حدیث – سنت

حدیث کے لغوی معنی جدید (قدیم کی ضد) ہیں ، دوسرے معنی میں حدیث سے مراد بات چیت ،گفتگویعنی کلام ہے ، خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر ، اصطلاح میں حدیث کی تعریف یہ کی گئی ہے : ’’جس قول ، فعل ، تقریر اور صفت کی نسبت حضور اکرم ﷺ کی طرف کی گئی ہووہ حدیث ہے ‘‘، حضور کی تعلیمات معرض بیان میں ہو تو حدیث ہیں اور معرض عمل میں ہوں تو سنت کہلاتی ہیں، حدیث میں بیان کی نسبت غالب ہے اور سنت میں عمل کی نسبت غالب ہے۔

لغوی اعتبار سے سنت سے مراد سیرت اور طریقہ ہے خواہ اچھا ہو یا برا ، حضور اکرم ﷺ نے اپنے طریق عمل کے لیے خود بھی لفظ سنت استعمال فرمایا ہے ،سنت سے مراد وہ ہے جو قرآن کے علاوہ رسول اللہ ﷺ سے صادر ہوا ہو، خواہ آپ کا قول ہو،خواہ فعل ہو،خواہ تقریر ہو، محدثین نے سنت کو حدیث کے مترادف استعمال کیا ہے ۔

فقہاء نے جو سنت کی تعریف کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سنت اور حدیث میں فرق ہے ، صاحب منار نے سنت کی تعریف یہ کی ہے :’’الطریقۃ المسلوکۃ فی الدین‘‘ یعنی وہ طریقہ جو دین میں جاری ہو، اسی طرح سنت کی ایک تعریف یہ کی گئی ہے :’’الطریقۃ المسلوکۃ المرضیۃ فی باب الدین ، سواء کان من النبی ﷺ أو من أصحابہ‘‘، یعنی سنت وہ طریقہ ہے جو دین میں جاری ہو اور اس کے کرنے پر ثواب ملے ، عام ہےکہ نبی کریم ﷺ سے ہو یا آپ کےاصحاب سے۔

سنت وحدیث میں فرق

اس سے معلوم ہوا کہ ہر وہ کام جو حضورﷺنے یا صحابہ نے ایک مرتبہ کرلیا وہ حدیث میں آگیا وہ حدیث تو کہلائے گا لیکن سنت نہیں کہلائے گا، بخاری شریف میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بچی کو اٹھاکر نماز پڑھی ، اسی طرح بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے جوتے پہن کر نماز پڑھی ، اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا ، اب یہ تمام باتیں  احادیث میں آگئیں تو یہ حدیث تو ہوئیں مگر سنت نہیں کہلائیں گی ،نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا : ’’علیکم بسنتی‘‘یعنی تم پر میری سنت لازم ہے ، یہ نہیں فرمایا کہ تم پر میری حدیث لازم ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ ہر سنت تو حدیث ہوگی لیکن ہر حدیث کا سنت ہونا ضروری نہیں ، گویا حدیث اپنے عمل کے پہلو سے سنت کہلاتی ہے۔

سنت کا لفظ عمل متوارث پر آتا ہے ، اس میں نسخ کا کوئی احتمال نہیں رہتا ، حدیث کبھی ناسخ ہوتی ہے کبھی مسنوخ ، مگر سنت کبھی منسوخ نہیں ہوتی ، سنت ہے ہی وہی جس میں توارث ہو اور تسلسل تعامل ہو ، حدیث کبھی ضعیف بھی ہوتی ہے کبھی صحیح بھی ، یہ صحت وضعف کا فرق ایک علمی مرتبہ ہے ، ایک علمی درجے کی بات ہے بخلاف سنت کے کہ اس میں ہمیشہ عمل نمایاں رہتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے مسلک کے لحاظ سے اپنی نسبت ہمیشہ سنت کی طرف کی ہے اور اہل سنت کہلاتے ہیں ، حدیث کی طرف جن کی نسبت ہوئی اس سے ان کا محض ایک علمی تعارف ہوتا رہا ہے اور اس سے مراد محدثین سمجھے گئے ہیں ، مسلکا یہ حضرات اہل سنت شمار ہوتے تھے۔

فن اصول حدیث میں احادیث کا علم تو حاصل ہوگا ،مگر یہ بات کہ کونسی حدیث سنت کے درجہ کی ہے اور قابل عمل ہے ،یہ حضرات فقہاء کرام بتلائیں گے ، اس لیے ہم اصول فقہ اور فقہ کے محتاج ہیں ، خلاصہ یہ ہے کہ علم اصول حدیث کے ساتھ ساتھ علم فقہ اور اصول فقہ کی بھی ضرورت ہے،اہل اصول فقہ کا مقصود آنحضرت ﷺ کے ساتھ سنت کے اتصال کو بیان کرنا ہے ، کیفیت اتصال ، راوی کے حال اور اس کی شرائط کو بیان کرنا مقصود نہیں ہے ، یہ کام محدثین کا ہے ۔

error: Content is protected !!