حسن لذاتہ
اصول حدیث کی اصطلاح میں حدیث حسن لذاتہ وہ ہے جس کے راوی میں صرف ’’ ضبط‘‘ ناقص ہو، باقی صحیح لذاتہ کی دیگر چاروں شرطیں اس میں موجود ہوں، یعنی صرف قوت حفظ کی کمی ہو ، باقی عدالت ، اتصال سند ، معلل وشاذ کا نہ ہونا یعنی صحیح کی تعریف میں بیا ن کردہ جملہ شرائط اس میں موجود ہوں، اسے حسن لذاتہ کہاجاتا ہے، کیونکہ اس کے اندر حسن کسی خارجی عامل کی وجہ سے نہیں آیا ،بلکہ اس کی اپنی ذات میں موجود ہے ، علامہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ حسن لذاتہ میں صحیح کے جملہ اوصاف وشرائط موجود ہوتے ہیں ، صرف ضبط میں کمی ہوتی ہے تو ’’بقیہ اوصاف وشرائط کی موجودگی‘‘ کی قید سے اس کی تعریف سے خبر ضعیف کو خارج کردیا ،کیونکہ اس میں بقیہ شرائط مفقود ہوتی ہیں۔
حسن لذاتہ کا حکم
حسن لذاتہ اگرچہ رتبہ میں صحیح لذاتہ سے کمتر ہے تاہم قابل حتجاج ہونے میں ا س کے شریک اور مساوی ہے،یعنی جس طرح صحیح لذاتہ سے استدلال کیا جاتا ہے اسی طرح حسن لذاتہ سے بھی استدلال کیا جاتا ہے ، جیسا کہ پیچھے بیان ہوا کہ حدیث صحیح کے مختلف مراتب ہیں اسی طرح حدیث حسن کے بھی مختلف مراتب ودرجات ہوتےہیں۔
حسن لذاتہ کی مثال
اس کی مثال میں یہ حدیث ذکر کی جاتی ہے:’’حدثنا قتیبہ حدثنا جعفر بن سلیمان الضبعی عن أبی عمران الجوزی عن أبی بکر بن أبی موسیٰ الا شعری قال: سمعت أبی بحضرۃ العددی یقول: قال رسول اللہ ﷺ : ’’ان أبواب الجنۃ تحت ظلال السیوف‘‘، اس حدیث کو حسن اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کی سند کے چاروں راوی ثقہ ہیں، لیکن جعفر بن سلیمان الضبعی ’’ صدوق‘‘ کے مرتبہ کے حامل ہیں اور اس میں ان کے خفیف الضبط ہونے کا اشارہ ہے، لہٰذا حدیث صحیح کے بجائے حسن کے مرتبہ پر آگئی۔