احتکار

زیادہ سے زیادہ حصول منفعت کی نیت وغرض سے اشیاء خوردنی اور ضروریات ولوازم زندگی کو رو کے رکھنا ’’احتکار ‘‘کہلاتا ہے۔ اس کو وسعت دے کر یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ دولت کو اس غرض سے جمع کرتے رہنا اور رو کے رکھنا کہ اس سے غلہ اور دیگر اشیاء خوردنی اور لوازم زندگی بڑی مقدار میں ارزاں خرید کر مناسب وقت پر گراں نرخ پر فروخت کی جاسکیں ،یا اس سے صنعتی کارخانوں اور دوسرے وسائل معیشت پر تسلط وقبضہ کر کے زیادہ سے زیادہ نفع کمایا جاسکے۔

احتکار اور اکتناز اگرچہ مفہوم کے لحاظ سے مختلف ہیں لیکن دونوں کا منشاومقصد سرمایہ کاری اور دنیا داری ہے۔ اسلام اجتماعی اور انفرادی دولت کے حصول کا کلیۃً مخالف نہیں۔ وہ جائز ذرائع سے اس کے کمانے پر بندش نہیں لگاتا لیکن وہ ایسے احتکار اور اکتناز اور ایسی سرمایہ داری کا سخت مخالف ہے اور ا س کی بیخ کنی میں سب سے پیش پیش ہے جس میں دولت پر کسی ایک گروہ کا یا ایک شخص کا تسلط وقبضہ ہورہے اور وہ مار گنج (خزانے کا سانپ) بن کر دولت کے انبار پر بیٹھ جائے بلکہ وہ دولت کی واجبی تقسیم اور عام افراد انسانی میں اس کے پھیلاتے رہنے کا قائل ومناد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ایک طرف ربوا(سود ) کو حرام قرار دیا اور دوسری طرف زکوٰۃ کے نظام کو جاری کر کے اس کو اپنے متبعین اورپیرو کاروں کے لیے لازم و ضروری اور فرض قرار دے دیا۔ مزید براں انفاق فی سبیل اللہ کی اور متعدد راہیں کھول کر ان پر چلنے کی ترغیب دی اور صاف صاف فرمادیا:

لن تنالو البر حتی تنفقو ا مما تحبون


تم بھلائی اور خوشحالی کی منزل تک پہنچ نہیں سکتے جب تک کہ اپنی عزیز سے عزیز متاع دنیوی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔

error: Content is protected !!