یقین

لغت میں ایسے علم کو یقین کہاجاتا ہے جوشک وشبہ سے خالی ہو، اصطلاح میں یقین ایسی طمانیت قلب ایسے اعتقاد اور ایسے جزم وتیقن سے تعبیر کیاجاتا ہے جو شکوک وشبہات سے بری ہو، واقع کے مطابق ہو، اور ازالہ مزیل اور تشکیک مشکک سے زائل اور مشکوک نہ ہو سکے، یعنی اعتقاد اس درجہ پختہ ہو کہ اس کے زائل کرنے کی یا اس میں شک ڈالنے کی ساری کوششیں بیکار ہوجائیں۔

اس یقین کے بالمقابل جہل مرکب ہوتا ہے اس میں بھی یقین ہی کی طرح اعتقاد، اطمینان اور ایسا جزم ویقین پیداہوجاتا ہے کہ شبہات سے مشتبہ اور زائل کرنے سے زائل نہیں ہوتا،لیکن یہ اعتقاد واطمینان اور جزم ویقین ایسی امر یا خبر سے متعلق ہوتا ہے جوواقع کے مطابق نہیں ہوتی ،بلکہ خلاف واقع ہوتی ہے ،گویا امر واقعی کے اعتقاد کا نام یقین اور امر غیر واقعی کے اعتقاد کا نام جہل مرکب ہے۔

یقین او ر تصدیق ایک ہی ہیں، تصدیق میں روح رواں حکم ہوا کرتاہے ،یعنی وہ اکثر جوشے کے وجود میں آجانے پر مرتب ہوتا ہے، اس حکم کے متعدد مراتب ودرجات ہیں، اگر حکم جازم ، صادق، مطابق اور راسخ ہو تو یقین ہے، غیر راسخ ہو تو تقلید ہے ،جازم اور کاذب اور خلاف واقع ہو تو جہل مرکب ہے۔

یقین کے درجات مابعد واسفل شک ظن اور وہم ہیں، اگر کسی خبر کے دونوں جانب مساوی ہوں تو شک ہے، جانب راجح ظن ہے ،اورجانب مرجوح وہم ہے۔

ارباب سلوک کے نزدیک ’’ایمان کی قوت سے نور حقیقت کے مشاہدے کانام یقین ہے، جبکہ بشریت کے حجابات اٹھ جاتے ہیں اور عقل ونقل کی راہنمائی اور حجت وبرہان کے سہارے کے بغیر صرف وجدان اور ذوق کی شہادت سے اصل حقیقت کا انکشاف اور اس کے دربار تک رسائی ہوجاتی ہے‘‘۔

error: Content is protected !!