اشراقیہ – اشراقیین

فلسفہ یونان کا ایک مکتب فکر ہے ، ان کا سربراہ افلاطون ہے، ان کا مقصد عقلا تزکیہ نفس اور روحانی ارتقا، ان کی تعلیم اشراق ومراقبہ ، کسی دین الہی کے تابع نہیں ، اس مکتب فکر کا طرز یہ ہے کہ وہ لوگ عقلی مسائل حل کرنے میں بھی باطن کی صفائی اوراشراق نوری پر اعتماد کرتے ہیں ،اوراسی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ان کا نام ’’اشراقیہ‘‘ تجویز ہوا، مسلمان فلاسفہ میں سے شیخ مقتول شہاب الدین سہروردی نے اسی مکتب فکر کی پیروی کی ہے ، اشراقی فلاسفہ افلاطون کے پیرو بتائے جاتے ہیں۔

اشراقیین اور مشائین میں فرق

اشراقی ومشائی منہاج میں بنیادی وجوہری فرق یہ ہے کہ اشراقی روش کی نظر میں فلسفی مسائل خاص کر ’’حکمت الہی ‘‘ کے سلسلہ میں صرف عقلی استدلال وتفکرات ہی کافی نہیں ، بلکہ کشف حقائق کے لیے نفس کا تزکیہ ومجاہدہ اورسلوک قلبی بھی ضروری ہے ، اس کے برخلاف مشائی منہج میں صرف استدلال پر بھروسہ کیا جاتا ہے ،لفظ اشراق جو کہ تابش نور کے معنی میں ہے اشراقی تعارف کے لیے مفید اور بامعنی ہے ۔

مشائی روش کے بہ نسبت اس کے پیرو کم ہیں ، اس روش کو نئی زندگی عطا کرنے والے شیخ اشراق ہیں ، قطب الدین شیراز ، شہرزوری اور کچھ دوسرے فلاسفہ بھی اشراقی روش اپنائے ہوئے ہیں ،خود شیخ اشراق اس مکتب کے روح رواں اورمظہر سمجھتے جاتے ہیں ۔

اس روش میں دوچیزوں کا سہارا لیا جاتا ہے ، ایک عقلی استدلال وبرہان اور دوسرے مجاہدہ وتزکیہ نفس، اس روش کے مطابق صرف عقلی استدلال وبرہان کے ذریعہ حقائق عالم کشف نہیں کیے جاسکتے ۔

اشراقیین اور صوفیا ء فلاسفہ میں فرق

اشراقیین کی فلسفیانہ اور صوفیاء کی سلوکانہ روش میں ایک نقطہ اشتراک ہے ، اور دو نقطہ اختلاف ، وجہ اشتراک یہ ہے کہ یہ دونوں روشیں اصلاح وتہذیب اور تزکیہ نفس پر زور دیتی ہیں ۔

وجہ امتیاز یہ ہے کہ:
۱-صوفی عارف استدلال کو سرے سے رد کرتا ہے ،جبکہ اشراقی فلسفی اسے تسلیم کرتے ہوئے فکر اور تزکیہ نفس کو ایک دوسرے کا معین ومددگار قرار دیتا ہے ۔
۲-تمام فلسفیوں کی طرح اشراقی فلسفہ کا مقصد بھی کشف حقیقت ہے ،لیکن صوفی عارف کا مقصد حقیقت تک پہنچنا ہے ۔

error: Content is protected !!