دلالت
منطق کی اصطلاح میں کسی شے کا ایسی حالت میں ہونا کہ ایک شے کے علم سے دوسری شے کا علم لازماً ہوجائے، پہلی شے ’’دال ‘‘کہلائے گی اور دوسری شے ’’مدلول‘‘،یعنی دو چیزوں کے درمیان ایسا جوڑ کہ ایک چیز کے جاننے سے دوسری چیز کو جان لیا جائے، جیسے دھواں دیکھ کر آگ کو جان لیا جاتا ہے، پہلی چیز کو دال اور دوسری چیز کو مدلول کہتے ہیں۔
دلالت کی دو قسمیں ہیں: دلالت لفظیہ اور دلالت غیر لفظیہ۔
علماء اصول فقہ کی اصطلاح میں معنی پر دلالت، لفظ کی کیفیت ،عبارۃ النص، اشارۃ النص اور اقتضاء النص میں محصور ہے جس کو اس طرح منضبط کیا جاسکتا ہے کہ نظم کلام سے جو کچھ بھی ثابت ہورہا ہو وہ بذات خود نظم کلام ہی سے ثابت ہے یا ثابت نہیں ہے ؟ثابت ہونے کی صورت میں اگر نظم کلام اسی مقصد کے لئے جاری کیا گیا تھا تب تو ’’عبارۃ النص‘‘ ہے ،اور اگر اس مقصد کے لئے اجراء کلام نہیں ہواتھا تو ’’اشارۃ النص ‘‘ہے ۔
اب دوسری شق پر آیئے کہ لفظ سے جو حکم سمجھا جارہا ہے اگر وہ لغت کے اعتبار سے مفہوم ہورہا ہے تب تو ’’دلالت النص ‘‘ہے ،اور اگر شرع کے اعتبار سے سمجھا جارہا ہے تو’’ اقتضاء النص‘‘ ہے۔
دلالت النص میں یہ بات ملحوظ رہتی ہے کہ معنی لغت کے اعتبار سے سمجھا جائے ،کسی اجتہاد کو اس کے مفہوم میں دخل نہ ہو،لغت کے اعتبار سے معنی سمجھنے کی یہ صور ت ہے کہ اس زبان کا کوئی کوئی ماہر لفظ سنتے ہی بلا تامل اس کے معنی سمجھ جائے ،مثلاً قرآن مجید میں وارد ہوا ہے کہ اپنے والدین کو ’’اف ‘‘نہ کہو، اس سے ایک ماہر لسان خود سمجھ سکے گا اور اس نتیجے پر پہنچے گا کہ والدین کے باب میں ’’اف‘‘ سے بڑھ کر مثلاً زجر توبیخ وغیرہ قسم کی گستاخی بدرجہ اولے ممنوع قرار دے دی گئی ہے۔
