اقتضاء النص

شرع کی اس جانب دلالت ورہنمائی کہ کلام اس وقت تک درست اور صحیح نہ بن سکے گا۔ جب تک کہ اس میں مناسب اضافہ نہ کیا جائے ،یا غیر منطوق کو منطوق قرار دے دینا تاکہ منطوق صحیح ودرست ہوجائے۔


اقتضا کے معنی ہیں چاہنا ، اسم فاعل مقتضی (ض پر زیر کے ساتھ) ہے چاہنے والا یعنی نص ، اور اسم مفعول مقتضی (ض پر زبر کے ساتھ) چاہا ہوا ، یعنی بڑھائی ہوئی بات ، سو اقتضاء النص نص میں ایسی زیادتی کا نام ہے جس کے بغیر کلام درست نہ ہو ، اور نہ نص پر عمل ممکن ہو ، جیسے کوئی بیوی سے کہے انت طالق یعنی تو طلاق والی ہے ، تو یہ بات طلاق کے ثبوت کو چاہتی ہے ، اور حدیث میں ہے کہ رفع عن امتی الخطا والنسیان ، میری امت سے بھول چوک اٹھادی گئی ، حالانکہ امت سے بھول چوک ہوتی ہے پس حدیث میں ’’حکم‘‘ بڑھانا ضروری ہے، یعنی بھول چوک کا گناہ اٹھادیا گیا ہے ، اور تحریر رقبۃ میں مملوکۃ کی قید بڑھانی ضروری ہے ، کبھی نص کےاقتضا سے دوسری نص مقدر ماننی پڑتی ہے۔

مقتضی (اسم مفعول) چونکہ ضرورتا ثابت ہوتا ہے ، اس لیے اس کو بقدر ضرورت مقدر مانا جائے گا ،چنانچہ انت طالق میں تین طلاقوں کی نیت درست نہیں ، طالق صیغہ صفت یعنی اسم فاعل ہے ، اور اسم مشتق اپنے مشتق منہ یعنی مصدر پر دلالت کرتا ہے ، جس طرح فعل اپنے مصدر پر دلالت کرتا ہے ، پس طالق کے تقاضے سے مصدر طلاق مقدر مانا جائے گا ، گویا قائل نے کہا انت طالق طلاقا ، پس تین طلاقوں کی نیت صحیح نہیں ،کیونکہ ضرورت ایک طلاق سے پوری ہوجاتی ہے ، یعنی طلاق کی اتنی مقدار مراد لینا کافی ہے جس سے انت طالق کا تکلم صحیح ہو ، اور کلام کی صحت کے لیے ایک طلاق کافی ہے ۔

error: Content is protected !!