تسلیم
احکام قضاء وقدر کا استقبال وخیرمقدم، اور مقدرات الٰہی کے سامنے اقتضا و عدم اقتضا طبعی سے قطع نظر سر جھکا دینا اور ان احکام کو برضا ورغبت قبول کرلینا، یہ مقام، مقام توکل و رضا سے ارفع ہے ، کیونکہ توکل میں سالک اپنے معاملات کو خدا کے حوالے کر دیتا ہے ، تاہم ان معاملات کے کسی پہلو کے ساتھ اس کو تعلق خاطر رہتاہے، رضا اگرچہ توکل سے بلند ہے اور اس میں انسان اگرچہ خدائی فیصلے پر راضی ہوجاتاہے ، تاہم اس میں ا قتضاء طبعی باقی رہتا ہے، مقام تسلیم ایک ایسا مقام ہے جہاں طبیعت ہی باقی نہیں رہتی کہ اس کے اقتضاء وعدم اقتضاء کا سوال پیدا ہوسکے ،یہاں تونخل آرزو کی جڑ ہی کٹ کر رہ جاتی ہے۔