حقیقت

اس کے محل استعمال مختلف ہیں، ہر محل میں یہ لفظ ایک خاص معنی کا حامل ہے ،اگر اس کو ان اعتبارات کے مقابلے میں استعمال کیا جائے جو ذات کولاحق ہوا کرتے ہیں تو اس سے مراد ’’ذات ‘‘ہوتی ہے، اور وہم وفرض کے مقابلے میں استعمال ہو تو ’’نفس الا مر ‘‘مراد ہوتاہے ،کبھی مفہوم اور حکم اور مجاز کے بالمقابل لایا جاتا ہے تو ’’حقیقت ‘‘ہی کے معنی دیتا ہے، اس بناء پر حقیقت وہ کلمہ ہوا جو اسی معنی میں مستعمل ہوتا ہے جس کے لیے وضع کیا گیا ہو اور جس اصطلاح میں بھی اس سے تخاطب کیا گیا ہو۔

ثابت کے معنی بھی دیتا ہے جب کہ لازم کے حق میں لیا گیا ہو، فلاسفہ کے نزدیک حقیقت اس ثابت سے عبارت ہے جو وجود اصلی کے ساتھ خارج میں موجود ہے ،وہ کہا کرتے ہیں کہ حقیقت وہ امر ثابت ہے جو موجود تک پہنچ جانے والی ہے ،اسی وجہ سے اس کو اصطلاح میں محقق شئے کی کنہ کے ساتھ مخصوص کر دیا گیا۔

بہر حال شئے کی حقیقت وہ ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے شئے، شئے ہوجائے اور جس کا بغیر حقیقت کے تصور ہی نہ کیا جاسکے، ظاہر ہے کہ شئے جس کی وجہ سے شئے کا روپ دھارتی ہے وہ اپنے تحقق کے اعتبار سے حقیقت ہوتی ہے اور اپنے تشخص کے اعتبار سے ’’ہویت‘‘ ہوتی ہے ،اور اس سے قطع نظر کر لی جائے تو ’’ماہیت ‘‘ہوتی ہے، بہر حال حقیقت وہ شئے ہوا کرتی ہے جو قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوچکی ہو۔

error: Content is protected !!