برہان وصل و فصل
اثبات ہیولیٰ کی دلیل ہے جو چار مقدمات پر موقوف ہے:
۱-پہلا مقدمہ یہ ہے کہ جسم بذاتہ اور فی حد ذاتہ متصل ہے۔
۲-دوسرا یہ کہ ہر متصل جسم قابل انفصال ہے ،یعنی ہر متصل جسم کے دو ٹکڑے کیے جاسکتے ہیں۔
۳- تیسرا یہ کہ جسم متصل جب ایک سے دو ہوجائے تو ظاہر ہے کہ یہ دوٹکڑے اس جسم متصل کے ہوتے ہیں۔ پروہ عدم سے برآمد نہیں ہوجاتے ۔
۴-چوتھے یہ کہ قابل کا وجود مقبول کے آجانے کے بعد باقی رہتا ہے ،یعنی کسی موصوف میں کسی صفت کے پیدا ہوجانے سے یہ نہیں ہوسکتا کہ موصوف کا وجود ہی ختم ہوجائے ارشد میں علم کی صفت اور وصف پیدا ہوجانے کے معنی یہ کب ہیں کہ ا س کا وجود ہی باقی نہ رہے۔
آخر الذکر تین مقدمات واضح اور بدیہی ہیں اور رات دن مشاہدے میں آتے رہتے ہیں، پہلا مقدمہ نظری اور محتاج دلیل تھا جس کو فلاسفہ نے ابطال جزولا تتجزیٰ کی دلیل کے ضمن میں اس کے مقام پر ثابت کر دیا ،ان چاروں مقدمات کے پایہ ثبوت کو پہنچ جانے کے بعد ہیولیٰ کا اثبات خو د بخود ہوجاتا ہے۔
مثلاً ہم نے ایک مفرد جسم لیا جو پہلے نظری مقدمہ کی بناء پر متصل بذاتہ ہے اور اپنے مقام پر ثابت ہوچکا ہے۔ دوسرے مقدمے کی بناء پر کہ متصل جسم قابل انفصال ہے ہم نے اس متصل جسم کے دو ٹکڑے کر دیے اور تیسرے مقدمے کی بناء پر یہ حکم بھی لگا دیا کہ یہ دوٹکڑے اسی جسم متصل کے ہیں وہ عدم سے نئے ظاہر نہیں ہوگئے ،اب چوتھے مقدمے کی رو سے ہم پوچھتے ہیں کہ جسم متصل کے اس انفصال کا قابل کون ہے ظاہر ہے کہ قابل ایسا ہونا چاہیے جو بصورت اتصال وانفصال ہر حالت میں باقی رہنے والا ہو اور بذات خود نہ متصل ہونا چاہیے نہ منفصل بلکہ وحدت اتصال کی صورت میں اس کو متصل رہنا چاہیے اور کثرت انفصالی کے وقت اس کو منفصل ہوجانا چاہیے ،یہ شان اور خصوصیت جسم کے متعلقات اور اجزاء داخلی میں سے سوائے ہیولیٰ کے اور کسی میں نہیںپائی جاتی ،کیونکہ ہیولیٰ خود بذاتہ نہ متصل ہے نہ منفصل نہ واحد ہے نہ کثیر بصورت اتصال متصل رہتا ہے اور بصورت انفصال منفصل ہوجاتا ہے، وحدت اتصالی کی صورت میں متصل رہتاہے اور کثرت انفصالی کے وقت منفصل ہوجاتا ہے ،لہذا اس دلیل وصل وفصل سے ہیولیٰ پایہ ثبوت کو پہنچ گیا۔