حکمت (مطلقہ)
(حکمت مطلقہ) ایسا علم جس کے ذریعے درمیانی صلاحیت کے انسان پر اس کی بشری طاقت کے بقدر موجودات خارجی وذہنی کے واقعی حالات کا اتنی تعداد میں اس حد تک انکشاف ہوجائے کہ ان کی غایت مرتب اور محسوس ہوسکے۔
یا وہ علم جس کے ساتھ عمل ہو ۔
یا وہ علم جس کے ذریعے انسانی طاقت کے بقدر وہ حق واضح ہوجائے جو واقعہ میں اور نفس الا مر میں حق ہے ۔
یا وہ کلام جو حق کے موافق و مطابق ہو۔
یا ایسا معقول کلام جو حشووزوائد سے خالی ہو۔
یا متاع گم گشتہ ۔
یا جس کی وجہ سے حرام وحلال میں تمیز ہوسکے ۔
حکمت ایجاد اورعلم کے معنی میں بھی آتا ہے،حضرت ابن عباسؓ قرآنی حکمت سے حرام وحلال کی تعلیم مراد لیا کرتے تھے، حکمت نظری اور حکمت عملی اسی حکمت مطلقہ کی قسمیں ہیں۔
شیخ الرئیس نے حکمت اور اس کی تینوں اقسام: الٰہی، ریاضی، طبعی کو چوالیس (۴۴) اصول و فروع پر تقسیم کیا ہے اور منطق کو ’’حکمت طبعی‘‘ میں شامل رکھا ہے۔