یہ لگایا کہ اس خواب میں کوئی بزرگ آئے گا بزرگ کا انتظار کیجیے کہ وہ خواب میں آکر سب کچھ بتادے گا ، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ بزرگ کون ہو گا؟اگر شیطان ہی بزرگ بن کر خواب میں آجائے تو اس کو کیسے پتہ چلے گا کہ یہ شیطان ہے یا کوئی بزرگ؟ یاد رکھیے کہ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی حدیث سے ثابت نہیں ، بس یہ باتیں لکھنے والوں نے کتابوں میں بغیر تحقیق کے لکھ دی ہیں ، اللہ تعالی ان لکھنے والے مصنفین پر رحم فرمائیں‘‘ [خطبات الرشید]۔
یہاں یہ واضح رہے کہ باوضو ،قبلہ رخ اور دائیں کروٹ پر سونا نیندکے آداب میں سے تو ضرور ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ استخارہ رات کو سونے سے پہلے ان مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ لازمی سمجھ کر کیا جائے ۔
۱-استخارہ صرف اہم کام کے لیے نہیں !
اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ صرف اسی کام میں ہے جو کام بہت اہم یا بڑا ہے اور جہاں انسان کے سامنے دو راستے ہیں یا جس کام میں انسان کو تردد یا شک ہے صرف ایسے ہی کاموںمیں استخارہ کرنا چاہیے ، چنانچہ آج کل عوام الناس کو اپنی زندگی کے صرف چند مواقع پر ہی استخارہ کے مسنون عمل کی توفیق نصیب ہوتی ہے، مثلا نکاح کے لیے یا کاروبار کے لیے استخارہ کرلیا اور بس!گویا ہم ان چندگنے چنے مواقع پر تو اللہ سے خیر اور بھلائی کے طلب گار ہیں اور باقی تمام زندگی کے روز وشب میں ہم اللہ سے خیر مانگنے سے بے نیاز اور مستغنی ہیں، یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ استخارہ صرف اہم اور بڑے کاموں ہی میں نہیں ہے بلکہ اپنے ہر کام میں چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، اللہ تعالی سے خیر اور بھلائی طلب کرنی چاہیے، اسی طرح استخارے میں یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کام میں تردداور تذبذب ہو تب ہی استخارہ کیا جائے ، بلکہ تردد نہ بھی ہو اور اس کام میں ایک ہی صورت اورایک ہی راستہ ہو تب بھی استخارہ کرنا چاہیے ،حدیث نبوی کے الفاظ ہیں :
کان رسول اللہﷺ یعلمنا الاستخارۃ فی الامور کلھا۔ [بخاری]۔
یعنی حضوراکرمﷺ صحابہ کرام کو ہر کام میں استخارے یعنی اللہ سے خیر طلب کرنے کی تعلیم دیتے تھے ۔
۲-استخارہ کے لیے کوئی وقت مقررنہیں
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ ہمیشہ رات کو سوتے وقت ہی کرنا چاہیے یا عشاء کی نماز کے بعد ہی کرنا چاہیے ، ایسا کوئی ضروری نہیں ، بلکہ جب بھی موقع ملے اس وقت استخارہ کرلے ، نہ رات کی کوئی قید ہے اور نہ دن کی کوئی قید ہے، نہ سونے کی کوئی قید ہے اور نہ جاگنے کی کوئی قید ہے بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو۔
۳-استخارہ کے بعدخواب آنا ضروری نہیں
استخارہ کے بارے میں لوگوں کے درمیان طرح طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ، عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ’’استخارہ ‘‘ کرنے کا کوئی خاص طریقہ اور خاص عمل ہوتا ہے ، اس کے بعد کوئی خواب نظر آتا ہے اور اس خواب کے اندر ہدایت دی جاتی ہے کہ فلاں کام کرو یا نہ کرو، خوب سمجھ لیں کہ حضور اقدسﷺ سے استخارہ کا جو مسنون طریقہ ثابت ہے، اس میں اس قسم کی کوئی بات موجود نہیں ۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ کرنے کے بعدآسمان سے کوئی فرشتہ آئے گا یاکوئی کشف والہام ہوگا یا خواب آئے گا اور خواب کے ذریعے ہمیں بتایا جائے گا کہ یہ کام کرو یا نہ کرو ، یاد رکھیے ! خواب آنا کوئی ضروری نہیں کہ خواب میں کوئی بات ضرور بتائی جائے یا خواب میں کوئی اشارہ ضرور دیا جائے ، بعض مرتبہ خواب میں آجاتا ہے اور بعض مرتبہ نہیں آتا۔
۴-کسی دوسرے سے ’’استخارہ نکلوانا‘‘
استخارہ کے باب میں لوگ ایک غلطی کرتے ہیں اس کی اصلاح بھی ضروری ہے وہ یہ کہ بہت سے لوگ خود استخارہ کرنے کی بجائے دوسروں سے کرواتے ہیں ،اور کہتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے ’’استخارہ نکال دیجیے‘‘گویا جیسے فال نکالی جاتی ہے ویسے ہی استخارہ بھی نکال دیجیے، دوسروں سے استخارے کروانے کا مطلب تو وہی عمل ہوا جو جاہلیت میں مشرکین کیا کرتے تھے اور جس کے انسداداور خاتمے کے لیے آنحضرتﷺ نے صحابہ کرام کو استخارے کی نماز اور دعا سکھائی، اور یہ اسی وجہ سے ہوا کہ لوگوں نے استخارے کو یہ سمجھ لیا ہے کہ اس سے گویا کوئی خبر مل جاتی ہے یایہ الہام ہوجاتا ہے کہ کیا کرنا چاہیے؟ جس طرح جاہلیت میں تیروں پر لکھ کر یہ معلوم کیا جاتا تھا اسی طرح آج کل تسبیح کے دانوں پر اس قسم کے استخارے کیے جارہے ہیں، یہ طریقہ بالکل غلط ہے اور انتہا تو یہ ہوگئی کہ اب عوام میں یہ رواج چل پڑا ہے کہ ٹی وی اور ریڈیو پر استخارے نکلوائے جارہے ہیں،حالانکہ استخارہ اللہ تعالیٰ سے اپنے معاملے میں خیر اور بھلائی کا طلب کرنا ہے نہ کہ خبر کا معلوم کرنا ۔
رسول اللہﷺ کی طرف سے ہدایت یہ ہے کہ جس کا کام ہو وہ خود استخارہ کرے ، دوسروں سے کروانے کا کوئی ثبوت نہیں ،جب حضور اقدسﷺ دنیا میں موجود تھے اس وقت صحابہ سے زیادہ دین پر عمل کرنے والا کوئی نہیں تھا اور حضور سے بہتر استخارہ کرنے والا بھی کوئی نہ تھا لیکن آج تک کہیں یہ نہیں لکھا کہ کسی صحابی نے حضور سے جا کر یہ کہا ہو کہ آپ میرے لیے استخارہ کردیجیے ، سنت طریقہ یہی ہے کہ صاحب معاملہ خود کرے، اسی میں برکت ہے ۔ لوگ یہ سوچ کر کہ ہم تو گناہ گار ہیں ،ہمارے استخارے کا کیا اعتبار ؟ اس لیے خود استخارہ کرنے کی بجائے فلاں بزرگ اور عالم سے یا کسی نیک آدمی سے کرواتے ہیں کہ اس میں برکت ہوگی ، لوگوں کا یہ زعم اور یہ عقیدہ غلط ہے ، جس کا کام ہو وہ خود استخارہ کرے خواہ وہ نیک ہو یا گناہ گار، دوسرے سے استخارہ کرانا اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،خود د عا کے الفاظ سے بھی یہی مترشح ہورہا ہے ،دعا کے الفاظ میں متکلم کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ، اس لیے صاحب معاملہ کو خود کرنا چاہیے ، استخارہ دوسرے سے کروانا، ناجائز تونہیں لیکن بہتر اور مسنون بھی نہیں ہے ۔سلامتی کا طریقہ وہی ہے جو نبی کریمﷺ کا طریقہ ہے کہ صاحب معاملہ خود کرے ،اسی میں برکت ہے۔
۵-’’ہمارے استخارے کا کیا اعتبار‘‘؟!
لوگ یہ سوچ کر کہ ہم تو گناہ گار ہیں ، ہمارے استخارے کا کیا اعتبار ؟اس لیے خود استخارہ کرنے کی بجائے فلاں بزرگ اور عالم سے یا کسی نیک آدمی سے استخارہ کرواتے ہیں کہ اس میں برکت ہوگی ، لوگوں کا یہ زعم اور یہ عقیدہ غلط ہے ، جس کا کام ہو وہ خود استخارہ کرے ، خواہ وہ نیک ہو یا گناہ گار، دوسرے سے استخارہ کرانا اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، خود دعا کے الفاظ سے بھی یہی مترشح ہورہا ہے ، دعا کے الفاظ میں متکلم کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ، اس لیے صاحب معاملہ کو خود کرنا چاہیے ، استخارہ دوسرے کروانا ، ناجائز تو نہیں ،لیکن بہتر اور مسنون بھی نہیں ہے ، سلامتی کا طریقہ وہی ہے جو نبی کریم ﷺ کا طریقہ ہے کہ صاحب معاملہ خود استخارہ کرے ۔
۶-ہم گناہ گار ہیں! استخارہ کیسے کریں ؟
انسان کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو، بندہ تو اللہ ہی کا ہے اور جب بندہ اللہ سے مانگے گا تو جواب ضرور آئے گا،جس ذات کا یہ فرمان ہوکہ ’’ادعونی استجب لکم‘‘ مجھ سے مانگو میں دعا قبول کروں گا ۔ تویہ اس عظیم وکبیر ذات کے ساتھ بد گمانی ہے، وہ ذات تو ایسی ہے کہ شیطان جب جنت سے نکالاجارہا ہے راندہ درگاہ کیا جارہا ہے تواس وقت شیطان نے دعا کی، اللہ نے اس کی دعا کو قبول فرمایا، جو شیطان کی دعا قبول کررہا ہے کیا وہ ہم گناہ گاروں کی دعا قبول نہ کرے گا اور جب کوئی استخارہ رسول اللہ کی اتباع سنت کے طور پر کرے گا تو یہ ممکن نہیں کہ اللہ دعا نہ سنے بلکہ ضرور سنے گا اور خیر کو مقدر فرمائے گا،اللہ کی بارگاہ میں سب کی دعائیں سنی جاتی ہیں ، ہاں یہ ضرور ہے کہ گناہوں سے بچنا چاہیے تاکہ دعا جلد قبول ہو ،لوگوں میں بکثرت یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ گناہ گار استخارہ نہیں کرسکتے، یہ دو وجہ سے باطل اور غلط ہے :
۱-پہلی وجہ یہ کہ گناہوں سے بچنا آپ کے اختیار میں ہے ، مسلمان ہو کر کیوں گناہ گار ہیں ؟گناہ صادر ہوگیا تو صدق دل سے توبہ کرلیجیے ، بس گناہوں سے پاک ہوگئے ، گناہ گار نہ رہے ، نیک لوگوں کے زمرے میں شامل ہوگئے ، توبہ کی برکت سے اللہ تعالی نے پاک کردیا ، اب اللہ کی اس رحمت کی قدر کریں اور آئندہ جان بوجھ کر گناہ نہ کریں۔
۲-دوسری وجہ یہ کہ استخارہ کے لیے شریعت نے تو کوئی ایسی شرط نہیں لگائی کہ استخارہ گناہ گار انسان نہ کرے، کوئی ولی اللہ کرے ، جو شرط شریعت نے نہیں لگائی آپ اپنی طرف سے اس شرط کو کیوں بڑھاتے ہیں؟ شریعت کی طرف سے تو صرف یہ حکم ہے کہ جس کی حاجت ہو وہ استخارہ کرے خواہ وہ گناہ گار ہو یا نیک ، جیسا بھی ہو خود کرے ، عوام یہ کہتے ہیں کہ استخارہ کرنا بزرگوں کا کام ہے تو بزرگ حضرات بھی سمجھنے لگے کہ ہاں! یہ صحیح کہہ رہے ہیں ، استخارہ کرنا ہمارا ہی کام ہے ،عوام کا کام نہیں ، عوام کو غلطی پر تنبیہ کرنے کی بجائے خود غلطی میں شریک ہوگئے ، ان کے پاس جو بھی چلا جائے یہ پہلے سے تیار بیٹھے ہیں کہ ہاں لائیں ! آپ کا استخارہ ہم ’’نکال دیں گے ‘‘اور استخارہ کرنے کو ’’استخارہ نکالنا‘‘کہتے ہیں ،یاد رکھیں یہ ایک غلط روش ہے اوراس غلط روش کی اصلاح فرض ہے۔
۷-استخارہ کے ذریعہ گذشتہ یا آئندہ کا کوئی واقعہ معلوم کرنا
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:استخارہ کی حقیقت یہ ہے کہ کسی امر کے مصلحت یا خلاف مصلحت ہونے میں تردد ہو تو خاص دعا پڑھ کر اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو ، اس کے دل میں جو بات عزم اور پختگی کے ساتھ آئے اسی میں خیر سمجھے ، استخارہ کا مقصد تردداور شک ختم کرنا ہے نہ کہ آئندہ کسی واقعے کو معلوم کرلینا۔
بعض لوگ استخارہ کی یہ غرض بتلاتے ہیں کہ اس سے گذشتہ زمانے میں پیش آنے والا کوئی واقعہ یا آئندہ ہونے والا واقعہ معلوم ہوجاتا ہے ، سو استخارہ شریعت میں اس غرض سے منقول نہیں ، بلکہ وہ تو محض کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا تردد اور شک دور کرنے کے لیے ہے ، نہ کہ واقعات معلوم کرنے کے لیے ،بلکہ ایسے استخارہ کے ثمرہ اور نتیجے پر یقین کرنا بھی ناجائز ہے [اغلاط العوام]۔
۸-استخارہ کے ذریعے چور کا پتہ یا خواب میں کوئی بات معلوم کرنا
یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح استخارہ سے گذشتہ زمانے میں پیش آنے والاکوئی واقعہ نہیں پتہ چل سکتا بالکل اسی طرح آئندہ پیش آنے والا واقعہ کہ فلاں بات یوں ہوگی معلوم نہیں کیا جاسکتا ، اور اگر کوئی استخارہ کو اس غرض کے لیے سمجھے ہوئے ہے تو وہ اپنے غلط خیال کی اصلاح کرے کہ یہ بالکل باطل اعتقاد ہے ، مثلا کسی کے ہاں چوری ہوجائے تو اس غرض کے لیے کہ چور کا پتہ معلوم ہوجائے استخارہ کرنا نہ تو جائز ہے اور نہ مفید ہے ۔
اور بعض بزرگوں سے جواس قسم کے بعض استخارے منقول ہیں جس سے کوئی واقعۃ صراحتا یا اشارۃ خواب میں نظر آجائے ،سو وہ استخارہ نہیں ہے بلکہ خواب نظر آنے کا عمل ہے ، پھر اس کا یہ اثر بھی لازمی نہیں ، خواب کبھی نظر آتا ہے اور کبھی نہیں اور اگر خواب نظر آبھی گیا تو وہ محتاج تعبیر ہے ،اگرچہ صراحت کے ساتھ نظر آئے پھر تعبیر جو ہوگی وہ بھی ظنی ہوگی یقینی نہیں ، اس میں اتنے شبہات ہیں پس اس کو استخارہ کہنا یا مجاز ہے اگر ان بزرگوں سے یہ نام منقول ہے، ورنہ اغلاط عامہ میں سے ہے [اصلاح انقلاب امت]۔
۹-استخارہ کام کے ارادہ سے پہلے ہو
استخارہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ ارادہ ابھی کر لو پھر برائے نام استخارہ بھی کرلو ، استخارہ تو ارادہ سے پہلے کرنا چاہیے تاکہ ایک طرف قلب کو سکون پیدا ہوجائے ، اس میں لوگ بڑی غلطی کرتے ہیں ، استخارہ اس شخص کے لیے مفید ہوتا ہے جو خالی الذہن ہو ورنہ جو خیالات ذہن میں بھرے ہوئے ہوتے ہیں دل اسی جانب مائل ہوجاتا ہے اور وہ شخص اس غلط فہمی کا شکار رہتا ہے کہ یہ بات استخارہ سے معلوم ہوئی ہے ۔
۱۰-استخارہ صرف جائز کاموں میں ہے
ایک بات یہ بھی سمجھ لینی چاہیے کہ استخارہ کا محل مباحات ہے ،جو مباح یعنی جائز کام ہیں ان میں استخارہ کرناچاہیے ،جو چیزیں اللہ نے فرض کردی ہیں یا واجبات اور سنن مؤکدہ ہیں ان میں استخارے کی حاجت نہیں ۔
اسی طرح جن کاموں کو اللہ اوراس کے رسول نے حرام اور ناجائز کردیا ہے ان میں بھی استخارہ نہیں ہے ،مثلا کوئی آدمی استخارہ کرے کہ نماز پڑھوں یانہ پڑھوں؟ روزہ رکھوں یانہ رکھوں ؟تویہاں استخارہ نہیں، یہ کام تو اللہ تعالی نے فرض کردیاہے ،یا کوئی شخص اس بارے میں استخارہ کرے کہ شراب پیوں یانہ پیوں، رشوت لوں کہ نہ لوں ،ویڈیو فلموں کا کاروبار کروں نہ کروں،سودی معاملہ کروں یانہ کروں تو ان سب منہیات میں بھی استخارہ نہیں کیا جائے گا، بلکہ یہ سب تو حرام ہیں، استخارہ ان چیزوں میں کیا جائے جو جائز امورہیں،رزق حلال کے حاصل کرنے اور کسب معاش کے لیے استخارے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو فریضہ ہے استخارہ اس میں کیا جائے کہ رزق حلال کے حصول کے لیے ملازمت کروں یا تجارت کروں ؟ تجارت کپڑے کی کی جائے یا اشیائے خورد ونوش کی؟ اب یہاں استخارہ کی ضرورت ہے ، اسی طرح اگر حج کے لیے جانا ہو تو یہ استخارہ نہ کرے کہ میں جاؤں یا نہ جاؤں؟ بلکہ یوں استخارہ کرے کہ فلاں دن جاؤں یا نہ جاؤں ؟۔
رشتوں کے لیے استخارہ
رشتہ کا معاملہ عام معاملات سے الگ ہے ، یہ صرف اولاد کا کام نہیں بلکہ والدین کا کام بھی ہے ، صحیح رشتہ کا انتخاب والدین ہی کرسکتے ہیں ، یہ ان کی ذمہ داری ہے اور ان کومستقبل کے حوالے سے سوچنا پڑتا ہے کہ کہاں رشتہ کریں ؟اس لیے بہتر یہ ہے کہ جن لڑکوں یا لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ ہے وہ خود بھی استخارہ کرلیں اور اگر ان کے والدین زندہ ہوں تو وہ بھی کرلیں۔
استخارہ ہر مشکل، پریشانی اور فتنے سے بچاؤکا حل
محدث العصر حضرت بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
’’دورِ حاضر میں امت کا شیرازہ جس بری طرح سے بکھر گیا ہے ، مستقبل قریب میں اس کی شیرازہ بندی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ، جب استشارے کا راستہ بند ہوگیا تو اب صرف استخارہ کا راستہ ہی باقی رہ گیا ہے ، حدیث شریف میں تو فرمایاتھا:
ترجمہ: جو استخارہ کرے گا خائب وخاسر(ناکام اور نقصان اٹھانے والا) نہ ہوگا، اور جو مشورہ کرے گاوہ پشیمان شرمندہ نہ ہوگا۔
عوام کے لئے یہی دستور العمل ہے کہ اگر کوئی ان فتنوں میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا تو مسنون استخارہ کرکے عمل کرے اور امید ہے کہ استخارہ کے بعد اس کا قدم صحیح ہوگا ، مسنون استخارہ کا مطلب یہی ہے کہ انسان جب کسی امر میں متحیر اور متردد ہوتا ہے اور کوئی واضح اور صاف پہلو نظر نہیں آتا، اس کا علم رہنمائی سے قاصراور اس کی طاقت بہتر کام کرنے سے عاجز تو حق تعالی کی بارگاہ رحمت والطاف میں التجا کرتا ہے اور حق تعالی کی بارگاہ سے دعا ، توکل تفویض اور تسلیم ورضا بالقضا ء کے راستوں سے کرتا ہے کہ وہ اس کی دستگیری اور رہنمائی فرمائے ، بہتر صورت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)‘‘ [دور حاضر کے فتنے اور ان کا علاج]۔
استخارہ کے من گھڑت خود ساختہ طریقے اور ان کے مفاسد
اس زمانے کے مسلمانوں نے استخارہ کے کئی ایسے طریقے خود گھڑ لیے ہیں جن کا طریقہ مسنونہ سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ، رسول اللہﷺ نے جو استخارہ کا طریقہ بیان فرمایا در حقیقت وہ اللہ تعالی کے حکم سے ہے جو اللہ تعالی نے اپنے رسول کے ذریعے بندوں تک پہنچایا مگر بندوں نے یہ قدر کی کہ اسے پس پشت ڈال کر اپنی طرف سے کئی طریقے ایجاد کر لیے ، اللہ تعالی نے جو استخارہ رسول اللہﷺ کو سکھا یا آپﷺ نے وہی اپنی امت کو سکھایا اور ایسے اہتمام سے سکھایا جیسے قرآن کی سورت سکھاتے تھے ۔
مگر آج کے مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمائے ہوئے طریقے کے مقابلے میں اپنی پسند کے مختلف طریقے گھڑ لیے ہیں ،انہیں رسول اللہﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر اعتماد نہیں۔تو وہ تمام طریقے مسنون نہیں ہے ، کوئی تکیہ کے نیچے رکھنے کا ہے ،کوئی سر کے گھوم جانے کا ہے ، کوئی تسبیح پر پڑھنے کا ہے وغیرہ وغیرہ ، اس میں سے کوئی سنت سے ثابت نہیں ہے بلکہ ان طریقوں میں تو ایک گونہ خطرے کا اندیشہ ہے ، رسول اللہ کا سنت طریقہ چھوڑ کردوسرے طریقے اختیار کرنا پتہ نہیں اللہ کو پسند بھی ہویا نہ ہو۔
وقت کی کمی اور فوری فیصلے کی صورت میں استخارہ کا ایک اور مسنون طریقہ
سنت استخارے کا ایک تفصیلی طریقہ تو وہ ہوا جس کو ماقبل میں تفصیل سے بیان کردیا گیا لیکن قربان جایے کہ رسول اللہﷺ نے وقت کی کمی اور فوری فیصلے کی صورت میں بھی ایک مختصر سا استخارہ تجویز فرمادیا تاکہ استخارے سے محرومی نہ ہوجائے ،اس سے قبل استخارہ کا جو مسنون طریقہ عرض کیا گیا، یہ تو اس وقت ہے جب آدمی کو استخارہ کرنے کی مہلت اور موقع ہو ، اس وقت تو وضو کرکے دو رکعت نفل پڑھ کر وہ استخارہ کی مسنون دعا کرے ، لیکن بسا اوقات انسان کو اتنی جلدی اور فوری فیصلہ کرنا پڑتا ہے، دو رکعت پڑھ کر دعا کرنے کا موقع ہی نہیں ہوتا ، اس لیے کہ اچانک کوئی کام سامنے آگیا اور فورا اس کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہے ،اتنا وقت ہے نہیں کہ دو رکعت نفل پڑھ کر استخارہ کیا جائے تو ایسے موقع کے لیے خود نبی کریمﷺ نے ایک دعا تلقین فرمائی ،وہ یہ ہے :
اَللّٰہُمَّ خِرْ لِیْ وَاخْتَرْ لِیْ[کنز العمال]۔
اے اللہ ! میرے لیے آپ پسندفرمادیجیے کہ مجھے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے ، بس یہ دعا پڑھ لے ، اس کے علاوہ ایک اور دعا حضورﷺ نے تلقین فرمائی ہے ، وہ یہ ہے :
اَللّٰہُمَّ اہْدِنِیْ وَسَدِّدْنِیْ[صحیح مسلم]۔
اے اللہ ! میری صحیح ہدایت فرمایے اور مجھے سیدھے راستے پر رکھیے۔
اسی طرح ایک اور مسنون دعا ہے :
اَللّٰہُمَ اَلْہِمْنِیْ رُشْدِیْ[ترمذی]۔
اے اللہ ! جو صحیح راستہ ہے وہ میرے دل پر القا فرمادیجیے ۔
ان دعاؤں میں سے جو دعا یاد آجائے اس کو اسی وقت پڑھ لے ، اور اگر عربی میں دعایاد نہ آئے تو اردو ہی میں دعا کر لو کہ اے اللہ !مجھے یہ کشمکش پیش آئی ہے ،آپ مجھے صحیح راستہ دکھا دیجیے ، اگر زبان سے نہ کہہ سکو تو دل ہی دل میں اللہ تعالی سے کہہ دو کہ یا اللہ ! یہ مشکل اور یہ پریشانی پیش آگئی ہے ، آپ صحیح راستے پر ڈال دیجیے جو راستہ آپ کی رضا کے مطابق ہو اور جس میں میرے لیے خیر ہو۔
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کا ساری عمر یہ معمول رہا کہ جب کبھی کوئی ایسا معاملہ پیش آتا جس میں فوری فیصلہ کرنا ہوتا کہ یہ دو راستے ہیں ان میں سے ایک راستے کو اختیار کرنا ہے تو آپ اس وقت چند لمحوں کے لیے آنکھ بند کرلیتے ، اب جو شخص آپ کی عادت سے واقف نہیں اس کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ آنکھ بند کرکے کیا کام ہورہا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ آنکھ بند کرکے ذرا سی دیر میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرلیتے اور دل ہی دل میں اللہ تعالی سے دعا کر لیتے کہ یا اللہ ! میرے سامنے یہ کشمکش کی بات پیش آگئی ہے ، میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا فیصلہ کروں ، آپ میرے دل میں وہ بات ڈال دیجیے جو آپ کے نزدیک بہتر ہو ، بس دل ہی دل میں یہ چھوٹا سا اور مختصر سا استخارہ ہوگیا۔
حضرت ڈاکٹر عبد الحئی عارفی صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ہر کام کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی طرف رجوع کرلے تو اللہ تعالی ضرور اس کی مدد فرماتے ہیں ، اس لیے کہ تمہیں اس کا اندازہ نہیں کہ تم نے ایک لمحہ کے اندر کیا سے کیا کرلیا، یعنی اس ایک لمحے کے اندر تم نے اللہ تعالی سے رشتہ جوڑ لیا ، اللہ تعالی کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرلیا ، اللہ تعالی سے خیر مانگ لی اور اپنے لیے صحیح راستہ طلب کرلیا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف تمہیں صحیح راستہ مل گیا اور دوسری طرف اللہ تعالی کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا اجر بھی مل گیا اور دعا کرنے کا بھی اجر وثواب مل گیا ، کیونکہ اللہ تعالی اس بات کو بہت پسند فرماتے ہیں کہ بندہ ایسے مواقع پر مجھ سے رجوع کرتا ہے اور اس پر خاص اجروثواب بھی عطا فرماتے ہیں ، اس لیے انسان کو اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے ، صبح سے لے کر شام تک نہ جانے کتنے واقعات ایسے پیش آتے ہیں جس میں آدمی کو کوئی فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ یہ کام کروں یا نہ کروں ، اس وقت فورا ایک لمحہ کے لیے اللہ تعالی سے رجوع کر لو ، یا اللہ ! میرے دل میں وہ بات ڈال دیجیے جو آپ کی رضا کے مطابق ہو۔ [اصلاحی خطبات]۔
الغرض استخارہ اللہ تعالی سے خیر مانگنے اور بھلائی طلب کرنے کا مسنون ذریعہ ہے لہٰذا اس بات کی کوشش کی جائے کہ اس کی وہی اصل شکل اور روح برقرار رہے جو شریعت اسلام نے واضح فرمائی ہے ، محض سنی سنائی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے حضرات علماء کرام سے رہنمائی حاصل کی جائے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو دین کی صحیح معنی میں سمجھ ،اس پر عمل کرنے والا اور عملا اس کو روئے زمین پر قائم کرنے والا بنائے ، آمین۔
استخارہ کے متعلق یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
زیر نظر مقالے کا نام ’’مقام صحابہؓ‘‘ رکھا ہے تاکہ پہلے ہی یہ معلوم ہوجائے کہ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل و مناقب کی کتاب نہیں، اس موضوع پر سینکڑوں کتابیں بحمدللہ ہر زبان میں موجود ہیں اور تمام کتب حدیث میں اس کی ایک نہیں بہت سے ابواب موجود ہیں۔ صحابہ کرام ؓ کا تو مقام بہت بلند ہے، عام صلحاءو ا ولیائے امت کے فضائل و مناقب اور ان کی حکایات انسان کو راہِ راست دکھانے اور اس میں دینی انقلاب پیداکرنے کے لیے نسخۂ اکسیر ہیں، مگر وہ اس رسالے کا موضوع نہیں۔ اسی طرح اس عنوان سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ کوئی تاریخ کی کتاب بھی نہیں، جس میں افراد ورجال کے اچھے برے حالات درج ہوتے ہیں اور ان میں احوال کی کثرت و قلت کے تناسب سے کسی کو بزرگ صالح اور دلی کہا جاتا ہے، کسی کو فاسق و ظالم۔
صالح اور ولی ہونے کے لیے مدارکار
کیونکہ انبیاء علیہم السلام کے بعد دنیا کو کوئی اچھے سے اچھا انسان ایسا نہیں جس سے کوئی لغزش اور غلطی نہ ہوئی ہو، اسی طرح کوئی برے سے برا انسان بھی ایسا نہیں جس سے کوئی اچھا کام نہ ہوا۔ بس مدارِکار اس پر رہتاہے کہ جس شخص کی زندگی اچھے اخلاق و اعمال میں گزری ہے اس کا صدق و اخلاص بھی اس کے عمل سے پہچانا گیا ہے۔ اس سے کوئی گناہ یا غلطی بھی ہوگئی تو بھی اس کو صلحائے امت ہی کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح جو شخص اپنی عام زندگی میں دین کی حدود و قیود کا پابند، احکام شرعیہ کا تابع نہیں ہے، اس سے دوچار اچھے یا بہت اچھے کام بھی ہوجائیں تو بھی اس کو صلحاء و اولیاء کی فہرست میں شمار نہیں کیا جاتا۔
فن تاریخ اورفقہ التاریخ میں فرق
فن تاریخ کا کام اتناہے کہ واقعات کو دیانت داری سے ٹھیک ٹھیک بیان کردے، اس سے نتائج کیا نکلتے ہیں اور کسی فرد یا جماعت کا دینی یادنیاوی مقام ان واقعات کی روشنی میں کیا ٹھہرتا ہے؟ یہ فن تاریخ کے موضوع سے الگ ایک چیز ہے، جس کو ’’فقہ التاریخ‘‘ تو کہہ سکتے ہیں ’’تاریخ‘‘ نہیں۔ پھر عام دنیا کے افراد و رجال اور جماعتوں کے بارے میں یہ فقہ التاریخ انہیں تاریخی واقعات پر مبنی ہوتا ہے اور فن تاریخ کا ہر واقف و ماہر ایسے نتائج اپنی اپنی فکر و نظر کے مطابق نکال سکتا ہے۔
صحابہ نری تاریخ سے نہیں پہچانے جاسکتے
’’مقام صحابہ‘‘ میں مجھے یہ دکھلانا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس معاملے میں عام دنیا کے افراد و رجال کی طرح نہیں کہ ان کے مقام کا فیصلہ نری تاریخ اور ان کے بیان کردہ حالات کے تابع کیا جائے ،بلکہ صحابہ کرام ؓ ایک ایسے مقدس گروہ کا نام ہے جو رسول اللہ ﷺ اور عام امت کے درمیان اللہ تعالیٰ کا عطا کیاہوا ایک واسطہ ہے، اس واسطے کے بغیر نہ امت کو قرآن ہاتھ آسکتا ہے نہ قرآن کے وہ مضامین جن کو قرآن نے رسول اللہ ﷺ کے بیان پر چھوڑا ہے’’لتبین للناس مانزل الیھم‘‘ نہ رسالت اور اس کی تعلیمات کا کسی کو اس واسطے کے بغیر علم ہوسکتا ہے۔
یہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے ساتھی، آپ کی تعلیمات کو تمام دنیا اور اپنے زن و فرزند اور اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھنے وا،لے آپ کے پیغام کو اپنی جانیں قربان کرکے دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلانے والے ہیں۔ ان کی سیرت رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا ایک جز ہے۔ یہ عام دنیا کی طرح صرف کتب تاریخ سے نہیں پہچانے جاتے ،بلکہ نصوص قرآن و حدیث اور سیرت رسول اللہ ﷺ سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کا اسلام اور شریعت اسلام میں ایک خاص مقام ہے۔ میں اس مقالے میں اسی مقام کو ’’مقام صحابہ‘‘ کے عنوان سے پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اس کی ضرورت واہمیت توبہت زمانے سے پیش نظر تھی مگر اس کے لکھنے کا ایک ایسا قوعی داعیہ جو دوسرے کاموں کو مؤخر کرکے اس میں لگادے اس وقت پیدا ہوا جبکہ یہ ناکارہ اپنی عمر کی چھترویں (۷۶) منزل سے گزر رہا ہے۔ قویٰ جواب دے چکے ہیں، مختلف قسم کے امراض کا غیر منقطع سلسلہ ہے۔ علم و عمل پہلے کیا تھا، اب جو کچھ تھا وہ بھی رخصت ہورہا ہے۔
صحابہ کرام کے متعلق اہل السنۃ والجماعۃ کا طرز عمل
ان حالات میں یہ داعیہ قوی ہونے کا سبب موجودہ زمانے کے کچھ حوادث ہیں، یہ تو سب کو معلوم ہے کہ امت کے گمراہ فرقوں میں سے ایک فرقہ جو عہد صحابہ ؓ ہی میں پیداہوگیا تھا، صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخی سے پیش آتا ہے، اور اسی بناء پر عام امت محمدیہ اس سے منقطع ہے، مگر امت کے عام فرقے خصوصاً جمہور امت جن کو’’ اہل السنۃ والجماعۃ‘‘ کے لقب سے ذکر کیا جاتا ہے، وہ سب کے سب صحابہ کرام ؓ کے خاص مقام اور ادب و احترام پر متفق اور ان کی عظیم شخصیتوں کو اپنی تنقیدات کا نشانہ بنانے سے گریز کرتے رہے اور اس کو بڑی بے ادبی سمجھتے رہے۔ مسائل میں اختلاف صحابہ ؓ کے وقت دو متصاد چیزوں پر ظاہر ہے کہ عمل نہیں ہوسکتا، ان میں سے ایک کو اجتہاد شرعی کے ساتھ اختیار کرنا اور بات ہے، وہ کسی شخصیت کو ہدف تنقید بنانے سے بالکل مختلف چیز ہے۔
’’تحقیق‘‘ کی وبا
لیکن اس زمانے میں یورپ سے جو چھی بری چیزیں اسلامی ملکوں میں درآمد کرلی گئی ہیں ان میں ہر چیز کی تحقیق و تنقید (ریسرچ) بھی ہے۔ تحقیق و تنقید فی نفسہ کوئی بری چیز نہیں، خود قرآن کریم نے اس کی طرف دعوت دی ہے۔ سورہ فرقان میں ’’عبادالرحمٰن‘‘ کے عنوان سے اللہ تعالیٰ کے صالح اور نیک بندوں کی جو صفات بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے:
والذین اذا ذکروا بایت ربھم لم یخرو علیھا صما و عمیانا
یعنی اللہ کے یہ صالح اور نیک بندے آیات الٰہیہ پر اندھے بہروں کی طرح نہیں گر پڑتے کہ بے تحقیق جس طرح اور جو چاہیں عمل کرنے لگیں، بلکہ خوب سمجھ بوجھ کر بصیرت کے ساتھ عمل کرتے ہیں۔‘‘
لیکن اسلام نے ہر چیز اور ہر کام کی کچھ حدود مقرر کی ہیں، ان کے دائرے میں رہ کر جو کام کیا جائے وہ مقبول و مفید سمجھا جاتا ہے۔ حدود و اصول کو توڑ کر جو کا کیا جائے وہ فساد قرار دیا جاتا ہے۔
کون سی تحقیق مستحسن ہے؟
تحقیق و تنقید میں سب سے پہلی بات تو اسلامی اصول میں یہ پیش نظر رکھنی ہے کہ اپنی توانائی اور وقت اس چیز کی تحقیق پر صَرف نہ کی جائے جس کاکوئی نفع دین یا دنیا میں متوقع نہ ہو۔ خالی تحقیق برائے تحقیق اسلام میں ایک عبث اور فضول عمل ہے، جس سے پرہیز کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے بڑی تاید فرمائی ہے۔ خصوصاً جبکہ کوئی ایسی تحقیق و تنقید ہو جس سے دنیا میں فتنہ اورجھگڑے پیدا ہوں۔ یہ ایسی ہی تنقید ہوگی جیسے کوئی ’’لائق‘‘ بیٹا اس کی تحقیق اور ریسرچ میں لگ جائے کہ جس باپ کا بیٹاکہلاتا ہوں کیا واقعی میں اسی کا بیٹا ہوں؟ اور اس کے لیے والدہ محترمہ کی زندگی کے گوشوں پر ریسرچ و تحقیق کا زور خرچ کرے۔
دوسرے شخصیتوں پر جرم و تنقید کے لیے اسلام نے کچھ عادلانہ، حکیمانہ اصول اور حدود مقرر کیے ہیں اور ان سے آزاد ہوکر جس کا جی چاہے، جو جی چاہے اور جس کے خلاف جی چاہے بولا یا لکھا کرے، اس کی اجازت نہیں دی۔ یہاں اس کی تفصیلات بیان کرنے کا موقع نہیں۔ حدیث کی جرح و تعدیل کی کتابوں کے ساتھ اس پر بحث کی گئی ہے۔
لیکن یورپ سے درآمد کی ہوئی ’’ریسرچ و تحقیق‘‘ نام ہی بے قید اور آزاد تنقید کا ہے۔ ادب اور احترام اور حدود کی رعایت اس میں ایک بے معنی چیز ہے،افسوس ہے کہ اس زمانے کے بہت سے اہل قلم بھی اس نئے طرز تنقید سے متاثر ہوگئے،بغیر کسی دینی و دنیاوی ضرورت کے بڑی بڑی شخصیتوں کو آزاد جرح و تنقید کا ہدف بنالینا ایک علمی خدمت اور محقق ہونے کی علامت سمجھی جانے لگی۔
اسلاف امت اور ائمہ دین پر تو یہ مشق ستم بہت زمانے سے جاری تھی، اب بڑھتے بڑھتے صحابہ کرام ؓ تک بھی پہنچ گئی۔ اپنے آ پ کو اہل السنۃ والجماعۃ کہنے والے بہت سے اہل قلم نے اپنی ریسرچ و تحقیق اور علمی توانائی کا بہترین مصرف اسی کو قرار دے لیا کہ صحابہ کرام ؓ کی عظیم شخصیتوں پر جرح و تنقید کی مشق کی جائے۔
صحابہ کرام کے متعلق افراط وتفریط اوراس کا نتیجہ
بعض حضرات نے ایک طرف حضرت معاویہؓ اور ان کے بیٹے یزید کی تائید و حمایت کا نام لے کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور ان کی اولاد بلکہ پورے بنی ہاشم کو ہدف تنقید بناڈالا ،اور اس میں صحابہ کرام ؓ کے ادب و احترام تو کیا اسلام کے عادلانہ اور حکیمانہ ضابطۂ تنقید کی بھی ساری حدود و قیود کو توڑ ڈالا، اس کے بالمقابل دوسرے بعض حضرات نے قلم اٹھایا تو حضرت معاویہؓ اور حضرت عثمان ؓ اور ان کے ساتھیوں پر اسی طرح کی جرح و تنقید سے کا م لیا۔
نئی تعلیم پانے والے نوجوان جو علوم دین اور آدابِ دین سے ناواقف یورپ سے درآمد کی ہوئی نئی تہذیب کے دلدادہ ہیں، وہ ان دونوں سے متاثر ہوئے اور ان کے حلقوں میں صحابہ کرام ؓ پر زبان طعن دراز ہونے لگی اور صحابہ کرام ؓ جو رسول اللہ ﷺ اور امت مسلمہ کے درمیانی واسطہ ہیں، ان کو دنیاکے عام سیاسی لیڈروں کی صف میں دکھایا جانے لگا جو اقتدار کی جنگ کرتے ہیں اور اپنے اپنے اقتدار کے لیے قوموں کو گمراہ اورتباہ کرتے ہیں۔ صحابہ کرام ؓ پر تبراً کرنے والا گمراہ فرقہ تو ایک خاص فرقے کی حیثیت سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ عام مسلمان ان کی باتوں سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ نفرت کرتے ہیں، مگر اب یہ فتنہ خود اہل سنت والجماعت کہلانے والے مسلمانوں میں پھوٹ پڑا ہے۔
اور ظاہر ہے کہ خدانخواستہ اگر مسلمان صحابہ کرا مؓ ہی کے اعتماد کو کھو بیٹھے تو پھر نہ قرآن پر اعتمادرہتا ہے، نہ حدیث پر، نہ دین اسلام کے کسی اصول پر، اس کا نتیجہ کھلی بے دینی کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟یہ سبب ہوا جس نے ان حالات میں اس موضوع پر قلم اٹھانے کے لیے مجبور کردیا۔ واللہ المستعان وعلیہ التکلان۔
ماخوذ از: مقام صحابہ ، مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ
رجم ’’سنگسار ‘‘کرنے کو کہتے ہیں، اسلامی سزائوں میں یہ سب سے سخت سزا ہے جو بدکاری جیسے گھنائونے جرم پر دی جاتی ہے، اس سزا کو ثابت کرنے کے لیے چار گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے ،اگر چار مرد گواہی نہ دے سکیں ،یا ان کی گواہی میں تضاد یا تعارض ہو توگواہ حد قذف (تہمت لگانے کی سزا سے) بچ نہ سکیں گے۔
شریعت مطہرہ کا اس سے مقصد یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ اشاعت فاحشہ سے پاک ہو، اس لیے بدکاری جیسا گناہ اور اُس کے چرچے کو اسلامی معاشرہ سے نیست و نابود کرنا مقصود ہے،موجودہ دور بدکاری اور اس کے چرچے سے پاک معاشرہ کا تصور نہیں کرسکتا ،کیونکہ دو سو سال سے جو نظام زندگی چل رہا ہے اُس میں شعوری یا غیرشعوری طور پر ڈارون کانظریہ ارتقاء کار فرما ہے، ڈارون کا نظریہ ارتقاء اگرچہ اب عقلی و استدلالی طور پر اہل علم و تحقیق کے نزدیک فرسودہ ہوچکا ہے، لیکن اس میکانکی نظریہ کے اثراتِ بدنے دنیا کے نظریہ ہائے زندگی کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا۔
امت مسلمہ میں رجم کا انکار صرف خوارج نے کیا
حقیقت یہ ہے کہ رجم ایک ایسا اتفاقی مسئلہ ہے جس سے اسلامی شریعت میں خوارج کے علاوہ کسی نے انکار نہیں کیا، امت محمدیہ نے کبھی سرمو اس سے انحراف نہیں کیا، تعامل و توارث نے اس کے حد ہونے اور اسلامی سزا ہونے پر ہمیشہ مہر تصدیق ثبت کی، اسلامی فرقوں میں سے شیعہ و معتزلہ نے بھی اس سے انکار نہیں کیا ،صرف خوارج نے اس سے انکار کیا، ابن رشد القرطبی لکھتے ہیں:
فاما الثیب الاحرار المحصنون فان المسلمین اجمعوا علی ان حدھم الرجم الافرقۃ من اھل الاھواء فانھم رأوا ان حدکل زانٍ الجلد وانما صارالجمھور للرجم لثبوت احادیث الرجم فخصصوا الکتاب بالسنۃ اعنی قولہ تعالٰی الزنیۃ والزانی الآیہ ( بدایۃ المجتہد،ص ۴۳۵ ج ۲)۔
’’آزاد شادی شدہ محض کے متعلق سارے مسلمانوں کا اجماع ہے کہ ان کی سزا رجم ہے سوائے خواہشات کے بندے ایک قلیل جماعت کے کہ ان کی رائے یہ ہے کہ ہر زانی کی سزا کوڑے لگانا ہے۔ جمہور نے رجم کو اس لیے اختیار کیا کیونکہ رجم کی احادیث ثبوت کے درجہ کو پہنچ چکی ہیں، ان حضرات نے کتاب یعنی آیت کریمہ الزانیۃ والزانی کی حدیث سے تخصیص کرلی۔‘‘
رجم کی سزا پر صحابہ کرام کا اجماع
اور شیخ کمال ابن الہمام فتح القدیر میں تحریر فرماتے ہیں:
علیہ اجماع الصحابۃ ومن تقدم من علماء المسلمین وانکار الخوارج الرجم باطل لانھم انکر واحجیۃ اجماع الصحابۃ فجھل مرکب بالدلیل بل ھو اجماع قطعی وان انکروا وقوعہ من رسول اللہ ﷺ لانکارھم حجیۃ خبر الواحد فھو بعد بطلانہ بالدلیل لیس مما نحن فیہ لان ثبوت الرجم عن رسول اللہ ﷺ متواتر المعنی کشجاعۃ علی، وجود حاتم ،والآحاد فی تفاصیل صورۃ و خصوصیاتہ اما اصل الرجم فلا شک فیہ۔( فتح القدیر، ج ۵ ص ۱۳)۔
’’رجم پر صحابہ کرام ؓ اورعلماء کا اجماع ہے، خوراج کا رجم کا انکار باطل ہے ،کیونکہ اگر وہ اجماع صحابہ کی حجیت کا انکار کریں تو اہ ایک دلیل قطعی کے ساتھ جہل مرکب ہے ،کیونکہ صحابہ کا اجماع، اجماع قطعی ہے اور اگر وہ اس بات کا انکار کریں کہ رجم رسول اللہ ﷺ نے کیا کیونکہ وہ خبر واحد کی حجیت کا انکار کرتے ہیں تو ان کی یہ بات دلیل سے باطل ہونے کے بعد خبر واحد سے نہیں ،کیونکہ رجم کا ثبوت رسول اللہ ﷺسے علی ؓ کی شجاعت اور حاتم کی سخاوت کی طرح متواتر ہے ،رجم کی تفاصیل اورجزئیات خبر واحد سے ثابت ہیں البتہ نفس رجم میںکوئی شبہ نہیں‘‘۔
شیخ ابن الہمام نے اس مختصر سی عبارت میں چند اہم نکات اٹھائے ہیں:
(الف) رجم پر صحابہ و تابعین اور امت محمدیہ (علیٰ صاحبہا الف الف تحیہ) کے علماء اورفقہاء کا اجماع و اتفاق۔ (ب) رجم پر تواتر۔ (ج) جو لوگ اس کے منکر ہیں وہ گویا اجماع اور تواتر کے منکرہیں۔ (د) رجم کی تفاصیل اور جزئیات کے بارے میں اخبار آحاد ہیں ،اصل رجم پر تواتر معنوی ہے۔
علامہ آلوسی بغدادی اپنی بے نظیر تفسیر روح المعانی میں رقم فرماتے ہیںـ:
’’صحابہ کرام، تابعین، ائمہ عظام، علماء امت سب کا اجماع ہے کہ شادی شدہ زانی کو رجم کیا جائے گا تاآنکہ وہ مرجائے، خوارج کاانکار باطل ہے ،کیونکہ اگر وہ صحابہ کے اجماع کا انکار کریں تو وہ یقینا جہل مرکب ہے، اور اگر وہ رجم کا انکار اس بناء پر کرتے ہیں کیونکہ وہ خبر واحد کا انکار کرتے ہیں تو یہ بات بھی غلط ہے ،کیونکہ رجم کا ثبوت تواتر معنوی سے ثابت ہے ،اور یہ لوگ بھی تواتر معنوی کو تواتر لفظی کی طرح حجت سمجھتے ہیں جس طرح کہ عام مسلمان سمجھتے ہیں ،لیکن صحابہ کرام ؓ سے ان کے انحراف اور علماء و روایان حدیث کے پاس ان کے کم آنے جانے نے ان کو بہت سی گمراہیوں میں ڈال دیا، اسی لیے خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیزؒ کے سامنے ان لوگوں نے جب یہ کہاکہ رجم کتاب اللہ میں نہیں ہے تو عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا کہ نمازوں کی رکعات اور زکوٰۃ کی مقدار بھی تو قرآن کریم میں نہیں ہے، خوارج نے جواب دیا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے عمل اور مسلمانوں کے توارث سے ثابت ہے۔ خلیفہ راشد نے فرمایا کہ رجم بھی اسی طرح ہے‘‘ ( آلوسی بغدادی، روح المعانی، ج ۱۰، ص ۸۹)۔
رجم کے متعلق خلیفہ راشد عمر بن عبد العزیز ؒ کا خوارج سے مکالمہ
خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز ؒ کا خوارج سے جو مکالمہ ہوا ہے وہ بہت دلچسپ ہے ،اور ہمارے زمانہ کے خوارج- جو رجم کا انکار کرتے ہیں- کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، ابن قدامہ نے المغنی میں اس کو تفصیل سے نقل کیا ہے:
’’خوارج کے نمائندے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورخلیفہ راشد کے خلاف انہوں نے جو چارج شیٹ پیش کی، اس میں رجم کا مسئلہ بھی تھا، وہ یوں گویا ہوئے:
خوارج: قرآن کریم میں صرف جلد(کوڑوں کی سزا) ہے، رجم نہیں ہے ،اسی طرح تم عورتوں کے لیے معذوری کے زمانہ کی نماز کی قضاء کے قائل نہیں ہو، روزے کی قضاء کے قائل ہو، حالانکہ نماز روزہ سے زیادہ مؤکد ہے۔
عمر بن عبدالعزیز: کیا تم صرف قرآن کریم پر عمل کرتے ہو؟
خوارج: ہاں!
عمر بن عبدالعزیزؒ: قرآن کریم میں فرض نمازوںکی تعداد، نماز کے ارکان کی تعداد، نماز کے اوقات کہاں ہیں؟ اسی طرح یہ کہ فلاں نماز میں اتنی رکعتیں ہیں فلاں میں اتنی قرآن میں کہاں ہے؟ زکوٰۃ کس مال میں واجب ہوتی ہے اور کس میں نہیں؟ زکوٰۃ کی مقدار کتنی ہے؟ زکوٰۃ کا نصاب کیا ہے؟ یہ سب قرآن کریم میں کہاں ہے؟
خوارج : ہمیں کچھ مہلت دیجیے۔
خلیفہ راشدنے مہلت دے دی ایک روز کے مشورے کے بعد حاضر ہوئے۔
خوارج: قرآن کریم میں تو یہ سب کچھ نہیں ہے۔
عمر بن عبدالعزیز: پھر تم ان کے کیسے قائل ہوئے؟
خوارج: رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں نے ان پر عمل کیا۔
عمر بن عبدالعزیز: رجم پر بھی رسول اللہ ﷺ نے عمل کیا اور آپ ﷺ کے بعد خلفاء نے اس پر عمل کیا۔ معذوری کے زمانہ کے روزوں کے بارے میں بھی آپ ﷺ نے قضاء کا حکم دیا، ازواج مطہرات نے اور آپ کے صحابہ کرامؓ کی بیویوں نے روزے قضا کیے( ابن قدامہ المغنی، ج ۸ ص ۱۵۸ کتاب المحدود)۔
رجم کےمتعلق اہم نکات اور خوارج کی تکفیر
اصل یہ ہے کہ رجم کے سلسلہ میں حسب ذیل نکات نہایت اہم ہیں:
(الف) تواتر و توارث (ب) اجماع صحابہ (ج) امت محمدیہ کا اتفاق اور ہر دور میں شادی شدہ زانی پر رجم کا اطلاق۔ یہ امور نہایت ہی قوی بلکہ قوی تر ہیں، یہی وجہ ہے کہ خوارج کی رجم کے انکار کی وجہ سے تکفیر کی گئی۔
امام العصر مولانا محمد انور شاہ کشمیری اپنی بے نظیر کتاب ’’اکفار الملحدین‘‘ میں علامہ خفاجی کی ’’شرح الشفاء‘‘ سے نقل کرتے ہیں:
کتکفیر الخوارج بابطال الرجم للزانی والزانیۃ المحصنین فانہ مجمع علیہ، صار معلومًا من الدین بالضرورۃ( محمد انور شاہ، اکفار الملحدین، ص ۵۸)۔
’’رجم چونکہ متفق علیہ ہے، لہٰذا ضروریات دین میں داخل ہے، اسی لیے شادی شدہ مرد و عورت زانی کی سزا رجم کے انکار کی وجہ سے خوارج کی تکفیر کی جاتی ہے‘‘۔
سنت متواترہ : انکار یا تاویل کی سزا
وفاقی شرعی عدالت کے جج صاحبان صرف منکرین حدیث، قادیانیوں اورخوارج کی طرف سے جج نہیں بنائے گئے ہیں، بلکہ اسلامیان پاکستان کے جج ہیں، اور پاکستانی دستور کا ان حضرات نے حلف اٹھایا ہے جس میں کتاب و سنت کے مطابق فیصلے کرنے کی ضمانت دی گئی ہے اور اسلامیان پاکستان قرآن و سنت دونوںکو اپنے قانون کا ماخذ سمجھتے ہیں۔ کیا ان حضرات کو معلوم نہیں کہ سنت متواترہ کسے کہتے ہیں اور سنت متواترہ کے انکار اور اُس میں تاویل کی کیا سزا ہے؟ اگر ان کو نہیں معلوم تو ہم بتلائے دیتے ہیں:
امام غزالی ؒ کی ’’فیصل التفرقہ‘‘ سے مولانا انور شاہ کشمیری ؒ نقل کرتے ہیں:
ولا بد من التنبیہ علی قاعدۃ اخریٰ، وھو ان المخالف قد یخالف نصًا متواترًا ویزعم انہ مؤول ولکن ذکر تاویلًا لاانقداح لہ اصلًا فی اللسان لاعلی بعد ولاقرب فلذلک کفر وصاحبہ مکذب وان کان یزعم انہ مؤول(محمد انور شاہ، اکفار الملحدین ص ۵۸)۔
’’ایک قاعدہ پر تنبیہ ضروری ہے وہ یہ کہ مخالف کبھی نص متواتر کا انکار کرتا ہے اور اس میں ایسی تاویل کرتا ہے جو قریب یا دور سے اس پر اثرانداز نہیں ہوسکتی تو ایسے منکر کی تکفیر کی جائے گی اور اس کو نص متواتر کا تکذیب کرنے والا سمجھا جائے، اگرچہ وہ خودکو تاویل کرنے والا سمجھے۔‘‘
اب ہم مذکورہ نکات میں سے ایک ایک نکتہ کو حسب ترتیب سابق لیتے ہیں، تاکہ مسئلہ واضح ہوجائے:
(الف) تواتر معنوی و توارث
جیسا کہ آپ علامہ ابن الہمام اور علامہ آلوسی بغدادی کے کلام میں پڑھ چکے ہیں کہ رجم کے بارے میں تواتر معنوی ہے، یعنی نفس رجم پر اس قدر کثیر روایات ہیں اور اتنے راویان حدیث اس کو بیان کرنے والے ہیں کہ اُن کا جھوٹ پر متفق ہونا محال ہے، تاہم رجم کی شرائط و کیفیات خبرواحد سے ثابت ہیں اسی کو’’ تواتر معنوی ‘‘کہا جاتا ہے ،تواتر معنوی کا امت کے کسی گروہ یا فرد نے بھی انکار نہیں کیا ہے ،بلکہ سب اس کو حجت اور دلیل تسلیم کرتے ہیں۔ ابھی آپ خوارج اور خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیزؒ کامکالمہ پڑھ چکے ہیں اس کے بین السطور سے واضح ہے کہ تواتر معنوی کا ان سے بھی انکار نہ ہوسکا اور بادل ناخواستہ اس کے سامنے سرنگوں ہوگئے اور اپنی زبانوں پر مہر سکوت ثبت کرلی۔
اصل یہ ہے کہ حکمت الٰہی سے احکام اسلام میں تدریج و ترتیب نمایاں رہی، یعنی سب کے سب احکام یکدم نہیں اتر گئے، بلکہ واقعات کے مطابق احکام خداوندی نازل ہوتے رہے، یہ تو ہرعقل مند سمجھتا ہے کہ بدکاری سے زیادہ کوئی گناہ نہیں ہے، نسب کا اختلاط، معاشرہ کی نجاست، بداخلاقی کی انتہاء، خاندانوں کی بے عزتی، حیوانیت ،پھر جبکہ شادی شدہ اس فعل کا ارتکاب کریں، غرض بدترین حرکت ہے ،اس لیے ناممکن تھا کہ اسلام جیسا مکمل و کامل دین اس کی سزا سے خالی ہو، اس لیے اس کی سزا مع دوسرے شرائط و قیود بیان کی گئی، لیکن اسی ترتیب و تدریج کے ساتھ جیسا کہ اسلامی احکام کا خاصہ ہے۔
ہجرت نبوی کے بعد یہودیوں کے رجم کا پہلا واقعہ اورقرآن کریم
ہجرت نبوی کے بعد سب سے پہلا واقعہ اس طرح پیش آیا کہ یہودیوں کی بستی میں ایک مردو عورت نے شادی شدہ ہونے کے باوجود اس فعل بد کا ارتکاب کرلیا، یہود تو رسول اکرم ﷺ کا امتحان لینے کی فکر میں رہتے تھے، حضو ر کی خدمت میں آپہنچے اور جھٹ سے سوال کردیا، رسول اکرم ﷺ کو وحی کے ذریعہ بتلایا گیا کہ تورات میں اس سلسلہ میں رجم مذکور ہے، لیکن یہود نے اس سزا کو تبدیل کردیا ہے، قرآن کریم میں بھی یہ واقعہ مذکورہے اور حدیث کی صحیح و معتبر کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
وکیف یحکمونک وعندھم التوراۃ فیھا حکم اللہ ثم یتولون من بعد ذلک وما اولئک بالمومنین
’’اور یہ لوگ آپ کو کس طرح منصف بنائیں گے جبکہ ان کے پاس توریت ہے جس میں اللہ کاحکم (رجم) موجود ہے پھر اس کے بعد منہ موڑتے ہیں اور وہ ہرگز ماننے والے نہیں۔‘‘
اس آیت کے ذیل میں بغوی نے جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ خیبر کے ایک یہود مرد اور عورت نے جو کنوارے نہ تھے زنا کیا۔ باوجودیکہ توریت میں اس جرم کی سزا رجم تھی، مگر ان دونوں کی بڑائی مانع تھی کہ یہ سزا جاری کی جائے۔ آپس میں یہ مشورہ ہوا کہ یہ شخص جو یثرب میں ہے ان کی کتاب میں زانی کے لیے رجم کا حکم نہیں ہے (کیونکہ اس وقت تک شریعت محمدیہ میں زنا کا حکم اترا ہی نہیں تھا جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا) اس لیے ان کو حکم مقررکرلینا چاہیے، آپ کو وحی کے ذریعہ سب کچھ بتلادیا گیا، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میرے فیصلہ پر رضامند ہوگے؟ انہوں نے اقرار کیا، آپ ﷺ نے رجم کا حکم بتلایا۔ وہ لوگ اس سے پھر گئے۔ آخرحضور نے فرمایا کہ فدک کا رہنے والا ابن صوریا تم میں کیسا شخص ہے ؟سب نے کہا کہ آج روئے زمین پر شرائع موسویہ کا اس سے زیادہ جانے والا کوئی نہیں۔ آپ ﷺ نے اس کو بلوایا اور نہایت شدید حلف دے کر پوچھا کہ توریت میں اس گناہ کی سزا کیا ہے؟ باوجودیکہ دوسرے یہود اس حکم کو چھپانے کی کوشش کررہے تھے جس کا پردہ حضرت عبداللہ بن سلام کے ذریعہ سے فاش ہوچکا تھا، تاہم اب صوریا نے جو ان کا مسلم و معتمد تھا کسی نہ کسی وجہ سے اس کا اقرار کرلیا کہ بے شک توریت میں اس جرم کی سزا رجم ہی ہے۔ بعدہٗ اس نے سب حقیقت ظاہر کی کہ کس طرح یہود نے رجم کو حذف کرکے یہ سزا رکھ دی کہ زانی کو کوڑے لگائے جائیں اور کالا منہ کرکے اور گدھے پر الٹا سوار کرکے گشت کرایا جائے۔ حضور اکرم ﷺ نے ان دونوں پر توریت کے حکم کے مطابق رجم کی سزا جاری فرمائی۔
رجم کا پہلا واقعہ کب پیش آیا؟
یہ واقعہ کب کا ہے ؟اس کے متعلق مولانا انور شاہ کشمیریؒ، قسطلانی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ واقعہ ۴ ہجری کا ہے (انور شاہ: العرف الشذی باب رجم المحصن) اس کے بعد سورۂ نساء کی مندرجہ ذیل آیات نازل ہوئیں:
واللاتی یاتین الفاحشۃ من نسائکم فاستشھدوا علیھن اربعۃ منکم فان شھدوا فامسکوھن فی البیوت حتی یتو فاھن الموت اویجعل اللہ لھن سبیلًا واللذان یأتیانھا منکم فاذوھما فان تابا واصلحا فاعرضوا عنھما ان اللہ کان توابا رحیما
’’اور جو کوئی بدکاری کرے تمہاری عورتوں سے تو گواہ لائو ان پر چار مردانیوں سے پھر اگر وہ گواہی دیں تو بند رکھیو اُن عورتوں کو گھروں میں یہاں تک کہ اٹھا لے ان کو موت یا مقرر کردے اللہ ان کے لیے کوئی سبیل۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلی آیت جو ہم نے نقل کی اُس میں ’’حکم اللہ‘‘ سے مراد اور اس آیت کریمہ میں ’’سبیل‘‘ سے مراد رجم ہی ہے، جو لوگ قرآن کریم میں ’’رجم‘‘ کا انکار کرتے ہیں وہ ایک بہت بڑی حقیقت کا انکار کرتے ہیں، رسول اکرم ﷺ قرآنی مجملات کے بیان کرنے والے ہیں، آپ کا منصب ہی یہ بیان کیا گیا ہے کہ ’’لتبین للناس مانزل الیھم ‘‘یعنی قرآنی مجملات کی تبیین و تعیین، اورایک عام عقل والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ بیان، مبین سے علیحدہ ہوتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے ’’سبیل‘‘ کی تشریح فرمائی کہ اس سے مراد شادی شدہ زانی کے لیے رجم اور غیرشادی شدہ کے لیے جلد (کوڑا)ہے جیسا کہ صحیح ترین احادیث میں وارد ہے، اسی کے ساتھ ہی ساتھ شادی شدہ زانی کے لیے رجم اور غیرشادی شدہ زانی کے لیے جَلد کی سزا قرآن کریم میں نازل ہوئی، جَلد کی سزا سورۂ نور میں نازل ہوئی، سورۂ نور کا زمانہ نزول ۵ ہجری کے بعد کا ہے، اس کے لیے قرینۂ واضح موجود ہے کہ واقعہ افک محدثین و مؤرخین کے قول صحیح کے مطابق ’’غزوۂ مریسیع‘‘ میں پیش آیا تھا اور یہ غزوہ ۵ ہجری میں یا اس کے بعد کا ہے۔
علامہ نووی ؒ نے اپنی بے نظیر کتاب الاسماء واللغات (ج۳) میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی والدہ ماجدہ ام رومان کے ترجمہ میں لکھا ہے کہ ام رومان کی وفات غزوۂ مریسیع کے بعد ہوئی، وہ واقعہ افک میں موجود تھیں اس کے متعلق حدیث و سیرت کی ناقابل تردید شہادتیں موجود ہیں۔ امام موصوف نے غزوہ مریسیع کو ۵ ہجری یا اس کے بعد تحریر فرمایا ہے۔
رجم کی سزا قرآن کریم میں صراحۃًکیوں نہیں ؟
غرض جَلد اور رجم کی سزائیں وحی متلو سے نازل ہوئیں، جلد کی سزاقرآن کریم میں تلاوت و عمل دونوں اعتبار سے باقی رکھی گئی اور رجم کی سزا تلاوت کے اعتبار سے اٹھالی گئی، تاہم تواتر معنوی اور عمل کے اعتبار سے باقی رکھی گئی، رجم کی سزاتلاوت کے اعتبار سے کیوں اٹھالی گئی اور اس کی حکمت کیا تھی۔ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی ؒ جو اس فن کے شناور اور اس بحر بے کنار کے غواض ہیں، ان سے پوچھیے، موصوف فرماتے ہیں:
’’اس قدر سننا چاہیے کہ بعض وقت ہول و خوف مضمون اس وحی کا مقتضی ہوتا ہے کہ بار بارکان اس کو نہ سنے جیسے کہ الشیخ والشخۃ اذا زنیا فارجموھا یعنی شادی شدہ مرد اور عورت جس وقت زنا کریں، پس سنگسار کرو تم ان کو کہ اس میں بیان سخت تر عذاب کا ہے‘‘( تفسیر عزیزی اردو ترجمہ، ص ۶۸۳)۔
حضرت شاہ صاحبؒ نے ایک بڑی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے، حضرتؒ کے فرمان کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ایک مرد عورت جن کواللہ تعالیٰ نے عقل و خرد، ہوش و حواس کی نعمتوںسے سرفراز کیا ہو، پھر اس کے ساتھ اسلام وایمان کی نعمت بے بدل عطا کی ہو بایں ہمہ وہ دونوں لذت ازدواج چشیدہ اور اس سے آشنا ہوں پھر وہ حرکت قبیحہ کا ارتکاب کریں، یہ امر عقلاً مستبعد اور بعید از قیاس ہے، کیونکہ ان پر ظاہری اور باطنی نعمتیں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں، اس لیے ان نعمتوں کے مقابلہ میں اس کو سزا بھی اسی قدر شدید دی گئی جس کا تصور بھی روح فرسا اور کربناک ہے، یعنی اس کو پتھر مار مارکر ختم کردیا جائے۔ ایساشخص جو ان نعمتوں سے سرفراز ہو اور یہ اس کمینی حرکت کا ارتکاب کرے اور اس پر اس قدر سخت سزا، اس کا تذکرہ اُس کتاب عظیم میں جس کا پہلا مقصد تلاوت اور بار بار کی تلاوت ہے، مناسب نہیں، اسی لیے حکمت الٰہی مقتضی ہوئی کہ اس کو تلاوت سے تو حذب کردیا جائے، البتہ اس جرم کبیر پر سزا کو برقرار رکھا جائے، چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے آیت جَلد اترنے کے بعد چار موقعوں پر رجم کا حکم صادر کرنے کے بعد اس حکم کی تاکید اور توثیق فرمادی، ان چار واقعات کی تفصیل کتب حدیث میں اسانید صحاح کے ساتھ موجود ہے۔
رجم کے واقعات آیت زنا کے نزول کے بعدپیش آئے
منکرین رجم کا یہ بیان کہ رجم کے واقعات آیت جَلد کے نازل ہونے سے قبل کے ہیں مبنی برحقیقت نہیں ہے، بلکہ کذب اور افتراء کا مجموعہ ہے، یہ لوگ تاریخ سے کوئی شہادت پیش نہیں کرسکے، بلکہ تاریخ اور حدیث کی شہادت ان کے خلاف ہے۔ علامہ حازمی ؒ -جو ناسخ و منسوخ کے اور حدیث و تاریخ کے امام ہیں -رقم فرماتے ہیں:
وقد روی حدیث ماعز نفر من احداث الصحابہ نحو سھل بن سعد وابن عباس وغیرھما ورواہ ایضًا نفر تأخر اسلامھم ( الاعتبار للحازمی، ص ۲۰۳)۔
’’ماعز اسلمی کی حدیث کو سہل بن سعد، عبداللہ بن عباس اور دوسرے نوعمر صحابہؓ نے بیان کیا۔ اسی طرح ایسے حضرات نے جن کا اسلام مؤخر ہے‘‘۔
ماعز اسلمی کے واقعہ رجم کو بیان کرنے والے صحابہ کرام سہل بن سعد، عبداللہ بن عباس، ابوہریرہ ؓ ہیں، جبکہ اول الذکر دونوں صحابہ نوعمر صحابہ ہیں اور ثانی الذکر متاخر الاسلام صحابی ہیں،یعنی ان کا اسلام ۷ ہجری میں ثابت ہے، اس لیے یہ واقعہ تقریباً ۷ ہجری یا اس کے بعد کا ہے۔ اسی طرح امرأۃ جہینہ یا غامدیہ کا واقعہ بھی ۸ہجری سے پہلے یا ۷ ہجری کے آخر کا معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اس واقعہ کی تفصیلات میں یہ جز بھی ملتا ہے کہ حضرت خالد بن الولید ؓ نے اس خاتون کے جب ایک پتھر مارا تو ان کی پیشانی سے خون کا فوارہ بہہ نکلا۔ اس پر حضرت خالد نے ان کو برا بھلا کہا۔ حضور اکرم ﷺ نے حضرت خالد کو سختی سے منع کیا اور اس خاتون کی جرأت ایمانی اور اس قدر سخت سزا کے لیے خود کو پیش کرنے کی تعریف و توصیف فرمائی اور اس کی نجات کی بشارت دی۔ ابودائود میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے۔ حضرت خالدبن الولید ۶ ہجری کے بعد اسلام لائے ہیں، چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر حضرت خالد کفار کے کیمپ میں موجود تھے اور مسلمانوں کو مکہ سے روکنے کے لیے سواروں کا ایک دستہ لے کر آئے تھے(بخاری، کتاب الشروط)۔
منکرین رجم کا عبد اللہ بن اوفی کی روایت سے استدلال اوراس کا جواب
منکرین رجم اس موقعہ پر حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ کی ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں، حدیث یہ ہے:
عن الشیبانی قال سالت عبداللہ بن ابی اوفٰی عن الرجم قال رجم النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقلت اقبل النور ام بعدہ قال لاادری( بخاری، ص ۱۰۱۱ ج ۲ کتاب المحاربین والمرتدین)۔
’’شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفٰی سے رجم کے بارے میں پوچھا ،انہوں نے کہا کہ رسول اکرم ﷺ نے رجم کیا ،میں نے پوچھا سورہ نور سے پہلے یا بعد میں؟ موصوف نے فرمایا مجھے نہیں معلوم۔‘‘
اس روایت سے یہ حضرات استدلال کرتے ہیں کہ رجم کے واقعات آیت جَلد کے نازل ہونے سے پہلے کے ہیں۔
۱- پہلی بات تو حدیث مذکور میں یہ ہے کہ اس روایت میں صحابی نے جزم و یقین کے ساتھ کچھ نہیں فرمایا اور قرائن واضحہ گزشتہ سطور میں بیان کیے جاچکے ہیں، جس سے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ رجم کے واقعات سورۂ کے نازل ہونے کے بعد کے ہیں، لاعلمی کے مقابلہ میں علم زیادہ راجح ہے۔
۲- دوسری بات یہ ہے کہ یہاں رجم کے مذکورہ بالا چار واقعات کے بارے میں نہیں پوچھا جارہا ہے، بلکہ یہودی اور یہودیہ کے رجم کے بارے میں سوال کیا جارہاہے کہ یہ واقعہ سورہ نور کے نازل ہونے سے پہلے پیش آیا یا اس کے بعد تو اس کے جواب میں صحابی نے اپنے لاعلمی ظاہر کی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اس روایت کو امام بخاریؒ اہل کتاب کے رجم میں لائے ہیں، چنانچہ امام موصوف نے اپنی صحیح میں باب قائم کیا ہے’’ باب اھل المذمۃ واحصانھم اذا زنوا ورفعوا الی الامام‘‘، دوسرا قرینہ یہ ہے کہ اس حدیث کے بعض طرق میں ’’قبل النور‘‘ کے بجائے قبل المائدۃ کے الفاظ آئے ہیں۔ مسند احمد بن منیع میں یہ لفظ ہیں :
فقلت بعد سورۃ المائدۃ او قبلھا( عمدۃ القاری بحوالہ حاشیہ بخاری، ص ۱۰۱۱ ج ۲)۔
مطلب یہ تھا کہ سورہ مائدہ میں یہ آیت موجود ہے:
وکیف یحکمونک وعندھم التوراۃ وفیھا حکم اللہ
آیت کریمہ کی موجودگی میں کس طرح رسول اکرم ﷺ نے بحیثیت حَکم اُن کو رجم کرنے کا حکم دیا، گویا سائل نے آپ ﷺ کی تحکیم کو مستبعد جانا تو صحابی نے اپنی لاعلمی ظاہر کی۔
۳-تیسرا امریہ کہ حضرت عبداللہ، یہود کے اس واقعہ پر موجود نہیں تھے اور نہ اسلام لائے تھے ،وہ صلح حدیبیہ کے موقع پر اسلام لائے، رسول اکرم ﷺ کے اسفار و مغازی میں سب سے پہلے حدیبیہ میں شریک ہوئے۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں:
وشھد عبداللہ الحدیبیۃ وروی احادیث شھیرۃ ثم نزل الکوفۃ سنۃ ست او سبع وثمانین وجزم ابونعیم فیما رواہ البخاری عنہ سنۃ سبع وکان اٰخر من مات بھا من الصحابۃ( الاصابۃ، ص ۲۷۱ ج ۳)۔
’’حضرت عبداللہ صلح حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے۔ انہوں نے مشہور احادیث روایت کیں، پھر ۸۶ ھ یا ۸۷ھ میں کوفہ میں قیام پذیر ہوئے۔ابونعیم نے ۸۷ھ پر جزم کیا ہے۔ صحابہ ؓ میں کوفہ میں سب سے آخر میں وفات پائی۔‘‘
عبداللہ بن ابی اوفٰی کے لاعلمی ظاہر کرنے کی وجہ واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ وہ یہود کے اس واقعہ کے وقت اسلام ہی نہیں لائے تھے۔
رجم کے متعلق حضرت عمرفاروق ؓکی صریح روایت
علاوہ ازیں منکرین رجم ایک محتمل روایت سے تو استدلال کرتے ہیں، فاروق اعظم ؓ کی یہ روایت صریح ان کی نگاہوں سے کیوں اوجھل ہوجاتی ہے۔ صحیح بخاری میں ہے:
ان اللہ بعث محمدًا ﷺ بالحق وانزل علیہ الکتاب فکان مما انزل اللہ ایۃ الرجم فقرأناھا وعقلناھا ووعیناھارجم رسول اللہ ﷺ ورجمنا بعدہ فاخشی ان طال بالناس زمان ان یقول قائل واللہ مانجد ایۃ الرجم فی کتاب اللہ فیضلوا بترک فریضۃ انزلھا اللہ تعالٰی والرجم فی کتاب اللہ حق علی من زنٰی اذا احصن من الرجال والنساء اذا قامت البینۃ اوکان الحبل اوالاعتراف( صحیح بخاری، ص ۱۰۰۹ ج ۲)۔
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق دے کر مبعوث فرمایا ور آپ پر کتاب نازل کی، رجم کی آیت بھی اتاری، ہم نے اس کو پڑھا اور سمجھا اور یاد رکھا۔ رسول اللہ ﷺ نے رجم کیا اور ہم نے آپ کے بعد رجم کیا۔ مجھے ڈر ہے کہ کچھ عرصہ گذر جانے کے بعد کوئی کہنے والا کہے کہ ہم آیت رجم اللہ کی کتاب میں نہیں پاتے، تو یہ لوگ اللہ کے ایک فریضہ نازل شدہ کے چھوڑنے سے گمراہ ہوجائیں گے۔ رجم اللہ کی کتاب میں حق ہے زانی پر جبکہ وہ محصن ہو، خواہ وہ مرد ہو یا عورت جبکہ ثبوت موجود ہو یا حمل ہو یا اقرار ہو‘‘۔
حضرت فاروق اعظم ؓ کی ایک تقریر کا ایک ٹکڑا ہے جو موصوف نے اپنی خلافت کے آخری حج سے واپسی پر دیا، جس میں تمام صحابہ کرام ؓ موجود تھے۔ دوسری ناقابل تردید سیرت و حدیث کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خطبہ میں عہد فاروقی کے فوجی کمانڈر اور اہم شخصیتیں موجود تھیں اور اس خطبہ کے چند ہی دن کے بعد فاروق اعظم اپنے رب سے جاملے۔
رجم کا تسلسل صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین کے زمانہ میں
منکرین رجم اس موقع پر بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ دیکھو یہ مولوی لوگ فاروق اعظم پر کتنا بڑا الزام لگاتے ہیں کہ آیت رجم قرآن میں موجودہے، حالانکہ حضرت فاروق اعظم کا مقصد یہ تھا کہ آیت رجم قرآن میں نازل ہوئی تھی ،لیکن اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی اور اس کا حکم باقی رہ گیا۔ حضرت کا یہ منشاء ہرگز نہیں ہے کہ وہ آج بھی موجود ہے، حضرت عمر ؓ کے خطبہ بلیغہ میں :
’’رجم رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم ورجمنا بعدہ‘‘
تسلسل رجم کو بیان کررہا ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے رجم کیا اور ابوبکر و عمر ؓ کے زمانہ میں بھی رجم جاری رہا، رجم کی سزا میں کبھی بھی انقطاع نہیں ہوا۔ حضرت عثمان غنی ؓ کے زمانہ میں بھی رجم جاری رہا۔ حضرت علی ؓ کے زمانہ میں بھی رجم کے واقعات ملتے ہیں۔ ہمدانی خاتون شراحہ کا واقعی سیرت و حدیث کی تمام کتابوں میں موجود ہے۔ راقم کے سامنے اس وقت حدیث کی معتبر کتاب مصنف عبدالرزاق موجود ہے۔ اس کے ص ۳۲۶ ج ۷ پر یہ واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ پھر حضرت علیؓ کے یہاں دوسرے واقعات بھی ملتے ہیں۔ مثلاً ایک واقعہ:
ان امرأۃ جاء ت الٰی علی، فقالت ان زوجھا وقع علٰی جاریتھا، فقال ان تکونی صادقہ نرجمہ( مصنف عبدالرزاق ج ۷ ج ۳۳۰)۔
ایک عورت حضرت علی ؓ کی خدمت میں آئی اور شکایت کی کہ اس کے شوہر نے اس کی لونڈی کے ساتھ بدکاری کی۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اگر تو سچی ہے تو ہم اُسے رجم کریں گے۔
حضرت علی ؓ کے عہد خلافت کے دوسرے واقعات کہ شادی شدہ کے لیے رجم اور غیرشادی شدہ کے لیے جَلد متعدد روایات سے ثابت ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے مصنف عبدالرزاق از ص ۳۰۴ تا ۳۰۶
پھر تابعین، تبع تابعین کے زمانہ میں بھی یہی تسلسل جاری رہا۔ ابن شہاب زہری مشہور تابعی ہیں، اُن کا فتویٰ محدث عبدالرزاق نے نقل کیا ہے:
فحد المحصن الرجم اذا کان حرًا ( مصنف عبد الرزاق،ص ۳۰۶ ج ۷)۔
’’شادی شدہ کی حد رجم ہے اگر وہ آزاد ہو۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ رجم پر امت کا اجماع و اتفاق ہے اور خوارج کے علاوہ کسی متنفس نے کسی دور میں اس سے اختلاف نہیں کیا۔
حافظ ابومحمد بن حزم نے ’’مراتب اجماع‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں ان اجمالیات کا ذکر کیا ہے جن کے انکار سے کفر لازم آتا ہے۔ رجم کو امام موصوف نے ان ہی اجماعیات میں داخل کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
اتفقوا انہ اذا زنٰی کما ذکرنا وکان قد تزوج قبل ذلک وھو بالغی حر عاقل حرۃ مسلمۃ بالغۃ نکاحا صحیحا و وطئھا۔۔۔۔۔۔۔ ان علیہ الرجم (مراتب الاجماع)۔
’’تمام امت کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص بدکاری کا ارتکاب کرے اسی طریقہ سے جس کو ہم نے بیان کیا ہے اور اس سے قبل وہ نکاح کرچکا ہو اور وہ بالغ مسلمان آزاد ہو کسی آزاد مسلم بالغہ عورت سے نکاح صحیح اور اس سے ہمبستری بھی کرلی تو اس پر رجم ہے۔
ماخوذ از: رجم کی شرعی حیثیت، از مکتبہ بینات ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی
۲-لعنت کرنا ، دھتکارنا (دیکھیے:۱۵:۲۴،و۸۱:۲۵، و۳:۳۶)۔
۳-اٹکل پچوں تخمینہ لگانا (دیکھیے :۱۸:۲۳)۔
۴-تہمت لگانا(دیکھیے:۱۹:۴۶)۔
رجم :اصطلاحی تعریف
فقہی اصطلاح میں ’’رجم‘‘ اس حد(شرعی سزا) کو کہا جاتا ہے جو مُحصَن (تشریح آگے آئے گی) زانی کے لیے مقرر کی گئی ہے ،اور جس میں مجرم کو پتھر مار مار کر ہلاک کردیا جاتا ہے ، ذیل میں اسی سزا کے مختلف پہلوؤں سے بحث کی جائے گی ۔
رجم : شریعت موسوی میں
شرعی سزا کے طور پر ’’رجم‘‘ کا تذکرہ سب سے پہلے حضرت موسی علیہ السلام کی شریعت میں ملتا ہے ، موجودہ بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ موسوی شریعت میں ’’رجم‘‘ یعنی سنگسار کرکے ہلاک کردینا متعدد جرائم کی سزا تھی ۔
۱-زنا کی (احبار ۲۰:۱۰،واستثنا۲۲:۲۱تا ۲۷)۔ ۲-شرک اور بت پرستی کی دعوت دینے کی (استثنا۱۳:۱۰،و ۱۷:۶)۔ ۳-بتوں کے نام پر نذر کرنے کی (احبار ۲۰:۲)۔ ۴-ماں باپ کی نافرمانی کرنے کی (استثنا ۲۱:۲۱)۔ ۵-خدا کے نام پر لعنت کرنے کی (احبار ۲۴:۱۶، ۱-سلاطین ، باب ۲۱)۔ ۶-حضرت یوشع علیہ السلام جو حضرت موسی علیہ السلام کے نائب تھے کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو مال غنیمت میں خیانت کرنے کی بنا پر بھی سنگسار کیا تھا (یشوع ۷:۱۶تا ۲۶)۔
رجم: شریعت اسلامیہ میں
حضرت رسول اکرم ﷺ کی شریعت میں ’’رجم‘‘ کی سزا صرف اس زنا کاری کے لیے مخصوص کردی گئی جو شادی شدہ ہو ،اور جس میں’’ محصَن ‘‘کی وہ شرائط پائی جاتی ہوں جن کا بیان آگے آرہا ہے ،اور اس سزا کا اصل ثبوت ان احادیث سے ہوا ہے جو معنی متواتر ہیں (الآلوسی ، روح المعانی ، ۱۸:۷۹، ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ ،مصر)۔
قرآن کریم اوراحادیث نبویہ میں رجم کا ذکر
قرآن مجید میں صراحۃ اس سزا کا ذکر نہیں ہے ، البتہ سورہ مائدہ کی آیات :
میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ،کیونکہ ان آیات کے مستند شان نزول کے مطابق ان آیات میں ’’حکم اللہ ‘‘ اور ما انزل اللہ‘‘ سے مراد زانی کو رجم کی سزا دینے کا حکم ہے ۔
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یہ آیات ایک ایسے یہودی کے بارے میں نازل ہوئی تھیں جس نے زنا کرلیا تھا اوریہودی اس کا فیصلہ اس خیال سے آنحضرت ﷺ کے پاس لائے تھے کہ اگر آپ نے رجم کے علاوہ کوئی اور فیصلہ کرلیا تو اسے مان لیں گے ،اوراگر رجم کا فیصلہ کیا تو اس سے انکار کردیں گے ،آیات مذکورہ میں :
سے یہی مراد ہے ،پھر آپ نے رجم کا فیصلہ فرمایا ،اوران پر یہ بھی ثابت کردیا کہ خود تورات میں بھی رجم ہی کا حکم مذکور ہے ، اس موقع پر علمائے یہود نے یہ اعتراف بھی کیا کہ تورات میں زنا کی اصل سزا رجم ہی تھی ، پھر جب یہودی شرفاء میں زنا کا رواج عام ہوا تو ہم نے شرفاء کو اس سزا سے مستثنی کرناشروع کردیا ، بعد میں اس تفریق کو ختم کرنے کے لیے ہم نے رجم کی سزا کو بالکل ہی موقوف کردیا ،اوراس کی جگہ منہ کالا کرنے اور کوڑے مارنے کی سزا مقرر کردی (دیکھیے :صحیح مسلم ، کتاب الحدود ، ۲:۷۰، مطبوعہ کراچی، وتفسیر ابن کثیر ، ۲:۵۷تا ۶۰، مطبعہ مصطفی محمد ، مصر ۱۳۵۶ھ)۔
لہذا صاف بات یہ ہے کہ رجم کا ثبوت ان احادیث سے ہوا ہے جو معنی متواتر ہیں اور قرآن مجید میں اس حکم کا مذکور نہ ہونا اس کے عدم ثبوت کی دلیل نہیں ، جس طرح نمازوں کے اوقات اوران کی رکعات کی تعداد قرآن مجیدمیں موجود نہیں ، لیکن متواتر احادیث اور مسلسل تعامل کی وجہ سے ان کا ثبوت ناقابل انکار ہے ،اسی طرح رجم کا ثبوت بھی متواتر احادیث اور اجماعی تعامل کی بنا پر ہوا ہے اوراس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
رجم کے متعلق حضرت عمرؓ وحضرت علیؓ کا فرمان
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں :
’’مجھے ڈر ہے کہ لوگوں پر زمانہ دراز گزر جاے تو کوئی کہنے والا یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کا حکم اللہ کی کتاب میں نہیں پاتے ، پھر کہیں لوگ ایسے فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ نہ ہوجائیں جو اللہ نے نازل کیا تھا ، خوب سن لو کہ رجم کا حکم اس شخص کے لیے حق ہے جو محصن ہونے کی حالت میں زنا کرے جبکہ اس پر گواہیاں قائم ہوجائیں ، یا حمل ثابت ہوجائے یا ملزم خود اعتراف کرلے (صحیح بخاری ، ۲:۱۰۰۷، اصح المطابع دہلی ۱۳۵۷ھ)۔
حضرت علی ؓ سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے ایک عورت کو رجم کرنے کے بعد فرمایا : ’’میں نے اسے رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق رجم کیا ‘‘(صحیح بخاری ، ۲:۱۰۰۶، باب رجم المحصن)۔
وہ صحابہ کرام جن سے رجم کی احادیث وروایات مروی ہیں
جن صحابہ کرامؓ نے آنحضرت ﷺ سے زانی محصن کو رجم کرنے کا حکم یا عمل روایت کیا ہے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: ۱-حضرت عمر ؓبن الخطاب،۲-حضرت علیؓ بن ابی طالب،۳-عبداللہؓ بن اوفی، ۴-جابرؓبن عبد اللہ، ۵-ابوہریرہؓ ،۶-عائشہ صدیقہؓ،۷-عبداللہ بن عمرؓ،۸-عبد اللہ بن عباسؓ، ۹-زید بن خالدؓ(ان سب کی روایات صحیح بخاری ۲:۱۰۰۶ تا۱۰۱۱میں موجود ہیں)۔
۱۰-عبادہؓ بن صامت، ۱۱-سلمہ ؓبن المحبق،۱۲-ابوبرزہؓ،۱۳-ہزالؓ، ۱۴-جابرؓ بن سمرہ،۱۵-لجلاجؓ،۱۶-ابوبکر صدیقؓ، ۱۷-بریدہؓ،۱۸-ابوذر غفاریؓ،۱۹-نصرؓبن دہر اسلمی،۲۰-عمرانؓ بن حصین، ۲۱-ابوبکرۃؓ،۲۲-ابوسعید خدریؓ،۲۳-نعمانؓ بن بشیر، ۲۴-براءؓ بن عازب(ان سب کی روایات مسند احمد میںمروی ہیں ، دیکھیے : الفتح الربانی ، ۱۶:۸۱تا ۱۰۵، مصر ۱۳۷۱ھ)
۲۵-ابیؓ بن کعب،۲۶-زیدؓ بن ثابت ،۲۷-عبد اللہ ؓ بن مسعود (بیہقی:السنن الکبری، ۸: ۲۱۱ و ۲۱۳، دائرۃ المعارف ،دکن ۱۳۵۴ھ)۔
۲۸-قبیصہؓ بن حریث، ۲۹-انسؓ بن مالک، ۳۰-عجماء،۳۱-سہل ؓ بن سعد، ۳۲-عبد اللہ بن الحارث بن الجزء( ہیثمی:مجمع الزوائد،۶: ۲۶۴و۲۶۵و۲۶۸و۲۷۱، دار الکتاب ،بیروت ۱۹۶۷ء)۔
۳۳-وائلؓ بن حجر (محمد بن محمد:جمع الفوائد ، ۱:۷۵۲، المدینۃ المنورۃ۱۳۸۱ھ)۔
۳۴-عثمانؓ بن عفان، اور۳۵-ابو امامہؓ بن سہل بن حنیف(مشکوۃ المصابیح ، ص۳۰۱، اصح المطابع کراچی) رضی اللہ عنہم اجمعین۔
حضور ﷺ کے زمانے میں رجم کے واقعات
آنحضرت ﷺ کے زمانے میں شادی شدہ زنا کرنے والوں پر رجم کی سزا عائد کرنے کے متعدد واقعات پیش آئے جن میں زیادہ مشہور واقعات چار ہیں: ۱-ایک حضرت ماعزؓ بن مالک اسلمی کا۔ ۲-دوسرے بنو غامد کی ایک عورت کا۔ ۳-تیسرے ایک اعرابی کی بیوی کا جس کے رجم کے لیے آپ ﷺ نے حضرت اُنیس اسلمیؓ کو بھیجا تھا۔ ۴-اورچوتھے دو یہودیوں کا جس کا ذکر اوپر آچکا ہے ۔
یہ تمام واقعات صحیح بخاری میں موجود ہیں، پہلے تینوں واقعات میں مجرموں نے خود زنا کا واضح اعتراف کیا تھا ، گواہوں کے ذریعے رجم کا کوئی واقعہ عہد رسالت میں مسلمانوں کے درمیان پیش نہیں آیا ، البتہ یہودیوں کا رجم گواہوں کی بنا پر ہوا تھا (سنن ابو داود، ۲:۷۶۱۲، اصح المطابع ،کراچی)۔
(یعنی زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ)میں جو حکم مذکور ہے وہ مذکورہ احادیث متواترہ کی بنا پر باجماع صرف غیر شادی شدہ زانی کاحکم ہے ، اوریہ خیال درست نہیں ہے کہ رجم کے واقعات اس آیت کے نزول سے پہلے کے ہیں ،اوراس آیت نے رجم کے حکم کو منسوخ کرکے ہر قسم کے زانی کے لیے کوڑوں کی سزا مقرر کردی ہے ، اس لیے کہ مضبوط دلائل سے یہ ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس آیت کے نزول کے بعد رجم پر عمل فرمایاہے ، یہ آیت سورۃ النور کی ہے جو واقعہ افک (۴ھ ،یا ۵ھ، یا ۶ھ) میں نازل ہوئی تھی ، لہذا اس کا نزول زیادہ سے زیادہ ۶ھ میں ہوا ہے (فتح الباری ، ابن حجر، ۱۲:۱۰۰،مصر ۱۳۴۸ھ)اوررجم کے تقریبا تمام واقعات ۶ھ کے بعد کے ہیں ، اس لیے کہ متعدد ایسے صحابہ نے رجم کے واقعات کا مشاہدہ کیا ہے جو ۶ھ کے بعد اسلام لائے تھے ، مثلا حضرت ابوہریرہؓ ،صحیح بخاری میں تصریح ہے کہ عسیف والے واقعہ میں وہ خود موجود تھے ، چنانچہ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے وہ خود فرماتے ہیں :
کنا عند النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (صحیح بخاری ، باب الاعتراف بالزنا ، ۲:۱۰۰۸، اصح المطابع ، دہلی ۱۳۵۷ھ)۔
حالانکہ حضرت ابوہریرہؓ خیبر کے موقعہ پر (۷ھ) میں اسلام لائے ہیں ، اسی طرح البزار ؒ اور الطبرانیؒ کی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن الحارث بن جزء یہودیوں کے رجم میں شریک تھے ، فرماتے ہیں:
اور وہ اپنے والد کے ساتھ فتح مکہ (۸ھ) کے بعد اسلام لائے تھے (دیکھیے :فتح الباری ۱۲:۱۴۴، باب احکام اہل الذمۃ واحصانہم اذا زنوا ، المطبعۃ البہیۃ ، مصر ۱۳۴۸ھ)ادھر مسند احمد اور معجم الطبرانی میں حضرت ابن عباسؓ انہیں یہودیوں کا واقعہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
فکان مما صنع اللہ لرسولہ ﷺ فی تحقیق الزنا منھما(مجمع الزوائد ۶:۲۷۱)۔
یعنی اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے لیے زنا کے حکم کی تحقیق ان یہودیوں کے ذریعہ کرائی ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کا واقعہ رجم کا سب سے پہلا واقعہ تھا ، باقی تمام واقعات اس کے بعد ہوئے ، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رجم کے تمام واقعات فتح مکہ کے بعد ہوئے ہیں ، یعنی سورۃ النور نازل ہونے کے کم از کم دو سال بعد ، لہذا اگر سورۃ النور کا حکم ہر قسم کے زانی کے لیے ہوتا تو آپ ﷺ اس کے نزول کے بعد کسی کو رجم نہ فرماتے ، اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ کا رجم فرمانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سورۃ النور کاحکم صرف غیر محصَن زانی کی شرعی سزا ، رجم کرنے کا حکم مسلمانوں میں اجماعی اور غیر مختلف فیہ رہا ہے ۔
رجم پر صحابہ کرام ، ائمہ اربعہ اورائمہ مسلمین کا اجماع ہے
علامہ الآلوسی لکھتے ہیں:
’’صحابہ کرام، اسلاف، علمائے امت اور ائمہ مسلمین کا اس پر اجماع ہے کہ زانی محض کو سنگسار کیا جائے اور خوارج کا رجم سے انکار کرنا باطل ہے‘‘ (روح المعانی ۱۸: ۷۸، ۷۹، ادارۃ الطباعۃ المنیریہ مصر)۔
علامہ کمال الدین ابن الہمام لکھتے ہیں:
’’رجم پر صحابہ ؓ اور تمام پچھلے علمائے اسلام کا اجماع ہے اور خوارج کا رجم سے انکار کرنا باطل ہے، اس لیے کہ اگر وہ اجماع صحابہ کی حجیت کا انکار کریں تو یہ جہل مرکب ہے اور اگر وہ خبر واحد کی حجیت سے انکار کرتے ہوئے یہ کہیں کہ رجم آنحضرت ﷺ سے ثابت نہیں تو، علاوہ اس کے کہ خبر واحد کی حجیت سے انکاردلائل کی رو سے باطل ہے۔ یہ مسئلہ خبر واحد سے متعلق ہی نہیں، کیونکہ آنحضرت ﷺ سے رجم کا ثبوت معنی ً ایسا ہی متواتر ہے جیسے حضرت علی ؓ کی شجاعت اور حاتم طلائی کی سخاوت۔ رہیں اخبار آحاد۔ سو وہ صرف رجم کی صورتوں اور خصوصیات کی تفصیل سے متعلق ہیں۔ جہاں تک رجم کے اصل حکم کا تعلق ہے، اس کے ثبوت میں کوئی شک نہیں۔۔۔۔۔ اور خوارج بھی عام مسلمانوں کی طرح متواتر معنوی پر عمل کو ضروری قرار دیتے ہیں، لیکن چونکہ وہ صحابہ کرامؓ اور عام مسلمانوں سے الگ تھلگ رہے اور مسلمان اہل علم اور راویوں سے انہوں نے تعلق نہیں رکھا، اس لیے وہ بہت سے جہالتوں میں مبتلا ہوگئے، یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے سامنے رجم پر یہ اعتراض کیا کہ اس کا ذکرکتاب اللہ میں نہیں ہے تو حضرت عمر ؒ نے ان سے کہا کہ پھر رکعات نماز کی تعداد اور زکوٰۃ کی مقداریں کہاں سے ثابت ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ حضور اور مسلمانوں کے عمل سے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا: ’’رجم بھی اسی طرح ثابت ہوا ہے‘‘ (ابن الہمام: فتح القدیر ۴:۱۲۱ و ۱۲۲،بولاق ۱۳۱۶ھ)۔
ائمہ اربعہ کے نزدیک رجم کی سزا کے لیے احصان کی شرائط
پھر اس بات پر تو تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ رجم کی سزا صرف اس زانی کے لیے ہے جس میں احصان کی شرائط پائی جاتی ہوں، لیکن ان شرائط کی تفصیل میں تھوڑا سا اختلاف ہے:
امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک رجم کے حکم میں محصَن اس شخص کو کہیں گے جو مسلمان ہو، آزاد ہو، عاقل و بالغ ہو اور کسی مسلمان، عاقل، بالغ اور آزاد عورت کے ساتھ نکاح صحیح کے ذریعے تعلقات زنا شوئی قائم کرچکا ہو۔ ان میں سے ایک شرط بھی مفقود ہوگئی تو اسے محصن نہیں کہا جائے گا ،اور اگر وہ زنا کرلے تو اس کی سزا رجم کے بجائے سو کوڑے ہوگی( ابن لجیم: البحر الرائق ۵:۱۱، المطبعۃ العلمیہ، مصر)
امام مالکؒ کے نزدیک بھی احصان کی یہی شرائط ہیں، البتہ ان کے نزدیک اور ایک شرط اور ہے اور وہ یہ کہ اس نے اپنی منکوحہ سے خلوت صحیحہ کی ہو، لہٰذا حیض یا روزے کی حالت میں خلوت سے احصان متحقق نہیں ہوگا۔ (ابن رشد: بدایۃ المجتہد، ۱۲: ۴۷، المطبعۃ الازھریہ، مصر ۱۳۸۹ھ)
امام شافعی ؒ کے نزدیک احصان کے لیے نہ مجرم کامسلمان ہونا شرط ہے اور نہ اس کی منکوحہ کا مسلمان یا آزاد ہونا (الشافعی: کتاب الام ۶:۱۵۴، المطبعۃ الازھریہ، مصر ۱۳۸۹ھ) ۔
امام احمدؒ کے نزدیک مسلمان ہونا تو شرط نہیں، لیکن اس کی منکوحہ کا آزاد ہونا ضروری ہے (ابن قدمہ، المقنع۳:۴۵۲ و ۴۵۳، المطبعۃ السلفیہ الروضہ ۱۳۸۲ھ)۔
یہ بھی اجماعی مسئلہ ہے کہ ایسے محصَن شخص کا صرف وہی زنا رجم کا مستوجب ہے جس میں حلال ہونے کا کوئی شبہ نہ ہو، لہٰذا جہاں نکاح شبہ بھی پایا جاتا ہو وہاں رجم نہیں ہوگا(ابن رشد: بدایۃ المجتہد ۲: ۴۶۷) ۔
زنا کس طرح ثابت ہوگا؟
اس پر اتفاق ہے کہ زنا کا ثبوت دو طریقوں سے ہوسکتا ہے:
۱- ایک مجرم کے اعتراف و اقرار سے۔ ۲- دوسرے گواہوں سے۔
جہاں تک اعتراف کا تعلق ہے امام ابوحنیفہؒ کے مسلک میں یہ ضروری ہے کہ یہ اقرار چار مرتبہ ہو، اور اقرار کرنے والا ہر مرتبہ اپنی جگہ بدل کر اقرار کرے۔ امام احمدؒ کے نزدیک چار مرتبہ ہونا تو ضروری ہے مگر جگہ بدلنا ضروری نہیں (ابن الہمام: فتح القدیر ۴: ۱۱۷) ۔ امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کے نزدیک صرف ایک مرتبہ اعتراف کرلینا بھی کافی ہے (بدایۃالمجتہد: ۲:۴۷۳) ۔
گواہوں کے بارے میں اس پر اتفاق ہے کہ کم از کم چار گواہ ہونے ضروری ہیں جنہوں نے اپنی آنکھ سے مجرم کو زنا کرتے ہوئے دیکھا ہو اور صریح الفاظ میں بغیر کسی کنایہ کے اس کی گواہی دی ہو (حوالہ سابق) اس کے بعد ضروری ہے کہ قاضی ان پر جرح کرے اور ان کی عدالت و صداقت کی مکمل تحقیق ہوجانے پر رجم کا حکم دے (فتح القدیر ۴:۱۱۵ و ۱۱۶)۔
رجم کا طریقہ کار
رجم کا طریقہ یہ ہےکہ مجرم کو کسی کھلی جگہ میں لے جایا جائے جہاں عام لوگ بھی موجود ہوں۔ اگر مجرم عورت ہو تو اس کے لیے گڑھا کھود کر اس کو اس میں کھڑا کردینا مناسب ہے، پھر اگر زنا کا ثبوت گواہوں سے ہوا ہے تو پتھر مارنے کی ابتداء گواہ کریں گے ،اور اگر اعتراف سے ہوا ہے تو ابتداء امام المسلین کرے گا، پھر تمام حاضرین رجم میں حصہ لیں گے یہاں تک مجرم کی موت واقع ہوجائے (فتح القدیر ۴:۱۲۳ و ۱۲۴)۔
رجم کی سزا:اسلام کی اصل منشا
اسلام کا اصل منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ رجم کی سزا کم سے کم جاری ہو، لیکن جب جاری ہو تو سالہا سال کے لیے سامان عبرت بن جائے اور اس کی دہشت جرم کی لذت پر غالب آجائے، چنانچہ اول تو معاشرہ میں عفت و عصمت عام کرنے کے لیے ایسے حکام وضع کیے گئے ہیں جن کی موجودگی میں زنا کا صدور مشکل سے مشکل تر ہوجائے، پھر قابل رجم زنا کے ثبوت کے لیے شرائط انتہائی سخت رکھی گئی ہیں، چار قابل اعتماد گواہوں کا بغیر کسی کنایہ کے صریح الفاظ میں چشم دید واقعہ کی گواہی دینا اسی وقت ممکن ہے جب کہ مجرم نے جرم کا ارتکاب کھلم کھلا کیا ہے، پھر اگر سزا جاری ہونے سے پہلے ان میں سے کوئی ایک گواہ بھی رجوع کرلے یا گواہی دیتے وقت ان میں کوئی معمولی اختلاف ہوجائے یا اقرار کی صورت میں مجرم کسی بھی وقت، یہاں تک کہ سزا جاری ہونے کے دوران میں بھی اپنے اقرار سے منحرف ہوجائے تو سزا ساقط ہوجاتی ہے (فتح القدیر، حوالہ سابق) ۔
اس کے علاوہ دوسرے معمولی معمولی شبہات کی بنا پر سزا کو ساقط کردیا گیا ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔
تہمت کی صورت میں اسی (۸۰) کوڑوں کی سزا
دوسری طرف اگر کسی پر زنا کا الزام لگانے کے بعد کوئی شخص قانونی شرائط کے مطابق اسے ثابت نہ کرسکے تو اس کے لیے اسی (۸۰) کوڑوں کی سخت سزا مقرر کی گئی ہے۔ ان کڑی شرائط کے باوجود اگر کسی شخص سے قابل رجم زنا کا صدور ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کا یہ عضو سڑچکاہے جسے کاٹے بغیر جسم کی اصلاح ممکن نہیں، پھر اس عضو پر رحم کرنا پورے جسم پر ظلم کے مترادف ہے۔
استاذ عبدالقادر عووہ ؒ لکھتے ہیں:
’’بعض لوگ آج زانی محض کے لیے جرم کی سزا کو بہت زیادہ سمجھتے ہیں لیکن یہ محض ان کے منہ سے نکلی ہوئی بات ہے جس پر خود ان کے دلوں کو یقین نہیں (اگران میں سے کسی شخص کو اپنے بہت قریبی حلقوں میں یہ واقعہ پیش آجائے تو اس کا ردعمل شاید اس سے بھی سخت ہوگا) اسلامی شریعت نے اس مسئلہ میں بھی اپنے دوسرے احکام کی طرح باریک بینی اورانصاف کی روش اختیار کی ہے۔۔۔۔۔ جو لوگ زانی کو قتل کرنے کے تصور سے گھبرا اُٹھتے ہیں، اگر وہ واقعات کی دنیا کو دیکھیں تو ان پر حقیقت واضح ہوجائے اور انہیں پتہ چل جائے کہ اسلام نے زانی محصن کو سنگسار کرنے کا حکم دے کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جس سے انسانی طبیعت مانوس نہ ہو، آج کے مروجہ قانون ہی کو دیکھ لیجئے، اگر زنا کے مجرموں میں سے کوئی ایک شادی شدہ ہو تو اس قانون کی رو سے اس کی سزا صرف قید ہے، اور اگر کوئی شادی شدہ نہ ہو تو جب تک جبر و اکراہ نہ ہو، کوئی سزا نہیں، یہ موجودہ قانون کا فیصلہ ہے، لیکن کیا لوگ قانون کے اس فیصلے پر راضی ہوگئے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ لوگ نہ اس پر راضی ہوئے ہیں، اور نہ کبھی ہوسکتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ مروجہ قانون کو توڑتے ہیں اور زانی کو قتل کرکے اس سے انتقام لے کر رہتے ہیں اور بعض مرتبہ یہ انتقامی قتل رجم سے بھی زیادہ شدید طریقوں سے کیے جاتے ہیں، سمندر میں ڈبو دینا، آگ میں جلادینا، عضوعضو کاٹ ڈالنا اور ہڈیاں توڑ دینا (بعض اوقات یہ سلسلہ قتل نسلوں تک جاری رہتا ہے)۔ اس قسم کے واقعات روزمرہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ جب واقعہ یہ ہے تو ہم رجم کی سزا سے کیوں ڈریں؟ اس سزا کو اختیار کرنا ایک حقیقت کو تسلیم کرنا ہے اور حقیقت کو تسلیم کرنا شجاعت اور فضیلت کی بات ہے (عبدالقادر عودہ: التشریع الجنائی الاسلامی ۱:۶۴۱ و ۶۴۲، مکتبۃ دارالعروبہ، قاہرہ ۱۳۷۸ھ)۔
مآخذومصادر
(۱) القرآن المجید (۴، النسا: ۱۵)، (۵، المائدہ: ۴۲تا ۴۴)،(۲۴، النور: ۲) اور آیات کے تحت تمام تفاسیر، خصوصا: (۲)ابن کثیر: تفسیر، المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ ۱۳۵۶ھ (۳)محمود الآلوسی: روحانی المعانی، ادارۃ الطباعۃ النیریہ، مصر (۴) القرطبی: الجامع الاحکام القرآن، دارالکاتب العربی ۱۳۸۷ھ) (۵) قاضی ثناء اللہ پانی پتی: تفسیرمظہری، ندوۃ المصنفین، دہلی (۶) نیز اردو تفاسیر بالخصوص امیر علی: مواہب الرحمن بذیل آیات متعلقہ) نیز قرآن مجید میں رجم کا ذکر نہ ہونے پر لطیف و دقیق بحث کے لیے (۷)علامہ انور شاہ کشمیری: مشکلات القرآن، ص ۲۱۳ مطبوعہ مجلس علمی، دہلی ۱۳۵۷ھ، رجم سے متعلق احادیث کا بڑا ذخیرہ صحاح ستہ کے علاوہ (الفتح الربانی، تبویب مسند احمد، جلد ۱۶مطبوعہ مصر ۱۳۷۱ (۹) البیہقی: السنن الکبریٰ، جلد ۸ دائرۃ المعارف، دکن ۱۳۵۴ھ (۱۰) الہیثمی، مجمع الزوائد، جلد ۶، دارالکتاب، بیروت ۱۹۶۷ھ، احادیث رحم کی مفصل تشریح کے لیے (۱۱) ابن حجر: فتح الباری، جلد ۱۲ مطبوعہ المطبعیۃ البہیہ مصر بہترین ہے۔ (۱۲) السیوطی: الاتقان ۲:۲۶، المطبعۃ الازہریہ مصر ۱۳۱۸ھ (۱۳) ابن امیرالحجاج: التقریر والتعبیر ۲:۶۶ بولاق ۱۳۱۷ھ، نیز اصول فقہ اور علوم القرآن کی کتب میں نسخ کی بحث دیکھئے، رجم کی فقہی تفصیلات کے لیے (۱۴) ابن رشد: بدایۃ المجتہد، جلد ۲، المطبعۃ الازہریۃ، مصر ۱۳۸۹ھ (۱۵) ابن نجیم: البحرالرائق، جلد ۵، المطبعۃ العلمیۃ مصر (۱۶) ابن الہمام: فتح القدیر، جلد ۴، بولاق، ۱۳۱۶ھ ناگزیر ہیں۔ زنا کی مختلف صورتوں، ان کے احکام اور ان کی عقلی حکمتوں کے لیے دیکھئے۔ (۱۷) عبدالقادر عودہ: التشریع الجنائی الاسلامی، جلد اول، مکتبۃدارالعروبۃ، قاہرہ ۱۳۷۸ھ (۱۸) عبدالعزیز عامر: التعزیر فی التشریعہ الاسلامیہ، مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی، مصر ۱۳۷۷ھ (۱۹) احمد فتحی بہنی: الجرائم فی الفقہ الاسلامی، مطبوعہ الشرکۃ العربیہ للطباعۃ والنشر، قاہرہ ۱۹۵۹ء)۔
مادرِ علمی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں دورہ حدیث کے طلبہ کے لیے تعلیمی سال کے اختتام پر دورہ تدریبیہ منعقد کیا جاتا ہے، جس میں مختلف علوم وفنون اور اہم موضوعات کے متعلق اساتذۂ کرام طلبہ کو اپنے علمی تجربات وفیوضات سے مستفید فرماتے ہیں۔ علم تجوید و قراء ت کا موضوع حضرت مولانا ڈاکٹر قاری محمد ضیاء الحق صاحب مدظلہم کے سپرد ہے۔ اس سال شعبان المعظم ۱۴۳۹ھ میں حضرت قاری صاحب مدظلہٗ نے اپنے درس کے آخری دن طلبہ کو قیمتی نصائح وہدایات ارشاد فرمائیں، چونکہ دین کے ایک طالب علم کو عملی زندگی میں مختلف مواقع پر دینِ اسلام سے متعلق نت نئے تجدد پسندوںسے واسطہ پڑتا ہے ، جن کا طریقۂ واردات مختلف روپ دھارے ہوئے ہوتا ہے ۔ ایک طالب علم کے لیے اس نام نہاد علمی حملہ کو فوری طور پر سمجھنا بسا اوقات مشکل ہوجاتا ہے۔ علماء کرام نے ہر دور میں ان فتنوں کی نشان دہی کی خدمت انجام دی ، اس سلسلے میں حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی کتاب ’’الانتباہات المفیدۃ عن الاشتباہات الجدیدۃ‘‘ (جدید شبہات کے متعلق مفید تنبیہات) مشہور و معروف ہے ، چنانچہ قاری صاحب مدظلہٗ نے بھی طلبہ کی سہولت اور آسانی کے لیے اپنے وسیع مطالعہ ، تجربہ اور مشاہدہ کی روشنی میں تجددپسندوں کے چند وارداتی طریقے بھی فقط عنوان کے طور پر بیان فرمادئیے۔ اس تمہید کے ساتھ کہ زندگی میں کبھی کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہو تو ان عنوانات کی روشنی میں دیکھ لینا۔ یہ عنوانات وضاحت اور تفصیل کے طالب تھے، ہر عنوان کی تفصیل میں مثالوں کے ساتھ بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے ۔ سرِدست راقم الحروف نے ایک ادنیٰ سی کوشش کی ہے کہ ان عنوانات کو قدرے شرح وتفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے، تاکہ سب کے لیے استفادہ آسان ہو۔ دینِ اسلام کے متعلق منفی اور تنقیدی ذہنیت کی درج ذیل بارہ علامات ہیں:
۱-علومِ قرآن وسنت سے ناواقفیت :
قرآن وسنت کو صحیح طور پر جاننے ، سمجھنے اور اس سے دین وشریعت کے مسائل استنباط کرنے کے لیے عربی زبان کے تقریباً اٹھارہ مختلف علوم میں مہارت اور دسترس حاصل کرنا ضروری ہے ،ان میں سے چند علوم یہ ہیں : علمِ اصولِ دین ،علمِ اسبابِ نزول ،علمِناسخ ومنسوخ ،علمِ قراء ت،علمِ حدیث ،علمِ اصولِ حدیث ،علمِ فقہ ،علمِ اصولِ فقہ ،علمِ بلاغت (معانی ،بیان،بدیع)، علمِ صرف ، علمِ نحو، علمِ لغت ، علمِ اشتقاق ،لیکن گمراہ عناصر ان تمام بنیادی اور اہم علوم سے ناواقف ہوتے ہیں، چند اردو کتابوں کے لقطات کو معلوماتِ عامہ کا ذخیرہ وافرہ سمجھ لینا اور قرآن وسنت کو تختۂ مشق بنانے کے لیے آمادۂ پیکار ہونا ضلالت کی کھلی مثال ہے۔ ایسے لوگ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ۔
۲-قرآن کریم کی متواتر قراء ت کو فتنہ کہنا یا ان کا انکار کرنا:
واضح رہے کہ تلاوت کی سہولت کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو متعددقراء توں میں نازل فرمایا، البتہ قراء توں کے اس اختلاف سے آیات کے مجموعی معنی میں تو کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ،لیکن تلاوت اور ادائیگی کے طریقوں میں فرق ہوجاتا ہے ، اس کی وجہ سے لوگوں کے لیے تلاوت میں آسانی پیدا ہوگئی ،اورعملی اعتبار سے قرآن کریم کی حقانیت وصداقت اوراس کے بعینہ محفوظ رہنے پر اس اختلافِ قراء ت کا کوئی ادنیٰ اثر بھی مرتب نہیں ہوتا،لیکن بعض گمراہ عناصر ان متواتر قراء توں کا بھی انکار کرتے ہیں، جبکہ اس بات پر تمام اہل علم متفق ہیں کہ قرآن کریم کی جتنی قراء تیں تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں، وہ سب صحیح ہیں اورقرآن کریم کی تلاوت ان میں سے ہر ایک کے مطابق کی جاسکتی ہے، لیکن گمراہ عناصر ان متواترقراء ات کو عجمی فتنہ کہہ کرانکار کردیتے ہیں۔
۳- سنت وحدیث اور کلچر :
سنت وحدیث میں غلط اور فاسد تاویلات کرکے ان کاانکارکرنا، یا سنت وحدیث کو عقل یا فطرت کے خلاف کہنا، یا سنت وحدیث کو تاریخ یا عرب سماج اور کلچر کے ساتھ خاص کرکے منکرینِ حدیث کو تقویت پہنچانا،یا احادیث کے مقابلے میں تاریخ کو زیادہ اہمیت وترجیح دینا، یا قرآن وسنت سے استدلال کرنے میں محض عربی ادب ولغت پر انحصار کرنا۔
۴-صحیح احادیث کا اپنی ذاتی رائے یا عقل کی وجہ سے انکار یا رد کرنا :
اسی ضمن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ضعیف اور موضوع حدیث کے درمیان فرق وامتیازنہ کرنا، یعنی ضعیف حدیث کو جھوٹی، من گھڑت اورموضوع روایت کا درجہ قرار دے دینا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ’’ضعیف‘‘ علمِ اصولِ حدیث کی ایک اصطلاح ہے ، اردو دان حضرات اسے لاغروکمزور پر قیاس کرکے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ’’ضعیف‘‘ سے مراد جھوٹی یا من گھڑت روایت ہے ،حالانکہ یہ بات حقیقت کے بالکل خلاف اور فن اصولِ حدیث سے ناواقفیت کی بنا پرہے ،کیونکہ جمہور علماء ومحدثین کے نزدیک ضعیف حدیث مطلوبہ شرائط کے ساتھ قابلِ حجت ہے۔ متابع، مُضاعد، فروعِ دین یا فضائلِ اعمال میں محدثین کے ہاں قابلِ عمل ہے ، البتہ موضوع یعنی جھوٹی اور من گھڑت روایت کسی بھی حالت میں لائقِ عمل نہیں ہے، صحیح وضعیف کے اطلاق کرنے یا انکار کرنے میں اردو کے استعمال کا فرق ملحوظ رکھنا بھی بہت اہم ہے۔ اردو کے استعمال میں ہر اس بات کو جو اہل فہم وعقل کے نزدیک قابل اعتبار ہو ، کسی اعتراض کے بغیر صحیح کہہ دیا جاتا ہے ، خواہ محدثین کی اصطلاح کے مطابق کسی ہلکے سے ہلکے معیار پر بھی اس کو صحیح نہ کہا جاسکے ، اس کے مقابلہ میں صحیح نہ ہونے کا مطلب اردو میں یہ ہوتا ہے کہ وہ بات ناقابلِ اعتبار ہے ، لیکن محدثین کی اصطلاح میں صحت کے لیے خاص خاص شرائط ہیں ، اور پھراس کے اندر بھی مختلف مراتب ہیں ، اس کے بعد پھر حسن کادرجہ ہے اوراس کے بھی کئی مدارج ہیں، اس کے بعد پھر ضعیف کا درجہ ہے اور اس میں بھی مراتب کا یہی حال ہے ، جن میں سے ضعیف حدیث کبھی کبھی مقبول بھی شمار ہوجاتی ہے ، اس لحاظ سے محدثین کی اصطلاح کے مطابق کسی حدیث پر یہ حکم دیکھ کر کہ وہ صحیح نہیں ہے، اس کو مردود یا جھوٹا سمجھ لینایہ بالکل غلط ہوگا ۔ اس کے برخلاف اردو کے محاورہ میں اس کے صحیح نہ ہونے کا یہی مطلب سمجھا جائے گا کہ وہ ناقابل اعتبار ، مردود اور جھوٹی ہے۔ محدثین کی اصطلاحات سے ناواقف لوگوں کو ہمیشہ یہاں یہ مغالطہ لگ سکتا ہے کہ یہ روایات سب بے سروپا اور لغو ہیں ، بلکہ اسی مغالطہ میں بعض اچھے خاصے تعلیم یافتہ سمجھ دار لوگ بھی مبتلا ہوسکتے ہیں اور ان کو بھی اس نکتہ پر غفلت کا سامنا ہوسکتا ہے کہ محدث کے کسی حدیث کی صحت سے انکار کا مطلب وہ نہیں ہے جو اُردو محاورے میں کسی حدیث کی صحت کے انکار کا مطلب سمجھا جاتا ہے ۔ اصولِ حدیث میں اس کی بھی تصریح ہے کہ کسی حدیث پر کسی محدث کے ضعف کا حکم لگادینے سے اس حدیث کا مطلقاً ضعیف ہونا ثابت نہیں ہوتا، بلکہ بعض اوقات وہ حکم صرف اس اسناد کے لحاظ سے ہوتا ہے جو اس وقت اس محدث کے سامنے ہوتی ہے ، لہٰذا ہوسکتا ہے کہ ایک ہی حدیث کو ایک اسناد کے لحاظ سے ضعیف کہہ دیا جائے اور دوسری اسناد کے لحاظ سے وہ قوی ہو، یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بعض حدیثوں پر ضعیف کا حکم لگایا ہے ، حالانکہ خارج میں وہ صحیح اسناد سے ثابت ہے ، یہاں ایک ناواقف شخص تو حیرت میں پڑجاتا ہے ، مگر صاحبِ فن سمجھ لیتا ہے کہ امام موصوفؒ کا یہ حکم صرف اس خاص اسناد پر ہے ۔
۵-اسلاف دشمنی :
یعنی صحابہ کرام ؓ ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ اورمتقدمین علماء اور ان کے فہم اسلام سے نہ صرف یہ کہ بدگمانی پیداکرنا،بلکہ وقتاً فوقتاً ان عظیم ہستیوں پراشاروں اورکنایوں میں لعن طعن اور ملامت کرتے رہنا۔ اس طرزِ عمل میں پہلا قدم سلف صالحین سے بدگمانی اور اس کی انتہا سلف صالحین کے خلاف بدزبانی ہوتاہے۔ ان لوگوں کو اسلام کے ساتھ مخلص نہیں سمجھا جاتا اور اپنے موجودہ حالات وواقعات کا ذمہ داریا موردِ الزام ان بزرگ ہستیوں کو ٹھہرادیا جاتا ہے۔ یہ افسوس ناک رویہ درحقیقت اس حدیث کا مصداق ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربِ قیامت کی علامتوں میں ارشاد فرمایا ہے: ’’ولعن آخر ہٰذہ الأمۃ أولہا۔‘‘ یعنی ’’اُمت کے بعد میں آنے والے لوگ گزشتہ لوگوں (اسلاف اور بزرگوں)پر لعن طعن کریں گے۔‘‘ ایک اورحدیث میں ایسے لوگوں کو ’’رویبضۃ‘‘ فرمایا گیا ہے۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ ’’رویبضۃ ‘‘سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ نااہل اور گھٹیا آدمی جو جمہور کے اہم معاملات میں رائے زنی کرے۔‘‘
۶-سلف صالحین کے بجائے اعداء اسلام اور مستشرقین کی ڈگر پر چلنا:
یعنی دین وشریعت کے ہرحکم کو تحقیق وریسرچ کے عنوان سے فقط اپنی ناقص عقل کی کسوٹی پر تولنا پرکھنا، یا اعتراض اور شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھنا، قرآن و سنت اورسیرت رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی روح مجروح کرنا ، واضح صداقتوں کا انکار کرنا، غلط فہمیوں کو جگہ دینا، دین اسلام اور سیرت رسول کے بارے میں غلط تاثر پھیلانا، کسی بھی موضوع پر لکھنے سے قبل اس کے متعلق ازخود ایک موقف قائم کرکے پھر اس کے لیے کمزور سے کمزور روایات ڈھونڈنااور ان سے غلط استدلال اور معنی اخذ کرنا، دسیسہ کاری اور افتراء پردازی سے کام لینا، تحقیق اور یسرچ کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف علمی نظریاتی پروپیگنڈہ کرنا۔
۷- شذوذ وتفرُّد:
دینِ اسلام یعنی قرآن وسنت کی تشریح وتعبیرمیں جمہورعلماء امت کے اجماع واتفاق کورد کرکے اس کے مقابلہ میں انفرادی ترجیحات اور تفردوشذوذ کو فکروعمل کی بنیاد بنانا، جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
’’ علیکم بالجماعۃ ۔‘‘
یعنی ’’تم جماعت کو لازم پکڑو۔‘‘ اور ارشادِ نبوی ہے:
’’لا یجتمع أمتی علی الضلالۃ‘‘
یعنی ’’میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔‘‘ اسی طرح ایک حدیثِ نبوی میں ارشاد ہے :
’’اتبعوا السوادَ الأعظمَ من شَذَّ شُذ فی النار‘‘
یعنی ’’بڑی اکثریت (اجتماعیت) کی پیروی کرو ، جس نے (تنہا) الگ راہ اختیار کی وہ جہنم میں جاگرا۔‘‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین سے معلوم ہوتا ہے کہ گمراہی سے حفاظت اجتماعیت میں ہے۔
۸-حدوث و ابتداع :
جن اُمور کی اصل شریعت سے ثابت نہ ہو ، یعنی قرآن مجید اور سنت رسول میں اس کا ثبوت نہ ملے ، اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس کا داعیہ اور سبب موجود ہونے کے باوجود نہ قولاً ثابت ہو ، نہ فعلاً ،نہ صراحۃً اور نہ اشارۃً، صحابہ کرام ؓ، تابعین ؒ اور تبع تابعین ؒ کے زمانہ میں بھی اس کا وجود نہ ہو ، اورنہ ہی اس کی نظیر ان تینوں زمانوں میں پائی جائے ،اور شریعت کے مآخذ (قرآن ، سنت ، اجماع، قیاس) سے بھی اس کا ثبوت نہ ملے اور اس کو دین کا کام سمجھ کر کیا جائے یا چھوڑا جائے ،خواہ اس کا موجد کوئی بھی کیوں نہ ہو، دوسرے الفاظ میں مقاصدِ شرعیہ کو بدل دینا، یعنی غیر مقصود کو مقصود بنالینا، یا مقصود کو غیر مقصود بنالینا، حدیث رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے : ’’من أحدث فی أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔‘‘ یعنی ’’جس شخص نے ہمارے اس دین میں ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود (قابل رد) ہے۔‘‘ گویا کہ دین کے نام پر بے دینی گھڑ کے اُسے عام کرنا ہمارے معاشرے میں سرایت کرچکا ہے، اس پر تنبیہ کی ضرورت ہے۔
۹- ’’میں صحیح باقی سب غلط‘‘:
سلف صالحین یعنی صحابہ کرام ؓ ، تابعینؒ ، تبع تابعینؒ اورمتقدمین جمہورعلماء کے فہم اسلام کویکسر غلط قرار دینا، گویا نزولِ اسلام اوراس کے بعد کے قریب ترین زمانے میں ان جیسے بلند پایہ لوگ دین کو صحیح طور پر سمجھ نہ سکے ، اور ان کے مقابلہ میں اپنی خودساختہ غلط رائے اور ناقص فہم کو صحیح اوربرحق سمجھنا اور اُسے عین قرآن وحدیث باور کرانا،یعنی اپنی تحریفات ،ناقص آراء اور خواہش پرستی کو قرآن وحدیث کا نام دینا، اس طرح اُمت کی اجتماعیت میں افتراق وانتشار ، فرقہ واریت اور تفرقہ بازی پیدا کرنا۔ واضح رہے کہ دین میں بلا شبہ کتاب وسنت اصل ہیں ، اس کا کوئی منکر نہیں ، مگر اس کے باوجود ہم نہ صحابہ کرامؓ کو یکسر نظرانداز کرسکتے ہیں اور نہ تابعینؒ وتبع تابعینؒ کو ، اور نہ ائمہ دین، فقہاء اسلام اور محدثین کو۔ کتاب وسنت کا صحیح مفہوم معلوم کرنے کے لیے بہرحال ہمیں ان کی رہنمائی کی ضرورت ہے ۔ صحابہ کرامؓ ،تابعینؒ ، ائمہ دین اور فقہاء اسلام یعنی امت کے جمہور نے دین کو جس طرح سمجھا ہے اور اس کے بارے میں جو ان کی رہنمائی ہے وہی اصل دین ہے۔ اس کے برعکس جو مفہوم ومعنی ہم اپنی ناقص رائے سے متعین کریں گے وہ دین نہیں کہلائے گا ، کیوں کہ جن واسطوں سے الفاظ ہم تک پہنچے ہیں اور ان کی حفاظت کا ہم اعتقاد رکھتے ہیں، ان الفاظ کے معانی کے لیے بھی ان واسطوں پر اعتماد ضروری ہے۔ اسلاف سے ہٹ کر اگر ہم نے اپنی اپنی عقل سے دین کو سمجھنے کی کوشش کی تودین ایک تماشا بن جائے گا۔
۱۰-فتنہ پردازی:
اصولِ دین یااسلامی تحقیق کے اصول وضوابط کو جانے بغیر جدید تحقیق وریسرچ یا عصر حاضر کے تقاضوںکے نام پر وقتاً فوقتاً مختلف علمی ،نظریاتی اورفکری فتنے پھیلاتے رہنا، جس میں عملی نتیجہ اور حاصل‘ بحث برائے بحث کے علاوہ کچھ بھی نہ ہو،موجودہ زمانہ میں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا اس کی واضح مثال ہیں، اس فتنہ پردازی میں سب سے آسان اور مشہور طریقہ یہ چل پڑا ہے کہ ’’خَالِفْ تُعرف‘‘ یعنی متفقہ اورمسلّمہ دینی معاملات یا اسلاف ومتقدمین کی مخالفت کرو اور مشہور ہوجاؤ۔
۱۱-حقائق کو مسخ کرنا:
محض عقلی، قیاسی اور اَٹکل پچو باتوں کی بنیاد پر حقائقِ واقعی کو مسخ کرکے اور بگاڑ کر پیش کرنا، اور غیر واقعی اُمور کو واقعی، اور واقعی اُمور کو غیر واقعی بنادینا، جس کے نتیجے میں دیگر خرابیوں کے ساتھ ساتھ بناوٹ ، تصنُّع اورخودساختہ پن کو ترویج اورفروغ ملتا ہے۔اور ایسا عموماً دنیا کی محبت کی وجہ سے ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں: ’’جب دنیاکی محبت کا غلبہ ہوتا ہے تو اس کے حصول کے لیے عام ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں، حلال ہوں یا حرام ہوں اور جب یہ حالت ترقی کرجاتی ہے تو پھر اس کے حصول کے لیے کوئی چیز مانع نہیں ہوتی، بے حیائی، بے رحمی نا انصافی سب آجاتی ہیں اور رفتہ رفتہ طبیعت مسخ ہوجاتی ہے اور حقائق معکوس ہوجاتے ہیں، صحیح کو غلط سمجھنے لگتا ہے اور غلط کو صحیح، حق کو باطل اور باطل کو حق، حق تعالیٰ کا ارشاد صادق آجاتا ہے:
یعنی ’’سرکی آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، دل کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں۔‘‘ اس لیے حدیث نبوی میں یہ ارشاد ہے کہ:
’’حب الدنیا رأس کل خطیئۃ۔‘‘ (مشکوۃ،کتاب الرقاق، الفصل الثالث، ص:۴۴۴،ط:قدیمی)۔
یعنی ’’دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے۔‘‘ (بصائر وعبر، ج:۱، ص:۱۱۴، ط: مکتبہ بینات، کراچی)۔
۱۲-عجب ، خود پسندی ، تکبراور تَعلِّی کا اظہار :
یعنی اپنی خود ساختہ خیالی رائے کو حتمی اور قطعی انداز میں اس طرح بیان کرنا کہ گویا تمام دنیا میں حق اور سچ صرف اسی بات میں منحصر ہے جو میں نے سمجھا اور لکھا۔ اسی طرح اجماعِ امت کے مقابلہ میں اپنی باطل اور غلط رائے کو اونچا کرنا اور جمہور امت کی متفقہ بات کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا، کسی بھی اجماعی اور متفقہ مسئلہ کی تردید کرتے ہوئے یوں کہنا کہ شروع سے لے کر آج تک،یاقرآن وسنت کے تفصیلی مطالعہ کے بعد، یا متقدمین سے لے کر متاخرین تک کسی کو بھی مطالعہ کرلیں، کسی کے ہاں بھی یہ بات نہیں ملے گی ، گویا کہ چودہ سو سالوں میں جتنا بھی علمی وتحقیقی سرمایہ اُمت نے جمع کیا، وہ سب کا سب بیک جنبشِ قلم رد کردیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ پوری امت کو ان فتنوں اور فتنہ پردازوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین
بشکریہ : ماہنامہ بینات ، جون ۲۰۱۸ء ، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کجیے:
At the end of each academic year, a counseling and guidance session is organized for the students of Dura e Hadith (Final year) at Alma mater Jamia Uloom Islamia Allama Banuri Town, Karachi.
In this session, teachers share their experiences and advice related to various sciences, arts, and important subjects for the benefit of the students. The subject of Tajweed and recitation is entrusted to Hazrat Maulana Dr. Qari Muhammad Zia-ul-Haq. This year in Sha’ban ul Mu’azzam 1439 AH on the last day of his lesson, Hazrat Qari Sahib gave invaluable advice and guidance to his students.
When a student of religious sciences enters practical life he comes into contact with many neo-modernists on different occasions, who mostly disguised their course of action against Islamic teachings. It is sometimes difficult for a student to understand this so-called scientific attack immediately. Scholars have always pointed out these tribulations of different ages. The book of Maulana Ashraf Ali Thanvi, “Al-Intibahat Al-Mufidah An-Al-Ishtibahat Al-Jadeedah” (Useful Warnings on Modern Doubts or Answer to Modernism) is well known in this regard.
Qari Saab also, in the light of his vast literary knowledge, experience and observation, mentioned a few tactics and methods of these modernists as pointers, with the premise that if ever a student faces a similar situation in life, he will handle it easily in the light of these pointers.
These pointers are expressed concisely and require clarification and detail, much can be written with examples in the description of each pointer. This is a small effort by the writer to explain these topics in a little detail, so it will be easy for everyone to use them.
The following are the twelve signs of a negative and critical mindset regarding Islam:
1. Unawareness of the knowledge of Qur’an and Sunnah
In order to learn, comprehend, and deduce the issues of religion and sharia from the Qur’an and Sunnah correctly, it is indispensable to have command and mastery of around eighteen different sciences of the Arabic language. Some of these sciences are:
Knowledge of the principles of religion, knowledge of causes of Revelation, knowledge of the theory of abrogation, the science of recitation, the science of hadith, the science of the principles of hadith, the science of jurisprudence, the science of the principles of jurisprudence, the science of rhetoric (meanings, statements, innovations), the science of grammar, the science of lexicography, etc.
These basic and important sciences are always unknown to these mislead people. They consider the scriptures of few Urdu books as an abundant source of general knowledge and start targeting Islam and combating against the Qur’an and Sunnah. This is a clear example of delusion, such people themselves go astray and also mislead their naive Muslims followers.
2. Rejecting the different methods of recitation of the Holy Qur’an by calling it fitnah
It should be noted that in order to facilitate the recitation, Allah Almighty revealed the Holy Qur’an in several dialects. However, this difference in the recitation does not change the overall meaning of the verses, but the difference is only in the methods of recitation and dialect. This makes the Quran recitation easier for the people, and these different modes of recitation do not affect the authenticity of the Holy Qur’an and its absolute safety. Somehow few misled elements also deny these different recitations. While there is a consensus amongst scholars that the number of recitations of the Holy Qur’an that have reached us continuously is all correct, and the recitation of the Holy Qur’an can be done according to each of them, but the misled elements rejects different recitations by calling it an Aj’mi fitnah.
3. Sunnah and Hadith
Rejection of Sunnah and Hadith by wrong and erroneous interpretations or declaring Sunnah and Hadith against reasoning and nature, or relating Sunnah and Hadith with history and with the culture of Arabic society especially the deniers of Hadith, or making history more than Hadith. Giving importance and priority, or relying solely on Arabic literature and vocabulary to argue from the Qur’an and Sunnah.
4. Rejecting and not accepting authentic Hadiths on basis of personal opinion and judgment
It also includes not distinguishing between the da’if and mawdu hadith i.e declaring the da’if hadith as false, fabricated, and similar to mawdu, while in fact, the da’if is one of the terminologies of the study of principles of hadith. People who are proficient in Urdu have assumed that da’if means weak and fabricated because this is the meaning which commonly used in Urdu.
Actually, this is completely contrary to the truth and only due to the ignorance about the whole science of the study of Hadith. Although according to the majority of scholars and Muhadditheen, a weak hadith can be justified with the required conditions. It is applicable to the narrators in the following submissive branches of religion or virtues of deeds, however, the mawdu i.e. false and fabricated narration is not applicable in any case. Keeping in mind the difference in the use of Urdu language while applying or denying the correct and weak is also very important. In the Urdu language, everything that is credible in the eyes of the intellectuals is considered true without any objection, even if, according to the terminology of Muhadditheen it cannot be considered true even on the lightest standard. On the contrary something not being correct means unreliable in Urdu, but in the terminology of the Hadith, there are special conditions for judging the authenticity of narrations. Therefore ahadith have different levels and statuses which were given to them according to the chain of narrators and then there are different degrees within it, such as the degree of Sahi the degree of Hasan which have many levels also then comes the status of da’if, and it also has different levels because of which da’if hadith is sometimes considered acceptable. In this regard, according to the terminology of the Muhadditheen, see this ruling on a hadith If it is not right, then it would be wrong to consider it rejected or false. On the contrary, the fact that it is not correct in Urdu idiom will mean that it is unreliable, rejected, and false. People who are unfamiliar with the terminology of the narrators may always find it erroneous here that these traditions are all amorphous and absurd, but some well-educated and intelligent people may also fall prey to this error and they too may face negligence on this point. It may be that denying the authenticity of a hadith by a Muhaddith does not mean denying the authenticity of a hadith in Urdu idiom.
The principle of hadith also states that imposing a hadith on a hadith to be weak does not prove that the hadith is absolutely weak, but sometimes the ruling is based only on the evidence that is in front of the hadith at that time. Therefore, it is possible that the same hadith may be called da’if in terms of one isnaad and it may be strong in terms of other isnaads. Externally, it has been proved by authentic evidence. Here, an unfamiliar person is surprised, but the master of art understands that this command of the Imam is based only on this special evidences.
5. Enmity of predecessors
That is, not only create skepticism about the Companions, the followers of the companions the followers of the followers, and the leading scholars and their understanding of Islam but also condemn & deprecate these great personalities from time to time. The initial step in this practice is to be suspicious with Salaf-e-Saliheen and the extreme step is contempt of the Salaf-e-Saliheen. They consider these people insincere with Islam and blamed them for their current circumstances and events. This sad and disappointing attitude is in fact an example of the hadith which the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) mentioned in the signs of the nearness of the Hour: “ The people of this ummah will condemn their predecessors in Islam .”In another hadith, such people are called“ Ruwaidah ”. The Companions asked, “What is the meaning of ‘Ruwidah’?” The Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) said: “The incompetent and despicable man who criticizes &comments on the consensus of Ulema regarding important matters.
6. Following the footsteps of enemies of Islam and Orientalists instead of predecessors (Salaf-e-Saliheen)
That is, to weigh every commandment of the religion and the Shari’ah only on the basis of one’s own deficient sagacity, or to look at it with the intention to object and doubt, To blemish the spirit of Qur’an, Sunnah, and life history of the Prophet (peace be upon him), Refusal of clear truth, Making a place for misunderstandings, Spreading misconceptions about the religion of Islam and the life history of the Prophet(peace be upon him), Writing down on any subject with preconceived opinion and then try to prove it with the weakest narrative and derive wrong arguments and reasoning from it, To use conspiracy and slander, To carry out scientific ideological propaganda against Islam and Muslims in the name of research
7. Individualism and detachment from society
While interpreting Islam,( that is Qur’an and Sunnah) rejecting the consensus of the majority of the ummah, rather making individual preferences and differences as the basis of thought and action, despite the fact that the Prophet (peace be upon him) has said: Hold fast to the congregation. ”And the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said:“ that my ummah will never follow misled. And the Prophet (peace and blessings be upon him) said that follow the great majority (community), whoever (alone) took a different path, he will wake up in hell. ”It is clear from these sayings of the Holy Prophet (saws) that Safety from going astray is only in following the majority of the community.
8. Innovation and initiation
Those Matters whose origin is not proven by the Shari’ah, ie, No proof in the Qur’an and Sunnah of the Prophet, and during the blessed time of the Holy Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) Besides the presence of its motive and reason it is not proved verbally, practically not mentioned slightly or clearly, Should not have existed in the time of the Companions, the followers of the companions and the followers of the followers nor should its precedent be found in these three times, and not proven from the sources of Shari’ah (Qur’an, Sunnah, consensus, analogy). If taken as a work of religion or abandoned, no matter who invented it, in other words changing the aims and objectives of the Shari’ah so making purposeful purposeless and purposeless purposeful.
The purpose of the hadith of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) is: “Whoever invents something in our religion that does not contain it, is accursed”.
As if the spread of atheism in the name of religion has permeated our society, it needs to be reprimanded.
9. “I am right and everyone else is wrong”
Declaring Salaf-e-Saliheen’s (ie.the Companions, the followers of the Companions, the followers of the followers, and the forerunners of the majority of the scholars) understanding of Islam totally wrong. As if these high-ranking people from the early era of Islam and their successors could not understand the religion properly, and considering their own self assumed misconception and misunderstanding to be right and true and believing that it is according to the Qur’an and Hadith, that is, their distorted &, erroneous opinion and aspirations are Qur’an and Hadith, thus creating division, sectarianism, and separatism in the community. Certainly, there is no doubt that Quran and Sunnah are fundamental in religion, but we cannot completely ignore the Companions, the followers and their followers, and the Imams, the jurists of Islam, and the narrators. However, we need their guidance to know the true meanings of the Qur’an and Sunnah. The true form of religion is the way the Companions, the followers, the Imams of the religion, and the Islamic jurists(the majority of the Ummah), have understood and practiced. Their guidance is the key to acquire real and actual Deen. On the contrary, interpretation Qur’an using our limited intellect and pointless opinions will not be true Islam. If we trusted the means by which th words of the Qur’an have reached us and we believed that Allah himself protected them then we have to trust the same means, for the meanings of the words of the Qur’an. Unlike our predecessors, if we’ll try to understand religion with the help of our own limited intellect, it will become a farce.
10. Mischief mongering
From time to time spreading various scientific, ideological, and intellectual controversies in the name of new research and contemporary requirements without knowing the principles of religion or Islamic research, resulting in nothing but only a useless debate or discussion. Electronic media and social media are clear examples of this. The simplest and most popular method of this mischief mongering is “Khalif-e-Ta’rif” ie, apposing agreed and accepted religious matters or the forefathers and the forerunners just to become famous.
11. Distorting the facts
Distorting and misrepresenting actual facts on the basis of mere rational and nonsensical speculations. Changing unreal matters into real, and making real looks unreal, which results in promoting fabrication, affectation, and self-construction, among other defects. This happens usually due to the worldly love and desires, as Hazrat Allama Syed Muhammad Yusuf Banuri (may Allah have mercy on him) said:
“When the love of the world prevails, common and usual means are adopted for its attainment, whether halal or haraam and when this condition further develops, then nothing comes in the way of its attainment. Immorality, Cruelty, and injustice all come in nature and gradually distorted it. This nature’s distortion reversed reality & facts. Right becomes wrong and wrong becomes right, truth turns into false and false into truth.
The words of the Allah Almighty come true: That is, “The eyes of the head are not blind, the eyes of the heart become blind.” Therefore, it is stated in the Hadith of Prophet Mohammed (peace be upon him) “that the love of the world is the root of every sin.
12. Display of self conceit, egotism selfishness and arrogance
To express a self-created fancied opinion in an ultimate and definite way as if this is the only truth that is totally based on whatever they have understood and written. Similarly, elevate one’s false and erroneous opinion over the consensus of the majority of scholars and on the other hand try to degrade the ijma -e- ummah. While denying a consensus they claimed that from the beginning till present, or after a detailed study of the Qur’an and sunnah or by anyone from the forerunners to the later ones, it’s not written and found anywhere. As though the vast treasure of knowledge and scientific research accumulated by the scholars of the Ummah in fourteen hundred years is meaningless and easily rejected by them.
May Allah protect the entire Ummah from these tribulations and from troublemakers. Ameen.
To read this article in Urdu, click on the link below:
بقیۃ السّلف، استاذ العلماء، شیخ الحدیث حضرت علامہ سیّد محمد یوسف صاحب بنوری(رحمۃ اللہ علیہ) بھی راہیٔ آخرت ہوگئے، آج جبکہ اس موضوع پر قلم اٹھانا چاہتا ہوں تو یادوں کا ایک طویل سلسلہ قلب و ذہن میں اس طرح مجتمع ہے کہ ابتدا کرنے کے لیے سرا ہاتھ نہیں آتا۔ حضرت مولانا بنوریؒ کی شخصیت ایسی دلنواز، ایسی حیات افروز ، ایسی باغ و بہار اور ایسی بھاری بھر کم شخصیت تھی کہ اس کی خصوصیات کا ایک مختصر مضمون میں سمانا مشکل ہے، ان کی ذات اپنے شیخ حضرت علامہ سیّد انورشاہ کشمیری قدس سرہ کی مجسم یادگار تھی، علم حدیث تو خیر ان کا خاص موضوع تھا جس میں اس وقت ان کا ثانی ملنا مشکل تھا لیکن اپنے شیخ کی طرح وہ ہر علم و فن میں معلومات کا خزانہ تھے، ان کی قوتِ حافظہ، ان کی وسعتِ مطالعہ، ان کا ذوق کتب بینی، ان کی عربی تقریر و تحریر ان کا پاکیزہ شعری مذاق، اکابرو اسلاف کے تذکروں سے ان کا شغف علماء دیو بند کے ٹھیٹھ مسلک پر تصلب کے ساتھ ان کی وسعت نظر اور رواداری، دین کے لیے ان کا جذبہ اخلاص و للہیت ، اندازِ زندگی میں نفاست، سادگی اور بے تکلفی کا امتزاج، ان کا ذوق مہماں نوازی، ان کی باغ و بہار علمی مجلسیں، ان کے عالمانہ لطائف و ظرائف، ان میں سے کون سی ایسی چیز ہے جسے بھلایا جاسکتاہو؟
پیش مرد کاملے پامال شو!
دنیا کا تجربہ شاہد ہے کہ محض کتابیں پڑھ لینے سے کسی کو علم کے حقیقی ثمرات حاصل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لییـ’’پیش مردے کا ملے پامال شو‘‘ پر عمل کی ضرورت ہے، حضرت مولانا بنوری صاحبؒ کو بھی اللہ تعالیٰ نے جو مقام بلند نصیب فرمایا وہ ان کی ذہانت وذکاوت اور علمی استعداد سے زیادہ حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیریؒ کے فیض صحبت اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کے فیض نظر کا نتیجہ تھا انہوں نے تحصیل علم کے لیے کسی ایک مدرسے میں صرف کتابیں پڑھ لینے اور ضابطہ کی سند حاصل کرلینے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اپنے اساتذہ کی خدمت و صحبت سے استفادہ کو اپنا نصب العین بنایا، آپ ایک ایسے وقت دارالعلوم دیوبند پہنچے تھے جب وہاں امام العصر حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری ؒ کے علاوہ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمدصاحب عثمانیؒ، عارف باللہ حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحبؒ، حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحبؒ، حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ، حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمان صاحبؒ اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ جیسے آفتاب و ماہتاب مصروف تدریس تھے حضرت مولانا بنوریؒ اپنے تمام ہی اساتذہ کے منظور نظر ہیں لیکن امام العصر حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری ؒ سے آپ کو جو خصوصی تعلق رہا اس کی مثال شاید حضرت شاہ صاحب کے دوسرے تلامذہ میں نہ ملے، مولانا مرحوم نے حضرت شاہ صاحب کی خدمت و صحبت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا تھا، چنانچہ وہ ایک عرصہ تک سفرو حضر میں اپنے شیخ کی نہ صرف معیت سے مستفید ہوتے رہے، بلکہ ان کی خدمت اور ان سے علمی وروحانی استفادے کی خاطر مولاناؒ نے نہ جانے کتنی مادی اور دنیوی مفادات کی قربانی دی، اللہ تعالیٰ نے انہیں جن غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا، ان کے پیش نظر اگر وہ چاہتے تو تحصیلِ علم سے فراغت کے بعد نہایت خوشحال زندگی بسر کرسکتے تھے لیکن انہوں نے حضرت شاہ صاحبؒ کی صحبت اور علمی مذاق کی تسکین پر ہر دوسرے فائدے کو قربان کردیا۔ اور یہ بات خود انہوں نے احقر کو سنائی تھی کہ’’جب میرا نکاح ہوا تو بدن کے جوڑے کے سوامیری ملکیت میں کچھ نہ تھا۔‘‘
علم دین کے لیے مولانا کی یہ قربانیاں بالآخر رنگ لائیں، حضرت شاہ صاحبؒ کی نظر عنایت نے علمی رسوخ کے ساتھ ساتھ ان کی للہیت اور اخلاص عمل کے فضائل کی آبیاری کی، اور اس کا نتیجہ تھا کہ دین کے خداّم میں اللہ تعالیٰ نے انہیں مقبولیت، محبوبیت اور ہر دلعزیزی کا وہ مقام بخشا جو کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، ان کے اساتذہ، ان کے ہم عصر اور ان کے چھوٹے تقریباًسب ان کے علمی مقام اور ان کی للہیت کے معترف رہے، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ جیسے مردم شناس بزرگ کی خدمت میں مولانا ؒ کی حاضری تین چار مرتبہ سے زیادہ نہیں ہوئی لیکن انہی تین چار ملاقاتوں کے بعد حضرت تھانوی نے ان کو اپنا مجازِصحبت قرار دے دیا تھا۔
معارف السنن شرح جامع ترمذی
اللہ تعالیٰ نے حضرت بنوری ؒ کو اس دور میں علمی و دینی خدمات کے لیے نہ صرف چن لیا تھا، بلکہ ان کے کاموں میں غیر معمولی برکت عطا فرمائی تھی، ان کے علم و فضل کا سب سے بڑا شاہکار ان کی جامع ترمذیؒ کی شرح’’معارف السنن‘‘ ہے جو تقریباً تین ہزار صفحات پر مشتمل ہے اور چھ جلدوں میں شائع ہوچکی ہے چونکہ پچھلے سات سال سے دارالعلوم کراچی میں جامع ترمذیؒ کا درس احقرکے سپرد ہے، اس لیے بفضلہ تعالیٰ مولاناؒ کی اس کتاب کے مطالعے کا خوب موقع ملا ہے، اور اگر میں یہ کہوں تو شاید مبالغہ نہ ہوگا کہ احقر کو اس کتاب کا ایک ایک صفحہ پڑھنے کا شرف حاصل ہے، لہذا اس میں بلاخوف تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیریؒ کے محدثانہ مذاق کی جھلک کسی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے تو وہ معارف السنن ہے، افسوس ہے کہ علم و فضل کا یہ خزانہ تشنہ تکمیل رہے گا اور کتاب الحج کے بعد ا س کی تصنیف آگے نہ بڑھ سکی، احقر کے والد ماجد حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب نے نہ جانے کتنی بارمولاناؒ سے اس کی تکمیل کی طرف توجہ دینے کی خواہش ظاہر فرمائی، لیکن مولاناؒ کی مصروفیات اس قدر بڑھ چکی تھیں کہ وہ اس خواہش کو پورا نہ فرماسکے، اب اول تو اس کی تکمیل کی ہمت کون کرے؟ اور اگر کوئی کرے بھی تو حضرت شاہ صاحب ؒ کا وہ فیضانِ علمی اور حضرت مولانا بنوریؒ کا وہ اسلوب بیان کہاں سے لائے؟
عربی تحریر وتقریر کا ملکہ
اللہ تعالیٰ نے مولانا کو عربی تقریر و تحریر کا جو ملکہ عطا فرمایا تھا وہ اہل عجم میں شاذو نادر ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے، خاص طور سے ان کی عربی تحریریں اتنی بے ساختہ، سلیس، رواں اور شگفتہ ہیں کہ ان کے فقرے فقرے پر ذوق سلیم کو حظ ملتا ہے، اور ان میں قدیم و جدید اسالیب اس طرح جمع ہو کر یک جان ہوگئے ہیں کہ پڑھنے والا جزالت اور سلاست دونوں کا لطف ساتھ ساتھ محسوس کرتا ہے، مولاناؒ کی تحریروں میں اہل زبان کے محاورات، ضرب الامثال اور استعارے ایسی بے تکلفی کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں کہ بہت سے عربوں کی تحریروں میں بھی یہ بات نہیں ملتی۔ ’’نفحۃ العنبر‘‘ تو ایک طرح سے خالص ادبی تصنیف ہے، لیکن ’’معارف السنن‘‘ اور ’’یتیمۃالبیان‘‘ جیسی ٹھوس علمی اورتحقیقی تصانیف میں بھی ادب کی چاشنی اس انداز سے رچی بسی ہوئی ہے کہ وہ نہایت دلچسپ اور شگفتہ کتابیں بن گئی ہیں۔
حق کے معاملہ میں غیرت وشدت
حضرت مولانا بنوریؒ کو اللہ تعالیٰ نے حق کے معاملے میں غیرت و شدت کا خاص وصف عطا فرمایا تھا، وہ اپنی انفرادی زندگی اور عام برتاؤ میں جتنے نرم خلیق اور شگفتہ تھے ، باطل نظریات کے بارے میں اتنے ہی شمشیر برہنہ تھے اور اس معاملہ میں نہ کسی مداہنت یا نرم گوشے کے روادار تھے ، اور نہ مصالح کو اہمیت دیتے تھے ،بعض اوقات ان کی تحریر یا تقریر کے بارے میں یہ شبہ گزرتا تھا کہ شاید یہ عام دینی مصالح کے خلاف ہو ،لیکن چونکہ ان کے اقدامات کا محرک للہیت اور اخلاص کے سوا کچھ نہ تھا، اس سے اللہ تعالیٰ ان کے اقدامات میں برکت عطافرماتے، ان کے بہترین نتائج ظاہر تھے، اور’’لاکھ حکیم سر بجیب ایک کلیم سر بکف‘‘ کا عملی مشاہدہ ہوتا ،چنانچہ باطل فرقوں اور نظریات کی تردید میں اللہ تعالیٰ نے مولانا سے بڑا کام لیا، انکا رحدیث کا فتنہ ہو یا تجدّد اور قادیانیت کا، مولانا ہمیشہ ان کے تعاقب میں پیش پیش رہے، اس کے علاوہ جس کسی نے بھی قرآن و سنت کی تشریح میں جمہور امت سے الگ کوئی راستہ اختیار کیا، مولاناؒ سے یہ برداشت نہ ہوسکا کہ اس کے نظریات پر سکوت اختیار کیا جائے، مولانا کو خاص طور سے اس بات کی بڑی فکر رہتی تھی کہ علماء دیو بند کا مسلک کسی غلط نظریے سے ملتبس نہ ہونے پائے اور سیاسی سطح پر کسی شخص کے ساتھ علمائے دیو بند کے اتحاد و تعاون سے یہ مطلب نہ لے لیا جائے کہ علمائے دیو بند اس شخص کے نظریات کے ہم نوا ہیں۔
حضرت بنوریؒ اور مولانا ابو الکلام آزادؒ
مثلاً مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم نے آزادی ہند کے لیے جو جدو جہد کی مقتدر علمائے دیوبند کی ایک جماعت نہ صرف اس کی مدّاح رہی بلکہ ان کے ساتھ اتحاد و تعاون بھی کیا، اور خود مولانا بنوری رحمۃ اللہ علیہ بھی اس جہت سے ان کی بعض خوبیوں کے معترف تھے لیکن اس سیاسی اشتراک کی بنا پر یہ خطرہ تھا کہ مولانا آزاد مرحوم نے جن مسائل میں جمہور سے الگ راستہ اختیار کیا ہے، انھیں علمائے دیوبند کی طرف منسوب نہ کیا جانے لگے، یا کم از کم علمائے دیو بند کی خاموشی کو ان نظریات کی تائید نہ سمجھ لیا جائے، اس لیے مولانا آزاد مرحوم کے ان نظریات کی علمی تردید کے لیے حضرت مولانا بنوری صاحب قدس سرہ، نے ایک مفصل مقالہ لکھا جس پر بعض لوگوں نے بُرا بھی منایا، لیکن مولاناؒ نے اس معاملہ میں کسی ’’لومۃ لائم‘‘ کی پرواہ نہیں کی، مولاناؒ کا یہ مقالہ’’ مشکلات القرآن‘‘ کے مقدمے میں شامل ہے، جواب ’’یتیمۃالبیان‘‘ کے نام سے الگ بھی شائع ہوچکا ہے۔
حضرت بنوریؒ اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ
اسی طرح مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم چونکہ حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک کے رکن رکین رہے ہیں، اور آزادیٔ ہند کے لیے انھوں نے بے مثال قربانیاں دی ہیں، اس لیے علمائے دیو بند نے اس جہت سے ہمیشہ انکی قدر دانی کی ہے، اور جہاں آزادیٔ ہند کے لیے علمائے دیو بند کی جدو جہد کا ذکر آتا ہے وہاں مجاہدین کی فہرست میں مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم کا نام بھی شامل ہوتا ہے، لیکن مولانا سندھی مرحوم دارالعلوم دیو بند کے تعلیم یافتہ نہ تھے، اور ان کے نظریات میں دینی اعتبار سے وہ تصلب نہ تھا جو علمائے دیو بند کا طرّہ امتیاز رہا ہے، اسی لیے وہ بعض عقائد و احکام میں وقتاً فوقتاً جادۂ اعتدال سے ہٹ جاتے تھے، احقر نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے سُنا ہے کہ ایک مرتبہ انھوں نے کسی ایسے ہی نظریے کا اعلان کردیا تھا جو جمہور علمائے امت کے خلاف تھا تو حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو فہمائش کی، اور بات سمجھ میں آنے پر انھوں نے دارالعلوم دیو بند کی مسجد میں علی الاعلان اپنی غلطی کا اعتراف اور ندامت کا اظہار کیا، لیکن حضرت شیخ الہندؒ کی وفات کے بعد کوئی شخص ایسا نہ رہا جو نظریاتی طور پر ان کی رہنمائی کرسکے، اس کے علاوہ ان کے مزاج میں مسلسل مصائب جھیلنے سے تشدّد بھی پیدا ہوگیا، چنانچہ آخری دور میں انھوں نے پھر بعض ایسے نظریات کی تبلیغ شروع کردی جو جمہور علمایے امت کے خلاف، بلکہ نہایت خطرناک اور زائغانہ تھے، ادھر چونکہ علمائے دیو بند کی جدو جہدِ آزادی میں برابر مولانا سندھی مرحوم کا نام آتا تھا، اس لیے خطرہ تھا کہ ان کے نظریات علماء دیوبند کی طرف منسوب نہ ہوں اس لیے حضرت مولانا بنوری نے نہ صرف مولانا سندھی کے ان نظریات کی تردید کی، بلکہ شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اس طرف متوجہ کیا جو سیاسی جدو جہد میں مولانا سندھی مرحوم کے رفیق رہے تھے۔ چنانچہ حضرت مولانا مدنی قدس سرہ نے مولانا سندھی مرحوم کے ان نظریات کی تردید میں ایک مضمون لکھا جو اخبار مدینہ ’’بجنور‘‘ میں شائع ہوا، مولانا سندھی مرحوم کی تردید کے بارے میں تمام تفصیلات احقر نے خود حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ سے سنی ہیں۔ اور گذشتہ سال دوبارہ مولاناؒ نے احقر سے ان کی توثیق فرمائی۔
جماعت اسلامی کے حضرات سے اجتماعی معاملات میں مختلف مراحل میں مختلف علمائے دیو بند کا اشتراک عمل جاری رہا، بائیس دستوری نکات کی ترتیب اور تحریک ختم نبوت وغیرہ میں خود مولاناؒ نے ان کے ساتھ مل کر کام کیا، لیکن جہاں تک مولانا مودودی صاحب کے نظریات کا تعلق ہے، مولاناؒ نے ان پر مفصل تنقید فرمائی، اور حال ہی میں عربی زبان میں یکے بعد دیگرے تین کتابچے تحریر فرمائے، جن میں سے دو شائع ہوچکے ہیں، اور تیسرا زیرطبع ہے۔
حق گوئی کا فریضہ
غرض یہ مولانا کا خاص مزاج تھا کہ وہ جمہور علمائے سلف کے خلاف کسی نظرئے کو خاموشی سے برداشت نہ کرسکتے تھے، عام مجلسوں میں بھی ان کا یہی رنگ تھا کہ غلط بات پر بروقت تنقید کرکے حق گوئی کا فریضہ نقد ادا کردیتے تھے،۱۹۶۸ء میں جب ادارئہ تحقیقات اسلامی کی طرف سے ایک بین الاقوامی اسلامی کانفرنس منعقد ہوئی(جس کا اہتمام ادارئہ تحقیقات کے سابق ڈائریکٹرڈاکٹرفضل الرحمٰن صاحب نے کیا تھا) تو اس کے پہلے یہ اجلاس میں ایک مقرر نے حضرت عمرؓ کی اوّلیات کو غلط انداز میں پیش کرکے متجدّ دین کے آزاد اجتہاد کے لیے گنجائش پیدا کرنی چاہی اور اس کے لیے انداز بھی ایسااختیار کیا کہ جیسے قوت اجتہادیہ میں حضرت عمرؓ کے اور ہمارے درمیان کوئی خاص فرق نہیں، اس محفل میں عالم اسلام کے معروف اور جیّد علماء موجود تھے، لیکن اس موقع پر اس بھرے مجمع میں جن صاحب کی آواز سب سے پہلے گونجی، وہ حضرت مولانا بنوریؒ تھے، انہوں نے مقرر کی تقریر کے دوران ہی صدر محفل مفتی اعظم فلسطین مرحوم سے خطاب کرکے فرمایا:
’’سیدی الرئیس ! ارجو کم ان تلجموا ھذا الخطیب ارجوکم ان تلجموہ، ماذا یقول؟‘‘
’’جناب صدر! ان مقرر صاحب کو لگام دیجئے، براہ کرم ان کو لگام دیجئے، یہ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘،ان کے یہ بلیغ الفاظ آج بھی کانوں میں گونج رہے ہیں.
عالم عرب میں علماء دیوبند کا تعارف
مولانا کی رگ و پے میں اس بات کا یقین و اعتقاد پیوست تھا کہ اکابر علماء دیوبند اس دور میں’’ ماانا علیہ و اصحابی‘‘ کی عملی تفسیر تھے اور ان کا فہم دین اس دور میں خیر القرون کے مزاج و مذاق سے سب سے زیادہ قریب تھا، وہ چاہتے تھے کہ اکابر دیوبند کے اذکار اور ان کے علمی و دینی کارناموں کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے، چنانچہ جب مولاناؒ ایک طویل عرصے کے لیے پہلی بار حجاز اور مصر و شام کے سفر پر تشریف لے گئے تو وہاں قیام کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ علماء دیو بند کی خدمات اور ان کی علمی تحقیقات سے عالم عرب کو روشناس کرایا جائے، چنانچہ مولاناؒ نے علماء دیو بند اور ان کی علمی خدمات پر مفصل مضامین لکھے جو وہاں کے صفِ اول کے اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے، اور ان کے ذریعے مصر و شام کے چوٹی کے علماء مولانا بنوریؒ سے قریب آگئے، مولاناؒ نے انہیں مختلف صحبتوں میں اکابر دیوبند کے علوم سے متعارف کرایا اور کم از کم علماء کی حد تک مصر و شام میں علماء دیو بند کے کارنامے اجنبی نہیں رہے۔
حضرت بنوریؒ کی علامہ جوہرطنطاوی سے ملاقات
اسی دوران ایک مشہور عربی رسالے کے دفتر میں مولانا ؒ کی ملاقات علامہ جوہر طنطاوی مرحوم سے ہوگئی جنکی’’تفسیر الجواہر‘‘ اپنی نوعیت کی منفرد تفسیر ہے، بعض لوگوں نے تو امام رازیؒ کی تفسیر کبیر پر یہ فقرہ چست کیا ہے کہ’’ فیہ کل شیئٍ الا التفسیر‘‘(یعنی اس میں تفسیر کے سوا سب کچھ ہے) لیکن واقعہ یہ ہے کہ تفسیر کبیر کے بارے میں یہ جملہ بہت بڑا ظلم ہے، ہاں اگر موجودہ دور میں کسی کتاب پر یہ جملہ کسی درجے میں صادق آسکتا ہے تو وہ علامہ طنطاوی مرحوم کی تفسیر الجواہر ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ یہ کتاب تفسیر کی نہیں، بلکہ سائنس کی کتاب ہے اور سائنس کی باتوں کو قرآن کریم سے ثابت کرنے کے شوق میں علامہ طنطاوی مرحوم نے بعض جگہ آیاتِ قرآنی کی تفسیر میں ٹھوکریں بھی کھائی ہیں۔
علامہ طنطاوی مرحوم سے حضرت مولانا بنوریؒ کا تعارف ہوا تو انہوں نے مولانا سے پوچھا کہ کیا آپ نے میری تفسیر کا مطالعہ کیا ہے؟ مولاناؒ نے فرمایا کہ’’ہاں!اتنا مطالعہ کیا ہے کہ اس کی بنیاد پر کتاب کے بارے میں رائے قائم کرسکتا ہوں،‘‘ علامہ طنطاوی نے رائے پوچھی تو مولانا نے فرمایا، ’’آپ کی کتاب اس لحاظ سے تو علماء کے لیے احسان عظیم ہے کہ اس میں سائنس کی بے شمار معلومات عربی زبان میں جمع ہوگئی ہیں، سائنس کی کتابیں چونکہ عموماً انگریزی زبان میں ہوتی ہیں اس لیے عموماً علمائے دین ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے، آپ کی کتاب علماء دین کے لیے سائنسی معلومات حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، لیکن جہاں تک تفسیر قرآن کا تعلق ہے، اس سلسلے میں آپ کے طرز فکر سے مجھے اختلاف ہے، آپ کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ عصرِ حاضر کے سائنس دانوں کے نظریات کو کسی نہ کسی طرح قرآن کریم سے ثابت کردیا جائے، اور اس غرض کے لیے آپ بسا اوقات تفسیر کے مسلّمہ اصولوں کی خلاف ورزی سے بھی دریغ نہیں کرتے، حالانکہ سوچنے کی بات ہے کہ سائنس کے نظریات آئے دن بدلتے رہتے ہیں، آج آپ جس نظریے کو قرآن سے ثابت کرنا چاہتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ کل وہ خود سائنس دانوں کے نزدیک غلط ثابت ہو جائے، کیا اس صورت میں آپ کی تفسیر پڑھنے والا شخص یہ نہ سمجھ بیٹھے گا کہ قرآن کریم کی بات(معاذ اللہ)غلط ہوگئی!
مولاناؒنے یہ بات ایسے مؤثر اور دلنشین انداز میں بیان فرمائی کہ علامہ طنطاوی مرحوم بڑے متاثر ہوئے اور فرمایا:
’’ایھا الشیخ ! لست عالماًھند یا وانما انت ملک انزلہ اللہ من السماء لا صلاحی‘‘
(مولانا!آپ کوئی ہندوستانی عالم نہیں ہیں، بلکہ آپ کوئی فرشتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے میری اصلاح کے لیے نازل کیا) یہ واقعہ میں نے مولاناؒ سے بارہا سنا، اور شاید’’بینات‘‘ کے کسی شمار میں بھی مولانا نے اسے نقل بھی کیا ہے۔
والد ماجد مفتی محمد شفیع صاحب ؒکی حضرت بنوریؒ سےمحبت اور دونوں کا باہمی تعلق
احقر کے والد ماجد حضرت مولانا مفتی شفیع صاحبؒ کو مولانا بنوریؒ سے بڑی محبت تھی، اور ان کے اخلاص و للہیت اور علمی و عملی صلاحیتوں کی بڑی قدر فرماتے تھے،اگرچہ دارالعلوم کے جلسوں میں کئی بار مولاناؒ نے تقریر کے دوران فرمایا کہ حضرت مفتی صاحبؒ میرے استاذ ہیں، اور میں نے مقامات حریری آپ ہی سے پڑھی ہے، لیکن حضرت والد صاحب ؒ مولاناؒ کے علمی و عملی کمالات کی بناء پر ان کا نہایت اکرام فرماتے تھے، چنانچہ یہ دونوں بزرگ علمی اور اجتماعی مسائل میں ایک دوسرے سے مشورے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے، ملاقاتیں اور مشورے تو پہلے بھی رہتے تھے، لیکن جب سے مولاناؒ کراچی میں قیام پذیر ہوئے، اس وقت سے تو دونوں بزرگوں کے درمیان آمدورفت بہت بڑھ گئی تھی اس وجہ سے ہم خدام کو گذشتہ بیس سال میں حضرت مولانا بنوریؒ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے اور جتنا جتناقرب بڑھتا گیا، اسی نسبت سے مولانا ؒ کی محبت و عظمت اور عقیدت میں اضافہ ہوتا چلاگیا ۔
مجلس تحقیق مسائل حاضرہ
حضرت والد صاحبؒ اور مولاناؒ نے جدیدفقہی مسائل کی تحقیق کے لیے مدرسہ عربیہ نیو ٹاؤن اور دارالعلوم کراچی کے علماء پر مشتمل ایک مجلس تحقیق مسائل حاضرہ قائم فرمائی تھی جس کا اجلاس ہر ماہ دارالعلوم کورنگی یا مدرسہ عربیہ نیو ٹاؤن میں منعقد ہوا کرتا تھا یہ مجلس عام طور سے صبح کو شروع ہوکر شام تک جاری رہتی، بیچ میں کھانے اور نماز کا وقفہ ہوتا، پیچیدہ فقہی مسائل زیر بحث آتے، کتابوں کا اجتماعی طور سے مطالعہ ہوتا، تمام شرکاء مجلس اپنا اپنا نقطہ نظر آزادی سے پیش کرتے، ہم جیسے فرو مایہ خدام بھی اپنے طالب علمانہ شبہات کھل کر پیش کرتے، اور یہ بزرگ کمال شفقت کے ساتھ انہیں سنتے اور جب تک تمام شرکاء مطمئن نہ ہوجاتے فیصلہ نہ ہوتا۔
حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا بنوریؒدونوں کی طبیعت ان مجلسوں میں کھل جاتی تھی اور ہم خدام دونوں کے علمی افادات سے نہال ہوجاتے، اور پھر یہ مجلسیں خشک علمی مسائل تک محدود نہ تھیں، بلکہ دونوں بزرگوں کی شگفتہ مزاجی اور علمی و ادبی مذاق نے ان مجلسوں کو ایسا باغ و بہار بنادیا تھا کہ مجلس کا دن آنے سے پہلے ہی بڑے اشتیاق کے ساتھ اس کا انتظار لگتا تھا، علمی تحقیقات کے علاوہ یہ مجلسیں نہ جانے کتنے لطائف و ظرائف اور دلچسپ و سبق آموز واقعات سے معمور ہوتی تھیں، حضرت والد صاحب ؒ کا ذہن اکابر علمائے دیو بند کے واقعات کا خزانہ تھا، اور کوئی بھی موضوع چھڑجائے حضرت والد صاحب ؒ دیو بند کے بزرگوں میں سے کبھی حضرت تھانویؒ کا کبھی حضرت میاں صاحب کا، کبھی حضرت شاہ صاحبؒ کا، کبھی حضرت مفتی عزیز الرحمٰن صاحبؒ کا، اور کبھی کسی اور بزرگ کا کوئی واقع سنادیتے اور مجلس کے لیے رہنمائی کا ایک نیا دروازہ کھل جاتا، حضرت مولانا بنوریؒ نے بارہا فرمایا کہ مجھے تو حضرت مفتی صاحبؒ سے ملاقات کا شوق اس لیے لگتا ہے کہ ان کے پاس پہنچ کر اپنے بزرگوں کے نئے نئے واقعات سننے کو مل جاتے ہیں، ادھر حضرت بنوریؒ کو حضرت شاہ صاحبؒ سے جو خصوصی صحبتیں رہیں، حضرت والد صاحب ؒ ان کے حالات بڑے ذوق و شوق سے باقاعدہ فرمائش کرکے سنا کرتے، اور سنانے والے حضرت والد صاحبؒ ہوں یا حضرت بنوریؒ ہم خدام کے لیے تو ہر حال میں چاندی ہی چاندی تھی، اللہ اکبر، یہ پرکیف نورانی مجلسیں کس طرح دیکھتے ہی دیکھتے خواب و خیال ہو گئیں، حضرت والد صاحبؒ ان محفلوں میں اکثر اپنے اساتذہ کا ذکر فرما کر عجیب کیف کے عالم میں یہ مصرع پڑھا کرتے تھے کہ:
ایک محفل تھی فرشتوں کی جو برخاست ہوئی
کسے خبر تھی کہ چند ہی سالوں میں یہ محفلیں بھی برخاست ہونے والی ہیں!
غرض علمی اور اجتماعی مسائل میں حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کا اشتراک عمل ہم خدام کے لیے گو ناگوں فوائد کا دروازہ بن گیا، اکثر و بیشتر اجتماعی مسائل میں کوئی تحریر لکھی جاتی تو وہ حضرت والد صاحب اور حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے مشترکہ طور پر شائع ہوتی ، اور اس کا مسودہ تیار کرنے کا مرحلہ آتا تو ہم خدام میں سے کسی کو اس کے لیے مامور کیا جاتا اور بسا اوقات قرعہ فال احقر کے نام پڑتا، مسودے کو جب ان بزرگوں کے سامنے پیش کیا جاتا اور یہ حضرات اس کی عبارت میں کوئی اصلاح فرماتے تو اس سے نت نئے آداب و فوائد حاصل ہوتے تھے اور جب کسی تحریر پر ان حضرات کی طرف سے دعائیں ملتیں تو ایسا محسوس ہوتا کہ دنیا و ما فیہا کی تمام نعمتیں دامن میں جمع ہوگئی ہیں۔
کراچی :علمی اوردینی مرکز
حضرت والد صاحبؒ اور حضرت بنوریؒ کی وجہ سے کراچی کو پورے ملک میں علمی اور دینی اعتبار سے مرکزیت حاصل تھی، چنانچہ جب کوئی اجتماعی مسئلہ اٹھتا اطرافِ ملک سے اہل علم کراچی کا رخ کرتے تھے، اس طرح ان حضرات کے طفیل ملک بھر کے اہل علم و دین سے نیاز حاصل ہوتا رہتا تھا، پچھلے سال جب حضرت والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کا حادثہ پیش آیا تو اس مرکزیت کا ایک زبردست ستون گرگیا، حضرت بنوریؒ اس وقت سکھر میں تھے اور تقریباً سو ۱۰۰ میل کا سفر کرکے کراچی کے لیے طیارہ پکڑنا چاہا، لیکن سیٹ نہ مل سکی، اور نماز جنازہ اور تدفین میں شامل نہ ہو سکے۔ بعد میں جب تعزیت کے لیے تشریف لائے تو وہ بچوں کی طرح رو رہے تھے، اور زبان پر بار بار بے اختیار یہ جملہ تھا کہ’’ اب ہم مشورے کے لیے کہاں جائیں گے؟‘‘ کسے معلوم تھا کہ مولاناؒ کا یہ اضطراب صرف سال بھر کا ہے، اور آئندہ سال اسی مہینے میں کراچی کی دینی مرکزیت کا یہ دوسرا ستون بھی گر جائے گا، حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد حضرت بنوریؒ کی ذات ہم سب کے لیے ایک عظیم سہارا تھی آہ! کہ اب یہ سہارا بھی ٹوٹ گیا، اب ملک کے دوسرے حصوں کی طرح کراچی میں بھی سناٹا ہی سناٹا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت بنوریؒ کی وفات یوں تو پوری ملت کے لیے ایک عظیم سانحہ ہے، لیکن احقراور برادر محترم جناب مولانا محمد رفیع عثمانی مد ظلہم کے لیے یہ ایسا ہی ذاتی نقصان ہے جیسے مولاناؒ کے قریبی اعزّہ کے لیے، اس لیے کہ وہ ہم پر اس درجہ شفیق اور مہربان تھے کہ الفاظ کے ذریعے ان کا بیان ممکن نہیں یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے بیس سال تک حضرت مولاناؒ کی صحبتیں عطا فرمائیں، صرف علمی محفلوں ہی میں نہیں ، نجی مجلسوں اور سفرو حضر میں بھی مولاناؒ کی معیّت نصیب ہوئی، مولاناؒ کی شفقتوں کا عالم یہ تھا کہ وہ ہماری کمسنی کا لحاظ کرتے ہوئے خود بھی بچوں میں بچے بن جاتے تھے۔
والدماجدؒاورحضرت بنوریؒ کے ساتھ بنگلہ دیش کایادگار سفر
۱۹۶۵ء میں حضرت والد صاحب ؒ اور مولاناؒنے مشرقی پاکستان کا ایک ساتھ تبلیغی سفر کیا، یہ ناکارہ بھی ہمراہ تھا، سلہٹ میں ہمارا قیام مجد الدین صاحب مرحوم کے صاحبزادے محی السنۃ صاحب کے یہاں تھا، سلہٹ بڑا سر سبز و شاداب اور خوبصورت علاقہ ہے، لیکن یہاںپہنچنے کے بعد مسلسل علمی اور تبلیغی مجلسوں کا ایسا تانتا بندھا کہ جس کمرے میں آکر اُترے تھے، وہاں سے باہر نکلنے کا موقع ہی نہ ملا، یہاں تک کہ جب اگلے دن فجر کی نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اسی کمرے میں اپنے وظائف و اوراد کے معمولات میں مشغول ہوگئے، اور حضرت بنوریؒ نے بھی اپنے وظائف شروع کردیے، میں اس انتظار میں تھا کہ ذرا مہلت ملے تو حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت لے کر کہیں ہوا خوری کے لیے باہر چلاجاؤں، مولاناؒ نے میرا یہ ارادہ بھانپ لیا، اور خود ہی بلا کر پوچھا:’’کیا باہر جانا چاہتے ہو؟‘‘مجھے مولاناؒ نے بے تکلف بنایا ہوا تھا، میں نے عرض کیا:’’حضرت!ارادہ تو ہے، مگر آپ بھی تشریف لے چلیں تو بات بنے۔‘‘ بس یہ سننا تھا کہ مولاناؒ اپنے معمولات کو مختصر کرکے تیار ہوگئے، اور خود ہی حضرت والد صاحبؒ سے فرمایا:ذرا میں تقی میاں کو سیر کرالاؤں،‘‘ چنانچہ باہر نکلے اور تقریباً گھنٹہ بھر تک مولاناؒ اس ناکارہ کے ساتھ کبھی چائے کے باغات میں، کبھی شہر کے اونچے اونچے ٹیلوں پر گھومتے رہے، سلہٹ کے علاقے میں نباتات اس کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ ایک گز زمین بھی خشک تلاش کرنی مشکل ہے، مولاناؒ جب کوئی خاص پودا دیکھتے تو اس کے بارے میں معلومات کا ایک دریا بہنا شروع ہو جاتا، اس پودے کا اردو میں یہ نام ہے، عربی میں یہ نام ہے، فارسی اور پشتو میں فلاں نام ہے، اور اس کے یہ یہ خصائص ہیں غرض یہ تفریح بھی ایک دلچسپ درس میں تبدیل ہوگئی۔
مجھے بعد میں خیال بھی ہوا کہ مولاناؒ کے گھٹنوں میں تکلیف ہے، اور میں نے خوامخواہ مولاناؒ کو زحمت دی چنانچہ میں نے کئی بار اپنی جسارت پر معذرت کی، لیکن مولاناؒ ہر بار یہ فرماتے کہ مناظرِ قدرت اللہ کا بہت بڑا عطیہ ہیں اور انہیں دیکھ کر نشاط حاصل کرنے کا شوق انسان کا فطری تقاضا ہے، تمہاری وجہ سے میں بھی ان مناظر سے محظوظ ہوگیا، اور پھر جتنے دن سلہٹ میں رہے، روزانہ فجر کے بعد یہ معمول بن گیا، مولاناؒ کے زیر سایہ سلہٹ کی یہ سیر تفریح کی تفریح ہوتی، اور درس کا درس ہوتا، مولاناؒ کو معلوم تھا کہ احقر کو عربی ادب سے لگائو ہے، اس لیے مولاناؒ اس دوران عربی ادب کے لطائف و ظرائف بیان فرماتے، نادر اشعار سناتے، شعراء عرب کے درمیان محاکمہ فرماتے اور اس تفریح میں نظروں کے ساتھ قلب و روح بھی شاداب ہو کر لوٹتے تھے۔
اس طرح ایک مرتبہ برادر محترم جناب مولانا محمد رفیع عثمانی مدظلہم ڈھاکہ میں حضرت والد صاحبؒ کے ساتھ تھے ،مولانا بھی تشریف فرما تھے، مولاناؒنے خود بھائی صاحب سے فرمایا کہ’’چلو، تمہیں چاٹگام کی سیر کرالائوں‘‘ چنانچہ حضرت والد صاحب سے اجازت لے کر مولاناؒ اور بھائی صاحب ڈھاکہ سے چاٹگام روانہ ہوگئے، ریل میں جگہ تنگ تھی، اور ایک ہی آدمی کے لیٹنے کی گنجائش تھی، مولاناؒ نے بھائی صاحب کو لیٹنے کا حکم دیا، لیکن بھائی صاحب نہ مانے، تو انہیں زبر دستی لٹادیا، اور خود ان کی ٹانگوں کو اس زور سے پکڑ کر ان کے پاؤں کی طرف لیٹ گئے کہ وہ اٹھ نہ سکیں ،اپنے ایک شاگرد کے ساتھ یہ معاملہ وہی شخص کرسکتا ہے جسے اللہ نے حقیقی تواضع کے مقام بلند سے سرفراز کیا ہو۔
حضرت بنوریؒ کے ساتھ سفرحجاز وافریقہ کی یادیں
مولاناؒ کی شفقتوں کا کہاں تک شمار کیا جاسکتا ہے؟ بفضلہ تعالیٰ ان کے ساتھ بہت سے سفروں میں بھی رفاقت نصیب ہوئی اور ہر سفر مولاناؒ کی محبت و عظمت اور عقیدت میں کئی گنا اضافہ کرکے ختم ہوا، اپنے رفقأ کے ساتھ مولاناؒ کا طرزِ عمل حیرت انگیز حد تک مشفقانہ ہوتا تھا، اور اس ناچیز کے ساتھ تو مولاناؒ بالکل ایسا معاملہ فرماتے تھے اور احقرکا ایسی باریک بینی کے ساتھ خیال رکھتے تھے جیسے کوئی باپ اپنے کمسن بچے کا خیال رکھتا ہو رمضان ۱۳۹۵ھ میں جب مولاناؒ افریقہ کے سفر پر جانے لگے تو احقر کو بھی رفاقت کا شرف عطا فرمایا۔ہم پہلے حجاز گئے، اور اللہ تعالیٰ نے حجاز تک حضرت والد صاحب ؒ کی معیت بھی نصیب فرمادی، لیکن حضرت والد صاحبؒ اخیر رمضان میں واپس کراچی تشریف لے آئے، اور احقر حضرت بنوریؒ کے ساتھ حجاز میں ٹھہر گیا، ان دنوں حضرت والد صاحبؒ کی طبیعت ناساز تھی، اس لیے میں صبح و شام انتہائی فکر مند رہتا تھا کہ بھوک اڑ گئی تھی، مولانا ؒ کو احساس تھا کہ حضرت والد صاحبؒ سے جدائی احقر کے لیے انتہائی صبر آزما ہے، وہ خود فرماتے تھے کہ’’میں جانتا ہوں،تمہیں اپنے والد سے عشق ہے‘‘اس لیے مولاناؒ اپنی شگفتہ مزاجی سے میری فکر کو زائل کرنے کی کوشش فرماتے رہتے تھے۔
اس کے بعد ہم نیروبی پہنچے تو وہاں کی آب و ہوا قدرتی مناظر اور خنک موسم سے میری صحت پر اچھا اثر ہوا، ادھر حضرت والد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی صحت کی خبر بھی مل گئی تھی اس لیے میری طبیعت میں قدرے شگفتگی اور نشاط پیدا ہوگیا، اسی دوران ایک دوپہر کو ہم کھانے پر بیٹھے تھے، میرے اور مولاناؒ کے درمیان دو آدمی حائل تھے، کھانے کے بعد جب احقر مولاناؒ کے کمرے میں پہنچا تو فرمانے لگے، ’’آج مجھے بڑی خوشی ہو رہی ہے‘‘، میں نے عرض کیا، ’’کیوں؟‘‘ فرمایا ’’آج کے کھانے پر تم نے رغبت کے ساتھ دو سے زیادہ روٹیاں کھائی ہیں۔‘‘
مولانا کا یہ جواب سن کر میں دنگ رہ گیا اللہ اکبر ! مولانا اپنے ایک نا کارہ خادم کے بارے میں یہاں تک خیال رکھتے تھے کہ اس کی بھوک اور خوراک میں کیا کمی اور کیا اضافہ ہورہا ہے ؟ اور یہ تو ایک چھوٹا سا واقعہ ہے، اگر میں مولاناؒ کے ساتھ کیے ہوئے سفروں کے واقعات لکھنے شروع کروں تو ایک مفصل مقالہ صرف اس کے لیے چاہیے۔ احقر نے افریقہ سے واپسی پر حضرت والد صاحبؒ سے مولاناؒ کی اس قسم کی رعایتوں کا ذکر کیا تو حضرت والد صاحبؒ نے فرمایا: ’’یہ وصف صرف کتابیں پڑھنے سے انسان میں پیدا نہیں ہوتا، یہ جو ہر بزرگوں کی صحبت سے ملتا ہے‘‘۔
حضرت بنوریؒ سے باضابطہ تلمذ
یوں تو احقر مولاناؒ کا شاگرد ہی تھا، اور ہر ملاقات میں مولاناؒ سے کوئی نہ کوئی علمی فائدہ حاصل ہوجاتا تھا، لیکن ان سے باقاعدہ کوئی کتاب پڑھنے کا موقع نہیں ملا تھا، احقر نے کئی بار خواہش ظاہر کی تو مولاناؒ طرح دے گئے، افریقہ کے سفر میں احقر نے مدینہ طیبہ سے اصول حدیث پر حافظ ابن کثیرؒ کی ایک کتاب ’’الباعث الحثیث‘‘ خریدلی تھی، احقر نے عرض کیاکہ میں یہ کتاب آپ سے پڑھنا چاہتا ہوں، مولاناؒ شروع میں اپنی تو اضع کے سبب انکار فرماتے رہے، بالآخر احقر نے ایک روز فجر کے بعد مولاناؒ سے عرض کیا کہ ’’میں اس کتاب کی عبارت آپ کے سامنے پڑھنے پر اکتفا کروں گا، اس پر مولاناؒ راضی ہوگئے میں جانتا تھا کہ جب بات چھڑے گی تو مولاناؒ خاموش نہ رہ سکیں گے چنانچہ احقر نے عبارت پڑھنی شروع کی، بس پھر مولاناؒ کھل گئے، اور تقریباً کتاب کے ہر فقرے پر کچھ نہ کچھ نئے افادات بیان فرمائے، افسوس ہے کہ حضرت والد صاحبؒ کی علالت کی بنا پر مجھے افریقہ سے جلد واپس آنا پڑا، اور یہ کتاب مولاناؒ کے سامنے مکمل نہ ہو سکی، لیکن بحمد اللہ اس طرح ضابطے کا تلمذّ بھی مولاناؒ سے حاصل ہوگیا، مندرجہ ذیل باتیں جو مولاناؒ نے اس درس میں بیان فرمائی تھیں، اب تک یاد ہیں۔
(۱)حافظ ابن کثیرؒ اگرچہ مسلکاً شافعی ہیں، لیکن علامہ ابن تیمیہؒ کے شاگرد ہونے کی وجہ سے ان کے متعدد تفردات میں ان کے ہم نواہیں، مثلاً شدِّر حال کے مسئلے میں۔
(۲)علماء حدیث کا اس مسئلہ میں اختلاف رہا ہے کہ کون سی سندا صح الاسانید ہے، امام احمدؒ نے ’’زہری عن سالم عن ابیہ‘‘ کو اصبح الاسانید قرار دیا ہے۔ علی ابن المدینی نے ’’محمد بن سیرین عن عبیدۃ عن علیؓ ‘‘ کومانا ہے ،اور یحییٰ بن معینؒ نے ’’اعمش عن ابرہیم عن علقمہ عن ابن مسعودؒ‘‘ کو، لیکن در حقیقت ان میں سے کسی کو علی الاطلاق اصح الا سانید کہنا مشکل ہے، در حقیقت اقوال کا یہ اختلاف اپنے اپنے علاقوں کی وجہ سے ہے، امام احمدؒ کا قول اہل مدینہ کے لحاظ سے درست ہے، علی ابن المدنییؒ کا قول بصرہ کے لحاظ سے صحیح ہے، اور یحییٰ بن معینؒ کا قول اہل کوفہ کے لحاظ سے، اس کے علاوہ بھی اس درس کی بعض باتیں احقر کے پاس لکھی ہوئی محفوظ ہیں۔
احقر پر حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ تھا کہ جب سے البلاغ شائع ہونا شروع ہوا، وہ احقر کی تحریروں پر عام طور سے ایک سرسری نظر ضرور ڈال لیتے تھے، اور ملاقات کے وقت کوئی قابل اصلاح بات ہوتی تو اس پر تنبیہ بھی فرمادیتے، اور کوئی بات پسند آتی تو اس پر حوصلہ افزائی بھی فرماتے، اور یہ بات احقر کے لیے مایہ صدافتخار ہے کہ حضرت مولاناؒ نے البلاغ کی تحریروں پر اظہار پسندیدگی کرتے ہوئے اپنی تصنیف’’معارف السنّن‘‘ کا ایک سیٹ احقر کو بطور انعام عطا فرمایا جس کی پہلی جلد پر اپنے قلم سے یہ عبارت نہایت پاکیزہ خط میں تحریر فرمائی :
’’أقدّم ھذا الکتاب بأجزائہ الستۃ المطبوعۃ الی أخی فی اللہ الاستاذ الزکیّ والعالم الذکی الشاب التقی محمّد تقی إعجاباً بنبو غہ فی کتابات مجلّۃ الشھریۃ ’’البلاغ‘‘ خصوصاًفی ردّہٖ علی کتاب ’’خلافت و ملوکیت‘‘ ردّا بلیغاً ناجعا حفظہ اللہ ووفقّہ لا مثال امثالہٗ وھو الموفق‘‘ کتبہ محمد یو سف البنوری ۲۶/۳/۹۱ھ
جہاں تک کتابی علم کا تعلق ہے، دنیا میں اب بھی اس کی کمی نہیں، نہ جانے کتنے بڑے بڑے محققین آج بھی موجود ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے اکا بر علمائے دیوبند کو جو خصوصیت عطا فرمائی تھی وہ یہی تھی کہ علم و فضل کا دریائے نا پیدا کنار ہونے کے باوجودان کی ادا سادگی اور تو اضع میں ڈوبی ہوئی تھی، حضرت مولانا بنوریؒ کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے مشائخ کی اس میراث سے حصۂ وافر عطا فرمایا تھا، ان کے عظیم کاموں کا راز در حقیقت ان کے اخلاص، ان کی للہیت ان کی سادگی وبے تکلفی اوران کی تواضع میں تھا۔
حضرت بنوریؒ اورتحریک ختم نبوت کی قیادت
مولاناؒ کے عملی کارناموں میں سب سے نمایاں کارنامہ تحریک ختم نبوت کی کامیاب قیادت تھی، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ سالہا سال سے چلا آرہا تھا، اور ۱۹۵۳ء میں ہزا رہا مسلمانوں نے اس کے لیے عظیم قربانیاں دی تھیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس مسئلے کو سرکاری اور قانونی سطح پر ۱۹۷۳ء کی جس تحریک کے ذریعے حل کرایا اس کے قائد مولانا بنوریؒ تھے، اس تحریک کے دوران احقر کو مولاناؒ کے ساتھ کئی سفروں میں ساتھ رہنے کا موقع ملا، اور احقر نے ان کے جس طرز عمل کا مشاہدہ کیا اس کے پیش نظر احقر کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ انشاء اللہ یہ تحریک ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔
کوئٹہ کے سفر میں احقر مولاناؒ کے ہمراہ تھا، جہاں مولانا کو کل چوبیس گھنٹہ ٹھہرنا تھا جس میں تین مجلسوں سے خطاب کرنا تھا، ایک پریس کانفرنس تھی، گورنر بلوچستان سے ملاقات تھی اور عشاء کے بعد جامع مسجد میں ایک عظیم الشان جلسہ عام تھا، سارے دن مولاناؒ کو ایک لمحہ بھی آرام نہ مل سکا اور رات کو جب ہم جلسئہ عام سے فارغ ہوکر آئے تو بارہ بج چکے تھے، خود میں تھکن سے نڈھال ہورہا تھا مولاناؒ تو یقینا مجھ سے زیادہ تھکے ہوئے ہوں گے، میں نے بارہا کوشش کی تھی کہ مولاناؒ کبھی جسمانی خدمت کا موقعہ دے دیں، لیکن وہ ہمیشہ سے انکار فرمادیتے تھے، اُس رات احقر نے کچھ ایسے ملتجیا نہ انداز میں مولاناؒ سے پائوں دبانے کی اجازت چاہی کہ مولاناؒ کو رحم آگیا، اور انہوں نے اجازت دے دی، لیکن یہ محض میری خاطر داری تھی، چنانچہ ہر تھوڑی دیر بعد وہ کچھ دعائیں دے کر پائوں سمیٹنے کی کوشش کرتے، بالآخر میں نے جب محسوس کیا کہ ان کو پائوں دبوانے کی راحت سے زیادہ طبیعت پر بار ہورہا ہے تو میں نے چھوڑ دیا، اس کے بعد میں سوگیا، رات کے آخری حصے میں آنکھ کھلی تو دیکھا کہ چار پائی خالی ہے اور وہ قریب بچھے ہوئے ایک مصلّے پر سجدے میں پڑے ہوئے سسکیاں لے رہے ہیں، اللہ اکبر! ایسے سفر، اتنے تکان اور اتنی مصروفیات میں بھی ان کا نالۂ نیم شبی جاری تھا، یہ دیکھ کر مجھے ایک تو ندامت ہوئی کہ مولاناؒ اپنے ضعف، علالت اور سفر کے باوجود بیدار ہیں اور ہم صحت اور نو عمری کے باوجود محوِ خواب! اور دوسری طرف یہ اطمینان بھی ہوا کہ جس تحریک کے قائد کا رشتہ ایسے ہنگامۂ دارو گیر میں بھی اپنے رب کے ساتھ اتنا مستحکم ہو ان شاء اللہ وہ نا کام نہیں ہوگی۔
نام ونمود کا فتنہ،دینی تحریکوں کی تباہی
اس زمانے میں ملک بھر میں مولاناؒ کا طوطی بول رہا تھا، اخبارات مولاناؒ کی سرگرمیوں سے خبروں سے بھرے ہوئے ہوتے تھے، اور ان کی تقریریں اور بیانات شہ سرخیوں سے شائع ہوتے تھے، چنانچہ جب صبح ہوئی تو میز بانوں نے اخبارات کا ایک پلندہ لاکر مولاناؒ کے سامنے رکھ دیا، یہ اخبارات مولاناؒ کے سفر کوئٹہ کی خبروں، بیانات، تقریروں اور تصویروں سے بھرے ہوئے تھے، مولاناؒ نے یہ اخبارات اٹھا کر ان پر ایک سرسری نظر ڈالی اور پھر فوراً ہی انہیں ایک طرف رکھ دیا، اس کے بعد جب کمرے میں کوئی نہ رہا تو احقر سے فرمایا: ’’آج کل جو تحریک دین کے لیے چلائی جائے اس میں سب سے بڑا فتنہ نام ونمود کا فتنہ ہے، یہ فتنہ دینی تحریکوں کو تباہ کر ڈالتا ہے، مجھے بار بار یہ ڈر لگتا ہے کہ میں اس فتنہ کا شکار نہ ہوجائوں، اور اس طرح یہ تحریک نہ ڈوب جائے، دعا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس فتنے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے، ورنہ یہ ہمارے اعمال کو توبے وزن بناہی دے گا اس مقدس تحریک کو بھی لے کر بیٹھ جائے گا۔‘‘
یہ بات فرماتے ہوئے مولاناؒ کے چہرہ پر کسی تصنع یا تکلف کے آثارنہ تھے، بلکہ دل کی گہرائیوں میں پیدا ہونے والی تشویش نمایاں تھی! مولانا بنوریؒ کے علم و فضل اور دین کے لیے ان کی جدوجہد کے حالات تو ان شاء اللہ بہت لکھے جائیں گے، لیکن مولاناؒ بنوریؒ کے اصلی کمالات یہ تھے جو انہیں اپنے بزرگوں کی خدمت و صحبت سے حاصل ہوئے تھے ، خوف و خشیت، بیم ورجاء، اخبات و انابت اور اخلاص وللہیت کی یہ صفات تھیں جنہوں نے ان کو مقبولیت کے اس مقام بلند تک پہنچایا اور جنہوں نے ان کے کاموں میں برکت اور ان کی جدوجہد کو کامیابی عطا کی، رحم اللہ تعالی و طیب ثراہ وجعل الجنۃ مثواہ!
حضرت والد ماجدؒ کی وفات کے بعد خصوصی شفقت اور تعلق
والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ہم لوگوں کے لیے زندگی کا سب سے بڑا دھکاّ اور سب سے بڑا حادثہ تھا، اس حادثے پر جن بزرگوں نے سرپرستی فرماکر ہم لوگوں کی ڈھارس بندھائی ان میں ہمارے مرشد ومربی عارف باللہ حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب عارفی (متّعنا اللہ بطول حیاتہ بالعا فیۃ)حال صدر دارالعلوم کراچی کے احسانات توبے حد وحساب ہیں ہی، اللہ تعالیٰ ان کے فیوض سے تادیر مستفید ہونے کی توفیق کامل مرحمت فرمائے آمین، لیکن مدارس کے ماحول میں حضرت بنوریؒ کی ذات ہمارے لیے بہت بڑا سہارا تھی۔
حضرت والد صاحبؒ کی وفات کے بعد برادر محترم جناب مولانا محمد رفیع صاحب عثمانی مد ظلہم العالی کو دارالعلوم کے اہتمام کی ذمہ داری قبول کرنے میں بڑا تردد تھا، اس موقع پر حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھائی صاحب کو بلا کر با صرار فرمایا کہ یہ فریضہ آپ ہی پر عائد ہوتا ہے، اور آپ ہی اسے بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں، اور ساتھ ہی ایک مہتمم مدرسہ پر جو فرائض عائد ہوتے ہیں، ان کے بارے میں ایسے زریں رہنما اصول بھائی صاحب مد ظلہم کو بتلائے جو مولاناؒ کے تجربات کا نچوڑ تھے، اور اب تک بھائی صاحب کی رہنمائی کررہے ہیں۔
حضرت والد صاحبؒ سے مولاناؒ کو جو تعلق تھا، مولاناؒ نے آخر دم تک اس کا حق ادا کیا، وقتاً فوقتاً دارالعلوم تشریف لا کر رہنمائی فرماتے رہے ایک مرتبہ تو بغیر کسی سابقہ اطلاع کے تشریف لے آئے جس کی مسرت و حلاوت اب تک محسوس ہو رہی ہے، بلکہ یہ بھی ارادہ ظاہر فرمایا کہ میں مہینے میں کم از کم ایک دن دارالعلوم میں گزارنا چاہتا ہوں، گو ناگوں مصروفیات کے سبب پھر اس کا تو موقع نہ مل سکا لیکن ان کی توجہات اور عنایتیں مسلسل اہل دارالعلوم کو حاصل رہیں، حضرت والد صاحب ؒ کی وفات کے بعد بخاری شریف کا افتتاح بھی مولاناؒ نے کرایا۔
جامعہ دارالعلوم کراچی میں بخاری شریف کا افتتاح
اور ابھی وفات سے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے جب دارالعلوم کا آغاز ہو رہا تھا تو برادر محترم جناب مولانا محمد رفیع صاحب عثمانی نے مولاناؒ سے فون پر عرض کیا کہ ’’حضرت! اب تو ہمیں آپ سے بخاری شریف کا افتتاح کرانے کی عادت ہوگئی ہے‘‘ جواب میں پہلے تو مزاحاً فرمایا کہ:’’لیکن التزام تو مستحبات کا بھی واجب الترک ہوجاتا ہے، اور آپ تو فقہاء ہیں‘‘ بھائی صاحب نے فرمایا’’حضرت یہ التزام نہیں، اعتیاد ہے‘‘ فرمانے لگے کہ ’’اگر آپ نہ کہتے تب بھی میری خواہش یہی ہوتی‘‘ بھائی صاحب نے عرض کیا کہ’’صبح نو بجے ان شاء اللہ گاڑی پہنچ جائے گی، لیکن ہمارے پاس سوزوکی ہے، اور اسے حضرتؒ کے پاس بھیجتے ہوئے ندامت ہوتی ہے کہ اس میں آپ کو (گھنٹوں کی تکلیف کی وجہ سے)زحمت ہوتی ہے‘‘ فرمانے لگے نہیں، نہیں!وہ تو بڑی آرام دہ گاڑی ہے، آپ اس کی بالکل فکر نہ کریں‘‘شام کو بھائی صاحب نے احقر سے فرمایا کہ مولاناؒ سے دوپہر کے کھانے کی بھی درخواست کردوں، چنانچہ احقر نے فون پر عرض کیا کہ’’اگر افتتاح بخاری کے ساتھ دوپہر کا کھانا بھی یہیں ہوجائے تو مزید کرم ہو‘‘ فرمایا:’’کچھ حرج نہیں، البتہ میرے ساتھ مدینہ طیبہ کے شیخ عبدالقادر بھی ہوں گے، ان کے لیے بغیر مرچ کا کھانا بنوالینا، اور مجھے چونکہ پرہیز ہے اس لیے تھوڑی سی یخنی بنوالینا مگر بس تھوڑی سی ہو’’ لقیمات یقمن صلبہ‘‘(چند چھوٹے سے نوالے لینے ہیں جو پشت سیدھی رکھ سکیں) مولانا ؒ نے یہ فرمائش کرکے مزید دل خوش کردیا۔
دو شنبہ ۲۵شوال ۱۳۹۷ھ کو مولاناؒ تشریف لائے طبیعت بحال نہ تھی، اور چلنا پھرنا تو عرصہ سے دوبھر تھا، لیکن نہایت شگفتگی کے ساتھ تشریف فرما ہوئے، اور فرمانے لگے کہ محض تحلۃً للقسم تھوڑا سا بیان کروں گا زیادہ کی ہمت نہیں، لیکن جب درس شروع ہوا تو طبیعت کھل گئی اور تقریباًایک گھنٹہ تدوینِ حدیث کے موضوع پر بڑی فاضلانہ تقریر فرمائی، جس کا خلاصہ اسی شمارے میں عزیزم مولوی شیخ رحیم الدین سلمہ، کے قلم سے الگ شائع ہورہا ہے، درس کے بعد دیر تک حاضرین کو اپنے علمی لطائف و ظرائف سے محظوظ فرماتے رہے، اسی دوران ہم نے چائے کے لیے درخواست کی تو فرمایا کہ’’خفیف قسم کی چائے بنوالو‘‘ لیکن پھر خود ہی فرمایا کہ’’خفیف ہونے کا فیصلہ کون کرے گا!لہذا چائے بنانے والے سے کہو کہ وہ پتیلی میں پانی جوش دے کر یہیں لے آئے، پتی میں خود ڈالوں گا‘‘ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور تمام چیزوں کی طرح چائے کے بارے میں بھی مولاناؒ کا ذوق بڑا نفیس تھا، فرمایا کرتے تھے کہ اچھی چائے کی تین خصوصیات ہیں، لب دوز ہو، لب سوز ہواور لبریز ہو۔
آخری سفر کی تمہید
چائے کے بعد حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر تشریف لے گئے، اور واپس آکردوپہر کا کھانا تناول فرمایا، برادر محترم جناب مولانا محمد رفیع عثمانی پاس بیٹھے تھے، وہ جس جس چیز کے تناول فرمانے کی درخواست کرتے، مولاناؒ لے لیتے، کسے معلوم تھا کہ دارالعلوم میں آخری بار مولاناؒ کی خاطر داری ہورہی ہے، اور ایک ہفتہ بعد ٹھیک اسی دن اور اسی وقت مولاناؒ ملائِ اعلیٰ کی مہمانی کے لیے تیار ہورہے ہوں گے!اسی روز مولاناؒ نے احقر سے پوچھا!’’اسلامی مشاورتی کونسل کا اجلاس جمعرات کو ہے،کب چلوگے؟‘‘احقر نے عرض کیا:’’جب آپ تشریف لے جائیں‘‘ فرمایا:’’میں نے جمعرات کو صبح آٹھ بجے کے طیارے سے سیٹ بُک کرالی ہے‘‘ میں نے عرض کیا:’’میں بھی اسی سے بکنگ کرا لیتا ہوں‘‘ اس طرح مولاناؒ کے آخری سفر میں بھی اللہ تعالیٰ نے احقر کو رفاقت کا شرف عطا فرمایا۔
جمعرات آئی، صبح کو میں ائیر پورٹ پہنچا تو مولاناؒ تشریف نہیں لائے تھے، میں دروازے پر انتظار کرتا رہا تھوڑی دیر بعد مولانا تشریف لائے، کچھ دنوں سے عام طور پر حضرت بنوریؒ کے ساتھ سفر میں مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق صاحب ہوا کرتے تھے، لیکن اس بار وہ صرف پہنچانے کے لیے آئے، اور ساتھ جانے کے لیے حضرت ؒ کے صاحبزادے مولانا محمد بنوری صاحب سلمہ تھے، طیارے میں ہم ساتھ چڑھے میں نے اور مولانا محمد صاحب نے مولاناکو اپنے کندھے کا سہارا کرنا چاہا، لیکن وہ جہاز کی سیڑھیوں کی دورویہ دیواروں سے سہارا لے کر چڑھتے رہے، کسے معلوم تھا کہ یہ مولاناؒ کا آخری سفر ہے، اور اسی لیے قدرت نے اس سفر میں خلاف معمول ان کے صاحبزادے کو ساتھ کردیا ہے بظاہر طیا رّہ راولپنڈی جارہا تھا اور مولاناؒ کو اسلام آباد جانا تھا، لیکن یہ کون جانے کہ مولاناؒ کی منزلِ مقصود اسلام آباد سے بہت آگے ہے، اور وہ اس سفر پر روانہ ہو رہے ہیں جہاں سے کوئی لوٹ کر دنیا میں نہیں آتا، ہمارے کان تو فضائی عملے کا صرف یہ اعلان سن رہے تھے کہ پچیس منٹ میں اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر پہنچے گا‘‘لیکن یہ کسی کو خبر نہ تھی کہ مولانا کے لیے یہ کہیں اور سے بُلاوا آیا ہے :
کس نہ دانست کہ منزل گِہ مقصود کجاست ایں قدر ہست کہ بانگِ جرسے می آید
مولاناؒ کو سفر میں چونکہ معاون کی ضرورت ہوتی تھی، اس لیے وہ اسلامی کونسل کے اجلاس میں اپنے کسی رفیق کو اپنے خرچ پر ساتھ لے جاتے تھے، میں نے مولانا سے عرض کیا کہ’’حضرت آئندہ آپ کو اپنی خدمت کے لیے کسی کو ساتھ لانے کی ضرورت نہیں، میں ساتھ موجود ہوتا ہوں، اور مجھے علیٰحدہ کمرے میں قیام کی بھی ضرورت نہیں، میں آپ ہی کے کمرے میں آپ کے ساتھ ٹھہر جایا کروں گا، اور اس طرح مجھے بھی تحصیل سعادت کا موقع مل جائے گا‘‘ مولاناؒ اس پر مسرور تو ہوئے، لیکن فرمایا:’’آپ کو اس نیت کا ثواب مل گیا، نیۃ المرء خیرمن عملہ(انسان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے)میں ابھی اپنا کام خود کرلیتا ہوں، میں نے اس وقت زیادہ اصرار نہ کیا کہ آئندہ سفر کے موقع پر دیکھا جائے گا لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ قدرت یہ الہامی الفاظ زبان سے ادا کرارہی ہے، اور احقر کی اس نیت کو نیت ہی رہنا ہے، اس کے ملبوسِ عمل ہونے کی نوبت کبھی نہ آسکے گی۔
حضرت بنوریؒ کی آخری تقریر:تبلیغی مقاصد کے لیے ٹی وی اور فلم کا استعمال
طیارے میں مولاناؒ حسب معمول شگفتہ رہے، اور جمعرات کا دن بھی ہشاش بشاش رہ کر گزارا، اس روز کونسل کی دو نشستیں تھیں، مولانا نے دونوں میں بھر پور حصہ لیا، جمعہ کی صبح تیسری نشست تھی اس میں مولاناؒ نے کونسل میں ایک نہایت اصولی، مختصر، مگر جامع تقریر فرمائی جو مولاناؒ کی آخری تقریر تھی کونسل کی نشستوں میں ایجنڈے سے باہر کی باتیں بھی بعض اوقات چھڑ جاتی ہیں، اسی سلسلہ میں دراصل ہوا یہ تھا کہ بعض حضرات نے مولاناؒ سے فرمائش کی تھی کہ وہ ٹیلی ویژن پر خطاب فرمائیں، مولاناؒ نے ریڈیو پر خطاب کرنے کو تو قبول کرلیا تھا، لیکن ٹیلی ویژن پر خطاب کرنے سے معذرت فرمادی تھی کہ یہ میرے مزاج کے خلاف ہے، اسی دوران غیر رسمی طور پر یہ گفتگو بھی آئی تھی کہ فلموں کو مخرب اخلاق عناصر سے پاک کرکے تبلیغی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں مولانا ؒ نے جو کچھ ارشاد فرمایا اس کا خلاصہ یہ تھا:
’’اس سلسلہ میں میں ایک اصولی بات کہنا چاہتا ہوں، اور وہ یہ کہ ہم لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو، لوگوں کو پکا مسلمان بنا کر چھوڑیں، ہاں اس بات کے مکلف ضرور ہیں کہ تبلیغ دین کے لیے جتنے جائز ذرائع ’’وسائل ہمارے بس میں ہیں ان کو اختیار کرکے اپنی پوری کوشش صرف کردیں، اسلام نے ہمیں جہاں تبلیغ کا حکم دیا ہے وہاں تبلیغ کے باوقار طریقے اور آداب بھی بتائے ہیں، ہم ان طریقوں اور آداب کے دائرے میں رہ کر تبلیغ کے مکلف ہیں، اگر ان جائز ذرائع اور تبلیغ کے ان آداب کے ساتھ ہم اپنی تبلیغی کوششوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو عین مراد ہے، لیکن اگر بالفرض ان جائز ذرائع سے ہمیں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ناجائز ذرائع اختیار کرکے لوگوں کو دین کی دعوت دیں، اور آداب تبلیغ کو پس پشت ڈال کر جس جائز و ناجائز طریقے سے ممکن ہو، لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں، اگر ہم جائز وسائل کے ذریعے اور آداب تبلیغ کے ساتھ ہم ایک شخص کو بھی دین کا پابند بنادیں گے تو ہماری تبلیغ کامیاب ہے، اور اگر ناجائز ذرائع اختیار کرکے ہم سو (۱۰۰) آدمیوں کو بھی اپنی ہم نوا بنالیں تو اس کامیابی کی اللہ کے یہاں کوئی قیمت نہیں کیونکہ دین کے احکام کو پامال کرکے جو تبلیغ کی جائے گی وہ دین کی نہیں کسی اور چیز کی تبلیغ ہوگی، فلم اپنے مزاج کے لحاظ سے بذاتِ خود اسلام کے حکام کے خلاف ہے، لہذا ہم اس کے ذریعے تبلیغ دین کے مکلف نہیں ہیں۔ اگر کوئی شخص جائز اور باوقار طریقوں سے ہماری دعوت کو قبول کرتا ہے تو ہمارے دیدہ دل اس کے لیے فرش راہ ہیں لیکن جو شخص فلم دیکھے بغیر دین کی بات سننے کے لیے تیار نہ ہو اسے فلم کے ذریعے دعوت دینے سے ہم معذور ہیں، اگر ہم یہ موقف اختیار نہ کریں تو آج ہم لوگوں کے مزاج کی رعایت سے فلم کو تبلیغ کے لیے استعمال کریں گے کل بے حجاب خواتین کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا، اور رقص و سرور کی محفلوں سے لوگوں کو دین کی طرف بلانے کی کوشش کی جائے گی، اس طرح ہم تبلیغ کے نام پر خود دین کے ایک ایک حکم کو پامال کرنے کے مرتکب ہوں گے۔‘‘
یہ کونسل میں مولاناؒ کی آخری تقریر تھی، اور غور سے دیکھا جائے تو یہ تمام دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کے لیے مولاناؒ کی آخری وصیت تھی جو لوحِ دل پر نقش کرنے کے لائق ہے،مولانا کی اس تقریر کے بعد وہ غیر رسمی گفتگو تو ختم ہوگئی، اور پھر ایجنڈے کے مطابق کارروائی ہوتی رہی جس میں مولاناؒ نے حصہ لیا۔
حق شناسی کی تعلیم
شام کو کونسل کی چوتھی نشست تھی، اور اس میں بھی مولاناؒ پورے نشاطِ طبع کے ساتھ تشریف لے گئے، جاتے ہوئے حضرت بنوریؒ کار کی اگلی نشست پر تشریف فرما تھے، اور احقر پچھلی نشست پر تھا احقر کو اجلاس میں ایک مسودہ پیش کرنا تھا، اس لیے راستے میں اس پرنظر ثانی کرنے لگا، عصر کے بعد کا وقت تھا، اور کارسبزہ و گل سے لدے ہوئے پہاڑ کے دامن میں بل کھاتی ہوئی سڑک پر جارہی تھی جس کے دونوں طرف سرسبز مناظر تھے، مولاناؒ نے پیچھے مڑ کر میری طرف دیکھا تو میں قلم ہاتھ میں لیے مسودے کی نوک پلک ٹھیک کررہا تھا، مولاناؒ نے فرمایا،’’ایھا الشیّخ الشاب (نوجوان بڑے میاں) ذرا اس وقت تو یہ کام رہنے دو، باہر کی طرف دیکھو، کیسے حسین مناظر ہیں؟ ان قدرتی مناظر کا بھی کچھ حق ہے، اور یہ ان کا حق ادا کرنے کا وقت ہے‘‘ مجھے اپنی کوتاہی کا بھی احساس ہوا، اور مولانا کی عظمت کا بھی، کہ مذاق ہی مذاق میں حق شناسی کی کیسی تعلیم دے دی، اور مناظر قدرت سے لطف اندوز ہونے کو بھی عبادت بنادیا۔
سفر آخرت
کونسل میں مولاناؒ کی آخری تشریف آوری تھی، نماز مغرب انہوں نے ہی پڑھائی اور دیر تک دعائیں کراتے رہے، مغرب کے بعد بھی دیر تک اجلاس جاری رہا اور وہ اس میں پوری شگفتگی کے ساتھ شریک رہے، عشاء کے بعد ہم واپس گورنمنٹ ہاسٹل آگئے، مولاناؒ اپنے کمرے میں تشریف لے گئے اور میں اپنے کمرے میں آگیا، ہفتے کی صبح ناشتے کے بعد مجھے مولانا کے کمرے میں جانا تھا، برادر محترم مولانا سمیع الحق صاحب مدیر ماہنامہ’’ الحق‘‘، احقر کے بھتیجے مولوی محمود اشرف عثمانی سلمہ، اور عمہ زادہ جناب زاہد حسن انصاری صاحب بھی میرے پاس آئے ہوئے تھے، اور رات میرے ساتھ رہے تھے، ہم سب مولاناؒ کے کمرے میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مولانا کے گلے میں کوئی تکلیف ہوئی ہے اور مولوی محمد بنوری صاحب سلمہ، ان کو معائنہ کے لیے پولی کلینک لے گئے ہیں، تھوڑی دیر بعد مولانا تشریف لے آئے، اور ہمیں دیکھ کر سوال کے بغیر ہی فرمادیا کہ صبح میرے گلے میں کچھ عجیب سی تکلیف ہوئی، ڈاکٹر نے معائنہ کے بعد بتایا کہ یہ دل کی تکلیف نہیں ہے، لیکن آرام کی ضرورت ہے، مولوی محمد صاحب نے مجھ سے الگ بتایا کہ ڈاکٹر نے یہ بھی کہا ہے کہ دل پر معمولی دباؤ ہوا ہے، مولاناؒ کو چونکہ اس سے پہلے دل کی تکلیف ہوچکی تھی، اس لیے میرا ماتھا ٹھنکا، اور میں نے مولاناؒ سے درخواست کی کہ آج کے تمام پروگرام منسوخ کرکے مکمل آرام فرمائیں، ہم نے عرض کیا کہ ہم کمرے کا دروازہ بند کرکے باہر آدمی بیٹھادیتے ہیں تاکہ کوئی اندر نہ جائے، مولاناؒ نے فرمایا کہ کچھ زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ان شا اللہ تھوڑے سے آرام کے بعد طبیعت بحال ہوجائے گی تھوڑی دیر بعد مولانا لیٹ گئے، اور اندازہ ہوا کہ نیند آگئی ہے، چنانچہ ہم باہر چلے آئے۔
اس روز صبح کے وقت کونسل کا کوئی اجلاس نہ تھا، بلکہ ارکان کونسل کو ادارۂ تحقیقات اسلامی کا معائنہ کرنے کے لیے جانا تھا چنانچہ دس بجے میں وہاں چلاگیا، دو بجے کے قریب میں واپس آکر اپنے کمرے میں کھڑا ہی ہوا تھا کہ مولاناؒ کے صاحبزادے کو فون آیا کہ مولانا کی طبیعت زیادہ خراب ہے، فوراً پہنچئے، میں اسی حالت میں مولاناؒ کے کمرے کی طرف لپکا تو مولوی محمد صاحب سلمہ، کمرے سے باہر آبدیدہ کھڑے تھے، ان کی حالت دیکھ کر مجھے سخت تشویش ہوئی، قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ مولاناؒ کو شدید دورہ ہوا ہے اس وقت مولاناؒ نیم غنودگی کی حالت میں لیٹے تھے، اور وقفے وقفے سے کراہ رہے تھے۔
اتفاق سے اسلامی کونسل کے چیئر مین جناب جسٹس محمد افضل چیمہ صاحب بھی اس وقت مولاناؒ کی عیادت کے لیے پہنچ گئے تھے، میں اور وہ دونوں فوراً پولی کلینک پہنچے، ڈاکٹر صاحب وہاں موجود نہ تھے تو ان کے گھر جاکر ان سے ملاقات کی، جسٹس چیمہ صاحب نے ان سے مختصراً مولاناؒ کی کیفیت بیان کی، ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں نے مولاناؒ سے صبح بھی درخواست کی تھی کہ وہ تین روز کے لیے ہسپتال میں داخل ہوجائیں، مگر وہ نہ مانے اب ان کا ہسپتال میں داخل ہونا ضروری ہے، آپ انہیں پولی کلینک لے آئیں، چیمہ صاحب نے ان سے کہا کہ آپ ایمبولینس کا انتظام کردیں، انہوں نے اس کا وعدہ کیا، اور ہم ہوسٹل لوٹ آئے، یہاں احقر نے جسٹس چیمہ صاحب سے عرض کیا کہ جب ہسپتال میں داخل کرنا ہے تو پولی کلینک کے بجائے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں داخل کرنا زیادہ مناسب ہوگا، چنانچہ چیمہ صاحب نے مختلف جگہ فون کرکے وہاں داخلے کا انتظام کیا، اور وہاں سے بھی ایک ایمبولینس مولاناؒ کو لینے کے لیے روانہ ہوگئی۔
کافی دیر گزرگئی اور دونوں میں سے کوئی ایمبولینس بھی نہ پہنچی، بار بار فون کرنے کے بعد پولی کلینک کی ایمبولینس چار بجے کے قریب آئی، چونکہ سی ایم ایچ کی ایمبولینس بھی روانہ ہوچکی تھی اور وہ زیادہ آرام دہ ہوتی ہے، اس لیے چیمہ صاحب کی رائے تھی کہ چند منٹ اس کا انتظار کرلیا جائے لیکن مولاناؒ کی کیفیت دیکھ کر لمحہ بہ لمحہ میرا اضطراب بڑھ رہا تھا، میں نے عرض کیا کہ اب مزید انتظار کا تحمل معلوم نہیں ہوتا، اس لیے جو ایمبولینس موجود ہے اسی میں چلنا چاہیے، اس دوران برادر محترم مولانا قاری سعید الرحمان صاحب(مہتمم جامعہ اسلامیہ راولپنڈی) بھی پہنچ چکے تھے جو ہمیشہ راولپنڈی میں حضرت بنوریؒ کے خصوصی میزبان ہوا کرتے تھے، اور قاری رفیق صاحب بھی آگئے تھی، جو اسلام آباد میں مولانا کے قیام کے دوران ان کی خدمت کا شرف حاصل کرتے تھے، جب ہم اسٹریچر لے کر مولاناؒ کے قریب پہنچے تو مولاناؒ بیدار تھے، میں نے جسم کو ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ برف ہورہا تھا، اور کپڑے پسینے میں اس بری طرح شرابور تھے کہ انہیں بلا تکلف نچوڑا جاسکتا تھا، مولاناؒ نے میری طرف دیکھا تو ایک عجیب کیفیت کے ساتھ فرمایا:’’آج کی تکلیف بالکل نئی قسم کی تکلیف ہے، اس کوڈاکٹر نہیں سمجھ سکیں گے‘‘ اس سے قبل دورے کی شدت کے عالم میں اپنے صاحب زادے سے بھی مولاناؒ یہی بات فرما چکے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ ’’اب میں جارہا ہوں‘‘۔
احقر نے عرض کیا:’’حضرت!اللہ تعالیٰ ان شا اللہ ہم پر فضل فرمائیں گے، ہم آپ کو کمبائنڈ ملٹری ہسپتال لے جانا چاہتے ہیں، ’’مولانا نے خود سپردگی کے عالم میں فرمایا’’جیسے آپ کی مرضی!‘‘جب مولانا محمد صاحب، قاری سعید الرحمٰن صاحب اور قاری رفیق صاحب مولاناؒ کی دائیں جانب سے انہیں اٹھانے کے لیے بڑھے تو فرمایا’’میں خود اٹھ جائوں گا‘‘ اور ساتھ ہی کچھ اٹھنے کی کوشش بھی کی لیکن نقاہت اتنی زیادہ تھی کہ اٹھا نہ گیا، ہم سب نے باصرار عرض کیا کہ’’آپ بالکل اٹھنے کی کوشش نہ کریں‘‘چنانچہ مولاناؒ کو اسٹریچر پراٹھا کر ایمبولینس میں سوار کردیا گیا، مولانامحمد صاحب، قاری سعید الرحمٰن صاحب اور قاری رفیق صاحب ایمبولینس میں مولاناؒ کے ساتھ بیٹھے اور مفتی سیاح الدین صاحب اور احقر چیمہ صاحب کے ساتھ ان کی کار میں ہسپتال روانہ ہوئے، راستہ بڑاطویل تھا عصر کے قریب ہم ہسپتال پہنچے، وہاں پہلے سے مولاناؒ کی تشریف آوری کی اطلاع ہوچکی تھی، اور انتہائی طبّی توجہ کے شعبے(intensive care unit)میں مولانا کو داخل کردیا گیا اس شعبے میں کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہ تھی، لیکن باہر مولاناؒ کے متعلقین کی بڑی تعداد جمع ہوگئی تھی۔ اللہ تعالیٰ برادر محترم مولانا قاری سعید الرحمٰن صاحب کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے مولانا کو راحت پہنچانے کے ممکنہ انتطامات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، اگرچہ حضرت سے ملنے کی اجازت کسی کو نہ تھی، مگر قاری رفیق صاحب، اور ان کے ایک ساتھی رات کو ہسپتال ہی کے لان میں رہے، رات کی مٹینگ کے بعد فون پر احقر نے خیریت معلوم کی تو پتہ چلا کہ بحمد اللہ طبیعت بہتر ہورہی ہے اور جسم میں گرمی بھی عود کر آئی ہے، اس خبر پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا، اتوار کی صبح سویرے بھی خیریت ہی کی اطلاع ملی، اور ساتھ ہی ڈاکٹروں کا یہ ارادہ بھی معلوم ہوا کہ وہ ان شااللہ ایک دو روز میں مولاناؒ کو آئی سی یو سے ہسپتال کے عام کمرے میں منتقل کردیں گے، اس سے مزید اطمینان ہوا، اتفاق سے اتوار کے روز کونسل کا اجلاس صبح ۹ بجے سے رات ساڑھے بارہ بجے تک جاری رہا، سہ پہر کے وقت جو وقفہ ہوا اس میں بھی ایک ذیلی کمیٹی کام کرتی رہی جس میں احقر بھی شامل تھا البتہ بیچ بیچ میں ہسپتال سے مولاناؒ کی خیریت معلوم ہوتی رہی، رات کے وقت قاری سعید الرحمن صاحب کو مولاناؒ سے ملاقات کا موقع مل گیا، اس وقت طبیعت کافی بشاش تھی مولانا نے قاری صاحب سے باتیں بھی کیں، اور افاقے کا حال بھی بتایا۔
دو شنبہ کی صبح ناشتہ کے بعد میں ہسپتال جانے کی تیاری کر ہی رہا تھا اور خیال یہ تھا کہ ان شا اللہ مولاناؒکو اچھی حالت میں دیکھوں گا، کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی یہ جسٹس چیمہ صاحب کا فون تھا، انہوں نے یہ دلخراش خبر سنائی کہ آج صبح مولاناؒ ہم سے رخصت ہوگئے، انّا للہ وانا الیہ راجعون۔
بیماری کے پہلے دن تشویش تو تھی، لیکن یہ بالکل اندازہ نہ تھا کہ مولاناؒ اتنی جلدی چلے جائیں گے ،اچانک یہ کرب انگیز خبر صاعقہ بن کر گری، ہوش و حواس قابو میں نہ رہے، افتاں خیزاں ہسپتال پہنچے تو مولاناؒ اس دارالمحن کی سرحد پار کر چکے تھے، کھلے ہوئے پر نور چہرے پر ایک عجیب طرح کا سکون طاری تھا جیسے ایک تھکا ہوا مسافر منزل پر پہنچ کر آسودہ ہوگیا ہو :
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا
دل کی گہرائیوں سے دعا نکلی کہ:
اللھم اکرم نزلہ ووسع مد خلہ و أبد لہ دارا خیر من دارہ و اھلا خیر امن اھلہٖ ونقہ من الخطایا کما ینقی الثوب الأبیض من الدنس وبلّغہ الدرجات العلٰی من الجنۃ آمین
ایک قرن کا خاتمہ
حضرت بنوریؒ کی وفات کے ساتھ ایک پوری قرن کا خاتمہ ہوگیا، یہ حادثہ صرف مولاناؒ کے اعزّہ کا نہیں پورے ملک کا پوری ملت کا، بلکہ پورے عالم اسلام کا حادثہ ہے اس حادثے سے دارالعلوم کراچی بھی اتنا ہی متاثر ہوا ہے جتنا مدرسہ عربیہ نیوٹاؤن، اور احقر کے لیے تو متعدد جہات سے یہ ایک عظیم ذاتی سانحہ ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کے بہت سے حضرات نے اس حادثہ پر جہاں مولاناؒ کے اعزّہ کے پاس تعزیتی خطوط روانہ کیے ہیں، وہاں احقر اور برادر محترم جناب مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب کو بھی تعزیت کے لیے خطوط لکھے ہیں، میں ان حضرات کا تہ دل سے شکر گذار ہوں کہ انہوں نے اس صدمہ جانکاہ کی نوعیت کو محسوس فرما کر اس مشکل وقت میں اظہار ہمدردی فرمایا۔
اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا ایک مسلمان کا شیوہ ہونا چاہیے، اس لیے اس عظیم صدمے کو باوجود جس کے بعد کمر ٹوٹی ہوئی معلوم ہوتی ہے، اس بات پر ایمان ہے کہ جو کچھ ہوا وہی اللہ تعالیٰ کی حکمت کا مقتضاء تھا، اب تو یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا بنوری قدس سرہ کو اعلیٰ علییّن میں جگہ عطا فرمائے ان کے متعلقین کو صبرِ جمیل کی توفیق بخشے اور ان کے نسبی و روحانی وارثوں اور بطور خاص برادر عزیز مولانا محمد بنوری صاحب کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اس صدمے پر صبرِ جمیل کے ساتھ مولاناؒ کے نقش قدم پر چل کر اس مشن کو آگے بڑھائیں جس کا پرچم سر بلند رکھنے کے لیے مولاناؒ نے آخر وقت تک جدوجہد جاری رکھی، اور جس کی خاطر انہوں نے غریب الوطنی میں جان دی۔
اللّٰھم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنّا بعدہ، انّ فیک عزاء من کلّ مصیبۃ وخلفا من کلّ ھالک، ولا حول ولا قوّۃ الّا بک، ولا ملجأ ولا منجا منک الاالیک۔
ماخوذ از: نقوش رفتگاں ، از مفتی محمد تقی عثمانی
حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری سے متعلق دیگر مفید اور معلوماتی مضامین کے مطالعہ کے لیے نیچے دیے گئے لنک سے کتاب ڈاؤن لوڈ کیجیے:
Translated By: Professor Muhammad Hasan Askari & Karrar Husain Compiled By: Mufti Umar Anwar Badakhshani
Answer To Modernism
Intimation 5: Regarding the Hadith as one of the sources of the Shariah
are the traditions (Ahadith) of the Holy Prophet not authentic?
The prevalent error with regard to the Hadith is that it is supposed that the traditions of the Holy Prophet صلى الله عليه وسلم are not authentic, and have not been handed down to us intact either as to their text or as to their substance. The texts are supposed to be of doubtful authenticity, because the traditions were not compiled in a written form during the lifetime of the Holy Prophet صلى الله عليه وسلم himself, but were reported orally from man to man, and memory strong enough to retain the words exactly is something unnatural. The substance of the Traditions is similarly supposed to be doubtful because everyone who heard something from the Holy Prophet صلى الله عليه وسلم could perforce understand it only in his own way – which might be in accord with what the Prophet ﷺ had really meant, or be even opposed to it—, and, being unable to retain the very words, reported to others only what he himself had understood, and thus even the substance could not remain intact. So, when neither the texts nor the contents are authentic, how can the Hadith serve as a valid authority? And this is the substance of the objection raised by the new-fangled set, the Qur’aniah, who believe the Holy Qur’an to be the only source of the Shariah.
The error of denying Hadith and its reasons
In fact, this error results from disregarding the lives of the early Muhadditheen and the Fuqaha (the compilers of the Traditions and the Muslim jurists). Some people have simply imagined them to be like themselves in the matter of weak memory, a want of zeal, and a lack of piety. Their great power of memory is established by a large number of incidents reported about them, which one after the other bears out the same fact.
For example:
The companion Ibn Abbas heard a poem of one hundred couplets only once, and ever afterward it was preserved in his memory, or:
Once in an assembly, one hundred Traditions were recited before the great master of the science of Hadith, Imam Bukhari, with the texts and the names of the authorities deliberately mixed up, and he pointed out the errors, corrected every one of the Traditions, and repeated the authentic versions of all the hundred Traditions word by word; or:
Another master of this science, Imam Tirmidhi, now blind, while passing by a certain spot, bowed his head as if he was passing under a tree, and, on being asked for the season, reported that there used to be a tree there (which was now missing), and the report was, on the investigation, found to be quite true; or:
The masters of the science of Hadith from time to time used to request their own masters to repeat the same Traditions in order to test their memory, and never found a word more nor less. All this is quite well-known, and has been narrated in biographic or histories or in the detailed catalogs of the reporters of the Traditions, and should suffice to establish the great power of memory these masters possessed.
If one looks carefully into these catalogs, one would find that the Traditions reported by people with a weak memory have been excluded from the category of Sahih (or the most authentic) Traditions. This again is sufficient proof of the scrupulous care that the masters of this science have taken in determining the authenticity of the Traditions.
Besides the power of memory, there is another factor as well. Since Allah the Almighty had chosen these masters for this task, their faculty for remembering things had been strengthened with divine help. For example, a Hadith relates how the Holy Prophet صلى الله عليه وسلم recited a few words over the sheet of cloth which Hadrat Abu Hurairah (R.A) was wearing, and the latter pressed it to his breast.
Deriving arguments from Hadith while objecting Hadith
It would not proper to raise the objection here that we have just presented a Hadith in support of our argument, while the very validity of the Hadith as such is in dispute. As a matter of fact, all the Traditions of the Holy Prophet صلى الله عليه وسلم are not in dispute, but only those which have a bearing on the injunctions of the Shariah. The Tradition we have just referred to only relates an incident. Such Traditions fall into a category of the science of history, which is unanimously accepted as a valid standard of reference in an argument.
Is the incident of Hazrat Abu Huraira (R.A) against nature?
But if one were to object that this story goes against the law of nature, then we have already given our reply under Intimation No. 3, while discussing miracles. Moreover, we would even dispute the assertion that it goes against the law of nature. Mesmerists can so influence the imagination of their subject that unknown things become disclosed to him, and known things disappear or are obliterated. Far be it from us to suggest that the influence which the Holy Prophet صلى الله عليه وسلم exercised over Hadrat Abu Hurairah was of a similar kind. We only want to point out that it is not absolutely correct to consider this incident as something which goes against the law of nature. Even so. then it is a miracle, and we have already settled this issue.
The passion, fear of Allah & caution of our predecessors in preserving the Hadith
Besides we have ourselves heard of people, quite close to our own day, who possessed an extraordinary memory. One such man was Hafiz Rahmatullah of Ilahahabad. We have personally met people who had seen his performance for themselves, and have heard stories about him from them.
So much for the power of memory. Now as to the zeal of these masters for committing the Traditions to memory and for transmitting them intact, the incentive behind this zeal was that the Holy Prophet صلى الله عليه وسلم has offered a special prayer for such a man:
“May Allah grant happiness to the man who heard what I had said (i.e., Hadith), then committed to memory, preserved it intact, and transmitted it to another exactly as he had heard it”. (Hadith).
So, those great masters made all possible efforts to be worthy of this prayer, and hence their anxiety to transmit the Traditions as exactly as possible. They had also a great dread of the least alteration because they had heard this from the Holy Prophetصلى الله عليه وسلم :
من کذب علی ما لم أقلہ فلیتبوأ مقعدہ من النار
“The man who falsely imputes to me something which I have not said should take it for granted that his resting place is hell”. (Hadith).
Some of the companions of the Holy Prophet صلى الله عليه وسلم stood in such a dread of it that they never related a Tradition at all. Then, the great masters of the science of Hadith so often, in the case of lengthy Traditions, used to qualify their report of the tradition by giving alternative words in the text or by saying. “This or something like this”, etc. This is a clear proof of their scrupulousness and of their anxiety to preserve the authenticity of even words.
The non-compilation of Hadith, in the beginning, did not harm the safety and preservation of Hadith
This being the case, one can see no harm if the Traditions were not compiled in a written form in the days of the Holy Prophet صلى الله عليه وسلم himself.
On careful consideration, one would, indeed, admit that this fact has been very helpful and efficacious in preserving the authenticity of the Traditions. For, so long as a man is habituated to write things down and has come to depend on memoranda, his memory does not come into full exercise, while every human faculty needs exercise in order to grow. We have often seen quite illiterate people working out lengthy sums orally. On the other hand, literate people can remember nothing unless they have written it down. This is one reason why people in our own day have such a weak memory. The other reason has been indicated above. That is to say, Allah the Almighty had given the early masters a very strong memory, for He had chosen them for the task of compiling the Traditions, and consequently compiling the injunctions of the Shariah on the basis of the Traditions. This task has already been completed for the most part, and what still remains to be done does not require a strong memory. And it is a law of nature ordained by God that certain human faculties are specially developed in consonance with the special needs of a certain age. For example, the development of the special mental faculty required for scientific discoveries and inventions in our own day too well illustrates the point.
Wisdom of not writing Hadiths in the beginning
If the Traditions were not written down in those early days, the raison d’etre was that the text of the Holy Qur’an should not get mixed up with that of the Hadith. Later on, when the text of the Holy Qur’an became established in full and final security, and that danger of confusion had been eliminated, and, moreover, when different misguided sects began to appear, it then became necessary to compile the Traditions as a matter of precaution against misrepresentation and in order to fortify the faith.
The saying, practices & traditions of the Holy Prophet are unquestionably safe & protected
Thus, the Traditions began to be compiled with the greatest possible care. And if one makes a thorough examination of the texts of the Traditions, of the “chains” of the authorities, of the proofs of their authenticity, and of the catalogs of their names and their biographic, one cannot help being deeply convinced that the words and the deeds of the Holy Prophet ﷺ have been preserved without the least change or alteration.
What we have been saying just now applies even to that category of the Traditions which is called Ahad— that is to say, a Tradition which has been reported by one or very few persons in any period. But if we take all the compilations of the Traditions together, and examine the texts along with the authorities, we shall find that the texts are often identical and the authorities many and diverse, which gives them the status of mutawatir. A Tradition of this category precludes the necessity of questioning the credibility of reporters, for a Mutawatir Hadith (a Tradition that has been reported by many reporters in each generation in several consecutive chains) does not depend for its validity on the integrity, good memory, or sound judgment of individual reporters.
Once a Hadith is declared authentic & proven It is a wrongdoing to criticize it based on mere intellect
Now that we have established how the Hadith is a final argument and a valid source for canonical law, it must also have become clear why it is wrong to criticize a particular tradition on the basis of Dirayat (reason). For, the lowest degree of authentic Traditions is that in which the authenticity and the connotation both should be approximative, while the substance of what people nowadays call Dirayat (reason) is only a rational argument of conjectural nature. We have already shown under Principle No. 7 that an argument based on an approximative report is to be preferred to a rational argument of approximative nature.
Why the words of Hadith are not as safely preserved like the Qur’an?
As for the objection that, in the case of some Traditions, it is the sense alone which has been reported, and not the actual words, we agree that it has sometimes been so. But there are several considerations even here:
(1) Firstly, the companions of the Holy Prophet صلى الله عليه وسلم did not habitually resort to this practice unless there was a need for it, and their power of memory being what it was, such a need arose only rarely.
(2) Secondly, the same Tradition has often been heard and reported by a number of companions. If one of them has reported only the sense, another has reported the actual words. When the purport of two such reports is found to be identical, it shows us that even those who have reported the sense alone, have understood the words quite correctly. In fact, the man who is scrupulous and has the fear of God would take great care in trying to grasp the sense too, and would tremble with dread lest he should misinterpret it–he would be satisfied unless he receives it without the slightest doubt or reservation. If it should sometimes happen–though it is rare enough–that the words have not been preserved at all, even then it is evident that a man who is close to the speaker and knows him intimately, can understand his speech in the light of the context, the situation, the tone, and the accompanying gesture, as correctly as no one else ever can. On this basis, the insight of the Companions of the Holy Prophet صلى الله عليه وسلم in the Holy Qur’an and the Hadith must be as trustworthy as the understanding of them by others can never be.
This being so, how can it be proper on the part of the others to oppose them, to make uncalled for assertions supposedly on the basis of the Holy Quran or one’s own reasoning, and, taking these assertions to be the very dictates of reason, to reject a Hadith altogether as contrary to ‘reason’? Can such a way of looking at things be at all worthy of our attention?
Rulings proved by ambiguous arguments are also obligatory & part of the Islam
In view of these considerations, if there can at all be room for a doubt to arise, the doubt can at the most be effective with regard to the authoritative degree of certain traditions alone. In that case, the most that can happen is that such Traditions would not be considered fit for establishing finally authoritative injunctions on them. But even approximative injunctions are part and parcel of the Shariah, and it is obligatory to obey them. So, even the approximative nature of such injunctions would not be detrimental to their validity.
To read the sixth Intimation about the Consensus of Legal Opinion (Ijma), Click on the link below:
Translated By: Professor Muhammad Hasan Askari & Karrar Husain Compiled By: Mufti Umar Anwar Badakhshani
Answer To Modernism
Intimation 4: Regarding the Holy Qur’an, as one of the four sources of the Shariah
It is an established fact that there are four sources of the Shariah:
(1) The Holy Qur’an.
(2) The Hadith, or the Traditions of the Holy Prophet ﷺ.
(3) Ijmaul Ummah, or the consensus of opinion on the part of the authentic scholars of the Islamic sciences, and
(4) Qayasul Mujtahid, or the inference made by a recognized master of Islamic law, who should fulfill certain definite conditions in order to enjoy such an authority. But nowadays people are committing grave errors with regard to each of these four sources in one way or another.
The errors of modernists regarding the Qur’an and their answers
With regard to the Holy Qur’an, two errors have become quite common:
Asking for evidence only from Qur’an
(1) Firstly, the injunctions of the Shariah are supposed to be contained exclusively in the Qur’an. The upshot of this error is the denial and rejection of the other three sources.
Proving modern science from the Qur’an
(2) Secondly, an attempt is make to bring the verses of the Holy Qur’an into conformity with the theories of modern science through fanciful interpretations, and also to prove that the Holy Qur’an propounds and confirms these very theories.
The first of these errors is clearly refuted by those verses of the Holy Qur’an and those traditions of the Holy Prophet ﷺ which prove that the other three sources too must be accepted as valid and binding. This point has been discussed with all possible elaborations by the scholars of Islamic jurisprudence.
Demand for proof of every ruling from Qur’an
A corollary of the same error is that when a man desires to commit a certain sin and an attempt is made to keep him back from it, he at once demands that a clear prohibition for this particular sin should be shown in the Holy Qur’an.
For example, one daily finds such demands being made in the newspapers with regard to the injunction about keeping a beard. This practice has become almost second nature for modernized Muslims, so much so that whenever a detractor of Islam demands that the proof of a certain thing should be produced from the Holy Qur’an, they accede to this demand unquestioningly, and, taking their burden of proof upon themselves, go about in search of it. And when they cannot find it for themselves, they insist that the Ulema should somehow provide a proof from the Holy Qur’an.
But we have already established that the very basis of these corollaries is wrong. So, it is quite evident that a proposition based on a false premise must also be false, and should not require a separate refutation.
Moreover, opening the door to this kind of argumentation would be an act of extreme recklessness, and betray a lack of foresight. The only thing it can ultimately lead to is that one shall be forced to concede that the five “pillars” of Islam (that is, the principal forms of worship) themselves cannot be proved to have any basis in the Shariah. Can anyone establish the prescribed number of Rak’ats (sets of movement during the ritual prayer) for the five daily prayers on the basis of the Holy Qur’an, or determine as to who is required to pay the Zakah (the ritual alms-giving)and how much?
It is illogical to demand an argument only from Qur’an
A concrete example would make the absurdity of this demand all the more clear. Supposing that a plaintiff produces a witness in a court of law in support of his claim, the dependent would certainly have the legal right to cross-examine him. But if the witness comes out clean after such a cross-examination, the dependent would not have the further right of submitting before the court that, in spite of this witness being unblemished and trustworthy, he would not accept the claim until and unless such a dignitary or prominent person gives his evidence in its support instead of this man. If he were to make such a demand, would the court listen to him?
Principles of the art of argumentation
This is the real point behind the well-established rule of the art of polemics that one may justifiably demand an argument as such from one who makes an assertion, but not a particular kind of argument.
It has also been clarified that the negation of the argument does not necessarily involve the negation of the subject matter of the argument (or of what is sought to be proved). Because an argument is a subsidiary while a subject is a principal, and the negation of what is subsidiary does not necessarily involve the negation of what is principal.
Therefore, a man who makes the claim that such an injunction has been established based on the Shariah, has the right to prove his contention of the basis of any argument that he chooses from the Shariah. No one does have a justifiable right to challenge him, and to demand a particular kind of argument–for example, an argument based on the Holy Qur’an alone.
The difference between the four sources in terms of power of reasoning
Of course, one must admit that the four kinds of arguments, drawn respectively from the four sources of the Shariah, vary in force of validity, even as the respective subjects of these arguments, or the injunctions that are sought to be proved, vary. Thus the injunctions are of four kinds:
(1) Those which have been established based on a definitive and conclusive argument, and also have a definite signification.
(2) Those which have been established based on an approximative argument, and have an approximative signification.
(3) Those which have been established based on a definitive argument, but have an approximative signification.
(4) Those which have been established based on an approximative argument, but have a definite signification.
A doubt and it’s clarification
But, Inspite of these variations in the degree of validity, no one has the authority to reject even approximative injunctions. Do we not see many a judge, against whose judgment no appeal can lie, often pronouncing his judgment on the mere ground that he has thought fit to apply to a case brought before him a certain section of the legal code, and though the section of the come is definitive, his decision that the particular case falls under that section is approximative? The substance of such a judgment would be that the particular section of the code has been established definitively, but its application is approximative–in other words, it reset on a definitive argument, but its signification is approximative. But everyone can see for himself what the consequences would be if one were to question that judgment. So much about the first error that is being committed with regard to the Holy Qur’an.
(2) Trying to prove that Qur’an is based on modern science
The second error is the attempt, make out as if the Holy Qur’an comprises the theories of modern science. Thus, one too often finds in newspapers and journals nowadays that as soon as people come across a scientific discovery made in the West, they try as best as they can to discover an indication of this theory in some verse of the Holy Qur’an. This is supposed to be a great service to Islam, a matter of commendation for the Holy Qur’an, and proof of one’s own intelligence. What is worse, even some religious scholars have been found to be guilty of this error.
(1) What is basically wrong with this approach is that it is supposed to be a mark of the highest perfection for the Holy Qur’an to contain scientific theories. The reason for this misconception is that no regard has been paid as to what the essential subject matter of the Holy Qur’an is.
The real subject of the Holy Qur’an
The Holy Qur’an, in fact, is not a book of physical science, nor history, nor of geography. It is a book which deals with the cure of souls, just as books on medicine deal with the cure of bodies. It would not be a defect or deficiency in a book on medicine if it does not discuss the problems of shoe-making or cloth-wearing. Indeed, a slight reflection will show that in a way it would be a defect and imperfection for this book if it were to discuss such problems unnecessarily because it would only produce confusion. On the other hand, not to discuss such things would be a merit of this book.
Similarly, it is not at all a defect or deficiency in the Holy Qur’an, which is essentially a book on spiritual medicine, that it does not discuss the problems of physical science. In fact, it is a merit of a kind.
However, if spiritual treatment should sometimes require that a problem of physical science too be discussed, such a discussion would be no more than a concession to this need. But, according to the established rule that what is necessary is determined by the extent of necessity, this discussion would not exceed the extent of necessity. For example, the affirmation of the unity of God is the most fundamental principle in the science of curing souls. The easiest and simplest way of establishing this principle is to argue based on the different forms of the creation while doing this, the Holy Qur’an has now and then dealt, very briefly, with themes like the creation of the heavens and the earth, of men and beasts, etc. Since the occasion did not require any details, they have been left out.
In short, it is not one of the main objects of the Holy Qur’an to deal with the problems of physical science. If any such problems have been touched upon, it is only by way of an argument or illustration in support of some of its basic themes. In so far as the Holy Qur’an has made an explicit and definite statement on a scientific problem, that statement is certain and finally true, and it is not permissible to believe in its opposite based on some other argument. If there is an argument which seems to contradict the statement in the Holy Qur’an, one would, on careful examination, find that either the argument itself was defective, or the contradiction was not real but merely apparent. Of course, it is quite possible that the verse in question does not have definitively explicit meaning, and that a valid argument can be found to prove the opposite of the apparent meaning. In such a case, the verse would not be taken in the literal sense but given a secondary interpretation (as we have shown under Principle No. 7).
Let us now turn to another misunderstanding:
(2) We have shown above that it is not one of the basic objects of the Holy Qur’an to deal with scientific problems. Such problems find a mention merely as premises for proving the main proposition. And it is clear enough that when one is arguing to establish a certain proposition, the premises must be such as are, even before the proposition is affirmed, already acceptable to the audience, or are of the nature of axioms, or have been made acceptable through proper argument; otherwise, it would not be possible to employ them as valid arguments in favor of the proposition.
With this basic rule in mind, let us now try to realize that if the theories of modern science are what the verses of the Holy Qur’an are meant to indicate and to connote, and, as we know, the Arabs, who formed the earliest audience for the Holy Qur’an, were totally ignorant of these modern theories, then the only and the necessary conclusion would be that the Holy Qur’an has been arguing with them based on certain premises which were neither universally acceptable, nor axiomatic, nor had yet been established through proof, and were ipso facto worthless as a basis for any valid argument. If one were to accept this situation, what a great blemish would it be on the word of God and its mode of the argument!
(3) The third great defect in this approach is that scientific theories are sometimes proved to be wrong. Now supposing that these theories are accepted to be the purport of the Holy Qur’an, and Muslims come to believe, according to this interpretation, that the Holy Qur’an has made such and such affirmations in such and such verses. If anyone of these scientific theories is someday proved to be wrong, how easy would it be for the meanest detractor of Islam to deny the Holy Qur’an itself? For, he would say that such a statement in the Holy Qur’an is wrong, and since the demolition of a part necessarily implies the demolition of the whole, he would go on the assert that the Holy Qur’an itself is not true. How difficult would it then be to defend the Holy Qur’an?
A doubt and it’s clarification
One may possibly raise an objection here, and claim, as some have actually done, that it is a peculiar perfection of the Holy Qur’an that its words are found to be in consonance with whatever scientific theories happen to enjoy currency in any age. If this is so, then it necessarily means that no connotation of the verses of the Holy Qur’an should at all be trustworthy, for every connotation would leave sufficient room for the possibility of its opposite being equally true. This strange claim reminds us of the well-known story of a clever astrologer. When a man came to ask him if he was going to have a son or a daughter, he would say in a flat tone –“No son no daughter”. Later on, he would fit his words to the actual situation just by repeating them in different tones, and saying, “No son, no! … Daughter”, or, “No, Son! ….no Daughter”. Would it be just to can such a book a source of guidance for mankind?
(4) The fourth defect in this approach is that it totally goes against our self-respect, for if we make the interpretation of the Holy Qur’an dependent upon scientific upon scientific discoveries, would not the European scholars point out that although the Qur’an was revealed such a long time ago, yet no Muslim, not even the Holy Prophet صلى الله عليه وسلم himself, has ever understood it, and that the Muslims should be grateful to the West for having made it possible for them to understand and interpret the Qur’an correctly? Were they to say so, what reply could we have?
So far we have dealt with the errors that are being committed with regard to the Holy Qur’an. Now, we turn to the other sources of the Shariah and to the errors that are committed regarding them.
To read the Fifth Intimation about law of nature, Click on the link below: