تشخص
بعینہ تعین ہے جس کی وجہ سے شئے غیر سے ممتاز رہتی ہے اور وجہ امتیاز دوسری شئے میں نہیں پائی جاتی، اور غیر اس میں شریک نہیں ہوسکتا تشخص جزئی ہے اور ماہیئت کلی نہ ہونے کی صورت میں تو بذات خودمتعین ہوجاتاہے، اگر اس کی ماہیئت کلیہ ہوتو اپنے ان تشخصات کی بناء پر متعین ہورہتاہے جو طبیعہ کلیہ پر زائد ہوتے ہیں اور کبھی طبیعہ کلیہ کے ضمن میں متعین ہوجاتا ہے۔
اس منزل پر ہمیں ’’تشخص‘‘ اور ’’وجود ‘‘کے تعلق ونسبت اور ان کے مابین رشتے کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے اور اس باب میں مختلف آراء پیش کر دینی چاہئیں، فارابی کی رائے ہے کہ ’’تشخص‘‘ اور’’ وجود‘‘ ایک ہیں، بعض فلاسفہ ’’وجود‘‘ کو تشخص سے اس بناء پر متقدم مانتے ہیں کہ وجود اصل ہے اور ذات ہے ،اور تشخص اس کا ثبوت اور اس کی صفت ہے۔
سید السند شریف جرجانی کاقول فیصل یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے متغائر ہیں، کسی ایک کو دوسرے پر تقدم حاصل نہیں ہے، ان کی یہ رائے اس بیان مرصوص پر قائم ہوئی ہے کہ تشخص پر وجود کے تقدم کی صورت میں مبہم کے لیے وجود خارجی ضروری ہو رہے گا جو ناممکن ہے، اور اگر معاملہ برعکس ہویعنی وجود پر تشخص کو مقدم مانا جائے تو معدوم وجود خارجی سے قبل تشخص ہوجائے گا کہ جس کا امکان نہیں، سید السند کی یہ رائے وجود وتشخص کے مراتب پر مبنی ہے زمانی تقدم وتاخر کواس میں دخل نہیں ہے۔