حکماء متکلمین
حکمائے متکلمین جو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں موجودات واقعی کے متعلق تحریر وتقریر اور استدلال کے ذریعہ اسلامی عقائد ونظریات سے بحث کرتے ہیں،ان کا مقصد اسلامی عقائد کی عقلا ونقلا تحقیق ، ان کی تعلیم بذریعہ تحریر وتقریر ، اور یہ دین الہی کے تابع ہیں ،یہ وہ علماء اسلام ہیں جو علم کلام میں بلند پایہ اور مہارت تامہ رکھتے ہیں، یہ علوم دینی میں مہارت تامہ رکھنے کے ساتھ ہی ساتھ یونانی فلسفے کا مطالعہ کر چکے تھے ،جب اس نے فلسفے کے بہت سے اصولوں کو اور مسائل کو اسلام کے اساسی اصولوں سے متصادم پایا تو اس نے فلسفے ہی کے اصولوں کے ذریعے متصادم اصولوں کو توڑ کر رکھ دیا اور یہیں سے علم کلام کی بنیاد پڑ گئی، علم کلام کے ان ہی مدونین کو متکلمین کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ جیسے امام غزالی اورامام رازی رحمہما للہ ، نظری مسائل میں ان کا بحث کا انداز وہی ہے جو حکمائے مشائیہ کا ہے ، یعنی یہ حضرات بھی غور وفکر اوراستدلال وبراہین پر اعتماد کرتے ہیں۔
علم فلسفہ میں متکلمین سے مراد عام ہے ، خواہ وہ اہل حق ہوں یعنی اشاعرہ و ماتریدیہ ،یا گمراہ فرقوں سے ان کا تعلق ہو جیسے معتزلہ ، خوارج ، شیعہ وغیرہ ۔
متکلمین اور مشائین فلسفیوں میں فرق
مشائی فلسفیوں کی طرح متکلمین بھی عقلی استدلالات پر تکیہ کرتے ہیں لیکن دو فرق کے ساتھ :
۱-ایک یہ کہ وہ عقلی اصول ومقدمات جہاں سے متکلمین اپنی بحثوں کا آغاز کرتے ہیں ان عقلی اصول ومقدمات سے مختلف ہیں جہاں سے مشائی فلاسفہ اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں ،متکلمین خاص طور سے معتزلہ جس اہم ترین ورائج اصول کو کام میں لاتے ہیں وہ ’’حسن وقبح ‘‘ ہے ، فرق یہ ہے کہ معتزلہ حسن وقبح کو عقلی سمجھتے ہیں ، لیکن اشاعرہ اسے شرعی مانتے ہیں ، جبکہ دیگر فلاسفہ حسن وقبح کو اعتبار وبشری قانون سمجھتے ہیں ۔
۲-دوسرا فرق یہ ہے کہ متکلمین دیگر فلسفیوں کے برخلاف اپنے آپ کو دین وشریعت کا پابند اوراسلام کے دفاع کا ذمہ دار سمجھتا ہے ،جبکہ فلسفیانہ بحثیں ، آزاد بحثیں ہوتی ہیں ، یعنی فلسفی کی تحقیق کا مقصد پہلے سے معین نہیں ہوتا کہ اسے فلاں نظریہ کی حمایت کرنا ہے ، لیکن متکلم کا مقصد پہلے سے معین ہوتا ہے ۔
مشائین نے فلسفہ و حکمت کی تدوین واشاعت میں قابل قدر خدمات انجام دی ،عروج اسلام کے زمانہ میں جب فلسفہ ترجمہ کرکے عربی میں منتقل کیا گیا تو لوگوں نے اس میں چند چیزیں جاذب نظر پائیں ،مثلا طرز بیان کی ندرت ، طریقہ استدلال ، توحید کا عقلی دلائل سے اثبات اور ذات وصفات پر عقلی موشگافیاں ،چنانچہ لوگ فلسفہ یونان کے پڑھنے پڑھانے کی طرف مائل ہوگئے ، مگراس سے جو سب سے بڑا نقصان پہنچا وہ یہ تھا کہ انہوں نے فلسفہ یونان کو شرعی نصوص (قرآن وسنت) سے بھی زیادہ وقعت دے دی ، اور جو نصوص فلسفہ کے مخالف نظر آئیں ، یا تو ان کو نظر انداز کردیا ، یا ان کی تاویلیں کرنے لگے ، اس طرح گمراہ فرقوں کا ظہور شروع ہوا اور دن بدن یہ سلسلہ بڑھتا رہا۔
جب متکلمین اسلام کو اس کا احساس ہوا تو ایک تو طرف تو انہوں نے مشائین کے ان اصولوں اور نظریات کی تردید شروع کی جو اسلامی عقائد کو ضرر پہنچانے والے تھے اور دوسری طرف صحیح اسلامی عقائد کو مدون کیا کہ جس سے مشائیہ کے نظریات کی تردید بھی ہوجائے ،چنانچہ اس دور میں علم کلام کی کتابیں علم مناظرہ کی کتابیں بن گئیں ، ایک طرف متکلمین اسلام صف آراء ہیں اوردوسرے جانب حکمائے مشائین اور مسلم گمراہ فرقے جو عقلی ہتھیاروں سے اسلامی عقائد پر حملوں کی تدبیریں نکالنے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔
یہ تھے وہ واقعات واسباب جن کی وجہ سے حکماء مشائیہ اور متکلمین دو متحارب فریق بن گئے ، اور ان کے بعد آنے والے حکماء میں سے بھی جن کا نظریہ مشائیہ کے موافق ہو وہ مشائیہ سے مل کر ، اور جس کا نظریہ متکلمین کے موافق ہوا وہ متکلمین سے مل کر اس محاربہ میں شریک ہوتا گیا، اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔