بعد
بُعد دوری کے معنی میں آتا ہے۔ صوفیہ صفات و خواہشات بشریت میں مقید ہوجانے اور لذت نفسانی میں گرفتار ہوجانے کو بُعد سے تعبیر کرتے ہیں کہ مقتضیات بشری اور لذات نفسانی انسان کو مبدء حقیقی سے دور کر دیتے ہیں ،اور اس کی انتہا وہاں ہوتی ہے جہاں ارتکاب معاصی کا ادراک وشعور بھی باطل ہوجاتاہے۔
اور بُعد اس پھیلاؤ کا نام بھی ہے جو جسم میں قائم ہے، متکلمین اسکو موہوم اور لاشے قراردیتے ہیں کہ وہ مقدار کے منکر ہیں۔ فلاسفہ اس کو موجود مانتے ہیں کیونکہ وہ وجود مقدار کے قائل ہیں وہ فلاسفہ جو وجود خلاء کے قائل ہیں بُعد کی دو قسمیں کرتے ہیں :(۱) ایک تو وہ امتداد (پھیلاؤ) جو جسم تعلیمی میں قائم ہے (۲)دوسرا وہ پھیلاؤ (امتداد) جو مادے سے مجردہے اور خود بخود قائم ہے اس طرح کہ اگر اس کو جسم بھر نہ دے تو خلاہی خلارہ جائے۔
لہذا بُعد وہ ہوا کہ جس میں جسم بھر گیا۔ بلاشبہ خلاء کا اطلاق بیشتراس مکان پر ہوا کرتاہے جو بھرتی سے خالی ہو ،لیکن کبھی کبھی اس معنی پر بھی اس کا اطلاق ہوجایا کرتا ہے ،لہذاوہ مقدار کے قائل ہیں اس واسطے کہ اس میں قیام متصور ہے ،جو فلاسفہ کے خلاء کے منکر ہیں ان کے نزدیک بُعد صرف پہلی ہی قسم میں منحصر ہے ،یعنی جو امتداد کہ جس میں قائم ہے۔
کبھی بُعدکا اطلاق اس سب سے چھوٹے خط پر کر دیا جاتا ہے جو دوچیزوں کو ملادینے والا ہوتا ہے۔