اشراقیہ – اشراقیین
اشراقیہ کی تشریح سے پہلے بطور تمہید یہ جان لینا چاہیے کہ قدرت کی جانب سے انسان کو ایک’’ قوت نظری‘‘ دی گئی ہے جس کا مقصد اور جس کی غایت یہ ہے کہ وہ حقائق کی معرفت کما حقہ حاصل کر سکے۔
ایک دوسری قوت اور دی گئی ہے جو’’ عملی قوت ‘‘کہلاتی ہے ، جس کا منتہائے کمال یہ ہے کہ تمام امورومسائل کا بوجہ مناسب واحسن سمجھ کر انجام دے سکے۔ ان دونوں قوتوں کے ذریعے انسان تکمیل نفس کرسکتا ہے تاکہ وہ دارین میں سعادت حاصل کر سکے اور فلاح سے بہرہ مند ہوسکے۔ اس حد تک تو دنیا کے تمام انسان خواہش مند و متفق تھے کہ معرفت اور مبدامعاد میں فیروز مندی حاصل کر ناچاہیے۔
حصول معرفت کے لیے انسانی عقل نے دو رستے دکھلائے: ایک نظر واستدلال کی راہ تھی، اور دوسرا ریاضت ومجاہدات کا طریقہ، نظر واستدلال کی راہ پر جولوگ چل پڑے ان میں سے ایک گروہ نے تودین وملت کی شمع کو راہ نمابنا لیا جو متکلمین و حکماء اسلام کہلائے، دوسرے گروہ نے اپنی فہم وفراست کو کافی سمجھ لیا اور بطور خود کسی دین ومذہب کا سہارا لیے بغیر اپنی راہ پر چل پڑے، ان کوحکماء وفلاسفہ ’’مشائین ‘‘کہاجانے لگا۔ جس کے سرخیل ارسطو اور اس کے متبعین ابی نصر فارابی اور شیخ بوعلی سینا بنے۔ پھر جس طبقے نے ریاضت ومجاہدات کا طریقہ اختیا رکیا تھا، ان میں جو شریعت کے مکتبہ فکر سے متعلق وابستہ تھے، وہ ’’صوفیائے متشرعین‘‘ کے لقب سے ملقب ہوئے اور جس جماعت نے شریعت کی رہنمائی ضروری نہ سمجھی اور مجاہدات وتزکیہ باطن کے ذریعے منازل علم و معرفت طے کرنے لگی۔وہ حکماء وفلاسفہ’’ اشرقیین‘‘ کے نام سے پہچانے جانے لگے اس جماعت نے افلا طون کی ذات سے علوم حکمیہ بغیر عبادت واشارت کے حاصل کیے،ایک اور تشریح کے ضمن میں ظاہر کیا گیا ہے کہ مشائین بھی اشراقیہ ہی کی شاخ کے برگ وبار ہیں۔