صحیح لغیرہ
جب حدیث حسن لذاتہ متعدد طرق سے آئے یعنی متعدد سندوں سے روایت کی گئی ہو تو یہ حسن متعدد طرق کی وجہ سے صحیح لغیرہ بن جاتی ہے ، متعدد طرق کا مطلب یہ ہے کہ سند ایک سے زائد ہو، اس لئے کہ تعدد طرق سے ایک قوت پیدا ہوجاتی ہے ،کیونکہ حسن لذاتہ میں جوقصور ضبط کی کمی کی وجہ سے ہوجاتا ہے اس کی تلافی یہاں کثرت طرق سے ہوجاتی ہے اور اس کو درجہ صحت تک پہنچا دیتی ہے، یعنی یہ وہ حدیث ہے جس میں صحیح لذاتہ کی شرطیں توپائی جائیں لیکن اس کے راوی میں ضبط تام نہ ہو اور اس نقص کی تلافی تعدد طرق سے کردی گئی ہو۔
جس طرح حدیث حسن لذاتہ تعدد طرق کی وجہ سے صحیح لغیرہ ہوجاتی ہے اسی طرح جواسنادتفرد کی وجہ سے حسن لذاتہ ہو وہ بھی تعدد طرق کی وجہ سے صحیح لغیرہ ہوجاتی ہے، اس کو لغیرہ اس بنا پر کہتے ہیں کہ صحت کا حکم دوسری سند کے ملنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
صحیح لغیرہ کا حکم
حدیث کی یہ قسم حسن لذاتہ سے اعلیٰ اور صحیح لذاتہ سے ادنیٰ ہوتی ہے، اور اسے صحیح لغیرہ نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ اسے یہ مرتبہ اپنی سند کی بنیاد پر نہیں ،بلکہ دوسری اسانید کی متعابعت کی وجہ سے ملا ہے۔
صحیح لغیرہ کی مثال
جیساکہ حدیث میں ہے: ’’محمد بن عمرو عن أبی سلمۃ عن أبی ہریرۃ أن رسول اللہ ﷺ قال: ’’لو لا أن أشق علی أمتی لا ٔمرتہم بالسواک عند کل صلوٰۃ‘‘، علامہ ابن صلاح ؒ نے اس حدیث کی سند پر یوں تبصرہ کیا ہے کہ محمد بن عمرو کا علماء صدق وصفا میں شمار ہے لیکن حفظ واتقان میں کمزور ہیں ،اسی کمزوری حافظہ کی بنا پر بعض محدثین نے ان کو ضعیف کہا ہے، جب کہ بعض ان کی بزرگی اور صداقت کے پیش نظر ثقہ کہتے ہیں، اس لحاظ سے ان کی حدیث حسن ہوئی، لیکن دیگر طرق سے بھی مروی ہے جس سے ابو سلمہ ؓ کی متابعت ہوتی ہے، تو اس حدیث کو جب دوسری اسانید کی تائید حاصل ہوگئی اور ایک راوی کے ضعیف الحفظ ہونے کی وجہ ے متوقع اندیشہ جاتا رہا اور مذکورہ معمولی کمزوری کی کمی دیگر طرق سے پوری ہوگئی تو یہ سند صحیح لغیرہ قرار پائی اور مرتبہ صحیح تک پہنچ گئی۔