تصور بالمعنی الثانی

اشترک لفظی کی بناء پر’’ تصور‘‘ کا اطلاق دو امور پر ہوتا ہے: ۱-ایک مطلقاً حضور ذہنی ۲-دوسرا حضور ذہنی بغیر اذعان کے۔

پہلے معنی کے لحاظ سے ’’تصور‘‘ علم کا مرادف (ہم معنی) ہے ،اور اس ترادف کے لحاظ سے خود تصدیق وتصور کا یعنی اپنے آپ کا بھی قسیم ہے ،اور تصور وتصدیق خود تصور بمعنی علم کی دو قسمیں ہیں اس لیے کہ وہ دونوں جب علم کی قسمیں ہوئیں تو علم کے مرادف یعنی خود تصور کی آپ سے آپ قسمیں بن گئیں ،اس مرادف علم تصور کو ’’تصور مطلق ‘‘اور’’تصور لابشرط شیئ‘‘ بھی کہاجاتا ہے ۔

دوسرا جو تصور ذہنی بلا اذعان ہوتاہے وہ علم کی قسم ہے، اور تصور بالمعنی الاول کی بھی قسم ہے اور تصدیق کا قسیم یعنی ساتھی ہے ،اس تصور بالمعنی الثانی کو’’تصور ساذج ‘‘اور ’’تصور فقط ‘‘اور ’’تصور بشرط لا شئی ‘‘بھی کہاجاتاہے۔

error: Content is protected !!