بلاغت – بلیغ
وہ کلام جو فصیح ہو یعنی ثقیل ونامانوس کلمات کریہہ الصوت اور خلاف قیاس الفاظ وتنا فرکلمات سے یکسر پاک وصاف ہو۔ صراحت ووضاحت کے ساتھ مفہوم ادا کر رہا ہو لفظی و معنوی اعتبار سے ماسبق سے مربوط ہو۔ اور مترادف المعانی الفاظ میں سے معتدل اور موزوں ترین الفاظ ادائے مفہوم کے لیے منتخب کیے گئے ہوں اور ان تمام ملحوظات کے ساتھ کلام مقتضائے حال کے مطابق اورموقع محل کے مناسب ہو۔
مقتضائے حال کی مطابقت اور موقع کی مناسبت، بلاغت کی اصل روح ہے آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ کبھی طویل گفتگو موجب وحشت ہوجاتی ہے اور کسی موقع پر گفتگو کا اختصار بد مذاقی اور بد اخلاقی سمجھی جاتی ہے، مثلاً آپ کو اگر کسی معزز ومحبوب قائد یا کسی دل آویز ودل چسپ شخصیت سے گفتگو کے لمحات میسر آجائیں تو وہاں بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ بات چیت کو زیادہ سے زیادہ طول دیا جائے، تاکہ دیر تک معیت اور لطف تکلم حاصل رہے، اور یہ پر لذت وقیمتی لمحات جلد ہاتھ سے نہ جاتے رہیں، اور اگر کسی کریہہ المنظر رقیب روسیاہ جیسے بے ہنگم سے گفت وشنید میں ناگزیر طور پر انسان پھنس جائے تو یہ موقع اس امر کا مقتضی ہے اور یہاں بلاغت یہ ہے کہ کم سے کم بات اور مختصر جواب دے کر اس صحبت ناجنس کے عذاب الیم سے پیچھا چھڑالیا جائے۔
دیکھیے بڑی آرزؤں اور ’’ارنی‘‘ اور ’’لن ترانی‘‘ کے مراحل رازونیاز سے گذرنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بارگاہ قدس میں باریابی اور شرف تکلم سے نوازا جاتا ہے، حضرت موسیٰ مع عصائے موسوی باریاب ہیں حق تعالیٰ کی جانب سے سوال ہوتا ہے، ’’ما تلک بیمینک یاموسیٰ‘‘ موسیٰ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے ؟ عام حالات میں اس کا جواب صرف ایک لفظ ’’عصا‘‘ یعنی ’’عصا ہے‘‘ کہہ کر دیا جاسکتا تھا۔ اگر یہ سوال فرعون کرتا تو صرف مختصر لفظ ’’عصا‘‘ کہہ دینا ہی بلیغ جواب ہوسکتا تھا، لیکن اس حریم وصل جاناں میں اس قدر مختصر جواب، بلیغ تو کجا بد ذوقی وبد مذاقی کا مظہرو نمونہ بن جاتا۔ ملاحظہ فرمایئے مقتضائے حال اور موقع کی مناسبت کے لحاظ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اس مختصر سوال کا جواب کس قدر طویل دے رہے ہیں، جس میں بلاغت کی روح سمائی ہوئی ہے اور پھر آخری فقرہ جواب میں، مزید سوال کی گنجائش رکھ دیتے ہیں تاکہ پھر سوال ہو اور سلسلہ سوال وجواب تادیر جاری رہے فرماتے ہیں:
قال ھی عصای اتوکؤا علیھا واھش بھا علیٰ غنمی ولی فیھا ماارب اخری (طہ۔ آیت ۱۸)۔
یہ میرا عصا ہے میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس کے ذریعہ بکریوں کے لیے چارہ فراہم کرتا ہوں اس کے علاوہ بھی دوسرے بہت سے کام لیتا رہتا ہوں۔ قرآن مجید تمام وکمال فصاحت وبلاغت کے اسی اعلیٰ معیار پر نازل ہوا ہے اور اس کا کوئی لفظ اور کوئی جملہ لفظی ومعنوی محاسن سے خالی نہیں ہے۔