عنصر
لغت میں عنصر کے معنی اصل کے ہیں، یعنی وہ اصل وبنیاد جو کسی چیز کے تحلیل ہونے کے بعد باقی رہ جائے، گویا عنصر ایسا اصل ہے کہ جس سے مختلف الطبائع اجسام ترکیب پاتے ہیں ،اس کی جمع عناصر ہے، عناصر: آگ، ہوا، پانی اور مٹی ہیں،ان کو عناصر اس لئے کہا جاتا ہے کہ مرکبات ان کی طرف تحلیل ہوجاتے ہیں، اور مرکبات کے تحلیل پانے کے لحاظ سے یہ ’’اسطقسات ‘‘کہلاتے ہیں، لفظ’’ اسطقس‘‘ کے اطلاق میں ’’کون‘‘ کے معنی ملحوظ ہیں، اور’’عنصر‘‘ کے اطلاق میں فساد کے معنی لئے جاتے ہیں ،اور اس حیثیت سے کہ وہ مرکبات کے اجزاء ہیں ان کو’’ رکن‘‘ کہاجاتا ہے، کیونکہ رکن شئے کا جزوہی تو ہوا کرتا ہے ،اور چونکہ ان میں سے ہر ایک عنصر دوسرے کی جانب منقلب ہوتا رہتا ہے اس لئے ان کو ’’اصول الکون والفساد‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔
عناصر کی تعداد کے بارے میں شروع سے آج تک اختلاف کا سلسلہ جاری ہے اور ہر دور میں ان کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہی ہے، اس کائنات وموجودات کی ہر چیز اختلافات کی جو لانگاہ اور معرکۃ الآرارہی ہے، کل تحقیق سے کسی چیز کی جو نوعیت معین ہوچکی تھی وہ آج تبدیل ہورہی ہے، یہی حال عناصر کا ہے، بعض ان کی تعداد صرف ایک بتلاتے ہیں، پھر یہ کہ وہ کیا ہے اس میں مختلف الخیال ہوجاتے ہیں، بعض دوعناصر قرار دیتے ہیں، بعض تین کے قائل ہیں، بعض مثلاً مشائیہ چار عناصر، آگ، پانی، ہوا، اور مٹی کے قائل ہیں، ایک گروہ ایک اور عنصر کا اضافہ کرتا ہے جس کو سنسکرت میں ’’آکاش‘‘ کہاجاتا ہے، ایک اور گروہ اصحاب خلیط کہلاتا ہے، خلیط کے معنی ہیں مرکب، ملا جلا، اصحاب خلیط عناصر کی بساطت کے منکر ہیں، وہ کائنات کی ہر چیز کو مرکب، لاتعداد مختلف اجزاء سے مخلوط وممزوج یعنی ملا جلا مانتے ہیں، عناصر کی تحقیق آج جس منزل پر ہے، اس کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں، کہ یہ ساری نقش آرائیاں خلیط ہی کی موقلم کی گلکاریاں اور ارباب خلیط ہی کے مسلک کی شرح وتفصیل ہیں۔