خبر مشہور

علامہ ابن حجرؒ نے حدیث مشہور کی دو تعریفیں بیان کی ہیں اور پہلی تعریف زیادہ راجح اور بہتر ہے، بعض علماء نے ان دو تعریفات کو مشہور کی قسموں میں شمار کیا ہے۔

۱- خبرمشہور وہ ہے کہ ہر طبقے میں اس کے راوی دو سے زائد یعنی کم از کم تین تو ضروری ہی ہوں، باقی زائد اس قدر ہوں کہ متواتر کی جمیع شرائط پر حاوی نہ ہوں،یعنی خبر متواتر کی حد سے کم ہوں، اس بناپر جس خبر میں متواتر کی شرائط اربعہ تو پائی جائیں مگر پانچویں شرط جو افادۂ علم یقین ہے موجود نہ ہو تو وہ مشہور ہی ہوگی ،کیونکہ شرائط اربعہ کے لئے افادۂ علم یقین لازم نہیں، کبھی متخلف بھی ہوجاتا ہے، چنانچہ ’’ شق القمر‘‘ کی حدیث باجود یکہ اس میں چاروں شرائط موجود ہیں ،لیکن پانچویں شرط مشکوک ہے ،کیونکہ جو لوگ عالم بالا میں ایسی تبدیلیوں کو ناممکن سمجھتے ہیں ان کے لیے یہ مفید علم یقینی نہیں، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ خبر مشہور چونکہ اہل علم کے نزدیک بالکل واضح اور معروف ہوتی ہے ،اس وجہ سے اسے ’’مشہور ‘‘کہتے ہیں۔

۲- علامہ ابن حجرؒ نے خبر مشہور کی ایک دوسری تعریف بھی نقل کی ہے ، مشہور اس خبر کو بھی کہتے ہیں جو زبان زد عام ہو اگرچہ اس کی سند میں ایک آدمی ہو یا سرے سے سند ہی نہ ہو ،بایں معنی متواتر کو بھی مشہور کہاجاسکتا ہے، اسے ’’مشہور عرفی ‘‘سے موسوم کیا جاتا ہے۔

۳-مشہور کی ایک تیسری تعریف بھی کی گئی ہے اور یہ تعریف فقہاء اصولیین نے کی ہے، ان کے نزدیک یہ متواتر اور خبرواحد کے درمیان ایک درجہ ہے ،ایک حدیث جو ابتداء میں خبر واحد شمار ہوتی ہے دوسرے اور تیسرے دور میں جا کر مشہور ہوجاتی ہے اور امت اسے قبول کرلیتی ہے بدیں وجہ اس کی تصدیق کرتی ہے اور اس کے مطابق عمل کرتی ہے۔

error: Content is protected !!