متشابہ

اصول فقہ کی اصطلاح میں متشابہ وہ لفظ ہے جس کا معنی مرادی اپنے صیغے کی وجہ سے اتنا پوشیدہ ہوکہ نہ قرینۂ خارجیہ سے پوشیدگی دورہوسکے اور نہ متکلم کے بیان کی کوئی امید ہو، اس لیے کہ وحی کا سلسلہ اب رہا نہیں ، جیسےحروف مقطعات ، حروف مقطعات ایسے حروف جن کی تقطیح کرکے الگ الگ پورا حرف پڑھتے ہیں ، جیسے حم، الم، الر، وغیرہ ان الفظ کے معنی مرادی بالکل پوشیدہ ہیں ، نہ قرینۂ خارجیہ نہ متکلم اس کی وضاحت کرسکتے ہیں ۔

اس کی دو قسمیں ہیں : ایک وہ جن کے معنی بالکل معلوم نہ ہوسکتے ہوں ، جیسے حروف مقطعات ، دوسری قسم وہ متشابہ جس کے معنی لغت کی رو سے تو معلوم ہوں مگر اس کے حقیقی اور مرادی معنی نہ جانے جاسکتے ہوں ، جیسے اللہ تعالی کی صفات متشابہات ، اللہ کا ہاتھ ، اللہ کا چہرہ اور اللہ کی پنڈلی وغیرہ ، کیونکہ ان صفات کی ظاہری کیفیت مراد نہیں ہوسکتی اورحقیقی کیفیت کو جاننے کی بھی کوئی سبیل نہیں۔

حکم: اس کا حکم یہ ہے کہ جو بھی مراد ہوااس کو ’’حق ‘ ‘ اور ’’صحیح‘‘ جاننا، اور معاملہ خدا کے حوالے کردینا، یعنی متشابہ کی جو بھی مراد ہے اس کے برحق ہونے پر ایمان رکھا جائے اور توقف کیا جائے ، عقل کا گھوڑا نہ دوڑایا جائے ، یہاں تک کہ خود متکلم کی طرف سے اس کی وضاحت آجائے ، مثلا یہ ایمان رکھا جائے کہ یہ صفات اللہ تعالی کے لیے ثابت ہیں ، رہی یہ بات کہ وہ کیسی ہیں ؟ تو اس کو اللہ تعالی کے حوالے کیا جائے کہ وہی اس کو جانتے ہیں ، ہم نہیں جانتے ۔

error: Content is protected !!