حرارت غریزی

بدن کی اصلی حرارت کہلاتی ہے۔ اس حرارت اور رطوبت غریزی کا باہم گہرا تعلق ہے، رطوبت غریزی کو اس حرارت کے لیے محل اور مادہ سمجھنا چاہیے ،کیونکہ حرارت اس رطوبت پر طاری وساری رہتی ہے، اس کو مثال میں یوں سمجھنا چاہیے کہ چراغ میں جو تیل ہوتاہے وہ رطوبت غریزی ہے اور اس کا شعلہ حرارت غریزی ،جس طرح تیل کے ختم ہونے سے شعلہ بجھ جاتاہے، اسی طرح رطوبت غریزی کے ختم ہونے پر حرارت غریزی بھی فنا ہوجاتی ہے، اور جس طرح شعلہ خود اپنے مادہ حیات یعنی تیل کو فنا کر کے بجھ جاتاہے، اسی طرح حرارت غریزی بھی رطوبت غریزی کوتحلیل کرتی ہوئی فنا ہوجاتی ہے، اس فعل وانفعال کسرو انکسار کا لازمی نتیجہ ہر جان دار کو موت اور فنا کے گھاٹ اتاردیا کرتا ہے جس سے مفر کی کوئی صورت نہیں، گویا ہر جاندارکی تعمیر میں سامان تخریب مضمر ہے، اور دہقان کا خون گرم ہی خرمن کے لیے برق بن جایا کرتا ہے۔

بالفاظ دیگر حرارت غریزی، آتشی عنصری حرارت ہے جو اجزاء بدن کے کسروانکسار کے بعد اس میں جو مزاج قائم ہوتاہے اس سے حاصل ہوتی ہے اور مدت حیات تک بدن میں رہتی ہے، جس سے بدن کا قوام ہوتا رہتا ہے اور بصورت اعتدال وہ بدن کی اصلاح کرتی رہتی ہے۔

error: Content is protected !!