بدعت
خالص دینی امورمیں ایسی شے یا کسی ایسے امرکا التزام واضافہ جو نئی ہو، مخالف سنت ہو،وہ نہ تو صحابہ کرام وتابعین کے دور میں زیر عمل تھی نہ اس پر کوئی شرعی دلیل قائم ہوسکتی ہو، یعنی دین میں اپنی طرف سے کوئی نئی چیز شامل کر دینا۔
باقی قمیص، پاجامہ، شلوار، شیروانی، فرش کی بجائے میز کرسی پر بیٹھ کر کھانا، مٹی کے برتنوں کی جگہ قسم قسم کے اعلیٰ ظروف یہ سب چیزیں حدود جواز میں آجاتی ہیں، ہرنئی چیز کو دیکھ کرجو قرون اولیٰ اور صحابہ کرامؓ کے دور میں نہ تھے بدعت مذمومہ قرار دے دینا اور اس پر ناک بھوں چڑھانا تنگ نظر ی ہے، حالانکہ اس کی قباحت اور عدم جواز پر ان کے پاس بجز اس کے کوئی دلیل نہیں کہ نئی نئی باتوں سے بچنے کے لیے ہم کو حکم دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ نئی باتوں سے احتراز کا مقصد صرف امور دینیہ میں جدت طرازیوں سے روکنا تھا اور بس۔
رہے دنیاداری کے امور ومعاملات اور متمدن زندگی کے دواعی ومحرکات سوان میں جدت طرازیوں کو اور ایجادات واختراعات کو بروے کار لانا جائز بلکہ مستحسن بلکہ بعض حالات میں ناگزیر ہوجاتاہے۔